سعودی عرب دنیا میں وہ خطہ ہے جہاں پر عالم اسلام کے دو عظیم شہر واقع ہیں. ایک بلد الامین مکہ مکرمہ جو کہ ہمارے نبیمکرم محمد رسول اللہکا مولد و منشاء اور مہبط وحی ہے دوسرا شہر مدینہ منورہ جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت گاہ اور آپ کا مدفن ہے. ان دونوں شہروں کے نام ذہن میں آتے ہی مسلمان خوشی سے سرشار ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں اس سرزمین کی طرف جانے کا خیال آنے لگتا ہے اور ان کے تصور میں میں ہی خوشی سے نہاں ہوجاتا ہے. یہ شہر اہل ایمان کی محبتوں کے محور اور مرکز ہیں کوئی بھی صاحب ایمان ان شہروں کی محبت سے خالی نہیں ہے. مکہ میں جنت کا پتھر حجر اسود ہے تو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کاایک حصہ جنت ہے. عالم اسلام کی اس عظیم مملکت کی بنیاد 23 ستمبر 1932 کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود رحمہ اللہ نے رکھی تھی. 87 ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے اس خطے میں جو کہ براعظم ایشیا یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے ایک جدید اسلامی اور مثالی مملکت قائم کی گئی. جس کی تعمیر قرآن و سنت سے رہنمائی لے کر ملک کو استحکام، خوشحالی، تحفظ اور امن و امان کا گہوارہ بنا کر پائیدار مسلم معاشرے کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کروایا گیا۔

دنیا میں یہ واحد ملک ہے جس کا دستور قرآن و سنت ہے

اور سعودی حکمرانون کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور توحید و

سنت کا غلبہ ہے۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں امت مسلمہ کا دل کھول کر تعاون کیا امت کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کی. سعودی عرب کے حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا برادر اسلامی ملک سمجھا اور ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ نبھایا۔ پاکستان کی سالمیت کو سعودی سالمیت قرار دیا۔ جب پاکستان ایک سانحہ سے دولخت ہوگیا تو اس وقت پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے والا عظیم حکمران شاہ فیصل شہید پاکستان کے دولخت (سقوط ڈھاکہ کے وقت) ہونے پر جس طرح سے دھاڑیں مار مار کر رویا تھا شاید کہ اس طرح سے کوئی پاکستان کا ذمہ دار حکمران یا سیاستدان رویا ہو۔

 مرحوم سعودی شاہ کی یہ دل گرفتگی اور گریہ زاری پاکستان سے تعلق خاطر اور جذباتی وابستگی کی اس پرعظمت داستان کی گواہی ہے کہ فضائے بسیط میں وسیع اور تاباں خود خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان حفظہ اللہ دیکھ رہے ہیں جس کی علمی شہادت پاکستان میں سعودی سفیر اپنے تحرک اور پاکستانیوں سے اپنے لگاو کی صورت میں پیش کرتے رہتے ہیں. پاکستان اور پاکستانیوں کا کوئی مسئلہ ہو سعودی عرب کے حکمران اور عوام سب سے آگے ہوتے ہیں وہ ہمارے معاشی حالات یا ملک و قوم کے استحکام اور بقا کا مرحلہ ہو یا دفاعی ضروریات کا مسئلہ ہو یا آفات ارضی و سماوی کا مسئلہ ہو تمام تر نشیب و فراز کے مراحل و مواقع  پر سعودی پاکستان کے ساتھ وفادار بھائی کی طرح سے کھڑا نظر آتا ہے. سیاچن کے کٹھن مراحل سے لے کر ایٹم بم اور ایف 16 طیاروں کی خریداری 2008 کا تباہ کن زلزلہ یا 2010 کا قیامت خیز سیلاب یا افغان مہاجرین کا بوجھ اور ایٹمی دھماکے کی وجہ سے لگنے والی عالمی پابندیاں وہ کون سا موقع اور لمحہ ہے جب ساری دنیا میں سب سے پہلے اور آگے بڑھ کر سعودی حکمرانوں اور اس کے محب و مخلص عوام نے ہمیں اپنے گلے نہیں لگایا. جریدہ عالم پر پاک سعودیہ دوستی بڑی گہری اور نمایاں ہے. حقیقت میں یہ دوستی دونوں ملکوں کے عوام و خواص کو ” یک جان دوقالب ” کرچکی ہے۔ سعودی حکومت کے اہم کارنامے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا قیام آل سعود نے دین اسلام کی خدمت کےلیے اپنے ملک کے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنے کےلیے 1961 میں ایک شاہی فرمان کے ذریعہ سے مدینۃ الرسول میں ایک عالمی یونیورسٹی بنام “جامعۃ الاسلامیۃ ” بنانے کا اعلان کیا اور اس عظیم جامعہ اسلامیہ میں اکناف عالم میں رہنے والے اہل اسلام کو تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی اور دنیا بھر سے چن چن کر وقت کے بڑے بڑے مشائخ عظام کو تدریس کے لیے متعین کیا جن میں وقت کے محدثین بھی شامل تھے مثلا محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی، حافظ محمد محدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہما و دیگر۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں 85 فی صد غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے ان کی مکمل کفالت کرنے کے ساتھ ساتھ عمدہ رہائش، وظیفہ اور ہر روز شام کے وقت طلبہ کو مسجد نبوی میں لے جانے اور واپس لانے کےلیے ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کیا گیا تا کہ طالبان علوم نبوت مسجد نبوی کے نورانی ماحول میں درس قرآن اور درس حدیث کی منعقد ہونیوالی مجالس سے بھرپور مستفید ہوسکیں. سعودی حکومت جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ہر ممکن سہولت فراہم کرتی ہے حتی کہ ان کے سفر کےلیے ایئر ٹکٹز کا بھی انتظام کیا جاتا ہے. اور پھر اس عالمی دانش گاہ سے بڑے بڑے علماء، مشائخ، خطباء، مدرسین، معلمین اور دعاۃ فراغت حاصل کرکے نکلے جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں میں جا کر نور توحید و سنت کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ مساجد کی تعمیر اور ان کا اہتمام حکومت سعودیہ عربیہ نے اسلام کی دعوت کو عام کرنے کی غرض سے اہم ذریعہ مساجد کو بنایا ہے. سعودی حکومت اور پرائیویٹ اداروں کی طرف سے پوری دنیا میں بے شمار مساجد و دینی مراکز تعمیر کیے گئے . اور ان میں علماء و مدرسین کا تقرر کیا گیا کیونکہ مساجد اسلام کا محور و مرکز ہوتی ہیں. مسجد امت مسلمہ کے لیے وہ مدرسہ اور اسکول ہوتا ہے جہاں سے مسلمان طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور انہی مساجد و مراکز کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کے عقائد و اعمال کی درستگی ہوتی ہے اور مساجد و دینی مراکز ہی اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور عام کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

 شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس قرآن مجید اللہ تعالی کی مضبوط رسی اور سیدھا راستہ ہے جو کہ ہدایات ربانی ہے وہ دراصل خالق کون و مکان کی طرف سے انسانیت کے لیے واضح عربی میں خطاب ہے جس کے پہنچانے کا حکم اس خالق نے دیا ہے. یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے قرآن مجید اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے. خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کی طباعت اور تقسیم کےلیے ” شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس ” قائم کیا. آپ نے مدینہ منورہ میں تبوک روڈ پر 16 محرم 1403 ھجری بمطابق 2 نومبر 1982 کواس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا. اس کمپلیکس کا رقبہ 250000 مربع میٹر ہے اور یہ کمپلیکس فن تعمیر کا ایک دلکش اور خوبصورت نمونہ ہے. اس پرنٹنگ کمپلیکس میں اعلی معیاری اور غلطیوں سے پاک قرآن مجید کے نسخے طبع کیے جاتے ہیں قیام سے لے کر اب تک اس کمپلیکس سے مختلف انواع و سائز کے تقریباً بیس کروڑ نسخے شایع ہوچکے ہیں اور دنیا کے تقریباً 80 ممالک کے لوگ یہاں سے طبع ہونے والے قرآن مجید کے نسخوں سے مستفید ہوچکے ہیں. یہ کمپلیکس اب تک چالیس زبانوں میں و تفاسیر طبع و تقسیم کرچکا ہے. شاہ فہد رحمہ اللہ نے قرآن مجید کو گھر گھر تک پہنچانے اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کےلیے دنیا کی مختلف زندہ زبانوں میں اس کے ترجمہ و تفاسیر اور اس کی توزیع و تقسیم کرکے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ ان شاءاللہ قیامت تک یاد رکھا جائے گا اور ان کی حسنات کے میزان میں بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا۔

 مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز آل السعود للحدیث النبوی گذشتہ سال ماہ اکتوبر میں سعودی فرمانروا خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ ورعاہ نے اپنے ایک حکومتی فرمان کے ذریعہ سے ” مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز آل السعود للحدیث النبوی ” یعنی خدمت حدیث کے لیے ایک مستقل کمپلیکس قائم کرنے کا حکم جاری کیا. جس کی علمی کمیٹی دنیا بھر سے چیدہ چیدہ جید علماء حدیث پر مشتمل ہوگی اور اس کے رئیس سعودی ” ھیئۃ کبار العلماء ” کے رکن اور امام مجدد الدعوہ الشیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے خاندان کے چشم و چراغ شیخ محمد بن حسن صاحب حفظہ اللہ ہوں گے. قرآن کمپلیکس کی طرح سے حدیث کپملیکس کےلیے بھی مدینۃ الرسول کو منتخب کیا گیا ہے. خدمت حدیث کے لیے شاہ سلمان بن عبدالعزیز سلمہ اللہ کا یہ عالم اسلام میں سب سے بڑا  اشاعت حدیث کا منصوبہ، اشاعت حدیث کا بہت بڑا ذریعہ اور منکرین حدیث کا منہ توڑ جواب بھی ہوگا. ان شاءاللہ اور امید واثق ہے کہ جس طرح سے قرآن کمپلیکس کے توسط سے اقوام عالم میں قرآن کریم فری تقسیم کیا گیا بعینہ کتب حدیث کو بھی اسی طرح سے بڑے پیمانے پر مفت تقسیم کیا جائے گا. اہل اسلام اور باالخصوص حاملین کتاب و سنت کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ مملکت توحید اور اس کے محب اسلام حکمرانوں بالخصوص شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ ورعاہ کو اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھیں تا کہ یہ خاندان حسب روایت اسلام اور حرمین شریفین کی خدمت کرتا رہے اور اہل ایمان ان کی خدمات سے مستفید ہوتے رہیں۔

خادم حرمین شریفین بڑے عظیم لوگ ہیں جو دن رات ان دونوں مقدس مقامات یعنی حرم مکی اور حرم مدنی کی خدمت و نگہبانی کرتے ہیں اور ان کی توسیع، طہارت و نظافت اور ضیوف الرحمن کی خدمت میں دن رات کوشاں رہتے ہیں. حرمین شریفین کی زیارت کرنے والے حجاج کرام جو دنیا کے کونے کونے سے حاضر ہوتے ہیں وہ جب ان مقدس و متبرک شہروں میں جاتے ہیں اور حرمین کی توسیع اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتے ہیں تو بےاختیار آل سعود یعنی خادمین حرمین شریفین کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انہون نے محنت، لگن اور محبت سے کس طرح ان کو خوبصورت بنانے کی سعی و کوشش کی ہے. آج یہ عمارت اپنے وسیع رقبے، خوبصورت ڈیزائن اور مناسب سہولتوں کے سبب زیارت کرنے والوں کو متاثر کرتی ہیں. خادمین حرمین شریفین نے ان دونوں مقامات کی زیارت کرنے والوں کےلیے بنیادی سہولتیں اور ان کے مکمل تحفظ کا خیال رکھا ہے. تاکہ ضیوف الرحمن حجاج کرام اور معتمرین کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو بلکہ حجاج کرام مناسک حج ادا کرنے کے لیے جن مقامات مثلا منی، عرفات مزدلفہ جاتے ہیں وہاں بھی ان کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے اور ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے. سعودی فرماں روا حرمین شریفین کی کھلے دل کے ساتھ خدمت کرکے واقعی خادم الحرمین الشریفین کہلانے کے حق دار ہیں اور اس پر انہیں فخر ہے اور ہونا بھی چاہیے۔

دعاۃ و معلمین کا تقرر دعوت دین اور اسلامی عقیدہ کی اشاعت ہر مسلمان پر فرض ہے مسلمان کو جس قدر بھی اسلامی تعلیمات ہوں انہیں پھیلانے اور عام کرنے کا شرعی حکم ہے. انسانوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سعودی حکومت نے مستقل بنیادوں پر مختلف ممالک کے مراکز اسلامی اور مساجد میں دعوت دین کا کام کرنے اور تعلیم دینے کےلیے دعاۃ و معلمین کو مبعوث کیا ہے. جن کی تعداد کئی ہزار ہے ان کی سرپرستی سعودی حکومت اور سعودی خیراتی ادارے کرتے ہیں. یہ مبلغین و معلمین خالص توحید اور قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح عقیدہ کی دعوت دیتے ہیں. علوم قرآنی اور علوم حدیث کو ہی بنیاد بناتے ہیں جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے عقائد کی اصلاح کی اور بہت سے لوگ ان کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے. یہ مبلغین، دعاۃ اور معلمین اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو عام کرنے پر بھی توجہ دیتے ہیں۔

خدمت انسانیت سعودی حکومت جہاں بھی اور کسی بھی صورت میں عام انسانوں یا مسلمانوں کو مصائب و آلام میں مبتلا پاتی ہے تو وہ ان کی مدد کےلیے وہاں پہنچ جاتی ہے. یہ امر کسی سے بھی مخفی اور پوشیدہ نہیں کہ سعودی حکومت باہمی ہمدردی، شفقت و محبت اور دوستی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مظلوم انسانوں کی مدد کرتی ہے. اس مقصد کے لیے غذائی، ادویاتی اور نقد مالی اعانت جاری رکھتی ہے. دنیا میں جہاں بھی اور جب بھی طوفانوں، زلزلوں، بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے نقصان ہوا سعودی حکومت فوری طور پر ان نقصانات کا ازالہ کرتے ہوئے نظر آئی. سعودی عرب کی طرف سے رابطہ عالم اسلامی اور ھیئۃ الاغاثۃ الاسلامیۃ وغیرہ آگے آگے نظر آئی ہیں. آل سعود کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اسلام بطور دین اپنایا ہوا ہے. اور قرآن و سنت کو اپنا دستور بنا رکھا ہے. اور وہ علم (جھنڈا) جو کلمہ طیبہ سے مزین ہے اس کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا اسلیے حکومت کو کبھی بھی اپنے عوام کے سامنے شرمسار نہیں ہونا پڑا۔

عقیدت و محبت کے مرکز و محور اور پاکستان کے محسن و مخلص ملک سعودی عرب کا 88 واں ” الیوم الوطنی ” ( قومی دن ) ہے تو اہل سعودیہ کی طرح اہل پاکستان بھی نہایت شاداں و فرحاں ہیں اور ان کے دل بھی اپنے سعودی بھائیوں کی طرح معطر و منور ہورہے ہیں اور ہر کسی کے جذبات ہیں کہ ہماری جانیں تک اس مقدس سرزمین پر قربان، ہم اپنے لہو سے وہاں کے چراغوں کو روشن رکھیں گے. ان شاءاللہ اس مبارک موقع پر ہم آل سعود، خادم حرمین شریفین جناب شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ، جناب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ و دیگر اعیان مملکت کو ان کے قومی دن ( الیوم الوطنی) پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور بارگاہ رب العالمین مین دست دعا ہیں کہ اللہ ان کی زندگیوں میں برکت عطاء فرمائے تا کہ یہ خاندان حرمین شریفین اور سعودی عوام کی مزید خدمت کرتا رہے۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے