ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

بوقتِ ملاقات ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پرپہلا حق’’ سلام‘‘ہے۔ دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ،محبت، جذبۂ اکرام اورخیرسگالی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، مثلاً:ہندو ملاقات کے وقت ”نمستے“ کہتے ہیں، جبکہ عصرِحاضر کے بعض روشن خیال اپنے تہذیبی ارتقاء Good Nightاور Good Morning کہہ کر، ”صبح بخیر“، ”شب بخیر“ اور’’آداب عرض‘‘کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، سیدنا عمران بن حصین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کے

بجائے ”اَلسَّلَامُ عَلِیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ : لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سےایک ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں، ’’اللہ تمہارا محافظ ہو،تم پر سلامتی ہو‘‘

”سلام“ کی جامعیت ومعنویت:

(۱) ”سلام“ نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے جوپیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:

(۲) اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ حق محبت کی ادائیگی بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھے۔

(۳) سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون و محفوظ ہو۔

(۴) یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کااظہار بھی ہے۔

(۵) قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عَلی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

(۶) تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دُرود وسلام بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے، جس کا مظاہرہ ہرنمازی التحیات میں کرتا ہے۔

(۷) آخرت میں مؤمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا :أُدخلُوہا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم (معارف الحدیث۶/۱۴۹)

سلام کی اہمیت وفضیلت:

سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو فروغ دینے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ، باہمی تعلق واعتماد کوجنم دینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی، اسلامی سلام کی سنت سیدنا آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے: چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو انہیں ارشاد فرمایا: اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو، چنانچہ سیدنا آدم علیہ السلام گئے اور انھیں سلام کیا، فرشتوں نے جواباً عرض کیا وعلیکم السلام ورحمة اللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان ۲/۲۱۹) آپ بھی اسے اداکیجیےاور اپنے لیےدوسروں کے دِل میں جگہ کیجیے۔

سلام پھیلائیے ، محبت بڑھائیے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّی تُؤْمِنُوا وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلَی شَيْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَکُمْ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جنّت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مؤمن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبّت نہیں کروگے، کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں؟ جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبّت کرنے لگ جاؤ گے، وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک کو سلام کیا کرو۔(صحیح مسلم)

نماز میں ہاتھ کے اشارے سے سلام

1) عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ إِلَيَّ إِشَارَةً وَقَالَ لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ إِشَارَةً بِإِصْبَعِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بِلَالٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَعَائِشَةَ (سنن ابی داؤد:925)

سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ ، صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے میں ان کے پاس سے گزرا تو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اشارے سے جواب دیا راوی کو شک ہے کہ شاید صہیب نے یہ بھی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے اشارہ کر کے جواب دیا اس باب میں سیدنا بلال اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

2) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لِبِلَالٍ کَيْفَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ کَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ کَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ صُهَيْبٍ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ عَنْ بُکَيْرٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لِبِلَالٍ کَيْفَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ حَيْثُ کَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ کَانَ يَرُدُّ إِشَارَةً وَکِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيۡحٌ لِأَنَّ قِصَّةَ حَدِيثِ صُهَيْبٍ غَيْرُ قِصَّةِ حَدِيثِ بِلَالٍ وَإِنْ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَوَی عَنْهُمَا فَاحْتَمَلَ أَنْ يَکُوۡنَ سَمِعَ مِنْهُمَا جَمِيۡعًا(جامع ترمذی368)،

سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حالت میں تمہارے سلام کا جواب کیسے دیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا: ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے، ابوعیسی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور صہیب کی حدیث حسن ہے ہم اسے لیث عن بُکَیر سے روایت کے علاوہ نہیں جانتے زید بن اسلم سے مروی ہے کہ سیدناابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا جب لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد بنو عمرو بن عوف میں نماز پڑھتے ہوئے سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح جواب دیتے تھے، انہوں نے کہا کہ اشارہ کر دیتے تھے امام ترمذی فرماتے ہیں : میرے نزدیک یہ دونوں احادیث صحیح ہیں ، کیونکہ صہیب رضی اللہ عنہ اور واقعہ بلال رضی اللہ عنہ دونوں الگ الگ ہیں اگرچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں سے روایت کرتے ہیں ہو سکتا ہے سیدناابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے سنا ہو۔

نماز میں زبان سے سلام کا جواب نہیں

عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا وَقَالَ إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا(صحیح بخاری1199)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی حالت میں سلام کرتے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جواب دیتے تھے، جب ہم لوگ نجاشی کے پاس سے واپس ہوئے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جواب نہیں دیا اور فرمایا :نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف دیہان ہوتا ہے۔

فائدہ:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ملک حبشہ کا بادشاہ ایک عیسائی تھا جس کا لقب نجاشی تھا چونکہ یہ ایک عالم تھا اس لیے جب توریت و انجیل کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی برحق ہونا معلوم ہوا تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لا کر اللہ کے اطاعت گزار بندوں میں شامل ہوگئے، جب 9ہجری میں ان کا انتقال ہوا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت افسوس ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ ان کے جنازے کی غائبانہ نماز پڑھائی، یاد رہےکہ یہ نماز بغیر کسی پیشگی اشتہاربازی کے پڑھائی گئی اور یومِ جمعہ کا انتظار بھی نہیں کیا گیا۔

انہیں چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ عقیدت تھی اس لیے جب مسلمان مکہ میں کفار کے ہاتھوں بڑی اذیت ناک تکالیف میں مبتلا ہوگئے اور ان کی جانوں کے لالے پڑگئے تو اکثر صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر ان کے ملک کو ہجرت کر گئے انہوں نے اپنے ملک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آمد کو اپنے لیے دین و دنیا کی بہت بڑی سعادت سمجھ کر صحابہ کی بہت زیادہ خدمت کی اور ان کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے بعد میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علم ہو گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے جا چکے ہیں تو وہ بھی مدینہ چلے آئے۔

چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حبشہ سے واپس آنے والے قافلے میں، میں بھی شریک تھا جب ہم لوگ مدینے پہنچ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے ہم نے حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے استفسار پر فرمایا: نماز خود ایک بہت بڑا شغل ہے یعنی نماز میں قرآن مجید و تسبیحات اور دعا مناجات پڑھنے کا شغل ہی اتنی اہمیت و عظمت کا حامل ہے کہ ایسی صورت میں کسی دوسرے آدمی سے سلام و کلام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے یا یہ کہ نمازی کا فرض ہے کہ نماز میں پورے انہماک کے ساتھ مشغول رہے اور جو کچھ نماز میں پڑھے اس پر غور کرے اور نماز کے سوا کسی دوسری جانب خیال کو متوجہ نہ ہونے دے، اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی کے سلام کا جواب دینا یا کسی سے گفتگو کرنا حرام ہے ، کیونکہ اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے،البتہ اشارے سے سلام کا جواب دینا شارع علیہ السلام سے ثابت ہےجیساکہ ماقبل احادیث میں گزرچکاہے :

اختتام نماز پر دائیں اور بائیں جانب سلام

عَنْ عَبْدِ اللهِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى أَرَى بَيَاضَ وَجْهِهِ فَمَا نَسِيتُ بَعْدُ فِيمَا نَسِيتُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ (المعجم الکبیر للطبرانی:ج10 ص125،( 10179)

سیدنا ابن مسعود tفرماتے ہیں: کہ میں جو باتیں بھول گیا، سو بھول گیا، لیکن یہ بات نہیں بھولا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اختتام نماز پر دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔

سلام کا جواب دیناواجب ہے

عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ أَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِي وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ وَرَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَنَهَانَا عَنْ آنِيَةِ الْفِضَّةِ وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَالْقَسِّيِّ وَالْإِسْتَبْرَقِصحیح بخاری: كِتَابُ الجَنَائِزِ، (1239)

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات سے منع فرمایا: جنازے کے پیچھے چلنے کا، مریض کی عیادت کرنے کا اور پکارنے والے کو جواب دینے کا، دعوت قبول کرنے کا، مظلوم کی مدد کرنےکا، قسم کوپورا کرنے کا، سلام کا جواب دینے کا اور چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا ہمیں حکم دیا، اور چاندی کے برتن، سونے کی انگوٹھی، حریر، و دیباج، قسی، اور استبرق (یہ ریشم کی چار مختلف اقسام ہیں)کے استعمال سے ہمیں منع فرمایا۔…………(جاری)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے