میاں محمد جمیل

عبادت کے دینی تصور کے فہم اور انسانی زندگی پر اس کے گہرے اثرات کو سمجھنے کے لیے حج کی حقیقت اور اس کے پیغام پرغور و فکر ضروری ہے۔ کسی مسلمان کو بار بار حج اور عمرہ کی سعادت حاصل ہونا اس کی خوش بختی اور خوش نصیبی ہے۔ لیکن صرف ایک بار ہرصاحب استطاعت پر فرض کرنے میں غور کا یہ پہلو ہے کہ زندگی میں ایک بار بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ اس تجربے سے گزرنے سے عبودیت کے تمام ہی پہلوؤں سے ایک مسلمان ہم آغوش ہو سکتا ہے۔ اس کی زندگی میں وہ تبدیلی رُونما ہوتی ہے جو اسے ساری زندگی راہِ حق پر قائم رکھ سکتی ہے۔

حج عبادت کے جملہ آداب، اور اسلام کی عالم گیر اور ابدی و ازلی دعوت کے نمایاں ترین پہلوؤں کا ترجمان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے رُخ کو عبدیت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے یہ عمل اگر شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ایک بار بھی ادا ہو جائے، تو یہ اتنا محرّک اور جان دار ہے کہ پھر ساری زندگی اس ڈگر پر بسر ہو سکتی ہے۔

حج کے لغوی معنی ’بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ‘ کرنے کے ہیں۔ حج کو اس لیے ’حج‘کہا گیا ہے کہ اس میں مسلمان مقررہ ایام میں بیت اللہ کی زیارت اور حج کے مناسک ادا کرتا ہے۔ حج ہربالغ اور صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بارفرض کیا گیا ہے۔ جو شخص حج کی طاقت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا، وہ ایک عظیم ترین سعادت ہی سے محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ایمان ہی محلّ نظر ٹھہرتا ہے:

وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًاوَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ(آل عمرٰن:97)

’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اورجو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے پرواہ ہے‘‘۔

اس فرمان میں استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبی کریم e نے بھی یہی ارشاد فرمایا:

عَنْ عَلِيٍّ t قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ e مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا(رواہ الترمذی: باب ما جاء فی التغلیظ فی ترک الحج)

سیدناعلی t بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکے اور پھر بھی حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر فوت ہونا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنے کے مترادف ہے‘‘۔

حج کا یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ یہ صرف بیت اللہ کی زیارت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ نبی ابوالانبیا سیدناابراہیم علیہ السلام اور ان کے عظیم بیٹے سیدنااسماعیل علیہ السلام اور انکی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی قربانی اور صبر وشکر کی یادیں وابستہ ہیں۔

حج کے مناسک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر اور کاروبار کو چھوڑنے، سفر کی صعوبتیں جھیلنے اور روز مرّہ کا لباس ترک کرکے احرام کا فقیرانہ لباس زیب تن کرنے سے لے کر طواف، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ میں رات بسر کرنا، منیٰ کا قیام، قربانی، رمی جمار اور سر کے بال منڈوانا تک ہر چیز میں عبادت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ ان میں ہر عمل کا اسوۂ ابراہیمی کے کسی نہ کسی پہلو سے تعلق ہے۔ للہیت اور فداکاری کی شان ہر ہر عمل سے نمایاں ہے اور یہی حج کا اصل مقصداورفلسفہ ہے۔ اس پورے تجربے میں تعلیم و تربیت کا بڑا مؤثر سامان ہے، تاکہ بندہ یہاں سے یہ سبق لے کر جائے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور جناب محمد e کا راستہ ہی میرا راستہ، ان کا عمل ہی ہمارے لیے نمونہ اور اس راستے پر چلنا ہی ہماری زندگی کا مقصود ہے اور ہونا چاہیے اور اس بات کا عہد کرنا ہے کہ اس راہ میں ہمارے قدم کبھی سُست نہیں پڑیں گے۔

عالمگیر اجتماع

حج پر سوچ و بچار کا تیسرا پہلو اس کی عالمگیریت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج تمام عبادات کا مرقع ہے۔ نماز کی ابتدا اگر نیت کی درستی، قبلے کے استقبال اور جسم کی طہارت سے ہوتی ہے اور اس کی روح ذکر الٰہی ہے، تو حج پہلے ہی قدم میں ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف چہرہ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر، اور پھر اس کا طواف اور اس میں سجدے، جسم اور روح کی طہارت کے ساتھ حج کی ابتدا سے لے کر طواف وداع تک ذکر ہی ذکر ہے۔ نماز اگر بے حیائی سے روکنے کا ذریعہ ہے، تو احرام اور حج بھی منکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١وَ لَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرہ:197)

’’ حج کے مہینے متعین ہیں۔ اس لیے جو شخص ان میں حج کرے وہ نہ بے ہودہ باتیں کرے، نہ گناہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے۔ ‘‘

احرام تمام مسلمانوں کے لیے مساوات کا بہترین نمونہ ہے اور امیر غریب، بادشاہ فقیر، سب ایک ہی لباس میں آجاتے ہیں۔ روزے کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کرنا، ضبط نفس کی تربیت دینا، جسمانی مشقت برداشت کرنے کے لیے تیار کرنا ہے ۔ حج میں یہ سب کچھ موجود ہیں۔

اتحاد اور وحدتِ امّت

حج امت کی وحدت اور اتحاد، مسلمانوں کے ایک خاندان اور برادری ہونے کا ترجمان ہے۔ رنگ و نسل، وطن، زبان، سماجی اور معاشی فرق، غرض کہ ہر تفریق کے عملاً خاتمے کا نام حج ہے۔ ایک رب کے ماننے والے بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لیے دنیا کے گوشتے گوشے سے اپنے مرکز پر جمع ہوتے ہیں اور ایک جماعت بن کر ایک امام کی امامت میں ایک ہی تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے دن رات گزارتے ہیں۔ تہذیب وتمدن کے سارے منفی اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور ایک امّت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ انقلابی مقصد ہے، جس کے لیے اس امت کو بنایا گیا ہے۔

کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ (آل عمران:110)

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘

مولانا سید سلیمان ندوی، سیرت النبی ﷺمیں اس پہلو کو اس طرح نمایاں کرتے ہیں:

’’مسلمان ڈیڑھ سو برس تک جب تک ایک نظم حکومت یا خلافت کے ماتحت رہے، یہ حج کا موسم ان کے سیاسی اور تنظیمی ادارے کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جس میں اُمور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔ اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوں کے حکام اور والی جمع ہوتے، اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریق عمل طے کرتے تھے، اور مختلف ملکوں کی رعایا آکر اگر اپنے والیوں اور حاکموں سے کچھ شکایتیں ہوتی تھیں، تو ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھیں، اور انصاف پاتی تھیں۔

’’اسلام کے احکام اور مسائل جودم کے دم میں اور سالہا سال دُور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمدورفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے اور خود اللہ کے رسول نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسان جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، ۲۳برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے ایک لاکھ سے زائد کے مجمع کو خطاب کیا اور سب نے سَمْعاً وَ طَاعَۃً کہا۔ آپ ﷺکے بعد خلفائے راشدین رضي الله عنهم اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اعلام اسی طرح سال بہ سال جمع ہو کر احکام اسلام کی اشاعت کا فریضہ ادا کیا، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق، دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے تھے ‘‘۔(سیدسلیمان ندوی، سیرت النبی، پنجم)

حج کے اثرات اور نتائج

اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جس طرح حفظِ قرآن، کتابت وتعلیم قرآن اور رمضان المبارک میں قرآن سے تجدید تعلق نے اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح حج نے اسلام کی اصل روح اور امت کی وحدت اور اخوت کو ایک تاریخی تسلسل میں پرو دیا ہے اور ایک ادارے کے طور پر یہ روایت اپنے مرکز سے پوری دنیا میں اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک ہوتی رہے گی۔

’’یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم پیدا کرتا ہے، اسی طرح حج کے ایام تمام روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری پیدا کرتا ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے علیم و حکیم نے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر دعوت مٹ نہیں پائے گی۔ دنیا کے حالات کتنے ہی بگڑ جائیں اور مسلمان جس قدر بے عمل ہو جائیں، مگر یہ کعبے کامرکز اسلامی دنیا کے جسم میں اس طرح رکھ دیا گیا ہے، جیسے انسان کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح اسلامی دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دُور دراز رگوں سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلادیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے چلنے کا سلسلہ جاری ہے، اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار ونزار ہو۔ (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

مقالہ نگار رابرٹ بیانچی (Robert Bianchi) کے یہ جملے قابلِ غور ہیں:

’’دنیا کی تمام زیارتوں میں حج منفرد بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ عیسائیت اور ہندومت کے قدیم اور اعلیٰ ترقی یافتہ بین الاقوامی زیارت کے نظاموں سے مقابلہ کیا جائے تو عقیدے کی مرکزیت، جغرافیائی ارتکاز اور تاریخی تسلسل کے لحاظ سے حج نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (اوکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ )

حج عبادات کا مرقع ، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی جو مقررہ ایام میں متعین اور مقدس مقامات پر ادا ہو تی ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اورملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے سالانہ بین الاقوامی اسٹیج مہیا کیا ہے تاکہ وہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار اور حالات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جہاں اپنے کردار و گفتار کا جائزہ لینا ہے اس کے ساتھ ہی ملتِ کافرہ کے حالات واقعات اور ان کے فکرو عمل پر کڑی نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ یہی وہ سوچ و حکمت تھی کہ جس کے لیے سیدنا عمر فاروقt حج کے موقع پر مملکت کے گورنروں اور اعلیٰ حکام کا اجلاس منعقد کرتے اور ان علاقوں کے عمائدین سے وہاں کے حالات و واقعات اور حکام کے طرز عمل کے بارے میں استفسار فرماتے اور موقع پر ہدایات جاری کرتے تھے۔ حج صرف چند مناسک کی ادائیگی اور فقط بڑا اجتماع منعقد کرنے کا نام نہیںبلکہ اس میں تو افکار و اعمال کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا پروگرام دیا گیا ہے اسی کے پیشِ نظر نبی کریم e نے جب حجاج کرام کو دھکم پیل اور حج کے مقصد سے ہٹتے ہوئے محسوس کیا تو آپe  ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے لوگوں سے یہ فرماتے جارہے تھے:

عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ فَإنَّ الْبِرَّ لَیْسَ فِیْ الْاِیْضَاعِ

’’اے حجاجِ کرام ! سنجیدگی اور وقار اختیار کیجیے ،نیکی اُچھلنے کودنے کا نام نہیں۔‘‘(رواہ البخاری: باب أَمْرِ النَّبِیِّeبِالسَّکِینَۃِ عِنْدَ الإِفَاضَۃِ)

حج شوکت ِاسلام کے بھرپور مظاہرے کا نام ہے۔ اس لیے اسلام کی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کواپنے کردار کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔

حق وباطل کی رزم گاہیں

حضرات ہر مسلمان جذبات محبت اور غیر ت اسلام کے پیش نظر بدر و احد کے معرکوں کا جغرافیائی اور نظریاتی نقشہ دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی غیر ت میں اضافہ کر سکے۔یہ ایسی رزم گا ہیں ہیں جہاں عساکر اسلام نے جرأت وبہادری کے وہ کارنامے سر انجام دیئے جنہیں سن کر دنیا آج بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہے یہیں تو تاریخ کے آئینہ میں شیر اسلام سیدناحمزہ t کفار کو للکارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہی تو وہ مورچے ہیں کہ جہاں ایک مجاہد کو سینے پر تیر لگا تو وہ یہ کہتے ہوئے زمین پر گر پڑا تھا کہ اللہ کی قسم میں تو کامیاب ہو گیا۔

فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ (رواہ البخاری: باب مَنْ یُنْکَبُ فِی سَبِیلِ اللہِ)

یہ میدان احد ہے جس میں دختران اسلام مجاہدین کو پانی پلاتے اور مرہم پٹی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ وہ غار بھی تو یہیں واقع ہے کہ جب ابو سفیان نے کفر کا سربراہ ہونے کے ناطے سے اپنی عارضی کامیابی پر اتراتے ہوئے یہ نعرہ بلند کیا تھا :

 أُعْلُ ھُبُل آج ھبل (بت ) پہلے سے بہت زیادہ بلند وبالا ہو گیا۔ تو نبی اکرمeنے اس شرکیہ نعرے کے مقابلے میں اپنے قریب کے ساتھیوں کو فرمایا تھا کہ خاموشی کی بجائے جواب دیجئے :

اَللہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (رواہ البخاری: باب مَا یُکْرَہُ مِنَ التَّنَازُعِ)

’’ اللہ ہی سب سے بلند وبالا اورجلالت وجبروت کا مالک ہے۔‘‘

تاریخ کے دریچوں میں اب بھی معوذاور معاذwابوجہل کو جہنم میں دھکیلتے نظر آتے ہیں ،یہی وہ قطعہ ہے جس پر اسلام کے عظیم جرنیل، اپنے قبیلے کے سربراہ اور نبیeکے انتہا درجے کے جانثار حضرت سعدبن ربیعہ t زندگی کے آخری الفاظ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ :اے جینے والو نبی اکرم eکی خدمت میں میرا سلام پیش کرنا اور میرے قبیلے کے جوانوں کو یہ پیغام دیناکہ تمہارے ہوتے ہوئے اگر نبیe کی ذاتِ اطہر کو کوئی نقصان پہنچاتو قیامت کے دن کیا منہ دکھاؤ گے۔  (صاحب مضمون کی کتاب :آپe کا حج )

حج کا پیغام:

نبی معظم eوادی عرفات پہنچے اور لوگوں کو خطبہ دیا اورفرمایا:

اِنَّ دِمَاءَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَااَ لَا کُلُّ شَیْئٍ مِّنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ وَّدِمَآءُ الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃٌ وَاِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَآءِ نَا دَمُ ابْنِ رَبِیْعَۃَ  ابْنِ الْحَارِثِ وَکَانَ مُسْتَرْضَعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ فَقَتَلَہُ ھُذَیْلٌ وَرِبَا الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ وَاَوَّلُ رِبًا اَضَعُ مِنْ رِّبَانَا رِبَا عَبَّاسٍ ابْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَاِنَّہُ مَوْضُوْعٌ کُلُّہُ فَاتَّقُوااللّٰہَ فِی النِّسَآءِ فَاِنَّکُمْ اَخَذْتُمُوْھُنَّ بِاَمَانِ اللہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَھُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ وَلَکُمْ عَلَیْھِنَّ اَنْ لَّا یُوْطِیْنَ فُرُشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَھُوْنَہُ فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرَّحٍ وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَقَدْتَّرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابُ اللہِ وَاَنْتُمْ تُسْئَلُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ فَقَالَ بِاِصْبَعِہِ السَّبَّابَۃِ یَرْفَعُھَا اِلَی السَّمَآءِ وَیَنْکُتُھَا اِلَی النَّاسِ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ(رواہ مسلم: باب حجۃ النبیﷺ)

’’تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں جس طرح یہ دن ‘ یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہیں ۔ دور جاہلیت کے تمام امور میرے قدمو ں کے نیچے مسل دئیے گئے ہیں۔ دورجاہلیت کے تمام خون معاف ہیں اس سلسلے میں سے سب سے پہلے میں ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا خون معاف کرتا ہوں۔ جس کو رضاعت کے دوران قبیلہ بنی سعد کے ہذیل نے قتل کردیا تھا ۔ زمانۂ جا ہلیت کا ہر قسم کا سود ختم کرتا ہوں۔ سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کیا جاتا ہے۔ لوگو! عورتوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ تم اللہ کے کلمہ کی بدولت انہیں اپنے نکاح میں لائے ہو اوراللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو تم نے حلال کیا۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں میں کسی کو نہ آنے دیں تم جن سے کراہت کرتے ہو ۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو سزادو لیکن زیادہ شدید نہیں اور ان کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں اپنی استعداد کے مطابق نان ونفقہ اور لباس مہیا کرو ۔ بلاشبہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتا ب (اور اپنا طریقہ) چھوڑے جا رہا ہوں اگراس کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ تم سے میرے متعلق سوال کیا گیا تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟ صحابہ y  نے جواب دیا ‘ بلاشبہ آپ e نے ابلاغ ‘ فرض کی ادائیگی اور نصیحت وخیر خواہی کا حق ادا کر دیا ۔ آپ نے اپنی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا ‘ بارالٰہا! گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا ۔ آپ نے یہ الفاظ تین بار دوہرائے ۔ ‘‘

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے