حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی تحدیث:
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی (1966ء) لکھتے ہیں :
’’شاہ اسماعیل شہید کے اس مسابقت الی الجہاد وفوز بہ شہادت کے بعد ہی دہلی میں الصدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کا فیضان جاری ہوگیا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی ہی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔
میاں صاحب کا یہ درس 60 برس تک قائم رہا ابتداء میں آپ تمام علوم پڑھاتے رہے مگر آخری زمانہ میں صرف حدیث وتفسیر پر کاربند رہے ۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص:19۔20)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ محمد اسحاق کے تلامذہ میں تنہا مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) نے دہلی میں سالہا سال حدیث کا درس دیا اور آپ کے درس سے متعدد جلیل القدر ناشرین وشارحین حدیث پیدا ہوئے جن میں مولانا عبد المنان وزیرآبادی( جن کی کثیرتعدادِ تلامذہ پنجاب میں مصروف درس وافادہ تھے) عارف باللہ سید عبد اللہ غزنوی امرتسری اور ان کے فرزند جلیل مولانا سید عبد الجبار غزنوی امرتسری (والد مولانا سید داؤد غزنوی) مولانا شمس الحق ڈیانوی مصنف غایۃ المقصود ، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا غلام رسول قلعوی ، مولانا محمد بشیر سہوانی، مولانا امیر احمد سہوانی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ، ابو محمد مولانا ابراہیم آروی مصنف طریق النجاۃ، مولانا سید امیر علی ملیح آبادی، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور (علمائے عرب میں سے) شیخ عبد اللہ بن ادریس الحسنی السنوسی، شیخ محمد بن ناصر النجدی، شیخ سعد بن احمد بن عتیق النجدی کے نام اس درس کی وسعت وافادیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔(سید ابو الحسن علی ندوی،تاریخ دعوت وعزیمت، 5/359۔360 مطبوعہ کراچی)
مولانا محمد عزیر سلفی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ
’’میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) نے شاہ محمد اسحاق (م 1262ھ) کی ہجرت 1258ھ کے بعد مسند درس سنبھال رکھا تھا اور مکمل 62 سال تک کتاب وسنت کی تدریس وتعلیم میں یک سوئی کے ساتھ مشغول رہے اسی عرصے میں بلامبالغہ ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے اور ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئے بیرون ہند سے بھی لوگ جوق درجوق آتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلا اختلاف مسلک ومشرب بعد کی کوئی بھی شخصیت ہندوستان میں ایسی نظر نہیں آتی جو ان کے سلسلہ تلمذ میں منسلک نہ ہو ہندوستان کیا پورے عالم اسلام میں اس صدی کے اندر کثرت تلامذہ میں میاں صاحب کی نظیر نہیں ہے میاں صاحب کے تلامذہ نے ہندوستان میں پھیل کر خدمت
اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا اور پوری زندگی
اشاعت کتاب وسنت میں گزاردی ۔ (محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 مطبوعہ کراچی 1984ء)
ذرائع :
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں جو ذرائع اختیار کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1 درس وتدریس
2دعوت وتبلیغ
3تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4 تصنیف وتالیف
5باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید
6 تحریک جہاد(محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 ۔22مطبوعہ کراچی 1984ء)
شمائل وخصائل :
حضرت میاں صاحب عادات واخلاق کے اعتبار سے بہت اعلی وارفع تھے خوش اخلاق ، خوش اطوار، خوش گفتار اور خوش کردار تھے ۔قناعت پسند اور درویش مشن عالم دین تھے بے حد متحمل مزاج اور حلیم الطبع تھے ان کی تمام زندگی مجاہدہ نفس سے تعبیر تھی ان کے قلب میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت راسخ ہوچکی تھی ان کی زندگی کے لیل ونہار حسنات سے عبارت اور اعمال خیر کے حسین ترین قالب میں ڈھلے ہوئے تھے طہارت وپاکیزگی ان کا شیوہ اور عبادت الٰہی ان کا معمول تھا زہد وورع کے پیکر تھے صبر وتحمل ان کا جزءحیات اور اعتدال ان کا رفیق سفر تھا ۔ (ماخذ از: دبستان حدیث ، محمد اسحاق بھٹی)
ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات :
شیخ الکل حضرت میاں صاحب علوم عالیہ وآلیہ کے بحرزخّار تھے اور تمام علوم پر ان کی وسیع نظر تھی مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’شیخ الکل میاں صاحب تمام علوم متداولہ میں عمیق نگاہ رکھتے تھے قرآن وحدیث،فقہ وکلام،صرف ونحو، اصول حدیث ، اصول فقہ ، ادب وانشاء، معانی وبیان، منطق وفلسفہ، حساب وریاضی غرض جو علوم اس زمانے میں مروج ومتداول تھے میاں صاحب کو ان سب میں عبور حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حفظ واتقان کی بے پناہ دولت سے نوازا تھا ۔ فقہ حنیفہ تو یوں سمجھیے کہ انہیں پوری ازبر تھی اور اس کی تمام جزئیات ان کے خزانہ ذہن میں محفوظ تھیں فتاوی عالمگیری کئی ضخیم جلدوں پر محیط ہے اور اسے فقہ حنیفہ کے تمام مسائل کے دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل ہے میاں صاحب اس کے تمام گوشوں سے باخبر تھے اس کا انہوں نے شروع سے آخر تک تین مرتبہ دقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:41 مطبوعہ لاہور 2008ء )
میاں صاحب میں اطاعت رسول ﷺ کا جذبہ صادقہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ تھا حدیث نبوی ﷺ کے مقابلہ قول امام کی ان کے نزدیک کوئی وقعت اور حیثیت نہ تھی جب کوئی حدیث بیان فرماتے اور اس حدیث کے برعکس کوئی شخص کسی امام فقہ کا قول پیش کرتا تو برہمہ ہوکر فرماتے ۔ سنو
یہ بزرگ جن کا تم نے قول پیش کیا ہے ہم سے بڑے ، میرے باپ سے بڑے، میرے دادا سے بڑےلیکن رسول اللہ ﷺ سے ہرگز بڑے نہیں ہیں۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:72 مطبوعہ لاہور 2008ء )
1857ء کی جنگ آزادی :
برصغیر (متحدہ ہندوستان پاکستان،بھارت ، بنگلہ دیش) میں 1857ء میں جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو علمائے اہلحدیث نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا خاص طور پر علمائے صادق پور نے جو قربانیاں پیش کیں برصغیر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مولانا یحییٰ علی صادق پور( م 1284ھ) مولانا عبد الرحیم صادق پوری (م 1341ھ) مولانا حمد اللہ صادق پوری(م1298ھ) مولانا ولایت علی عظیم آبادی (م 1269ھ) اور مولانا عنایت علی عظیم آبادی (م 1374ھ) کی خدمات آب زریں سے لکھنے کے قابل ہیں ان علمائے کرام میں سے کئی ایک نے جام شہادت نوش کیا کئی ایک کو تختہ دار پر لٹکایا گیا کئی ایک کو جزائر انڈیان میں جلاوطن کیاگیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے دن پورے کئے اور وفات پائی ۔ (عبد الرشيد عراقي،حيات نذير ، ص:23 مطبوعه لاهور 2007ء)
بغاوت کے مقدمات :
1857ء کی تحریک آزادی کے سلسلہ میں علمائے صادق پور پر بغاوت کے مقدمات مختلف شہروں میں قائم کئے گئے یہ مقدمات پٹنہ اور انبالہ وغیرہ میں قائم کئے گئے ۔
مقدمہ انبالہ :
انبالہ کے مقدمہ میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کا بھی مؤاخذہ ہوا حکومت کو پولیس کے اہل کاروں نے رپورٹ دی کہ مولوی سید محمد نذیر حسین دہلوی کے پاس بہت خطوط آتے ہیں چنانچہ میاں صاحب کے مکان کی تلاشی لی گئی جو خطوط برآمد ہوئے وہ تمام کے تمام فتاویٰ اور دینی مسائل کے بارے میں تھے یا مختلف کتابوں کے بارے میں دریافت کیاگیا تھا کہ کہاں اور کس شہر سے دستیاب ہیں۔
حضرت میاں صاحب سے دریافت کیاگیا کہ
آپ کے پاس اتنے خطوط کیوں آتے ہیں ۔
حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ
یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کیا جائے نہ کہ مجھ سے بہر حال آپ کو گرفتار کرکے راولپنڈی جیل میں نظر بند کردیاگیا۔
مولانا غلام رسول مہر ( م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
شیخ الکل میا ںنذیر حسین محدث دہلوی بھی ہدف ابتلاء بنےتھے میاں صاحب مرحوم اہل حدیث کے سرتاج تھے اہل حدیث اور وہابیوں کو مترادف سمجھا جاتا تھا مخبروں نے میاں صاحب کے خلاف بھی شکایتیں حکومت کے پاس پہنچائیں ان کے مکان کی تلاشی ہوئی بہت سے خط پائے گئے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے آتے رہتے تھے ان میں یا تو مسئلے پوچھے جاتے تھے یا مختلف دینی کتابوں کے متعلق دریافت کیاجاتا تھا میاں صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس اتنے خط کیوں آتے ہیں انہوں نے بے تکلف جواب دیا کہ یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کرنا چاہیے نہ کہ مجھ سے ۔
ایک خط میں مرقوم تھا کہ نخبۃ الفکر (اصول حدیث کی ایک کتاب) بھیج دیجیےمخبر نے کہا کہ یہ خاص اصطلاح ہے جس کا مفہوم کچھ اور ہے اور یہ لوگ خطوں میں اصطلاحی الفاظ سے کام لیتے ہیں میاں صاحب نے سنا تو جلال میں آگئے تو فرمایا
نخبۃ الفکر کیا توپ ،
نخبۃ الفکر کیا بندوق،
نخبۃ الفکر کیا گولہ بارود
بہر حال آپ کو دہلی سے راولپنڈی لے گئے اور وہاں کم وبیش ایک سال جیل خانے میں نظر بند رکھا دو آدمی ساتھ تھے ایک میر عبد الغنی ساکن سورج گڑھ جو بڑے عابد ، زاہد بزرگ تھے انہوں نے جیل خانے ہی میں وفات پائی میاں صاحب نے خود ہی تجہیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی ۔ دوسرے صاحب عطاء اللہ تھے جنہوں نے اس زمانے میں پوری صحیح بخاری سبقاً سبقاً پڑھی اور قرآن مجید بھی حفظ کیا ۔ میاں صاحب نے سرکاری لائبریری سے کتابیں منگوانے کی اجازت لے لی تھی اور ان کا بیشتر وقت مطالعے میں گزرتا تھا۔ راولپنڈی جیل میں مجاہدین کے متعلق بہت سے کاغذات جمع کردیئے گئے تھے جن میں اکثر فارسی میں تھے ۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد ان کاغذات کی جانچ پڑتال پر لگائے گئے تھے وہ بھی دیر تک راولپنڈی میں مقیم رہے۔ ذوق کے دیوان کی ترتیب انہوں نے وہیں شروع کی تھی میاں نذیر حسین کے خلاف کوئی الزام پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکا تو تقریباً ایک سال بعد انہیں ابتلاء سے نجات ملی ۔ (غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین، ص: 382، مطبوعہ لاہور)
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ( م 1966ء) لکھتے ہیں کہ
ایک سال تک راولپنڈی جیل میں محبوس رہے روزانہ پھانسی کی دھمکیاں دی جاتیں مگر پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ ہوئی۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:149 مطبوعہ دہلی 1938ء)
انگریز آپ کو رہا کرنے پر مجبور تھا اس لیے کہ اس نے بہت کوشش کی کہ آپ کے خلاف کوئی ثبوت مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہوا ۔پروفیسر عبد الحکیم اپنی انگریزی کتاب Wohhabi Trial of 1863-1870میں لکھتے ہیں :
It will be difficult to obtain evidence against him.
ان (مولوی نذیر حسین) کے خلاف ثبوت مہیا ہوجانا بہت مشکل ہوگا۔ (پروفیسر محمد مبارک، حیات شیخ الکل سید محمد نذیر حسین دہلوی)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10 رجب 1320ھ / 13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی آپ کے پوتے مولوی عبد السلام ( م 1916ء) نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیدی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:155)
حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے تلامذہ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ میں بہتوں نے صادق پوری خاندان کے ساتھ مل کر تحریک جہاد کو منظم کیا اس سلسلہ میں بڑی بری قربانیاں پیش کیں اور ہمیشہ برطانوی سامراج کی نظروں میں کھٹکتے رہے مثلاً
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
3مولانا شاہ عین الحق پھلواروی ( م 1333ھ)
4 شیخ پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ( م 1334ھ)
5 مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ)
6 مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (م1337ھ)
7 مولانا فقیر اللہ مدراسی ( م 1341ھ )
8 مولانا محمد اکرم خان آف ڈھاکہ ( م 1968ء )
حضرت میاں صاحب کے ان تلامذہ کے بارے میں جنہوں نے تحریک جہاد کو منظم کیا اورمالی تعاون بھی کیا ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) فرماتے ہیں کہ
حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین ( جو شاہ محمد اسحاق کی ہجرت حجاز کے بعد ان کی علمی جانشینی کے سبب’’میا ں صاحب‘‘ کے لقب سے مشہور تھے) کی سیاست سے کنارہ کش اور مشاغل درس کے باوجود میاں صاحب سے ایک جماعت استخلاص وطن اور حکومت الٰہیہ کے قیام اور استحکام کے لیے بدستور سرگرم عمل رہی جن میں حضرت شیخنا الاکرم مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، حضرت شاہ عین الحق پھلواروی صاحب خلق سواھم وحمھم اللہ اجمعین خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تمام عمر یہی مشغلہ رہا اپنے ذاتی اموال نیز زکوۃ وصدقات وغیرہ سے مجاہدین کی اعانت فرماتے رہے ۔
ثبت امت بر جریدئہ عالم دوام ما
’’جریدہ عالم پر ہمارا نام مستقل طور پر نقش ہے یعنی ہمارا نام زندہ جاوید ہے ۔‘‘(مقدمہ کالا پانی از محمد جعفر تھانسیری، ص: 20 مطبوعہ طارق اکیڈمی فیصل آباد 2004ء)
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
مولانا غلام رسول قلعوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتاہے آپ جلیل القدر عالم، محدث اور صاحب کرامات بزرگ تھے آپ کا سن ولادت 1228ھ/1813ء ہے بچپن ہی سے نیکی اور ورع طبیعت پر غالب تھا تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا ابتدائی تعلیم مولانا نظام الدین بگوی رحمہ اللہ سے حاصل کی حدیث کی تحصیل عارف باللہ شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) کے ہمراہ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے کی ۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی ( م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وأخذ الحديث عن الشيخ المحدث نذير حسين الحسيني الدهلوي مشاركاً للشيخ الأجل عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي (عبد الحی الحسنی ، نزهة الخواطر 8/348)
20 سال کی عمر میں علوم عالیہ وآلیہ سے فراغت پائی جب حج بیت اللہ کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ میں مولانا شیخ عبد الغنی مجددی (م 1296ھ) سے حدیث کی سند واجازت حاصل کی۔
مولانا غلام رسول بہت بڑے مبلغ اور واعظ تھے ہزاروں غیر مسلم آپ کے وعظ اور تبلیغ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 1857ء کے ہنگامہ میں تقلیدیان احناف نے انگریزی حکومت سے شکایت کی کہ اس ہنگامہ میں مولانا غلام رسول قلعوی کے وعظوں کا بڑا دخل ہے چنانچہ ایک طرف انگریزی حکومت نے آپ کے وعظوں پر پابندی لگادی۔(نزھۃ الخواطر 8/348) دوسری طرف آپ کو گرفتار کرکے لاہور میں سیشن جج مسٹر منٹگمری کی عدالت میں پیش کیاگیا۔
لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ مولوی غلام رسول کو پھانسی کا حکم ہوگا چنانچہ ہزاروں آدمی مسٹر منٹگمری کی عدالت کے باہر جمع ہوگئے ۔ مسٹر منٹگمری کو پتہ چلا تو اس نے دریافت کیا کہ یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں تو اس کو بتلایا گیا کہ
’’مولوی غلام رسول جید عالم دین اور اہل پنجاب کا استاد اور پیر ہے یہ لوگ اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے پیر کو پھانسی ہوگئی تو ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے چنانچہ منٹگمری نے پھانسی کا ارادہ بدل دیا اور کچھ عرصہ کے لیے نظر بند کردیا۔ (محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، تاریخ اہلحدیث ، طبع اول ، ص:428)
مولانا غلام رسول نے 15 محرم الحرام 1291ھ / 4 مارچ 1874ء قلعہ مہان سنگھ میں رحلت فرمائی عمر 63 سال تھی۔ ( محمد اسحاق بھٹی ، فقہائے ہند 6/483، مطبوعہ لاہور 2013ء)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبد العلی بن رحیم بخش علمائے فحول میں سے تھے آپ بلند پایہ خطیب،مقرر،واعظ اور مبلغ تھے ان کی وعظ اور تبلیغ سے ہزاروں لوگ ( جو بدعات اور محدثات میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے) صراط مستقیم پر آگئے ان کا وعظ بڑا جامع اور پُر تأثیر ہوتا تھا علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1373ھ) لکھتے ہیں کہ
’’وعظ کہتے تو خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رلاتے۔ (سید سلیمان ندوی، حیات شبلی ، ص:308)
حدیث کی تحصیل شیخ الکل حضرت میاں صاحب سے کی جب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مکہ مکرمہ شیخ عبد الجبار مکی اور مدینہ منورہ میں شیخ عبد الغنی مجددی(م 1296ھ) سے حدیث میں سند واجازت حاصل کی شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) سے بھی مستفیض ہوئے۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی (م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وسافر إلى أمرتسر وصحب الشيخ الكبير عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي، واستفاض منه (نزهة الخواطر 8/4)
’’ آپ نے امرتسر کا سفر کیا اور شیخ کبیر عبد اللہ محمد اعظم غزنوی کی مصاحبت اختیار کی اور اکتساب فیض کیا۔‘‘
فراغت تعلیم کے بعد آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام ایک دینی درسگاہ قائم کی اس مدرسہ میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ) اور مولانا محمد سعید محدث بنارسی ( م 1322ھ) جیسے اساطین فن نے تدریس فرمائی۔
مولانا بدر الزمان محمد شفیع نیپالی لکھتے ہیں کہ
’’مدرسہ احمدیہ اس اعتبار سے منفر د تھا کہ اس میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی اوراس کے ساتھ ساتھ جہاد کی تیاریوں کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔ (بدر الزمان محمد شفیع، الشیخ عبد اللہ غزنوی، ص:138)
مدرسہ احمدیہ اپنے عہد میں اہلحدیث کی یونیورسٹی تھی۔(ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ، ص: 158)
حافظ ابراہیم صوفی،واعظ،مبلغ،مقرر،خطیب،مدرس، مصنف،ماہر تعلیم، منتظم، مجاہد،علوم اسلامیہ میں بحرزخّار، تفسیر،حدیث،فقہ،تاریخ وسیر میں یگانہ روزگار اور عربی ادب میں کامل دسترس رکھتے تھے۔
حافظ ابراہیم آروی نے 6 ذی الحجہ 1319ھ بحالت احرام مکہ مکرمہ میں انتقال کیا اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (سید عبد الحی الحسنی ، نزھۃ الخواطر 8/5)
الحمدللہ رب العالمین والسلام علی خاتم الانبیاء والمرسلین اما بعد!
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا
ترے وجود پہ فہرست انبیاء ہے تمام
تجھی پہ ختم ہے روح الامیں کی نامہ بری
شریعت کے محل کی آخری اینٹ ہے تو کامل
ادھورے کو کیا پورا یہ سنت ختم ہے تجھ پر
نہیں ہے باپ گرچے تو کسی بھی مردکا لیکن
تو مُہر انبیا ء ہے شان رسالت ختم ہے تجھ پر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
صدر مجلس اور میرےہم مکتب ساتھیوں ،ارباب علم دانش
100آیات کریمہ 200احادیث متواترہ 1200صحابہ کرام کی شہادتیں سیدنا حبیب بن زید انصاری tکا تاریخ ساز جملہ ’’أنا أصم لا أسمع‘‘ آتش نمرودی کی طرح آتش عنسی سے ابو مسلم خولانی کا جلوہ گر ہونا اس چوکھٹ کی چو کیداری کرتے ہیں
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جان سےگزر گئے
راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گر بنادیا
اربا ب علم و حلم : مفتی یا مستفتی کا میدان ہو ،یا قلم و قرطاس کا بحرِکتابت ،یاکارواں قادیاں ہو ،یا تاریخ کی معرکہ آرائیاں ،یا لیل ونہار کی گردشیں ،یا رزم وبزم کی داستاں لکل فرعونٍ موسی کو جواز رکھتیں ہیں فتنہ قادیانیت نے جب ہندوستان کی دھرتی پر سر اٹھایا تو اس کی سر کوبی کے لیے جن نفوس مقدسہ نے قربانیاں دیں تاریخ انہیں اہلحدیث کے نام سے یاد کرتی ہے یہ وہ طائفہ منصورہ ہے جو قادیانیت کے لیے تلوار بے نیام کی حیثیت کا حامل ہے یہ وہ حزب اللہ ہے جس نے مرزائیت کو ناکوںچنے چبوائے ۔
ستیزہ کار رہاہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لھبی
شرفائے ملت ! جب ابلیسانہ تلبیس و التباس کے کالےبادل نمو دار ہونے لگے تو اہلحدیثوں کے سر خیل اور ثانی اثنین کے جانشین مولانا محمد حسین بٹالوی کی شکل میں آتےہیں جب گزری ہوئی ضیا ءپاشیا ںڈھونڈتا ہوں تو شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی کو اول المکفرین کا نشان حیدر ملتا ہے جب افق عالم کو دیکھتا ہوں تو مرد میداں مناظر اسلام دلائل و براہین کے سمندر بہا دینے والا شیخ الاسلام ثناء اللہ امر تسری کا وجود ملتا ہے 1893میں فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ(آل عمران:61)
کی عملی تفسیر میں صوفی عبد الحق غزنوی کی صورت ملتی ہے
اولئك ابائی فجئنی بمثلہم
صدر مجلس ! جب قلم و قرطاس سے گواہی طلب کرتا ہوں تو جواب میں مولا نا اسماعیل علی گڑھی کا نام ملتا ہے ان کے ساتھ ساتھ قاضی سلیمان منصور پوری کی ’’غایت المرام ‘‘ اور علامہ ابراہیم میر سیالکوٹی کی ’’شہادت القرآن ‘‘ عربوں پرعجم نے اس فتنےکو تار تار کیا اور وجہ التسمیہ ھذہ الجامعہ کے مصنف علامہ احسان الٰہی ظہیر کی ’’القادیانیت ‘‘ ملتی ہے فتوائے الہام سے لکھوی خاندا ن کی خوشبو آتی ہے تحریک ختم نبوت سے فرزند ارجمند کی جھودد ملتی ہے
کیا عشق نے سمجھا ہے کیا حسن نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
عالی وقار!جب یہ کارواں 1953کے قرینہ پر پہنچا تو پاک سرزمین پر علمائے اہلحدیث ہراول دستہ کے سپاہ تھے مفکر اہلحدیث مولانا حنیف ندوی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ پاک پر چم کے پاک سائے تلے پلید لوگوں کا پلید سایا نا قابل برداشت ہے پھر قادیانی اس ملک وملت کے غدار ہیں شہزادہ اہلحدیث داؤد غزنوی اور انکے رفقاء یہ صدا بلند کرتے نظر آتے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔
یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا
ہر مدعی کے واسطے یہ دار ورسن کہاں
سامعین باتمکین !1965کی جنگ کے احوال وکوائف کے دستاویزی ثبوت ہوں یا پاک بھارت جنگ آغاز سے لیکر شملہ معاہدہ تک کی پوری تاریخ یا پنجاب وکشمیر پر مشتمل ریاست کی تشکیل کا نعرہ ہو یا 1971کی جنگ مشرقی پاکستان میں سازشوں کا جال ؟جس کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان اور کم وبیش ایک لاکھ فوجی وسول نفری کا’’ جنگ قیدی ‘‘بنا نااس کے پس منظر میں سیاہ دل سیاہ ہاتھ سیاہ چہرے قادیانیوں کے تھے
عالی وقار !پاکستان میں خالص اسلامی نظا م کی دو وجوہات ہیں:
1 قادیاں ہندوستاں میں رہ گیا ۔
2جماعت خلیفۃ المسلمین کی ہدایات اور فیوضات سے محروم۔
زمانہ تعبیر ہے ان قوتوں سے ان عوامل سے ،خیالات وافکار کی ان موجوںسے جو زندگی کی زنجیر بنانے میں حصہ لیتی ہے آخری سوال ابراہیم کمیر پوری کی شکل اختیا ر کرتاہے یا آخری وار یا آخری فیصلہ فاتح قادیاں ثنا ء اللہ امر تسری کا روپ دھارتا ہے 7ستمبر 1974کا دن پاکستانی تاریخ کا یاد گار دن ہے جب 1953اور 1974کے شہیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا ملی اور اسلامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے عقیدۂ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر ملک وملت کواس ناسور سے پاک کرتے ہوئے قادیانیوں کو دائرئہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیاگیا۔
باطل سے دبنے والے اےآسماں نہیں ہم
سوبار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا
والسلام
عبد الرشید عراقی
خالد اختر افغانی :
مرحوم ومغفور خالد اختر افغانی سوہدرہ کے باسی تھے ، نامور عالم دین اور مصنف ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی(م 1966ء) کے سگے بھانجے تھے۔خالد اختر افغانی نے دینی تعلیم مولانا غلام نبی الربانی (م 1318ھ) سے حاصل کی بعد ازاں طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا لیکن بوجوہ اس کے طبیہ کالج میں تعلیم مکمل نہ کرسکے اور بمبئی چلے گئے اور صحافت کے پیشہ سے منسلک ہوگئے اور ’’طارق‘‘ کے نام سے ہفتہ روزہ اخبار جاری کیا جو 12 سال تک تر آسمان صحافت پر جگمگاتہ رہا پھر غروب ہوگیا۔ خالد اختر ادیب بھی تھے، شاعر بھی تھے،مقرر بھی تھے اور مصنف بھی۔ ان کی مشہور تصنیف حیات قائد اعظم ہے جو قائد اعظم کی زندگی پر محیط ہے اور قائد اعظم کی زندگی میں شائع ہوئی۔ خالد اختر افغانی نے 1978ء میں وفات پائی۔
مرحوم خالد اختر افغانی حضرت شاہ محمد اسمعیل شہید پر نظم کے ذریعہ خراج تحسین پیش کیا ہے، نظم ملاحظہ فرمائیں :
1اے شہید پاک طینت اے صحابہ کے مثیل
جان خالد روح طارق بوعبیدہ کے عدیل
تیری ہستی تھی حدیث پاک کا عکس جمیل
نور بھر دے قبر میں تیری خداوند جلیل
تونے دیرایافسانہ خالد وضرار کا
خون تھا تیری رگوں میں سید ابرار کا
2جب زمین ہند گہوارہ بنی الحاد کا
شرک اور بدعت کا جب چاروں طرف چرچا ہوا
اُٹھ گئی جس وقت تمیز دا وفا ردا
بدعتوں کی پر خطر چلنے لگی جس دم ہوا
تلملا کر تو اُٹھا پھر جہر تبلیغ وجہاد
مرحبا اے نیک طینت پاک خو عالی نژاد
(ہفت روزہ طارق بمبئی 21 جنوری 1945۔ ص:2)
تصنیفات :
حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی نے علوم اسلامیہ کی فراغت کے بعد اپنی زندگی کا ایک نصب العین متعین فرمایا ، اور وہ تھا :
اعلائے کلمۃ الحق ،توحید وسنت کا بول بالا، شرک وبدعت کا استیصال، جاہلانہ رسومات کا خاتمہ۔
چنانچہ آپ اپنے نصب العین میں کامیاب وکامران ہوئے اور اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دی۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
حضرت شاہ اسمعیل کی زندگی کا بیشتر حصہ توحید وسنت کی تبلیغ اور شرک وبدعت کی تردید وتوبیخ اورمیدانِ جہاد میں گزرا، تصنیف وتالیف کے لیے بہت کم وقت ملا اگر آپ کو مہلت ملتی تو دنیا دیکھتی کہ آپ بڑے بڑے سلاطین قلم سے سبقت لے جاتے اور سلطان القلم اور رئیس التحریر کے القاب سے یاد کئے جاتے۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ
حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی کی تصانیف اور علم میں وہ سب خصوصیتیں موجود ہیں جو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا حصہ ہیں اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے ہاں ملتی ہیں یعنی شان اجتہاد، علم کی تازگی اور استدلال کی لطافت نکتہ آفرینی ،سلاست ذوق،قرآن وحدیث کا خاص تفقہ اور استحضار اور کلام۔(کاروان ایمان وعزیمت، ص:22)
مولانا محمد خالد سیف فیصل آبادی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ
حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر کچھ کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اپنے اپنے موضوع پر پہلے کی بعض بڑی بڑی مجلدات اور نامور کتابوں سے کئی گنا زیادہ وزنی ہیں نیز وہ مصنف کی بلند پایہ تصنیفی خوبیوں اور علمی گہرائیوں کا پتہ دیتی ہیں ، طرز نگارش کا حسن، اسلوب بیان کی عمدگی، استدلال کی قوت، دلائل کا رسوخ، احکام شرعیہ کی مؤثر تشریح،فلسفہ واصول دین کی نقاب کشائی اور بیان میں تفہیم وتسلیم دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا آپ کی تصنیفات کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔(تذکرہ شہید ، ص: 230)
محترمہ ڈاکٹر ثریا ڈار مرحومہ لکھتی ہیں کہ
شاہ محمد اسمعیل نے اوائل عمر ہی میں مجاہدانہ زندگی کے ساتھ ساتھ مذہبی اور دینی مسائل پر متعدد کتابیں اور رسالے لکھنا شروع کردیئے۔ ان کی علمی قابلیت،عقل سلیم اور زور کلام کا اندازہ ان کی تصانیف سے کیا جاسکتاہے۔(شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات ، ص:183)
تصانیف کی تفصیل :
(تذکرہ شہید / شاہ عبد العزیز محدث اور ان کی علمی خدمات ، شاہ ولی اللہ)
رد الاشراک
یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کا موضوع شرک اور غیر شرعی رسومات کی تردید ہے اور اس کتاب کو 35 عنوانات میں تقسیم کیاگیاہے۔
حضرت مولانا سید نواب صدیق حسن خاں ( م 1307ھ) ا س کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں
ازاں جملہ رد الاشراک است مشتمل بردوباب درنفی اشراک ورسوم وکفر وبدعات از احادیث وتقویۃ الایمان ترجمہ یک باب اوست ہم از مؤلف
یعنی شاہ صاحب نے آیات واحادیث کی روشنی میں شرک وبدعت اوردیگر کفریہ رسومات کی تردید میں یہ کتاب تصنیف فرمائی جو دو ابواب پر مشتمل تھی اس کے پہلے باب کا آپ نے ہی اُردو میں ترجمہ کیا اور اسے تقویۃ الایمان کے نام سے موسوم فرمایا ۔ (اتحاف النبلاء ، ص:417)
تقویۃ الایمان :
تقویۃ الایمان ، رد الاشراک کے پہلے حصے کا اردو ترجمہ ہے، اس میں حضرت شاہ اسمعیل شہید نے قرآن کریم کی 36 آیات اور مشکاۃ شریف کی 43 احادیث سے دلائل پیش کرکے شرک وبدعت کی تردید کی ہے حضرت شاہ صاحب کی یہ کتاب بہت بلند مرتبہ اور لا جواب ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی ارکان، کتاب کی توضیح، شرک اور غیر شرعی رسومات اور بدعات ومحدثات کی نفی کی گئی ہے دوسرے الفاظ میں اس کا موضوع||’’توحید‘‘ ہے اس کتاب میں درج تمام مسائل کو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ مرفوعہ کی روشنی میں واضح کیاگیاہے کسی امام کے اور مجتہد کے قول کا سہارا نہیں لیا ، اس کتاب کی علمائے اسلام اور مصنفین نے بہت زیادہ تعریف وتوصیف کی ہے، حضرت شاہ صاحب نے یہ کتاب 1232ھ/1817ء میں تصنیف فرمائی۔
مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ
لکھنو کے کامیاب سفر کے بعد آپ برابر سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور اسی زمانہ میں ’’تقویۃ الایمان‘‘ لکھی، جس نے ہندوستان میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ (کاروان ایمان وعزیمت ، ص:36)
صدر الدین آزردہ دہلوی (م 1868ء)
’’تقویۃ الایمان‘‘ کو نظر اجمالی سے دیکھا ہے ، باعتبار اصول اور اصل مقصود کے بہت خوب ہے اور مولوی اسمعیل صاحب کو ایسا دیکھا کہ پھر کسی کو ایسا نہ دیکھا۔ (بحوالہ : تذکرہ شہید ، ص:246)
شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1902ء)
تحریر اور تقریر مولانا صاحب کی ’’تقویۃ الایمان‘‘ میں مثل تحریر وتقریر امام رازی مفسر’’تفسیر کبیر‘‘ کے ہیں اور مسائل اور احکام مندرجہ تقویۃ الایمان موافق کتاب اہل سنت کے ہیں۔ (اکمل البیان ، ص:795)
علامہ سید سلیمان ندوی (م 1953ء) لکھتے ہیں کہ
قرآن پاک کے بعد مولانا محمد اسمعیل شہید کی ’’تقویۃ الایمان‘‘ میر ےہاتھ میں دین کی پہلی کتاب دی گئی ، میں ان بیسیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تقویۃ الایمان کی ایک ایک بات پڑھتا اور بھائی صاحب مرحوم پردہ کے پیچھے سے ایک ایک مسئلہ کی تشریح وتفسیر فرماتے۔ اور جو وہ فرماتے میرے دل میں بیٹھ جاتا۔ یہ پہلی کتاب تھی جس نے مجھے دین حق کی باتیں سکھائیں اور ایسی سکھائیں کہ اثنائے تعلیم ومکالمہ میں بیسیوں آندھیاں آئیں، کتنی دفعہ خیالات کے طوفان اُٹھے مگر اس وقت جو باتیں جڑ پکڑ چکی تھیں ان میں ایک بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ علم کلام کے مسائل ، اشاعرہ ومعتزلہ کے نزاعات، غزالی ورازی وابن رشد کے دلائل یکے بعد دیگرے نگاہوں سے گزرے مگر اسمعیل شہید کی تلقین بہر حال اپنی جگہ قائم رہی۔ (حیات سلیمان از شاہ معین الدین احمد ندوی)
مولانا عبید اللہ سندھی ( م 1944ء) فرماتے ہیں کہ
تحفۃ الہند کے بعد جو دوسری کتاب ہمارے ہاتھ میں آئی وہ مولانا شاہ اسمعیل شہید کی ’’تقویۃ الایمان‘‘ تھی جو اس سوال کا جواب شافی تھی اور جس سے ہم کو معلوم ہوگیا کہ اسلام کی توحید بالکل خالص ہے۔ (مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ،ص:8)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
یہ کتاب اگر پانچ سو برس پہلے لکھی جاتی تو ہندوستانی مسلمان دنیا کے مسلمانوں سے بہت آگے بڑھ جاتا۔ (ایضاً ، ص:29)
مولانا سندھی مرحوم اپنی دوسری کتاب میں فرماتے ہیں کہ
اسلام کے اظہار سے پہلے میں نے شاہ صاحب کی ’’تقویۃ الایمان‘‘ پڑھی تھی چنانچہ رد شرک میں مجھے اس سے بڑا فائدہ پہنچا، بلکہ ایک لحاظ سے یہ کتاب مجھے اسلام میں لانے کا ذریعہ بنی ، غرضیکہ امام محمد اسمعیل ہوئے استاد اور امام ہیں اورمجھے ان سے محبت ہے ایسی محبت جس طرح لوگ اپنے مذہب کے ائمہ سے کرتے ہیں۔(شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک ، ص:75)
مولانا سندھی نے اپنی کتاب’’شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک ‘‘ میں مولانا فتح اللہ مرحوم کے کچھ اشعار تقویۃ الایمان کے بارے میں کچھ اشعار نقل کیئے ہیں جن میں سے پہلے دو شعر درج ذیل ہیں ۔
تھے جو اسمعیل غازی مولوی
علم کے دریا مراتب کے ولی
اک کتاب حق انہوں نے جب لکھی
اس میں تفریق حق وباطل کی ہوئی۔(ایضاً ، ص:75)
تقویۃ الایمان اور اس کی شروح :
تقویۃ الایمان کے ساتھ علمائے کرام نے خاص اعتناء کیا ہے اس کی شرحیں،حواشی لکھے اور اس کے علاوہ اس کی تردید میں اہل بدع نے جو کتابیں لکھیں ، ان کے جوابات میں کتابیں تالیف فرمائیں ، تفصیل درج ذیل ہے:
1 توقیۃ الایقان شرح تقویۃ الایمان از مولانا عبد القہار بن عبد الجبار ساکن گوالیار
2 اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان از مولانا عزیز الدین مراد آبادی (م 1948ء)
3 المنہج السدید فی رد التقلید از مولانا عبد اللہ علوی
4 فیض الرحمان لتائید تقویۃ الایمان از مولانا محمد داؤد راز دہلوی ( م 1402ھ)
تعارف اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان
مولوی نعیم الدین مراد آبادی نے ’’تقویۃ الایمان کی تردید میں‘‘ ’’اطیب البیان‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ، مولانا عزیز الدین مراد آبادی نے اس کا جواب’’اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان‘‘ کے نام سے لکھا، مولانا عزیز الدین نے مولوی نعیم الدین کے تمام اعتراضات کا جواب قرآن وحدیث سےدیا جس کا جواب الجواب آج تک اہل بدع میں کوئی شخص بھی نہیں دےسکا۔
یہ کتاب صرف’’اطیب البیان‘‘ کا رد ہی نہیں بلکہ تقویۃ الایمان کی ایک جامع اور مفصل شرح کی بھی حیثیت رکھتی ہے۔
اکمل البیان مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی( م 1987م ) نے 1965ء میں اپنے اشاعتی ادارہ المکتبہ السلفیہ لاہور کے زیر اہتمام شائع کی اس کا تیسرا ایڈیشن 1998ء میں شائع ہوچکا ہے ، صفحات کی تعداد 928 ہے۔
تذکیر الاخوان :
یہ کتاب’’ردالاشراک‘‘ کے دوسرے باب ’’الاعتصام بالسنۃ والاجتناب عن البدعۃ ‘‘ کا ترجمہ ہے ۔
حضرت شاہ صاحب جہاد میں مصروف ہونے کے باعث اس کا ترجمہ نہ کرسکے چنانچہ یہ ترجمہ آپ کے تلمیذ محمد سلطان نے ’’تذکیر الاخوان بقیۃ تقویۃ الایمان‘‘ کے نام سے کیا۔
اس کتاب میں اتباع سنت کی خوبیاں اور بدعت کی برائیاں اور تفصیل بعض بدعات کی آیت اور حدیث سے ذکر کی ہیں۔ (دیباچہ : تذکیر الاخوان)
تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین :
یہ کتاب عربی زبان میں ہے اس کتاب میں حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی نے متعدد احادیث کے حوالے سے نماز میں رفع الیدین کرنے کا ثبوت بہم پہنچایا ہے اور تقلید وعدم تقلید کے مسئلے پر بھی بحث کی ہے۔
حضرت شاہ اسمعیل شہید نے اس زمانہ میں تصنیف فرمائی جبکہ حضرت شاہ عبد العزیز اور حضرت شاہ عبد القادر حیات تھے۔
حضرت شاہ عبد القادر دہلوی کا سن وفات 1230ھ/ 1815ء ہے ۔
حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی کا سن وفات 1239ھ / 1822ءہے ۔
یقینی طور پر یہ کہاجاسکتاہے کہ تنویر العینین کا حضرت شاہ شہید نے 1230ھ / 1815ء سے قبل تالیف فرمائی اور دونوں بھائیوں کی نظر سے گزری ۔حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا :
خدا کاشکر ہے کہ یہ گھر محققین علم حدیث سے خالی نہیں ہے۔ (اتحاف النبلاء ، ص:44)
چنانچہ حضرت شاہ اسمعیل شہید خود بھی رفع الیدین پر عمل پیرا ہوگئے اور آپ کے ساتھ مولانا شاہ مخصوص اللہ بن شاہ رفیع الدین دہلوی (1273ھ/1857ء) بھی نماز میں رفع الیدین کرنے لگے۔(تذکرئہ شہید، ص:270)
اس کتاب میں تقلید کی تردید،آمین بالجہر اور فاتحہ خلف الامام کی طرف بھی اشارات فرمائے ہیں ، اس لیے مقلدین حضرات کو یہ کتاب بہت ناگوار گزری۔
مقلدین کی طرف سے تنویر العینین کا جواب اور علمائے اہلحدیث کی طرف سے دفاع :
تنویر العینین کی تردید میں پہلی کتاب ایک غالی مقلد مولوی محمد شاہ پاک پٹنی نے لکھی(آپ نے حدیث حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی سے پڑھی تھی) کتاب کا نام ’’تنویر الحق‘‘ رکھا۔
’’تنویر الحق‘‘ کا جواب حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی نے ’’معیار الحق‘‘ کے نام سے دیا۔ اس کا اثر علمی حلقوں پر بڑا شدید ہوا۔ مقلدین تو اس سے بُو کھلا اٹھے اور ان کی نیندیں حرام ہوگئیںچنانچہ ایک اور غالی مقلد عالم دین مولوی ارشاد حسین رام پوری (م 1311ھ) نے’’معیار الحق‘‘ کے جواب میں’’انتصار الحق‘‘ کے نام سے کتاب تالیف کی۔
مصنف انتصار الحق نے یہ دعوی کیا تھا کہ ’’میں نے ایسی لاجواب کتاب معیار الحق کے جواب میں لکھی ہے کہ کوئی غیر مقلد عالم دین میری کتاب انتصار الحق کا جواب لکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گا‘‘۔ لیکن یہ مولوی ارشاد حسین رام پوری کی خام خیال تھی کہ حضرت میاں صاحب دہلوی رحمہ اللہ کے چارتلامذہ نے انتصار الحق کا جواب لکھا۔
پہلا جواب :
مولانا سید امیر حسن سہوانی (م 1291ھ) نے ایک دن میں ’’براہین اثنا عشر‘‘ کے نام سے لکھا، اور اس کی ایک نقل مولانا عبد الحی لکھنوی(م 1304ھ) کو بھیجی مولانا عبد الحی نے ملاحظہ فرمانے کے بعد مولانا امیر حسن کو اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا :
براہین اثنا عشر رسیدہ اغلاط اسامی کتب ومولفین درانتصار لا تعد مستندشاید بنظر اختصار برچند کفایت شدہ ۔ (الحیاۃ بعد المماۃ ، ص:208)
دوسرا جواب :
مولانا سید احمد حسن دہلوی مؤلف تفسیر احسن التفاسیر ( م 1338ھ) بنام ’’تلخیص الانظار فیما بنی علیہ الانتصار‘‘
تیسرا جواب :
مولانا شہود الحق عظیم آبادی بنام ’’البحر الزخار لازھاق صاحب الانتصار‘‘
چوتھا جواب :
مولانا احتشام الدین مراد آبادی مؤلف نصیحۃ الشیعۃ (م 1300ھ) بنام ’’اختیار الحق‘‘
معیار الحق اور انتصار الحق مولانا ابو الکلام آزاد کی نظر میں :
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد (م 1958ء) فرماتے ہیں ۔
مجھ پر معیار الحق کی سنجیدہ اور وزنی بحث کا بہت اثر پڑا اور صاحب ارشاد الحق (انتصار الحق) کا علمی ضعف صاف صاف نظر آگیا۔‘‘ (آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی ، ص:326)
تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین عربی متن مع اردو ترجمہ المکتبہ السلفیہ لاہور سے شائع ہوچکی ہے ۔ اس سے پہلے یہ کتاب کلکتہ اور میرٹھ سے شائع ہوئی۔
استدراک :
حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی سے حضرت سید احمد شہید نے کسب فیض کیا ، تعلیم حاصل کی اور شاگرد ٹھہرے۔
جب حضرت سید احمد شہید نے تحریک جہاد کا آغاز کیا تو حضرت شاہ اسمعیل شہید نے حضرت سید احمد شہید کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کے خدام میں شامل ہوگئے۔
اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ حضرت سید احمدشہید رحمہ اللہ کے مختصر حالات زندگی اور ان کے مجاہدانہ کارناموں پر روشنی ڈالی جائے اور مضمون میں شامل کیا جائے کیونکہ حضرت سید احمد شہید حضرت شاہ اسمعیل شہید کے تلمیذ بھی تھے اور ان کے پیرومرشد۔ (عبد الرشید عراقی)
حضرت سید احمد شہید بریلوی (1201ھ۔1246ھ)
مجاہد کبیر حضرت سید احمد شہید بن سید محمدعرفان صفر 1201ھ / 1786ء میں صوبہ یوپی(اترپردیش) کے شہررائے بریلوی میں پیدا ہوئےان کا تعلق حسنی سادات خاندان سے تھا ، یہ خاندان زہد وورع،تقوی وطہارت،حسن اخلاق، پاکیزگی عمل، صبر وتوکل ، ریاضت وعبادت، شجاعت وبسالت، امانت ودیانت، ذکاوت وعدالت ، ایثار وقربانی ، مروت ودوستی، ثقاہت ، حسن معاملگی، جہاد وغزا، وضعداری ورواداری اور دیگر فضائل ومحاسن میں برصغیر پاک وہند کے نامور خاندانوں میں خاص شہرت رکھتا تھا۔ حضرت سید احمد کا سلسلہ نسب 36 واسطوں سے حضرت امیر المؤمنین ابو الحسن علی رضی اللہ عنہ تک جاپہنچتاہے۔
آپ کی عمر جب چار سال چارماہ اور چاردن کی ہوئی تو آپ کو مکتب میں بٹھایا گیالیکن تین سال تک مسلسل کوشش کے باوجود آپ کی طبیعت حصول علم کی طرف مائل نہ ہوئی۔ اس عرصہ میں صرف قرآن مجید کی چند سورتیں یادکرسکے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت سید احمد کے بڑے بھائی اسحاق بن عرفان بہت پریشان تھے وہ ان کی تعلیم میں کوشاں رہتے لیکن حضرت سید احمد کے والد محترم سید محمد عرفان نے حضرت اسحاق سے فرمایا کہ
سید احمد کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور خدا پر توکل کرو چنانچہ سید اسحاق نے اس طرف سے توجہ ہٹالی اور سید احمد کا سلسلہ تعلیم منقطع ہوگیا۔(نزہۃ الخواطر ، 8/28)
1223ھ میں حضرت سید احمد دہلی تشریف لے گئے اورحضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنا تعارف کرایا۔ حضرت شاہ عبد العزیز نے خوش آمدید کہا اور اپنے برادر اصغر شاہ عبدالقادر دہلوی کے پاس اکبرآبادی مسجد میں بھیج دیا۔ وہاں آپ کے قیام کا انتظام کردیاگیا۔ وہاں آپ نے حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی سے عربی ،فارسی کی بعض کتابیں پڑھیں۔ اسی دورمیں حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی سے بھی استفادہ کیا۔
حضرت شاہ اسمعیل شہید نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث کی زندگی میں حضرت سید احمد کی بیعت کرلی تھی۔ مولانا عبد الحی بڈہانوی پہلے ہی بیعت کرچکے تھے چنانچہ اس کے بعد آپ نے رشد وہدایت کے سلسلے کووسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو فیض پہنچانے کی غرض سے حضرت شاہ اسمعیل اور مولانا عبد الحی کو درس ووعظ کا حکم دیاچنانچہ ان دونوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وعظ وتبلیغ شروع کر دی۔ ان حضرات کی وعظ وتبلیغ سے بے شمار لوگ متأثر ہوئے یہاں تک کہ دور دراز علاقوں سے آپ کو دعوت نامے آنے شروع ہوگئے۔
اس کے بعد حضرت سید احمد نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث کی اجازت سے اپنے مریدان خاص اورعقیدت مندوں کے ساتھ مختلف شہروں کا تبلیغی دورہ کیا اس دورہ میں آپ جس شہر میں بھی تشریف لے گئے وہاں مسلمانوں کو دینی مسائل سے روشناس کرایا۔بدعات ومحدثات اور جاہلانہ رسومات سے اجتناب کی تلقین کی اور مسلمان مردوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت دی۔
محترمہ ڈاکٹر ثریا ڈار مرحومہ لکھتی ہیں کہ
حضرت سید احمد نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث کی اجازت سے اپنے مریدان خاص اور چند عقیدت مندوں کو ساتھ لے کر دہلی سے سہارن پور،میرٹھ،مظفر نگر،دیوبند،گنگوہ،نانوتہ، کاندیلہ،اور لہاری تک کا تبلیغی اور اصلاحی دورہ کیا اس دوران مختلف علاقوں میں مسلمان قوم کو حکومت اسلامیہ کی تاسیس، احیائے اسلامیت اور اغیار کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے آغاز کی دعوت دی، اس دورے میں سینکڑوں خاندان اور ہزاروں عقیدت مندوں نے شرک وبدعت اور غیر شرعی رسوم سے توبہ کی اور آپ کے حلقۂ بیعت میں شامل ہوئے۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات ، ص:216)
اس کے بعد حضرت سید احمد اپنا دورہ ختم کرکے واپس دہلی تشریف لائے تو انہیں اپنے برادر اکبر سید اسحاق بن عرفان کی وفات کی خبر ملی۔آپ خبر سن کر بہت مغموم اور رنجیدہ ہوئے چنانچہ دس سال کے بعد آپ نے اپنے وطن رائے بریلی واپس جانے کا ارادہ کیا چنانچہ آپ ستر اسی(70۔80) افراد کے قافلے کے ہمراہ رام پور، الہ آباد، بنارس،کان پور اور لکھنو میں قیام کرتے ہوئے رائے بریلی پہنچے ۔ان تمام مقامات پر علمائے کرام ، مشائخ، امراء اور رؤساء آپ کی وعظ ونصیحت سے فیض یاب ہوئے اور سعادت بیعت حاصل کی۔
حضرت سید احمد رائے بریلی میں دو سال قیام پذیر رہے اس دو سالہ قیام میں بہت سے اصلاحی وتبلیغی کارنامے انجام دیئے۔بدعات ومحدثات سے اجتناب کی تلقین کی ، پیر پرستی، قبرپرستی،شادی غمی میں ہنداونہ رسوم اور بے جااسراف کو ختم کرنے کی تلقین کی اور اس کے علاوہ شیعہ سنی اختلافات کو ختم کرنے پر زور دیا۔
رائے بریلی میں دو سال قیام کے بعد حضرت سید احمد نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کا پروگرام بنایا چنانچہ آپ یکم شوال 1236ھ / 1820ء کو 400 مردوں اور عورتوں کے قافلے کے ہمراہ حج کے ارادے سے رائے بریلی سے روانہ ہوئے ، سفر کے دوران جس شہر میں قیام کرتے تو بے شمار لوگ آپ کی بیعت کرتے اور کئی لوگ حج کے ارادے سے آپ کے قافلے میں شامل ہوجاتے جب آپ کلکتہ پہنچے تو قافلہ میں مردوں اور عورتوں کی تعداد 800 کے قریب پہنچ چکی تھی۔
28 شعبان 1237ھ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا ۔رمضان کا مہینہ مکہ میں گزرا ، حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد 10 صفر 1238ھ کو مدینہ کے لیے رختِ سفر باندھا۔ 25 دن وہاں قیام کیا ، تاریخی مقامات کی زیارت کی ۔ 26 ربیع الاول کو خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت ہوئی ۔ آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا :
احمد! اب تم کو مکہ چلے جانا چاہیے ، اس لیے کہ سردی سے تمہارے قافلے کو بڑی تکلیف ہورہی ہے۔(مخزن احمدی، ص:106)
چنانچہ 29 ربیع الاول 1239ھ کو آپ کا قافلہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا مکہ پہنچ کر عمرہ وطواف کیا اور 15 شوال کے بعد دیار حبیب کو الوداع کہہ کر تقریباً دو سال گیارہ ماہ بعد 29 شعبان کو1239ھ بخیر وعافیت اپنے وطن رائے بریلی پہنچ گئے۔
حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد رائے بریلی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے اور پنجاب وسرحد کے مسلمانوں کو سکھوں کے ظلم وستم سے بچانے کے لیے جہاد کے لیے سروسامان کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ 1241ھ میں اقامت جہاد کے لیے اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ وطن سے ہجرت کی ۔ راجپوتانہ،سندھ،بلوچستان،افغانستان اور صوبہ سرحد کے کھلے ریگستانوں ، وسیع میدانوں، بلند پہاڑوں اور طوفانی دریاؤں کا سفر طے کیا اور ہر جگہ آپ نے توحید وسنت اور عقائد صحیحہ کی تبلیغ اور غیر شرعی رسومات کی تردید کا فریضہ انجام دیا۔
شہادت :
حضرت سید احمد نے بالاکوٹ میں سکھوں سے بڑی زبردست جنگ کی اس جنگ میں سکھوں کی فوج نے مجاہدین اسلام پر اپنا گھیرا تنگ کر دیا اور حضرت سید احمد اور شاہ اسمعیل اور بہت سے مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا یہ واقعہ 24 ذی قعدہ 1246ھ / 5 مئی 1831ء کو پیش آیا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
سید احمد شہید کی شخصیت :
حضرت سید احمد شہید مجاہد کبیر، شیخ الاسلام ، بہت بڑے روحانی پیشوا، شریں بیان مقرر،خطیب اور مبلغ تھے۔ ان کا حلقہ ارادت بہت وسیع تھا۔ہزاروں لوگ ان کے حلقہ ارادت میں شامل تھے وہ دینی علوم میں غیر معمولی بصیرت رکھتے تھے۔ آپ نے پوری زندگی دین اسلام کی اشاعت اور کتاب وسنت کی پیروی کی تلقین کی اور دوسری طرف شرک وبدعت اور محدثات اور غیر شرعی رسومات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی خوبیوں اورسعادتوں سے نوازا تھا۔ آپ صحیح معنوں میں مرد درویش ، سادہ مزاج،صابر،متوکل،دینی مصلح، جنگجو، اور سیاست کے نشیب وفراز سے خوب آگاہ تھے۔
۔۔۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر یادوں کے سفر میں
علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ کی شہادت کو اگرچہ کئی سال گزر گئے ہیں لیکن یادوں کے جونکوں سے وہ بھلائے نہیں بھولتے۔ خاص طور پر مارچ کا مہینہ جب آتاہے اور پھر 23 مارچ کے دن انکی بھولی بسری یادیں تازہ ہوجاتی ہیں بس ایسے لگتاہے کہ
کہے دیتی ہے شوخی نقش پاکی
ابھی اس راہ سے گیا ہے کوئی
آج 32 سال گزر جانے کے بعد بھی علامہ صاحب کی حسین یادیں زندہ ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ موت ان کے اعلیٰ مقام کو ختم نہیں کر سکی۔
جسم کے مٹ جانے سے جن لوگوں کی یادیں بھی ختم ہوجائیں تو سمجھو کہ وہ کھوکھلے لوگ تھے۔اس دنیا کے اسٹیج پر کوئی ان کا کردار نہ تھا۔ علامہ صاحب سیالکوٹ کے اس مردم خیز خطہ سے تعلق رکھتے تھے جس کی زمین تاریخی اعتبار سے ایک مردم خیز خطہ ہے ہر دور میں سرزمین سیالکوٹ سے علماء، خطباء، ادباء، شعراء، مصنفین، مؤلفین،متکلمین مردان کار اور نابغائے عصر شخصیتیں اٹھتی رہی ہیں ۔سرزمین سیالکوٹ کی عبقریت ہمیشہ مسلم رہی ہے۔سیالکوٹ کی عظمت کے لیے اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتاہے کہ عبقری زماں، نابغۂ عصر شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم اسی مادری گیتی سیالکوٹ کے وہ مایہ ناز سپوت تھے کہ جن کی تخلیق ووجود کے لیے لیل ونہار ہزاروں نہیں ، لاکھوں گردشیں کرتے ہیں اور ہزاروں سال آسمان جن کے وجود کے لیے مضطرب وبےقرار رہتاہے ۔ بجا فرمایا شاعر مشرق علامہ اقبال نے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ وار پیدا
علامہ شہید کی کونسی عظمت کا ذکر کیا جائے وہ ہمہ اوصاف قسم کے غیر معمولی انسان تھے۔ علماء میںایک ثقہ عالم دین، خطیبوں میں بلند پایہ خطیب، ادیبوں میں نامور ادیب،سیاست دانوں میں ایک منجھے ہوئے سیاستدان، قائدین اور راہنماؤں میں ایک مدبر قائد ومفکر جیسی گوناگوں صفات سے پہچانے جاتے تھے۔ ملک کا کونسا چھوٹا بڑا شہر ہے جو ان کی شعلہ نوا خطابت سے نہ گونج گیا ہو بلکہ یورپ اورمشرق وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں ان کی خطابت کے ڈنکے بجتے رہے۔
تحریک جمہوریت ہو،تحریک ختم نبوت،تحریک مصطفیٰ ﷺ ہو یا یک جہتی اور اتحاد ملی کی کوئی تحریک ، علامہ صاحب ان سب کے روحِ رواں ہی نہیں بلکہ ہر اول دستے کے طور پر متحرک دیکھے جاتے تھے۔
وہ اپنے رفقاء واحباب کے دل وجان سے ہمدرد اور سچے خیرخواہ نظر آتے۔ طلباء دین اور نوخیز نوجوان علماء کی دلجوئی وحوصلہ افزائی ایک مشفق استاد کی طرح کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں متناسب قدوقامت کے ساتھ جسمانی صحت وتوانائی اور بڑے رعب ودبدبے سے نوازا تھا۔ عام وخاص مجالس ہوں یا عظیم اجتماعات ان کی شخصیت اور گفتگو وکلام کا بانکپن انتہائی دلربا ہوتا۔ حق گوئی وبیباکی انکا طرئہ امتیاز تھا۔ گویا وہ اس شعر کے آئینہ وعکس تھے :
ہر حال میں حق بات کا اظہار کریں گے
منبر نہیں ہوگا تو سر دار کریں گے
مایوسی یا افسردگی علامہ صاحب کی لغت میں تھی ہی نہیں۔ کسی معاملہ میں جب وہ عزم کر لیتے تو کٹھن راہوں یا قید وبند کی صعوبتوں کی ہرگز پرواہ نہ کرتے۔
فقہی مصلحت کو وہ کسی طرح خاطر میں نہ لاتے۔ساتھیوں کو علم وفضل سے بہرہ ور لوگوں کو ہمیشہ خوددادی وعزیمت کی نصیحتیں کرتے ، صاحب ثروت اور امراء کی عزت کرتے مگر علماء وفقراء پر انہیں کبھی ترجیح نہ دیتے۔
ذیلی سطور میں علامہ صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ مختصر معلومات لکھی جاتی ہیں۔
ولادت :
علامہ احسان 31 مئی 1945ء بمطابق 18 جمادی الاول بروز جمعرات سیالکوٹ کے محلہ احمد پورہ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد حاجی ظہور الٰہی امام العصر حضرت مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کےعقیدت مندوں میں سے تھے۔آپ تمام بہن بھائیوں میں بڑے تھے۔
تعلیم وتربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کے پرائمری اسکول میں حاصل کی اسی دوران ابھی آپ کی عمر ساڑھے سات برس ہی تھی کہ آپ کو اونچی مسجد میں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے بھیجاگیا آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ خداداد ذہانت وفطانت اور اپنے ذوق وشوق کی بنا پر نوبرس کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا اور اسی سال نماز تراویح میں آپ نے قرآن سنا بھی دیا۔ابتدائی دینی تعلیم دار السلام سے حاصل کیااس کے بعد محدث العصر فضیلۃ الشیخ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے مدرسہ جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ چلے گئے اور کتب حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لیا جہاں علوم وفنون عقلیہ کے ماہر فضیلۃ الشیخ مولانا شریف سواتی رحمہ اللہ سے آپ نے معقولات کا درس لیا۔
1960ء میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں بی اے اونرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحان پاس کیا۔ 1960 میں ایم اے فارسی اور 1961ء میں اردو کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے ملت اسلامیہ کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ اس وقت مدینہ یونیورسٹی میں دوسرے پاکستانی طالب علم تھے ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں 98 ممالک کے طلباء زیر تعلیم تھے۔
اساتذہ کرام :
آپ نے تاریخ کے نامور اور وقت کے ممتاز علماء سے کسب علم حاصل کیا۔ ان میں سرفہرست
1فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین الالبانی
2فضیلۃ الشیخ محمد امین شنقیطی
3فضیلۃ الشیخ عطیہ محمد سالم (قاضی مدینہ منورہ)
4علامہ عبد العزیز بن الباز (رئیس ادارۃ البحوث الاسلامیہ)
5فضیلۃ الشیخ علامہ عبد المحسن العباد وغیرہ شامل ہیں۔
علمی اعزاز :
مدینہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم علامہ صاحب کی کتاب’’القادیانیہ‘‘ کے نام سے وہاں ایک ادارہ نے شائع کر دی ابھی ٹائٹل کی اشاعت وطباعت باقی تھی ۔ علامہ صاحب ابھی تک فائنل امتحان سے فارغ نہیں ہوئے تھے وہ کتاب پر’’الاستاذ احسان الٰہی ظہیر‘‘ فاضل مدینہ یونیورسٹی لکھنا چاہتے تھے تو علامہ صاحب فرمانے لگے میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا۔ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تووائس چانسلر صاحب سے اس کی اجازت لے لیں چنانچہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ناشر کو اجازت دے دی۔ علامہ صاحب نے شیخ صاحب سے عرض کیا :
’’ شیخ صاحب! آپ نے اسے اجازت مرحمت فرمادی لیکن فیل ہوگیا تو کیا بنے گا؟ ‘‘ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا :|||’’ اگر تم امتحان میں فیل ہوگئے تو میں یونیورسٹی میں اپنا عہدہ چھوڑ دوں گا۔‘‘
بحمد اللہ تعالیٰ شیخ ابن باز کی عین تمنا کے مطابق علامہ صاحب امتحان میں 98 ممالک کے طلباء میں اول پوزیشن حاصل کی آپ نے 93 فیصد نمبر حاصل کیئے۔
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ
مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد آپ کو یونیورسٹی میں منصب تحقیق وتدریس پیش کیاگیا لیکن آپ نے اپنے وطن کی خدمت کو ترجیح دی۔شاید ذمہ داران جامعہ نے اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی۔انہیں اس بات کا غالباً پوری طرح ادراک نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کا یہ آزاد شیر کبھی پنجرے میں بند ہونے کوگوارہ نہیں کرے گا۔ شاید ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر پوری طرح صادق آرہا تھا۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
تصنیفات :
زمانۂ تعلیم ہی سے تصنیف وتالیف کا کام شروع کر دیا تھا، کم وبیش بیس ضخیم کتابیں تالیف کیں۔ اس کے علاوہ بے شمار مقالات ومضامین لکھے ان کی آخری کتاب شہید ہونے سے 8 گھنٹے قبل مکمل ہوئی تھی آپ کیچند اہم کتابوں کےنام درج ذیل ہیں :
1 القادیانیۃ دراسات وتحلیل (عربی)
2التصوف (عربی)
3 مرزائیت اور اسلام ( اردو)
4البابیۃ عرض ونقد (عربی)
5 البھائیۃ نقد وتحیل (عربی)
6الشیعۃ والسنۃ (عربی)
7الشیعۃ والقرآن (عربی)
8البریلویۃ عقائد وتاریخ (عربی)
9 الاسماعیلیۃ (عربی)
0 الشیعۃ وأھل بیت (عربی)
ان میں سے اکثر کتب کے دس سے زیادہ ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
دنیا کی کوئی کئی زندہ زبانوں میں ان کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں ۔
’’الشیعہ والسنہ‘‘ کے صرف انڈونیشی زبان میں تین ترجمے ہوئے ہیں جن میں ایک پر ’’پیش لفظ‘‘ انڈونیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر محمد ناصر نے لکھا ہے۔
صحافت :
میدان صحافت میں آپ طویل عرصہ رہے اورمختلف اوقات میں ’’ہفت روزہ الاعتصام‘‘ ، ’’ ہفت روزہ اہل حدیث‘‘ ، ’’ہفت روزہ الاسلام‘‘ کے مدیر رہے۔ پھر اپنا ذاتی ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ نکالا جس کے تاحیات مدیر رہے۔
خطابت :
یہ آپ کا مخصوص ومحبوب ترین میدان تھا۔ آپ کی شعلہ بیانی اور اثر آفرینی کا ایک زمانہ قائل ہے۔ پاکستان کے ایک نامور ادیب صحابی وخطیب آغا شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ختم نبوت میں علاصہ صاحب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے : ’’ علامہ صاحب ایک شعلہ بیان خطیب، معجز رقم ادیب، بالغ نظر صحافی اور بہت سی زبانوں میں مہارت تامہ رکھنے کے باوجود دوررس نگاہ کے عالمِ متبحر ہیں۔‘‘
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا
وفات :
بے اعتبار شخص تھا، سووار کرگیا، لیکن میرے شعور کو بیدار کر گیا، کچھ وہ شکایتیں سر بازار کر گیا، پہلے وہ میری ذات کی تعمیر میں رہا ، پھر مجھ کو اپنے ہاتھ سے مسمار کر گیا، وہ آملا تو فاصلے کٹتے چلے گئے ، بچھڑا تو راستے میرے دشوار کر گیا ، بچھڑا کچھ ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ، اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا۔
زندگی اس دنیا میں آنے کا نام ہے اور موت اس دنیا سے رخصت ہونے کا نام ہے ۔ قانون الٰہی ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے اِس دنیا سے واپس ضرور جانا ہے اور وہ وقت کب آجائے کوئی نہیں جانتا۔رب العالمین نے اس موت وحیات کے قانون کا مقصد سورت ’’ملک‘‘ میں بیان فرمایا :
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الملك: 2)
کامیاب وہی شخص ہوگا جو اپنی زندگی کو مقصد الٰہی کے مطابق اس کے تابع ہوکر گزارے اور موت کے وقت عندیہ مل جائے۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: 27 - 30)
اور اس موت کا کیا کہنا کہ جس موت سے حیاۃابدی مل جائے اور رب العالمین اعلان فرمادیں :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران: 169)
تاریخ میں ایسے ولی کامل بہت کم گزرے ہیں جنہوں نے رب سے اپنی موت مانگی اور رب نے ان کا خاتمہ ان کی مرضی ومنشا کے مطابق فرمادیا۔
ایسی ہی ایک ہستی،سرخیل مسلک اہل حدیث کی ممتاز شخصیت عظیم سیاسی لیڈر، اسلام کے بے باک سپاہی شہید ملت اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر کی ذات ہے جنہوں نے اپنی تقاریر میں متعدد بار رب سے شہادت کی دعا مانگی اور بالآخر 23 مارچ 1987ء کو قلعہ لچھمن سنگھ لاہور میں ایک عظیم الشان سیرت النبی ﷺ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے بم دھماکے میں علامہ صاحب شدید زخمی ہوگئے اور اسی حالت میں پانچ دن تک ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے۔
29 مارچ کو پونے پانچ بجے سعودی ائیر لائن کی پرواز کے ذریعہ شاہ فہد رحمہ اللہ کی دعوت پر سعودی عرب علاج کے لیے روانہ ہوئے آپ کو فیصل ملٹری ہسپتال میں داخل کیاگیا۔سعودی عرب کے ڈاکٹروں نے اور حکمرانوں نے علامہ صاحب کے علاج ومعالجہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔
واہ حسرتاہ ! امام العصر کا یہ ساختہ وپرداختہ خلوص وللہیت کا یہ مسجمہ علم وآگہی کا یہ سراپا، دین ودانش کا یہ مرقع 30 مارچ 1987ء میں لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر رفیق اعلی سے جا ملا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے
آہ ! زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے ۔
یہ جانکاہ ! خبر اسلامیانِ عالم کے دلوں پر بجلی بن کر گری اور کچھ دیر کے لیے پورے ماحول پر سکون طاری ہوگیا ، گھڑیاں رک گئیں، وقت ٹھہر گیا اور جو جہاں تھا وہیں اس اندوہ ناک خبر کے زیراثر حزن وغم کے اتہاہ سمندر میں ڈوب گیا۔
تدفین :
دوسرے دن شیر الٰہی کی لاش سعودی عرب کے ایک فوجی جہاز کے ذریعہ ریاض سے مدینہ منورہ بھیج دی گئی ان کے ساتھ ان کے اخوان واحباب اور شیدائیوں کی ایک جماعت بھی گئی۔
سعودی عرب کے اطراف واکناف سے علامہ صاحب رحمہ اللہ کے ہزاروں چاہنے والے مسجد نبوی میں ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور ان کے جسد خاکی کو ان کے سینکڑوں شیدائیوں کی معیت میں جنت البقیع لے جایاگیا اور انہیں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیاگیا ۔
کس مٹی کا کس سے رشتہ ہے معلوم تو ہو
کتبوں پر لکھوا دینا یہ لوگ کہاں سے آئے تھے
رحمہ اللہ رحمۃ الأبرار وغفر لہ وأدخلہ فسیح جناتہ