Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

کفار سے مشابہت

10 Mar,2011

مشابہت کا مفہوم:

لغوی اعتبار سے لفظ ’’التشبہ‘‘ مشابہت سے ماخوذ ہے اور مشابہت نام ہے مماثلت،نقل، تقلید اور پیروی کا۔ نیز مشابہت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آپس میں ملتی جلتی ہوں لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی مشابہت اختیار کی تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نقل اور پیروی اختیار کر کے اس جیسا ہوگیا۔

ایسی مشابہت جس سے قرآن و سنت میں ممانعت آئی ہے۔ کفار کے عقائد و عبادات یا ان عادات و اطوار میں مشابہت جو ان کی پہچان ہیں کسی طرح جائز نہیں اسی طرح معاشرے کے غیر صالح افراد سے مشابہت بھی ناجائز ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے بدکار، فاسق و فاجر اور جہلاء وغیرہ اسی طرح وہ بدو گنوار بھی اس زمرے میں آتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان پوری طرح راسخ نہیں ہوا ان کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔

مشابہت کے باب میں یہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ چیزیں مشابہت کے ضمن میں نہیں آتیں جن کا تعلق کفار کے عقائد، عبادات یا عادات وغیرہ سے نہیں یا وہ چیزیں جو ان کی پہچان یا ان کے ساتھ خاص نہیں وہ باتیں بھی جو کسی شرعی حکم کے خلاف نہیں اور نہ ان کے کرنے سے کسی فتنہ و فساد پھیلنے کا ڈر ہے۔

کفار کی مشابہت سے کیوں منع کیا گیا ہے؟

ابتدائی طور پر ہمیں اسلام کا یہ اصول سمجھ لینا چاہیے کہ دین کی بنیاد تسلیم و رضا اور اطاعت پر ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔ اطاعت نام ہے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کا۔ اللہ کے احکام کی بجا آوری اور منع کی گئی چیزوں سے اجتناب اور آپﷺ کی مکمل اتباع و پیروی کا۔ جب یہ اصول ہم نے سمجھ لیا تو پھر ایک مسلمان کو چاہیے کہ:

٭       ہر اس بات کے سامنے سر تسلیم خم کر دے جو رسول مقبولe کی طرف سے ہو۔

٭       آپﷺ کی اطاعت اور احکام کی تعمیل کرے جن میں سے سے ایک مشابہت کفار سے اجتناب کا حکم ہے۔

٭       جب ایک مسلمان تسلیم و رضا کے ساتھ مطمئن ہو جائے، اللہ تعالی کی بیان کردہ اور عطا کی ہوئی شریعت پر مکمل اعتماد اور کامل یقین کے ساتھ اطاعت بجا لائے تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ شرعی احکام کی وجوہات، اسباب اور حکمتیں تلاش کرے۔

ہم یوںکہہ سکتے ہیں کہ کفار کی مشابہت سے روکنے کے لئے بہت سارے اسباب ہیں اور ارباب عقل و دانش اور خوش فطرت لوگوں کو ان سے اکثر کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

٭       کفار کے تمام اعمال کی بنیاد گمراہی اور فساد پر ہے: کفار کے اعمال کے متعلق یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ ان کے اعمال آپ کو پسند آئیں یا آپ انہیں ناپسند کریں۔ وہ اعمال بظاہر فتنہ انگیز ہوں یا فساد ان کے باطن میں چھپاہوا ہو۔ ان کے اعمال کی بنیاد بہر حال گمراہی، انحراف اور فساد پر ہی ہے۔ ان کے عقائد ہوں یا عادات و عبادات عام طور اطوار ہوں یا جشن و تہوار۔ یہ سب کے سب خیر وبھلائی سے یکسر خالی ہیں۔ فرض کریں ان میں کوئی اچھی بات ہو بھی تو ان کے لئے سود مند نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس پر اجر و ثواب نہ پا سکیں گے۔ جیسا کہ فرمان ربانی ہے:

وَقَدِمْنَا إِلٰی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاء ً مَّنثُوراً (الفرقان)

’’اور ہم ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہونگے جو انہوں نے کیے پس ہم انہیں اڑتی ہوئی خاک کی مانند بنا دیں گے۔‘‘

کفار سے مشابہت:

یہ چیز اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺ کی نافرمانی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ مسلمانوںکو صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی کی طرف لے جاتی ہے جس کے متعلق شدید وعید آئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:{وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْراًO } (النساء)

’’جو شخص رسول معظمﷺ کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے درآں حالیکہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی ہے، تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔‘‘

٭       مشابہت اختیار کرنے والا اور جس کی مشابہت اختیار کی جارہی ہے دونوں کے مابین اسی مشابہت کی بنا پر ایک ظاہری مناسبت اور ارادت مندی پیدا ہو جاتی ہے پھر اسے قلبی میلان اور موافقت کے ساتھ ساتھ قول و عمل کی ہم آہنگی بھی جنم لیتی ہے۔ جبکہ یہ بات ایمان کے منافی ہے جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔

٭       اکثر اوقات یہی مشابہت، کفار سے وابستگی کا سامان پیدا کر کے دل میں ان کے لیے پسندیدگی کا جذبہ ابھارتی ہے اور یوں ان کا مذہب، عادات و اطوار، ان کی باطل پرستی اور شر انگیزی حتی کہ ان کی ہر بری بات بھی بھلی لگنے لگتی ہے۔

اس قلبی میلان اور پسندیدگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سنت مطہرہ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور وہ رشد و ہدایت جسے رسول مقبولe لے کر آئے اور جسے سلف صالحین نے اپنا منہج بنایا تحقیری، ناقدری اور بے توجہی کا شکار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جس شخص نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی گویا ان سے موافقت کر لی اور ان کے طور اطوار اور افعال اسے بھا گئے جبکہ عام حالات میں انسان کو اپنے مخالفین کی کوئی بات یا کام بھی اچھا نہیں لگتا۔

٭       یہ مشابہت ہی ہے جو فریقین کے دل میں محبت و مودت، قلبی لگائو اور یگانگت کا سبب بنتی ہے۔ ایک مسلمان جب کسی کافر کی پیروی اور نقل کرتا ہے تو وہ یقینا اپنے دل میں اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے یوں ایک طرف اس کا دل غیر مسلموں کی محبت و الفت کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور دوسری جانب اس کے دل میں پرہیزگار، متقی اور شرعی احکام کے پابند مسلمانوں کے لیے شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ ایک فطری بات ہے جسے ہر صاحب عقل اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ خاص طور پر جب مشابہت اختیار کرنیو الا اجنبیت اور احساس کمتری کا شکار ہو تو یہ شخص جس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے یقینا اس کی عظمت کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ اسے محبت و الفت کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو بلکہ صرف ظاہری شکل و صورت اور عادات و اطوار تک ہی مشابہت و ہم آہنگی محدود ہو تب بھی یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ کیونکہ ظاہری شکل و صورت میں مشابہت باطنی موافقت کا سبب ضرور بنتی ہے۔ اس بات کو ہر وہ شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے جو اس قسم کی عادات و اطوار پر تھوڑا سا غور وفکر کر لے۔

مثال سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ مشابہت کرنے والوں کے درمیان واقعتا محبت و الفت اور مناسبت و موافقت پائی جاتی ہے۔ جیسے کوئی اجنبی شخص کسی دوسرے ملک میں اپنے ہم زبان اور ہم لباس کو دیکھے تو وہ ضرور اس وقت اس کے لیے اپنے دل میں محبت و الفت کے جذبات زیادہ محسوس کرے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ اسے اپنے ملک میں دیکھتا ہے۔ جب کوئی انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرا شخص اس کی نقل کر رہاہے تو اس تقلید کرنے والے کے لیے اس کے دل میں خوشگوار جذبات جنم لیتے ہیں۔یہ تو ہے عمومی صورت حال مگر اس وقت صورت کیا ہوگی جب کوئی مسلمان کسی کافر کو پسند کرنے کی بنا پر اس کی نقالی اور تقلید کر رہا ہو…؟

حاصل کلام یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی کافرکی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے تحت الشعور میں رضا و رغبت اور پسندیدگی کے عوامل ہی کار فرما ہوتے ہیں۔ پھر یہی نقل و مشابہت مودت و محبت کا ذریعہ بنتی ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم اکثر مغرب زدہ اور مغربیت پسند مسلمانوں میں کرتے ہیں۔

٭مشابہت سے ہمیں اس لیے بھی روکا گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی کافر کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو یہ مشابہت اسے ذلت و پستی کے گڑھے میں گرادیتی ہے۔ جہاں وہ احساس کمتری کے ساتھ ساتھ شکست خوردہ بھی دکھائی دیتاہے۔ اس ذلت میں آج اکثر وہ لوگ مبتلا نظر آتے ہیں جو کفار کی تقلید اور نقالی میں لگے ہوئے ہیں۔      

بعض اہم اصولوں پر ایک نظر

آئیے اب ہم بعض اہم اصولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔جن کی بنا پر ہم مذموم اور ممنوعہ مشابہت کا معیار سمجھ سکیں۔

٭       رسول اللہﷺ نے اپنی پاکیزہ اور سچی ترین زبان سے پیشین گوئی فرمائی ہے جو بلاشبہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع (صحیح بخاری)

’’تم ضرور اپنے سے پہلوں کی ہو بہو اس طرح پیروی کرو گے جیسے ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک بازو دوسرے بازوں کے برابر ہوتا ہے۔‘‘

اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس امت کے کچھ گروہ کفار کی مشابہت میں مبتلا ہو جائیں گے۔ حدیث پاک میں جو ’’سنن‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس میں کفار کے عقائد، عبادات، احکام و عادات، طور و اطوار اور عیدیں اور تہوار سبھی شامل ہیں۔

’’الذین من قبلنا‘‘ ہم سے پہلے لوگ۔ اس سے کون مراد ہیں۔

اس سلسلے میں مختلف احادیث میں وضاحت آئی ہے۔ جن کا یہاں ذکر کرنا ضروری نہیں تاہم ان میں سے بعض کی تفصیل قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔

آپﷺ نے فرمایا، ’’الذین من قبلنا‘‘ سے مراد اہل فارس اور اہل روم ہیں اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اہل کتاب ہیں یعنی یہودی اور عیسائی۔ اسی طرح ان سے مراد عمومی کفار اور مشرکین بھی بیان فرمایا۔ یہ تمام تشریحات آپس میں میں ملتی جلتی ہیں۔ اسی طرح آپﷺ کے فرامین سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کفار کی مشابہت اختیار کرنے والے لوگ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہونگے۔

آپﷺ نے فرمایا: ’’اس امت میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی جماعت موجود رہے گی جو حق پہ جمے رہیں گے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے تائید و نصرت حاصل کرنے والے اور حمایت یافتہ لوگ ہوں گے۔ یہ بر ملا حق کا اظہار کرنے والے،نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے والے ہونگے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘

یہی جماعت ’’الفرقۃ الناجیۃ‘‘ ہے۔ یعنی کامیاب و کامران جماعت۔ ان کے کامیاب و کامران ہونے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ کفار کی مشابہت سے دو ر رہیں۔ سو آپﷺ کی پیش گوئی کی کہ یہ امت پچھلی ہلاک شدہ امتوں کی پیروی کرے گی، اس سے مراد افتراق کا شکار امت کے ایسے مختلف گروہ ہیں جو اتباع سنت اختیار کرنے والی جماعت کی سیدھی راہ چھوڑ کر الگ ہو گئے۔

٭       نبی اکرمﷺ نے جہاں یہ خبر دی کہ یہ امت مشابہت کفار میں مبتلا ہو گی وہاں اس موذی مرض سے بچنے کی بھی سخت تلقین فرمائی۔ مثال کے طور پرنبی کریمﷺ نے کفار کی مشابہت سے بچنے کی جو تلقین فرمائی ہے وہ مختصر بھی ہے اور جامع بھی۔ آپﷺ نے فرمایا:من تشبہ بقوم فھو منھم (ابودائود)

’’جو شخص جس قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔‘‘

اسی طرح اس حدیث میں بھی ہے۔

لتتبعن سنن من کان قبلکم(بخاری )

’’تم اپنے سے پیش رؤں کی پیروی کرو گے۔‘‘

یہ آپﷺ نے خبردار کرنے کے لیے فرمایا کہ دیکھو مشابہت کا دور ہو گا تو تم بچ کر رہنا۔ اسی طرح اور بہت ساری احادیث مبارکہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:’’خالفوا المشرکین’’

’’مشرکین کی مخالفت کرو۔‘‘

پھر فرمایا:’’’خالفوا الیھود’’

’’یہودیوں کی مخالفت کرو۔‘‘

اور فرمایا:’’خالفوا المجوس’’

’’مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘

یہ سب ایسے واضح احکامات ہیں جن میں مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

رسول اللہﷺ نے ہمیں اس خطرہ سے پیشگی متنبہ فرما دیا تاکہ ہم اس سے بچ سکیں۔

رسول اللہﷺ کا یہ فرمان بھی انتہائی اہم ہے کہ اس امت میں ایک جماعت حق پر کاربند رہے گی۔ جو ان سے دشمنی کریں گے یا ان کی حمایت و مدد سے ہاتھ کھینچیں گے وہ انہیں قیامت تک کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ مشابہت کے مسائل پر نظر ڈالتے وقت ان اصول و قواعد کو ایک ودسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر ہم ان احادیث کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے تو بعض لوگوں کو یقینا یہ وہم ہوگا کہ شاید تمام مسلمان ہی مشابہت کا شکار ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ نا ممکن ہے۔ کیونکہ یہ بات دین حنیف کی حفاظت کے منافی ہے۔ اور دین کی حفاظت اللہ تعالی نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ اسی طرح یہ چیز نبیe کے فرمان سے بھی متصادم ہے کہ آپe نے فرمایا، اس امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی۔ اگر صرف اس حدیث کو لیکر دوسری حدیث چھوڑ دیں جس میں آپ نے فرمایا کہ تم ضرور اپنے سے پہلوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے، تو بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ شاید یہ امت کفار کی مشابہت سے بالکل پاک ہے۔ حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ امت وسط یعنی اہل سنت کی جماعت ہمیشہ موجود رہے گی۔ یہ لوگ سنت مطہرہ پر کار بند اور کفار کی مشابہت سے دور رہیں گے اور وہ دوسرے گروہوں جو اہل سنت کی راہ چھوڑ بیٹھے ہیں ان کا یہ افتراق و گمراہی اصل میں مشابہت کفار ہی کا شاخسانہ ہے۔ بلاشہ اس امت میں موجود جتنے گروہ اور جماعتیں ہیں ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں کہ جس نے سنت مطہرہ سے دوری بھی اختیار کی ہو اور وہ پچھلی امتوں کے اطوار و عادت اپنانے سے محفوظ بھی رہے ہوں۔

(جاری ہے)

Read more...

اعتکاف کے احکام و مسائل

14 Aug,2011

رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک عمل اعتکاف بھی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے ۔

اعتکاف کا معنی :

اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے ، شرعی اعتکاف بھی اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لئے خصوصی طریقے پر مسجد میں ٹھہرنا ۔

اعتکاف کی حکمت :

اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہوکر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگا کے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے ، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول رہے اس کو دھیان میں رکھے ، اس کی تسبیح و تہلیل وتقدیس میں مشغول رہے ، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روتے ، اس کی رضا اور قرب چاہے اور اس حال میں اس کے دن گزریں اور اس کی راتیں بسر ہوں ، ظاہر ہے اس کام کے لئے رمضان المبارک اور خاص کر اس کے آخری عشرہ سے بہتر اور کون سا وقت ہوسکتا ہے ، اس لئے اعتکاف کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا ۔

اعتکاف کا حکم :

اعتکاف کی مشروعیت قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے :

وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ

اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل [علیہما السلام ] کو تاکید کی کہ وہ میرےگھرکوطواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں ۔(البقرہ:125)

روزے کے احکام کے ضمن میں فرمایا :

وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ

اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو ۔(البقرة:187 )

متعدد حدیثیں اس سلسلے میں وارد ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے ، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلماپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔( صحیح البخاری : 2026 الاعتکاف )

حتی کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ بڑا عجیب معاملہ ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا ۔

حتی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا ، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ ( صحیح بخاری : 2044الاعتکاف )

ان آیتوں اور حدیثوں اور اسی طرح کی دیگر نصوص کی روشنی میں اہل سنت و جماعت کے نزدیک مرد وزن ہر ایک کے لئے اعتکاف سنت ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی یہ ایک تاکیدی سنت ہے تو شاید بے جانہ ہوگا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برابر اعتکاف کیا ہے حتی کہ اگر کبھی کسی وجہ سے یہ اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ نے اس کی قضا کی ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ فرمایا تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ اعتکاف کی اجازت چاہی آپ نے مجھے اجازت دے دی تو میں نے اپنے لئے گنبد نما ایک خیمہ مسجد میں نصب کرلیا پھر جب سیدہ حفصہ نے سنا تو انہوں نے بھی اپنے لئے ایک خیمہ نصب کرلیا اور سیدہ زینب نے سنا تو انہوں نے بھی اپنے لئے ایک خیمہ نصب کرلیا ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے جب چار خیموں کو دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے ؟ آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا گیا تو آپ نے فرمایا انہیں اس امر پر کس چیز نے ابھارا ہے ؟ کیا نیکی نے ؟ ( ہرگز نہیں ، اس کاسبب تو محض غیرت ہے )۔ لہٰذا انہیں اکھاڑ پھینکو ، میں انہیں نہ دیکھوں ، چنانچہ خیمے اکھاڑ دئے گئے (جن میں آپ کا بھی خیمہ تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رمضان میں اعتکاف نہیں کیا اور شوال کے آخری عشرے میں اس اعتکاف کی قضا کی ۔ ( صحیح بخاری :2040 الاعتکاف )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے لیکن ایک سال کسی سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آئندہ رمضان کے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ ( سنن الترمذی :803 الصوم )

غیر رمضان میں اعتکاف :

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف رمضان کا اعتکاف ثابت ہے بغیر کسی عذر کے آپ نے غیر رمضان میں اعتکاف نہیں کیا لیکن ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ۔

( صحیح بخاری : 2032 الاعتکاف - صحیح مسلم :1656 الایمان )

اس لئے غیر رمضان میں بھی اعتکاف مستحب اور سنت ہے البتہ رمضان اور خصوصا رمضان کے آخری عشرہ میں اس کی تاکید ہے ۔

اعتکاف کی مدت :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں کم ازکم ایک عشرے کا اعتکاف کیا ا س لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے ۔( صحیح ابن خزیمہ : 2222 الصوم )

نیز عبد اللہ انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحر ا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز (تراویح ) کا اہتمام کرتا ہوں { البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو } آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات میں عبادت کروں (اعتکاف کروں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو آجانا۔

راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے ۔ ( سنن ابو داود :1380 الصلاۃ )

اعتکاف کی شرطیں :

1) مسلمان ہو : کافر ومشرک کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔

2) عاقل ہو : مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔

3) نیت کی جائے : بغیر نیت کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔

4) تمیز ہو : غیر ممیز بچوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔

5) مسجد میں ہو: مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔ یہ حکم مرد وعورت دونوں کے لئے ہے ۔

6) طہارت: حیض ونفاس اور جنابت کی حالت میں اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔

7) شوہر کی اجازت : بغیر شوہر کی اجازت کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔

8) روزہ: بعض علماء کے نزدیک بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔

اعتکاف کا وقت :

اعتکاف کے لئے ضروری ہے کہ جس دن کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے اس دن کی رات آنے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے مثلا اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے، البتہ اپنے معتکف یعنی جائے اقامت میں اکیسویں کی صبح کو داخل ہو ، نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے ۔ ( صحیح البخاری : 2032 الاعتکاف)

اعتکاف سے نکلنے کا وقت :

اعتکاف سے باہرآنے کا ایک وقت جواز کا اور دوسرا استحباب کا ، جواز کا وقت یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہے تو شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم کردے اور گھر واپس آجائے کیونکہ شوال کا چاند دکھائی دیتے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے اور مستحب وقت یہ ہے کہ عید کی صبح اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے او ر سیدھے عیدگاہ جائے ، بعض صحابہ و تابعین کا عمل یہی رہا ہے چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے۔ ( موطا :1/315   کتاب الاعتکاف )

امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسلک کو اختیار کیا ہے اور بطور دلیل یہ حدیث پیش کی ہے کہ اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا اور جب اکیسویں کی صبح ہوئی جس صبح کو اپنے اعتکاف سے باہر آئے تھے فرمایا : من اعتکف معنا فلیعتکف فی العشر الاواخرجس نے ہمارے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کرے۔ ( صحیح ابن خزیمہ : 3/352-354 نیز دیکھئے صحیح البخاری :2027 الاعتکاف )

اعتکاف والی مسجد :

اعتکاف ہر اس مسجد میں کیا جاسکتا ہے جس میں جماعت کا اہتمام ہوتا ہو ، ارشاد باری تعالی ہے :

وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ

آیت مذکورہ میں اللہ تعالی نے مسجد کو عام رکھا ہے ، کسی خاص قسم کی مسجد سے مقید نہیں کیا ہے نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لئے سنت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مریض کی زیارت کونہ جائے، نہ جنازے میں شریک ہو ، نہ عورت سے صحبت کرے اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے اور نہ ہی کسی غیر ضروری کام کے لئے باہر نکلے اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں ہے اور اعتکاف اس میں کیا جائے گا جس میں جماعت کا اہتما م ہو۔ (سنن ابو داود : 2473 الصیام)

اس لئے اعتکاف کے لئے تین مسجدوں کو خاص کرنا جیسا کہ عصر حاضر کے بعض اہل علم کا خیال ہے صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں سیدنا حذیفہ کی جو حدیث نقل کی جاتی ہے وہ ضعیف اور شاذ ہے ، اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت کے کسی امام یا عالم نے عمل نہیں کیا ہے ، اس موضوع پر ایک مختصر اور جامع بحث مختصر قیام رمضان از علامہ البانی کے ترجمے میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

اعتکاف کے منافی کا م :

1ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا ۔

2عورت سے صحبت کرنا ۔

3قصدا منی خارج کرنا

ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض ونفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز اسلام سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑدے یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے ۔

4ہر وہ کام جو شرع کی نظر میں منع ہے وہ اعتکاف کی حالت میں بھی منع ہے۔

5ر وہ کام جو عبادت کے منافی ہے جیسے خرید وفروخت میں مشغولیت بلاوجہ کی گپ شپ یہ بھی حالت اعتکاف کے منافی ہے ان امور سے اعتکاف باطل تو نہیں ہوتا البتہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔

6بعض وہ عبادتیں جو فرض عین نہیں ہیں جیسے مریض کی زیارت ، نماز جنازہ اور دفن وغیرہ کے لئے بھی نکلنا جائز نہیں ہے البتہ راہ چلتے کسی مریض کی خیریت پوچھ لینا جائز ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے بیمار پرسی کرلیتے تھے اسکے لئے ٹھہرتے نہیں تھے ۔ (سنن ابوداود : 2472)

اعتکاف کی حالت میں جائز کام :

ہر وہ کام جو انسان کی فطری ضرورت ہے جیسے قضائے حاجت ، کھا نا پینا،نہانا اگر کوئی مددگار نہیں ہےتو کھانے کی چیزیں باہر سے خریدنا وغیرہ ہے ۔

۱- مسجد میں کھا نا پینا ۔

۲- اچھے کپڑے پہنا اور خوشبو لگانا ۔

۳- ناخن تراشنا اور حجامت بنوانا ۔

۴- جمعہ کے لئے جانابلکہ جمعہ کے لئے جاناواجب ہے ۔

۵ - اگر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جارہی ہے تو اس میں شریک ہونا ۔

۶- کسی مریض کا گھر مسجد سے متصل ہے تو مسجد میں رہ کر بیمار پرسی کرنا ۔

۷- بالوں پر تیل کنگھی کرنا ، بلکہ عورت بھی اپنے شوہر کے بالوں پر کنگھی کرسکتی ہے خواہ اس کے لئے اعتکاف کرنے والے کو اپنا سر مسجد سے باہرنکالنا پڑے ۔

( صحیح بخاری : 2029 الاعتکاف ، صحیح مسلم : 297 )

۸- اپنے اہل خانہ سے بات کرنا اور بعض گھریلو مسائل پر گفتگو کرنا ۔( صحیح بخاری : 2038 الاعتکاف )

۹- بغیر شہوت کے اپنی بیوی کو چھونا ۔

۱۰- خرید و فروخت سے متعلق بعض ضروری ہدایات دینا۔

۱۱- زیارت کرنے والوں سے خیر خیریت پوچھنا ، البتہ دیر تک گپ شپ میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے ۔

اعتکاف کے فوائد

(1معتکف کیلئے لیلۃ القدر کو تلاش کرنا آسان ہوتاہے۔

(2معتکف کے قلب وذہن پر صرف ذکر الٰہی جاری ہوتاہے جس کی بناپر وہ فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتاہے۔

(3معتکف آدمی ساری خواہشات اور گناہوں سے بچا رہتاہے۔

(4معتکف آدمی کو مسجد کیساتھ ایک خاص انس اور پیار ہوجاتاہے۔

(5معتکف کو تنہائی میسر ہوتی ہے جس میں اپنی گذشتہ خطاؤں پر ندامت کے آنسو بہا سکتاہے اور توبہ کرکے نئے سرے سے اپنی زندگی کو احکام الٰہی کے مطابق بسر کرسکتاہے۔

(6اعتکاف سے آدمی کو آخرت کی فکر لاحق ہوتی ہے۔

(7 حالت اعتکاف میں معتکف کو فضول گوئی اور فضول کلام کی بری عادت سے نجات ملتی ہے اور وہ کم گوئی کی عادت حسنہ کا عادی ہوجاتاہے۔

آخری بات

محترم قارئین ! اعتکاف کے متعلق آخری اور اہم بات اس کی حفاظت ہے اگر معتکف اعتکاف کے بعد بھی تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی میں مشغول رہتاہے اور فضول گفتگو ، گالی گلوچ ، عبث کلام سے دور رہتاہے تو اس نے اعتکاف کی حفاظت بھی کی ہے اور اعتکاف سے اس کو فائدہ بھی ہوا ہے۔ اعتکاف کے بعد ہر قسم کے گناہوں سے بچناہی ہماری اصل ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بعد از اعتکاف بھی گناہوں سے بچائے۔۔آمین  

Read more...

حج اور عمرہ کے مسائل ایک نظر میں

07 Oct,2011


ارکان حج

1 احرام2وقوف عرفہ(میدانِ عرفات میں قیام کرنا) 3طواف زیارت4سعی

واجبات حج

1میقات سے احرام باندھنا

2مغرب تک عرفات میں وقوف کرنا

3سورج طلوع ہونے سے تھوڑا پہلے تک رات مزدلفہ میں گزارنا

4ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا

5جمرات کو کنکریاں مارنا

6جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حجامت بنوانا

7طواف وداع کرنا۔

وضاحت :

vحج کا کوئی رکن ادا نہ کرنے سے حج نہیں ہوتا۔

vحج کے واجبات میں سے کوئی واجب ادا نہ کرنے پر ایک قربانی لازم آتی ہے۔

vحج کی سنتوں میں سے کوئی سنت ادا نہ کرنے پر کوئی فدیہ یا گناہ نہیں۔

حج کی شرائط

مردوں کے لئے

مسلمان ہونا

مالدار ہونا

آزاد ہونا

عاقل ہونا

بالغ ہونا صحتمند ہونا

راستہ کا پر امن ہونا

حکومت کی طرف سے رکاوٹ نہ ہونا۔

عورتوں کے لئے

مذکورہ بالا آٹھ(8) شرائط کے علاوہ مزید دو شرطیں یہ ہیں۔1محرم کا ساتھ ہونا 2حالت عدت میں نہ ہونا۔

میقات

میقاتِ مکانی

1آفاقی : یعنی میقات سے باہر مقیم لوگوں کے لئے‘ حج اور عمرہ دونوں کے لئے میقات درج ذیل ہیں۔

ذی الحلیفہ: برائے اہل مدینہ

یلملم: برائے اہل یمن‘ ہندوستان و پاکستان وغیرہ

جحفہ : برائے اہل مصر و شام

قرن المنازل یا سیل کبیر : برائے نجدوطائف

ذات عرق: برائے اہل عراق۔

2اہل حل: یعنی حدود حرم سے باہر اور میقات کے اندر رہنے والے لوگوں کے لئے‘ عمرہ اور حج دونوں کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔

3اہل حرم:یعنی حدود حرم کے اندر مقیم لوگوں کے لئے عمرہ کے لئے حدود حرم سے باہر کوئی جگہ تنعیم یا جعرانہ اور حج کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔

میقات زمانی

عمرہ کے لئے سارا سال ۔

حج کے لئے شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ۔ تین ماہ۔

احرام: (عمرہ یا حج ادا کرنے کا لباس)

اقسام احرام

1احرام عمرہ(صرف عمرہ کااحرام باندھنا)

2 احرام حج افراد(صرف حج کا احرام باندھنا)

3احرام حج قران (عمرہ اور حج دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھنا)

4احرام حج تمتع (پہلے عمرہ کا احرام باندھنا‘ پھر ایام حج میں مکہ سے ہی حج کا احرام باندھنا)

مسنون امور

1 غسل کرنا

2مردوں کا احرام پہننے سے پہلے جسم پر خوشبو لگانا

3 دو بغیر سلی چادریں پہننا اور ٹخنوں سے نیچے تک جوتے پہننا

4عمرہ یا حج یا دونوں کی نیت کے الفاظ ادا کرنا

5 تلبیہ پکارنا

6ممکن ہو تو نماز ظہر کے بعد احرام باندھنا۔

مباحات احرام

1غسل کرنا 2سر اور بدن کھجلانا 3مرہم پٹی کروانا‘ ادویات کھانا پینا 4آنکھوں میں سرمہ یا دوا ڈالنا

5 موذی جانور کو مارنا6احرام کی چادریں بدلنا

7انگوٹھی‘ گھڑی‘ عینک‘ پیٹی یا چھتری وغیرہ استعمال کرنا

8بغیر خوشبو والا تیل یا صابن استعمال کرنا

9سمندری شکار کرنا 0بچوں یا ملازموں کو تعلیم و تربیت کے لئے مارنا۔

ممنوعات احرام مردوں اور عورتوں‘ دونوں کے لئے

جماع و متعلقات جماعلڑائی جھگڑاتمام گناہ اور نافرمانی کے کامخوشبو لگانا نکاح کرنا، کرانا یا پیغام بھجوانا بال یا ناخن کاٹنا۔خشکی کا شکار کرنا، شکاری کی مدد کرنا، شکار کیا ہوا جانور ذبح کرنا ۔

ممنوعات احرام، صرف مردوں کے لئے

مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل تین امور صرف مردوں کے لئے ممنوع ہیں۔

سلا ہوا کپڑا پہننا سر پر ٹوپی یا پگڑی پہننا موزے یا جرابیں پہننا۔

ممنوعات احرام، صرف عورتوں کے لئے

مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل دو امور صرف خواتین کے لئے منع ہیں۔

نقاب استعمال کرنا دستانے پہننا۔

(تفہیم : غیر محارم سے اختلاط کی صورت میں نقاب کی اجازت ہے۔)

طواف:(بیت اللہ شریف کے گرد سات چکر لگانا)

اقسام طواف

طواف قدومطواف عمرہطواف زیارت طواف وداع طواف نفلی

حج میں واجب طواف کی تعداد

حج افراد میں دو عدد

(طواف زیارت+طواف وداع)

حج قران میں تین عدد

(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)

حج تمتع میں تین عدد

(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)

(تفہیم:طواف وداع ان حاجيوں كے ليے جنهوں نے مكه سے باهر جانا هے)

احکام طواف

حالت احرام میں ہونا۔

باوضو ہونا۔

حالت اضطباع میں ہونا۔ (صرف طواف عمرہ کے لئے)

مردوں کا پہلے تین چکروں میں رمل کرنا ۔(صرف طواف عمرہ کے لئے)

حجر اسود سے حجر اسود تک سات چکر لگانا۔

حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کرنا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا۔

حجر اسود کے استلام کے وقت’’بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہنا۔

رکن یمانی کو چھونا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔

سات چکر پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرنا۔

دو رکعت ادا کرنے کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پرڈالنا۔

صفا اور مروہ پر سعی کے لئے جانے سے قبل حجر اسود کا استلام کرنا۔

مباحات طواف

بوقت ضرورت بات کرنا بوقت ضرورت سلسلہ طواف منقطع کرنا   سواری پر طواف کرنا۔

سعی:(صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگانا)

حج میں سعی کی تعداد

حج افراد میں ایک عدد حج قران میں دو عدد حج تمتع میں دو عدد۔

احکام سعی

صفا سے سعی کی ابتداء کرنا

صفا پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا

مردوں کا سبز ستونوں کے درمیان تیز تیز چلنا(بیماروں اور بوڑھوں کے علاوہ)

مروہ پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا

صفا سے شروع کر کے مروہ پر سات چکر مکمل کرنا۔

مباحات سعی

بلا وضو سعی کرنا۔ دوران سعی گفتگو کرنا۔

بوقت ضرورت سعی کا سلسلہ منقطع کرنا۔ سواری پر سعی کرنا۔

ایام الحج

8تا13ذی الحجہ

8 ذی الحجہ……یوم الترویہ

1 سورج طلوع ہونے کے بعد اور نماز ظہر سے پہلے منیٰ پہنچنا ۔

2منیٰ میں پانچ نمازیں (ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر) ادا کرنا۔

3منیٰ میں تمام نمازیں قصر ادا کرنا۔

4 بکثرت اوربلند آواز سے تلبیہ کہنا۔

9 ذی الحجہ……یوم عرفہ

1طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سےميدان عرفات روانہ ہونا۔

2 زوال آفتاب کے بعداگر ممكن هوتو مسجد نمرہ میں خطبہ حج سننا‘ ظہر اور عصر کی نماز باجماعت جمع كرنااور قصر کر کے ادا کرنااگر مسجد نمره تك جانا ممكن نه هوتو ميدان عرفات ميں جهاں بھي جگه ملے دونوں نمازيں جمع اور قصر كركے ادا كرنا-

3 نمازوں کے بعد جبل رحمت کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔

4 غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ روانہ ہونا۔

5 دوران سفر بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا۔

9 ذی الحجہ……مزدلفہ کی رات

1 نماز مغرب اور عشاء مزدلفہ میں باجماعت جمع اور قصر کر کے ادا کرنا ۔

2 رات سو کر گزارنا۔

3 نماز فجر مزدلفه ميں ادا کرنا۔معذور لوگ يا عورتيں نماز فجر سے پهلے يا فوراً بعد مزدلفه سے مني كي طرف روانه هوسكتے هيں-

4نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے تک مشعر الحرام کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔

5طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے منیٰ روانہ ہونا۔

6 جمرات كو مارنے كے ليے كنكرياں مزدلفه سے اكٹھي كي جاسكتي هيں۔

7دوران سفر تلبیہ کہنا۔

10 ذی الحجہ……یوم نحر

1طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا(يعني سات كنكرياں مارنا۔

2 رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔

3قربانی کرنا۔

4حلق یا تقصیر کرنا۔

5مکہ جا کر طواف زیارت ادا کرنا۔

6 سعی ادا کرنا    

7 مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔

11تا13 ذی الحجہ……ایام تشریق

1تمام راتیں منیٰ میں گزارنا۔

2جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی زوال آفتاب کے بعد رمی کرنا ۔يعني سات ‘سات كنكرياں مارنا۔

3بکثرت تکبیر و تہلیل‘ تقدیس و تحمید اور اذکارو وظائف کرنا۔

4 12ذی الحجہ کو واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔

5مکہ واپس آکر اپنے شہر یا ملک رخصت ہونے سے قبل طواف وداع کرنا۔

......

عمرہ کا مسنون طریقہ

میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا

احرام سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔

احرام باندھنے سے قبل ’’لَبَّیْکَ عُمْرَۃً ‘‘ کے الفاظ سے عمرہ کی نیت کرنا

احرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ پکارنا۔

بیت اللہ شریف کا طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا۔

طواف شروع کرنے سے پہلے کندھوں والی چادر کا ایک حصہ دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لینا (یعنی حالت اضطباع اختیار کرنا)

حجر اسود کے استلام (چھونے)سے طواف کا آغاز کرنااگر ممكن هو۔

ˆ حجر اسود کے استلام کے لئے حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر ممکن ہو تو اس پر پیشانی بھی رکھنا یا ہاتھ سے چھو کر بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کر کے ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اور اشارہ کرتے وقت رفع یدین کی طرح دونوں ہاتھ بلند نہ کرنا۔

استلام کے وقت’’ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ کہنا۔

طواف کے ہر چکر میں حجر اسود کا استلام کرنا۔

طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیز چال چلنا) کرنا اور باقی چار چکروں میں عام چال چلنا۔

رکن یمانی کو چھو کر بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو پھر اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔

رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان’’

رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ

پڑھنا اور باقی طواف میں جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔

ایک طواف کے لئے سات چکر پورے کرنا۔

سات چکر پورے کرنے کے بعد

وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی

پڑھتے ہوئے مقام ابراہیم کی طرف آنا اور وہاں (یا جہاں بھی جگہ ملے) دو رکعت نماز ادا کرنا، پہلی رکعت میں قُلْ یٰٓا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھنا۔

نماز کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پر ڈالنا۔

زمزم پینے کے بعد پھر حجر اسود کا استلام کرنا اور سعی کے لئے صفا پہاڑی کی طرف جانااگر ممكن هو۔

صفا پہاڑی پر چڑھتے ہوئے :

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللہ ِفَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللہَ شِاکِرٌ عَلِیْمٌ

پڑھنا اور پھر یہ الفاظ کہنا:

اَبْدَئُ بِمَا بَدَئَ اللہُ بِہ

( صفا پہاڑی کے اوپر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہونا اور تین مرتبہ یہ کلمات کہنا :

اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ

اور درمیان میں دعائیں مانگنا۔

صفا سے سعی کا آغاز کر کے مروہ پہاڑی پر جانا قبله رخ هوكر هاتھ اٹھا كر دعائیں کرنا۔

سبز ستونوں کے درمیان (مردوں کا) تیز تیز چلنا۔

دوران سعی جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔

صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار کر کے سات چکر پورے کرنا۔

سعی کے بعد مردوں کا سارے سر سے بال کٹوانا یا سر منڈوانا اور خواتین کا صرف ایک یا دو پور بال کاٹنا۔ـــــــــــــــــ

احرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔

......

حج تمتع کا مسنون طریقہ

میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آنا اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام اتار دینا۔

8ذی الحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ مکرمہ میں اپنی قیام گاہ سے حج کے لئے احرام باندھنا۔

احرام باندھنے سے قبل لَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا۔

احرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔

بیمار آدمی کا احرام باندھتے وقت:

اَللّٰھُمَّ مَحَلِّی حَیْثُ حَبَسْتَنِیْ

(اے اللہ! میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے روک لیا) کہنا۔

احرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا ۔

اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَۃٌ لاَ رِیَائَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ

(یا اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے۔)

   8 ذی الحجہ کو احرام باندھنے کے بعد ظہر سے قبل تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر کی (پانچ) نمازیں قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر باجماعت ادا کرنا۔

 9ذی الحجہ (یوم عرفہ) کو طلوع آفتاب کے بعد تکبیرو تہلیل اور تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ سے عرفات روانہ ہونا۔

 عرفات کے دن روزہ نہ رکھنا۔

   عرفات میں داخل ہونے سے قبل وادی نمرہ میں قیام کرنا ظہر کے وقت عرفات میں امام حج کا خطبہ سننا، اس کے بعد ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں ایک اذان‘ دو اقامت کے ساتھ با جماعت قصر کر کے ادا کرنا۔

وضاحت : ہجوم کے باعث اگر وادی نمرہ میں جگہ نہ ملے اور حاجی سیدھا عرفات چلا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد عرفات میں داخل ہونا اور جبل رحمت کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ میسر آئے) وقوف کرنا‘ قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کر کے قرآنی و نبوی دعائیں مانگنا اور درمیان میں تکبیر و تہلیل اور تلبیہ بھی کہنا۔

غروب آفتاب کے بعد‘ نماز مغرب ادا کئے بغیر سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے مزدلفہ روانہ ہونا۔

   مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نمازیں‘ ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ قصر کر کے اکٹھی ادا کرنا۔

رات سو کر گزارنا اور 10 ذی الحجہ کی نماز فجر معمول کے وقت سے تھوڑا پہلے ادا کرنا۔

نماز فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد مشعر الحرام پہاڑی کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ ملے) قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرکے سورج طلوع ہونے سے قبل خوب روشنی پھیلنے تک تکبیر و تہلیل کہنا‘ توبہ استغفار کرنا اور دعائیں مانگنا۔

طلوع آفتاب سے قبل سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ روانہ ہونا اور راستہ میں وادی محسر سے تیزی سے گزرنا۔

منیٰ پہنچ کر طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا اور رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔

جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد قربانی کرنا اور اس سے کچھ پکا کر کھانا۔

وضاحت : یاد رہےکہ حج افراد والوں پر قربانی کرنا واجب نہیں۔

قربانی کے بعد حلق یا تقصیر کروانا اور احرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔

منیٰ سے مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ(طواف زيارت) کرنا‘ زمزم پینا اور کچھ حصہ سر پر بہانا

صفا و مروہ کی سعی کرنا اور مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔

ایام تشریق (11تا13) ذی الحجہ کی راتیں منیٰ میں گزارنا اور روزانہ زوال آفتاب کے بعد جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی بالترتیب رمی کرنا۔

جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ کی رمی کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا لیکن جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعائیں مانگے بغیر واپس پلٹنا۔

قیام منیٰ کے دوران ممکن ہو تو روزانہ طواف کرنا‘ مسجد خیف میں با جماعت نمازیں ادا کرنا‘ بکثرت تہلیل و تکبیر‘ حمدوثنا‘ توبہ استغفار اور دعائیں مانگنا۔

   12 ذی الحجہ کو منیٰ سے واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔

وضاحت : اگر سورج منیٰ میں ہی غروب ہو جائے تو پھر13 ذی الحجہ کو زوال کے بعد رمی کر کے منیٰ سے واپس آنا چاہئے۔

مکہ معظمہ پہنچ کر گھر رخصت ہونے سے قبل طواف وداع ادا کرنا۔

.........

حج افراد کا مسنون طریقہ

میقات سے حج کی نیت سے احرام باندھنا۔

احرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔

لَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا

ممکن ہو تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد احرام باندھنا۔

احرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَّۃٌ لاَ رِیَائَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ (اے اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے)

اگر وقت ہو تو مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف تحیہ کرنا اگر وقت نہ ہو تو سیدھے منیٰ چلے جانا۔

حج افراد کرنے والے شخص (مفرد) کے ذمہ دو طواف واجب ہیں۔

1طواف افاضہ(طواف زيارت) 2طواف وداع۔

حج افراد ادا کرنے والوں پر صرف ایک سعی واجب ہے جو قربانی کے دن طواف زیارت کے بعد ادا کی جائے گی۔

سہولت کے لئے حج سعی 8 ذی الحجہ کو منیٰ میں جانے سے قبل کرنا جائز ہے۔

....

حج قران کا مسنون طریقہ

میقات سے عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا۔

وضاحت : احرام باندھنے کی تفصیل حج افراد کے مسنون طریقہ کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرنا لیکن عمرہ کی سعی کے بعد حجامت نہ بنوانا نہ ہی احرام کھولنا بلکہ حالت احرام میں ہی ایام حج کا انتظار کرنا۔

8ذی الحجہ کو ظہر کی نماز سے قبل تلبیہ کہتے کہتے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور 9 ذی الحجہ کو نماز فجر قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر با جماعت ادا کرنا۔

وضاحت : اس کے بعد ایام حج کے تمام افعال وہی ہیں جو حج تمتع کے ہیں۔

حج قران کرنے والوں پر قربانی ادا کرنا واجب ہے۔

جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو دس دن کے روزے رکھنے چاہئیں۔

حج قران کا احرام باندھنے کے لئے قربانی کا جانور ساتھ لے جانا مسنون ہے۔

حج قران ادا کرنے والے شخص (قارن) کے ذمہ تین طواف واجب ہیں ایک عمرہ کا‘ دوسرا حج کا اور تیسرا طواف وداع۔

حج قران ادا کرنے والوں پر دو سعی واجب ہیں۔ ایک سعی عمرہ کی اور دوسری حج کی۔

....

(ملاحظہ:مندرجہ بالا مضمون، فضیلۃ الشیخ محمد اقبال کیلانی، حفظہ اللہ کی کتاب مسائل حج و عمرہ سے ماخوذ ہے، جو کہ قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔مزید مسائل و تفصیلات کے لئےمذکورہ بالا کتاب انتہائی مفید رہے گی۔ادارہ)

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول