پیارے بچو ! سابقہ قوموں کی بات ہے کہ ان میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا ۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہوا تو بادشاہ سے بولا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دے کہ میں اس کو جادو کی تربیت دوں ۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا  وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا ۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا ( عیسائی درویش یعنی پادری تارک الدنیا ) ، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اس کا کلام سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں ۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا ، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو ( دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا ۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا تو راہب نے کہا : جب تو جادوگر سے ڈرے ، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے ، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا ۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک رکھا تھا ۔ لڑکے نے کہا : آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر سچا ہے یا راہب ؟ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو ، تو اس جانور کو قتل کردے تاکہ لوگ گزر جائیں ۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے ۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے ، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا ۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا ۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا تھا ۔ یہ حال جب بادشاہ کے مصاحب جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا : یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے ۔ لڑکے نے کہا : میں کسی کو اچھا نہیں کرتا ، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا ۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا ۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا ۔ بادشاہ نے کہا : تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا : میرے مالک نے ۔ بادشاہ نے کہا : میرے سوا تیرا مالک کون ہے؟ وزیر نے کہا : میرا اور تیرا مالک اللہ ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب دینا شروع کیا ، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا ۔ وہ لڑکا بلایا گیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا : اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہے اور بڑے بڑے کام کر گذرتا ہے؟ وہ بولا : میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا

بلکہ اللہ اچھا کرنے والا ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور

مارتا رہا ، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتا دیا ۔ راہب پکڑ لیا گیا ۔ اس سے کہا گیا : اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا ، یہاں تک کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا ، اس سے کہا گیا : تو اپنے دین سے پھر جا ، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا ، اس سے کہا : اپنے دین سے پلٹ جا ، اس نے بھی نہ انکار کیا ۔ تو بادشاہ نے اسے اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو ، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، نہیں تو اس کو گرا دو ۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا ۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا ۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے ۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا ۔ بادشاہ نے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ اس نے کہا : اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا ۔ وہ لوگ اس کو لے گئے ۔

لڑکے نے کہا : الٰہی ! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے ۔ وہ کشتی الٹی اور لڑکے کے سوا سب لوگ ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آ گیا ۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا : اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا : تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا ، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے ۔ بادشاہ نے کہا : وہ کیا؟ اس نے کہا : تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ ، پھر کہہ : اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ پھر تیر مار ۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کر سکے گا ۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا ، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا ، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا ۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا ۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا : ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ۔ کسی نے بادشاہ سے کہا : اللہ کی قسم ! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے ۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا ۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا : جو شخص اس دین سے ( یعنی لڑکے کے دین سے ) نہ پھرے ، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو ، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا ، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا ، اس عورت نےآگ میں گرنے سے تردد کیا تو بچے نے کہا : اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔( صحیح مسلم : 7511 )

پیارے بچو! مذکورہ قصہ سے ہمیں بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوئی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں ۔

n بنی اسرائیل کے صحیح سند سے ثابت شدہ واقعات بیان کرنا درست ہے ۔

nاللہ کے ولی ہی کامیاب ہوں گے ۔

nسحر و جادوگر ہمیشہ ناکام ہی رہے ہیں ۔

nاچھی مجلس میں شرکت کرنے کے لیے جھوٹا بہانا بنایا جاسکتا ہے ۔

nجادوگر کا وقتی طور پر اثر ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کو سیکھنا اور سکھانا گمراہی اور کفر ہے ۔

nمذکورہ واقعہ سے دینی علم اور اس کے طالب علم کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔

nبرے اور اچھے کو آزمائیں اچھے کو اپنائیں اور برے سے پرہیز کریں ۔

nہر چیز اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو کرتا ہے وہ اپنی قدرت سے کرتا ہے ۔

nاہل حق کا توکل و اعتماد صرف اللہ تعالی پر ہی ہوتا ہے وہ کسی باطل قوت سے لرزہ نہیں کرتے ۔

nحق پر آزمائشیں آئیں گی لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑنا۔

nدین پر استقامت اختیار کرنے والے کے نتائج انتہائی خوبصورت اور کامیابی والے ہوتے ہیں ۔

nظالم کے ظلم سے بچنے کے لیے بارگاہ الہی میں دعائیں کرنی چاہیے ۔

nاللہ والوں کی کشتی نہیں ڈوبتی یعنی وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔

nجب انسان اللہ کے تابع ہوجائے تو ساری مخلوق اس کے تابع ہو جاتی ہے ۔

nراہ الہی میں بال بچوں کی قربانی دینا آخرت میں کامیابی کا پختہ یقین ہے ۔

nانجام کے اعتبار سے ہمیشہ حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل مغلوب ہوتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے