اللہ نے انسانوں کے لئےدنیا میں سیکڑوں قسم کی نعمتیں مہیا فرمائی ہیں جن کو احاطہ شمارمیں لانا محال ہے ،خود انسان کا وجود اس کی ایک عظیم کاریگری اور بیش بہا نعمت ہے۔ اس نے  انسانی جسم کے اندر ہی نہ جانے کتنی نعمتیں رکھی ہیں ، ان میں سے چندکا ہم احساس تو کرسکتے ہیں مگر شمار کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ ساری نعمتوں کا ادراک واحساس کرنا۔ایک جملہ میں اللہ نے اپنی نعمتوں کے بارے میں انسانوں کو بتلادیا کہ اگر تم اس کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے ہو۔

نعمتوں کے ادراک واحساس کا ایک نادرواقعہ سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں پیش آیا اور اس قسم کے واقعات دنیا میں پیش آتے ہوں گے ، واقعہ یوں ہے کہ ایک 78 سالہ عربی شخص کو ایک اسپتال نے چوبیس گھنٹے کا 600 ریال کا بل پیش کیا ، وہ بزرگ بل دیکھ كر رونے لگا ،لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتلایا کہ صرف چوبیس گھنٹے آکسیجن کا 600 ریال دینا پڑرہا ہے جبکہ میں نے 78 سالوں سے اللہ کی تازہ ہوا میں سانس لے رہا ہوں اور کوئی بل نہیں ادا کیا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں اللہ کا کتنا مقروض ہوں ؟  سبحان اللہ

اللہ تعالی نے ہمیں ایک خوبصورت سانچے میں ڈھال کر مختلف نعمتوں سے اس سانچے کو مزین کیا، ان نعمتوں میں ایک اہم ترین آنکھوں کی نعمت ہے، اسی آنکھ سے دنیا کی رنگینی ، اس کی لطافت اور ہرچیز کا حسن وجمال دیکھتے ہیں اور جو ان آنکھوں سے محروم ہوجائے پوری دنیا اس کے سامنے تاریک ہوجاتی ہے حتی کہ اس کا اپنا گھر، اپنا جسم اور اپنی جائیداد سب پر اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ اس پس منظر میں غور کیا جائے تو آنکھ والوں کے لئےبڑی عبرت ونصیحت ہے مگر کم ہی لوگ ہیں جو اللہ کی نشانیوں میں غوروفکراور عبرت ونصیحت تلاش کرتے ہیں ۔

وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْعٰلِمِيْنَ۰۰۲۲(الروم:22)

’’اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف بھی ہے ، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں ۔‘‘

اللہ تعالی آنکھوں کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتاہے : اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِۙ۰۰۸ (البلد:8)

’’ کیا ہم نے انسانوں کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں؟‘‘۔

دوسری جگہ فرماتا ہے : اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۰۰۲ (الانسان:2)

’’بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لئے پیدا کیا اور اس کو سننے والا اور دیکھنے والابنایا‘‘۔

جب اللہ نے آنکھ جیسی عظیم نعمت دی ہے تو اس کے کچھ حقوق بھی ہیں ، نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا(صحیح البخاري:1874، صحیح مسلم:1159)  یعنی ’’تمہارے اوپر آنکھوں کے حقوق ہیں ۔‘‘

آنکھوں کا حق یہ ہے کہ اسے آرام پہنچائیں، اس کے ذریعہ قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرکے اس کے خالق کی وحدانیت پر ایمان لاکر خالص اسی کی بندگی بجالائیں ، آنکھوں کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے دور رکھیں، ان کو شہوتوں اور فحش کاموں سے بچائیں،ان بیش قیمت آنکھوں سے صرف جائز چیزوں کو دیکھیں اور راہ چلتے آنکھوں کا حق یہ ہے کہ نگاہ نیچی کرکے چلیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں آنکھوں سے جتنے گناہ آج سرزد ہوتے ہیں اتنے پورے جسم سے نہیں ہوتے ہوں گے۔ اسی احساس نے مجھے یہ تحریرلکھنے پر مجبور کیا شاید کوئی نصیحت پکڑنے والا نصیحت پکڑلے ، آنکھوں کی نعمت کا حقیقی احساس کرے اور ان کا صحیح استعمال کرے ۔

شاید بہت سارے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ زنا کا صدور جس طرح شرمگاہ سے ہوتا ہے آنکھوں سے بھی ہوتا ہے اور آنکھوں کا زنا بدنگاہی یعنی فحش  یا حرام چیزوں کو دیکھنا ہے۔نبی مکرمﷺ کا فرمان گرامی ہے:

زِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، والنَّفْسُ تَمَنَّى وتَشْتَهِي، والفَرْجُ يُصَدِّقُ ذلكَ أوْ يُكَذِّبُهُ (صحيح البخاري:6612)

’’آنکھوں کی بدکاری(غیرمحرم) کو دیکھنا ہے ، زبان کی بدکاری غیرمحرم سے گفتگو کرنا ہے ، دل کی بدکاری خواہش اور شہوت ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کردیتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے ۔‘‘

اس حدیث کی روشنی میں آج کے ماحول ومعاشرے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا آدمی اکثر آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہے، سماج میں پائے جانے والے فحش مناظر، برہنہ لباس ، اسکول وبازار اور سواریوں سمیت بھیڑبھاڑ والی تمام جگہوں میں مردوزن کااختلاط اپنی جگہ ۔ رسول اکرم ﷺ نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

  لا تُتبعِ النَّظرةَ النَّظرةَ ، فإنَّ لَكَ الأولى وليسَت لَكَ الآخرَةُ (صحيح أبي داود:2149)

’’نظر کے بعد نظر نہ اٹھاؤ کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر معاف ہے اور دوسری معاف نہیں ہے ‘‘۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اچانک جب کسی اجنبی عورت پر نگاہ پڑجائے تو پہلی نگاہ معاف ہے لیکن عمدا کسی نامحرم پر پہلی یا دوسری تیسری نگاہ ڈالنا معاف نہیں ہے ۔ نظر لمحہ بھر کی ہوتی ہے اس لمحہ بھر کی نظر سے ہمیں پیارے رسول ﷺنے منع فرمایا ہے ، اس جگہ ذرا ٹھہر کر سوچیں کہ جو جان بوجھ کر موبائل سے گھنٹوں گھنٹہ ننگی تصویر اور فحش ویڈیوز دیکھتا ہے اس کی آنکھ کس قدر گنہگار اور زناکارہے؟ کیا لوگوں کو آنکھوں کے اس بھیانک زنا اور سنگین گناہ کے بارے میں احساس ہے ؟ ہرگز نہیں ۔

لڑکوں سے چند قدم آگے نوجوان لڑکیاں فحش کاموں میں ملوث نظر آتی ہیں ،وہ آنکھوں میں مصنوعی پلکیں لگاکر، ابروکی زیبائش کرکے اور منقش لینس لگاکر خودکوسنوراتی ہیں اوراپنی آنکھوں سے لوگوں کو بدکاری کی دعوت دیتی ہیں ۔ایسی لڑکیا ں اسکول وبازار سے لیکر سوشل میڈیا کے تمام چینلز پر نظر آتی ہیں خصوصا ٹک ٹاک کو لڑکیوں نے بے حیائی پھیلانے کا ذریعہ بنالیا ہے۔

میرے نوجوان بھائیو اوربہنو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ جن آنکھوں کو چندگھنٹہ اور چند منٹ کے لئے شہوانی سرور پہنچاتے ہیں یہی آنکھیں ہمارے خوبصورت جسم كو بشمول آنکھیں شعلوں والے جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتی ہیں لہذا آنکھوں کی نعمت کا قدرداں بنیں ، جس نے یہ آنکھیں دے کر ہم پر بڑا احسان کیا ہےاس کا شکربجالائیں اور ان آنکھوں کا استعمال عبرت ونصیحت حاصل کرنے کیلئے کریں ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کو کون سی آنکھیں پسند ہیں ؟ اللہ کو وہ آنکھیں پسند ہیں جن میں شرم وحیا ہواور جو جھکی ہوئی ہوں یعنی شرم وحیا سے جھکنے والی آنکھیں رب ذوالجلال کو پسند ہیں اسی لئے مومنوں کو نگاہ نیچی کرنے کا حکم دیا ہے ،فرمان الہی ہے :

 

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ  اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢبِمَايَصْنَعُوْنَ۰۰۳۰ (النور:30)

’’ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے لوگ جو کچھ کریں اللہ سب سے خبردار ہے ۔‘‘

غورطلب امر یہ ہےکہ پہلے اللہ نے مردوں کو نگاہ نیچی کرنے کا حکم دیا ہے پھر اگلی آیت میں عورتوں کو بھی اس بات کا حکم دیا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت سے پہلے نگاہوں کی پستی کا حکم ایک بڑی حکمت کی بات ہے۔ دراصل تمام گناہوں کی جڑ آنکھ ہے ، آنکھ سے ہی دیکھنے کے بعد دل میں منصوبہ بناياجاتا ہے اور پھر شرمگاہ حرام کام میں ملوث ہوجاتی ہے۔ نگاہ نیچی رکھنے کا فائدہ اللہ نے پاکیزگی قرار دیا ہے اس لئے جو لوگ اپنی نگاہوں کو پست رکھتے ہیں ان کے دل ودماغ اور روح وقلب سب برائیوں سے محفوظ اور پاک صاف رہتے ہیں ۔

اللہ کو وہ آنکھیں پسند ہیں جو اس سے ڈرنے والی اور خوف سے رونے والی ہوں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :

اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِيًّاؑ۰۰۵۸ (مریم:58)

’’ان کے سامنے جب اللہ رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ سجدہ میں گرپڑتے اور رونے گڑگڑانے لگتےہیں‘‘۔

اور نبی مکرم ﷺ کا فرمان ہے : ليسَ شيءٌ أحبَّ إلى الله من قَطرتينِ، وأثَرينِ : قطرةُ دموعٍ من خشيةِ الله  وقطرةُ دمٍ تُهَراقُ في سبيلِ الله ، وأمَّا الأثرانِ فأثرٌ في سبيلِ الله ، وأثرٌ في فريضةٍ من فرائضِ الله (صحيح الترمذي:1669)

’’اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور دو نشانیوں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے: آنسو کا ایک قطرہ جو اللہ کے خوف کی وجہ سے نکلے اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں بہے، دو نشانیوں میں سے ایک نشانی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں لگے اور دوسری نشانی وہ ہے جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادائیگی کی حالت میں لگے۔‘‘

جو آنکھیں اللہ سے ڈرتیں اور اس کے ڈر سے روتی ہیں اللہ نے ان آنکھوں کے لئےبڑا بدلہ تیارکررکھا ہے ، نبی اکرمﷺ نے عرش الہی کے سایہ  کے حقداروں میں جن سات خوش نصیبوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک وہ بھی ہے جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے رونے لگتا ہے ، اسی طرح آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے :

عَينانِ لا تمسُّهما النَّارُ: عينٌ بَكَت من خشيةِ الله، وعَينٌ باتت تحرُسُ في سبيلِ الله

’’دوآنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ، ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو ۔‘‘

اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے :

لا يلِجُ النَّارَ رجُلٌ بَكَى مِن خشيَةِ الله حتَّى يَعودَ اللَّبنُ في الضَّرعِ ، ولا يجتَمِعُ غبارٌ في سبيلِ الله ودخانُ جَهَنَّمَ(صحيح الترمذي:1633)

’’اللہ کے ڈر سے رونے والاجہنم میں داخل نہیں ہوگا یہا ں تک کہ دودھ تھن میں واپس لوٹ جائے ، (اوریہ محال ہے) اورجہاد کاغباراورجہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے ۔‘‘

جب ہم کو یہ معلوم ہوگیا کہ آنکھیں اللہ کی انمول نعمت ہے اورہم نے جانے انجانے میں اس نعمت کا بہت ہی غلط استعمال کیا ہے ، اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟

پہلی فرصت میں سابقہ تمام گناہوں سے سچی توبہ کرنی چاہیے ، نبی معظم ﷺ نے بتایا ہے کہ توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے بے گناہ آدمی، توبہ کے بعد سب سے اہم بات  یہ ہے کہ ہمیں یہ احساس رہے کہ اللہ تعالی ہراس نعمت کے بارے میں ہم سے بروز قیامت سوال کرے گا جن کا ہم نے استعمال کیا ہے خواہ وہ نعمت دنیا کی ہو یا جسم کی ، آنکھوں کے بارے میں سوال کئے جانے کے متعلق صراحت کے ساتھ قرآن میں موجود ہے :

اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا۰۰۳۶

’’ بیشک کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہرایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔‘‘(الاسراء:36)

تیسری بات یہ ہے کہ فحش چیزوں کے قریب بھی نہ جائیں یعنی ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے انسان حرام کاری تک پہنچ جاتا ہے ، اللہ کا فرمان ہے

: وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (الانعام:151)

’’اور بے حیائی کےجتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ۔‘‘

راستہ چلتے ہوئے نگاہ نیچی رکھیں اور موبائل استعمال کرتے ہوئے ان تمام مقامات اور جگہوں سے بچیں جہاں فحش چیزیں موجود ہیں مثلا فحش ویب سائٹس، انجان لڑکیوں سےدوستی ، ان سے ویڈیوکال یا انباکس شہوانی چیٹ وغیرہ۔

بذریعہ موبائل تنہائی میں آنکھوں سے گناہ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں ان کا خالق ومالک دیکھ رہا ہے بلکہ ان کے جملہ کارناموں کو لکھنے پر فرشتوں کو مامور کررکھا ہے ، وہ ساری باتیں جانتے اور لکھتے  ہیں جو ہم اندھیرے یا اجالے میں انجام دیتے ہیں ۔

اور ایک آخری بات یہ ہے کہ ہم نیکی کی طرف رغبت پیدا کریں ، اعمال صالحہ پر دوام اور کثرت برتیں اور فرائض وواجبات میں کوتاہی نہ کریں خصوصا پنچ وقتہ نمازوں میں ۔ آپ کو وہ پیاری حدیث یاد دلاتا ہوں جس میں نبی رحمت ﷺ نے بتلایا ہے کہ وضو میں چہرہ دھوتے وقت چہرے کا گناہ مٹادیا جاتا ہے ، آنکھ چہرے کا حصہ ہے اور وضو کی برکت سے آنکھوں کا گناہ بلکہ  سارے جسم کا گناہ معاف کردیا جاتا ہے اور وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔

اے اللہ !ہماری آنکھوں کی حفاظت فرما ، ان میں حیا اور خوف ڈال دے جس سے یہ جھکی رہیں اور تیرے خوف سے آنسوبہاتی رہیں ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے