مولانا حفیظ اللہ(بندی اعظمی)
شمس العلماء مولانا حفیظ اللہ کی کنیت ابو الفضل تھی، نومبر 1847ء مطابق 1264ھ ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ بندی گھاٹ میں پیدا ہوئے، تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ قرآن مجید اور فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد محترم سے پڑھیں اس کے بعد ان کے والد محترم نے مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں داخل کرادیا وہاں آپ نے فارسی وعربی اور درسی نصاب کی کتابیں مولانا احمد حسین رسول پوری اور محدث دوراں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری اور دیگر اساتذہ سے پڑھیں۔ مدرسہ چشمہ رحمت سے فراغت کے بعد مولانا حفیظ اللہ بنارس تشریف لے گئے اور مولانا سلامت اللہ جیراج پوری سے بعض علوم میں استفادہ کیا ، بنارس سے فراغت کے بعد آپ لکھنو تشریف لائے اور مولانا ابو الحسنات محمد عبد الحی لکھنوی سے کتب عربیہ معقول ومنقول فروع واصول مع احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں تکمیل کی ۔ لکھنو میں آپ کا قیام پانچ سال رہا، اس کے بعد مولانا حفیظ اللہ نے دہلی کا سفر کیا اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے صحاح ستہ کی سند واجازت حاصل کی۔
فراغت کے بعد
فراغت کے بعد درس وتدریس کا مشغلہ اختیار فرمایا آپ نے اپنی زندگی میں جن دینی مدارس میں درس وتدریس کی خدمت انجام دی، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1 مدرسہ کاکوری
2 مدرسہ مولانا عبد الحی لکھنوی( اس مدرسہ میں بیرونی طلباء کے علاوہ مولانا عبد الحی لکھنوی کے داماد مولانا محمد یوسف نے بھی آپ سے استفادہ کیا)
3 مدرسہ عالیہ رام پور ( مدرس اول کے منصب پر فائز ہوئے اور پورے 9 سال تک متواتر تدریس فرمائی۔
4ندوۃ العلماء لکھنو ( 1316ھ مطابق 1898ء ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا تو آپ کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں مدرس اول(پرنسپل) کے منصب پر فائزکیاگیا اور گیارہ برس تک 1909ء تک ندوۃ العلماء میں تدریس فرمائی۔
5 ڈھاکہ یونیورسٹی 1909ء میں حکومت انگلیشہ قائم ہوئی تو مولانا حفیظ کو یونیورسٹی کا پروفیسر بنایاگیا اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں آپ نے 12 سال یعنی 1921ء تک تدریسی خدمات انجام دیں اور ریٹائر ہوگئے۔
6(دوبارہ ندوۃ العلماء میں) ریٹائر منٹ کے بعد حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ، حج سے واپسی کے بعد دوبارہ ندوۃ العلماء میں تشریف لائے اور تدریس پر مامور ہوئے اور دس سال تک تدریس فرمانے کے بعد ضعف بصر کی وجہ سے دار العلوم کو الوداع کہا اور اپنے وطن بندی گھاٹ میں اقامت اختیار کر لی۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص: 395تا 398۔ تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ، ص:76۔78)
تلامذہ
مولاناحفیظ اللہ کی تدریسی عمر نصف صدی کے قریب ہے۔
اور ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے تاہم ان کے مشہور تلامذہ یہ ہیں :
علامہ سید سلیمان ندوی(م 1953ء) ، مولانا عبد السلام ندوی (م 1956ء) مولانا شبلی جیراج پوری (1364ھ) مولانا مسعود علی ندوی( م 1967ء) مولانا رئیس احمد جعفری ندوی ( م 1968ء) (تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، ص:78)
تصانیف :
تصانیف میں ’’کنز البرکات لمولانا ابی الحسنات‘‘ (عربی) مولانا محمد عبد الحی رحمہ اللہ کی سوانح حیات (مطبوع) اور حواشی تصریح الافلاک (مطبوع) (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:398)
وفات :
مولانا حفیظ اللہ نے ذوالحجہ 1362ھ/دسمبر 1943ء میں اپنے وطن بندی گھاٹ میں رحلت فرمائی۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
مولانا حفیظ اللہ علامہ سید سلیمان ندوی کی نظر میں
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ مولانا حفیظ اللہ کے شاگرد تھے ۔ سید صاحب نے مولانا حفیظ اللہ کے حالات اپنی دو کتابوں میں لکھے ہیں :حیات شبلی اور یادرفتگان
حیات شبلی پہلی بار 1943ء میں معارف پریس اعظم گڑھ سے شائع ہوئی، اس وقت مولانا حفیظ اللہ حیات تھے۔ مولانا حفیظ اللہ کا سانحہ وفات دسمبر 1943ء میں پیش آیا تو سید صاحب نے معارف اعظم گڑھ (محرم 1363ھ/جنوری 1944ء) میں ماتمی مضمون لکھا جو بعد میں ان کی کتاب یادرفتگان میں شائع ہوا۔
حیات شبلی کی اشاعت کے وقت مولانا حفیظ اللہ حیات تھے۔
مولانا حفیظ اللہ حیات شبلی میں
سید صاحب فرماتے ہیں کہ
مولانا حفیظ اللہ 1856ء کے آخر میں پیدا ہوئے مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور اور مولانا سلامت اللہ جیراج پوری ( م 1322ھ/1904ء) مقیم بنارس سے عربی کی اعلیٰ کتابیں پڑھیں پھر مولانا محمد عبد الحی فرنگی محلی سے معقولات اور ریاضیات میں خاص طور سے کمال پیدا کیا۔ فراغت کے بعد مولانا عبد الحی کی سفارش پر مدرسہ عالیہ رام پور میں مدرس اول مقرر ہوئے۔ رام پور کے دورانِ قیام مولوی عبد الحق سے ان کے مناظرے رہے ، زمانہ قیام رام پور میں منشی امیر احمد مینائی سے خاص تعلقات پیدا ہوگئے تھے ۔ رام پور میں ان کا قیام دس برس رہا۔ دار العلوم ندوہ العلماء کے قیام کے بعد وہ دار العلوم میں صدر مدرس مقر رہوئے اور 1908ء تک وہ برابر اس عہدہ پر قائم رہے اس کے بعد وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں مدرس عربی مقرر ہوئے اور شمس العلماء کے خطاب سے مخاطب ہوئے۔1921ء میں وہاں سے پنشن پاکر حجاز گئے اور فریضۂ حج ادا کیا اور واپسی پر لوگوں کے اصرار سے پھر دار العلوم ندوہ کی صدر مدرسی قبول کی اور کئی سال تک مفوضہ خدمت انجام دے کر وطن واپس آئےجہاں اب تک بحمد اللہ صحیح وسالم ہیں۔
مولانا عبد الحی صاحب مرحوم کی شاگردی کے باوجود آخر عمر میں وہ عامل بالحدیث سے گئے ہیں۔(حیات شبلی،ص:174۔175)
سید صاحب نے مولانا حفیظ اللہ کی وفات پر جو تعزیتی مضمون اپنے رسالہ معارف گڑھ میں لکھا ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت مولانا ابو الحسنات عبد الحی صاحب فرنگی محلی کی آخری یادگار مٹ گئی یعنی ان کے آخری شاگرد مولانا محمد حفیظ اللہ صاحب جو ان کی مجلس درس کی اکیلی یادگار تھے۔ 1362ھ کے خاتمہ ماہ میں وفات پاگئے۔
ابتدائی کتابیں اپنے گھر میں پڑھ کر مولانا سلامت اللہ جیراج پوری(والد حافظ اسلم جیراج پوری) مقیم بنارس سے استفادہ کیا ، فراغت تعلیم کے بعد کچھ عرصہ کا کوری کے مدرسہ میں تدریس فرمائی پھر مدرسہ عالیہ رام پور میں مدرس مقرر ہوئے۔
رام پور سے وہ لکھنو آئے اور دار العلوم ندوہ کے افتتاح کے وقت 1317ھ میں وہ اس کے مہتمم اور مدرس اول مقرر ہوئے جس پر وہ 1908ء تک فائز رہے ۔اسی زمانہ میں ان سے مدرسہ دار العلوم میں معقولات ومنقولات کی کتابیں پڑھیں۔
مولانا شبلی مرحوم کے وہ معاصر تھے، اس لیے جب صحبت ہوتی تو دونوں میں خوب نوک جھونک ہوتی ، گفتگو کا موضوع کوئی فلسفہ کا مسئلہ یا عقل ونقل کی تطبیق کی معرکہ آرائی ہوتی۔
دار العلوم سے وہ 1908ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں گئے۔1921ء میں وہاں سے پنشن یاب ہوئے۔ اسی سال وہ حج کو گئے اور وہاں سے واپس آکر لوگوں کے اصرار پر دوبارہ ندوہ کی صدرمدرسی قبول کی اور کئی سال تک یہ خدمت انجام دینے کے بعد 1930ء میں ندوہ سے الگ ہوکر وطن واپس آگئے تھے اور یہیں 7 ذی الحجہ 1362ھ کو وفات پائی۔
مولانا عبد الحی مرحوم کی شاگردی کے بعد مرحوم آخر میں عامل بالحدیث ہوگئے تھے، عدم تقلید کا میلان پہلے سے رکھتے تھے جو شاید مولوی سلامت اللہ صاحب کی ابتدائی صحبت کا اثر رہا ہو۔
وفات کے وقت عمر تقریباً 87۔88 سال تھی۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت ومغفرت سے سرفراز فرمائے۔ (یادرفتگان ، ص:273تا275)
مولانا حفیظ اللہ سید رئیس احمد جعفری ندوی کی نظر میں :
مضمون کا عنوان ہے ’’مولانا حفیظ اللہ ‘‘
افسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہی۔
دار العلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم تھے،شمس العلماء کے خطاب سے مخاطب،دور اندیش،درازقد،مذہب اہل حدیث پر عامل تھے لیکن ملک کے سب سے بڑے حنفی عالم مولانا عبد الحی فرنگی محلی کے شاگرد تھے، استاد کے مسلک سے متفق نہیں تھے ، لیکن عظمت کے قائل تھے۔
میں نے جب انہیں دیکھا تو عمر تقریباً 80 سال کی تھی لیکن کلّے ٹھلے سے معلوم ہوتا تھا،نام خدا ابھی جوان ہیں اگر یہ خضاب لگاتے ہوتے تو ان کی عمر کا صحیح اندازہ کسی کو نہیں ہوسکتا تھا ممکن تھا یہ خود بھی مغالطہ میں گرفتار ہوجاتے ، نماز کے بڑے سختی سے پابند تھے۔ دسمبر اور جنوری کی سردی میں ٹھنڈے پانی سے فجر کا وضو کرتے تھے اور اول وقت میں یعنی بالکل غلس میں اذان دیتے تھے پھر نماز پڑھاتے تھے ان کی فجر کی نماز میں تراویح کا سلف آجاتا تھا تقریباً ایک پارہ ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ جو لوگ ان کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے ان کے لیے ضروری تھا کہ نماز فجر میں ان کا ساتھ دیں لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہے جب یہ نماز شروع کرتے تھے تو مشکل سے دو تین آدمی ان کے ساتھ نیت باندھتے تھے لیکن جب یہ سلام پھیرتے تھے تو پوری صف موجود ملتی تھی۔ لوگ ان کی نماز کی طوالت سے واقف تھے ، انہوں نے اندازہ کر لیا تھا کہ کب یہ دوسری رکعت کے رکوع میں جانے کے قریب ہوتے ہیں بس اسی وقت وضو یا تیمم کرکے جیسا موقع ہواشریک جماعت ہوجاتے تھے ایک رکعت کی قضا،ایک ادا، مولانا سجدہ اتنا طویل کرتے تھے کہ بعض لوگ ایک نیند اطمینان سے کرلیتے تھے۔ اکثر یہ تماشہ دیکھنے میں آتا تھا کہ یہ اپنے طویل سجدہ سے فارغ ہوکر بیٹھے لیکن بعض مقتدی بدستور سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں ، نماز کے بعد جب وہ جگائے جاتے تھے تب ان کا سجدہ ختم ہوتا تھا۔
مجھ پر مہربان بھی رہتے تھے اور خفا بھی بہت ہوتے تھے ، مہربان تھے میرے خاندان کی وجہ سے اور خفا رہتے تھے میری شرارتوں سے۔ مولانا عبد الحق خیرآبادی منطق اور فلسفہ کے امام تھے ، اب تک ان کی کتابیں مدارس عربیہ کے نصاب میں شامل ہیں، یہ مولانا عبد الحق کو اپنا مدّ مقابل سمجھتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ خواہ مخواہ تنقیص پر اُتر آتے تھے۔ میں سنتے سنتے کہہ اٹھتا:
مولانا عبد الحق جیسا فضل وکمال کا شخص نہ اب تک ہوا ہے ، نہ آئندہ پیدا ہوگا۔
بس پھر مولانا کس کی سنتے ہیں ، آگیا جلال دو چار کڑوی کسیلی باتیں مجھے سنائیں ، کچھ دیر مولانا عبد الحق پر برسے پھر اپنے تاریخی مناظروں کے قصے سنانے لگتے۔ گھنٹہ بجا اور میرا مقصد حل ہوگیا یعنی درس نذر داستاں، کبھی کبھی میری اس چالاکی کو سمجھ جاتے تھے لیکن اکثر اسیر دام ہوجاتے تھے۔
علامہ شبلی مرحوم سے ان کی زندگی ہی میں چشمک رکھتے تھے ، چشمک کا سلسلہ علامہ کی وفات کے باوجود اب تک قائم تھا، انہیں جاہل مطلق سمجھتے تھے جب میں ان کی زیادہ تعریف کرتا تو فرماتے ۔
اگر میں کسی زمین پر پیشاب کردوںو اور وہاں گھاس اُگ آئے اور اس گھاس کو کوئی گدھا چرجائے تو وہ آپ کے علامہ شبلی کو کم از کم ایک صدی تک درس دے گا۔
علم وفضل کو جانے دیجیے ۔ مولانا شبلی کی اُردودانی، انشاپردازی اورمہارت تحریر کے بھی قائل نہیں تھے ان کی نظر میں مولانا شبلی سے بڑھ کر ’’کور ذوق اور ناواقف ادب‘‘ کوئی نہیں تھا۔شعر العجم مہمل،موازنہ انیس ودبیر مہمل نثر اور پھر انیس ودبیر اور فارسی شعراء کے شعر پر شعر سنانا شروع کردیتے اور فرماتے۔
جو شخص ایسے اشعار ابدار کو نظر انداز کرجائے وہ ادیب ہے اور واقعی مولانا شبلی کی ضد میں انہوں نے دیوان کے دیوان زبانی یاد کر لیے تھے۔
ہاضمہ آخر عمر تک بہت اچھا بلکہ رشک رہا لیکن قوت حافظہ کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی تھی، مثلاً کتاب کا صفحہ 50 پڑھا رہے ہیں ، ہوا چلی اور آپ کی نظرکے سامنے 73واں صفحہ ہے۔ وہاں سے درس شروع کردیں گے ۔ اب لاکھ سر پٹخیےسبق یہاں سے نہیں ہے وہا ں ہے مگر یہ ہرگز نہیں مانیں گے ، زیادہ اصرار کیجیے تو کتاب ہند کرکے اٹھ کھڑے ہوں گے اور درجہ سے واپس دفتر چلے جائیں گے کہ
تم لوگ اس قابل نہیں کہ تمہیں پڑھایا جائے ، نالائق، بدشوق،کم ذوق،بے سواد
بڑھاپے کے باوجود چھ گھنٹے ڈٹ کرکرسی پر بیٹھتے تھے کیا مجال جو کمر میں کہیں خم نظر آجائے۔ معلوم ہوتا تھا کرسی پر مولانا حفیظ اللہ نہیں پیٹھ میں نیزہ گڑا ہوا ہے۔
نماز کے بعد برطانیہ کے تباہ وبرباد ہونے کی دعاضرور مانگتے تھے اور فجر کی نماز کے بعد خاص طور پر ، لیکن’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب طلباء اور معتقدین کے اصرار کے باوجود واپس نہیں کیا۔
بہت بڑے عالم تھے ، علوم اسلامیہ پر گہری نظر تھی ۔ حدیث،اصول حدیث،منطق،فلسفہ اور ہیئت کے تو گویا امام تھے لیکن جبّہ اور عمامہ سے کبھی شوق نہیں فرمایا۔ تنگ مہری کا پاجامہ اور اس پر شیروانی لیکن پاجامہ ٹخنے سے اوپر رہتا تھا اس سے لوگ پہنچانتے تھے ۔ یہ اہلحدیث ہیں۔
تقریباً سو (100) سال کی عمر پائی۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ (ٹام راج سے رام راج تک ، ص:246تا 249)
مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری
شیخ الاسلام امام المناظرین، رأس المبلغین، عمدۃ الواعظین، سلطان القلم،رئیس التحریر،مفسر قرآن،فاتح قادیان،سردار اہلحدیث،شیرپنجاب،مفتی اہلحدیث، صاحب تصانیف کثیرہ ومؤلفات شہیرہ،تحریک آزادی کے میر کارواں،علم وفن کے امام، بلند پایہ مفکر ومدبر، دانائے راز،سحر بیان خطیب ومقرر اور بے مثال اور نڈر مبلغ،میدان سیاست کے شہسوار،دیدہ وری اور نکتہ رسی میں بے مثال، آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس اور انجمن اہلحدیث پنجاب کے پہلے ناظم اعلیٰ کی ذات بابرکات تعارف کی محتاج نہیں۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے مولانا ثناء اللہ امرتسری سے خصوصی تعلقات تھے۔
مولانا ابو علی اثری مرحوم لکھتے ہیں کہ
سید صاحب کو ڈاکٹر سر محمد اقبال کی وفات کے بعد لاہور جانے کا اتفاق ہوا ، مولانا ثناء اللہ صاحب کو اس کی خبر ہوئی تو پیغام بھیجا کہ بغیر ان کے ملے ہوئے واپس نہ جائیں گے چنانچہ وہ واپسی پر امرتسر اُترے اور دودن ان کی خدمت میں رہے۔(سید سلیمان ندوی، ص:208)
سید صاحب نے اپنے تعزیتی مضمون جو معارف اعظم گڑھ مئی 1948ء میں شائع ہوا لکھا کہ
ڈاکٹر اقبال کی وفات کے بعد میرا لاہور جانا ہوا اور ان کو خبر ہوئی تو پیغام بھیجا کہ واپسی پر ان سے ملے بغیر نہ جاؤں چنانچہ واپسی میں امرتسر اُترا اور ان کے پاس دو دن ٹھہرا۔ (یادرفتگان ،ص:372)
سید صاحب اپنے تعزیتی میں لکھتے ہیں کہ
مولانا ثناء اللہ ہندوستان کے مشاہیر علماء میں تھے، فن مناظرہ کے امام تھے ، خوش بیان مقرر تھے۔ متعدد تصانیف کے مصنف تھے۔ مذہباً اہلحدیث تھے اور اخبار اہلحدیث کے ایڈیٹر تھے ۔ قومی سیاسیات کی مجلسوں میں کبھی کبھی شریک ہوتے تھے۔
مرحوم ندوہ کے رکن بھی اکثر رہے بلکہ خود ان کے بقول ندوہ کان پور میں ان کی دستار بندی کے جلسہ میں پیداہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوؤں سے پنجاب میں فتنہ پیدا ہوگیا تھا انہوں نے مرزا کے خلاف صف آرائی کی اور اس وقت سے لے کر آخر دم تک اس تحریک اور اس کے امام کی تردید میں پوری قوت صرف کر دی یہاں تک کہ طرفین میں مباہلہ بھی ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صادق کے سامنے کاذب نے وفات پائی۔ (صادق( مولانا ثناء اللہ امرتسری(تاریخ وفات 15 مارچ 1948/ کاذب (مرزا غلام احمد قادیانی (تاریخ وفات25 مئی 1908ء)
اس کے بعد سید صاحب لکھتے ہیں کہ
اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا اس کے حملے کو روکنے کے لیے ان کا قلم شمشیر بے نیام ہوتا تھا اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کر دی۔
فجراہ اللہ عن الاسلام خیر الجزاء
مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے ، زبان اور قلم سے اسلام پر جس نے بھی زبان کھولی اور حملہ کیا اس کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ وہی ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات ومراتب عطا فرمائے۔ (معارف مئی 1948ء ، یادرفتگان ، ص:270۔272) (جاری ہے)
(آخری قسط)
مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری
شیخ الاسلام امام المناظرین، رأس المبلغین، عمدۃ الواعظین، سلطان القلم،رئیس التحریر،مفسر قرآن،فاتح قادیان،سردار اہلحدیث،شیرپنجاب،مفتی اہلحدیث، صاحب تصانیف کثیرہ ومؤلفات شہیرہ،تحریک آزادی کے میر کارواں،علم وفن کے امام، بلند پایہ مفکر ومدبر، دانائے راز،سحر بیان خطیب ومقرر اور بے مثال اور نڈر مبلغ،میدان سیاست کے شہسوار،دیدہ وری اور نکتہ رسی میں بے مثال، آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس اور انجمن اہلحدیث پنجاب کے پہلے ناظم اعلیٰ کی ذات بابرکات تعارف کی محتاج نہیں۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے مولانا ثناء اللہ امرتسری سے خصوصی تعلقات تھے۔
مولانا ابو علی اثری مرحوم لکھتے ہیں کہ
سید صاحب کو ڈاکٹر سر محمد اقبال کی وفات کے بعد لاہور جانے کا اتفاق ہوا ، مولانا ثناء اللہ صاحب کو اس کی خبر ہوئی تو پیغام بھیجا کہ بغیر ان کے ملے ہوئے واپس نہ جائیں گے چنانچہ وہ واپسی پر امرتسر اُترے اور دودن ان کی خدمت میں رہے۔(سید سلیمان ندوی، ص:208)
سید صاحب نے اپنے تعزیتی مضمون جو معارف اعظم گڑھ مئی 1948ء میں شائع ہوا لکھا کہ
ڈاکٹر اقبال کی وفات کے بعد میرا لاہور جانا ہوا اور ان کو خبر ہوئی تو پیغام بھیجا کہ واپسی پر ان سے ملے بغیر نہ جاؤں چنانچہ واپسی میں امرتسر اُترا اور ان کے پاس دو دن ٹھہرا۔ (یادرفتگان ،ص:372)
سید صاحب اپنے تعزیتی میں لکھتے ہیں کہ
مولانا ثناء اللہ ہندوستان کے مشاہیر علماء میں تھے، فن مناظرہ کے امام تھے ، خوش بیان مقرر تھے۔ متعدد تصانیف کے مصنف تھے۔ مذہباً اہلحدیث تھے اور اخبار اہلحدیث کے ایڈیٹر تھے ۔ قومی سیاسیات کی مجلسوں میں کبھی کبھی شریک ہوتے تھے۔
مرحوم ندوہ کے رکن بھی اکثر رہے بلکہ خود ان کے بقول ندوہ کان پور میں ان کی دستار بندی کے جلسہ میں پیداہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوؤں سے پنجاب میں فتنہ پیدا ہوگیا تھا انہوں نے مرزا کے خلاف صف آرائی کی اور اس وقت سے لے کر آخر دم تک اس تحریک اور اس کے امام کی تردید میں پوری قوت صرف کر دی یہاں تک کہ طرفین میں مباہلہ بھی ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صادق کے سامنے کاذب نے وفات پائی۔ (صادق( مولانا ثناء اللہ امرتسری(تاریخ وفات 15 مارچ 1948/ کاذب (مرزا غلام احمد قادیانی (تاریخ وفات25 مئی 1908ء)
اس کے بعد سید صاحب لکھتے ہیں کہ
اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا اس کے حملے کو روکنے کے لیے ان کا قلم شمشیر بے نیام ہوتا تھا اور اسی مجاہدانہ خدمت میں انہوں نے عمر بسر کر دی۔
فجراہ اللہ عن الاسلام خیر الجزاء
مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے ، زبان اور قلم سے اسلام پر جس نے بھی زبان کھولی اور حملہ کیا اس کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا وہ وہی ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات ومراتب عطا فرمائے۔ (معارف مئی 1948ء ، یادرفتگان ، ص:270۔272)
مولانا سید نواب علی حسن خان
مولانا سید نواب علی حسن خان بن مولانا سید نواب صدیق حسن خان بن مولانا سید نواب اولاد حسن خان علمائے فحول میں سے تھے۔ 1283ھ/ 1866ء میں ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔ جب آپ سال کے ہوئے ان کی تعلیم کا آغاز ہوا ، آپ نے جن اساتذہ کرام سے علوم عالیہ وآلیہ ، طب، فلسفہ ومنطق، تفسیر وحدیث،اصول تفسیر واصول حدیث، تاریخ وسیر،اسماء الرجال، لغت وعربیت ادب،علم کلام،فرائض، عربی،فارسی ،انگریزی اور اُردو میں مہارت تامہ حاصل کی ۔
ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :
مولوی پیر محمد صاحب ، منشی جمال الدین مدار المہام(نانا) مولوی خلیل الرحمان صاحب ،مولوی محمد احسن صاحب ، مولانا سید نواب صدیق حسن خان(والد محترم) مولانا سلامت اللہ جیراج پوری، مولوی الٰہی بخش، حافظ عبد العزیز بھوپالی ، مولانا سید ذوالفقار احمد، مولانا عبد الرشید شربانی کشمیری،مولانا عبد الباری سہوانی، مولانا بدیع الزمان لکھوی، حکیم مولوی علی حسین بنگالی، حکیم محمد اسحاق لکھوی، حکیم معز الدین بھوپالی، حکیم عبد العلی لکھنوی، ماسٹر منشی خاں، ماسٹر فیاض الدین، ماسٹر عبد الرحمان ، ماسٹر بہاری لال، غلام محبوب خاں ، سید امیر علی ، مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی (طریقہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے)۔ (تراجم علمائے حدیث ہند،ص:317۔318)
علامہ سید سلیمان ندوی کی نظر میں :
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے مولانا سید نواب علی حسن خان کی وفات پر معارف اعظم گڑھ کی اشاعت(دسمبر 1936مطابق رمضان المبارک 1355ھ) میں تعزیتی مضمون لکھا جس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ہندوستان کے اُن پرانے مسلمان خاندان میں سے جو شرافت نفس کے ساتھ علم اوردولت دونوں کے جامع ہیں۔ اب خال خال گھرانے رہ گئے ہیں۔انہیںمیں سے ایک والد نواب صدیق حسن خان مرحوم کا خاندان تھا۔ جس کے چھوٹے صاحبزادہ صفی الدولہ حسام الملک،شمس العلماء نواب سید محمد علی حسن خان مرحوم نے 19 نومبر 1936ء مطابق 3 رمضان المبارک 1355ھ کی صبح کو اپنی کوٹھی بھوپال ہاؤس لال باغ لکھنو میں 72 برس کی عمر میں وفات پائی ۔ افسوس ہے کہ ایک پرانے خاندان کے فضل وکمال اور جاہ وجلال کی یادگار آج مٹ گئی۔
نواب سید علی حسن خان عربی زبان کے عالم،فارسی زبان کے ماہر اور اُردو کے مشتاق اہل قلم تھے ، فارسی شعر وسخن اور محاورات پر ان کو عبو رحاصل تھا۔ فارسی کا کوئی مشکل سے ایسا کوئی شعر ہوگا جو ان کو یاد نہ ہو، خود بھی فارسی میں اکثر اور اُردو میں کم شعرکہتے تھے۔
وہ ہماری زبان کے مصنف تھے۔ متعدد مذہبی اور تاریخی کتابیں ان کے قلم سے نکلیں۔ شعراء کے تذکرے ان کی جوانی کی یادگار ہیں۔ ’’فطرۃ الاسلام‘‘ اور ’’مآثر صدیقی‘‘ ان کی بہترین کتابیں ہیں۔
وہ شبلی مرحوم کے بے تکلف دوستوں میں تھے اور ایک دوسرے کے سچے قدردان تھے۔
مذہبی خیالات میں گو وہ عقلیت کی طرف مائل تھے لیکن اس کے ساتھ مذہبی پابندی ان میں اتنی سخت تھی۔ ان کی ایک نماز بھی ان کے مقرر وقت سے ٹلنے نہیں پاتی تھی۔ رسم ورواج اور بدعات کا ان کے گھر میں نشان نہ تھا اور اس بارے میں وہ نہایت سخت تھے ۔ ان کی علم وفن ،شعر وسخن اور قومی مسئلوں کے سوا اور مذکور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں علیین میں ان کا مقام کرے۔ (آمین) (معارف دسمبر 1936ء جلد 38 ،شمارہ 6 ۔ یادرفتگان ، ص:175۔176)
پیر سید احسان اللہ شاہ راشدی
پیر سید احسان اللہ شاہ رحمہ اللہ صوبہ سندھ کے مشہور دینی وعلمی راشدی خاندان کے گل سرسبد تھے آپ کا سن ولادت 1313ھ ہے۔ آپ نے اپنے دور کے نامور اساتذہ کرام اور اساطین فن سے علوم عالیہ وآلیہ میں استفادہ کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا عبید اللہ سندھی(م1944ء) اور مولانا احمد علی لاہوری (م 1962ء) شامل ہیں۔ اور یہ دونوں علمائے عظام حنفی المسلک تھے۔
فراغت تعلیم کے بعد آپ نے خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن وحدیث کی خدمت کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں ایک نئی روح پھونکی ۔ آپ کا حلقۂ احباب نہایت وسیع تھا۔ بیروتی اسلامی ملکوں کے جید علمائے کرام سے تعلقات تھے خصوصاً سلطان ابن سعود رحمہ اللہ سے خاص دوستی اورخط وکتابت رہتی تھی۔
اخلاق وعادات وشمائل وخصائل میں زہدوورع،تقویٰ وطہارت ،پیکر اصلاح وہدایت اور بہ درجہ غایت اتباع سنت میں ارفع واعلیٰ تھے۔ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے بے پناہ محبت کرنے کی وجہ سے آپ ’’پیر سائیں سنت والے‘‘ کے نام سے معروف تھے۔
پیر احسان اللہ شاہ راشدی علوم دینیہ کے جامع اور احیائے سنن میں بہت بڑے داعی تھے۔ علم رجال پر آپ کی نظر وسیع تھی۔ دوسرے معنوں میں وہ علم رجال کے امام تسلیم کئے جاتے تھے۔ شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری (م 1948ء) نے ایک دفعہ ان کے دولت کدہ پر تین دن قیام فرمایا اور ان تین دنوں میں علم رجال کے متعلق کافی گفتگو ہوئی۔ مولاناامرتسری رحمہ اللہ نے واپسی کے وقت فرمایا کہ
آج اگر کوئی اسماء الرجال کا امام ہے تو پیر احسان اللہ راشدی ہے۔ (مجلہ بحر العلوم( شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشد المعروف پیر آف جھنڈا نمبر ، ص:31۔32)
علامہ سید سلیمان ندوی کی نظر میں
سید صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ معارف اعظم گڑھ نومبر 1938ء میں لکھتے ہیں کہ
علمی حلقوں میں یہ خبر غم وافسوس کے ساتھ سُنی جائے گی کہ جھنڈا کوٹ ضلع حیدرآباد سندھ کے مشہور عالم پیر احسان اللہ شاہ صاحب جو قلمی کتابوں کے بڑے عاشق تھے۔ 44 سال کی عمر میں 13 اکتوبر 1938 کو اس دنیا سے چل بسے۔ مرحوم حدیث ورجال کے بڑے عالم تھے ان کے کتب خانہ میں حدیث وتفسیر ورجال کی نایاب قلمی کتابوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ مشرق ومغرب ،مصر وشام،عرب وقسطنطنیہ کے کتب خانوں میں ان کے کاتب وناسخ نئی نئی کتابوں کے نقل پر معمور رہتے تھے۔ مرحوم ایک خانقاہ کے سجادہ نشین اور طریق سلف کے متبع اور علم وعمل دونوں میں ممتازتھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم پر اپنے انوار رحمت کی بارش فرمائے۔ (یادرفتگان ، ص:186)
مولانا ابو بکر محمد شیث جون پوری
مولانا ابو بکر محمد شیث رحمہ اللہ کا تعلق جون پور کے ایک علمی خاندان سے تھا ان کے دادا مولانا سخاوت علی جون پوری ( م 1274ھ) ، مولانا عبد الحی بڈھانوی (م 1343ھ) اور مولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی (م 1246ھ) کے فیض یافتہ تھے اور اپنے علاقہ میں توحید وسنت کے بڑے داعی تھے آخر عمر میں مکہ مکرمہ ہجرت کرکے چلے گئے یہاں آپ نے 6 شوال 1274ھ مطابق 20 مئی 1858ء رحلت فرمائی۔
مولانا سخاوت علی جون پوری کے 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں۔
1مولوی محمد جون پوری
2مولوی جنید جون پوری
یہ دونوں عالم وفاضل ہوکر جوانی میں انتقال فرماگئے۔
3مولوی شبلی فاروقی
حضرت شیخ الکل میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اورمولانا محمد حسین بٹالوی (م 1338ھ) کے ہم درس تھے۔
4حافظ ابو الخیر محمد مکی
مولوی محمد جون پوری سب سے بڑے تھے اپنے والد محترم سے علوم اسلامیہ کی تحصیل کی۔ بڑے متقی زاہد اور متبع سنت تھے والد محترم کے ہجرت کر جانے کے بعد ان کی مسندِ درس کے جانشین ہوئے ۔ بڑے صالح اور نیک سیرت بزرگ تھے۔ عین عالم شباب میں 2 شوال 1274ھ/ 16 مئی 1858ء جون پور میں رحلت فرمائی۔
مولوی حافظ ابو الخیرمکی ان کا سن ولادت 19 جمادی الثانی 1274ھ ہے اور ان کے والد محترم کی وفات 6 شوال 1274ھ کو ہوئی۔
اس وقت ان کی عمر چار ماہ تھی۔
ان کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا پھر مختلف اساتذہ سے علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا۔ علوم عقلیہ ونقلیہ پر عبور حاصل تھا۔ بڑے متقی وپرہیزگار تھے۔ درس وتدریس اور پند ونصائح میں مشغول رہتے تھے۔ (صاحب ترجمہ مولانا ابو بکر محمدشیث جون پوری انہیں کے فرزند ارجمند ہیں) جنہوں نے علوم اسلامیہ کی تحصیل حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ) سے کی۔(فقہائے ہند ، جلد 6 ، صفحہ : 177۔178)
علامہ سید سلیمان ندوی کی نظر میں
مولانا ابو بکر شیث جون پوری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ناظم دینیات تھے۔ موصوف سے میری ملاقات 1920ء میں تحریک خلافت کے سلسلہ میں ہوئی۔ یہ ملاقات دوستی اور دوستی سے اتحاد کی اس منزل تک پہنچ گئی جس کے بعد خیال کا کوئی مرتبہ نہیں رہتا۔ ایک دفعہ میں نے کہا اور انہوں نے مانا تھا کہ ایک مذہب ہے جس کے دو ہی پیرو ہیں ایک وہ اور ایک میں۔ مقصود تقلید وعدم تقلید کے مسائل میں اعتدال سے تھا۔ میں نے علماء میں ایسا شریف، ایسا نیک باطن، ایسا دوراندیش، ایسا فیاض، ایسا سادہ مزاج، اس پر ایسا مستقل مزاج، خوش اخلاق، شریں گفتار، باغ وبہار، ایسا خشک اور ایسا تر مزاج آدمی نہیں دیکھا۔ ایسی متقی وپرہیزگار اور ساتھی ہی ایسا وسیع الشرب اور وسیع الاخلاق ، وہ مذہبی تھے اور سخت مذہبی لیکن وہ بھی ان کو مانتے تھے جو مذہب کو نہیں مانتے تھے وہ بے دینوں میں بھی ایسے ہی پیارے تھےجیسے دین داروں میں اور یہ اُن کے حسن اخلاق کی بڑی کرامت تھی۔ (یادرفتگان ، ص:210۔211)
علمائے اہلحدیث :
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے کئی ایک ممتاز علمائے اہلحدیث سے دیرینہ تعلقات اور مراسم تھے اور اُن سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ مولانا ابو علی اثری رحمہ اللہ نے ایک مضمون’’ مولانا سید سلیمان ندوی اور علمائے اہلحدیث‘‘ میں ذکر کیا ہے مثلاً
مولانا عبد المجید حریری بنارسی ، مولانا محمد ابوالقاسم سیف بنارسی ، مولانا ابوالمکارم محمد علی مئوی ، مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی ، مولانا عبد اللہ شائق مئوی، مولانا عبدالغفور جیراج پوری ، مولانا حکیم محمدمہراوی ۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:219۔220)
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ برصغیر پاک وہند کے نامور عالم دین،مناظر،مفسر قرآن، شعلہ بیاںمقرر اورخطیب وواعظ، اعلی پایہ کے دانشور،مفکر،مدبر اور ملکی سیاست سے پوری طرح باخبر شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مناظر اسلام مولانا عبد العزیز رحیم آبادی(م 1336ھ) اور مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م 1369ھ) کے معاصر تھے۔ مولانا میرسیالکوٹی حضرت شیخ الکل کے آخری دور کے شاگرد تھے اور استاد پنجاب حافظ عبد المنان وزیر آبادی سے مستفیض تھے۔ بڑے ذہین وفطین اور نامور خطیب تھے ان کی تصانیف کی تعداد 80 کے قریب ہے۔
12 جنوری 1956ء کو سیالکوٹ میں رحلت فرمائی۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
علامہ سید سلیمان ندوی کی نظر میں
مولانا ابو علی اثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
سید صاحب کو حال کے علمائے اہلحدیث میں سب سے زیادہ تعلق مولانا ابراہیم سیالکوٹی سے تھا۔ ان کو جماعت اہلحدیث کے اہل دل علماء میں شمار کرتے تھے اور ان کے فضل وکمال پر ان کو بڑا اعتماد تھا۔ ان سے مکاتبت ومراسلت کا سلسلہ بھی قائم تھا۔ سید صاحب کے نام مسلک کے مشاہیر علماء کےخطوط کے وسیع ذخیرہ ہیں۔ صحف ابراہیم کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے جوزیادہ تر قرآنی تصوف وحدیثی احسان وسلوک پر مشتمل ہیں۔ ان سے اعظم گڑھ سے باہر دینی جلسوں اور تقریبوں میں تو ملاقات کا اکثر وبیشتر اتفاق ہوتا تھا اور بڑے باہم راز ونیاز کی باتیں ہوتی تھیں لیکن اس طبعی مناسبت فکری ہم آہنگی، تصنیفی ہم ذوقی اور قلبی لگاؤ کے باوجود دار المصنفین آئے اور سید صاحب کا مہمان بننے کا اتفاق مولانائے میر کو نہیں ہواتھا جس کی تمنا سید صاحب کو بہت تھی۔ ہندوستان کی تقسیم سے صرف ایک سال پہلے حسن اتفاق سے ایک جلسہ کی تقریب میں 30 برس کے بعد مئو تشریف لائے توسید صاحب نے خط لکھ کر اعظم گڑھ بلوایا۔ تین دن ان کا قیام رہا۔ دورانِ قیام میں پنج وقفہ نمازیں انہی کی اقتداء میں ہوتی رہیں۔ جمعہ بھی انہی نے پڑھایا۔ جہری نمازوں میں وہ سورتوں کے ساتھ بسم اللہ بھی بالجہر پڑھتے تھے جو یہاں کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ حنفیہ اس کے قائل نہیں۔ لوگوں کا بیان ہے کہ وہ اپنے طریقہ ومسلک کے مطابق نماز پڑھانے کے باوجود نمازوں میں جو لذت اور کیفیت محسوس ہوئی اور توجہ وانابت الی اللہ کا جو غلبہ ہوا اس کی یاد اب تک باقی ہے۔(سہ روزہ منہاج 27 جون 1950ء۔ سید سلیمان ندوی ، ص:202)
مولانا ابو علی اثری مرحوم اپنے ایک دوسرے مضمون جو مولانا محمدابراہیم میرسیالکوٹی کی وفات پر ہفت روزہ الاعتصام لاہور مجریہ 9 مارچ 1956ء میں شائع ہوا تھا۔ لکھتے ہیں کہ
مولانا سیالکوٹی 1945ء میں آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس مئوناتھ بھنجن ضلع اعظم گڑھ کے سالانہ اجلاس میں تشریف لے گئے اور آپ نے اس کانفرنس کی صدارت کی تھی ۔ اس کانفرنس میں مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تحریک پر آپ نے یہ قرار داد منظور کرائی تھی کہ برصغیر کے اہلحدیث حضرات کو مسلم یوگ کی حمایت کرنی چاہیے۔
علامہ سید سلیمان ندوی نے بذریعہ تار مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی کو اطلاع دی کہ واپسی پر دار المصنفین اعظم گڑھ تشریف لایئے اور دار المصنفین کی رونق کو دوبالا کیجیے۔
مولانا سیالکوٹی کانفرنس کے اختتام پر اعظم گڑھ تشریف لے گئے ۔
مولانا ابو علی اثری لکھتے ہیں کہ
ان سے اس درجہ ارادت تھی کہ ان کی آمد پر سید واجب الاحترام قبلہ نے خود اپنے ہاتھوں سے مہمان خانہ تا فرش فروش،میز کرسی اور دوسرے سامان آرائش سے سجایا تھا اور اتنا خوش تھے کہ بس دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب موصوف کی گاڑی مہمان خانہ کے سامنے پہنچی تو آگے بڑھ کر استقبال کیا دیر تک بغلگیر رہے۔ خودہی سامان اُتروایا اور گاڑی کا کرایہ اپنی جیب سے ادا کیا یہ منظر بڑا پُر اثر اور قابل دید تھا۔
اس کے بعد مولانا اثری لکھتے ہیں کہ
علامہ سید سلیمان ندوی جیسا بلند پایہ عالم ، جن کی بہترین عمدہ اور بلندپایہ تصنیفات،تالیفات اورمحققانہ علمی اور جامع مقالات ومضامین کی ساری دنیا میں دھوم تھی جو ایک طرف مستشرقین یورپ سے اپنی تحقیقات عالیہ کی داد لیتے تھے۔ اوردوسری طرف اپنی انشاپردازی،علمی تبحر اور تفقہ واجتہاد پر عالم اسلامی سے خراج تحسین وصول کرتے تھے جو جمعیۃ العلماء ہند کے صدرنشین، ندوہ کی کائنات کے حامل اورشبلی کے علوم ومعارف کے ترجمان تھے۔ انہوں نے والہانہ عقیدت سے مولانا سیالکوٹی مرحوم کا استقبال کیا جیسے ایک احسان مند اور فرمانبردار شاگرد اُستاد کا استقبال کرتاہے۔(سوانح مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی ، ص:86۔87)
مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی
مولاناابو یحییٰ امام خاں نوشہروی (م 1966ء) جماعت اہلحدیث پاک وہند کے نامورمصنف اورمقالہ نگار تھے۔ ان کے مقالات ومضامین ہندوپاک کے چوٹی کے علمی رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ مثلاً
ہفت روزہ اہل حدیث امر تسر،پندرہ روزہ اخبار محمدی دہلی، ہفت روزہ اہلحدیث گزٹ دہلی، ماہنامہ برہان دہلی، ماہنامہ معارف اعظم گڑھ،ماہنامہ اُردوئے معلی علی گڑھ، ماہنامہ زمانہ لکھنو اور سہ ماہی اُردو حیدرآباددکن اور روز نامہ زمیندار لاہور
قیام پاکستان کے بعد ان کے مضامین ہفت روزہ االاعتصام لاہور،ماہنامہ رحیق لاہور، ہفت روزہ چٹان لاہور ، ہفت روزہ اقدام لاہور،ہفت روزہ قندیل لاہور اور روزنامہ امروز لاہور
مولانا امام خاں نوشہروی نے فارسی کتابیں پنڈت دیناناتھ سے پڑھیں جو سوہدرہ کے باسی تھے۔ عربی تعلیم مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی(م 1348ھ) اور ان کے صاحبزادہ گرامی مولانا عبد الحمید سوہدروی(م 1330ھ) سے حاصل کی۔استاد پنجاب مولانا حافظ عبد المنان وزیر آبادی ( م 1334ھ) سے بھی مستفیض ہوئے بعد ازاں مدرسہ غزنویہ امرتسر میں بھی دینی علوم کی کتابیں پڑھیں۔
فراغت تعلیم کے بعد ہندوستان کے کئی شہروں میں بسلسلہ کاروبار مقیم رہے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ مضمون نویسی کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے۔ 1938ء / 1356ھ میں مولانا نوشہروی نے ’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘ کے نام سے پہلی جلد برقی پریس دہلی سے چھپوا کر شائع کی اور اس کتاب کا مقدمہ علامہ سید سلیمان ندوی سے لکھوایا۔
مولانا ابو علی اثری لکھتےہیں کہ
تراجم علمائے حدیث ہند کے مصنف مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی سے جماعت اہلحدیث کا شاید ہی کوئی فرد ناواقف ہوگا۔ وہ اپنی اس کتاب کی تالیف کے سلسلے میں دارالمصنفین بھی آئے تھے اور کئی روز تک تمام رفقاء ومصنفین کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہے کہ گویا وہ بھی یہاں کے ایک فرد ہیں وہ سب سے زیادہ ہم عمری،ہم ذوقی اور ہم مسلکی کی بنا پر مولانا عبدالسلام ندوی مصنف ’’اسوئہ صحابہ‘‘ سے بے تکلف تھے۔(چند رجال اہلحدیث ، ص:97)
مولانا امام خان نوشہروی جب دار المصنفین اعظم گڑھ تشریف لے جاتے تو ان کا زیادہ کتب خانہ ہی میں کتابوں کی مراجعت کے سلسلہ میں صرف ہوتا تھا۔ (چند رجال اہلحدیث ،ص:98)
مولانا ابو علی اثری لکھتے ہیں کہ
تراجم علمائے حدیث ہند کا مقدمہ لکھنے کے لیے سید صاحب سے خواہش کا اظہار کیا تو اس کی تعمیل میں ان کو کوئی عذر نہیں ہوا اور اس پر اپنے شایان شان بہت عالمانہ،فاضلانہ اورمحققانہ مقدمہ لکھا ۔ جو اس کتاب کی زینت ہے۔
اس میں انہوں نے اس کتاب کو اپنے اس سلسلہ مضمون کا جس کا سرعنوان ’’ہندوستان میں علم حدیث‘‘تھا اور جس میں ان کے بعض معاصرین نے حصہ بھی لیا ہے تکملہ قرار دیا ہے لیکن مؤلف کے ایک مبالغہ کی طرف بھی ہلکے الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ اس کتاب میں علمائے اہل حدیث کے حالات بھی شامل کردیئے ہیں جو اصطلاحاً بقیہ : برصغیر کے علمائے اہلحدیث ۔۔۔
اہلحدیث نہیں تھے لیکن غلو اور افراط سے خالی،توحید وسنت کے متبع اور سلف صالحین کے پیرو ہیں اور حق کسی ایک امام میں منحصر نہیں سمجھتے۔ (سید سلیمان ندوی، ص:216)
مراجع ومصادر
1اقبال نامہ ، رتبہ : شیخ عطاء اللہ
2 تذکرہ سلیمان ، غلام محمد
3تراجم علمائے حدیث ہند، ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی
4تذکرہ علمائے اعظم گڑھ۔ حبیب الرحمان قاسمی
5ٹام راج سے رام راج تک ۔ سید رئیس احمد جعفری ندوی
6جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث، مولانا محمداسمعیل سلفی
7چندرجال اہلحدیث ، مولانا ابو علی اثری
8حیات سلیمان ، شاہ معین الدین احمد ندوی
9حیات شبلی ، علامہ سید سلیمان ندوی
10خطبات مدراس ، علامہ سید سلیمان ندوی
11سید سلیمان ندوی، مولانا ابوعلی اثری
12سوانح مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی ، قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری
13 علامہ سید سلیمان ندوی(شخصیات وادبی خدمات) ، ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی ندوی
14 فقہائے ہند (جلد ششم) ، محمد اسحاق بھٹی
15قافلہ حدیث ، محمد اسحاق بھٹی
16مقالات سلیمان ، علامہ سید سلیمان ندوی
17مجلہ بحر العلوم میر پور خاص (شاہ بدیع الدین نمبر) رتبہ :افتخار احمد الازہری
18معارف اعظم گڑھ (سید سلیمان ندوی نمبر) رتبہ: شاہ معین الدین احمد ندوی
19مقالات وفتاوی شیخ الحدیث مولانا محمداسمعیل سلفی ، رتبہ : حافظ ابو مریم مدنی
20نزہۃ الخواطر (جلد 8) حکیم سید عبد الحی حسنی
21یادرفتگان ، علامہ سید سلیمان ندوی
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :
حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی (1114ھ۔1176ھ) 1142ھ میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجاز تشریف لے گئے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد علامہ شیخ ابو طاہر الکردی(م1145ھ) کے درس میں مدینہ منورہ میں شامل ہوئے اور تین سال ان کی خدمت میں رہ کر الجامع الصحیح البخاری کے درس میں شرکت کی۔ علاوہ ازیں اس کے بقیہ کتب صحاح ستہ وموطا امام مالک ومسند دارمی وکتاب الآثار کے اطراف سنا کر سند واجازت حاصل کی۔ (۱)
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تین سال تک شیخ ابو طاہر الکردی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہے شیخ کی وفات (1145ھ) سے کچھ ماہ قبل شاہ ولی اللہ نے واپس ہندوستان آنے کا پروگرام بنایا اور آنے سے قبل شیخ ابو طاہر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور الوداعی ملاقات کے بعد ان کے سامنے یہ شعر پڑھا
نسيت كل طريق كنت أعرفه
الا طريقا يؤدینی لربعكم
’’ میں چلنے کا راستہ بھول گیا سوائے اس راستہ کے جو آپ کے گھر تک پہنچاتا ہے۔‘‘
اور اس کے بعد فرمایا کہ
’’میں نے جو کچھ پڑھا تھا سب بھلا دیا سوائے علم حدیث کے‘‘(۲)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی پوری زندگی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ حدیث نبوی ﷺ کی تشریح وتفہیم ، تدریس واشاعت، مدافعت ونصرت اور حمایت وتائید میں مصروف رہے۔
ہندوستان واپس آکر اپنے آبائی مدرسہ میں حدیث نبوی ﷺ کی تدریس وتعلیم واشاعت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے اور ان کا مدرسہ برصغیر کے طول وعرض میں ایک مثالی دینی درسگاہ قرار پایا اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے تشنگان علم حدیث نے پروانہ وار ہجوم کیا آپ کے تلامذہ کا شمار ممکن نہیں تاہم چند ایک نامور تلامذہ کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔
آپ کے صاحبزادگان عالی مقام :
شاہ عبد العزیز دہلوی ( 1159ھ۔1239ھ)
شاہ رفیع الدین دہلوی ( 1163ھ۔1233ھ)
شاہ عبد القادر دہلوی (1167ھ۔ 1230ھ)
شاہ عبد الغنی دہلوی ( 1170ھ۔ 1227ھ)
علاوہ ازیں ان کے علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی صاحب تاج العروس شرح قاموس (1145ھ۔1205ھ) بیہقی وقت قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب تفسیر مظہری (1147ھ۔1235ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ نے خدمت حدیث کے سلسلہ میں بذریعہ تصنیف وتالیف بھی گرانقدر خدمات انجام دیں موطا امام مالک کی دو شرحیں المسوّی (عربی) اور المصفّی (فارسی) لکھیں ۔ (۳)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی(1999ء) فرماتے ہیں کہ
’’ شاہ صاحب رحمہ اللہ فقہ حدیث اور درس حدیث کا جو طریقہ رائج کرنا چاہتے تھے یہ دونوں کتابیں اس کا نمونہ ہیں اور ان سے شاہ صاحب کی علوم حدیث اور فقہ حدیث میں محققانہ اور مجتہدانہ شان کا اظہار ہوتاہے۔ (۴)
وفات :
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے 30 محرم الحرام 1176ھ بمطابق 1762 دہلی میں وفات پائی۔ عمر 62 سال تھی ،اپنے والد محترم شاہ عبد الرحیم دہلوی کے پہلو میں راحت فرما ہوئے۔ (۵)
انا للہ وإنا إلیہ راجعون
جانشین شاہ ولی اللہ دہلوی :
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی وفات کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (1159ھ۔1239ھ) مسند وحی الٰہی دہلوی پر پراجمان ہوئے۔ ان کی تمام زندگی قرآن وحدیث کی تدریس وتعلیم اور اشاعت میں بسر ہوئی علاوہ ازیں اس کے حضرت شاہ عبد العزیز کا دوسرا عظیم کارنامہ فتنہ رفض وتشیع کا مقابلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کرنا ہے اور ساتھ ہی جہاد فی سبیل اللہ کا احیاء ہے خدمت حدیث میں محدثین کے حالات پر فارسی زبان میں ایک کتاب ’’بستان المحدثین‘‘ تالیف فرمائی۔ اصول حدیث میں ’’عجالہ نافعہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور شیعہ فرقہ کی تردید میں ایک عظیم کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ تصنیف کی ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے درس حدیث کی مدت تقریباً 24سال ہے اس مدت میں آپ نے نہ صرف صحاح ستہ کا درس دیا اور بستان المحدثین، عجالہ نافعہ جیسی مفید کتابیں تصنیف کیں جو حدیث کا صحیح ذوق، طبقات حدیث سے واقفیت اور محدثین کا مرتبہ شناس بتاتی ہیں اور اصول سے واقف کرتی ہیں جن میں سینکڑوں صفحات کا عطر آگیا ہے۔‘‘ (۶)
حضرت شاہ عبد العزیز کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے تاہم مشہور تلامذہ حسب ذیل ہیں :
nمولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی ( 1192ھ۔1262ھ)
nمولانا شاہ محمد یعقوب دہلوی(1200ھ۔1282ھ)
nمولانا مفتی صدر الدین دہلوی (1204ھ۔1285ھ)
nمولانا خرم علی بلہوری (م 1260ھ)
nمولانا شاہ محمد اسمعیل دہلوی ( ش 1246ھ)
nمولانا سید اولاد حسن قنوجی (1210ھ۔ 1253ھ)
حضرت شاہ عبد العزیز کے دوسرے بھائیوں نے بھی خدمت دین اسلام میں گرانقدر خدمات انجام دیں شاہ ولی اللہ کے چاروں صاحبزادوں نے قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس میں جو کارنامے انجام دیئے وہ تاریخ اسلام کا ایک زریں باب ہے حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادگان کی ولادت ووفات کی ترتیب حسب ذیل ہے۔
nشاہ عبد العزیز دہلوی
ولادت: 1159ھ/1745ء
وفات:1239ھ/1822ء
nشاہ رفیع الدین دہلوی
ولادت: 1163ھ/1749ء
وفات:1233ھ/1818ء
nشاہ عبد القادر دہلوی
ولادت:1167ھ/1753ء
وفات:1230ھ/1815ء
nشاہ عبد الغنی دہلوی
ولادت: 1170ھ/1756ء
وفات: 1227ھ/1812ء
مگر ان بھائیوں کی وفات عجیب ترتیب سے ہوئی ۔ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کی وفات پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فرمایا
’’ترتیب منعکہ در رحلت برادران واقع شد یعنی اول مولوی عبد الغنی کہ خورد ترین ہمہ ہا جودند بعد ازاں مولوی عبد القادر ازدشان بعد مولوی رفیع الدین کلاں سال ازدشاں ہستم باری ماست
’’الٹی ترتیب بھائیوں کی وفات میں واقع ہوئی اول مولوی عبد الغنی کہ سب سے چھوٹے تھے اس کے بعد مولوی عبد القادر اور ان کے بعد مولوی رفیع الدین سب سے بڑا میں ہوں اب میری باری ہے۔‘‘ (۷)
مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی :
مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی (1193ھ۔1246ھ) ایک جید عالم ، دینی مفکر، قاطع بدعت ، بلند پایہ مبلغ اور عظیم مجتہد تھے وہ غیر معمولی علمی وسعت کے مالک ذہین وفطین دین سے محبت کرنے والے ، متقی ، پرہیزگار ، مجاہد، مصنف، شجاع اور بے پناہ بصیرت کے مالک تھے۔
خاندان ولی اللہ دہلوی کا ہر فرد علم وعمل ،عقل وفہم،زور تقریر ، فصاحت تحریر، ورع وتقویٰ، دیانت وامانت اور مراتب ولایت میں یگانہ روزگار،فریددہر اور وحید عصر تھا ان کی اولاد بھی انہی درجات بلند پر فائز تھی یہ ایک زریں سلسلہ تھا۔ (۸)
علامہ اقبال ( م 1938ء) فرماتے ہیں کہ
ہندوستان نے ایک مولوی پیدا کیا اور وہ مولوی شاہ محمد اسمعیل کی ذات تھی۔ (۹)
شاہ اسماعیل شہید نے 24 ذی قعدہ 1246ھ / 5 مئی 1831ءامیر المؤمنین سید احمد شہید کے ہمراہ بالاکوٹ میں شہادت پائی اور وہیں دفن ہوئے۔(۱۰)
شاہ محمد اسحاق دہلوی :
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی (1192ھ۔ 1262ھ) بن علامہ شیخ محمد افضل فاروقی سیالکوٹی (م1245ھ) حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے نواسے تھے علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کے درس میں بڑی برکت عطا فرمائی تمام بڑے بڑے علماء ان کے شاگرد تھے۔(۱۱)
حضرت شاہ محمد اسحاق علم وفضل میں یگانہ روزگار تھے۔ حدیث نبوی ﷺ کے تمام گوشوں پر ان کی نظر وسیع تھی بڑے عبادت گزار،متقی،پرہیزگار اور زہد وورع کے جامع تھے ان کے نانا حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی ان کو دیکھتے تو فرماتے تھے ۔
اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ
’’ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا تعریف ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق عطا فرمائے۔ (۱۲)
شیخ الاسلام سراج مکی نے حضرت شاہ محمد اسحاق کے جنازہ پر فرمایا تھا۔
واللہ إنہ عاش وقرأت علیہ الحدیث طول عمر ما نلت ما نالہ
’’ بخدا اگر یہ زندہ رہتے اور میں تمام عمر ان سے حدیث پڑھتا رہتا تو اس رتبے کو نہ پہنچ سکتا جس پر یہ پہنچ چکے تھے۔‘‘ (۱۳)
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا احمد علی سہارن پوری محشی الجامع الصحیح البخاری (م 1298ھ)
nنواب صدر الدین خان دہلوی
nنواب قطب الدین خان دہلوی
nمولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ)
nمولانا سید عبد الخالق دہلوی ( م 1261ھ)
nمولانا شاہ محمد یعقوب دہلوی ( 1282ھ)
حضرت شاہ محمد اسحاق نے اپنے نانا حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی زندگی میں تدریس شروع کی اور برسوں حدیث کا درس دیا۔ درس حدیث کے اس اہتمام کی وجہ سے ’’ الصدر الجید‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے حضرت شاہ محمد اسحاق نے 1258ھ میں اپنے برادر اصغر شاہ محمد یعقوب کے ہمراہ حجاز ہجرت کی وہاں بھی تدریس ہی مشغلہ تھا۔
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی نے رجب 1262ھ / 1846 میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (۱۴)
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی المعروف حضرت میاں صاحب (1220ھ۔1320ھ) جو اپنے استاد حضرت مولانا شاہ محمداسحاق دہلوی کی ہجرت کے بعد ان کی مسند تدریس پر متمکن ہوئے اور شیخ الکل کہلائے ۔
حضرت میاں صاحب صوبہ بہار کے ضلع سورج گڑھ کے قصبہ بلتھوا میں 1220مطابق1805ء میں پیدا ہوئے انکے والد محترم کا نام سید جو اد علی تھا جو فارسی زبان میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔میاں صاحب کا عہدطفولیت لہو ولعب میں گزرا آخر 15 سال کی عمر میں اپنے والد مرحوم کے ایک برہمن دوست کے کہنے پر تعلیم کی طرف مائل ہوئے پہلے اپنے والد ماجد سے فارسی کی چند کتابیں پڑھیں تھوڑے عرصہ بعد عربی کی ابتدائی تعلیم پڑھنا شروع کی اس وقت میاں صاحب کی عمر 17 سال ہوچکی تھی اور میاں صاحب مزید تعلیم کے حصول کے خواہاں تھے چنانچہ آپ نے اپنے ایک دوست اور ہم عمر طالب علم بشیر الدین عرف مولوی مراد علی سے مشورہ کیا کہ مزید تعلیم کے حصول کے لیے کسی دوسرے شہر جانا چاہیے چنانچہ ایک دن موقع ملا آپ اپنے دوست کے ہمراہ رات کے وقت گھر سے روانہ ہوئے۔ اور عظیم آباد(پٹنہ) جا پہنچے اور مولوی شاہ محمد حسین کے مکان میں اقامت گزیں ہوئے ( مولوی شاہ محمد حسین مولانا ولایت علی عظیم آبادی ( م 1249ھ/ 1852ء) کے خلیفہ تھے۔مولوی شاہ محمد حسین نے اپنے مکان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا ہوا تھا طلباء کی تعلیم اور ان کی ضروریات کا اچھا خاصا انتظام تھا میاں صاحب اور ان کا ساتھی مولوی امداد علی نے وہاں 6 ماہ قیام کیا وہاں انہوں نے اساتذہ سے قرآن مجید کا ترجمہ اور کتب حدیث میں مشکوۃ المصابیح کا درس لیا یہ واقعہ 1237ھ/1821ء کا ہے اسی دو ران امیر المؤمنین حضرت سید احمد شہید بریلوی (ش 1246ھ) حضرت مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی ( ش 1246ھ) کے ہمراہ اپنے تین صد جانثاروں کو لے کر عظیم آباد (پٹنہ) تشریف لائے جمعہ کی نماز ایک میدان میں ادا کی گئی مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید نے وعظ فرمایا تھا میاں صاحب کا ارشاد ہے :
’’ ہم اس وعظ اور نماز میں شریک تھے سارا میدان لین کا آدمیوں سے بھرا ہوا تھا پہلی ملاقات سید صاحب اور مولانا شہید سے یہیں پٹنہ میں ہوئی تھی۔(۱۵)
اس ملاقات کے بعد حصرت میاں صاحب نے دہلی جانے کا قصد کیا اس وقت حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بقیدحیات تھے چنانچہ میاں صاحب اپنے رفیق سفر مولوی مراد علی کے ہمراہ 1237ھ/ 1822ء دہلی روانہ ہوئے۔پٹنہ سے چل کر میاں صاحب غازی پور پہنچے وہاں چند روز قیام کیا اور مولوی احمد علی چڑیاکوئی ( م 1272ھ) سے ابتدائی درسی کتابیں پڑھیں۔ غازی پور سے بنارس کا عزم کیا بنارس میں کچھ مدت قیام کیا پھر بنارس سے الہ آباد تشریف لے گئے الہ آباد میں ایک مسجد میں قیام کیا وہاں آپ نے مولوی زین العابدین رحمہ اللہ سے صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔
الہ آباد سے میاں صاحب دہلی کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں کان پوریاں چند روز قیام کیا پھر کان پور سے روانہ ہوئے اور فرخ آباد پہنچ گئے۔
فرخ آباد سے دہلی کےلیے روانہ ہوئے اور 1243ھ/ 1828ء کو دہلی پہنچ گئے ۔ 1237ھ میں وطن سے روانہ ہوئے اور 1243ھ میں دہلی پہنچ گئے اور 6 سال کی مدت بنتی ہے دہلی میں سب سے پہلے ان کا قیام مولوی محمد شجاع الدین کے مکان پر رہا حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلو ی سے میاں صاحب کی ملاقات نہ ہو سکی وہ 1239ھ میں رحلت فرما چکے تھے اور چار سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔
میاں صاحب مولوی شجاع الدین کے ہاں سکونت ترک کرکے مسجد اورنگ آبادی میں مولانا عبدالخالق دہلوی (م 1261ھ) کی خدمت میں حاضر ہوکر علوم اسلامیہ کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔(۱۶) میاں صاحب نے جن اساتذہ کرام سے علوم عالیہ وآلیہ میں استفادہ کیا اُن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
nمولانا عبد الخالق دہلوی (م 1261ھ)
nمولانا اخوندشیر محمد قندہاری (م1257ھ)
nمولانا جلال الدین ہروی
nمولانا کرامت علی اسرائیلی
nمولانا سید محمد بخش عرف تربیت خان نہدس
nمولانا شیخ عبدالقادر رام پوری
nملا محمد سعید پشاوری
nمولانا حکیم نیاز احمد سہوانی ۔ ( ۱۷)
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے درس میں :
جب حضرت میاں صاحب ( 1243ھ / )1828ء میں دہلی وارد ہوئے تو حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی وفات پا چکے تھے ( حضرت شاہ عبد العزیز کی تاریخ وفات 7 شوال 1239ھ ہے ) اور مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی کا فیضان علم وعمل جاری تھا مگر اس وقت میاں صاحب شامل حلقہ ہونے کی قابلیت نہ رکھتے تھے اس لیے پہلے دوسرے اساتذہ سے اکستاب کیا حضرت میاں صاحب نے علوم رسمیہ سے فراغت کے بعد حضرت شاہ محمد اسحاق نواسہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے مرکز حدیث کا رخ کیا ۔
مورخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’ میاں صاحب نے علوم رسمیہ سے فراغت کے بعد علوم تفسیر وحدیث اور فقہ کی تحصیل کے لیے شاہ محمد اسحاق کے مرکز حدیث کا رخ کیا حضرت شاہ صاحب ممدوح سے میاں صاحب نے صحاح ستہ کی تکمیل کی نیز تفسیر جلالین، تفسیر بیضاوی ، کنز العمال اور حافظ سیوطی کی جامع صغیر کا درس لیا علاوہ ازیں 13 برس کی مدت ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے۔(۱۸)
کیا میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد نہ تھے :
1258ھ میں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی نے اپنے برادرخورد کے ساتھ حرمین شریفین ہجرت کی تو ان کے مسند تدریس کے وارث حضرت میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی ہوئے اور مکمل 12 سال تک دہلی میں علوم اسلامیہ کا درس دیا۔
علمائے تقلید اپنے تقلیدی تعصب کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد نہ تھے بلکہ تبرکاً حدیث کی سند حاصل کی تھی ، باقاعدہ شاگرد مولانا شاہ عبد الغنی مجددی( م 1296ھ) تھے ۔ ‘‘
علمائے اہلحدیث کا موقف ہے کہ
’’ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد تھے اور 13 سال ان کی خدمت میں رہ کر علوم اسلامیہ کی تحصیل کی ۔
جن علمائے کرام ، مورخین اورمقالہ نگاروں نے اپنی کتابوں میں باحوالہ لکھا ہے کہ
|’’ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگرد تھے :
اگر ان کی تحریریں ذیل میں درج کی جائیں تو مقالہ خاصا طویل ہوجائے گا صرف ناموں پر اکتفا کیا جاتا ہے اور کتاب کا حوالہ بھی پیش خدمت ہے ۔
مولانا شیخ محمد تھانوی (1296ھ)الحیاۃ بعد المماۃ ، ص:34
مولانا رحمان علی بریلوی(1325ھ)تذکرہ علمائے ہند، ص:92
مولانا سید نواب صدیق حسن خان (1307ھ)حیات شبلی ، ص:46
مولانا شمس الحق ڈیانوی(1329ھ ) مقدمۃ غایۃ المقصود ، ص:11
مولانا محمد ادریسبگرامی(1330ھ)تذکرہ علمائے حال ، ص:92
حکیم سید عبد الحی الحسنی(1341ھ)نزھۃ الخواطر 8/498
مولانا عبد الرحمان مبارکپوری (1353ھ) مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ، ص:52
مولانا عبید اللہ سندھی (1363ھ)حاشیہ المسوّی من احادیث الموطا امام مالک ، ص:11
علامہ سید سلیمان ندوی (1373ھ)حیات شبلی، ص: 41و46۔مقالات سلیمان ، 2/52،53
مولانا عبد المجید سوہدروی (1959ء )سیرت ثنائی ، ص:97 طبع اول
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشیروی (1386ھ)تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:138۔ ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص:20
شیخ محمد اکرام (1396ھ )موج کوثر ، ص:68
مولوی بشیر احمد دہلوی (1921ء )دلی اور اصحاب دلی ، ص:132
پروفیسر خلیق احمد نظامی (1418ھ )تاریخی مقالات ، ص:253
مولانا نسیم احمد امروہی ۔الفرقان لکھنو فروری ،مارچ 1977ء
مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی (1375ھ )تاریخ اہلحدیث ، ص416 طبع اول
پروفیسر محمد مبارک(کراچی)۔حیات شیخ سید محمد نذیر حسین دہلوی، ص:6
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی۔ مولوی نذیر احمد دہلوی احوال وآثار ، ص:46
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (1999ء)تاریخ دعوت وعزیمت 5/359
محترمہ ڈاکٹر ثریا ڈار ۔شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات ، ص:163
مولانا قاضی محمد اسلم سیف(1417ھ)تحریک اہلحدیث تاریخ کے آئینے میں ، ص:325(۱۹)
سید رئیس احمد جعفری ندوی(1968ء )بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد ، ص: 281
مولانا محمد اسحق بھٹی(2015ء)دبستان حدیث ، ص:33
---
مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ1895ءمیںحضرت الامام سید عبد الجبار غزنوی کے گھر بمقام امر تسر پیدا ہوئے آپ سید عبداللہ غزنوی کے پوتےہیں ۔
تعلیم:
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید عبد الجبار غزنوی ،مولانا عبدا لاول سے حاصل کی ۔اردو اورحساب کی تعلیم مولانا گل محمدسے حاصل کی جنہیں سید عبد الجبار غزنوی نے مدرسہ غزنویہ میں رکھا ہوا تھا دہلی ان ایام میں علوم دینیہ کا مرکز تھا اور آپ کا دل وہاں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیتا ب تھا لیکن اپنے والد گرامی سے اس قدر مرعوب اور ہیبت زدہ تھے کہ ان سے اجازت لینے کی جرأت نہ کرسکے بلکہ دہلی پہنچ کر والد گرامی حضرت الامام عبدالجبار غزنوی کو خط لکھااور دہلی میںقیام کی اجازت چاہی ۔آپ اس مادر علمی سے فیضیاب ہونے کے لیے بے قرار تھے جہاںسے سید عبدا للہ غزنوی اور حضرت الامام عبدا لجبار غزنوی فیضیاب ہو چکے تھے اور یہ درسگاہ میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی تھی مولانا سید داؤد غزنوی کو استاذ الاساتذہ حضرت عبداللہ غاز ی پوری رحمہ اللہ سے علم حدیث پڑھنے کا شرف حاصل ہوااور حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ حضرت میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ سے فیضیاب ہوئے اورحضرت میاں صاحب رحمہ اللہ نے حضرت شاہ محمداسحاق رحمہ اللہ سے استفادہ کیاحضرت شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے خلف الرشید تھے اور نواسےبھی تھے اور شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے والد ماجد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے جانشین تھے ۔
حضرت سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے علوم عقلیہ مولانا سیف الرحمٰن سے اکتساب کیا ۔
عملی زندگی کا آغاز:
مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے شہر امرتسر واپس تشریف لے آئے اور بڑی مستعدی اور ذوق وشوق کے ساتھ اپنی آبائی درسگاہ مدرسہ غزنویہ میں تفسیر اور حدیث کا درس دینے لگے اورایک عرصہ تک کتاب وسنت کے چشمہ صافی سے تشنگان علوم اسلامیہ کی پیاس بجھاتے رہے اور اس زمانے میں تدریس کے ساتھ ساتھ تبلیغ واشاعت دین ،تحریک آزادی وطن سے دلچسپی اور کمال خطابت کی وجہ سے امرتسر میں اپنا ایک مقام پیداکرلیا تھا۔آپ کو جو علمی اور روحانی میراث ملی تھی وہ اسکے سزاوار بھی تھے اور امین بھی اگر آپ نےاپنا دامن سیاست میں الجھایا نہ ہوتا یا سیاست نے آپ دھاوانہ بولا ہوتا اورآپ کی سرگرمیاں علمی حد تک محدود رہتیں تو بلاشبہ آپ کے فیوض وبرکات لازوال صورت اختیار کرلیتے ۔آپ کا کتب خانہ بے مثل تھا آپ سفر وحضرمیں ، ریل اور جیل میں بھی مطالعہ کے عادی تھےآ پ تمام علوم پر وسیع نظر رکھتےتھے ،ذہانت و فطانت میں لاثانی شخصیت تھے زہد وورع ،علم وفضل، تحقیق و دانش ،عبادت و ریاضت ،جرأت و مردانگی اور وجاہت آپ کو وراثت میں ملی تھے ۔
آپ بر صغیر کے ایسے دو دھان عالی سے تعلق رکھتے تھے جن کے عملی وروحانی فیوض کے احساس سے پاک وہندکے لوگ سبکدوش نہیں ہوسکتے۔
سیاست میں حصہ:
سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اصلاً مدرس تھے اور تدریس کرنا چاہتے تھے لیکن حالات کی سنگینی اور وقت کے تقاضوں نے انہیں سیاست میں آنے پر مجبور کردیا،مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پنجاب میں جمعیت علماء کی بنیاد رکھی اور خلافت کمیٹی کی طرح ڈالی نتیجتاً تین سال قید بامشقت ہوئی دوسری مرتبہ1925ء میںپکڑے گئے تیسری مرتبہ 1927ءمیں سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کی تحریک میں گرفتار کیے گئے مجلس احرارکا قیام ہواآپ اسکے بانیوں میں سے تھے ایک عرصہ تک اس کے سیکٹری وجنرل رہے ۔کشمیر ایجی ٹیشن میںچوتھی مرتبہ قید ہوئے ۔تحریک مقل پورہ اور تحریک کپور تلہ میں بھی گرفتار ہوئے ۔ہندوستان چھوڑدو تحریک میں تقریباً تین سال جیل میں رہے۔دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں گرفتار ہوئے 1945ء میں صوبہ پنجاب کے کانگریس کے صدر چنے گئے 1946ء کا الیکشن دھاری والاکی لیبر سیٹ سے لڑا اورپنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1946ءمیں کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شا مل ہوگئے۔
پاکستان بنا تو سید حسین شہید سہروردی ،نواب افتخار حسین ممدوٹ ،میاں عبدالباری چوہدری محمد افضل چیمہ اور مولانا عبدالستار خان نیازی سے مل کر جناح عوامی مسلم لیگ قائم کی مارچ 1951ءکے صوبائی انتخابات میں پتوکی مہاجر سیٹ سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔آپ چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس رکھتے تھے ۔آپ سر دےسکتے تھے ،ضمیر کا سودا نہیں کرسکتے تھے ،مرسکتے تھے لیکن جھک نہیں سکتے تھے ۔آپ نہ ہی دبنے والے تھے اور نہ ہی ڈرنے والے تھے ،آپ اپنے دور میں سب سے زیادہ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے متأثر تھے ،آپ کے صاحبزادےپروفیسرابو بکر غزنوی لکھتے ہیں کہ:
میںنے ایک دفعہ ان سے پوچھا کے آپ نے لیگ میں شامل ہوتے وقت ابوالکلام آزاد سے مشورہ کیا تھا؟تو فرمانے لگےکہ اگر انکے پاس مشورے کے لیے چلاجاتا تو مجھے کبھی مسلم لیگ میں شامل نہ ہونے دیتے قرین مصلحت یہی تھی کہ لیگ میں شمولیت کے اعلان کے بعد ان سے ملاقات کرتا۔
صحافت کے میدان میں:
مولا نا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے یکم اپریل 1927ءکو امر تسر سےہفتہ وار(توحید) کا پہلا شمارہ شائع کیا اوراس کے سرورق پر یہ دعا اور اس کا ترجمہ لکھا :
رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا
اے میرے رب مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور مجھے نکال عزت کا نکالنا اور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت عطا فرما(سورۃ الاسراء 80)
اور توحیدکی پیشانی پر ہمیشہ یہ آیت مرقوم ہوتی تھی
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ( سورۃ ال عمران139)
اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔
مجلہ توحید تبلیغی مضامین کے علاوہ آپ نے بلند پایہ علمی اور تحقیقی مضامین بھی لکھےایک مضمون ’’ایام ھدایت اور امام سیاست‘‘ کے عنوان سے تین اقساط میں لکھا جس میں منصب امامت پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی۔ایک تحقیقی مضمون تدوین حدیث پر لکھا جس کا عنوان ’’تاریخ جمع و تدوین احادیث رسول اللہ ﷺ‘‘تھا اس مضمون میں تحقیق پیش کی کہ عہد نبویﷺ اورعہد صحابہ و تابعین میں حدیث کا کتنا سرمایہ ضبط تحریر میں آچکا تھا اور آیتیعلمہم الکتاب والحکمۃ اور ثم ان علینا بیانہکی تشریح بھی فرمائی آپ اپنے ہم عصر صحافیوں سے کبھی کبھار نوک جھونک بھی کیا کرتے تھے ۔
مجلہ’’ توحید‘‘ میں لکھنے والے:
توحید میں سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے علاوہ بہت سے ممتاز علماء اور مقتدر ہستیوں کے مضامین شائع ہوتے رہے جن میں سے چند کےاسماء گرامی یہ ہیں ۔
1۔مولا ناسید سلیمان ندوی
2۔مولانا ابو الکلام آزاد
3۔مولاناعبد الواحد غزنوی
4۔قاضی محمد سلیمان منصور پوری
5۔مولانااسماعیل غزنوی
6۔مولانامحمد علی قصوری ایم اے
7۔مولانا محی الدین قصوری۔
۔۔۔