یہ تیسری صدی قبل مسیح سے ہی تجارتی نقطہ نظر کے لحاظ سے ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ اس کا پتھر کے زمانے والا نام دلمون (Dilmun) اب متروک ہو چکا ہے۔فارس نے چوتھی صدی عیسوی میں اس پر شب خون مارااور مسند حکومت پر براجمان ہو گئے۔ پھر عربوں کو اپنے بازوؤں پر فخر محسوس ہوا تو جنگ و جدل کے ذریعے قابض ہوئے، یہاں تک کہ 1541ء میں پرتگالیوں نے شورش و ہنگامہ آرائی کر کے حملہ و قبضہ کر لیا۔ 1602ء میں دوبارہ فارس نے اپنے مقدر کو جگانے کی کوشش کی اور ننھی سی اس ریاست پر اپنا حق جتانے لگے کہ یہ تو ہمارا ہی ہے اور مالک بن بیٹھے۔ پھر 1783ء میں احمد ابن الخلیفہ و ہمنوا نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ اس پر تو ہم بھی قابض ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ فاتح قرار پائے مگر 1820ء میں برطانیہ نے اپنے دل و دماغ میں حکومت کرنے کی ٹھانی یہاں تک کہ ڈیڑھ صدی یعنی کہ 151سال تک طویل حکمرانی اور اپنی طاقت کے جوہر دکھلاتے رہے۔ بہرکیف 15دسمبر 1971ء میں برطانیہ سے غلامی کی بیڑیاں تڑاخ تڑاخ کر کے توڑ کر آزادی کا سورج دیکھنے والا، خلیج فارس کا ایک چھوٹا ساخطہ جسے ہم نقشہ دنیا میں ’’بحرین‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ملک ہذا نے خود کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے بیکراں تگ و دو کی۔یہ دنیا کے اہم ترین آبی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1930ء میں تیل دریافت کیا گیا تھا حالانکہ یہ دیگر خلیجی ممالک سے کافی چھوٹا بھی ہے۔

694مربع کلومیٹرز رقبہ پر محیط قطر اور سعودی عرب کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک ہے ۔یہودی، عیسائی مذاہب کے ماننے والے بھی موجود ہیں مگر 80فیصد مذہب اسلام کے پیرو کار ہیں۔ اس ملک میں 12 لاکھ افراد زندگی بسر کر رہے ہیں۔سرکاری زبان تو اس کی عربی، لیکن انگریزی، اردو اور فارسی بولنے والے بھی موجود ہیں۔جبکہ ملک بحرین میں کثیر تعداد غیر ملکیوں کی ہے جن میں 50تا 60ہزار پاکستانی افراد بھی شامل ہیں۔ جو حصولِ روزگار کے لیے اپنے ملک اور گھروں کو خیر باد کہہ کر یہاں مصروف ہیں۔ اس کی مغربی سمت میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے دو عظیم شہروں کا حامل ملک سعودی عرب ہے جس سے 25کلو میٹرز طویل سمندر کے اوپر شاہ فہد پُل کے ذریعے آمد و رفت ہے۔ ملکی تقسیم کے اعتبار سے کل پانچ صوبے ہیں۔ جو جنوبی شمالی عاصمہ، محرق اور وسطیٰ کے نام سے جانے جاتے ہیں جبکہ مناما، محرق، مشرقی رفاع، مغربی رفاع، حمد سٹی، عیسیٰ سٹی، الحد، جد حفص، عوالی، زاید سٹی، الزلاق، عراد، عوالی، البدیع پر مشتمل ہیں ۔اس ملک کا دارالحکومت مناما ہے اور مزید بڑے بڑے شہر، محرق، رفاع، مدینہ حمد، عالی، مدینہ عیسیٰ، سترہ، البدیع، جد حفص، المالکیہ، العدلیہ، الجسرہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سٹینڈرڈ وقت کے مطابق اس ملک کاوقت دو گھنٹے پیچھے ہے۔

تعلیمی میدان میں دنیا کا مقابلہ کر نے کے لیے چند مشہور یونیورسٹیاں قائم ہیں جن کے نام یہ ہیں:

الاھلیہ یونیورسٹی، رائل یونیورسٹی فار وومین، کنگڈم یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج آف بحرین، یونیورسٹی آف بحرین،گلف یونیورسٹی، دلمون یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، عربین گلف یونیورسٹی، اپلائیڈ سائنس یونیورسٹی، A.M.A انٹرنیشنل یونیورسٹی، نیو یارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی۔

دنیا سے فضائی رابطے کے لیے بحرین انٹرنیشنل ائیرپورٹ مناما، محرق ائیرپورٹ محرق،آف لائن پوائنٹ ائیر پورٹ مناما بھی قائم ہیں۔ بحرین کے ساحلی شہر الجسرہ سے سعودی عرب کے ساحلی شہر الخبر کا فاصلہ 29کلو میڑز ہیں۔ بحرین کی زراعت اور کھیتی کی زمینیں چھوٹے چھوٹے ٹیلوں اور وادیوں میں ہے۔ بحرین کے شمال کا ساحلی علاقہ اپنی زرخیزی کی مثال آپ ہے اسی لیے اکثر باغات اور فصلیں اس علاقہ میں ہی ہے۔ کم و بیش اس 5مربع کلو میٹرز پر مشتمل اس حصے میں وہ سب کچھ اللہ نے عطا کیا ہے جو باشندوں کو ضرورت ہے۔ یہ علاقہ شمال سے مشرق تک کجھوروں سے بھرا ہوا ہے۔ مزید اس میں ڈرائی فروٹ، خرمے، بادام، آنار، کیلے، انجیر، آم، انگور، اور مختلف انواع و اقسام کی سبزیاں ہیں۔ بحرین کا سب سے اونچا علاقہ جبل الدخان ہے۔ جبکہ آب و ہوا کے لحاظ سے عمومی موسم گرم ہے۔ المونیم مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے زیادہ بحرین میں ہوتا ہے۔یہاں غیر ملکی اور انٹر نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ آفس ہیں اور یہاں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا بھی ہے۔ بحرین عرب لیگ اور خلیجی تعاون کونسل کا ایک اہم رکن ہے۔ موجودہ بادشاہ کا نام حمد بن عیسیٰ اور وزیر اعظم خلیفہ بن سلمان الخلیفہ ہے جو کہ احمد ابن الخلیفہ کے خاندان سے ہی ہیں۔ملک بحرین میں سکہ رائج الوقت بحرینی دینار ہے۔ اب ایک دلچسپ نام والی دکان کا تعارف کرواتا ہوں کہ شارع عیسیٰ الکبیر کی ذیلی سڑک، عمار بن یاسر روڈ پر کم و بیش 80ہزار انواع و اقسام میںضروریات زندگی کی اشیاء والی سپر دکان ہے جس کا نام ہے (آخر فرصۃ ،Last Chance )۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے