بعد از نمازِ عصر
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الطلاق میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے چنانچہ نمازِ عصر سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ایک ایک کا حال معلوم فرماتے تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں شہد پیش کرتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شہد کو رغبت سے نوش فرماتے تھے۔ (مختصر از صحیح البخاری، حدیث نمبر :۵۲۶۸)
شہد ایک بیش قیمت عطیہ خداوندی ہے قدیم وجدید طب میں اس کی اہمیت وافادیت ایک مسلمہ امر ہے آئیے ذرا شہد کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں جانتے ہیں ۔
قرآن اور شہد
رب تعالیٰ کا فرمان ہے {یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیہِ شِفَاء ٌ لِلنَّاسِ } (النحل :۶۹)
’’ ان (مکھیوں) کے پیٹ سے ایک مشروب نکلتاہے جوکئی رنگوں والا ہونے کیساتھ ساتھ لوگوں کیلئے شفا کے عناصر سے لبریز ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں کہ کائنات کی بڑی بڑی چیزیں اپنے جمال وجلال اور نفع رسان کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں لیکن عام طور پر چھوٹی چیزوں کو حقیر سمجھ کر لائق التفات خیال نہیں کیا جاتا اور پھر مکھی جیسی چھوٹی سی چیز کیلئے کسے فرصت ہے کہ اس میں سوچ وبچار کرے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری حکمت اور قدرت کے جلوے صرف پہاڑوں، سمندروں ، مویشیوں اور بلند وبالا درختوں میں ہی نظر نہیں آتے بلکہ ایک چھوٹی سی شہد کی مکھی بھی میری حکمتوں کی تجلی گاہ ہے ۔
اسی طرح دوسری جگہ اہل جنت کیلئے نعمت خداوندی( شہد) کا تذکرہ کیا اور فرمایا {وَاَنْہَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفَّی}(محمد :۱۵)
’’(آخرت میں اہل جنت کیلئے) پاکیزہ شہد کی نہریں ضیافت کیلئے (تیار کی گئی) ہیں۔‘‘
شہد کی مکھی کو رسول اللہ علیہ السلام نے مارنے سے منع کیا ہے ۔ (ابو داؤد ، کتاب السلام باب فی قتل الزراع )
قرآن مجید میں شہد کی مکھی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ ایک پوری سورت اس کے نام سے موسوم ہے ۔
رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ شفا تین چیزوں میں ہے سینگی کے نشتر میں ، شہد کے گھونٹ میں یا آگ کے داغنے میں اور میں اپنی امت کو داغ دینے سے منع کرتاہوں ۔ (صحیح البخاری ، الطب ، باب الشفا فی ثلاث ، حدیث نمبر :۵۶۸۱)
اسی طرح صحیح بخاری میں ہی سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ میرے بھائی کو اسہال(دست ،پیچس) ہوگیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’اسْقِہِ عَسَلاً‘‘ اسے شہد پلاؤ اس نے اسے شہد دیا لیکن اس کا مرض بڑھ گیا وہ گھبرا کر واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حقیقت حال بیان کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ صَدَقَ اللّٰہُ وَکَذَبَ بَطْنُ أَخِیْکَ اِسْقِہِ عَسَلاً ‘‘(اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے جاؤ ! اسے شہد پلاؤ) اس نے اپنے بھائی کو شہد پلایا اور وہ تندرست ہوگیا۔
محدثین نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ اسے اسہال کی بیماری تھی اب اگر اسے کوئی مُمسِک چیز دی جاتی تو اس کی جان کو خطرہ تھا جبکہ شہد مُسہل ہوتاہے اور مواد فاسدہ کو پیٹ سے خارج کرتاہے۔ دو تین دفعہ شہد کھانے سے اس کا پیٹ فاسد مادے سے صاف ہوگیا تو وہ شفا یاب ہوگیا ۔
حکیم محمد اکرم صاحب فرماتے ہیں کہ شہد
۱۔ طاقت کیلئے قیمتی سے قیمتی ٹانک
۲۔ پیٹ کیلئے چورن اور امرت دھار
۳۔ کم خون کیلئے شربت فولاد
۴۔ امراض دل اور حرارت خون کیلئے کیپسول
۵۔ حسن اور چہرے کی خوبصورتی کیلئے میکس فیکٹر پوڈر اور سنو کریم ہے۔مزید فرماتے ہیں طوالت عمر کا راز محنت، دودھ، شہد اور روغن زیتون میں ہے ۔
شہد کے استعمال کرنے کے چند مخصوص طریقے
۱۔ صبح سویرے نہارمنہ اور عصر کے وقت موسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس میں پاکیزہ شہد حسبِ منشا حل کرکے پی لیں۔
۲۔ ناشتہ میں ڈبل روٹی پر مکھن اور شہد لگا کر کھائیں۔
۳۔ ہر دستر خوان پر بطور سویٹ ڈش پیش کیا جائے۔
۴۔ رات کو سوتے وقت گرم دودھ میں چینی کی بجائے شہد استعمال کریں۔
۵۔ گرمیوں میں لیموں ڈال کر شربت بنایا جاتاہے۔
۶۔ وید اور حکیم معجونوں اور جوارشوں میں استعمال کرتے ہیں۔
۷۔ شہد ،دودھ اور پھلوں کا رس ملانے سے بہترین مرکب تیار ہوتاہے۔
۸۔ شہد کو شفا اور بارش کے پانی کو بارانِ رحمت اور مبارک پانی سے موسوم کیاگیاہے دونوں کو ملاکر پینا کتنا اچھا ہوگا؟
۹۔آبِ زمزم اور شہد ملاکر پینا کئی امراض میں مفید ہے۔
۱۰۔ رات کو سوتے وقت ایک دو قطرے سلائی سے لگا کر آنکھوں میں لگائیں۔ آنکھوں کی صفائی اور نظر کو تیز کرتاہے اور آنکھوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھتاہے۔(ملخصاً پاکیزہ شہد پاکیزہ زندگی ملک بشیر احمد)
شہد کے فوائد
مصنف شہیر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی تصنیف لطیف الطب النبوی میں رقمطراز ہیں ۔
شہد میں بہت سے فوائد ہیں یہ لیکوریا میں مفید ہے اور انتڑیوں میں سے میل کوکاٹ دیتاہے۔ بوڑھوں اور بلغمی مزاج لوگوں کو فائدہ دیتاہے اور جس کا مزاج سردتر ہوتو اس کے لئے معتدل اور ملین ہے۔معجونوں کی قوت قائم رکھنے کیلئے استعمال ہوتاہے اور جب اس میں دواؤں کی آمیزش کی جاتی ہے تو یہ ان کی مکروہ کیفیات کو زائل کردیتاہے ، جگر اور سینے کو صاف کرتاہے۔ پیشاب آور اور بلغم کے سبب ہونے والی کھانسی سے فائدہ دیتاہے۔ اور جب اسے عرقِ گلاب کے ساتھ گرم پیا جائے تو موذی جانوروں کے کاٹے اور افیون خوری میں نفع دیتاہے اور اگر اسے سادہ پانی میں ملاکر پیا جائے تو کتے کے کاٹے اور زہر خورانی میں فائدہ بخش ہے۔ اس میں تازہ گوشت رکھ دیا جائے تو تین ماہ تک اس کی تازگی برقرار رہتی ہے۔ اس طرح اس میں تربوز، ککڑی ، کدو، باذنجان ،بیگن وغیرہ رکھ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، یہ چھ ماہ تک عام پھلوں کو بھی خراب ہونے سے بچالیتاہے اور مردے کے جسم کی حفاظت کرتاہے۔ اسے حافظ امین کانام دیاجاتاہے۔ اور جب اسے بدن اور بالوں پر لگایا جائے تو جوؤں کو مارتااور بالوں کو لمبا کرتاہے اور اگر اسے آنکھوں میں ڈالا جائے تو آنکھوں کے سامنے سے اندھیرے کو دور کرتاہے اور مسوڑھوں اور دانتوں کو قوی کرتاہے۔ اور ان کے حفظِ صحت کا ضامن ہے۔ رگوں کو کشادہ کرتاہے اور حیض جاری کرتاہے۔ اس کا چاٹنا بلغم کو مفید ہے اور معدے کی ردی کیفیات کو زائل کرتاہے اور اسے گرم کرکے اعتدال پر لاتا ہے اور سدے کھولتاہے۔ جگر ، گردے اور مثانہ پر بھی اس کے یہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔( طب نبوی مترجم حکیم عزیز الرحمن الاعظمی بتصرف یسیر)
نمازِ مغرب
نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں سنت ادا کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ’’بعض الناس ‘‘ اس عظیم سنت اور عمل کو بدعت کہتے ہیں۔ آئیے ذرا صحیح احادیث اور اقوالِ علماء کی روشنی میں ان دو رکعتوں کی مشروعیت ومسنونیت کو ثابت کرتے ہیں ۔
حدثنی یزید بن أبی حبیب قال سمعت مرثد بن عبد اللہ الیزنی قال أتیت عقبۃ بن عامر الجہنی فقلت الا اعجبک عن أبی تمیم یرکع رکعتین قبل صلاۃ المغرب فقال عقبۃ انا کنا نفعلہ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قلت فما یمنعک الآن قال الشغل ۔ (بخاری شریف ۱/۱۵۸)
یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبد اللہ سے سنا کہ انہوں نے کہا میں سیدناعقبہ بن عامررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے کہا کہ آپ کو ابو تمیم پر تعجب نہیں ہوتا وہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھتاہے تو سیدناعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ایسا کیا کرتے تھے ۔ میں نے کہا اب آپ کو کس چیز نے منع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا :’’مصروفیت‘‘۔
عن عبد اللہ المزنی عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال صلوا قبل صلاۃ المغرب قال فی الثالثۃ لمن شاء کراہیۃ أن یتخذہا الناس سنۃ ۔ (بخاری شریف ص:۱/۱۵۸، ابن خزیمہ ص:۲/۲۶۷)
حضرت عبد اللہ المزنی ص نبی اکرم ا سے روایت کرتے ہیں آپ انے فرمایا نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو آپ ا نے تیسری مرتبہ کہا جو ان دو رکعت کو پڑھنا چاہے اس خوف سے کہ لوگ اس کو سنت موکدہ نہ سمجھ لیں۔
عن عبد اللہ بن بریدۃ عن عبد اللہ بن مغفل المزنی قال قال رسول الہ صلی اللہ علیہ و سلم بین کل اذانین صلاۃ قالہا ثلاثا قال فی الثالثۃ لمن شائ۔ (مسلم شریف ص:۱/۲۷۸)
عبد اللہ بن بریدہ عبد اللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:ہردو اذانوں (مراداذالن واقامت ہے)کے درمیان نماز ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسری مرتبہ فرمایا جو یہ نماز پڑھنا چاہے۔
ان أبا خیر حدثہ ان ابا تمیم الجیشانی قام یرکع رکعتین قبل المغرب فقلت لِعقبۃ بن عامر انظر إلی ہذہ الصلوات یصلی فالتفت إلیہ فراہ فقال ہذہ الصلوات کنا نصلیہما علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔(سنن نسائی ص:۱/۶۷)
ابو خیر نے یزید بن ابو حبیب سے بیان کیا ہے کہ ابو تمیم الجیشانی رحمہم اللہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ میں نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ دیکھئے یہ کونسی نماز پڑھتاہے پس اس نے کہا ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں دو رکعت قبل المغرب پڑھا کرتے تھے۔
مذکورہ بالا حدیث کے تحت التعلیقات السلفیہ میں یوں درج ہے ۔ والظاہران الرکعتین قبل صلوات المغرب جائز تان بل مندوبان ولم أری للمانعین جواباً شافیاً ۔ (۱/۱۷) یعنی نماز مغرب سے پہلے دو رکعت ادا کرنا جائز ہے اور مندوب ہے ان رکعت کے منع کرنے والوں کے پاس کوئی شافی جواب نہیں ہے۔
انس بن مالک یقول إن کان المؤذن لیؤذن علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فیری أنہا الإقامۃ من کثرۃ من یقوم فیصلی رکعتین قبل المغرب ۔ (سنن ابن ماجہ ص۱:۱۹۱) علامہ ناصر الدین البانی نے مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں مؤذن اذان کہتا تو یہ گمان کیا جاتا کہ شاید یہ اقامت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہتمام کے ساتھ نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
عن أنس قال کنا نصلی علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رکعتین بعد غروب الشمس وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یرانا فلم یأمرنا ولم ینہنا۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۳۶ بحوالہ سبل السلام )
سیدنا انس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں پڑھتے ہوئے دیکھتے تو تھے لیکن نہ تو ہمیں حکم دیتے اور نہ ہی اس نماز سے منع فرماتے۔
اصحاب رسول : وقد روی عن غیر واحد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم أنہم کانوا یصلون قبل صلاۃ المغرب رکعتین بین الآذان والإقامۃ وقال أحمد ، إسحاق ان صلاہما فحسن وہذا عندہما علی الاستحباب۔ (جامع ترمذی ص:۲۶، معارف السنن ص:۲/۱۴۳)
اکثر صحابہ کرام سے مروی ہے کہ وہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعت ادا کیا کرتے تھے۔ ان دو رکعات کا ادا کرنا مغرب کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے ہوتا۔ امام احمد اورامام اسحاق رحمہما اللہ اس کو حسن اور مستحب کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
بذل الجہود۔ کے حاشیہ میں درج ہے کہ حکی الترمذی عن أحمد استحبابہ وفی الروض المربع مباح وفی المغنی جائز ۔یعنی امام ترمذی نے امام احمد سے اس کے مستحب ہونے کی حکایت بیان کی ہے۔ اور روض المربع میں مباح قرار دیا گیا ہے۔ مغنی میں ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔
قارئین کرام ! اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکو جو بے تحاشا معجزے عطا فرمائے تھے ان میں ایک معجزہ آپ کا لعاب مبارک ہے ۔
آپ کے لعاب مبارک میں اللہ تعالی نے بڑی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ رکھی تھیں ۔
آپ کا لعاب ہر قسم کی بیماری و تکلیف کے لیے بڑے تریاق کا درجہ رکھتا تھا ۔
یہی سبب تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے لعاب مبارک کو نیچے گرنے سے پہلے پہلے اٹھا لیتے تھے اور بغرض تبرک اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے تھے ۔
عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :اے لوگو : اللہ کی قسم ! میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کا دربار بھی دیکھ کر آیا ہوں ۔ مگر میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ کے اصحاب آپ ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں ۔
فَوَالله مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ .
اللہ کی قسم ! اگر محمد ﷺ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب ان کے کسی صحابی کے ہاتھ میں گرتا ہے اور وہ اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا ہے ۔ اگر آپ ﷺ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو اس کی بجا آوری میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ وضو کرنے لگتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ۔(صحیح بخاری : 2732)
قارئین کرام ! آپ اب رسول اللہ ﷺ کے لعاب مبارک کی مزید برکتیں ملاحظہ فرمائیں ۔
1 علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں صحتیاب ہو گئیں
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا تھا : میں اسلامی جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔ اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں جھنڈا کسے ملتا ہے ؟ جب صبح ہوئی تو سب سرکردہ لوگ اسی امید میں رہے کہ کاش ! انہیں کو مل جائے ۔ لیکن آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا : وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں۔
فَأَمَرَ فَدُعِيَ لَهُ فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ مَكَانَهُ حَتَّى كَأَنَّه لَمْ يَكُنْ بِهِ شَيْءٌ
آخر آپ ﷺ کے حکم سے انہیں بلایا گیا۔ آپ ﷺ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں میں لگایا تو وہ فوراً صحتیاب ہو گئیں ۔ جیسے انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی (پھر آپ نے انہیں جھنڈا دیکر خیبر کے طرف روانہ کیا) ۔(صحیح بخاری : 2942)
2 سیدناعمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ٹانگ صحیح ہوگئی
سیدناعبداللہ بن بریدہ اپنے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :
تَفَل فِي رِجْلِ عَمْروِ بن مُعَاذِ حِين قُطِعَتْ رِجْلُه فَبَرَأتْ
جب عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ٹانگ كاٹی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر اپنا لعاب مبارک لگایا ، جس سے وہ صحیح ہو گئی۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2305)
3 لعاب مبارک کی برکت سے زہر کا اثر ختم ہوگیا
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : سفر ہجرت کی رات غار کے پاس پہنچ کر سیدنا ابوبکر نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : اللہ کے لیے ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوں ۔ پہلے میں داخل ہوکر جائزہ لیتا ہوں ، اگر اس میں کوئی ایسی چیز ہو تو آپ کی بجائے اس کا مجھ سے سابقہ پڑے ۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو اچھی طرح صاف کیا ، ایک جانب چند سوراخ تھے جنہیں اپنا تہہ بند پھاڑ کر بند کر دیا ، لیکن دو سوراخ ابھی بھی باقی بچ گئے جن پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا پاؤں رکھ دیا ۔ اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اب آپ اندر تشریف لے آئیں ، آپ ﷺ اندر تشریف لے آئے اور سیدنا ابوبکر کی آغوش میں سر رکھ آرام فرمانے لگے ۔ ادھر ابوبکر کے پاؤں کو کسی چیز نے ڈس لیا لیکن اس ڈر سے ہلے نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نیند میں خلل نہ آئے ۔ پس ان کے آنسو آپ ﷺ کے چہرہ انور پر ٹپک پڑے اور آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر تمہیں کیا ہوا ؟
عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے ۔
فَتَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ فَذَهَبَ مَا يَجِدُهُ .
جس پر رسول ﷺ نے اپنا لعاب مبارک لگایا تو تکلیف ختم ہو گئی ۔(رحیق المختوم : 231 : بتصرف)
4 آسیب زدہ بچہ نجات پا گیا
سیدہ ام جندب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یوم النحر کو بطن وادی میں جمرہ عقبہ کی رمی کرتے دیکھا ۔ پھر آپ ﷺ لوٹے تو آپ کے پیچھے پیچھے قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی، اس کے ساتھ ایک بچہ تھا جس پر آسیب کا اثر تھا، وہ بول نہیں سکتا تھا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ میرا بیٹا ہے اور یہی میرے گھر والوں میں باقی رہ گیا ہے، اور اس پر ایک بلا ( آسیب ) ہے کہ یہ بول نہیں پاتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ائْتُونِي بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ ، فَأُتِيَ بِمَاءٍ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، وَمَضْمَضَ فَاهُ، ثُمَّ أَعْطَاهَا، فَقَالَ: اسْقِيهِ مِنْهُ، وَصُبِّي عَلَيْهِ مِنْهُ، وَاسْتَشْفِي الله لَهُ .
تھوڑا سا پانی لاؤ ، پانی لایا گیا، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور اس میں کلی کی، پھر وہ پانی اسے دے دیا، اور فرمایا : اس میں سے تھوڑا سا اسے پلا دو، اور تھوڑا سا اس کے اوپر ڈال دو، اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے شفاء طلب کرو ۔ ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں اس عورت سے ملی اور اس سے کہا : اگر تم اس میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دیتیں، ( تو اچھا ہوتا ) تو اس نے جواب دیا : یہ تو صرف اس بیمار بچے کے لیے ہے ۔ ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں اس عورت سے سال بھر کے بعد ملی اور اس بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا :
بَرَأَ وَعَقَلَ عَقْلًا لَيْسَ كَعُقُولِ النَّاسِ
وہ ٹھیک ہو گیا ہے ! اور اسے ایسی عقل آ گئی ہے جو عام لوگوں کی عقل سے بڑھ کر ہے۔ (سنن ابن ماجة : 3532)
5 سیدناسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی بے ضرر بن گئی
جناب یزید بن ابی عبید سے روایت ہے کہ : میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں ایک زخم کا نشان دیکھا تو ان سے پوچھا : اے ابومسلم ! یہ زخم کا نشان کس چیز کا ہے؟ انہوں نے بتایا : غزوہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم لگا تھا ، لوگ کہنے لگے : سلمہ زخمی ہو گیا ہے ۔
فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ، فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَة .
چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ نے تین مرتبہ اس پر اپنا لعاب مبارک ملا ہوا دم کیا ، اس کی برکت سے آج تک مجھے اس زخم سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔ (صحیح بخاری : 4206)
6 بچے کا جلا ہوا ہاتھ ٹھیک ہوگیا
سیدنا محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کی والدہ ام جمیل کہتی ہیں:ایک مرتبہ میں تمہیں سر زمین حبشہ سے لیکر آرہی تھی ، جب میں مدینہ منورہ سے ایک یا دو راتوں کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے تمہارے لیے کھانا پکانا شروع کیا ، اسی اثناء میں لکڑیاں ختم ہو گئیں ، میں لکڑیوں کی تلاش میں نکلی تو تم نے ہانڈی پر ہاتھ مارا اور وہ الٹ کر تمہارے بازو پر گر گئی ، میں تمہیں لیکر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! یہ محمد بن حاطب ہے ۔
فَتَفَلَ فِي فِيكَ، وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِكَ، وَدَعَا لَكَ، وَجَعَلَ يَتْفُلُ عَلَى يَدَيْكَ وَيَقُولُ : أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا .
نبی کریم ﷺ نے تمہارے منہ پر اپنا لعاب مبارک ڈالا ، اور تمہارے سر پر ہاتھ پھیر کر تمہارے لیے دعا فرمائی،نبی معظمﷺ تمہارے ہاتھ پر اپنا لعاب مبار ڈالتے جاتے اور کہتے جاتے : اے لوگوں کے رب ! اس تکلیف کو دور فرما ، اور شفا عطا فرما کہ تو ہی شفا دینے والا ہے ، تیرے علاوہ کسی کو شفا نہیں ہے ، ایسی شفا عطا فرما جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے ، میں تمہیں نبی ﷺ کے پاس سے لیکر اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہو گیا ۔(مسند احمد : 15453)
7 سیدناجابر رضی اللہ عنہ کی دعوت میں برکت پڑ گئی
سیدنا جابر سے روایت ہے کہ : (جب غزوہ خندق کے دن) خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی ﷺ انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا : کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ نبی ﷺ انتہائی بھوک میں ہیں۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جَو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہانڈی میں رکھ دیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چنانچہ میں نے نبی معظمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! ہم نے بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ ﷺ نے بہت بلند آواز سے فرمایا : اے اہل خندق ! جابر نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد نبی رحمت ﷺ نے فرمایا : جب تک میں آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے سے نہ اتارنا اور تب ہی آٹے کی روٹی پکانا شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ ﷺ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا : تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے وہی نبی اکرم ﷺ کے سامنے عرض کر دیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ ﷺ نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے (میری بیوی سے) فرمایا : ايک روٹی پکانے والی اور بلالے جو تیرے ساتھ مل کر روٹی پکائے ۔ اور ہانڈی سے گوشت نکالتی جا لیکن ہانڈی چولھے سے نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے ( شکم سیر ہو کر ) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہو گئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔ (صحیح مسلم : 5315)
8 کنویں کا پانی بڑھ گیا
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہزار چار سو کی تعداد میں لوگ تھے یا اس سے بھی زیادہ۔ ایک کنویں پر پڑاؤ ہوا ، تو لشکر نے اس کا ( سارا ) پانی کھینچ لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔
پھر فرمایا : ایک ڈول میں اسی کنویں کا پانی لاؤ۔ پانی لایا گیا تو :
فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ فَدَعَا
آپ ﷺ نے اس میں کلی کی ( اپنا لعاب مبارک ڈالا) اور دعا فرمائی۔ پھر فرمایا : کنویں کو یوں ہی تھوڑی دیر کے لیے رہنے دو۔ اس کے بعد سارا لشکر خود بھی سیراب ہوتا رہا اور اپنی سواریوں کو بھی خوب پانی پلاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہاں سے انہوں نے کوچ کیا۔ (صحیح بخاری : 4151)
قارئین کرام ! رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔
اللہ تعالی کن چیزوں میں شفا رکھی ہے ؟
آئیں ملاحظہ فرمائیں اور ان چیزوں سے اپنی بیماریوں کا علاج کریں ۔
1 قرآن کریم میں شفا ہے
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :
وَنُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحمَةٌ لِلمُؤمِنينَ وَلا يَزيدُ الظّالِمينَ إِلّا خَسارًا .
یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی ۔ (سورة الاسراء : 82)
2 شہد میں شفا ہے
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :
يَخرُجُ مِن بُطونِها شَرابٌ مُختَلِفٌ أَلوانُهُ فيهِ شِفاءٌ لِلنّاسِ إِنَّ في ذلِكَ لَآيَةً لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ .
ان ( شہد ) کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے ، جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت بڑی نشانی ہے ۔ (سورة النحل : 69)
صحیح بخاری میں ہے کہ : ایک صاحب نبی اكرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : میرا بھائی پیٹ کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ نبی معظم ﷺ نے فرمایا : انہیں شہد پلا پھر دوسری مرتبہ وہی صحابی حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے اسے اس مرتبہ بھی شہد پلانے کے لیے کہا وہ پھر تیسری مرتبہ آیا اور عرض کیا کہ ( حکم کے مطابق ) میں نے عمل کیا ( لیکن شفا نہیں ہوئی ) ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
صَدَقَ الله وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ، اسْقِهِ عَسَلًا، فَسَقَاهُ فَبَرَأَ .
نبی اكرمﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی سچا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، انہیں پھر شہد پلا۔ چنانچہ انہوں نے پھر شہد پلایا اور اسی سے وہ تندرست ہو گیا۔ (صحیح بخاری : 5684)
3 زمزم میں شفا ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے :
خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مَاءُ زَمْزَمَ فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ .
روئے زمین پر بہترین پانی آبِ زم زم ہے، اس میں كھانے كی قوت اور بیماری سے شفا ہے۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1056)
4 کھنبی میں شفا ہے
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءُ الْعَيْنِ .
کھنبی ( من ) میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفاء ہے ۔ (صحیح بخاری : 4639)
5 کلونجی میں شفا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
فِي الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا السَّامَ .
سیاہ دانوں ( کلونجی ) میں ہر بیماری سے شفاء ہے سوائے سام ( موت ) کے۔(صحیح بخاری : 5688)
6 عجوہ میں شفا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
الْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَفِيهَا شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ .
عجوہ ( کھجور ) جنت کا پھل ہے، اس میں زہر سے شفاء موجود ہے ۔(سنن ترمذی : 2066)
ايک روایت کے لفظ ہیں :
فِي عَجْوَةِ الْعَالِيَةِ أَوَّلَ الْبُكْرَةِ عَلَى رِيقِ النَّفْسِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ سِحْرٍ أَوْ سُمٍّ .
صبح کے اول وقت نہار منہ عجوہ كھانا ہر جادو یا زہر سے شفاء ہے ۔(مسند احمد : 24484)
7 مکھی کے ایک پر میں شفا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم ﷺ نے فرمایا :
إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ، ثُمَّ لِيَنْزِعْهُ فَإِنَّ فِي إِحْدَى جَنَاحَيْهِ دَاءً وَالْأُخْرَى شِفَاءً .
جب مکھی کسی کے پینے ( یا کھانے کی چیز ) میں پڑ جائے تو اسے ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے جبکہدوسرے پر میں شفاء ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری : 3320)
8 گائے کے دودھ میں شفا ہے
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے
عَلَيْكُم بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ فَإِنَّهَا تَرُمُّ مِنْ كُلِّ شَجَرٍ ، وَهُوَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ .
گائے كا دودھ لازم كر لو كیونكہ یہ ہر درخت سے چرتی ہے اور یہ دودھ ہر بیماری سے شفا ہے ۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1943)
9 پچھنا لگوانے میں شفا ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی معظم ﷺ نے فرمایا :
الشِّفَاءُ فِي ثَلَاثَةٍ : فِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ، أَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ، أَوْ كَيَّةٍ بِنَارٍ، وَأَنَا أَنْهَى أُمَّتِي عَنِ الْكَيِّ .
تین چیزوں میں شفاء ہے ۔ پچھنا لگوانے میں، شہد پینے میں اور آگ سے داغنے میں مگر میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری : 5681)
ایک روایت کے لفظ ہیں :
مَنِ احْتَجَمَ لِسَبْعَ عَشْرَةَ، وَتِسْعَ عَشْرَةَ، وَإِحْدَى وَعِشْرِينَ، كَانَ شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ .
جو سترہویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو پچھنا لگوائے تو اسے ہر بیماری سے شفاء ہو گی ۔ (سنن ابی داؤد : 3861)
0 عود ہندی میں شفا ہے
سیدہ ام قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
دَخَلْتُ بِابْنٍ لِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَعْلَقْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْعُذْرَةِ، فَقَالَ: عَلَى مَا تَدْغَرْنَ أَوْلَادَكُنَّ بِهَذَا الْعِلَاقِ، عَلَيْكُنَّ بِهَذَا الْعُودِ الْهِنْدِيِّ، فَإِنَّ فِيهِ سَبْعَةَ أَشْفِيَةٍ: مِنْهَا ذَاتُ الْجَنْبِ، يُسْعَطُ مِنَ الْعُذْرَةِ، وَيُلَدُّ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ .
میں اپنے ایک لڑکے کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے اس کی ناک میں بتی ڈالی تھی، اس کا حلق دبایا تھا چونکہ اس کو گلے کی بیماری ہو گئی تھی آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے بچوں کو انگلی سے حلق دبا کر کیوں تکلیف دیتی ہو یہ عود ہندی لو اس میں سات بیماریوں کی شفاء ہے ان میں ایک ذات الجنب ( پسلی کا ورم بھی ہے ) اگر حلق کی بیماری ہو تو اس کو ناک میں ڈالو اگر ذات الجنب ہو تو حلق میں ڈالو ۔(صحیح بخاری : 5713)
! صدقہ میں شفا ہے
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ (صحیح الجامع : 3358)
اپنے مریضوں کا صدقہ سے علاج کرو ۔
قارئین کرام ! مندرجہ بالا حدیث اور صدقے سے شفا حاصل ہونے کے متعلق ممتاز اہل حدیث عالم شیخ عبدالمالک مجاہد اپنی کتاب ’’سنہرے اوراق‘‘ میں ایک حیرت انگیز واقعہ نقل کرتے ہیں جو ہم آپ کی دلچسپی کے لیے یہاں پیش کرتے ہیں شیخ حفظہ اللہ نقل کرتے ہیں : اس کا نام ڈاکٹر عیسی مرزوقی تھا ۔ شام کا رہنے والا عیسی پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا اور دمشق کے ایک ہسپتال میں کام کرتا تھا ۔ اچانک اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور اس کو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ۔ چیک اپ کے دوران معلوم ہوا کہ اسے کینسر کا موذی مرض لگ گیا ہے ۔ اس کے ساتھی ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا ۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس کیس پر پوری توجہ دی ۔
اس کی طبی رپوٹیں ان کے سامنے تھیں ، مرض مسلسل بڑھ رہا تھا ۔ بورڈ کی رائے کے مطابق وہ محض چند ہفتوں کا مہمان تھا ۔ ڈاکٹر عیسی خود نوجوان تھا ۔ اس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی ، تاہم منگنی ہو چکی تھی ۔ اس کی منگیتر سے لوگوں نے کہا : تمہیں منگنی توڑ دینی چاہیے ، کیونکہ تمہارا ہونے والا خاوند کینسر کا مریض ہے ۔ مگر اس نے سختی سے انکار کر دیا ۔ ڈاکٹر عیسی نے نبی کریم ﷺ کی حدیث پڑھ رکھی تھی :
دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ .
اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو ۔
ایک دن وہ مایوسی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اسے اچانک مذکورہ حدیث یاد آ گئی ۔ وہ اس کے الفاظ پر غور کرتا رہا ، سوچتا رہا ، پھر اچانک اس نے سر ہلایا اور بول اٹھا : کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ اگر صحیح ہے تو پھر مجھے اپنے مرض کا علاج صدقے کے ذریعے ہی کرنا چاہیے ، کیونکہ دنیاوی علاج بہت کر چکا ہوں اور بہت ہو چکا ہے ۔
اس کو ایک ایسے گھرانے کا علم تھا جس کا سربراہ وفات پا چکا تھا اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ بیماری کے دوران اس کی جمع شدہ پونجی بھی خرچ ہو چکی تھی تاہم جو معمولی رقم موجود تھی اس نے اپنے ایک قریبی دوست کی وساطت سے اس گھرانے کو ارسال کر دی ۔ ان پر سارے قصے کو واضح کر دیا کہ وہ اس صدقے کے ذریعے اپنے مرض کا علاج کرنا چاہتا ہے لہذا مریض کے لیے شفا کی دعا کریں ۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث سچ ثابت ہوئی اور وہ بتدریج تندرست ہو گیا ۔
ایک دن وہ ڈاکٹروں کے بورڈ کے سامنے دوبارہ پیش ہوا۔ اس کے علاج پر مامور ڈاکٹر حیران و ششدر رہ گئے کہ اس کی رپوٹیں اس کی مکمل صحت یابی کا اعلان کر رہی تھیں۔ اس نے بورڈ کو بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق علاج کیا ہے ۔ وہ اب مکمل طور پر تندرست تھا ۔ اس نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ بلاشبہ تقدیر پر یقین رکھتا ہوں اور اس کا یہ بھی مفہوم نہیں کہ ظاہری اسباب اختیار نہ کیے جائیں اور ڈاکٹروں سے بیماری کی صورت میں رجوع نہ کیا جائے ۔ مگر حدیث رسول ﷺ درست ہے ۔ بلاشبہ ایک ایسی ذات موجود ہے جو بغیر کسی دوا کے بھی بیماروں کو صحت عطا کر سکتی ہے ۔
(ہفت روزہ المسلمون لنڈن شمارہ نمبر : 181)
۔۔۔