کیا”التحیات للہ والصلوات والطیبات..الخ“ کے کلمات معراج کے موقع پر دیئے گئے؟

مدثر احمد عفی عنہ

زمانہ ماضی کی نسبت دور حاضر میں ذرائع ابلاغ بہت ہی تیز ہیں ،ہر خبر ،ہر بات، ہر میسج،آناً فاناً دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتاہے اور پھیل جاتا ہےاور صرف تیز ہی نہیںبلکہ ہر فرد کے تصرف میں بھی ہیں۔

 اس صورت حال کے جہاں کچھ فوائد ہیں تو بہت سے نقصانات بھی ہیں،انہی میں سے ایک نقصان بلکہ سب سے بڑا نقصان ،جسکے مضر اثرات چند افراد تک محدود نہیں بلکہ لامتناہی ہیں،اور صرف دنیا کا نقصان نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے،وہ نقصان ،”جھوٹی احادیث کی بھرپور نشر و اشاعت“ہے۔

اگرچہ یہ مسلم حُکّام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسکے روک تھام کے لئے قانون سازی کا راستہ اختیار کریں،اور قانون شکنوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔

تاکہ دین اسلام کے نام پر پھیلایا جانے والا جھوٹ نہ صرف پکڑا جائے،بلکہ اس مذموم عمل کی حوصلہ شکنی ہو،اور اس کے پیچھے پوشیدہ دشمنان اسلام کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا جائے۔

لیکن چونکہ حکومتی سطح پر ایسا کوئی ایکشن دیکھنے کو نہیں ملتاتو اب تاریخ کےہر دور کی طرح اس دور میں بھی ”علماء حق“ کو یہ ذمہ داری نبھانی پڑیگی،حدیث رسول کے دفاع کا اس سے اچھا طریقہ دور حاضر میں شاید کوئی اور نہیں۔

وباللہ التوفیق وھو المستعان و علیہ وحدہ التکلان

سوشل میڈیا پر ایک میسج گردش کرتار ہتا ہے ،جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ ”التحیات للہ والصلوات والطیبات… الخ“کے الفاظ معراج کے موقع پر آپ کو عطاء کئے گئے۔

اور عام طور پر علم حدیث سے شغف رکھنے والےبہت سے علماء کرام اور عوام الناس کی زبانی بھی یہی سننے کو ملا کہ یہ کلمات معراج کے موقع پر دیئے گئے۔

لہذاہم نے اس سلسلے میں حدیث رسول کی مشہور ومعروف کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا،بہت تلاش کے باوجودذخیرہ احادیث میں (صحت و ضعف سے قطع نظر)ایسی کوئی روایت نہ مل سکی،جسکے مطابق ”التحیات ..الخ“کے کلمات معراج کے موقع پر دیئےگئے ہوں۔

پھر کتب احادیث سے ہٹ کر جب ہر فن کی کتب میں تلاش شروع کی تو ایک روایت اور چند حوالے ملے،جن کے مطابق ”التحیات . . الخ“کے کلمات معراج کے موقع پر اس وقت عطاء کئے جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی۔

لیکن جب اس روایت کی اسانید کو ملاحظہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو اندھیروں سے پُر ہیں،لہذا ذیل میں اس عنوان پر ہماری تحقیق ملاحظہ فرمائیں:

پہلی سند:

 احمد بن محمد بن ابراہيم الثعلبی، ابو اسحاق (المتوفیٰ: 427ھ)نے کہا:

روى الزهري عن ابی سلمة بن عبد الرحمن قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم.

امام محمد بن مسلم بن عبداللہ بن شہاب زہری (متوفی:124ھ)نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن (متوفی: 94 یا104ھ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا:میں نے

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما (متوفی:70ھ)سے

سنا وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

دوسری سند:

وحدّثنا أبو القاسم الحسن بن محمد بن جعفر (النیسابوری) قال: أخبرنا أبو علي الحسين بن محمد بن هارون الفرمی قال:أخبرنا أحمد بن محمد بن نصر اللبّاد النیسابوری قال: حدّثنا يوسف بن بلال السعدي قال: حدّثنا محمد بن مروان السدّي عن محمد بن السائب الكلبي  عن أبي صالح عن ابن عباس (رضي الله عنه)

ہمیں بیان کیا ابو القاسم الحسن بن محمد بن جعفر نے انہوں نے کہا:ہمیں خبر دی ابو علی الحسین بن محمد بن ہارون نے انہوں نے کہا:ہمیں خبر دی احمد بن محمد بن نصر اللباد نے انہوں نے کہا:ہمیں بیان کیا یوسف بن بلال السعدی نے انہوں نے کہا کہ:ہمیں بیان کیا محمد بن مروان السدی نےاور السدی(محمد بن مروان السدی، المتوفیٰ: 181 یا 190 ھ) نے روایت کی، محمد بن السائب الکلبی (المتوفیٰ:146ھ)سے، انہوں نے روایت کی باذان ابو صالح ، مولیٰ ام ہانی (المتوفیٰ:150ھ)سے،انہوں نے روایت کی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (المتوفیٰ: 68ھ)سے،انہوں نے روایت کی نبی سے :

تنبیہ:

مذکورہ دونوں سندیں بیان کرنے کے بعد اور متن بیان کرنے سے پہلے ثعلبی نے ان سندوں سے مروی متن کے متعلق کہا:

ثعلبی کا تبصرہ:

دخل كلام بعضهم في بعض قالوا:

’’ان (رواۃ)میں سے کچھ کا کلام بعض دیگر(رواۃ)کے کلام میں شامل ہوگیا ہے۔‘‘

متن:

لما رأيت العرش، اتضع عندي كل شيء، فقربني الله وأدناني إلى سند العرش، ووقعت على لساني قطرة من العرش فما ذاق الذائقون أحلى منها، فأنبأني الله نبأ الأولين والآخرين، وأطلق الله لساني بعد ما كَلَّ من هيبة الرحمن، فقلت: التحيات لله والصلوات الطيبات، فقال الله: سلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته فقلت: السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين…….الخ

جب میں نے عرش باری تعالیٰ دیکھا تو ہر شے میرے لئے حقیر ہوگئی ، پس اللہ نے مجھے عرش کے پائے تک قریب کیا اور میری زبان پر عرش سے ایک قطرہ ٹپکا ، کسی بھی چکھنے والے نے اس سے شیریں کبھی نہیں چکھا،پس اللہ نے مجھے پہلوں اور پچھلوں کی خبریں دیں، اور اللہ نے میری زبان رواں کردی جبکہ وہ رحمٰن کی ہیبت سے بوجھل ہوچکی تھی،پس میں نے کہا:(التحیات للہ والصلوات والطیبات )تمام زبانی تعریفات اور جسمانی عبادات اور مالی صدقات اللہ کے لئے ہی ہیں،تواللہ نے کہا:(سلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ) سلامتی ہو تجھ پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اسکی برکتیں،تو میں نےکہا: السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین. ..الخ)سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر….۔

حوالہ و تخریج و تاریخ:

1-اسے سب سے پہلے مفسر قرآن علامہ احمد بن محمد بن ابراہيم الثعلبی، ابو اسحاق (المتوفیٰ: 427ھ)نے اپنی تفسیر ”الکشف والبيان عن تفسير القرآن“ (6/55 56)میں ذکر کیا،اور اسے امام زہری (المتوفیٰ: 242ھ) اور السدی(المتوفیٰ:181یا 190ھ) کی جانب منسوب کیا،لیکن ان میں سے زہری تک اپنی سند بیان نہیں کی ، نہ ہی کسی محدث کی کتاب کا حوالہ دیا،لہذا وہ منقطع ہے جبکہ السدی تک اپنی سند بیان کی ہے،لیکن وہ ضعفاء سے پر ہے۔

2-نیز علامہ ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله بن احمد السہيلی (المتوفیٰ: 581هھـ)نے اپنی کتاب ”الروض الانف في شرح السيرۃ النبويۃ لابن هشام“ (4/186) میں کہا کہ:

رُوِيَ أَيْضًا أَنّهُ مَرّ وَهُوَ عَلَى الْبُرَاقِ بِمَلَائِكَةِ قِيَامٍ وَمَلَائِكَةٍ رُكُوعٍ وَمَلَائِكَةٍ سُجُودٍ وَمَلَائِكَةٍ جُلُوسٍ وَالْكُلّ يُصَلّونَ لِلّهِ فَجُمِعَتْ لَهُ هَذِهِ الْأَحْوَالُ فِي صَلَاتِهِ وَحِينَ مَثَلَ بِالْمَقَامِ الْأَعْلَى، وَدَنَا فَتَدَلّى أُلْهِمَ أَنْ يَقُولَ التّحِيّاتُ لِلّهِ إلَى قَوْلِهِ الصّلَوَاتُ لِلّهِ فَقَالَتْ الْمَلَائِكَةُ السّلَامُ عَلَيْك أَيّهَا النّبِيّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ فَقَالَ السّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصّالِحِينَ فَقَالَتْ الْمَلَائِكَةُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنّ مُحَمّدًا رَسُولُ اللهِ .

روایت کی گئی ہے کہ نبی  اکرم براق پر سوار ہوکر فرشتوں کے پاس سے گذرے،جن میں سے کچھ قیام میں تھے کچھ رکوع میں کچھ سجود میں کچھ بیٹھے تھے اور سب ہی نماز میں مشغول تھے ، پس یہ تمام حالتیں آپ کی نماز میں شامل کردی گئیںاور جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچے اور قریب ہوئے تو آپ پر وحی کی گئی کہ آپ اس طرح کہیں:”التحیات للہ ..الخ“تو فرشتوں نے کہا:السلام علیک ایھا النبی ..الخ“تو آپ نے کہا:”السلام علینا و علیٰ …الخ“تو فرشتوں نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ..الخ“۔

3-اسکے بعد اسے امام ابو الحسن علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبد الکريم بن عبد الواحد الشيبانی الجزری، عز الدين ابن الاثير (المتوفیٰ: 630هھ)نے اپنی کتاب” الکامل فی التاریخ“(1/652653)میں ذکر کیا،اور اسےکسی کی جانب منسوب نہیںکیا،بلکہ صرف اتنا کہا کہ:

وَقَدْ رَوَى حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ صَحِيحَةٍ.

بہت سے صحابہ نے معراج کی حدیث روایت کی ہےصحیح سندوں کے ساتھ۔

لیکن نہ تو وہ اسانید ذکر کیں جنہیں وہ صحیح قرار دے رہے ہیں نہ ہی صحابہ کرام کے نام لئے کے جن سے واقعہ معراج منقول ہے ، نہ ہی کسی محدث کا حوالہ دیا کہ فلاں محدث نے یہ روایت نقل کی ہے۔

اس کے بعد واقعہ معراج بیان کرتے ہوئےانہوں نےیہ الفاظ ذکر کئے:

فَلَمْ أَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى وَصَلْتُ إِلَى الْعَرْشِ، فَاتَّضَحَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدَ الْعَرْشِ، وَكَلَّ لِسَانِي مِنْ هَيْبَةِ الرَّحْمَنِ، ثُمَّ أَنْطَقَ اللَّهُ لِسَانِي فَقُلْتُ: التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ وَالصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، وَفَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ وَعَلَى أُمَّتِي فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَمْسِينَ صَلَاةً. وَرَجَعْتُ إِلَى جِبْرَائِيلَ..

میں عرش تک پہنچا تو عرش کے پاس ہر شے واضح ہوگئی اور میری زبان رحمٰن کی ہیبت سے بوجھل ہوچکی تھی پھر اللہ نے میری زبان جاری کی تو میں نے کہا:”التحیات المبارکات والصلوات الطیبات للہ“اور اللہ نے مجھ پر اور میری امت پر ہر دن و رات میں پانچ نمازیں فرض کیں،اور میں جبریل کے پاس لوٹ آیا۔

4-اسکے بعد اسے امام شمس الدين ابو المظفر يوسف بن قِزْأُوغلی بن عبد الله المعروف بـسبط ابن الجوزی (المتوفیٰ: 654 ھـ)نے اپنی کتاب ”مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان“(3/140)میں ذکر کیا اور اسےثعلبی کی جانب منسوب کیا۔

5-اسکے بعد اسے امام  جمال الدين السرمری (المتوفیٰ:776ھ)نے اپنی کتاب ”خصائص سيد العالمين وما لہ من المناقب العجائب علی جميع الانبياء عليہم السلام“(ص:525)میں ذکر کیا اور اسے ثعلبی کی جانب منسوب کرتے ہوئے کہا:

وقد رواه الإمام أبو إسحاق الثّعلبي في تفسيره وساق طرقه ولخّص المتن تلخيصاً حسناً أدخل حديث بعض الرواة في بعض.

اسے امام ابو اسحاق الثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور انہوں نے اسکے مختلف طرق بھی بیان کئے ہیں،اور متن کی خوبصورت تلخیص کی ہے،اور بعض رواۃ کی حدیث کو دیگر بعض رواۃ کی حدیث میں داخل کردیا ہے۔

6-امام محمد بن عبد اللطيف بن عبد العزيز، ابن فرشتا، المعروف بابن الملک الکرمانی (المتوفیٰ: 854 ھـ)نے اپنی کتاب ”شرح مصابيح السنۃ للامام البغوی“ (2/24،رقم:644)میںکہا:

رُوي: أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم لمَّا عرج إلى السماء أَثْنَى على الله بهذه الكلمات، فقال الله تعالى: السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، فقال عليه الصلاة والسلام: “السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين”، فقال جبرائيل: أشهد أن لا إله إلا الله. . . إلخ.

روایت کی گئی ہے کہ نبی کو جب معراج کروائی گئی تو آپ نے ان کلمات کے ساتھ اللہ کی ثناء بیان کی،”التحیات للہ …الخ“تو اسکے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:،”السلام علیک ایھا النبی ….الخ“پھر جبریل نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ…الخ“۔

7-عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان الصفوري الشافعي(المتوفیٰ:894 ھ)نے اپنی کتاب ”نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس“ (2/117)میں کہا:

قال العلائي…..وقلت التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله فقال السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته فقلت السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فقال جبريل أشهد أن إله إلا الله وأشهد أن محمد رسول الله.

صلاح الدین العلائی(المتوفیٰ:761ھ)نے کہاکہ:نبی نے فرمایا:میں نے کہا:التحیات المبارکات الوصلوات الطیبات للہ“تو اللہ تعالیٰ نے کہا:”السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ“ تو میں نے کہا:”السلام علینا و علی عباد الللہ الصالحین“ تو جبریل نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ“۔

8-ملا علی القاری الہروی (المتوفیٰ:1014ھ)نے اپنی کتاب ”شرح الشفا“(1/347)میں کہا:

كما روي أنه صلى الله تعالى عليه وسلم ليلة الإسراء لما وصل إلى مقام الانتهاء وقال التحيات لله والصلوات والطيبات وبالغ في الثناء قال الله تعالى السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فأجابه صلى الله تعالى عليه وسلم بقوله اللهم أنت السلام ومنك السلام وإليك يرجع السلام السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فقالت الملائكة أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

جیسا کہ روایت کی گئی ہے کہ نبی شب معراج جب مقام انتہاء کو پہنچے تو کہا:التحیات للہ ..الخ“اور خوب ثناء بیان کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”السلام علیک..الخ“تو نبی نے اسکے جواب میں کہا: السلام علینا …الخ“تو فرشتوں نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ …الخ“۔

تحقیق:

سند و متن دونوں اعتبار سے یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔

سند کے اعتبار سےپہلی سند کی تحقیق:

ثعلبی سے پہلے اسے کسی نے ذکر نہیں کیا ، اور ثعلبی کے بعد اسے جس نے بھی ذکر کیا اس نے اسے ثعلبی کی جانب ہی منسوب کیا،یا کسی کی بھی جانب منسوب نہیں کیا۔

نیزہم نے اس روایت کے جسقدر مخرجین کے نام ذکر کئے ہیں ان میں سے ثعلبی کے علاوہ کسی نے بھی اسکی سند ذکر نہیں کی۔

اسکی پہلی علت:

ثعلبی نے اسکی دو سندیں ذکر کی ہیں،پہلی سند امام زہری سے شروع ہوتی ہے جنکی وفات 242 ہجری ہےجبکہ خود ثعلبی کی وفات427 ہجری ہے،جبکہ اسکا سن پیدائش معلوم نہ ہوسکا،اگر ہم ثعلبی کی عمر120 سال فرض کرلیں تو سن پیدائش 307 ہجری بنتا ہے،اس حساب سے ثعلبی اور امام زہری کے درمیان تقریباً 70 سال کا فرق آجاتا ہے،جبکہ درمیان کی سند غائب ہے۔

ثعلبی نے اپنی تفسیر میں روایت حدیث کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر کے آغاز میں ہی اپنی تمام اسانید ذکر کردی ہیں ، پھر پوری تفسیر میں ان اسانید کی جانب اشارے دیئے ہیں  اور جن روایات کی اسانید شروع میں ذکر نہیں کیں،انکے مخرجین کا نام لےدیا ہے،یا اسی مقام پر مکمل سند ذکر کردی ہے۔

لیکن ہماری زیر بحث روایت کی جانب فقط اشارہ کیا کہ اسے امام زہری نے روایت کیا ہے،اور آگے کی سند ذکرکردی لیکن امام زہری تک اپنی سند ذکر نہیں کی،جبکہ دیگر بہت سے مقامات پر زہری تک اپنی اسانید ذکر کی ہیں۔

اسکی دوسری علت:

ثعلبی نے مختلف رواۃ کی احادیث کو خلط ملط کردیا ہے ، جیسا کہ خودثعلبی نے روایت سے پہلے کہا،اور علامہ جمال الدین السرمری نے ثعلبی کے اس بیان کی وضاحت میں کہا،لہذا یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ”التحیات للہ … الخ“والے الفاظ کس روایت کے ہیں،اسکی سند کونسی ہے،جو دو اسانید انہوں نے ذکر کی ہیں انہی میں سے کوئی ایک سند ہے یا ان میں سے کوئی بھی ان الفاظ کی سندنہیں بلکہ ان دو کے علاوہ کوئی اور ہی سند ہے جو ثعلبی نے سرے سے ذکر ہی نہیں کی۔

دوسری سند کی تحقیق:

ثعلبی نے جس جگہ متن نقل کیا ہے وہاں سند کی جانب محض اشارہ کیا ہے کہ ”روی السدی عن محمّد بن السائب عن باذان عن ابن عبّاس عن النبي صلّی الله عليہ وسلّم“لیکن  اپنی تفسیر کے شروع میں اسکی مکمل سند ذکر کی ہے جو ہم نقل کرآئے ہیں،ثعلبی کی بیان کردہ یہ سند بھی مجاہیل اور ضعفاء سے پر ہے،لہذا ،یہ سند ہی اس روایت کے من گھڑت ہونے کی کافی دلیل ہے،اختصار کے پیش نظر ہم صرف اسکی تین علتیں بیان کریں گے۔

اسکی پہلی علت:

محمد بن مروان السدی  (المتوفیٰ:186ھ)ہے، اسکے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ ہوں:

 جریر بن عبدالحمید نے کہا:کذاب

یحیی بن معین نے کہا:لیس بشیء یعنی کچھ بھی نہیں ہے۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر نے کہا :کچھ بھی نہیں ہے۔

یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا:ضعیف ہے ، غیر ثقہ ہے۔

صالح بن محمد الحافظ البغدادی نے کہا:ضعیف ہے ، حدیث گڑھتا تھا۔

ابو حاتم الرازی نے کہا:ذاہب الحدیث ہے،متروک الحدیث ہے،اسکی حدیث بالکل نہ لکھی جائے۔

بخاری نے کہا:اسکی حدیث بالکل نہیںلکھی جائے۔

نسائی نے کہا:متروک الحدیث،ثقہ نہیں ہے،نہ ہی اسکی حدیث لکھی جائے۔(تہذیب الکمال :26/393)

یہ جرح صرف ایک جھلک ہے،اگر مزید نقل کیا جائے تو اسکے لئے کئی صفحات درکار ہیں۔

دوسری علت:

 محمد بن السائب الکلبی(المتوفیٰ:246ھ) سلیمان بن طرخان نے کہا:کوفہ میں دو جھوٹے تھے،ان میں سے ایک الکلبی ہے۔

لیث بن ابی سلیم نے کہا:کوفہ میں دو کذاب تھے ،کلبی اور سدی یعنی محمد بن مروان۔

یحیی بن معین نے کہا:کچھ بھی نہیں ہے،ضعیف ہے۔

بقول سفیان الثوری خود کلبی نے کہا:میں نے جو بھی ابو صالح عن ابن عباس روایت کیا وہ جھوٹ ہے تم اسے روایت نہ کرو۔

قرۃ بن خالد نے کہا:وہ(یعنی ائمہ جرح و تعدیل)کہتے تھے کہ کلبی جھوٹ کہتا ہے۔

ابو حاتم نے کہا:سب لوگ اسکی حدیث کو  ترک کردینے پر متفق ہیں ، اس کے ساتھ مشغول نہ ہوا جائے ،ذاہب الحدیث ہے۔(تہذیب الکمال :25/248)

یہ بھی اس پر جرح کی صرف جھلک ہے مکمل جرح کے لئے کئی صفحات درکار ہیں۔

اسکی تیسری علت:

ابو صالح مولیٰ ام ہانی ہے ، جسے باذان لکھا جاتا ہے ، کبھی باذام اور کبھی ذکوان۔(تہذیب الکمال :4/6”نیز“33/423)

امام حمد نے کہا:ابن مہدی نے ابو صالح کی حدیث کو ترک کردیا تھا۔

یحیی بن معین نے کہا:اس میں کوئی حرج نہیں، اور جب اس سے کلبی روایت کرے تو وہ کچھ بھی نہیں۔

ابو حاتم نے کہا: اسکی حدیث لکھی جائے لیکن اس سے دلیل نہ لی جائے۔

نسائی نے کہا:ثقہ نہیں ہے۔

ابن عدی نے کہا:عام طور پر تفسیر روایت کرتا ہے،اور اسکی مرفوع روایات بہت کم ہیں،ابن ابی خالد نے اس سے ایک جزء کے بقدر تفسیر روایت کی ہے،جس پر دیگر مفسرین نے اسکی متابعت نہیں کی، نہ ہی میں متقدمین میں سے کسی کو جانتا ہوں جو اس سے راضی ہو۔(تہذیب الکمال:4/7)

علی بن مسہر نے ابوجناب سے نقل کرتے ہوئے کہا:ابو صالح نے قسم اٹھا کر کہا کہ میں نے کلبی پر ذرہ بھی تفسیر نہیں پڑھی۔(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:7/271)

اس روایت کے متعلق علماء کرام کے تبصرے:

بقول علامہ سیوطی حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ”اسباب النزول“(1/209210)میں (السدی عن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس)اس سند پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا:

أبو صالح ضعيف والكلبي متّهم، ومحمد بن مروان السدّي الصغير كذّاب ..قال: وهذا الإسناد سلسلة الكذب لا سلسلة الذهب.

ابو صالح ضعیف ہے،اور کلبی متہم ہے اور محمد بن مروان السدی الصغیر کذاب ہے ..اور یہ سلسلہ کذب ہے نہ کہ سلسلہ ذہب۔(الزیادات علی الموضوعات للسیوطی:2/767 تدریب الراوی:1/198)

نیز خود علامہ سیوطی نے اس سند کو” اوھیٰ الاسانید “یعنی سب سے کمزور سند قرقر دیا ہے۔(ایضاً)

نیز علامہ زین الدین المناوی نے بھی اسے سب سے کمزور سند قرار دیا ہے۔(اليواقيت والدرر فی شرح نخبۃ ابن حجر:2/62)

علامہ انور شاہ کشمیری نے کہا:

وذكر بعض الأحناف قال رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – في ليلة الإسراء: التحيات لله إلخ، قال الله تعالى: السلام عليك أيها النبي إلخ، قال رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: السلام علينا وعلى عباد: الله، إلخ، ولكني لم أجد سند هذه الرواية.

بعض احناف نے ذکر کیا کہ رسول اللہ نے شب معراج میں کہا:”التحیات للہ ..الخ“تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”السلام علیک ..الخ“تو رسول اللہ نے کہا:السلام علینا وعلی عبا اللہ ..الخ“لیکن مجھے اس روایت کی سند نہیں مل سکی ۔(العَرف الشذي شرح سنن الترمذي:1/283)

التحیات ….کے کلمات کا صحیح پس منظر

صحیح ترین روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ التحیات کے کلمات رسول اللہ نے صحابہ کرام کو اسوقت سکھائے جب آپ نے دیکھا کہ وہ نماز کے دوران فرشتوں کا نام لے کر ان پر سلام پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی ”السلام علی اللہ“یعنی ”اللہ تعالیٰ پر سلامتی ہو“بھی کہتے ہیں تو آپ نے ان کی اصلاح کی اور انہیں التحیات سکھائی،چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:

كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ، السَّلاَمُ عَلَى جِبْرِيلَ، السَّلاَمُ عَلَى مِيكَائِيلَ، السَّلاَمُ عَلَى فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ”إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلاَمُ، فَإِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلاَةِ فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّهُ إِذَا قَالَ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرْ بَعْدُ مِنَ الكَلاَمِ مَا شَاءَ “

جب ہم نبی کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم اس طرح کہتے تھے:اللہ پر سلام ہواسکے بندوں سے پہلے،جبریل پر سلام ہو،میکائیل پر سلام ہو ، فلاں ،فلاں پر سلام ہو،پھر جب نبی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ہماری جانب متوجہ ہوکر فرمانے لگے:اللہ خود سلام ہے،جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھا ہو تو اس طرح کہے:”التحیات للہالصالحین“جب وہ اس طرح کہے گا تو اس نے آسمان و زمین میں موجود ہر نیک بندے پر سلام بھیج دیا،”اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ“پھر وہ جو چاہے دعا کرے۔(صحیح بخاری:6230)

ایک روایت میں مزید صراحت ہے کہ التحیات کے الفاظ کس موقع پر پڑھنے ہیں ،چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:

كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ غَيْرَ أَنْ نُسَبِّحَ وَنُكَبِّرَ وَنَحْمَدَ رَبَّنَا، وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَ فَوَاتِحَ الْخَيْرِ وَخَوَاتِمَهُ، فَقَالَ: ” إِذَا قَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَلْيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَلْيَدْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ .

ہم نہیں جانتے تھے کہ ہر دورکعات میں ہم کیا کہیں سوائے اس کے کہ ہم اپنے رب کی تسبیح و تکبیر اور حمد بیان کرتے تھے،اور محمد کو خیر کی کنجیاں اور خیر کے بند عطفا کئے گئے ،تو آپ نے فرمایا:جب تم دو رکعت پڑھ کر بیٹھو تو اس طرح کہو:”التحیات للہ …….ورسولہ“اور جو دعا اسے پسند ہو اللہ عز و جل سے وہی دعا کرے۔(سنن نسائی:1163،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا)

نیز ایک حدیث میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے التحیات …الخ کے کلمات پڑھنے ہیں ، چنانچہ سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا. فَقَالَ: ” إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذْ قَالَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمُ اللهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ “، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ. فَقُولُوا: اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ ” فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.

رسول اللہ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا،پس آپ نے ہمیں ہماری نماز کی ترکیب کی تعلیم دی،ارشاد فرمایا:جب تم نماز پڑھنا چاہو تو اپنی صفیں باندھ لو پھر ایک شخص تمہاری امامت کروائے،جب وہ تکبیر کہہ دے پھر تم تکبیر کہو،اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو،اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا،پھر جب وہ تکبیر کہے اور رکوع میں جائے تو پھر تم تکبیر کہو اور رکوع میں جاؤ،کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا،اور تم سے پہلے اٹھے گا،پس رسول اللہ نے فرمایا:یہ اس کے بدلے ہے،اور جب وہ کہے :سمع اللہ لمن حمدہ، تو تم کہو:ربنا ولک الحمد،اور جب وہ تکبیر کہے اور سجدے میں چلا جائے پھر تم تکبیر کہو اور سجدے میں جاؤ،کیونکہ امام تم سے پہلے سجدے میں جائے گا اور تم سے پہلے اٹھے گا،پس رسول اللہ نے فرمایا:اور جب وہ قعدہ میں بیٹھا ہو تو سب سے پہلے تم یہ کہو :التحیات للہ….رسولہ۔(صحیح مسلم،باب التشہد فی الصلاۃ)

نیز رسول اللہ وقتاً فوقتاً ان کلمات کی باقاعدہ تعلیم دیا کرتے تھےجیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ فَكَانَ يَقُولُ: التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ، الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ.

رسول اللہ ہمیں تشہد سکھاتے تھے جس طرح آپ ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے ،آپ فرماتے:

التحیات للہ … رسول اللہ۔(صحیح مسلم،باب التشہد فی الصلاۃ)

معراج کے موقع پر کیا کچھ عطاء کیا گیا؟

نبی کریم کو جب معراج پر لے جایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی کرامتوں سے نوازا جن کا شمار  ناممکن ہے،لیکن اللہ تعالیٰ نے آپکو آپ کی امت کے لئے جو تحفے دیئے انکی فہرست درج ذیل ہے:

1-ہر دن و رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔

2-ہر ایک نماز کا ثواب کم ازکم دس گنا رکھا گیا۔

3-سورۃ البقرۃ کی آخری آیات میں جو مناجات ہیں انہیں قبول کرلیا گیا۔

4-جس شخص کا خاتمہ شرک سے برائت پر اور عقیدہ توحید پر ہوا اسکی بخشش کا وعدہ کیا گیا۔

5-نیکی کا ہر ارادہ بھی ایک نیکی لکھا جائے گا۔

6-ہر نیکی کا اجر کم از کم دس گنا دینے کا وعدہ کیا۔

7-گناہ کا ہر ارادہ گناہ نہیں لکھا جائے گا۔

8-ہر گناہ صرف ایک گناہ ہی لکھا جائے گا۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:

فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا: أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا، الْمُقْحِمَاتُ.

پس رسول اللہ کو تین چیزیں دی گئیں:پانچ نمازیں دی گئیں،اور سورۃ البقرۃ کی آخری آیات دی گئیں، اور آپ کی امت کے ہر اس شخص کے کبیرہ گناہوں کی بخشش کردی گئی جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا۔(صحیح مسلم)

نیز سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ،کہ رسول اللہ نمازوں میں تخفیف کے لئے اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کے پا س آتے جاتے رہے ،چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا:

فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ شَيْئًا، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً.

میں مسلسل اپنے رب تبارک و تعالیٰ اور موسی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا حتی کہ اللہ نے فرمایا:اے محمد ، ہر دن و رات میں یہ نمازیں پانچ ہیں ، اور ہر نماز کے بدلے دس نمازیں ہیں ، پس یہ پچاس نمازیں ہوئیں ،اور جو کسی نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر عمل نہیں کرے گا تواسکی ایک نیکی لکھی جائیگی ، پھر اگر وہ اس پر عمل کرلیتا ہے تو اسکی دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور جو کسی گناہ کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر عمل نہیں کرے گا اسکا کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا ،پھر اگر وہ اس پر عمل کرلیتا ہے تو اسکا صرف ایک گناہ لکھا جائے گا۔(صحیح مسلم،باب الاسراء برسول اللہ و فرض الصلوات)

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے