میں نے اپنے مضمون کا عنوان ’’ فرزندِ توحید‘‘ رکھا ہے اور یہ الفاظ میں نے مولانا محمد خالد سیف فیصل آبادی حفظہ اللہ کی کتاب تذکرۂ شہید کے مقدمہ سے مستعار لیے ہیں، مقدمہ مولانا محمد حنیف ندوی(م 1987ء) کا تحریر کردہ ہے۔(عبد الرشید عراقی)

خاندان ولی الٰہی کو برصغیر پاک وہند میں بسلسلہ دین اسلام کی اشاعت اور کتاب وسنت کی ترقی وترویج، مدافعت ،نصرت ، تائید وحمایت اور شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ میں جو قدرومنزلت اور مرتبہ ومقام عطا کیا وہ اس خطہ ارض کی اسلامی ودینی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

خاندان ولی الہٰی دہلوی کی خدمات آبِ زریں سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس خاندان کے جلیل القدر افراد علوم عالیہ وآلیہ میں تحریر وتقریر کے ذریعہ جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ان کا تذکرہ ان شاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک رہے گا۔

حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرنے سے قبل ضرور ی سمجھتا ہوں کہ ان کے آباء واجداد کا مختصر تذکرہ کر دیا جائے۔یعنی

شاہ ولی اللہ دہلوی 1114ھ/1176ھ

شاہ عبد العزیز دہلوی 1159 ھ / 1239ھ

شاہ رفیع الدین دہلوی1163ھ/1233ھ

شاہ عبد القادر دہلوی 1167ھ/1230ھ

شاہ عبد الغنی دہلوی 1170ھ / 1227ھ

شاہ ولی اللہ دہلوی a:

شاہ ولی اللہ دہلوی بن شاہ عبد الرحیم دہلوی علوم اسلامیہ کے بحر زخّار اور جید عالم دین تھے۔ تمام علوم عالیہ وآلیہ پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی ،محقق بھی تھے اور مورخ بھین متعلم بھی تھے اور متکلم بھی ، مدرس بھی تھے اور مصنف بھی، مبلغ بھی تھے اور واعظ بھی،صوفی بھی تھے اور شاعر بھی ۔ غرض یہ کہ ان جیسا علوم اسلامیہ میں مہارت تامہ رکھنے والا عالم دین کی نظیر ہندوستان میں مشکل ہی سے ملے گی۔

محی السنہ مولانا سید نواب صدیق حسن خان(م 1307ھ)  فرماتے ہیں :

’’انصاف ایں است کہ اگر وجود او درصدر اول ودر زمانہ ماضی بود امام الآئمہ وتاج المجتهدین شمرده می شود ‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ان کا وجود گرامی اگر دور اول اور زمانہ ماضی میں ہوتا تو انہیں امام الائمہ اور مجتہدین کی جماعت میں کیاجاتا۔(اتحاف النبلاء ، ص:430)

علامہ سید سلیمان ندوی (م 1373ھ) فرماتے ہیں :

’’ شاہ صاحب(ولی اللہ) کا وجود اس عہد میں ہند کے لیے ایک موہبت عظمیٰ اور عطیہ کبریٰ تھا۔ (مقالات سلیمان 2/44)

امام العصر مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(م 1375ھ) لکھتے ہیں :

آپ بلا نزاع 12 ویں صدی کے مجدد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی میں ان کو خاص ملکہ عطا کیا تھا، آپ کی تصانیف سے ہندوستان کی علمی دنیامیں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگیا۔ (تاریخ اہلحدیث ، ص:406)

شاہ عبد العزیز دہلوی a:

شاہ عبد العزیز دہلوی بن شاہ ولی اللہ دہلوی نے 15 سال کی عمر میں اپنے والد محترم سے علوم عالیہ وآلیہ میں فراغت پائی۔

آپ علم تفسیر،حدیث ، فقہ، سیرت،تاریخ میں شہرہ آفاق تھے،مباحثہ،مناظرہ اور ادیان باطلہ پر ان کو کامل دستگاہ حاصل تھی وہ بلاشبہ میدان علم وفضل کے نامور شہسوار تھے۔

حضرت شاہ عبد العزیز جامع الکمالات والصفات تھے۔ آپ بہت بڑے خطیب ومقرر تھے ان کی تقریر میں بلا کا جادو تھا، آپ کی شیوہ بیانی کا ہر موافق ومخالف پر یکساں اثر ہوتاتھا۔

مولانا سید نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں کہ

’’ بحث ومناظرہ میں اپنے تمام اقران ومعاصرین میں ممتاز تھے اور اس باب میں ان کے موافق ومخالف ان کا لوہا مانتے تھے۔ (اتحاف النبلاء ، ص:296)

حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی بڑے زندہ دل اور حاضر جواب تھے۔ اور بحیثیت مصنف عالمگیر شہرت رکھتے تھے اور ان کے ہم عصر علمائے کرام ان کے علم وفضل اورتبحر علمی کے معترف تھے۔ (تاریخ اہلحدیث ، ص:409۔ رودِ کوثر ، ص:579)

شاہ رفیع الدین دہلویa :

حضرت شاہ رفیع الدین بن حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی عظیم المرتبت عالم دین تھے ان کے بارے میں مولانا سید عبد الحی حسنی ( م 1341ھ) فرماتے ہیں کہ

شاہ رفیع الدین دہلوی بہت بڑے شیخ،امام،عالم کبیر، علامہ دہر،محدث،متکلم،ماہر اصول اپنے دور کی منفرد اور نادرہ روز گار شخصیت تھے۔(نزھۃ الخواطر 7/182)

تمام علوم عالیہ وآلیہ میں ماہر کامل ہونے کے ساتھ متین وسنجیدہ،رحمدل، انصاف پسند ،راست باز،بردبار اور جودوسخا سے متصف تھے۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی خدمات ، ص:144)

شاہ عبد القادر دہلوی a:

شاہ عبد القادر دہلوی بن شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب علم وفضل، جید عالم دین، محدث، مفسر، مجتہد،فقیہ، واعظ، مبلغ، متقی،زاہد،عابد،صاحب تقویٰ وطہارت، منکسر المزاج، متواضع،خلیق اور صاحب کرامات تھے۔

حضرت شاہ عبد القادر متوکل علی اللہ اور متبحر عالم تھے آپ نے اپنی تمام عمر دہلی کی اکبر آبادی مسجد میں درس وتدریس،وعظ وفتاویٰ نویسی اور ریاضت وعبادت میں گزاردی، دنیوی مال ومتاع سے بالکل دلچسپی نہ تھی۔

شاہ صاحب کا عظیم کارنامہ قرآن مجید کا بامحاورہ اُردو ترجمہ اس حسن خوبی سے کیا ہے کہ اہل علم اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ مولانا محمد رحیم بخش دہلوی نے اپنی کتاب ’’حیات ولی‘‘ کسی فاضل کا یہ قول نقل کیا ہے کہ

اگر اُردو زبان میں قرآن مجید نازل ہوتا تو انہی محاورات سے آراستہ ہوتا جن کی رعایت حضرت شاہ عبد القادر دہلوی نے اس ترجمے میں پیش نظر رکھی ہے۔(حیات ولی ، ص:641)

شاہ عبد الغنی دہلوی a:

حضرت عبد الغنی دہلوی بن شاہ ولی اللہ دہلوی علوم اسلامیہ میں یکتائے روز گار تھے۔ درویشانہ زندگی کو اپنا شعار بنالیا تھا۔ ظاہر ی وباطنی فیوض میں شہرت عام رکھتے تھے اور کتاب وسنت کی تعلیم میں بہت دلچسپی لیتے ۔ علمی کمالات میں امتیازی حیثیت حاصل تھی ، بہت بڑے متوکل اور قانع تھے اور ان اوصاف کی وجہ سے ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ دین سے وابستگی کی بنا پر بڑے بڑے رؤساء وامراء ،علماء وفضلا نہایت ادب سے پیش آتے تھے۔ وضع ولباس،اخلاق وعادات اور شکل وشباہت میں اپنے والد حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی سے مشابہت رکھتے تھے۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:63۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کے علمی کارنامے ، ص:158)

شاہ ولی اللہ کی اولاد امجاد : 

اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کو چار بیٹے عطا فرمائے۔ جن کے اسمائے گرامی یہ تھے ۔

1شاہ عبد العزیز دہلوی 1159 ھ / 1239ھ

2شاہ رفیع الدین دہلوی1163ھ/1233ھ

3شاہ عبد القادر دہلوی 1167ھ/1230ھ

4شاہ عبد الغنی دہلوی 1170ھ / 1227ھ

اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کو ایسی نیک اولاد عطا فرمائی جنہوں نے ان کے ادھورے کاموں کی بعد از وفات تکمیل کی اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ کو پیغام نبوی کے آوازہ سے معمور کیا اس وقت پاک وہند میں جو قال اللہ وقال رسول اللہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ سب خاندان ولی الٰہی دہلوی کے فضل وکمال کی خیر وبرکت کی صدائے بازگشت ہے۔

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی(م 1999ء) فرماتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شاہ ولی اللہ دہلوی) ایسے فرزند وجانشین عطافرمائے جو ’’نعم الخلف ونعم السلف‘‘ کے صحیح مصداق ہیں اور جنہوں نے حضرت شاہ صاحب کے جلائے ہوئے چراغ کو نہ صرف روشن وتاباں رکھا بلکہ اس سے سینکڑوں چراغ جلائے پھر ان چراغوں سے چراغ جلتے رہے جن سے اس پورے تحتی بر اعظم (ہندوستان) اور ہندوستان سے باہر بھی کتا ب وسنت ، عقائد حقہ ، اشاعت توحید خالص، رد شرک وبدعت، اصلاح رسوم، تزکیہ نفس ، حصول درجہ، احسانی، اعلائے کلمۃ اللہ ، جہاد فی سبیل اللہ، حمیت دینی، تاسیس مدارس دینیہ ، دین کی صحیح تعلیمات کی ترجمانی وتبلیغ کے لیے تصنیف وتالیف اور تراجم قرآن وکتب حدیث وفقہ کا مبارک سلسلہ اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک جاری ہے۔ (تاریخ دعوت وعزیمت 5/343)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادگان عالی مقام کی ولادت اس طرح ہے :

1شاہ عبد العزیز دہلوی 1159 ھ 

2شاہ رفیع الدین دہلوی1163ھ

3شاہ عبد القادر دہلوی 1167ھ

4شاہ عبد الغنی دہلوی 1170ھ

مگر ان چاروں ذی وقار بھائیوں کی وفات کی ترتیب یہ ہے :

1شاہ عبد الغنی دہلوی 1227ھ

2شاہ عبد القادر دہلوی 1230ھ

3شاہ رفیع الدین دہلوی1233ھ

4شاہ عبد العزیز دہلوی 1239ھ

کہ ترتیب منعکسہ در رحلت برادران واقع شد یعنی اول مولوی عبد الغنی کہ خورد ترین ہمہ ہا بودند بعد ازاں مولوی عبد القادر از اوشان بعدہ ، مولوی رفیع الدین کلاں از اوشان حالانکہ کلاں سال از اوشان ہستم باری ماست

ہم چاروں بھائیوں میں وفات کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے مولوی عبد الغنی فوت ہوئے جو سب سے چھوٹے تھے اس کے بعد مولوی عبد القادر ان کے بعد مولوی رفیع الدین جو اُن سے بڑے تھے حالانکہ سب سے بڑا میں ہوں اور میری باری تھی۔ ( تذکرہ شاہ ولی اللہ ، ص:308)

حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی a

حضرت مولانا شاہ اسمعیل شہید دہلوی کے علم وفضل اور ان کے مجاہدانہ کارناموں کا ارباب سیر اور علمائے اسلام نے بڑے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے آپ ایک بہت بڑے عالم دین، دینی مفکر اور مدبر، بلند پایہ خطیب، مقرر، مبلغ، عظیم مجتہد اور فقیہ ،دانشور، ادیب،محقق، مورخ، مصنف، معلم ، متکلم، متبع سنت نبوی ، قاطع بدعت، ذہین وفطین، تحریک آزادی کے میر کارواں، حافظ قرآن ، متبحر عالم دین، حق گوئی وبیباکی کے شہسوار، عابد ،زاہد، شب زندہ دار، زہد وورع کے پیکر، تقوی وطہارت میں اعلیٰ وارفع ، شجاعت وبسالت،شرافت ،ذکاوت،عدالت،ثقاہت اور جرأت اور حد درجہ مردم شناس تھے ۔

مولوی رحمان علی بریلوی فرماتے ہیں کہ

ابن مولوی عبد الغنی بن مولانا شاہ ولی اللہ درایا قوت ورسائی فکر یگانہ روزگار مشارٌ الیہ علمائے کبار بود

یعنی مولوی عبد الغنی کے یہ فرزند اور مولانا شاہ ولی اللہ کے پوتے ریاضت اور فہم میں یگانہ روزگار تھے حلقہ ہائے کبار میں مشار الیہ تھے۔ ( تذکرہ علمائے ہند ، ص:179)

مولانا فضل حق خیر آبادی شاہ اسمعیل شہید کے معاصر تھے اور متعدد مسائل میں شاہ صاحب کے سخت مخالف تھے جب انہیں حضرت شاہ صاحب کی شہادت کی خبر ملی تو ایک دم سناٹے میں آگئے اور دیر تک خاموش رہے اس کے بعد فرمانے لگے۔

اسمعیل کو ہم مولوی نہیں مانتے تھے بلکہ وہ امت محمدیہ کا حکیم تھا امام رازی نے اگر علم حاصل کیا تو دودچراغ دکھا کر اور اسمعیل نے محض اپنی قابلیت اور استعداد خداداد سے۔ (الحیاۃ بعد المماۃ ، ص:110)

شاہ صاحب ایک جید عالم دین ، دینی مفکر، قاطع بدعت، بلند پایہ مبلغ خطیب ومقرر اور عظیم مجتہد تھے وہ غیر معمولی وسعت کے مالک اور ذہین وفریس تھے ۔ (شاہ عبد العزیز اور اُن کی علمی خدمات ، ص:180)

اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مصنفین نے لکھا ہے کہ

شاہ اسمعیل شہید اپنے کمالات کے باعث رب ذوالجلال کی قدرت کا ایک نمونہ تھے۔ (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ ، ص: 752)

علامہ اقبال کا فرمان تھا کہ

اگر مولانا محمد اسمعیل شہید کے بعد ان کے مرتبہ کا ایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ (تاریخ اہلحدیث مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، ص:414)

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ

جہاں تک مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید کا تعلق ہے وہ ان اولو العزم عالی ہمت،ذکی جری اور غیر معمولی افراد میں تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ مجتہدانہ دماغ کے مالک تھے اور اس میں ذرا مبالغہ نہیں کہ ان میں بہت سے علوم کو ازسر نو مدون کرنے کی قدرت وصلاحیت تھی۔ (تاریخ دعوت وعزیمت ، 5/378)

مولانا علی میاں مرحوم اپنی دوسری کتاب’’کاروان ایمان وعزیمت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

آپ کی زبان میں ایسی تأثیر تھی کہ پتھر موم،دشمن دوست،منکرمعتقد ہوجاتا تھا علمی کمالات کے ساتھ دولت باطن اور کمالات روحانی سے بھی مالامال تھے۔ (کاروان ایمان وعزیمت ، ص:28۔31)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنے بھتیجے مولانا شاہ اسمعیل شہید اور نواسے شاہ محمد اسحاق کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ

یعنی شکر ہے اس ذات کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسمعیل اور اسحاق جیسے بیٹے عطا کیے۔ ( الحیاۃ بعد المماۃ ،  ص:49)

شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی فرمایا کرتے تھے کہ

برائے رہبری قوم فساق

دوبارہ آمد اسمعیل واسحاق (ایضا ، ص:197)

مولانا غلام رسول مہر مرحوم فرماتے ہیں کہ

ایسا باعمل،فاضل بے بدل، صاحب اخلاق،شہرہ آفاق المعی زماں ، لوذعی دوراں، واقف علوم معقول ومنقول کاشف وقائق فروع واصول، رافع اعلام توحید وسنت، قامع بنیان شرک وبدعت، فتوت کردار، شجاعت وثار اس وقت ہم نے کہیں نہ سنا دیکھنا تو کیا۔ ( تذکرئہ شہید ، ص: 321)

ڈاکٹر محمد باقر لکھتے ہیں کہ

خلافت راشدہ کے بعد اسلام نے حقیقی نمونے کے بہت کم مسلمان پیدا کیے اور شاہ اسمعیل شہید جیسے راسخ العقیدہ مسلمان تو اس سے بھی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ (اسمعیل شہید مرتبہ عبد اللہ بٹ ، ص : 30)

متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی ( م 1987) نے حضرت شاہ اسمعیل شہید کا تعارف دو الفاظ میں کرایا ہے

فرزند توحید ‘‘ تھے۔ (تذکرہ شہید ، ص:10)

ڈاکٹر تصدق حسین خالد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ

برطانوی سامراج نے تحریک ترغیب محمدیہ کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن یہ عظیم الشان تحریک نابود نہ ہوسکی کیونکہ اس تحریک کے باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جن کی زندگیاں ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھیں اور ان کے سینے میں ایک شمع فروزاں تھی جس سے وہ غیر اسلامی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے یہ بیداری اس مذہی اصلاح اور ملی احساس کا نتیجہ تھی جسے شمس الہند حضرت شاہ عبد العزیز اور اُن کے بلند مرتبہ مقلدین شاہ اسمعیل شہید اور سید احمد بریلوی رحمہم اللہ نے پیدا کی۔ ( اسمعیل شہید مرتبہ : عبد اللہ بٹ ، ص:70)

مولانا سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں کہ

شاہ اسمعیل شہید حقیقی معنوں میں قدرتی خدمت گار تھے وہ خدا کی زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرکے دنیا میں عدل وانصاف، حق وصداقت اور امن کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن یہ ان کی یہ اسلامی تحریک بھی مسلمانوں کی غداری کے باعث کامیاب نہ ہوسکی۔ (ایضاً ، ص:144)

امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م 1956ء) لکھتے ہیں کہ

مولانا شاہ محمداسمعیل شہید دہلوی ائمہ دین ، فقہائے متین اور بلند پایہ محدثین میں سے تھے آپ قاطع شرک وبدعت وماحی محدثات وکفریات تھے۔

اتباع سنت اور اجتناب از بدعت کا جو بیج آپ کے دادا شاہ ولی اللہ نے بویا تھا وہ آپ کے زمانہ میں خوب پھیلا اور جو کام انہوں نے شروع کیا تھا آپ نے اس کو انجام تک پہنچایا آپ اسلام کے ان اولو العزم ، عالی ہمت، ذکی،جری اور غیر معمولی افراد میں سے تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ( تاریخ اہلحدیث ، ص: 413۔414)

مولانا قاضی محمداسلم سیف فیروزپوری مرحوم لکھتے ہیں کہ

شاہ ولی اللہ دہلوی نے برصغیر میں قرآن وحدیث کی جو تحریک شروع کی اور فقہ الحدیث کے نام سے حدیث فہمی کی جو طرح ڈالی اس کا نقطۂ آغاز شاہ ولی اللہ اور اس کا نقطۂ انجام شاہ اسمعیل شہید سے مکمل ہوا۔ (تحریک اہلحدیث تاریخ کے آئینے میں، ص:231)

نامور دیوبندی عالم دین مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

فالشیخ اسمعیل الشہید من ذلک الجیل أو من ذلک الرعیل الذی یشبہ تماماً بأؤلئک الصحابۃ الذین کانواولی نفوس قدسیۃ وأرواح زکیۃ وقلوب تقیۃ

شیخ اسمعیل شہید ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں نفوس قدسیہ،ارواح زکیہ اور قلوب تقیہ کے مالک حضرات صحابہ کرام سے مکمل طور پر مشابہت حاصل ہے۔ ( دیباچہ طبقات از مولانا اسمعیل شہیددہلوی ، ص:2)

حضرت شاہ محمد اسمعیل دہلوی کی دینی ، مذہبی ، علمی وجہادی خدمات

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (البقرۃ :154)

’’اور اللہ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔‘‘

جہاں تک مولانا شاہ اسمعیل شہید دہلوی کا تعلق ہے وہ ان اولو العزم عالی ہمت ، ذکی ، جری اور غیر معمولی افراد میں تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے وہ جید عالم دین، مجتہد، فقیہ، واعظ، مقرر،مبلغ، قاطع شرک وبدعت، متبع سنت اور مجاہد تھے۔ بقول شاعر

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا

آپ کی ولادت 12 ربیع الثانی 1193ھ / 12 اپریل 1779ء ہے۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات ، ص:169)

تعلیم وتربیت :

6 سال کی عمر میں حفظ قرآن مجید سے تعلیم کا آغاز ہوا اور 2 سال کی مدت میں آپ نے قرآن مجید حفظ کر لیا اس کے بعد آپ نے علوم عالیہ وآلیہ کی تحصیل جن اساتذہ کرام سے کی ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :

والد محترم شاہ عبد الغنی دہلوی (م 1227ھ)

تایا محترم شاہ عبد القادر دہلوی ( م 1230ھ)

تایا محترم شاہ عبد العزیز دہلوی ( م 1239ھ)

تایا محترم شاہ رفیع الدین دہلوی ( م 1233ھ)

مولانا عبد الحی بڈھانوی ( م 1242ھ)

یہ سب حضرات اپنے عہد کے اساطین علم وفن تھے۔

فراغت تعلیم کے بعد : 

فراغت تعلیم کے بعد حضرت شاہ اسمعیل میدان عمل میں اُترے اور علوم اسلامیہ کی تدریس اور وعظ وتبلیغ سے آغاز کیا ان کا وعظ بڑا پُر تأثیر اور دل پذیر ہوتا تھا ان کا وعظ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہوتا تھا کوئی بات اپنے وعظ وعظ اور تقریر میں بیان نہیں کرتے تھے جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہ ملتا ہو۔

حضرت شاہ اسمعیل نے لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لیے جامع مسجد دہلی سے وعظ وتبلیغ کا آغاز کیا آپ نے شرک وبدعت اور جاہلانہ رسومات کی پُر زور تردید کی آپ جب تک حیات رہے ۔ قرآن وحدیث کی خدمت کی ، اللہ تعالیٰ کی توحید کی منادی کی ، شرک وبدعت اور جاہلانہ رسومات کی تردید کی ۔ بقول مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ( م 1966ء)

1230ھ میں مولانا شاہ عبد القادر دہلوی نے رحلت فرمائی ۔ تو حضرت شاہ اسمعیل نے درس وتدریس کا بیڑا اٹھایا اور خاندانی روایات کے مطابق مسند تدریس کو زینت بخشی ۔

لیکن آپ زیادہ عرصہ تک تدریس کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ اس سے قبل آپ حضرات امیر المؤمنین سید احمد (رائے بریلوی) کی بیعت ہو چکے تھے اور حضرت سید احمد مع اپنے رفقاء فریضۂ حج بیت اللہ کے طرف حجاز روانہ ہوئے اور حضرت شاہ اسمعیل بھی ان کے ہمراہ شریک سفر ہوگئے ۔ تاہم جتنا عرصہ بھی حضرت شاہ صاحب نے درس وتدریس میں گزرا آپ سے بہت سے ذی وقار علمائے کرام نے علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا چند ایک مشہور تلامذہ یہ ہیں

حضرت سید احمد شہید ( ش 1246ھ) ، مولانا سخاوت علی جون پوری ( م 1264ھ) ، مولانا عبد الحق بنارسی (م 1276ھ) مولانا عبد اللہ علوی ( م 1363ھ) ، مولانا معین الدین سہوانی ( م 1372ھ) ۔(تذکرہ شہید ، ص:74)

فریضۂ حج اور مراجعت : 

1236ھ / 1820ء حضرت شاہ اسمعیل ، مولانا عبد الحی بڈھانوی اور دوسرے بے شمار رفقاء حضرت امیر المؤمنین سید احمد کی قیادت میں سفر حج کے لیے روانہ ہوئے ۔ 28 شعبان 1337ھ / 1821ء آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد محرم 1338ھ کے آخر میں وہ مع رفقاء مکہ مکرمہ سے سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوئے او ردس گیارہ دن کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گئے اور وہاں ایک ماہ قیام کے بعد 9 ربیع الاول 1238ھ کو واپس مکہ معظمہ تشریف لے آئے رمضان المبارک مکہ مکرمہ میں گزارا اور 15 شوال 1238ھ / 25 جون 1823ء کو مکہ مکرمہ سے سوئے وطن (ہندوستان) روانہ ہوئے اور 20ذوالحجہ 1238ھ / 16 اگست 1823ء کو بمبئی اور 6 صفر 1239ھ / 12 اکتوبر 1823ء کو کلکتہ پہنچ گئے اور کلکتہ میں 6 ماہ قیام کے بعد 29 شعبان 1239ھ / 1824ء مع رفقاء دہلی تشریف لائے۔ (اسمعیل شہید مرتبہ : عبد اللہ بٹ ،  ص: 37۔ تذکرہ شہید ، ص: 129)

جہاد کی تبلیغ

ابتدائے آفرینش سے ہی حق وباطل کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی چلی آرہی ہے، علامہ اقبال کا شعر ہے ۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

1239ھ/1824ء میں حضرت شاہ اسمعیل فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو حضرت سید احمد کے فرمان کے مطابق جہاد کے لیے دعوت وتنظیم میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ مولانا عبد الحی بڈہانوی بھی سفر وحضر میں آپ کے ساتھی تھے چنانچہ حضرت شاہ صاحب نے اپنے رفقاء حضرت سید احمد کے فرمان کے مطابق فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے 17 جمادی الثانی 1241ھ / 17 جنوری 1826ء رائے بریلی سے سرحد پہنچے۔

روانگی کے وقت مجاہدین اسلام کی تعداد پانچ ہزار چھ سو سے زیادہ نہ تھی کیونکہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ فی الحال اسی تعداد پر اکتفا کیا جائے گا اور سرحد میں حالات کا جائزہ لینے کے بعد اگر ضرورت محسوس ہوئی تو باقی مجاہدین کو بھی بلا لیا جائے گا۔ (تذکرہ شہید ، ص:162)

سکھوں کے خلاف اعلان جنگ

18 جمادی الاولی 1242ھ / 18 دسمبر 1826 کو اکوڑہ کے مقام پر سکھوں سے جنگ ہوئی اس جنگ میں سکھوں کا بڑا جانی نقصان ہوا۔شاہ صاحب اس جنگ میں میر اول دستہ کی کمان کر رہے تھے۔ مسلمان فوج کا سامان حرب بھی کم تھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو فتح وکامرانی نصیب ہوئی۔ ( اسمعیل شہید ، مرتبہ : عبد اللہ بٹ ، ص: 42)

دوسری جنگوں میں حضرت شاہ اسمعیل نے حصہ لیا اور ہر جنگ میں اپنی شجاعت وبسالت کے جوہر دکھائے۔

معرکہ بالاکوٹ :

29 شعبان 1246 کو حضرت شاہ اسمعیل مع اپنے رفقاء بالاکوٹ تشریف لے گئے اور سکھوں سے ایک زبردست جنگ ہوئی اور یہ جنگ حضرت سید احمد کی قیادت میں لڑی گئی۔ سید صاحب نے تمام جماعتوں کے امراء کو حکم دے رکھا تھا کہ مورچوں میں بیٹھ کر دفاع کریں اور اس وقت تک باہر نہ نکلیں جب تک کہ ہمارا نشان آگے بڑھتا ہوا نظر نہ آئے اچانک سکھوں کی طرف سے گولیوں کی موسلادھار بارش ہونے لگی۔ بعض غازی زخمی ہوگئے یہ دیکھ کر سید صاحب مسجد بالا سے مجاہدین کے ایک دستے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حضرت شاہ صاحب نے دیکھا تو اپنے مورچے سے نکل کر سید صاحب کے ساتھ مل گئے تو آپ نے مجاہدین کو حکم دیا کہ سید صاحب کے اردگرد جمع ہوجائیں اس کے بعد بڑے گھمان کا دن پڑا۔ سکھ فوج اگرچہ مجاہدین کی نسبتاً 12 گنا زیادہ تھی لیکن غازیوں نے بڑی عزیمت واستقامت کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کیا۔ غازی بچھڑے ہوئے شیروں کی طرح جس طرف رخ کرتے دشمن کی صفیں الٹ دیتے حتی کہ سکھ پسپا ہوگئے اور آخر کنور شیر سنگھ (کمانڈر) نے خود تلوار ہاتھ میں لی اور آگے بڑھنا شروع کیا۔ جہاں سنگ اسے روک رہا تھا لیکن اس نے کچھ نہ سنا اور آگے ہی بڑھتا گیا اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی میدان میں لڑنے کے لیے اُبھارنا شروع کیا۔ سکھ فوج واپس آگئی اور اس نے بڑی شدت سے حملہ کیا الغرض دونوں فوجیں بڑی بہادری سے لڑتی رہیں۔ اور فریقین کی طرف سے بڑی زبردست آتشبازی ہوتی رہی۔ سید احمد صاحب اور شاہ صاحب نے شجاعت کے خوب خوب جوہر دکھائے حتی کہ سکھ مورخ سردار مہتاب سنگھ نے بھی لکھا ہے کہ

خلیفہ سید احمد شاہ اور مولوی اسمعیل بھی جو فوج کے سب سے بڑے سردار تھے یہ بذات خود حملے میں شریک ہوگئے وہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہویتر کی زمین میں پہنچ گئے ، زور زور سے کہہ رہے تھے ، دیکھو کافر شکست کھا کر جارہے ہیں۔

فریقین میں بڑا زبردست مقابلہ ہوتا رہا بالآخر مشیت الٰہی کے مطابق اس معرکہ میں سید صاحب،شاہ صاحب اور دیگر بہت سے مجاہدین اسلام جام شہادت نوش فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون (تذکرہ شہید ، ص:224۔225)

یہ واقعہ 24 ذی قعدہ 1246ھ مطابق 5 مئی 1831ء پیش آیا۔

مولانا محمد خالد سیف فیصل آبادی کا خراج تحسین :

مولانا خالد سیف حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ

بہر آئینہ 24 ذی قعدہ 1246 مطابق 5 مئی 1831ء جمعۃ المبارک کے دن یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت امام صاحب(شاہ اسمعیل) اپنے پیرومرشد اور دیگر جانثار رفقاء سمیت جان پر کھیل کر میدان میں لڑے۔ علماء سوء کی تفریق انگیز حرکات ، افغان سرداروں کی جاہلانہ عصبیت، سرحد کےخوانین کی غداری اور دشمن کے پاس ہر طرح کے سامان حرب کی فراوانی کے باعث اگرچہ موت صاف نظر آرہی تھی لیکن شہادت کی آرزو دلوں میں موجزن تھی اس لیے بےسروسامانی کے عالم میں بھی لڑے اور اس طرح کہ اس فرشتہ سیرت قافلہ حریت کے نعرہ حق سے دشت وجبل گونج اُٹھے۔ اس وقت تک یہ قافلہ اہل حق رواں دواں ہی رہا جب تک کہ اس نے اپنے مقدس خون سے بالاکوٹ کی گل بوش وادی کو لالہ زار بنا ڈالا ، آج بھی بالاکوٹ کے دشت وجبل سے ان کے نعرہ مستانہ کو گونجتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی ہے ۔

ہرگز نہ میرد آنکہ دش زندہ شدبہ عشق

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما (تذکرہ شہید ، ص:226)

مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م 1999ء ) لکھتے ہیں کہ

عمومی دعوت واصلاح کے اس عظیم کام کے ساتھ آپ (شاہ اسمعیل شہید) نے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنے آپ کو پورے طور پر تیار کیا۔ سید صاحب (جن سے آپ نے بیعت سلوک وبیعت جہاد کی تھی) نہ صرف ہم رکابی اور رفاقت کا حق ادا کیا بلکہ اس کام میں آپ کی حیثیت تحریک کے ایک قائد اور امیر کے وزیر ونائب کی تھی پھر اسی کام میں اپنی ہستی فنا کر دی اور بالا کوٹ کے معرکہ میں شہادت کا شرف حاصل کیا۔اقبال نے ایسے ہی حضرات کے متعلق کہا ہے۔

تکیہ بر حجت و اعجاز بیاں نیز کنند

کار حق گاہ بہ شمشیر و سناں نیز کنند

گاہ باشد کہ تہ خرقہ زدہ می پوشند

عاشقاں بندۂ حال اندوچناں نیز کنند

(تاریخ دعوت وعزیمت 5 / 279)

مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ

حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی کی خصوصیات اعلی وارفع کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دعوت واصلاح امت کے جو بھید پرانی دہلی کے کھنڈروں اور کوٹلہ کے حجروں میں دفن کر دیئے گئے تھے اب اس سلطان وقت واسکندر عزم کی بدولت شاہجہان آباد کے بازاروں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ان کا ہنگامہ مچ گیا اور ہندوستان کے کناروں سے بھی گزر کر نہیں معلوم کہاں کہاں تک چرچے اور افسانے پھیل گئے جن باتوں کے کہنے کی بڑوں بڑوں کو بند حجروں کے اندر بھی تاب نہ تھی وہ اب برسر بازار کی جارہی اور ہورہی تھیں اور خونِ شہادت کے چھینٹے حرف وحکایات کو نقوش وسواد بناکر صفحۂ عالم پر ثبت کر رہے تھے۔

آخر تو لائیں گے کوئی آفت فغاں سے ہم

حجت تمام کرتے ہیں آج آسماں سے ہم

(تذکرہ ، مطبوعہ لاہور 1999ء ، ص:270)

مولانا سید محمد میاں رحمہ اللہ :

حضرت شاہ شہید رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

ملک وملت کا وہ سرفروش مجاہد جس کا عمل فلسفہ ولی اللہ کی تفسیر تھا اور جس کا ایثار وقربانی ذبیح اللہ کی زندہ تصویر اور جس کا دل دولت درد سے مالا مال تھا۔ (علمائے ہند کا شاندار ماضی 2/195)

خاندان ولی الٰہی دہلوی کے بارے میں محی السنہ والا جاہی حضرت مولاناسید نواب صدیق حسن خاں رئیس بھوپال کے ارشادات فرماتے ہیںکہ

ہر یکے از ایشاں بے نظیر وقت وفرید ودہر وحید عصر درعلم وعمل وعقل وفہم وقوت تقریر وفصاحتِ تحریر ور ع وتقوی ودیانت وامانت ومراتب ولایت بوددهم چنیں اولاد اولاد ایں سلسلہ طلائے ناب است۔

یعنی اس خاندان کا ہر فرد علم وعمل،عقل وفہم، زورِ تقریر،فصاحتِ تحریر ورع وتقوی، دیانت وامانت اور مراتب ولایت میں یگانہ روزگار، فرید دہر اور وحید عصر تھا ان کی اولاد کی اولاد بھی انہی بلند درجات بلند پر فائز تھی۔ یہ ایک زریں سلسلہ تھا۔(اتحاف النبلاء ص 430)

دوسری کتاب میں فرماتے ہیں کہ

وكلهم كانوا علماء نجباء حكماء فقهاء كأسلافهم وأعمامهم كيف وهم من بيت العلم الشريف والنسب الفاروقي المنيف ( ابجد العلوم ص 914)

اور اس خاندان کاہر فرد اپنے اسلاف اور اعمام کی طرح عالم دین صاحب مرتبت حکیم وفقیہ تھا کیوں نہ ہوتا یہ حضرات علم وعمل میں یکتائے زمانہ ہونے کے ساتھ نسب عالی فاروقی کے بھی تو حامل تھے۔

عبد المجید سالک فرماتے ہیں کہ

بلائیں جن کی قوم لے تمہی وہ شہسوار ہو

تمہی وہ سرفروش ہو تمہی وہ جاں سپار ہو

تمہی دفاع و احترام دیں کے ذمہ دار ہو

جو تم نہ ہو تو امن کی بناء نہ استوار ہے

تمہاری تیغ ضامن نظام کائنات ہے

( اسمعیل شہید ، مرتبہ : عبد اللہ بٹ ، ص:24)

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے