اے دنیا کے یہودیو ! تم آئے دن میرے پیارے رسول کے خاکے بنانے کی ناپاک جسارت کرتے ہو جبکہ تم نے کبھی سوچا ہے کہ جس ہستی کی تم گستاخی کر رہے ہو اس کے تم پر کیا احسان ہیں ؟

یہ نہ کبھی تم نے سوچا ہے ، اور نہ ہی کبھی تم نے ان کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا ہے ۔

ہم تمہارے سامنے اپنے پیارے نبی کریم کے وہ احسانات ذکرکر رہے ہیں جو انہوں نے تم پر اور تمہارے اکابرین پر کیے ہیں ان کا مطالعہ کرو اور پھر خود ہی فیصلہ کرو کہ تم کس قدر احسان فراموش قوم ہو کہ تمہیں اپنے محسن کا بھی حیاء نہیں !

b مشرک والدین سے صلہ رحمی

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :

قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي رَاغِبَةً فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ أَفَأَصِلُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ نَعَمْ فَصِلِي أُمَّكِ

میرے پاس میری ماں آئیں جو قریش کے دین کی طرف مائل اور اسلام سے بیزار اور مشرکہ تھیں، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار اور مشرکہ ہیں، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو ۔ (سنن ابی داؤد : 1668)

b یہودی مریض کی عیادت کے لیے جانا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا بیمار پڑا تو نبی کریم اس کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا : تم مسلمان ہو جاؤ ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس نے کہا : ابوالقاسم کی اطاعت کرو ! تو وہ مسلمان ہو گیا۔ آپ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے :

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ بِي مِنَ النَّارِ

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے جہنم کی آگ سے نجات دی ہے ۔ (سنن ابي داؤد : 3095)

b یہودی پڑوسی سے حسن اخلاق سے پیش آنا

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی تو ( گھر والوں ) سے کہا : کیا تم لوگوں نے میرے یہودی پڑوسی کو تحفہ بھیجا ؟( نہ بھیجا ہو تو بھیج دو )

فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ .

میں نے رسول اللہ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: جبرائیل مجھے برابر پڑوسی ، کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے ایسا لگاکہ وہ اسے وارث بنا دیں گے ۔ (سنن ابی داؤد 5152)

b دشمن کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّبْيَانِ .

رسول اللہ کے زمانہ میں ایک عورت کسی غزوہ میں مقتول پائی گئی تو آپ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔ (صحیح بخاری : 3015)

bذمی کو قتل کرنے کی ممانعت

سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.

جو شخص کسی ذمی کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرے گا تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا ۔ (سنن ابی داؤد : 2060)

ایک اور روایت کے لفظ ہیں :

مَنْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا

جس نے اہل ذمہ میں سے کسی شخص کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت کی دوری سے آتی ہے۔ (سنن نسائی : 4756)

b دشمن کو بد دعا دینے سے اجتناب

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ عَلَى الْمُشْرِكِينَ قَالَ إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً

رسول اللہ سے کہا گیا : اے اللہ کے رسول ! مشرکین کے لیے بد دعا کریں ۔ آپ نے فرمایا : مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیابلکہ مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (صحیح مسلم : 6613)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

قَدِمَ الطُّفَيْلُ وَأَصْحَابُهُ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ دَوْسًا قَدْ كَفَرَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللهَ عَلَيْهَا فَقِيلَ : هَلَكَتْ دَوْسٌ فَقَالَ: اللهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِهِمْ .

طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آئے اور آکر عرض کی : اے اللہ کے رسول ! ( ہمارے قبیلے ) دوس نے کفر کیا اور ( اسلام لانے سے ) انکار کیا، آپ ان کے لیے بد دعا کریں ! بعض لوگوں نے کہا : اب دوس ہلاک ہو جائے لیکن آپ نے ( دعا کرتے ہوئے ) فرمایا : اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے اور ان کو یہاں لے آ۔ (صحیح مسلم : 6450)

bگستاخوں سے نرمی

سیدنا عائشہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے رسول اللہ سے ملنے کے لیے اجازت طلب کی اور انھوں نے کہا : اَلسَامُ عَلَيكُم . آپ پر موت ہو . عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : بلکہ تم پر موت ہو اور لعنت ہو۔ رسول اللہ نے فرمایا :

يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ قَالَتْ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ قَدْ قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ

عائشہ ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : کیا آپ نے نہیں سنا کہ انھوں نے کیا کہا تھا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے (وَعَلَيكُم . اور تم پر ہو) کہہ دیا تھا۔ (بخاری : 5656)

ایک اور روایت میں ہے :

ایک یہودی نبی کے پاس سے گزرا اور کہنے لگا : السام عليك‏.‏یعنی تم مرو۔ نبی نے جواب میں صرف : وعليك‏کہا ( تو بھی مرے گا ) پھر آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا :

أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ السَّامُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا نَقْتُلُهُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏لَا(صحیح البخاری:6926)

تم کو معلوم ہوا اس نے کیا کہا ؟ اس نے السام عليك‏ کہا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ( حکم ہو تو ) اس کو مار ڈالیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔

b رئیس المنافقین کا جنازہ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کا بیٹا عبد اللہ بن عبد اللہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیں جس میں وہ اپنے باپ کو کفن دے ، آپ نے اسے عنایت کر دی ، پھر اس نے یہ درخواست کی کہ آپ اس کا نماز جنازہ پڑھائیں ۔ رسول اللہ اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ، رسول اللہ کا کپڑا پکڑا اور عرض کی : اللہ کے رسول اللہ ! کیا آپ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے : آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں ۔آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے ( تو بھی اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا ۔ ) تو میں ستر سے زیادہ بار بخشش مانگ لوں گا۔ انھوں نے کہا : وہ منافق ہے۔ چنانچہ رسول اللہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ (التوبة: 84)

ان میں سے کسی کی بھی ،جب وہ مرجائے کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (صحیح بخاری : 6207)

b پتھر مارنے والوں کے لیے دعا

سیدنا عبدالله بن مسعود رضي الله عنه فرماتے ہیں :

كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ : رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ .

گویا کہ میں رسول اللہ کی طرف دیکھ رہا ہوں ، آپ نبیوںمیں سے ایک نبی کا واقعہ بیان فرما رہے تھے (مراد خود اپنی ذات مبارکہ تھی) جسے اسکی قوم نے مارا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے : اے اللہ ! میری قوم کو معاف کر دے، وہ نہیں جانتے ۔ (صحیح مسلم : 4646)

b اپنے ہجو کرنے والے کو معاف کر دینا

محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ غزوہ طائف سے مدینہ واپس ہوئے تو بجیر بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے (مفرور) بھائی کعب بن زہیر کو لکھا کہ رسول اللہ نے مکہ میں ایسے لوگوں کو قتل کرا دیا ہے جو آپ کی ہجو کیا کرتے تھے اور آپ کو تکلیف پہنچایا کرتے تھے ۔ قریش کے باقی شاعر مثلا : زبعری ، ہبیرہ بن ابی وہب مختلف مقامات کو فرار ہو گئے ہیں ۔ لہذا تو اگر اپنی جان بچانا چاہتا ہے تو جلدی سے رسول اللہ کی خدمت میں پہنچ جا ۔ کیونکہ جو شخص توبہ کرکے آپ کی خدمت میں پہنچتا ہے تو آپ اس کو قتل نہیں معاف کردیتے ہیں، اگر تو ایسا کرنا نہیں چاہتا تو جہاں فرار ہونا چاہے فرار ہو جا ، لیکن ایسا کرنا مشکل ہے ۔ جب کعب کو یہ خط موصول ہوا تو اس نے اپنے اوپر زمین تنگ محسوس کی ، اور اس کے دوستوں نے یہ کہہ کر اس کا خوف اور بڑھا دیا کہ اب تجھے ضرور قتل کیا جائےگا ۔ جب کعب نے کوئی راستہ نہیں پایا تو آپ کے خوف سے قصیدہ لکھنا شروع کر دیا ، بلآخر وہ گھر سے نکلا اور مدینہ منورہ پہنچا ۔ پھر وہ اپنے جاننے والے جہنی قبیلہ کے ایک شخص کے پاس آکر ٹھہرا ، صبح کو اپنے میزبان کے ساتھ رسول اللہ کے پاس پہنچا اور صبح کی نماز ادا کی ، پھر اس شخص نے اشارہ کرکے کہا : یہ اللہ کے رسول ہیں ، ان کے پاس جا اور امن طلب کر، کعب اٹھا اور اپنا ہاتھ رسول اللہ کے ہاتھ میں دے دیا ۔ آپ کعب کو نہیں پہچانتے تھے ، کعب نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر کعب توبہ تائب ہوکر ، اسلام قبول کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ سے امن طلب کرے تو کیا آپ اس کی توبہ اور اسلام کو قبول کرلیں گے ؟ اگر میں اسے اپنے ساتھ لیکر آؤں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں! تو کعب نے کہا :

اے اللہ کے رسول ! میں ہی تو کعب ہوں ۔ یہ سن کر انصار میں سے ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیں میں اللہ کے دشمن کی گردن اڑادوں ۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : دَعْهُ عَنْكَ، فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَ تَائِبًا

اسےچھوڑ دو ! یہ توبہ تائب ہوکر آیا ہے ۔(المعجم الكبير : 403)

b جانی دشمن سے بدلا نہ لینا

ایک یہودی عورت رسول اللہ کے پاس ایک زہر آلود ( پکی ہوئی ) بکری لے کر آئی، نبی کریم نے اس میں سے کچھ ( گوشت کھایا ) ( آپ کو اس کے زہر آلود ہونے کاپتہ چل گیا ) تو اس عورت کو رسول اللہ کے پاس لایاگیا، آپ نے اس عورت سے اس (زہر ) کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا:( نعوذ باللہ!) میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔آپ نے فرمایا:

مَا كَانَ اللَّهُ لِيُسَلِّطَكِ عَلَى ذَاكِ …… قَالُوا أَلَا نَقْتُلُهَا قَالَ : لَا.

اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں اس بات پر تسلط (اختیار ) دے دے۔ صحابہ رضي الله عنھم نے عرض کی : کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ آپ نےفرمایا : نہیں۔ (صحیح مسلم : 5705)

bجانی دشمن کو معاف کردینے کا ایک اور واقعہ:

سیدنا جابر رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے۔ جب رسول اللہ جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ رسول اللہ نے اس وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ پوری وادی میں ( درخت کے سائے کے لیے ) پھیل گئے۔ آپ نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی۔ ہم سب سو گئے تھے کہ رسول اللہ کے پکارنے کی آواز سنائی دی، دیکھا گیا تو ایک بدو آپ کے پاس تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا : اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے کہا : مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟

فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ :‏‏‏‏ اللَّهُ ثَلَاثًا ، وَلَمْ يُعَاقِبْهُ (صحيح البخاري : 2910)

میں نے کہا : اللہ ! تین مرتبہ ( میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی ) رسول اللہ نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی ۔

b جانی دشمنوں سے خیر خواہی

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت سے ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کی زندگی میںکوئی ایسا دن بھی آیا جو احد کے دن سے زیادہ سخت ہو؟ آپ نے فرمایا : مجھے تمہاری قوم سے بہت تکلیف پہنچی، جب میں خود کو ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے سامنے لے گیا ( یعنی اس کو دعوتِ اسلام دی ) لیکن جو میں چاہتا تھا اس نے میری بات نہ مانی، میں غمزدہ ہو کر چل پڑا اور قرن ثعالب پر پہنچ کر ہی میری حالت بہتر ہوئی، میں نے سر اٹھایا تو مجھے ایک بادل نظر آیا، جس نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا، میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے، انہوں نے مجھے آواز دے کر کہا: اللہ نے جو کچھ آپ نے اپنی قوم سے کہا وہ اور انہوں نے جو آپ کو جواب دیا وہ سب سن لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ ان کفار کے متعلق اس کو جو چاہیں حکم دیں۔ آپ نے فرمایا : پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا، پھر کہا : اے محمد ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو ( اٹھا کر ) ان کے اوپر رکھ دوں۔ تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا :

بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا (صحیح مسلم : 4653)

بلکہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔

b اپنے پیارے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل کومعاف کر دیا

سیدنا وحشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ نے مکہ فتح کیا تو میں طائف کے طرف بھاگ گیا اور وہاں سکونت اختیار کیلیکن جب طائف کا وفد ایمان لانے کے لیے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ، اور میں سوچنے لگا کہ یمن ، شام یا کسی دوسرے ملک بھاگ جاؤں ۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ایک شخص نے کہا : اللہ تجھ پر رحم کرے ! واللہ ! رسول اللہ ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جو دین میں داخل ہو جائے اور کلمہ پڑھ لے ۔ میں یہ سنتے ہی نکل کھڑا ہوا اور مدینہ منورہ رسول اللہ کے پاس پہنچ گیا ، میں نے آپ کو پتا چلنے نہیں دیا اور آپ کے سامنے جاکر کھڑا ہوا اور (بآواز بلند) کلمہ شہادت پکار اٹھا ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا : کیا تو وحشی ہے ؟ میں نے عرض کیا : ہاں ! اے اللہ کے رسول میں وحشی ہوں ۔ آپ نے فرمایا : بیٹھ جا ! اور مجھے بتا کہ تو نے میرے چچا حمزہ کو کیسے قتل کیا تھا ؟ وحشی کہتاہے:

فَلَّمَا فَرَغْتُ مِنْ حَدِيثِي قَالَ وَيْحَكَ غَيِّبْ عَنِّي وَجْهَكَ فَلَا أَرَيَنَّكَ .

جب میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا تو آپ نے فرمایا : افسوس تیرے حال پر ! بس تو میرے سامنے نہ آیا کر کہ میں تجھے دیکھ نہ سکوں ۔(البدایة والنهاية : 18/4)

b حنین کے قیدیوں کو آزادی

( غزوہ حنین کے بعد ) قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہوکر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی نے فرمایا : سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ کے مقام پر) تقریباً دس رات تک انتظار کیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : امابعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہوکر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کر دیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول اللہ کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ نے فرمایا : اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کر سکتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔

فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا .

چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔ (صحيح بخاری : 2307)

b دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان

رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن فرمایا :

يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ مَا تَرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ فِيكُمْ ؟ قَالُوا خَيْرًا أَخٌ كَرِيمٌ وَابْنُ أَخٍ كَرِيمٍ، قَالَ : اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ .

اے قریش کی جماعت ! تمہارا کیا خیال ہے میں تم سے کیا کرنے والا ہوں ؟ انہوں نے کہا : ہم آپ سے اچھائی کی امید رکھتے ہیں آپ ہمارے عزت والے بھائی ہیں اور عزت والے بھائی کے بیٹے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : جاؤ تم سب آزاد ہو ۔(البدایة والنهاية : 4/301)

b مقتول کا مثلہ کرنا

سیدنا عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النُّهْبَى وَالْمُثْلَةِ.

نبی نے لوٹ مار کرنے سے اور مثلہ (دوران جنگ مقتول کےاعضاء کو کاٹنے سے ) سے منع فرمایا ہے۔(صحیح بخاری : 2474)

اے یہودیو ! اے کافرو ! یہ ہمارے پیارے نبی کی سیرت کی ایک مختصر جھلک تھی جو تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کی گئی کہ وہ نبی تو پتھر کھا کر بھی تمہیں دعائیں دیتے رہے ، اس کے گھر آکر تمہارے بڑے نے اس کی گستاخی کی لیکن اس نے درگذر کرلیا ، انہیں زہر ملا کھانا کھلایا گیا اس نے کوئی بدلا نہیں لیا ، اس نے اپنے صحابہ کو اور تمام مسلمانوں کو رہتی دنیا تک تمہارے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ، اس نے اپنے ہجو کرنے والے کو معاف کر دیا ، اس نے فتح مکہ کے دن اپنے جانی دشمنوں سے بدلا نہیں لیا ۔ یہ سب تمہارے اکابرین پر اور تم پر اس کے احسان ہیں اور تم نے ان کے احسانوں کا بدلا یہ دیا کے اس کے گستاخانہ خاکے بنائے ، تم خود غور کرو کہ تم کس قدر احسان فراموش قوم ہو اور کتنے گرے ہوئے لوگ ہو خود فیصلہ کرو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے