عام طور پر ثقافت، تہذیب اور تمدن کے ہم معنی یا مترادف کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ جدا جدا الفاظ ہیں اور ان کے اپنےاصطلاحی مفاہیم مقرر ہیں۔ثقافت کے معنی ہنر یا سیکھنے کے ہیں۔انگریزی کے(culture)کا صحیح مترادف لفظ یہی ہے۔کلچر کے معنی’’ہل چلانا‘‘ یا’’کھیتی باڑی‘‘ کے ہیں۔ اور اصطلاحاً ’’انسانوں کا طریق زندگی‘‘یا ان کے طرز حیات کو کہا جاتا ہے، جو انسان غیر جبلی طور پر یعنی سیکھ کر انجام دیتا ہے۔ گویا ثقافت ایک جامع اصطلاح ہے، جس میں انسانوں کا رہنا سہنا، ملنا جلنا، کھانا پینا اور سلیقہ سکھانا سب کچھ آجاتا ہے۔

ہر وہ کام جو سیکھ کر انجام دیا جائے، خواہ یہ سیکھنا اپنی سوچ اور اپنے فکر و نظر پر مبنی ہو یا مشاہدہ کائنات سے ہو ثقافت کہلاتا ہے۔ اس میں وہ کام شامل نہیں ہیں جو جبلی طور پر انجام پاتے ہیں۔مثلاً بھوک پیاس جبلی شے ہے، اس لیے یہ ثقافت نہیں۔ اپنا جسم چھپانا جبلت انسانی) (Human Instinct(ہے، اس لیے سترپوشی ثقافت نہیں ہے۔لیکن کھانا کھانے اور کپڑے پہنے کے جتنے طریقے اور جتنے انداز اختیار کئے جائیں گے، انھیں ثقافت (culture) کا نام دیا جائے گا۔

ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ انسانی احتیاج (Human Necessity) اورماحول (Environment(بھی ثقافت کو جنم دیتے ہیں اور انسان کی تخلیقی سوچ (creative thinking) بھی۔پھر یہ ثقافت و حشیانہ( Frightfully)بھی ہوسکتی ہے اور مہذب (Civilized) بھی۔ مثلاً پتھر کے دور کی ثقافت غیر تہذیب یافتہ (Uncivilized)تھی جو 3000 قبل مسیح میں مہذب ہوئی۔ثقافت عقائد، سماجی معیارات، تعلیم، ادب، تجربہ، طبعی حالات، ٖضرورت، فکرواحساس اور ایجاد و تخلیق سے متاثر ہوتی ہے۔

تہذیب (Civilization )سے مراد عام طور پر ادب، سلیقہ، تعلیم اور رکھ رکھاو اور اخلاقی قدریں لئے جاتے ہیں۔ گویا ثقافت میں جب سلیقہ کا رنگ اجاگر ہوجاتا ہے تو وہ’’تہذیب‘‘بن جاتی ہے۔ ا س میں رسم الخط، شہروں کا وجود، سیاسی تغیرات اور پیشہ ورانہ تخصص Professional specialization))شامل ہے۔

اس کائنات میں پوری انسانی تہذیب کو اکائی( (Unit سمجھا جاتا ہے اور یہ انسانی تہذیب مرورزمانہ کا ساتھ تین ادوار سے گزری ہے۔ قدیم یعنی جبری تہذیب (Ancient or compulsive)، قرون وسطیٰ (Middle Age)اور جدید جمہور (Modern Democracy) تہذیب، مختلف قومیں، ادوار، علاقے، زبانیں اس تہذیب کا جزو ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر قوم نے تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ہر قوم اور گروہ ثقافت میں اپنا کردار اد اکرے ان تین تہذیبوں کے علاوہ چوتھی تہذیب نے ایک نیا روپ بھرا۔چنانچہ ایک طرف اشتراکیت( Socialism )نے اپنے پنچے پھیلائے تو دوسری جانب سرمایہ داری (Capitalism) نے اپنا منہ کھولا۔آج کی جدید جمہوریت ایک تماشہ بن چکی ہے جس کی تعبیر ہر کوئی اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہذیب کسی اور منزل کی طرف گامزن ہوتی جو فطرت)Nature) کے قریب ہوگی، سائنٹیفک اصولوں پر مبنی ہوگی، دین فطرت ہوگی گویا دوسرے معنی میں وہ اسلام ہوگا۔

تمدن تہذیب کی ایک شاخ ہے۔ یہ لفظ’’مدینہ‘‘سے نکلا ہے۔ جس کے معنی شہر( (City کے اور باہم مل جل کر رہنے کے ہیں۔ تمدن کو شہروں کے حوالے سے پہچاننا ضروری ہے۔ یہ مدنی ثقافت ہے۔ غلطی سے ہم تمدن کی جگہ تہذیب کا لفظ ہڑپا اور موہنجوڈارو وغیرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تمدن ایک عارضی اور مقامی تہذیب کا نام ہے۔ ہر قوم اور علاقے کا تمدن (مدنی ثقافت) اس کے ساتھ ہی نشوونما پاتا ہے۔ اور مٹ جاتا ہے۔ تمدن وحشی بھی ہوسکتا ہے اور مہذب بھی۔ لیکن اس کا ثقافت میں پایا جانا ضروری ہے۔ دور جدید میں ثقافت کا لفظ تہذیب ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ غیر مہذب ثقافت کا دائرہ اب محدود ہوچکا ہے یا ممکن ہے کسی وحشی قوم میں رائج ہو۔

اسلام اپنی ایک مخصوص ثقافت اورتہذیب و تمدن رکھتا ہے۔ چنانچہ جب ہم اسلامی ثقافت کا جائزہ لیں گے تو ان اصولوں کی بات کریں گے جو اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے ہمیں دیئے ہیں اور جنھیں سیکھ کر مسلمانوں نے اپنی زندگی کا رخ متعین کیا ہے۔ اسلام کی تہذیب کے مطالعہ سے وہ ایجادات، تخلیقات اور تحریرات بھی سامنے آئیں گی جو اسلام کی تحریک کے ذریعے سے وجود میں آئیں۔ اور تمدن کی بات ہوگی تو اسلام کے ان اصولوں پر نظر رکھنی ہوگی جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں نے اپنی شہری زندگی کو جاری و ساری کیا۔

اسلام اپنے وجودمیں ایک مکمل ثقافت ہے۔ اس کا واحد معیار تقویٰ ہے جو زندگی کے طرز اور مظاہرے کو پرکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی زبانی اور عملی طور پر توحید کا اقرار ہے اور اسی اقرار پر اسلامی ثقافت کی پوری عمارت استوار ہوتی ہے۔ ہر وہ ثقافتی مظہر جس میں اللہ کی وحدانیت نمایاں ہو اور جس میں تقوٰیٰ کی جھلک واضح نظر آتی ہو وہ اسلامی ثقافت کا مظہر ہے۔اس کے برخلاف مسلمانوں کا ہر وہ طرز عمل جو اسلام کے بنیادی اصولوں کی نفی کرتا ہو وہ غیر اسلامی ہے خواہ مسلمانوں نے اسے کتنا ہی اپنے سینوں سے لگا رکھا ہو۔

فرانسیسی ماہر علم البشریات رابرٹ بریفالٹ نے اپنی تصنیف’’تشکیل انسانیت‘‘ میں اسلامی ثقافت کے بارے میں لکھا ہے :’’یہ صرف سائنس ہی نہیں جس سے یورپ کے اندر زندگی کی لہر دوڑ گئی بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے متعدد اور گو ناگوں اثرات ہیں جس سے یورپ میں پہلے پہل زندگی نے آب و تاب حاصل کی، مغربی تہذیب کا کوئی پہلو نہیں جس سے اسلامی تہذیب و تمدن کے فیصلہ کن اثرات کا پتہ نہ چلے۔لیکن اس سے بڑھ کر روشن ثبوت اس طاقت کے ظہور سے ملتا ہے جو عصر حاضر کی مستقل اور نمایاں ترین قوت اور اس کے غلبہ اور کارفرمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے‘‘۔  

درحقیت اسلامی تہذیب ایک تخلیقی اور نظریاتی تہذیب کی حامل ہے۔ یہ انقلابی اور جرات مند ذہن کی پیداوار ہے۔ جو توحید باری تعالیٰ، عظمت انسانی، مساوات اور اتحاد عالم پر مبنی ہے۔ سیاسی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ثقافت دراصل دین اور سیاست کے آمیزے کا نام ہے۔ کیونکہ سیاست سے دین اوردین سے سیاست کو نکال دیا جائے تو پھرچنگیزیت اور فرعونیت اپنا تسلط جمالیتی ہے،پھر ثقافت ادب اور آرٹ سے تعلق رکھنے والی ان سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں جس سے ہمارے خوش حال طبقوں کے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ثقافت ان لوگوں کی پوری زندگی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے جو ایک قوم کی حیثیتوں سے مل جل کر رہتے ہیں اور جن کو معاشرہ میں سرائیت کرجانے والا ایک ایسا ہمہ گیر نقطہ نظر باہم متحد کردیتا ہے جسے لوگ شعوری طور پر اپناتے یا خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں۔

امریکی ادیب اور معروف شاعر ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ’’کسی قوم کی ثقافت بنیادی طور پر ایک مذہب کی تجسیم ہوتی ہے‘‘۔۔۔۔درحقیقت اسلامی ثقافت کے تمام سرچشمے قرآن و حدیث سے پھوٹتے ہیں۔کتاب و سنت کے مطابق صحیح اسلامی زندگی ہی اسلامی ثقافت کا امتیازی نشان ہے اور اسلامی ثقافت کی روح وہ قومی روایات ہیں جو عہد رسالتﷺ، عہد خلفائے راشدین، عہد صحابہ کرام، عہد تابعین اور تبع تابعین کی یادگارہیں۔ اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے اور پورا عالم اس کے وطن کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے دوسری قوموں کی ثقافت کی مانند اسلامی ثقافت نہ ملکی آب و ہواسے متاثر ہوتی ہے نہ جغرافیائی حدود کے اندر محدود ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت چودہ سو سال سے ایک منہج پر چلی آرہی ہے۔اس کی بنیاد ناقابل تغیر اسلامی قانون پر رکھی گئی ہے جس کا ہر مسلمان پابند ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی رہتا ہو۔ نیک اور صالح مسلمان اپنے اعمال صالحہ عمدگی معاملات، دیانتداری و خوش خلقی، انسانی ہمدردی اور خدمت خلق جیسے اوصاف حمیدہ سے فوراً پہچانا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہے اور یہی اسلامی ثقافت کا بنیادی مظہر (Basic Phenomenon) ہے۔

Raheelgohar5@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے