پیارے بچو ! رسول کریم اللہ نے فرمایا : پچھلے زمانے میں ( بنی اسرائیل میں سے ) تین آدمی کہیں سفر پر جا رہے تھے کہ اچانک انھیں بارش نے آلیا تو وہ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں ان پر غار کا منہ بند ہو گیا، تووہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم!ہمیں اس مصیبت سے صرف سچائی نجات دلائے گی۔ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جسے وہ جانتا ہو کہ اس میں وہ سچا ہے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا، جس نے ایک فَرَق(تین صاع) چاول کے عوض میرا کام کیا، وہ(غصے کی وجہ سے) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑگیا میں نے ان چاولوں کو کاشت کیا اور اس کی پیداوار سے گائے بیل خرید لیے۔ ایک دن وہی شخص میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری طلب کی تو میں نے کہا: یہ گائے بیل تیرے ہیں، انھیں ہانک کر لے جاؤ۔ اس نے کہا کہ تمھارے پاس میری اجرت صرف ایک فرق (تین صاع)چاول ہیں۔ میں نے اسے کہا: یہ سب گائے بیل لے جاؤ کیونکہ یہ اسی ایک فَرَق(چاولوں)کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ (اے اللہ!)اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہم سے یہ پتھر ہٹا دے، چنانچہ اسی وقت وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گیا۔ پھر دوسرےشخص نے کہا: اے اللہ !تو جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے۔ میں ہر رات ان کے لیے بکریاں کا دودھ لے کر جاتا تھا۔ ایک رات اتفاق سے مجھے دیر ہو گئی۔ جب میں آیا تو وہ سوچکے تھے۔ ادھرمیرے بیوی بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ اور میری عادت تھی کہ میں جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لیتا، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا۔ اب انھیں بیدار کرنا بھی مجھے گوارانہ تھا اور انھیں اسی طرح چھوڑدینا بھی مجھے پسند نہ تھا کہ وہ دونوں دودھ نہ پینے کی وجہ سے کم زور ہو جاتے، اس لیے میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہایہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل دور کردے، چنانچہ اسی وقت پتھر کچھ مزید ہٹ گیا، جس سے انھیں آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد تھی جو مجھےسب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک دفعہ اس سے اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہا مگر اس نے انکار کردیا لیکن اس شرط پر کہ میں اسے سو دیناردوں۔ میں نے مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لیے کو شش کی تو وہ مجھے مل گئی، چنانچہ میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کردی۔ اس نے خود کو میرے حوالے کردیا۔ جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو کہنے لگی:

اللہ سے ڈراور اس مہر کو ناحق نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی اٹھ

کھڑا ہوا اور سودینار بھی واپس نہ لیے۔ اے اللہ!اگر توجانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل آسان کردے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پتھر ہٹا دیا، اس طرح وہ تینوں باہر نکل آئے۔

( صحیح بخاری ؛ 3465 )

پیارے بچو ! مذکورہ واقعے سے ہمیں چند اہم نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں :

1  مصیبت میں اللہ تعالی کو ہی پکارنا چاہیے ۔

2 ہر نیک عمل خاص اللہ کی رضامندی کےلیے کرنی چاہیے ۔

3 ہر مصیبت میں دعا کا سہارا لینا چاہیے ۔

4 مزدور کو اپنا حق ادا کردینے سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔

5 امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔

6  والدین کی فرمانبرداری پر اللہ راضی ہوتا ہے ۔

7 اللہ کےلیے گناہ کو ترک کرنا بھی نیکی ہے ۔

8 نیکیاں مصیبت ٹال دیتی ہیں ۔

9 دیانتدار بندہ کو باری تعالیٰ کی طرف سے اچھا صلہ دیا جاتاہے۔

0اللہ تعالی کو اپنی نیکیوں کا وسیلہ دینا جائز ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے