یہ بات تو بالکل اظهر من الشمس ہے کہ نبی معظم ہماری محبت کے محتاج نہیں ہم ان سے محبت کریں یا نہ کریں ان کی عزت،عظمت،مقام اور مرتبہ میں کوئی فرق نہیں آئے گالیکن اس کے برعکس رسول اللہ سے محبت کیے بغیر ہمارا گزارا نہیں ۔

نبی معظم سے محبت کے بغیر ہمارا اس دنیا میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ ایک مسلمان اور دشمن اسلام کی نشاندہی بھی اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے ان اعمال میں بھی سب سے بڑ ارتبہ اور مقام نبی کو ہی حاصل ہے ۔

قارئین کرام! آپ یہ بات جانتے ہیں کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کےلئے کیا کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے محب اپنے محبوب کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے اور حالت مسرت میں دیکھنا پسند کرتا ہے اور وقت آنے پر وہ اپنے محبوب کے اشارے پر جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو جا تا ہے وہ اپنے محب کی کسی بات کو ٹھکرانا گوارہ نہیں کرتا بلکہ فورا ماننے کے لئے تیارہو جانا اس کی محبت کا دستور قرار پاتا ہےحالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے محبوب کے دل میں اس کے لئے کیا راز مخفی ہے وہ محبوب کا حال دل جانے بغیر بھی اس کو اتنا پسند کرتا ہے کہ دنیا میں اس کو اپنے محبوب کے بغیر ہر چیز دھندلی محسوس ہوتی ہے وہ محبت میں اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی ہر چھوٹی بڑی عاد ت کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ وہ اپنی زندگی کو ہر حال میں اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔

قارئین کرام!یہ تو ایک اس شخص کا معاملہ ہے جو دنیا کے محبوب کے لئے یہ سب اعمال کرتا ہے اور دوسری طرف ہم مسلمان ہیں جو ہر وقت نبی کریم سے محبت کے جھوٹے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ گرم جوش نعروں کی آڑ میں حدوداللہ کو پامال کر بیٹھتے ہیں اور جب وہ یہ پامال کر بیٹھتا ہے تب وہ دین اسلام میں نئی ایجادات کا ادخال وادراج کرتا ہے جس کا دین اسلام سے اور نبی کریم کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

محترم قارئین کرام!پیغمبر آخر الزمان کے ساتھ محبت ایمان کا ایک جزءہے نبی کریم سے محبت اور نفرت میںہی ایک انسان کے ایمان اور نفاق کا راز مضمر ہے اسی طرح کئی احادیث میں بھی رسول اللہ نے ہمیں اپنے ساتھ محبت کی ترغیب دے کر محبت رسول کے انداز اور طریقہ کو واضح کیا ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ هِشَامٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللہُ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لاَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللہِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الآنَ يَا عُمَرُ(صحیح البخاری:6632 )

سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی کریم کے ہمراہ تھے جبکہ آپ نے سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ میری جان کے علاوہ مجھے ہر چیز سے زیادہ ہیں۔ نبی کریمﷺ نے انہیں فرمایا: نہیں نہیں،مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا) جب تک میری ذات تمہیں اپنی جان سے بھی ذیادہ عزیز نہ ہو۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کی قسم! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی نے فرمایا: ”اے عمر! اب (تیرا ایمان مکمل ہوا ہے)۔“

قارئین کرام ! یہ حدیث محبت رسو ل پر ایک واضح اور روشن دلیل ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرکے ہی انسان ایک کامل مسلمان بن سکتا ہے اور نبی اکرمﷺ سے محبت میں کچھ کمی ہے تو وہ اس کے ایمان کے نقص کی دلیل ہے۔

یہ بات بھی آپ سب کے علم میں ہے کہ محبوب کے اپنے محب سے کچھ محبت کے تقاضے ہوتے ہیں جس کو پورا کرنا محب پر اجباری (ضروری ) ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایک مسلمان جو اپنے محبوب رسول اکرم سے محبت کرتا ہے اس پر بھی کچھ تقاضے وارد آتے ہیں ۔

.4نبی اکرم سے محبت کے تقاضے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

1 اطاعت رسول اللہ :

سب سے پہلا اور بنیادی تقاضہ جو ہم پر وارد ہوتا ہے وہ اطاعت رسول ہی ہے،نبی کریمﷺ کی اطاعت کے بغیر نہ تو محبت رسولﷺ ممکن ہے اور نہ ہی اطاعت کے بغیر نجات ممکن ہے اطاعت رسول کی ترغیب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں کی ہے ۔

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ (النساء:80)

’’ اس رسول کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی ۔‘‘

اس آیت قرآنی سےاطاعت رسول کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔دوسری جگہ ارشا د فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ (محمد:33)

’’ اے ایما ن والو!اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو ۔‘‘

اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ معصیت رسول سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں،جس شخص نے رسول اکرمﷺ کی اطاعت نہ کی اس کے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں اگرچہ وہ لاکھ محبت رسول کے دعوے کرتا پھرے۔

2 امر بالمعروف والنہی عن المنکر :

محبت رسول اکرم کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جن کاموں کا اللہ کے نبی نے حکم دیا ہے اس کو بغیر تأویلات کے عمل میں لایا جائے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے بغیر کوئی راستہ ڈھونڈے رک جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (آل عمران:110)

’’ تم بہترین امت ہو ، نکالے گئے ہو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کے لئے ۔‘‘

اس آ یت کریمہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امت محمدیہ کو بہترین امت کہنے کی وجہ امر باالمعروف و النہی عن المنکر ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے :

وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ( الحشر:7)

’’جو رسول اکرم تم کو عطا کریں اسے لے لواور جس سے منع کریں اس سے منع رک جائو ۔‘‘

یعنی محمد رسول اللہ کے دئیے ہوئے طریقہ پر عمل کرنا ہی ان سے محبت کا حقیقی تقاضا ہےکیونکہ محب اپنے محبوب کے اقوال واعمال بلا چوں چراں قبول کرکے اس کی پاسداری کرتاہے۔

3سنت مصطفیٰ کی نصرت ، تائید اور شریعت اسلامیہ کا دفاع کرنا سب مسلمان جا نتے ہیں :

نبی کریم نے جس مشن کی خاطر اپنا جان و مال قربان کیا ان کے بعد ان کے پروانے ان کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے ہمہ وقت جانیں لٹا نے کے لئے تیار رہتے تھے اس مشن کے لئے کسی قسم کی بھی قربانی ان کے لئے باعث سعادت اورسرمایہ افتخار ہوتا ہے ۔

ہمارے نبی اکرم کا مشن لوگوں کو کفرو شرک کی وادیوں سے نکال کر نور توحید کی راہ پر گامزن کرنا تھا ، لاکھوں خدائوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی میں لاناتھا ۔

اس مقصد کے لئے نبی اکرم نے اپنا وطن ، مال اور صلاحیتیں قربان کیں ۔

ہمیں چاہیے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے دعوت و تبلیغ اور دین حق کی بالا دستی کے لئے اپنی ساری زندگی لگادیں ۔

رسول اللہ کی زندگی پر عمل کریں اور کسی بھی چیز کے بدلے اپنے ایمان کا سودا نہ کریں اور ہمیشہ سنت نبویﷺ کی تائید کرتے رہیں ،اسلام دشمن عناصر کا بہادری اور جرأت مندی کے ساتھ دفاع کریں اس پر فتن دور میں بغیر کسی فتن کا شکار ہوئے کتاب و سنت سے اپنا رشتہ مضبوط بنا لیں ۔

قارئین کرام!جب عملی زندگی میں سیرت رسول کو اپنانے کی بات آتی ہے تب ہم اپنے آپ کو بہت ہی پیچھے محسوس کرتے ہیں محبت رسول کے کھوکھلے دعوے تو ہر مسلمان کرتا ہے لیکن عملی میدان میں بہت سست اور کاہلی کا شکار ہے۔

آج ہمیں رسول اللہ کی زندگی کو اپنی زندگیوں میں اپنانا بہت ضروری ہے۔

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’بلا شبہ رسول اللہ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب:21)

جب ہم سیرت رسول کو اپنائیں گے تو نصرتیں اور فتوحات ہمارے قدم چومیںگی جس طرح ہم سے پہلے صحا بہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے چوما کرتی تھی۔

آج ہماری زندگیوں میں سیرت رسول کو اپنانے کی شدید ضرورت در پیش ہے کیونکہ دور حاضر کے مسلمان مغلوب اورذلت و رسوائی کا مقدر بنتے جارہے ہیں ،ہر جگہ مسلمان ظلم و بربریت کا شکا ر ہیں ہر گھڑی ہر لمحہ مسلمانوں کی مصیبتیں بڑھتی جا رہی ہیں ان سب پریشانیوں کی بنیادی وجہ سیرت رسول اللہﷺ کا ہماری زندگیوں سے نکل جانا ہے تو آج ہمیں اپنی زندگیوںمیں سیرت رسول کو اپنانا لازم ہے جس کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے اور نہ نجات ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میںمحبت رسول کے تقاضے پورےکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے