Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

جدیدیت

03 Jul,2016

تبدیلی اور جدیدیت کا عمل ازل سے ہے اور ہر زمانے
کے لوگ اپنے آپ کو جدید کہتے رہے ہیں اور کہتے رہیں گے۔ لب و لہجے میں فرق کے ساتھ ہر زمانے کے ادیبوں، اور مصنفین نے ان اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جیسے اس صدی کے نامور شخصیت سمویل ہنٹینگٹن کہتے ہیں ”جدیدیت میں صنعت، شہری زندگی، خواندگی کا معیار، تعلیم و صحت، سماجی انتظامی ڈھانچہ، رویے، اقدار، علم اور لوگوں کی ثقافت شامل ہیں۔ یہ چیزیں جدید معاشروں میں اور روایتی معاشروںمیں باہم مختلف ہیں۔ جدید مغربی معاشرے اور روایتی معاشرے میں دو وجوہات کی بنا پر امتیاز کیا جاتا ہے۔ (اوّل) جدید معاشرے کے لوگ ایک دوسرے سے علم و عمل کے ذریعے ایک مشترکہ ثقافت تو نہیں لا سکتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے سیکھتے ضرور ہیں۔ (دوم) روایتی معاشرہ زراعت پر مبنی ہے جبکہ جدید معاشرہ صنعت پر مبنی ہے“۔
جدیدیت کو سمجھنے کے لیے جدید تصور نفس، جدید شخصیت، جدید معاشرت، جدید ریاست، جدید ما بعد الطبیعیات کے نظریات سے واقفیت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدیدیت اور جدید انسان کی پیدائش کا تاریخی پس منظر جاننا بھی ضروری ہے وہ کون سے تاریخی عوامل و اسباب تھے جنہوں نے جدیدیت اور آزادی کے عقائد کو ابھرنے پنپنے کا موقع دیا۔ روایتی معاشرہ کمرشل معاشرے میں کیسے تبدیل ہوا کا مرس اور لبرٹی کے تصورات نے روایتی زندگی پر کیا اثرات ڈالے۔ جمہوریت، سرمایہ داری، بنیادی حقوق کے قافلے کس طرح وجود میں آئے۔ جدیدیت سے پہلے مغرب عیسائیت کی آغوش میں تھا لہٰذا جدیدیت کے ظہور، فروغ اور ارتقاء کو سمجھنے کے لیے، عیسائیت کی تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے۔
دنیا کی 23روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں اللہ کے آگے سر بسجود ایک ہستی تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا (Mankind) بندے سے آزاد فرد (Human being) ہوگیا یہ اصطلاح بھی صرف اس کے حیاتیاتی وجود کی علامت تھی لہٰذا اس کے سیاسی وجود کی وضاحت کے لیے Citizen کی اصطلاح استعمال کی گئی جو خود مختار مطلق Soveriegn ہوتا ہے۔ اسی آزاد خود مختار وجود کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جو Re-public کہلائی۔ ایسی ریاست جہاں عوام کا حکم ارادہ عامہ (General will)کے تحت چلتا ہے۔ اس کے سوا کسی کا حکم چل نہیں سکتا۔ اگر کسی ریاست میں کسی اور کا حکم بہ ظاہر چل رہا ہے تو اس حکم کے چلنے کی اجازت بھی عوام کی اجازت سے ملی ہے اور یہ اجازت مطلق نہیں ہے حاکم حقیقی (عوام)اس اجازت کو جب چاہیں منسوخ کرسکتے ہیں مثلاً پاکستان کے دستور آئین میں اللہ کی حاکمیت کو سب سے بالاترحاکمیت کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
اصولاً منشور بنیادی حقوق کے تحت ایسی حاکمیت کو قبول نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستانی معاشرہ ابھی جدید نہیں ہوسکا ابھی روایات اور مذہب کے شکنجوں میں ہے لہٰذا مجبوراً مذہب کو بھی عوام کی اجازت سے دستور میں عارضی طور پر حاکمیت دی گئی ہے مگر یہ حاکمیت حتمی نہیں عوام جب چاہیں کثرت رائے سے حاکمیت الہ کی اس شق کو منسوخ کرسکتے ہیں۔ 2009ء میں یہ حادثہ ہوچکا ہے جب ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے اجلاس
میں دستور سےاللہ کی حاکمیت کی شرط ختم کرنے کے لیے
قرار داد پیش کی قرارداد کی مخالفت پاکستان پیپلز پارٹی نے کی۔ رائے شماری ہوئی تو اللہ کی حاکمیت دو ووٹوں کی برتری سے برقرار رہی۔ ایک پاکستانی اخبار نے سرخی لگائی“ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت دو ووٹوں کی اکثریت سے بچ گئی” جدید انسان قائم بالذات، فاعل مختار مطلق، ہدایت میں خود کفیل، خارجی ذریعۂ ہدایت سے بے نیاز اور ماوراء اپنے فیصلے خود کرنے کا حقیقی مجاز، ہر خارجی بیرونی ذریعۂ علم کی حاکمیت و رہنمائی سے ماورائ، خیر و شر خلق کرنے کا اختیار رکھنے والی ہستی، ہر ایک کی عبادت سے بے نیاز اپنے معبد میں خوداپنی عبادت میں مصروف لا فانی، نورانی، حیوانی وجود ہے۔ لہٰذا جدیدیت میں صرف انسان ہی اصل حقیقت اصل وجود ہے کیونکہ اس کے وجود میں شک نہیں کیا جاسکتا وہی مرکز کائنات ہے کیونکہ یہ اللہ مرکز کائنات نہیں یہ کائنات بھی انسان کے لیے ہے۔ ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دوطریقے ہیں ایک سائنسی (Scientific trust) دوسرا شاعرانہ یا پیغمبرانہ(Poetic truth) پہلے طریقے سے علم مشاہدے تجربے سے ملتا ہے دوسرے طریقے سے ملنے والا علم محض شاعرانہ حقیقت ہے۔ ٹائن بی کے خیال میں لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام ہی پیغمبری ہے۔ جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، اختیاری سائنسی ذریعۂ علم پر یقین رکھتا ہے اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، ما بعد الطبیعیاتی، الہامی مذہبی ذرائع سے ملنے والے علم کو جہل، ظلمت و گمراہی تصور کرتا ہے کیونکہ ان ذرائع سے ملنے والے علم کی تصدیق تجربہ گاہ میں آلات سائنس سے نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ تمام علوم جہالت میں شمار ہوتے ہیں جدید انسان وہ ہے جو ان جہالتوں سے ماوراء ہے اور خیر و شر کے پیمانے خود خلق کرتا ہے کسی الہامی روایتی دینی علم سے پیمانے اخذ نہیں کرتا اس لیے جدیدیت تاریخ کا انکار کرتی ہے سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ (Dark ages) قرار دیتی ہے جدیدیت ماضی کا انکار کرنے کے باوجود ماضی سے کلاسیک کے نام پروہ تمام تصورات نظریات عقائد قبول کرتی ہے جو اس کی ابلیسیت سے ہم آہنگ ہیں مثلاً وہ یونان سے ارسطو کا نظریۂ ابدیت دنیا لے کر آخرت کا انکار کرتی ہے۔ سترہویں صدی سے پہلے کے انسان کو انسان تسلیم نہیں کرتی جدیدیت کے خیال میں اصل انسان تو روشن خیالی کے فلسفے کے بعد ظہور پذیر ہوا۔ جدید انسان ہی حقیقی معنوں میں صاحب علم ہستی ہے جو روشنی سے منور ہے کیونکہ اس نے جہالت کی تاریخ کا انکار کرکے مذاہب سے بغاوت کرکے اپنے لیے زندگی کا راستہ اپنی ہی روشنی اپنی ہی رہبری و رہنمائی میں خود طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ نشاۃ ثانیہ، روشن خیالی، جدیدیت انسان کی اسی خود کفالت، فارغ البالی، خود انحصاری، خود مختاری اور آزادی کامل کا نام ہے جدید انسان کو زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے اپنے سواکسی اور ذریعہ سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جدیدیت، جدید انسان کا یہ دعویٰ کہ عقلیت آفاقی ہوتی ہے اور عقلیت کی بنیاد پر آفاقی اقدار آفاقی نظام آفاقی اخلاقیات وضع کی جاسکتی ہے پس جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم) نے رد کردیا اس نے بتایا کہ عقل اپنی تاریخ تہذیب ثقافت میں محصور و مقید مسدود محدود ہوتی ہے مغرب میں اب اس رائے پر عمومی اتفاق ہے۔
جدیدیت  کے ثمرات
اٹھارہویں صدی سے پہلے دنیا قدیم تھی جو اٹھارہویں صدی کے بعد ایک دم جدید ہوگئی اس جدید دنیا کے بنیادی اعتقادات، نظریات، ایمانیات کیا تھے مختصراً دیکھ لیتے ہیں۔
جدید انسان اٹھارہویں صدی سے قبل/جدید انسان اٹھارہویں صدی کے بعد
1۔ ہر تہذیب کا انسان کسی نہ کسی بالاتر و برتر اعلیٰ ہستی کی پرستش کرتا تھا۔ / اب انسان خود اپنی پرستش کرنے لگا۔
2۔ علم باہر سے، خارجی ذریعے سے، روایت سے، وحی سے یا آسمان سے آتا تھا۔ / علم خود انسان سے عقل سے میسرآنے لگا۔
3۔ انسان علم کے لیے خارج کا محتاج تھا۔ / انسان علم کے لیے کسی خارج کا نہیں صرف داخل کا، عقلیت کا محتاج ہے۔
4۔ کائنات اللہ تعالیٰکا مرکز تھی۔ / کائنات انسان کا مرکز ہوگئی۔
5۔ اصل علم حقیقت الحقائق کا علم تھا۔ / اصل علم سرمایے میں اضافے کا علم قرار پایا۔
6۔ ما بعد الطبیعیات پہلے تھی علمیت مابعد الطبیعیات سے نکلتی تھی۔ / علمیت پہلے آگئی کہ ہمارے ذرائع علم کیا ہیں اور ہم ان سے کیا جان سکتے ہیں کیا نہیں جان سکتے اس علمیت سے ما بعد الطبیعیات نکالی گئی لہٰذا ما بعد الطبیعیات کا علم علمیت کے دائرے سے باہر ہوگیا اور جہالت شمار کیا گیا۔
7۔ انسان روشنی رہنمائی کے لیے خارج، آسمان، وحی، نبی، بڑے آدمی کی طرف دیکھتا تھاکیونکہ ہر آدمی علم میں خود کفیل نہ تھا۔ / انسان اپنی رہنمائی کے لیے صرف اپنی طرف دیکھنے کا پابند ہوا تمام خارجی ذرائع علم لا یعنی ٹھہرے انسان پیغمبر باطن کے ذریعے ذاتی علم میں خود کفیل ہوگیا۔ ریاست کا علم فلاسفہ سے لینے لگا۔
8۔ ما بعد الطبعیات کا علم اہم ترین تھا۔ / اب طبیعیات کا علم اہم ترین ہوگیا۔ لہٰذا Metaphysics of Presence وجود میں آئی۔
9۔ دنیا غیر اہم آخرت سب سے اہم تھی۔ دنیا کو انسان آخرت کی کھڑکی سے دیکھتا تھا۔ / صرف دنیا اہم تر ہوگئی آخرت خارج ہوگئی خدا ختم کردیا گیا مذاہب کو جہالت قرار دیا گیا۔
10۔ علم اور زندگی کا مقصد آخرت میں کامیابی تھا۔ / علم اور زندگی کا مقصد صرف اور صرف دنیا میں کامیابی رہ گیا۔
11۔ انسان اپنے رب کی عبادت کرتا تھا۔ اس کے لیے عبادت گاہ جاتا تھا۔ / اب انسان خود اپنی عبادت کرنے لگااور کسی عبادت گاہ میں جانے کی ضرورت نہ رہی۔
12۔ انسان علوم نقلیہ کو اہم علوم عقلیہ کوغیر اہم سمجھتا تھا علوم عقلیہ یعنی مال کمانے کے علم کو علوم کی تلچھٹ سمجھا جاتا تھا۔ مال جمع کرنا زیادہ سے زیادہ تمتع فی الارض کرنا غیر اخلاقی کام تھے ہر تہذیب کے بڑے لوگ انبیاء، فلاسفہ، علماء سادہ فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے فقر پر فخر کرتے تھے۔ / صرف علوم عقلیہ اہم قرار پائے سب سے اہم علم وہ جس سے سب سے زیادہ مال کمایا جاسکے مذہب، علوم نقلیہ علوم کی تلچھٹ میں بھی شمار نہیں کیے گئے انھیں علم کے دائرے سے باہر نکال دیا گیا۔ اعلیٰ معیاری عالیشان زندگی گزارنا اصل مقصد ہوگیا۔
13۔ علم کی بنیاد یقین تھی۔ / علم کی بنیاد ڈیکارٹ کے بعد شک پر رکھی گئی ایسا طریقہ علم جو شک سے یقین تک پہنچائے لہٰذا ڈیکارٹ کے بعد تمام فلسفی ریب و شک میں ہی گرفتار رہے۔
14۔ ما بعد الطبیعیات پانچ بنیادی سوالات سے بحث کرتی تھی۔ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کہاں جاؤں گا، مجھے کس نے پیدا کیا، میرا انجام کیا ہے؟ / ما بعد الطبیعیاتی سوالات کی جگہ حاضر و موجود دنیا کی ما بعد الطبیعیات Metaphysic of Presence آگئی۔
15۔ حفظ مراتب کی تہذیب تھی مراتب وجود متعین تھے مغربی مساوات نہ تھی۔ / فرد آزاد ہوگیا سب افراد مساوی ہوگئے۔ کسی کے لیے تکریم باقی نہ رہی۔
16۔ ترقی معیار زندگی میں اضافہ قابل قدر کام نہیں تھے۔ / ترقی اور معیار زندگی میں اضافہ ہی اصل قابل قدر کام قرار پائے۔
17۔ نفس انسانی روحانی Soul تھا۔ / نفس انسانی میں Soul کی جگہ اسپرٹ، مائنڈ، شعور، ذہن، سائیکی نے لے لی۔
18۔ علمی تناظر بتاتا تھا کہ حقیقت کا ڈھانچہ موجود ہے ہمارا ذہن اگر اسے اسی طرح پہچان لے جیسا کہ حقیقت ہے تو ہم حقیقت کو پہچان لیں گے حقیقت موجود ہے انسان خالق حقیقت نہیں نہ حقیقت خلق ہوسکتی ہے۔ / کانٹ نے بتایا کہ حقیقت کا کوئی ڈھانچہ کائنات میں موجود نہیں اصل حقیقت تو میرا ذہن ہے جو حقیقت کو ڈھانچے مہیا کرتا ہے۔ انسان حقیقت کا حامل ہی نہیں حقیقت کا خالق و عالم بھی ہے میں جو خلق کرتا ہوں وہی حقیقت ہے میں دنیا کو ویسا بنادوں گا جیسا بنانا چاہوں گا۔
19۔ دنیا عارضی تھی۔ / دنیا ابدی (Eternal) ہوگئی۔
20۔ لوگ اللہ کی پرستش اور آخرت کی جستجو کرتے تھے۔ / لوگ اپنی پرستش اور سرمایہ و دنیا کی جستجو کرنے لگے۔
21۔ انسان تسخیر قلوب کرتا تھا۔ / انسان تسخیر کائنات میں مصروف ہوگیا۔
22۔ خیر و شر کے پیمانے متعین تھے۔ / خیر و شر ذہن انسانی عقلیت سے دریافت کرسکتا ہے ہر زمانے کے خیر و شر مختلف ہوسکتے ہیں۔
23۔ اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرنے کے باعث لوگ ثواب اور عذاب کے قائل تھے گناہ کا وجود تھا اور ہر گناہ Guilt خلش ہوسکتا تھا۔ /اللہ  کو خارج کردیا گیا تو گناہ و ثواب بھی بے معنی ہوگئے گناہ Sin کی جگہ Guilt خلش نے لے لی۔ واضح رہے کہ ہر خلش گناہ نہیں ہوتی۔
24۔ گناہ گار لوگ نیک لوگوں سے رجوع کرتے تھے اور اعتراف گناہ کرتے تھے عبادت گاہ مثلاً کلیسا جاتے تھے وہاں عالم موجود ہوتا تھا۔ / خلش میں مبتلا لوگ کلیسا کے بجائے نفسیاتی ماہرین اور ان کے کلینک سے رجوع کرنے لگے دین کے عالم کی جگہ یہاں سائیکو تھراپسٹ آگیا۔
25۔ عورت حیا دار تھی عفت و عصمت اس کا زیور تھا۔ / حیاء کی جگہ شرم (Shame) اور خلش (Guilt) نے لے لی۔ حیاء (Modesty) تہذیب سے خارج ہوگئی۔
26۔ آزادی معیار، منہاج اور قدر نہیں صرف صلاحیت تھی۔ / آزادی معیار، منہاج، قدر، اصول، عقیدہ اور ایمان بن گیا۔
27۔ انسان اقدار و روایات، اساطیر، الہام، وحی، مذہب، اتھارٹی کا پابند تھا۔ / انسان پبلک لائف میں صرف ارادہ عامہ General will کا تابع ہوگیا اور ذاتی زندگی کے دائرے میں مطلق آزاد خود مختار ہوگیا۔
28۔ بندگی قدر تھی لوگ عبد تھے کسی کو جواب دہ تھے۔ / آزادی قدر ہوگئی لوگ خود خدا ہوگئے اور کسی کو جواب دہ نہیں رہے۔
29۔ علوم نقلیہ کو عروج ملا عالم وہ کہلاتا تھا جو حقیقت الحقائق اور ما بعد الطبیعیات کا عالم ہو۔ / علوم عقلیہ کو رواج ملا عالم وہ کہلایا جو زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکے سب سے زیادہ پیسہ سٹے باز، بینکر، اور تفریحات فلم کی صنعت کے لوگ کماتے ہیں۔
30۔ لوگ رب کی معرفت، قربت، خوشنودی کو سب سے اہم کام سمجھتے تھے۔ / لوگ دولت سرمایہ کے حصول اور خواہش نفس کی تکمیل کو سب سے اہم کام سمجھنے لگے۔
31۔ لوگ کسی خیر کسی الحق اور نجات کے لیے جیتے تھے۔ / لوگ اب صرف خود کے لیے جیتے ہیں۔
32۔ لوگ ایثار قربانی، خدمت، محبت میں لذت محسوس کرتے تھے۔ / لوگ ان اقدار کو احمقانہ سمجھنے لگے۔
33۔ فرد خاندان، قبیلے، گروہ میں رہ کر اجتماعیت کے ذریعے اپنا اظہار کرتا تھا اس کی شناخت وہ خود نہیں تھا۔ / ہر فرد آزاد ہوگیا ہے انفرادیت پرستی نے سب کو جدا جدا کردیا اب لوگوں کی شناخت پیشے سے ہوتی ہے انجینئر، ڈاکٹر، سائنس داں، پروفیسر، ٹیچر، وغیرہ اسی لیے لوگ وزیٹنگ کارڈ مانگتے ہیں۔
34۔ عالم اسے کہا جاتا تھا جس کی صحبت میں بیٹھ کر رب یاد آئے۔ دنیا، دنیا کی لذتیں، نعمتیں حقیر نظر آنے لگیں اور خالق کائنات کی محبت تمام محبتوں پر غالب آجائے۔ / عالم اسے کہا جاتا ہے جو دنیا کا علم سکھاسکے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے اس کے سوا تمام علوم جن سے پیسہ نہ ملے وہ جہالت قرار پائے۔
35۔ آزادی، ترقی، مال سے مال بنانا مقصد تھا نہ اصول نہ ضرورت ہر عمل کی بنیاد صرف آخرت میں نجات تھا، آزادی آخرت کی نفی ہے ترقی کا اصول نفس غیر مطمئنہ کے حصول کا سبب ہے مال سے مال بنانا نجات کے منافی تھا۔ / آزادی ترقی اور سرمایہ سے سرمایہ کمانا ہی مقصد اصول ہدف ہے ہر عمل کی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس سے آزادی میں لذت میں اضافہ ہوا یا نہیں۔( سید خالد جامعی صاحب)

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول