دین اسلام تہذیب اور معاشرتی آداب کا کامل نمونہ ہے وہ اپنے ماننے والوں کی نہ صرف اصلاح کرتاہے بلکہ ان کی جہالت بھی دور کرتاہے انہیں صلح وایمان، سلامتی واطاعت ،فرمانبرداری،اخوت وبھائی چارے کی تعلیم دیتاہے۔پیدائش سے لے کر موت تک الغرض ہرموقعے کے لیے آداب زندگی مقرر کر دیئے گئے ہیں۔

مسلمانوں کی ملاقات کے وقت محبت اور احترام کا اظہار کے لیے سلام کے علاوہ مصافحہ بھی مسنون ہےجو عموماً سلام کے ساتھ یا اس کے بعد ہوتاہے۔ اہل لغت نے مصافحہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ۔ مصافحہ’’باب مفاعلہ‘‘ سے ہے اس سے مرادایک شخص کی ہتھیلی کا اندرونی حصہ دوسرے کی ہتھیلی کے اندرونی حصہ سے ملانا۔(النہایۃ 3/43)

مصافحہ کرنے کا طریقہ یمن میں رائج تھا انہوں نے اس کا اظہار کیا جسے نبی کریم نے بھی پسند فرمایا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یمن والے آئے تو نبی کریم نے فرمایا ’’یمن والے آئے ہیں اور تم لوگوں سے زیادہ نرم دل ہیں۔‘‘ (مسند احمد :12610)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہی لوگ وہ ہیں جو پہلے مصافحہ لائے ہیں۔

دین اسلام نے قبل از اسلام جو اچھے طریقے مروج تھے وہ اسی طرح رہنے دیئے جیسا کہ مصافحہ اور جوبرے طریقے تھے وہ بدل دیئے جیسا کہ قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں عرب معاشرے کی یہ عادت تھی کہ جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو سلام ودعا اس طرح دیتے ’’صبح بخیر‘‘ سامنے والا اس طرح جواب دیتا’’تمہاری صبح خوشگوار ہو، اللہ تمہیں زندہ رکھے اور اللہ تعالیٰ تمہیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کرے‘‘ دین اسلام نے اس طرز کو بدل کر اس کی جگہ ’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ‘‘ کہنے کی تعلیم دی۔

مہمان کے آنے پر خوشی اورمحبت کا اظہار کریں ، آگے بڑھ کر استقبال کریں، سلام دعا کریں اورمصافحہ کریں ، مصافحہ کی برکت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا ذریعہ ہے۔ مصافحہ ایک مسنون اور مستحب عمل ہے۔سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :’’ جو کوئی دو مسلمان ملاقات کریں اور پھر مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان دونوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (ابوداؤد : 5212)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم  نے فرمایا :’’ جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کے ہاتھ کو پکڑتاہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ان کی دعاؤں کے وقت موجود رہے اور ان دونوں کے ہاتھوں کے جدا ہونے سے قبل ان کی مغفرت کر دے۔ (مسند احمد : 12478)

جناب قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں مصافحہ کرنے کا دستور تھا؟ انہوں نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔ (صحیح بخاری : 6263)

مصافحہ چونکہ سلام کی تکمیل ہے اس لیے پہلے سلام پھر مصافحہ کرنا چاہیے ۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مصافحہ کا تو خوب اہتمام ہوتاہے لیکن سلام کا نہیں ہوتا یا مصافحہ کے بعد سلام ہوتاہے، یہ دونوں طریقے خلاف سنت ہیں، سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام پھر مصافحہ کیا جائے آپ  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مصافحہ کے بغیر سلام ثابت نہیں۔

مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے

نہایت واضح طور پر ثابت ہے اس کے ثبوت میں ذرا بھی

شک نہیں ۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی اس ایک ہتھیلی سے مصافحہ کیا ،میں نے رسول اللہ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہ کسی چیز کو اور نہ کسی ریشمی کپڑے کو پایا۔ (مسلم:6053)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نصاریٰ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں پس ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں ان کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور نصاریٰ اور یہود کی مخالفت کرنے کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم سے ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا مسنون ہونا ثابت اور کسی حدیث سے ایک ہاتھ سے مصافحہ کے بارے میں نصاری کی مخالفت کرنے کا حکم ہرگز ثابت نہیں ہے تو ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا نہ کسی قوم سے مشابہت سے ناجائز ہوسکتاہے اور نہ کسی قول وفعل سے مکروہ ٹھہر سکتاہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مسنون ہی رہے گا۔

اگر کوئی کہے کہ صحیح بخاری سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ثابت ہے تو یہ محض جھوٹ ہے اور اہل اسلام کو صاف دھوکا دینا اور لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنا ہے۔

ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا جس طرح اہل دین اور اہل عرب مصافحہ کرتے ہیں احادیث صحیحہ صریحہ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہایت واضح طور پر ثابت ہے۔ اس کے ثبوت میں ذرا بھی شک نہیں اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا جس طرح اس زمانے کے بعض لوگوں میں رائج ہے کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور نہ کسی صحابی کے اثر سے اور نہ کسی تابعی کے قول وفعل سے اور ائمہ اربعہ سے بھی کسی امام محترم کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا یا اس کا فتویٰ دینا سنداً منقول نہیں۔

درِ مختار فقہ کی ایک مشہور ومعروف کتاب ہے اور اس میں لکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔ کسی کتاب کا مشہور ومعروف ہونا اور بات ہے اور اس کا مستند اور معتبر ہونا اور بات ہے ۔ (ماخوذ از المقالۃ الحسنی فی سنۃ المصافحۃبالید الیمنی)

مصافحہ ایک ہاتھ سے مسنون ہے یا دونوں ہاتھوں سے ۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کا مذکورہ رسالہ مطالعہ کیاجائے۔

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا قول غنیۃ الطالبین فصل ان امور کے بیان میں ہے کہ جن کا داہنے ہاتھ سے کرنا مستحب ہے ’’مسلمانوں کے لیے چیزوں کو لینا اوردینا، کھانا اور پینا اور مصافحہ کرنا داہنے ہاتھ سے مستحب ہے اور وضو کرنے میں اور جوتے اورکپڑے پہننے میں داہنی طرف سے شروع کرنا مستحب ہے۔

مصافحہ مندرجہ ذیل چند مواقع پر نہ کیا جائے:

1کفار ومشرک اور بدعت کرنے والے اور اس کی دعوت دینے والا سے ملاقات کے موقع پر ان کی خاص عزت وتکریم کے لیے مصافحہ ہرگز نہ کیاجائے۔

2 اگر کوئی شخص گفتگو میں یا کسی کام میں یا کھانا کھانے میں مشغول ہو تو اسے سلام کا جواب دینے کے ساتھ مصافحہ کیلئے مجبور نہ کیاجائے۔

3 اگر کوئی شخص جلدی میں ہو یا تیزی سے جارہا ہو تو اسے سلام کے ساتھ مصافحہ کے لیے نہ روکا جائے۔

4 بعض لوگ مصافحہ کرنے کے بعد سینے پر ہاتھ رکھتے ہیں یا مصافحہ تو ایک ہاتھ سے کرتے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سے سامنے والےکی کہنی یا بازو تھام لیتے ہیں ، اس عمل کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں لہذا اس عمل سے اجتناب کیا جائے۔

5 باہم ملاقات کے وقت سلام کے بعد مصافحہ کرتے ہوئے جھکنا شرعاً منع ہے۔

6 بعض مسلمان قوموں میں یہ رواج عام ہے کہ مصافحہ کے بعد ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل شریعت کی تعلیم نہیں لہذا اس سے بھی گریز کیاجائے۔

7 لوگوں سے مصافحہ کرنا ہو تو دائیں طرف کو مقدم رکھتے ہوئے بائیں طرف کے لوگوں سے مصافحہ میں پہل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

جب سے ہمارے معاشرے میں روشن خیالی اور جدت پسندی آئی ہے ، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہماری تہذیب وتمدن، ثقافت، عادات وبودوباش کے تمام طریقوں میں مغرب کی نقالی ہے۔ مخلوط تعلیمی نظام میں نوجوان طلباء وطالبات آپس میں ایک دوسرے سے اور نامحرم اساتذہ سے مصافحہ کرتے نظر آتے ہیں اسی طرح نامحرم رشتہ داروں سے بھی مصافحہ کرنا جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔

سیدہ امیمہ بنت رقیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کچھ انصاری عورتوں کی معیت میں نبی کریم  کی خدمت میں حاضر ہوئی ہم آپ  سے بیعت ہونا چاہتی تھیں ہم نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ہم آپ سے بیعت کرتی ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ آپ  نے فرمایا اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق( تم پابندہوگی) ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم پر ہم سے بھی زیادہ مہربان اور رحم فرمانے والے ہیں۔ اے اللہ کے رسول اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں۔ رسول اللہ  نے فرمایا میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ، میرا زبانی طور پر سوعورتوں سے بات چیت کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہر عورت سے الگ طور پر بات چیت کروں۔ (سنن نسائی : 4186)

رسول اللہ  غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے اگرچہ ضرورت کا تقاضا بھی ہوتا جیسے کہ نبی کریم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت صرف زبان سے بیعت لینے پر اکتفاء فرمایا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جو مسلمان عورت ان شرائط کا اقرار کر لیتی تو رسول اللہ زبانی طور پر اس سے فرماتے ’’میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی ہے‘‘۔ اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی کریم   کے ہاتھ سے بیعت لیتے وقت کسی عورت کا ہاتھ چھوا ہو ، نبی مکرم ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے تم ان مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ (صحیح بخاری : 4891)

نبی معظم نے فرمایا ’’ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل گاڑ دی جائے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی غیر محرم عورت کو چھوئے ۔(صحیح الترغیب والترھیب : 1915)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ عورت سے مصافحہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا مطلقاً ناجائز ہے خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھی اور خواہ مصافحہ کرنے والا مرد جوان ہو یا بوڑھا۔ کیونکہ اس میں ہر ایک کے لیے فتنے کا خطرہ ہے۔ اس اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں کہ عورت نے دستانے وغیرہ پہننے ہیں یا نہیں کیونکہ دلائل کے عموم اور فتنے کے سدباب کا یہی تقاضا ہے۔(فتاوی اسلامیہ 3/89)

آپس میں ملاقات کے وقت دین جو ہمیں شعور وتہذیب سکھاتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان بھائی سے ملے پہلے سلام کہے پھر ایک ہاتھ سے مصافحہ کر ے۔مصافحہ مسلمان کا ملاقاتی شعار ہے جو آج بری طرح سر کے اشاروں اور چہروں کے انداز اور اشاروں کی نذر ہوچکا ہے۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ سنت ہے۔ رسول اللہ  بنی نوع انسان کے لیے ہر طرح سے نمونہ تھے۔ بشری تقاضوں کے تحت نبی کریم کی حیات مبارکہ میں بشری زندگی کے تمام پہلو موجود تھے کہ جن کو دیکھ کر ہر انسان اپنی زندگی کا ہر گوشہ نبی مکرم کے عمل کے مطابق گزار سکتاہے۔

سنت کی عظمت كو جان كر اور اس پر عمل کرکے دنیا وآخرت میں لا تعداد فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں ایک ہاتھ سے مصافحہ سبب انس ومحبت ہے۔ ایک دوسرے سے کینہ،بغض وحسد کی صفائی میں مؤثر ہے۔ اتفاق واتحاد کا نسخۂ اکسیر ہے ، گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ میری آپ تمام قارئین سے التماس ہے کہ آپ اپنے عام وخاص،دنیاوی وشرعی مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں خود بھی سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی احادیث صحیحہ کی طرف متوجہ کرائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم   کے ہر طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے