Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

بنی اسرائیل کے تین بندوں کی کہانی رسول اللہ ﷺکی زبانی

04 Nov,2018

پیارے بچو ! رسول کریم اللہ ﷺ نے فرمایا : پچھلے زمانے میں ( بنی اسرائیل میں سے ) تین آدمی کہیں سفر پر جا رہے تھے کہ اچانک انھیں بارش نے آلیا تو وہ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں ان پر غار کا منہ بند ہو گیا، تووہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم!ہمیں اس مصیبت سے صرف سچائی نجات دلائے گی۔ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جسے وہ جانتا ہو کہ اس میں وہ سچا ہے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا، جس نے ایک فَرَق(تین صاع) چاول کے عوض میرا کام کیا، وہ(غصے کی وجہ سے) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑگیا میں نے ان چاولوں کو کاشت کیا اور اس کی پیداوار سے گائے بیل خرید لیے۔ ایک دن وہی شخص میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری طلب کی تو میں نے کہا: یہ گائے بیل تیرے ہیں، انھیں ہانک کر لے جاؤ۔ اس نے کہا کہ تمھارے پاس میری اجرت صرف ایک فرق (تین صاع)چاول ہیں۔ میں نے اسے کہا: یہ سب گائے بیل لے جاؤ کیونکہ یہ اسی ایک فَرَق(چاولوں)کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ (اے اللہ!)اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہم سے یہ پتھر ہٹا دے، چنانچہ اسی وقت وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گیا۔ پھر دوسرےشخص نے کہا: اے اللہ !تو جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے۔ میں ہر رات ان کے لیے بکریاں کا دودھ لے کر جاتا تھا۔ ایک رات اتفاق سے مجھے دیر ہو گئی۔ جب میں آیا تو وہ سوچکے تھے۔ ادھرمیرے بیوی بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ اور میری عادت تھی کہ میں جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لیتا، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا۔ اب انھیں بیدار کرنا بھی مجھے گوارانہ تھا اور انھیں اسی طرح چھوڑدینا بھی مجھے پسند نہ تھا کہ وہ دونوں دودھ نہ پینے کی وجہ سے کم زور ہو جاتے، اس لیے میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہایہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل دور کردے، چنانچہ اسی وقت پتھر کچھ مزید ہٹ گیا، جس سے انھیں آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد تھی جو مجھےسب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک دفعہ اس سے اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہا مگر اس نے انکار کردیا لیکن اس شرط پر کہ میں اسے سو دیناردوں۔ میں نے مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لیے کو شش کی تو وہ مجھے مل گئی، چنانچہ میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کردی۔ اس نے خود کو میرے حوالے کردیا۔ جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو کہنے لگی:

اللہ سے ڈراور اس مہر کو ناحق نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی اٹھ

کھڑا ہوا اور سودینار بھی واپس نہ لیے۔ اے اللہ!اگر توجانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل آسان کردے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پتھر ہٹا دیا، اس طرح وہ تینوں باہر نکل آئے۔

( صحیح بخاری ؛ 3465 )

پیارے بچو ! مذکورہ واقعے سے ہمیں چند اہم نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں :

1  مصیبت میں اللہ تعالی کو ہی پکارنا چاہیے ۔

2 ہر نیک عمل خاص اللہ کی رضامندی کےلیے کرنی چاہیے ۔

3 ہر مصیبت میں دعا کا سہارا لینا چاہیے ۔

4 مزدور کو اپنا حق ادا کردینے سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔

5 امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔

6  والدین کی فرمانبرداری پر اللہ راضی ہوتا ہے ۔

7 اللہ کےلیے گناہ کو ترک کرنا بھی نیکی ہے ۔

8 نیکیاں مصیبت ٹال دیتی ہیں ۔

9 دیانتدار بندہ کو باری تعالیٰ کی طرف سے اچھا صلہ دیا جاتاہے۔

0اللہ تعالی کو اپنی نیکیوں کا وسیلہ دینا جائز ہے ۔

Read more...

بنی اسرائيل کے دو بندوں کی کہانی رسول اللہ ﷺکی زبانی

05 May,2019

پیارے بچو ! رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ :

أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ ، فَقَالَ : ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ ، فَقَالَ : كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا ، قَالَ : فَأْتِنِي بِالْكَفِيلِ ، قَالَ : كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا ، قَالَ : صَدَقْتَ ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ، فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ ، ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا فَأَخَذَ خَشَبَةً ، فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا ، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى الْبَحْرِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِينَارٍ فَسَأَلَنِي كَفِيلَا ، فَقُلْتُ : كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا ، فَرَضِيَ بِكَ وَسَأَلَنِي شَهِيدًا ، فَقُلْتُ : كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا فَرَضِيَ بِكَ ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ ، حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ يَنْظُرُ ، لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ ، فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا ، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ فَأَتَى بِالْأَلْفِ دِينَارٍ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ ، قَالَ : هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ ؟ قَالَ : أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ ، قَالَ : فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الْخَشَبَةِ ، فَانْصَرِفْ بِالْأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا 

بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے دوسرے سے ایک ہزار دینار قرض کا مطالبہ کیا وہ کہنے لگا: گواہ لاؤ ! جنہیں میں گواہ بنا سکوں، وہ کہنے لگا : اللہ ہی گواہی کے لئے کافی ہے ، وہ کہنے لگا : پھر کوئی ضامن ہی لے آؤ، اس نے کہا : اللہ ہی ضمانت کے لئے کافی ہے۔ اس آدمی نے کہا: تم سچ بولتے ہو، اور اسے ایک مقررہ مدت تک ایک ہزار دینار دے دیئے۔ وہ سمندر میں نکلا، اپنی ضرورت پوری کی، جب مقررہ مدت آگئی تو اس نے سواری تلاش کی لیکن سواری نہیں ملی، اس نے ایک لکڑی لی، اسے کھرچ کر اس میں سوراخ کیا، اور ہزار دینار اس میں رکھ دیئے۔ اور اس کے مالک کی طرف ایک خط رکھ دیا پھر اس خالی جگہ کو بھر دیا اور اسے سمندر پر لے آیا کہنے لگا: اے اللہ! تجھے معلوم ہے کہ میں نے فلاں سے ایک ہزار دینار قرض لیا تھا، اس نے مجھ سے گواہوں اور ضامن کا مطالبہ کیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ اللہ ہی ضمانت کے لئے کافی ہے وہ تیری ضمانت پر راضی ہوگیا، میں نے سواری تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، تاکہ اس کا حق اسے ادا کر دوں، لیکن مجھے سواری نہیں ملی، میں اسے تیری امان میں دیتا ہوں ،پھر اس لکڑی کو سمندر میں پھینک دیا۔ وہ آدمی بھی دیکھنے نکلا جس نے قرض دیا تھا کہ شاید کوئی سواری اس کا مال لے آئے۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ لکڑی ہے جس میں اس کا مال تھا، وہ اسے جلانے کے لئے پکڑلیتا ہے ،جب اسے پھاڑ تا ہے تو اس میں مال اورخط دیکھتا ہے وہ اسے لے لیتا ہے جب وہ آدمی آتا ہے تو اس سے کہتا ہے مجھے کوئی سواری نہیں ملی تھی۔ اس قرض دار نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے وہ مال ادا کر دیا ہے جو تم نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ تب وہ شخص ہزار دینار لے کر واپس پلٹ گیا۔( صحیح بخاری : 2291 )

ایک روایت کے مطابق اس نے خط میں لکھا کہ یہ خط فلاں کی طرف سے فلاں کی جانب ہے،میں نے تیرا مال اس ضامن کے حوالے کردیا ہے جس نے میری ضمانت دی تھی۔واقعی اس اسرائیلی مومن نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک ہزار دینار کی خطیر رقم اللہ کے حوالے کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے گمان کو صحیح کر دکھایا۔اگرچہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں ہر چیز کسی نہ کسی سبب سے وابستہ ہے مگر کچھ چیزیں استثنائی طور پر وقوع پذیر ہوجاتی ہے جیسا کہ یہ واقعہ ہےمزید براں یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے شخصی کفالت کو ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اس واقعے کو بطور مدح وتعریف ذکر کیا ہے،اگر اس میں کوئی چیز خلاف شریعت ہوتی تو رسول اللہ ﷺاسے ضروربیان فرماتے۔اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے لیے وقت مقرر کیا جاسکتا ہے اور پھر اس مقررہ وقت پر اس کی ادائیگی واجب ہے،نیز قرض کے متعلق گواہی اور ضمانت لی جاسکتی ہے۔(اختصار من: فتح الباری: 4/595)

پیارے بچو ! مذکورہ اسرائیلی قصے سے ہمیں چند نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

1 قرض لینا اور دینا دونوں جائز عمل ہیں بلکہ ثواب بھی ہے ۔

2  قرض واپس کرنے کی کوشش کرنے والے کے ساتھ  اللہ تعالی کی نصرت ہوتی ہے ۔

3  قرض دیتے وقت ضامن کا مطالبہ بھی جائز ہے ۔

4  قرضہ وقت پر لوٹانا لازم ہے وگرنہ وعدہ خلافی ہوگی اور ایسا فعل صفت مذمومہ میں شمار ہوتاہے۔

5  اللہ تعالی پر پختہ یقین ہونا چاہیے ۔

6  اللہ تعالیٰ پر توکل کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

Read more...

راہب اور جادوگر کا قصہ ۔۔۔

14 Oct,2018

پیارے بچو ! سابقہ قوموں کی بات ہے کہ ان میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا ۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہوا تو بادشاہ سے بولا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دے کہ میں اس کو جادو کی تربیت دوں ۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا  وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا ۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا ( عیسائی درویش یعنی پادری تارک الدنیا ) ، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اس کا کلام سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں ۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا ، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو ( دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا ۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا تو راہب نے کہا : جب تو جادوگر سے ڈرے ، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے ، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا ۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک رکھا تھا ۔ لڑکے نے کہا : آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر سچا ہے یا راہب ؟ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو ، تو اس جانور کو قتل کردے تاکہ لوگ گزر جائیں ۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے ۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے ، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا ۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا ۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا تھا ۔ یہ حال جب بادشاہ کے مصاحب جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا : یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے ۔ لڑکے نے کہا : میں کسی کو اچھا نہیں کرتا ، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا ۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا ۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا ۔ بادشاہ نے کہا : تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا : میرے مالک نے ۔ بادشاہ نے کہا : میرے سوا تیرا مالک کون ہے؟ وزیر نے کہا : میرا اور تیرا مالک اللہ ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب دینا شروع کیا ، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا ۔ وہ لڑکا بلایا گیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا : اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہے اور بڑے بڑے کام کر گذرتا ہے؟ وہ بولا : میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا

بلکہ اللہ اچھا کرنے والا ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور

مارتا رہا ، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتا دیا ۔ راہب پکڑ لیا گیا ۔ اس سے کہا گیا : اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا ، یہاں تک کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا ، اس سے کہا گیا : تو اپنے دین سے پھر جا ، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا ، اس سے کہا : اپنے دین سے پلٹ جا ، اس نے بھی نہ انکار کیا ۔ تو بادشاہ نے اسے اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو ، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، نہیں تو اس کو گرا دو ۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا ۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا ۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے ۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا ۔ بادشاہ نے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ اس نے کہا : اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا ۔ وہ لوگ اس کو لے گئے ۔

لڑکے نے کہا : الٰہی ! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے ۔ وہ کشتی الٹی اور لڑکے کے سوا سب لوگ ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آ گیا ۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا : اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا : تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا ، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے ۔ بادشاہ نے کہا : وہ کیا؟ اس نے کہا : تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ ، پھر کہہ : اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ پھر تیر مار ۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کر سکے گا ۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا ، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا ، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا ۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا ۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا : ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ۔ کسی نے بادشاہ سے کہا : اللہ کی قسم ! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے ۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا ۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا : جو شخص اس دین سے ( یعنی لڑکے کے دین سے ) نہ پھرے ، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو ، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا ، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا ، اس عورت نےآگ میں گرنے سے تردد کیا تو بچے نے کہا : اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔( صحیح مسلم : 7511 )

پیارے بچو! مذکورہ قصہ سے ہمیں بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوئی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں ۔

n بنی اسرائیل کے صحیح سند سے ثابت شدہ واقعات بیان کرنا درست ہے ۔

nاللہ کے ولی ہی کامیاب ہوں گے ۔

nسحر و جادوگر ہمیشہ ناکام ہی رہے ہیں ۔

nاچھی مجلس میں شرکت کرنے کے لیے جھوٹا بہانا بنایا جاسکتا ہے ۔

nجادوگر کا وقتی طور پر اثر ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کو سیکھنا اور سکھانا گمراہی اور کفر ہے ۔

nمذکورہ واقعہ سے دینی علم اور اس کے طالب علم کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔

nبرے اور اچھے کو آزمائیں اچھے کو اپنائیں اور برے سے پرہیز کریں ۔

nہر چیز اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو کرتا ہے وہ اپنی قدرت سے کرتا ہے ۔

nاہل حق کا توکل و اعتماد صرف اللہ تعالی پر ہی ہوتا ہے وہ کسی باطل قوت سے لرزہ نہیں کرتے ۔

nحق پر آزمائشیں آئیں گی لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑنا۔

nدین پر استقامت اختیار کرنے والے کے نتائج انتہائی خوبصورت اور کامیابی والے ہوتے ہیں ۔

nظالم کے ظلم سے بچنے کے لیے بارگاہ الہی میں دعائیں کرنی چاہیے ۔

nاللہ والوں کی کشتی نہیں ڈوبتی یعنی وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔

nجب انسان اللہ کے تابع ہوجائے تو ساری مخلوق اس کے تابع ہو جاتی ہے ۔

nراہ الہی میں بال بچوں کی قربانی دینا آخرت میں کامیابی کا پختہ یقین ہے ۔

nانجام کے اعتبار سے ہمیشہ حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل مغلوب ہوتا ہے ۔

Read more...

بنی اسرائیل کے تین بندوں کی کہانی رسول اللہ ﷺ کی زبانی - قسط 2

02 Dec,2018

پیارے بچو ! رسول اللہ‌ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے۔ کوڑھی، گنجا اور نابینا، اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانے کا ارادہ کیا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا ، فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا : تمہیں کون سی چیز سب سے پیاری ہے؟ وہ کہنے لگا: اچھا رنگ اور اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری ختم ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔ فرشتے نے اسے چھوا تو اس کی تکلیف دور ہو گئی اور اسے اچھی جلد مل گئی۔فرشتہ کہنے لگا: تمہیں کونسا مال پسند ہے ؟ وہ کہنے لگا : اونٹ یا گائے (اسحاق کو شک ہے) لیکن کوڑھی یا گنجے میں سے کسی ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کہا تھا۔ اس فرشتے نے اسے حاملہ اونٹنی دے دی اور دعا کی کہ: اللہ تمہارے لئے اس میں برکت دے۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں کونسی چیز پیاری ہے؟ وہ کہنے لگا: اچھے بال اور مجھ سے یہ تکلیف دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے حقیر سمجھتے ہیں۔ فرشتے نے اسے چھوا تو اس کی تکلیف دور ہو گئی اور اسے خوب صورت بال مل گئے، پھر فرشتے نے کہا: تمہیں کونسا مال پسند ہے ؟اس نے کہا: گائے ، اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور اس کے لئے دعا کی: اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے۔ پھر وہ نابینا کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں کونسی چیز سب سے پیاری ہے؟وہ کہنے لگا: اللہ مجھے میری بصارت واپس لوٹا دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں، فرشتے نے اسے چھوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی، پھر فرشتے نے کہا: کونسا مال تمہیں زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: بکری، اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی، اونٹنی اور گائے نے بھی بچے دئیے اور اس بکری نے بھی ۔ ایک کی اونٹوں کی وادی ہوگئی، دوسرے کی گائے بیل کی وادی ہوگئی اور تیسرے کی بکریوں کی وادی ہوگئی۔ پھر وہ کوڑھی کے پاس اس کی صورت اور حالت میں آیا اور کہنے لگا: میں ایک مسکین آدمی ہوں ،سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے،آج میں اپنی منزل پر سوائے اللہ، پھر تمہاری مدد کے نہیں پہنچ سکتا۔ میں تمہیں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اچھی جلد اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس پر بیٹھ کر میں اپنا سفر مکمل کر سکوں۔ وہ کہنے لگا: حقوق بہت زیادہ ہیں۔ فرشتہ اس سے کہنے لگا: شاید میں تمہیں جانتا ہوں، کیا تم کوڑھی نہیں تھے جس سے لوگ گھن کیا کرتے تھے؟پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا؟ وہ کہنے لگا: نہیں مجھے تو یہ مال باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے ۔فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی صورت میں لوٹا دے جس میں تم تھے ۔پھر وہ گنجے کے پاس اسی کی صورت میں آیا اور اسے بھی وہی بات کہی۔ گنجے نے بھی وہی بات کہی جو کوڑھی نے کہی تھی۔ فرشتہ کہنے لگا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت کی طرف لوٹا دے۔ پھر وہ نابینا کے پاس اس کی صورت اور حالت میں آیا،کہنے لگا: ایک مسکین اور مسافر آدمی ہوں ،سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے، اللہ، پھر تمہاری مدد کے بغیر میں

اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ میں اس ذات کا واسطہ دے

کر جس نے تمہیں بینائی لوٹائی ، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں جس کے ذریعے میں اپنا سفر مکمل کر سکوں ،وہ کہنے لگا: میں نابینا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے میری بینائی لوٹائی ،جو چاہو لے لو، جسے چاہو چھوڑ دو، واللہ! آج تم جو بھی اللہ کے لئے لو گے میں تمہیں منع نہیں کروں گا۔ فرشتہ کہنے لگا: اپنا مال سنبھال کر رکھو، کیونکہ تمہاری آزمائش کی گئی تھی (اللہ تعالی) تم سے خوش ہوگیا جب کہ تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا۔

پیارے بچو ! مذکورہ قصے سے ہمیں بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوئی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔

1بیماری بھی اللہ عزوجل کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے ۔

2  اللہ عزوجل اپنے ہر بندے کو آزماتا ہے ۔

3 آزمائش الہی پر صبر کرنے والے کے لیے بہت سارے انعامات کا اعلان کیا گیا ہے ۔

4 آزمائش الہی پر صبر نہ کرنے والے کےلیے خسارہ ہے۔

5  فقیر کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے ۔

6  ہر نعمت اللہ تعالی کی جانب سے ہے بندے کا اپنا کچھ بھی نہیں ۔

7  اللہ تعالی کے راہ میں خرچ کرنا مال میں اضافہ کا سبب ہے ۔

8  بخل اور کنجوسی مال میں کمی کا سبب ہے ۔

9  اللہ تعالی کے راہ میں خرچ نہ کرنے سے اللہ عزوجل ناراض ہوتا ہے ۔

0  مسافر کا خیال کیا جائے اس پہ اللہ راضی ہوتا ہے ۔

۔۔۔

 

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول