قانونِ قدرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر ظلم کو خاتمہ ہے،ہر اندھیری شب کے بعد روشنی کا اجالا ہے، ہر چڑھتا سورج ڈھلتے ڈھلتے غروب ہوجاتاہےاٹھتی جوانی آہستہ آہستہ بڑھاپے کی گزرگاہوں سے ہوکر موت اور فنا کا شکار ہوجاتی ہے ۔کائنات میں کوئی بھی حادثہ بغیر کسی مُحدث کے وجود میں نہیں آسکتا ،کوئی بھی معلول بغیر علت کے اپنا سفر حیات شروع نہیں کر سکتا،اسی طرح امتوں کا عروج و زوال بھی بعض عوامل کی بنا پرہی پیش آتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم کاعروج وزوال اسباب وعلل کا مرہون منّت ہے ۔اگر بنی اسرائیل کبھی اللہ تعالیٰ کیلئے ایک پسندیدہ قوم تھے تو صرف اس لئے کہ انہوں نے ان اسباب کوفراہم کیا جو عروج و کامیابی کا باعث تھے لیکن بعد میں یہی قوم ذلت و خواری کا شکار بھی ہوئی۔
اگر قرآن نے ان کے اچھے اعمال کی بنا پر انہیں

أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

کا لقب دیا توان کی بد اعمالیوں کے سبب ان کی گردن میں

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ

کا طوق بھی ڈال دیا تا کہ یہ بات تاریخ میں محفوظ ہو جا ئے کہ اللہ کے نزدیک کوئی بھی قوم حسب ونسب کی بنا پر با عظمت نہیں بنتی بلکہ اس کے اعمال اس کو بلندیوں کی طرف لے جاتے ہیں جیسا کہ فرمان رسول ﷺ ہے :

وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ (مسلم ، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر، رقم الحديث : 2699)

رب العالمین نے قرآن کریم میں متعدد اقوام کا تذکرہ ان کے عروج وزوال کے حوالے سے کیا ہے جس کا واضح نمونہ بنی اسرائیل ،عاد اور ثمود کی قومیں ہیں ۔کاش مسلمانوں نے انہی قوموں کے انجام سے سبق لیا ہوتا تو آج وہ اس انحطاط کا شکار نہ ہوتے ۔
ماہرینِ دینیات اس بات کو یوں واضح کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور ترقی یافتہ دین ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں درست سمت میں رہنمائی فراہم کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ لہٰذا مسلمان جب تک اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہے، دنیا میں کامیاب و کامران رہے ۔ اس کے برعکس عیسائیت سمیت دیگر تمام مذاہب نامکمل اور ناقص ہونے کے سبب بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصرہیں ۔ لہٰذا مغرب جب تک اپنے فرسودہ مذہبی روایات سے جڑا رہا، ترقی سے دور رہا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اس ناقص مذہب سے چھٹکارا حاصل کر لیا تو وہ ترقی کرتے چلے گئے ۔ مسلمانوں کے بعض نادان دوست، مسلمانوں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دُنیوی معاملات کو اپنے دین سے جدا کرنے کے اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں ، جس پر چل کر مغرب نے ترقی کی ہے ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ہم جوں جوں اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تنزلی کے گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے جملہ معاملات کو اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ ’ پیغامِ قرآن و حدیث‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ مسلمان ہونے کے دعویدار خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، قرآن و حدیث کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں ۔ وہ ان سے قلبی لگاؤ تورکھتے ہیں مگر بوجوہ انہیں پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کو بحیثیت مجموعی پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہمار ی کامیابی کا دارومدارکتاب و سنت پر عمل کرنے ہی میں ہے ۔
قیام پاکستان سے قبل کئی مسلمان نواب جو بڑی بڑی جاگیروں کے مالک تھے ، پاکستان ہجرت کرنے کی بناءپر اپنی تمام جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پاکستان میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ پاکستان میں ریاستوں کے نواب بھی آج تقریباً اپنی شناخت کھو چکے ہیں اور صرف اپنے نام کے ساتھ خان نواب یا پرنس لکھ کر کسی حد تک اپنی پرانی شناخت قائم کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً چترال کے پرنس محی الدین ، اَ م اسٹیٹ (الائی) کے پرنس صلاح الدین ، والی آف سوات پرنس اورنگزیب، بہاولپور کے نواب صلاح الدین عباسی اورخان آف قلات جناب میر سلیمان داود جان احمدزئی وغیرہ وغیرہ ۔ نواب آف کالا باغ کے وارث کا تقریباً نام ہی ختم ہو چکا ہے ۔ بھارت میں قائم مسلمان ریاستوں میں دو اہم ریاستیں تھیں جن میں ایک حیدرآباد دکن اور دوسری جونا گڑھ تھی ۔ جونا گڑھ کے نواب جن کو خانجی کہا جاتا تھا اب سرکاری پنشن کے ساتھ اسلام آباد کے ہو کر رہ گئے ہیں اور کوئی انہیں جانتا تک نہیں۔ حیدرآباد دکن کے نواب کی اولادیں بھارتی فلم انڈسٹری کی زینت بن گئی ہیں۔

پاکستان کے سیاسی گھرانےیا تو زوال کا شکار ہیں یا زوال پذیر ہیںجیسا کہ نواب لیاقت علی خان کے بعد کچھ عرصہ تک ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ان کی پہچان کو قائم رکھا مگران کے بعد اس خاندان کا نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ سماجی طور پر بھی نام و نشان باقی نہ رہا ۔اسی طرح گجرات کے چوہدری برادران ، چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کے بعد شاید ہی کوئی ہو جو سیاسی طور پر اپنی ساکھ قائم رکھ سکے۔ ڈی جی خان کا کھوسہ خاندان اپنے اندرونی اور مسلم لیگ ن کی قیادت سے اختلافات کی بناءپر زوال پذیر ہے۔70 کی دہائی میںاپنے آپ کو پنجاب کا شیر کہوانے والے ملک غلام مصطفی کھر ،تقریباً 40سالہ عروج کے بعد خاندانی اختلافات اور سیاسی پارٹیاں بدلنے کی بدولت ایک عام کارکن جمشید دستی کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئے۔سندھ میں بھٹو خاندان سیاست میں سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھنے والا خاندان تھا مگر اب صرف بھٹو کا نام استعمال کیا جا تا ہے۔ سیاست کا محور بھٹو خاندان سے زداری خاندان میں منتقل ہو گیاہے۔ بھٹو خاندان کی فاطمہ بھٹو اور ان کے بھائی ذوالفقار جونیئر باقی رہ گئے ہیں ۔دوسرے ہیں محمد خان جونیجو ! جو پہلی مرتبہ 1979ءمیں جنرل ضیاءالحق کی کابینہ میں وزیر ریلوے بنے۔ 1985ءمیں جنرل ضیاءنے انہیں وزیراعظم کے منصب پر بٹھا دیا مگر وہ آپے سے باہر ہو گئے، اور جنرل ضیاءالحق کی مخالفت کے باوجود جنیوا معاہدہ پر دستخط کر کے ہیرو بنتے بنتے زیرو ہو گئے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ےہ خاندان سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گیا ۔ بلوچستان میں خان آف قلات اور نواب اکبر بگٹی کا خاندان فی الحال سیاست سے بالکل آؤٹ لگتا ہے۔ لورا لائی کے جو گیزئی بھی زوال پذیر ہیں اور بمشکل کبھی کبھار سیاسی منظر نامے پر نظر آتے ہیں۔ خیبرپی کے میں ایوب خان کا خاندان بھی سیاسی زوال کا شکار ہے۔ مردان کے نواب، ہوتی خاندان بھی سیاسی زوال کا شکار ہے اور ان کی جگہ اعظم ہوتی کے بیٹے اور اسفندیارولی کے داماد نے لے لی ہے۔ شیرپاؤ خاندان پیپلزپارٹی چھوڑنے کے باوجود خیبرپی کے کی سیاست میں ایک مقام رکھتا ہے۔ لکی مروت سے سیف اللہ برادران کو بھی کوئی سیاسی جماعت نہیں ملتی۔ وہ اپنی سیاسی حیثیت بچانے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر وقت ایک سا نہیں رہتا۔ چترال کا پرنس خاندان بھی سیاسی زوال کا شکار ہے اور پرنس محی الدین کے بعد تو شاید ہی کوئی ہو جو ان کی جگہ لے سکے۔ اسلام آباد میں کھوکھر خاندان تھا جو سیاست میں ایک مقام رکھتا تھا مگر اپنے ذاتی کردار اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے کی بنا پر برُی طرح سیاسی زوال کا شکار ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس دھرتی پر سدا (ہمیشہ) ایک قوم کا اقتدار نہیں رہتا۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حکومت واقتدار کو ہمیشہ ایک رنگ، نسل، گروہ، خاندان یا قوم کے لیے مختص کردیا ہو۔ہرخطۂ ارض پر مختلف قومیں اور ملتیں آباد رہی ہیں جن میں قوت و حشمت کے لحاظ سے فرق رہا ہے۔ بعض قومیں اپنے معاصرین سے قوت و اقتدار میں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے قرب وجوار میں رہنے والی اقوام پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں۔ان کا یہ غلبہ اس قدر بڑھتا ہے کہ موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق وہ اپنے وقت کی سپر پاور بن جاتی ہیں۔ کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اوراقوام عالم ان سے جان کی امان پاکر ہی اپنے معاملات چلاتی ہیں۔ تاہم ایک وقت کے بعد اس قوم کو زوال آتا ہےایسے ہی جیسے کراچی کی ایک جماعت پر آیا ہوا ہے۔
پاکستان میں بعض جماعتوں نے نفرت پر مبنی سیاست کا آغاز پاکستان کا پرچم جلانے سے کیا،پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر اس کو منطقی انجام تک بھی خود ہی لے آئیں۔
نفرت کے شجر کی تشدد سے آبیاری کی گئی تو یہ جماعتیں پروان چڑھیں جس میں ظلم کے کسیلے پھل نمودار ہوئے۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ اس سے سب واقف ہیں اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ہرقوم کی نفسیات ہوتی ہیں اور ان کی بھی نفسیات تھیں جس میں علم دوستی، نفاست، حب الوطنی نمایاں تھے۔ جنگ و جدل، تشدد، اسلحہ جیسے الفاظ تو کبھی ان کی لغت کا حصہ نہ تھے۔
سچ یہ ہے کہ اذانوں اور نمازوں کے دیس پاکستان کو تا قیامت قائم رہنا ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان سیدناصالح علیہ السلام کی اونٹنی کی طرح اللہ کی نشانی ہے، جس نے اس اونٹنی کونقصان پہنچایا، اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، اور جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، وہ ذلت کا حقدار ٹھہرا۔
قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر ظلم کو خاتمہ ہے، ہر جاندار کو فنا ہے، ہر تشدد کوموت ہے، ہر شب کی سحر ہے لیکن اس کے لیے انصاف کو پروان چڑھانا ہوگا، عصبیت کا خاتمہ کرنا ہوگا، محبت کے نغمے گانے ہوں گے، عدل کو فروغ دینا ہوگا۔
خدا کرے کہ مری ارض پا ک پر اترے        وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے   حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے