اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی طرح تربیت کریں گے اور اولاد کو نیکوکار بنائیں گے تو اس پر والدین کو دنیا و آخرت کے بہت سارے فائدے حاصل ہوں گے ۔

نیک اولاد جو بھی نیک عمل سرانجام دے گی اس کا اجر اس کے والدین کو ضرور ملے گا اگرچہ اولاد نے اس کی نیت ہی نہ کی ہو جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ tسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ (صحیح مسلم : 4223 )

 جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے ( وہ منقطع نہیں ہوتے)صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے ۔یعنی جب بندہ فوت ہوجاتا ہے اور پیچھے نیک اولاد چھوڑ جاتا ہے تو اس کے ہر نیک عمل کا ثواب اس کے والدین کو ملے گا اور اس کی دعائوں کی بدولت والدین کا قبر حشر بھی آسان ہوجائے گا۔

سیدنا ابوہریرہ tسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ اَنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِ سْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ (مسند احمد: 3636 )

جب اللہ تعالیٰ کسی نیک بندے کا جنت میں درجہ بلند کرے گا، تو وہ پوچھے گا:اے میرے رب! یہ درجہ میرے لیے کہاں سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہارے حق میں تمہارے بیٹے کی دعائے مغفرت کی وجہ سے۔

اور اسی طرح سیدنا ابوھریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ :

مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَتَعَلَّمَهُ وَعَمِلَ بِهِ أُلْبِسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَاجًا مِنْ نُورٍ ضَوْءُهُ مِثْلُ ضَوْءِ الشَّمْسِ

 جس نے قرآن مجید پڑھا سیکھا اور اسکے مطابق عمل کیا تو روز قیامت اس کو نور کا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی جیسی ہوگی ۔

آپ نے فرمایا کہ :

وَيُكْسَى وَالِدَيْهِ حُلَّتَانِ لَا يَقُومُ بِهِمَا الدُّنْيَا

اور اس کے والدین کو دو عبائیں پہنائیں جائیں گی کہ تمام دنیا بھی اس کا بدل نہ ہوسکے گا وہ دونوں ماں باپ کہیں گے

بِمَا كُسِينَا؟ فَيُقَالُ: بِأَخْذِ وَلَدِكُمَا الْقُرْآنَ

 ہمیں یہ کیوں پہنائی گئیں ؟ کہا جائے گا  : آپ کے بیٹے کے قرآن پڑھنے ( یعنی حفظ کرنے کی وجہ سے ) ۔

( صحیح الترغیب الترھیب : 1434 )

لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی تربیت کریں اور انہیں دینی علوم کی طرف مائل کریں اس سے ہی والدین اور اولاد کی کامیابی وکامرانی ہے اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو صدقات و خیرات کی ترغیب دیا کریں تاکہ والدین کے فوت ہونے کے بعد وہ( ان کے حق میں ) صدقہ و خیرات کرتے رہیں اور والدین کو اس کا اجر ثواب حاصل ملتا رہے ۔ سیدنا سعد بن عبادہ t سے مروی ہے کہ :

قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّق ُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  سَقْيُ الْمَاءِ (سنن نسائی : 3694 )

 میں نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں مر گئیں ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے پوچھا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ( پیاسوں کوپانی پلانا۔

یہ بات یاد رہے کہ رواج کے مطابق خیرات رواج ہی رہ جائے گی اس کا والدین کو کوئی اجر نہیں ملے گا سنت کے مطابق کوئی بھی نیکی کی جائے اس کا والدین کو اجر ضرور ملے گا بعض لوگ جمعرات چوبیسواں وغیرہ کرکے سمجھتے

ہیں کہ بابا جی کی نجات ہوگئی ایسے ہرگز نہیں ہے یہ فقط

پیٹ پیچھے بھاگنے والے مولویوں کا کھانا ہی ہے ۔

سیدنا سعد بن عبادہ t نے جب رسول اللہ سے یہ سنا تو اپنی والدہ کےلیے ایک کنواں کھدوا دیا تھا اور اس پر یہ بھی لکھ دیا کہ

هَذِهِ لِأُمِّ سَعْد

یہ سعد کی ماں کےلیے ہے یعنی اب جو بھی جب بھی اس سے پانی پیئے گا سعد کی ماں کو اجر ملتا رہے گا ۔

 ( سنن ابی داود : 1681 )

اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ : ا

أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ (صحیح البخاری:1388)

ایک شخص نے نبی کریم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ صدقات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔

اور ہاں ! والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو صلہ رحمی باہمی محبت اور رشتہ داری جوڑنے کی ترغیب دیا کریں تاکہ وہ والدین کے رشتوں کو قائم رکھیں اس پر بھی والدین کےلیے اجر وثواب ہے جو اسے تب تک ملتا رہے گا جب تک اس کی اولاد رشتے کو قائم رکھے گی ۔ ہمارے ہاں اکثر ایسے دیکھنے کو ملتا ہے کہ والدین کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے یہ کہہ کر تعلق توڑا جاتا ہے کہ وہ بابا کے دوست تھے وہ فوت ہوگئے اب ہمارا اس سے کیا تعلق ہے ؟!! 

ولید بن ولید نے عبداللہ بن دینار سے ،  انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ :

أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ لَقِيَهُ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللهِ، وَحَمَلَهُ عَلَى حِمَارٍ كَانَ يَرْكَبُهُ. وَأَعْطَاهُ عِمَامَةً، كَانَتْ عَلَى رَأْسِهِ فَقَالَ ابْنُ دِينَارٍ: فَقُلْنَا لَهُ: أَصْلَحَكَ اللهُ إِنَّهُمُ الْأَعْرَابُ وَإِنَّهُمْ يَرْضَوْنَ بِالْيَسِيرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: إِنَّ أَبَا هَذَا كَانَ وُدًّا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْوَلَدِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ 

ان کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدو شخص ملا ،سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار ہوتے تھے اس پر اسے بھی سوار کر لیا اور اپنے سر پر جو عمامہ تھا وہ اتار کر اس کے حوالے کر دیا ۔  ابن دینار نے کہا :  ہم نے ان سے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے! یہ بدو لوگ تھوڑے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں ۔ تو سیدنا عبداللہ ( بن عمر ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس شخص کا والد ( میرے والد ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا محبوب دوست تھا اور میں نے رسول اللہ سے سنا،آپ فرما رہے تھے : والدین کے ساتھ بہترین سلوک ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہے جن کے ساتھ اس کے والد کو محبت تھی ۔ (صحیح مسلم : 6513 )

 اور ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ آیا تو میرے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے : کیا تم جانتے ہو میں تمہارے ہاں کیوں آیا ہوں ؟ میں نےکہا : نہیں تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ :

من احب ان یصل اباہ فی قبرہ فلیصل اخوان ابیہ 

جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ( اس کے مرنے کے بعد ) قبر میں اس کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ اس کے دوستوں سے حسن سلوک کرے اور میرے باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور تیرے باپ کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے تو میں نے اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے ۔( صحیح ابن حبان : 432 )

والدین کو چاہیے کہ ہر نیکی کی طرح اپنی اولاد کو حج کی نیکی کا بھی ترغیب دیا کریں تاکہ وہ انکے مرنے کے بعد ان کے حق میں حج کرے اور بیت اللہ و ریاض الجنہ جیسی جگہوں پہ جاکے ان کے حق میں دعائیں کرے تاکہ وہ نجات حاصل کر سکیں ۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ

 أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبِيهَا مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  حُجِّي عَنْ أَبِيكِ (سنن النسائی : 2635 )

ایک عورت نے نبی اکرم سے اپنے والد کے بارے میں جو مر گئے تھے اور حج نہیں کیا تھا پوچھا: آپ نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج کر لو“۔

ذرا غور کریں کہ صحابہ کرام y نے اپنی اولاد کی کیسی خوب تربیت کی کہ والدین کی وفات کے بعد والدین کی چھوڑی گئی ذمہ داریوں کو سرانجام دیتے رہے !!نبی علیہ السلام کے پیارے صحابی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے پیارے بیٹے سیدنا جابر t کی کیا  خوب تربیت کی تھی کہ جب سیدنا عبداللہt شہید ہوئے تو اپنے پیچھے نو بیٹیاں چھوڑیں اور بہت سارا قرضہ بھی چھوڑا ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کا قرضہ بھی ادا کیا اور بہنوں کی پرورش کا ذمہ بھی اپنے کندھوں اٹھایا ۔ ( صحیح بخاری : 1984 )

قرض کی ادائیگی نہ کرنا ایک خطرناک گناہ اور وعید کا حامل ہے سیدنا سہل بن حنیف tسے مرفوعاً مروی ہے کہ:

أَوَّلُ مَا يُهَرَاقُ من دَمِ الشَّهِيدِ يُغْفَرُ لَهُ ذَنْبُهُ كُلُّهُ إِلا الدَّيْنَ. (المعجم الکبیر للطبرانی : 5419 )

شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، سوائے قرض کے۔

گویا ایک والد کے نیک بیٹے نے اپنے والد کا قرضہ ادا کرکے اسے خطرناک وعید سے نجات دلادی ۔محترم قارئین ! اگر قبر حشر کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ ایک بہترین ذریعہ ہے کہ اپنی اولاد کی نیک تربیت کریں تاکہ نیک اولاد کے نیک اعمال کے فائدے آپ کو پہنچتے رہیں اور آپ نجات پاسکیں ۔

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرۃ:128)

اے ہمارے رب !ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تُو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے ۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے