دعا کی ضرورت

ہرانسان فقیر وعاجز ہے ، اپنی زندگی کی ہر قسم کی ضرورت کیلئے وہ اللہ کا محتاج ہے۔ غنی اورحمید صرف اللہ کی ذات ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

{یٰاَیُّہَاالنَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرْائُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ}(فاطر :۱۵)

’’لوگو، تم اللہ کے محتاج ہو اوراللہ تو غنی وحمید ہے۔‘‘
اس لئے فقیر وعاجز بندہ کا فرض ہے کہ اپنی ہر ضرورت کیلئے اللہ کو پکارے۔
دعا کیلئے حکم الہٰی

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المؤمن :۶۰)

’’اورتمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘

{اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً ، اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ}(الأعراف :۵۵)

اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
دعا عبادت ہے ۔نبی  ﷺ کا ارشاد ہے:

 ’’الدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ ‘‘(ترمذی)

’’دعا عین عبادت ہے ۔‘‘
دعا مومن کا ہتھیار ہے

الدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤْمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ (رواہ الحاکم بسند صحیح)

دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نور ہے۔‘‘
ہر مصیبت کاعلاج
ارشاد نبوی ﷺ ہے :

اَلدُّعَائُ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ وَإِنَّ الْبَلاَئَ لَیَنْزِلُ فَیَلْقَاہُ الدُّعَآئُہُ فَیَعْتَلِجَانِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔‘‘ (رواہ البزار والطبرانی والحاکم وقال صحیح الاسناد)

’’ دعا مفید ہے اس مصیبت کیلئے جواتر چکی اور جوابھی نہیں اتری اور مصیبت نازل ہوتی ہے تو دعا اس سے ٹکراتی ہے اور قیامت تک دونوں کی ٹکر جاری رہتی ہے ۔

دعا کے آداب وشرائط

دعا سے قبل حسب ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔
اخلاص : دعا صرف اللہ سے مانگی جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

{فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ} (المؤمن:۶۵)

اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کیلئے خالص کرکے۔
حضور قلب: دعا کرتے وقت دل اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔ دعا کے معنی ومفہوم کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دعا کی قبولیت پر پورا یقین ہونا چاہیے۔ارشاد ہے :

اُدْعُوا اللہَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُوْنَ بِالْإِجَابَۃِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ

’’اللہ سے دعامانگو تو دعا کی قبولیت پر یقین رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔‘‘(ترمذی )

عاجزی وانکساری:

دعا کرتے وقت عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا چاہیے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔

{اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً} (الأعراف:۵۵)

اس کے ساتھ اپنے قصوروں کا اعتراف ، آئندہ کیلئے اس سے اجتناب کا عہد اور توبہ وندامت بھی ہونی چاہیے۔
دعا سوال ہے اور سائل کیلئے عجز وانکساری ضروری ہے۔

حمد وصلاۃ:

دعا سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنی چاہیے اور رسول اللہ  ﷺ پر درود وسلام بھیجنا چاہیے۔ (ترمذی)
٭ دعا میں اپنے بہترین اعمال کا واسطہ دینا چاہیے۔ (بخاری حدیث اصحاب الغار)
٭ دعا کرتے وقت قبلہ رخ اور دوزانوں بیٹھنا چاہیے۔ (ترمذی)
٭ اللہ کے اسماء الحسنیٰ کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{وَلِلٰہِ الْأَسْمَائُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِہاَ }( الأعراف :۱۸)

’’ اور اللہ کے اچھے نام ہیں انہی سے اس کو پکارو۔‘‘

متفرق آداب

٭ دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے۔ (ترمذی)
٭ دعا میں ہاتھوں کی ہتھیلی منہ کی طرف کرنی چاہیے۔(ابوداؤد)
٭ دعا میں تکلف اورترنم سے پرہیز کیا جائے۔ (بخاری)
٭ دعا پہلے اپنے لئے ، پھر اپنے والدین ، بھائی، بہنوں اور عام مسلمانوں کیلئے مانگنی چاہیے۔ (مسلم)
٭ دعا میں یوں نہ کہنا چاہیے کہ خدایا اگر تو چاہے تو مجھ کو دے کیونکہ اللہ کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ ( بخاری)
٭ گناہ کے کام اور رشتہ داری کاٹنے کیلئے دعا نہیں مانگنی چاہیے۔ (مسلم)
٭ دعا میں جلدی نہ کرنی چاہیے یعنی یوں نہ کہنا چاہیے کہ میں نے دعا کی اور اب تک قبول نہ ہوئی۔ (بخاری ومسلم)
٭ دعا کرنے والا دعا کے بعد آمین کہے۔ (بخاری)
٭ بہتر ہے کہ دعا کرنے والا باوضو ہو اور دعا کی جگہ بھی پاک وصاف ہو ۔
٭ دعا کی قبولیت کیلئے حلال روزی کھانا مؤثر ذریعہ ہے حرام خور بیت اللہ شریف میں بھی جاکر دعا مانگے تو رد کردی جاتی ہے ۔ (مسلم)
دعا کی مقبولیت کے مخصوص اوقات
٭ رات کا آخری حصہ اس وقت رحمت الٰہی متوجہ ہوتی ہے ۔ ( بخاری )
٭ لیلۃ القدر (ترمذی )
٭ جمعہ کی ساعت میں ۔ (مسلم)
٭ خاص طور پر امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز سے فارغ ہونے تک (حصن حصین )
٭ اذان اوراقامت کے درمیان ۔ (ابوداؤد)
٭ فرض نماز کے بعد ۔ (ترمذی)
٭ عرفہ کے دن کی دعا ۔ (ترمذی )
٭ زمزم پینے کے وقت ۔ (مستدرک حاکم)
٭ روزہ افطار کرنے کے وقت
٭ امام کے ولا الضالین کہنے کے وقت ۔ (بخاری)
وہ لوگ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں
٭ ماں باپ کی دعا اولاد کے حق میں ۔ (ترمذی)
٭ مظلوم کی دعا ۔ (ترمذی)
٭ مسافر کی دعا ۔(ترمذی)
٭ عادل حاکم کی دعا (مسلم)
٭ فرماں بردار اولاد کی دعا ۔ (ابوداؤد)
٭ روزہ دار کی دعا افطار ی کے وقت ۔ (مسلم)
٭ مسلمان کی دعا اپنے غیر حاضر بھائی کیلئے ۔
دعا قبول ہونے والے مقامات
٭ بیت اللہ شریف کے اندر ۔ (مسلم)
٭ ’’ملتزم‘‘ جو رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان ہے۔ (طبرانی)
٭ زمزم کے کنوئیں کے پاس ۔ (دار قطنی)
٭ صفا ومروہ کی پہاڑی پر ۔
٭ ’’مسعیٰ‘‘ جہاں سعی کی جاتی ہے۔
٭ مقام ابراہیم کے پاس۔
٭ عرفات میں ۔ (مسلم)
٭ مشعر الحرام مزدلفہ ۔ (قرآن )
سفر کی دعائیں
مسافرکو رخصت کرنے کی دعا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب اللہ کو کوئی چیز سونپی جاتی ہے وہ اس کی حفاظت کرتاہے۔ (صحیح رواہ احمد)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص سفر کرنا چاہے اس کو اپنے پسماندگان کو یہ کہہ کر رخصت کرنا چاہیے۔

اَسْتَوْدِعُکُمُ اللّٰہَ الَّذِیْ لاَ تُضِیْعُ وَدَآئِعَہُ

میںتمہیں اس اللہ کے سپرد کرتا ہوں جس کی سپرد کی ہوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ (حسن رواہ احمد )
جناب سالم رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو سفر کیلئے رخصت کرتے تو فرماتے : آؤ میں تمہیں ویسے ہی رخصت کروں جس طرح رسول اللہﷺ ہم کو رخصت کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے :

’’اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَآخِرَعَمَلِکَ‘‘

میں تمہارے دین اور تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتاہوں۔‘‘(ترمذی)
نیز رسول اللہ اجب کسی کو رخصت فرماتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور جب تک وہ مسافر آپ  ﷺ کا ہاتھ نہ چھوڑتا آپ  ﷺ ہاتھ پکڑے رہتے۔ (ترمذی)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں سفر کا ارادہ رکھتاہوں ، آپ  ﷺ مجھے مزید نصیحت فرمائیے۔ آپ  ﷺ نے فرمایا :’’زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوَی‘‘ اس نے کہا مزید ارشاد ہو ، آپ  ﷺ نے فرمایا :

’’وَغَفَرَ ذَنْبَکَ وَیَسَّرَلَکَ الْخَیْرَحَیْثُمَا کُنْتَ ‘‘ پوری دعا یوں ہے :’’زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوَی وَغَفَرَ ذَنْبَکَ وَیَسَّرَلَکَ الْخَیْرَحَیْثُمَا کُنْتَ‘‘ (ترمذی)

’’اللہ تعالیٰ تمہیں تقویٰ کا زادِ سفر عطا کرے اور تمہارے گناہ بخش دے اور تم جہاں رہو خیر وبرکت تمہیں میسر رہے۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں سفر کا ارادہ رکھتاہوں ، آپ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ  ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرتے رہنا اور بلندی پر چڑھنا تو ’’اللہ اکبر ‘‘ کہنا ، جب وہ شخص چلا گیا تب آپ  ﷺ نے اس کے حق میں یہ دعا پڑھی۔

اَللّٰہُمَّ اَطْوِلْہُ الْبُعْدَ وَہَوِّنْ عَلَیْہِ السَّفَرَ
(ترمذی ، صححہ الحاکم )

اے اللہ اس کی مسافت کو کم کردے اور اس کے سفر کو آسان کردے۔‘‘
سفر کیلئے روانگی کی دعا
سیدنا علی بن ربیعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا کہ ان کی سواری کا جانور لایا گیا ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رکاب میں پاؤں رکھ کر فرمایا ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ جب جانور کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا :’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ پھر یہ دعا پڑھی۔

سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّآ إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(مسلم)

’’کتنی پاک ذات ہے جس نے اس کو ہمارے لئے تابع کردیا ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں کرسکتے تھے اور ہم سب اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
اس کے بعد تین مرتبہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہا اور تین مرتبہ ’’اللہ اکبر ‘‘ کہا اور یہ دعا پڑھی۔

سُبْحَانَکَ إِنِّیْ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ

’’تیری ذات پاک ہے میں نے یقینا خود پر ظلم کیا ہے میری مغفرت فرما، گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرسکتا۔‘‘
اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسکرائے تو میں نے مسکرانے کا سبب پوچھا کہنے لگے میں نے رسول اللہ ا  کو اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا تو آپ اسے سبب پوچھا تو آپ ا نے فرمایا : جب بندہ ’’اِغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ‘‘ (میرے گناہ بخش دے) کہتاہے تو اللہ کو بڑا بھلا معلوم ہوتاہے کہ بندہ کو یقین ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی گناہ نہیں معاف کرسکتا۔ (ترمذی، صحیح )
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر پر روانہ ہونے کیلئے اپنی سواری پر سوار ہوجاتے تو تین مرتبہ ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے پھر یہ دعا پڑھتے۔

سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّآ إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ،اللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ، اللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہُ اللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْأَہْلِ اللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَہْلِ ‘‘(رواہ مسلم ص/۴۲۴، ج/۱)

’’کتنی پاک ذات ہے جس نے اس کو ہمارے  تابع کردیا ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں کرسکتے تھے اور ہم سب اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔اے اللہ ہم اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقوی کا سوال کرتے ہیں اور ایسے عمل کی توفیق چاہتے ہیں جس سے تو راضی ہو ۔ اے اللہ ہم پر اس سفر کو آسان کردے اور ہم سے اس کی دوری کم کردے اے اللہ تو سفر میںہمارا ساتھ ہے اور گھر میں ہمارا نگہبان۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ چاہتاہوں سفر کی تکلیف اور برے منظر اور اہل وعیال اورمال میں بری حالت کے ساتھ واپس آنے سے ۔‘‘

سفر سے واپسی کی دعا

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ جب کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس ہونے لگتے تو ہر اونچی جگہ پر تین مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور یہ دعا پڑھتے ۔

لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ آیِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ صَدَقَ اللہُ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں عبادت کرنے والے ہیں اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ (محمد ﷺ) کی مدد کی اور اکیلے تمام جماعتوں کو شکست دی۔‘‘
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ اور ہم جب بلندی پرچڑھتے تو ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے اور جب نیچے اترتے تو ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ ‘‘ کہتے ۔ (بخاری)

احرام کی دعا

احرام کی نیت کرنے سے پہلے حمد وثنااور تسبیح وتکبیر کہنی چاہیے پھر حج یا عمرہ یا دونوں جس کا ارادہ ہو اس کی نیت لفظوں میں کرے اور لبیک پڑھے۔ لبیک کے صحیح الفاظ یہ ہیں:

’’لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ‘‘

’’میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ، بیشک تعریف تیرے ہی لئے ہے اورنعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں اورملک تیرا ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ ‘‘

حدودِحرم میں داخلہ کی دعا

حدودِ حرم میں داخلہ کی کوئی مخصوص دُعا صحیح احادیث سے ثابت نہیں مگر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ ۔‘‘

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔

حرم شریف میں داخل ہونے کی دعا

حرم میں داخل ہونے کی مخصوص دعا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں البتہ عام مسجدوں میں داخل ہوتے وقت جودعا پڑھی جاتی ہے وہی پڑھنی چاہیے ۔

اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘

’’اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘

طواف کی دعائیں

حجر اسود کے پاس اللہ اکبر کہنا چاہیے ، رکن یمانی کے پاس یہ دعا پڑھنی چاہیے۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

’’اللہ کا نام لیکر جو بہت عظیم ہے ۔ اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میںمعافی اور عافیت کا سوال کرتاہوں۔ اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔‘‘
طواف کی حالت میں بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے کوئی خاص دعا صحیح سند سے مروی نہیں ،البتہ تسبیحات میں سے یہ دعا پڑھنی ہے۔

سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ

’’اللہ کی ذات پاک ہے اورتعریف اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے اور طاقت اور زور کسی کو نہیں سوائے اللہ کے۔‘‘

طواف کی دو رکعتیں

طواف کے بعد مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعت پڑھنی چاہیے پہلی رکعت میں ’’قل یا یہا الکافرون‘‘ اور دوسری رکعت میں ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھنی مسنون ہے۔ (مسلم)
ملتزم کے پاس دعا مانگنی مسنون ہے۔ (ابوداؤد) مگر اس کیلئے کوئی خاص الفاظ وارد نہیں۔
مقام ابراہیم کے پاس یہ آیت تلاوت کرکے دو رکعتیں طواف کی پڑھنی مسنون ہیں۔ (مسلم)

{وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} (2:125)

اور جس جگہ ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوتے تھے اس کو نماز کی جگہ بنالو ۔
کعبہ کے اندر دو رکعت پڑھنی، دعا مانگنی ،توبہ واستغفار کرنا، ہر کونے میں تکبیر ،تہلیل، تسبیح اور حمد وثنا کرنا مسنون ہے۔ (بخاری)
حرم سے نکلنے کی دعا
اس کیلئے کوئی خاص دعا ثابت نہیں ، البتہ عام مسجدوں سے نکلتے وقت جو دعا مسنون ہے وہی حرم سے نکلنے کے وقت بھی پڑھنی چاہیے یعنی

بِسْمِ اللہِ وَالصَّلَاۃُ عَلٰی رَسُولِ اللہِ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ

’’اللہ کا نام لیکر نکلتاہوں اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتاہوں اے میرے رب میرے گناہ معاف کردے اورمیرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘

زمزم پینے کی دعا

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تاکید کرتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہوزمزم قبلہ رخ ہوکر بسم اللہ کہہ کر تین سانس میں پینا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ سے زمزم پینے کی مخصوص دعا ثابت نہیں، البتہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما زمزم پیتے وقت یہ دعا پڑھاکرتے تھے۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَّرِزْقاً وَّاسِعاً وَّشِفَآئً مِّنْ کُلِّ دَآئٍ ۔ (الترغیب )

’’اے اللہ میںتجھ سے مفید علم اور وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفاء کا سوال کرتاہوں۔‘‘

سعی کی دعا

سعی شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھے۔

’’اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ، اَبْدَأُ بِمَا بَدَئَ اللّٰہُ بِہِ ۔ (مسلم)

بیشک(کوہِ) صفا ومروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جس چیز کو اللہ نے پہلے ذکر کیاہے میں بھی اُسی سے شروع کرتاہوں۔
صفا اورمروہ میں ہر پھیرے میں قبلہ رو کھڑے ہوکر اللہ کی حمد وثنا اور تسبیح ، تہلیل اور دعا مانگنا مسنون ہے۔ اس کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے تین بار اللہ اکبر کہے پھر یہ ذکر پڑھے۔

’’لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَعَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ ‘‘

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ (محمدﷺ) کی مدد کی اور اکیلے تمام جماعتوں کو شکست دی۔‘‘
صفااور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے پڑھنے کیلئے کوئی خاص دعا منقول نہیں ،البتہ بعض صحابہ کرام سیدنا علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماسے یہ دعا منقول ہے۔

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُ

’’اے اللہ بخش دے اوررحم فرما ، تو ہی سب سے زیادہ عزت والا اور سب سے زیادہ بزرگ ہے۔ ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ)
اس کے علاوہ قرآن وحدیث کی دعاؤں میں سے جو دعا چاہیں پڑھیں ۔
ایام عشرہ : پہلی ذی الحجہ سے دسویں ذی الحجہ تک ایام عشرہ کہلاتے ہیں ان میں عبادت الٰہی اور نیک کام کرنے کا بہت بڑا ثواب ہے ۔ (بخاری)
ان دنوں میں کثرت سے یہ تسبیح پڑھتے رہنا چاہیے۔

سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَر(الترغیب والترہیب)

’’پاک ہے اللہ تعالیٰ اور تمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑاہے۔‘‘
منیٰ میں جاتے وقت
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ منیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے تو ہم میں سے کوئی لبیک پڑھ رہا تھا اور کوئی اللہ اکبر کہہ رہا تھا۔

عرفات کی دعا

یوم عرفہ (حج کادن ) بڑی فضیلت کا دن ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے : عرفات کے دن سے زیادہ اور کسی دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس دن قریب ہوتاہے اور تجلی فرماتاہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ (مسلم)
عرفات دعا کی قبولیت کی جگہ ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے۔

’’خَیْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ یَوْمِ عَرَفَۃَ ۔‘‘

بہترین دعا عرفات کے دن کی دعا ہے۔‘‘
رسول اللہ ا  ظہر کے بعد سے مغرب تک تسبیح، تکبیر، تہلیل اور دعا کرتے رہے۔ اس لئے ہر حاجی کو چاہیے کہ اس دن اس متبرک جگہ میں خوب دل لگا کر دعا مانگے اور تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی ، توبہ واستغفار اور تکبیر وتہلیل میں مشغول رہے درود شریف کثرت سے پڑھے لبیک بار بارکہے، اپنے لئے بھی دعا مانگے اور عزیز واقارب واحباب کیلئے بھی ۔
عرفات کے دن رسول اللہ ا  اس دعا کو اکثر پڑھتے تھے۔

لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘
مزدلفہ : مزدلفہ میں ذکر الٰہی کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 فَإِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ، وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہِ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ (مسلم)

’’اور جب تم عرفات سے واپس ہوتو مشعر حرام کے پاس یعنی مزدلفہ میں اللہ کا ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا ہے۔ اگرچہ اس سے بیشتر تم لوگ گمراہوں میں سے تھے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں نمازِ فجر کے بعد سے خوب اجالاہونے تک قبلہ رخ ہوکر دعا مانگی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی یہاں دیر تک دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ (مسلم)

رمی جمار کی دعا

منیٰ میں شیطان کو کنکری مارتے وقت یا اس کے بعد دونوں روایتیں ہیں ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا چاہیے۔ رمی جمار سے فارغ ہوکر یہ دعا پڑھنی چاہیے۔

اللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُورًا وَذَنْبًا مَغْفُورًا

’’اے اللہ ہمارے حج کو مقبول حج کر اور ہمارے گناہ کو معاف فرما۔‘‘

قربانی کی دعا

جانور کو قبلہ رخ لٹا کر یہ دعا پڑھی جائے۔

اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ پھر بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ

کہہ کر ذبح کرے ۔اگر جانور دوسرے کی طرف سے ذبح کرنا ہو تو اس کا نام لیکر کہے میں نے رخ اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے میں ابراہیم کی ملت پر ہوں، یکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کیلئے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبرداروں میں ہوں۔ اللہ کے نام کے ساتھ ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اے اللہ قبول کریہ قربانی فلاں کی طرف سے۔

 احکام وآداب زیارت مدینہ منورہ

مسجد نبوی میں نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کیا جائے تاکہ نبی ﷺ کے اس حکم کی خلاف ورزی نہ ہو جس میں آپ ﷺ نے مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی طرف بغرضِ ثواب رختِ سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری:۱۱۸۹)
مدینہ منورہ پہنچ کر مسجد نبوی میں جائیں ، جہاں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ (بخاری :۱۱۹۰) جبکہ پچاس ہزار نماز کاثواب والی حدیث (ابن ماجہ) ضعیف وناقابل حجت ہے۔
٭ مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی دعائے دخول اور پھر تحیۃ المسجد پڑھیں اور اگر ممکن ہوتو ’’روضۃ الجنۃ‘‘ میں پڑھیں جو قبرِ شریف کے ساتھ ہی سفید ستونوں والی جگہ ہے اور جسے نبی ﷺ نے ، جنت کا باغیچہ قرار دیاہے۔ (صحیح بخاری :۱۱۹۶،۱۸۸۸) اگر کسی فرض نماز کا وقت ہے تو باجماعت نماز اداکر لیں ۔
٭فرض نماز یاتحیۃ المسجدکی دو رکعتوں کے بعد نبیﷺ کی قبرِمقدس کے پاس جائیں اور یوں سلام کریں :

 اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ

’’اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر سلام ہو۔‘‘
پھر ساتھ ہی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر پر انہیں یوں سلام کریں۔     ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَا بَکْرٍ‘‘
اے ابو بکر رضی اللہ عنہ! آپ پر سلام ہو۔‘‘
اور پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر پر انہیں یوں سلام کہیں۔      اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاعُمَرُ
’’اے عمر رضی اللہ عنہ! آپ پر سلام ہو۔‘‘ (مؤطا امام مالک)
٭ نبی ﷺ کی آخری آرام گاہ کے درودیوار یا جالیوں اور پوری مسجد نبوی کے کسی بھی حصہ کو تبرک کی نیت سے چھونا، پھر ہاتھوں کو چہرے اور سینے پر پھیرنا اور چومنا ثابت نہیںہے۔ امام غزالی ، ابن تیمیہ، امام نووی، ابن قدامہ، ملا علی قاری ، شیخ عبد الحق حنفی دہلوی اور مولانا احمد رضا خان(بریلوی) رحمہم اللہ نے بھی ان امور کو ممنوع قرار دیا ہے۔ (احیاء علوم الدین از غزالی ۱/۲۴۴)
٭ قبر شریف کے پاس شور پیدا کرنا یا طویل عرصہ تک رک کر شور کا باعث بننا بھی درست نہیں کیونکہ یہ ادب گاہِ عالم ہے اور یہاں آوازوں کو پست رکھنا ضروری ہے۔(الحجرات:۲)
صلوٰۃ وسلام سے فارغ ہوجائیں تو قبلہ رو ہوکر دعائیں مانگیں نہ کہ قبر شریف کی طرف منہ کرکے۔(التحقیق والایضاح ص/۴۳)
٭ حرم مکی کی طرح ہی مسجد نبوی سے بھی الٹے پاؤں نکلنا ایک خود ساختہ فعل ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیںہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ ص/۴۳)
٭ قیام مدینہ منورہ کے دوران کسی بھی وقت اقامت گاہ سے وضو کرکے جائیں اور مسجد قبا میں دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اس کا ثواب پورے عمرے کے برابر ہے۔ (نسائی ۲/۳۶)
مسجد قبا کی زیارت سنتِ رسول  ﷺ ہے ۔
(صحیح مسلم۹ـ/۱۶۹،۱۷۰)
٭ بقیع الغرقد (جنت البقیع) کی زیارت کر سکتے ہیں اور وہاں عام قبرستان کی زیارت والی دعا کریں اور ان الفاظ کا اضافہ کردیں ۔ ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاَہْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقِدِ‘‘ ’’اے اللہ! اس بقیع غرقد کے آسودگانِ خاک کی مغفرت فرما دے۔‘‘
٭ شہدائے احد کی زیارت بھی جائزہے اور وہاں بھی عام زیارت قبور والی دعا کریں۔
٭ مدینہ منورہ میں جتنا بھی قیام ممکن ہو جائز ہے ۔ چالیس نمازیں پوری کرنے کیلئے ہفتہ بھر رکنا کوئی شرط نہیں، کیونکہ اس موضوع پر بیان کی جانے والی مسند احمد وطبرانی اوسط والی روایت ضعیف وناقابلِ استدلال ہے۔ (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألبانی ۱/۳۶۶)
٭دورانِ حج اگر کوئی شخص مقصد بنائے بغیر ضمنی طور پر کوئی تجارت یا مزدوری کرنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ (البقرۃ:۱۹۸، الحج:۳۸، صحیح بخاری حدیث نمبر :۱۷۷)
البتہ اس میں غیر قانونی اشیاء غیر قانونی طریقوں سے لانا، ان کا کاروبار کرنا اور کسٹم میں دھوکا دہی کرنا جوکہ عام حالات میں بھی روا نہیں، وہ حجاج کیلئے بھی جائز نہیں، ان سے بچیں۔ (جدید فقہی مسائل ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ص:۱۳۰،۱۳۱)
٭ مکہ مکرمہ کا اصل تحفہ آبِ زمزم اور مدینہ منورہ کا مبارک ہدیہ عجوہ کھجور ہے کیونکہ آبِ زمزم ہرغرض ومرض کیلئے مفید ہے۔ (مسند احمد ۲/۳۰۵،۳۵۶) یہ کھانے کا کھانا ۔ (صحیح مسلم۲/۱۴) اور بیماری کی دوا ہے۔(مسند احمد ۲/۳۰۱،۳۰۵) اور عجوہ کھجور کے سات دانے صبح کھالیں تو اس دن زہر اور سحر(جادو) اثر نہیں کرتا۔ (بخاری :۵۴۴۵) یہ شفا اور زہر کا تریاق ہے۔ (صحیح مسلم۳/۱۴)
یہ جنت کا پھل ہے۔ (ترمذی:۲۰۶۸)
٭ سفر چاہے کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو ، یہ عذاب کا ایک ٹکڑا ہے ، لہذا کوئی شخص جب اپنا کام مکمل کرلے تو جلد اپنے اہل وعیال میں لوٹ جائے۔ (بخاری :۱۸۰۴)  حاجی کا حج سے فارغ ہوکر اپنے اہل وعیال میں جلد لوٹ جانا ہی زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (دار قطنی ۲/۳۰۰)
٭ جب واپسی کا سفر اختیار کریں تو سواری پر بیٹھنے، راستے میں قیام کرنے ، شہروں کو دیکھنے، اونچائی پر چڑھنے اور زیریں جانب اترنے وغیرہ کی دعائیں کرتے آئیں اور جب اپنا شہر نظر آجائے تو یہ دعا کریں۔

آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ(بخاری :۲۹۸۱،۱۷۹۷)

’’ہم تو تائب ہوکر ، سجدہ وعبادت گزاری کا عہد کرکے لوٹ آئے ہیں، اور اپنے رب کی تعریفیں کرتے ہیں۔‘‘
٭ اور اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ممکن ہوتو مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھ لیں۔ (بخاری ومسلم) اور پھر یہ دعا کرتے ہوئے اپنے گھر داخل ہو جائیں۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْئَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا وَعَلَی رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا(ابو داؤد)

’’اے اللہ ! میں تجھ سے داخل ہونے ، اور نکلنے کی جگہوں کی بھلائی کا سوال کرتاہوں، تیرا نام لیکر ہم یہاں سے نکلے تھے اور اے ہمارے رب! تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے۔‘‘
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مقدس سفر میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے