Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

روایات میلاد تحقیقی تاریخی وتنقیدی جائزه

12 Feb,2012

روایات میلاد تحقیقی تاریخی وتنقیدی جائزه

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے واقعات جو عمومی طور پر کتبِ سیرت و میلاد میں پائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کی کوئی اصل نہیں ہے اور مستند کتب احادیث میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور ان کا اصل ماخذ کتب دلائل معجزات و تاریخ ہیں جن میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔ ان کتب کی تالیف کا مقصد عمومی طور پر ایسے تمام واقعات کا احاطہ کرنا تھا جس میں صحیح و سقیم ، قوی و ضعیف کو مد نظر نہیں رکھا گیا گو کہ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں بھی بڑی تعداد میں ضعیف اور منکر روایات پائی جاتی ہیں کیونکہ تاریخ کی کتب میں موجود روایات کے نقد و تحقیق پرمكمل توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر علوم کے اصول کی طرح ابھی تک اصولِ تاریخ وضع نہیں کئے گئے گو کہ ان روایات کا تعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اصولاً تو احادیث کی طرح ان کی نقد و تحقیق کے اصول وضع کئے جانےچاہیے تھے لیکن اصولِ تاریخ کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ضعیف اور موضوع روایات كا مكمل رد نہ ہوسکا۔

شاہ ولی اللہ رحمه الله لکھتے ہیں:

ان کتب میں زیادہ تر تو وہی روایات جمع کرنے کا قصد کیا گیا ہے جو حدیث کی مستند کتب میں شامل نہیںکی گئی تھیں یہ روایات عام طور پر قصہ گو واعظین کی زبان زد تھیں جو ان سے محض رونق محفل کا کام لیتے تھے ان کتب کے مولفین نے اسرائیلیات، قصص و حکایات اور حدیث کے مختلف ٹکڑوں کو حدیث کا درجہ دےکر باقاعدہ کتابوں میں مدون کیا۔(شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ جلد1، ص 133)

بر صغیر پاک و ہند میں جو کتب میلاد ناموں کی حیثیت سے رائج ہیں ان کے ماخذ درج ذیل کتب دلائل و معجزات ہیں

۱۔ دلائل النبوۃ، حافظ ابو نعیم رحمه الله            (430ھ)

۲۔ دلائل النبوۃ، البیہقی رحمه الله    (923ھ)

۳۔ المواھب اللدینہ، القسطلانی رحمه الله(923ھ)

۴۔ معارج النبوۃ ،   ملا معین الدین الھروی رحمه الله (907)

۵۔ الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، قاضی عیاض موسیٰ رحمه الله (544ھ)

الخصائص الکبریٰ،حافظ سیوطی رحمه الله           (911ھ)

مدارج النبوۃ، حافظ شاہ عبد الحق دھلوی رحمه الله (1052ھ)

میلاد ناموں کا دوسرا بڑا ماخذ کتب ِ سیرت ہیں جن میں قدیم ترین امام ابن اسحاق، علامه واقدی، ابن سعد، طبری کی کتب ہیں۔ عمومی طور پر متاخرین نے جتنی بھی کتب تالیف یا تصنیف کیں وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ انہی کتب سے ماخوذ ہیں۔ ان کتب کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو جو صورتِ حال ہمارے سامنے آتی ہے وہ درج ذیل ہے۔

کتب دلائل معجزات میں حافظ ابو نعیم رحمه الله اور بیہقی رحمه الله کی دلائل النبوۃ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں کیونکہ بعد میں حافظ القسطلانی نے انہی دو کتب کی روایات کو بغیر نقد اور تحقیق کے اپنی کتاب المواھب اللدینیہ میں جمع کردیا جس میں صحیح روایات کی تعداد کم اور ہزاروں موضوع اور ضعیف روایات درج کی گئی ہیں۔ بعد میں ملا معین الدین الھروی رحمه الله نے معارج النبوۃ میں انہی روایات کو فارسی زبان میں بیان کیا چونکہ اس وقت بر صغیر کی علمی و معاشرتی زبان فارسی تھی، لہٰذا اس کتاب کی روایات کو پھیلنے میں زیادہ دیر نہ لگی اور برصغیر کی عمومی تاریخ میں یہ ویسے بھی بے راہ روی کا دور تھاجس میں یونانی فلسفہ اور تصوف کی تعلیمات کو اسلام کے نام سے پیش کیا جا رہا تھا۔ یونانی فلسفہ اور تصوف میںہندوانہ افکار کے حاملین صوفیاء نے اس تمام مواد کو اسلام کی طرف منسوب کرکے پیش کیا۔ جس کی وجہ سے میلاد ناموں کی ان ضعیف روایات کو جگہ بنانے میں آسانی ہوئی جن کے ضعف کی سب سے بنیادی دلیل یہ تھی کہ یہ تمام روایات بغیر سند کے بیان کی گئی تھی اور اسرائیلیات، اخبارِ یہود اور بے بنیاد عجیب و غریب روایات و حکایات سے بھرپور تھی، المواھب اللدینیہ اور معارج النبوۃ کے علاوہ دلائل النبوۃ کے نام سے موسوم دونوں کتب بھی غیر معتبر اور موضوع روایات پر مشتمل ہیں چونکہ ان کے مؤلفین نے ان روایات کو بغیر نقد و تحقیق کے قبول کرلیا تھا اور انہیں کتب میں درج کردیا اوربعد میں آنے والوں نے ان مولفین کی جلالت شان دیکھ کر ان روایات کو بلا نقد و تحقیق قبول کرلیا، ان روایات کو بیان کرنے والے ایسے راوی تھے جو ائمہ جرح و تعدیل کی آراء کے مطابق قطعاً احتجاج و اعتبار کے قابل نہ تھے۔

یہی وجہ ہے کہ حافظ ابو نعیم رحمه الله، تساہل پسندی، موضوع روایات پر سکوت اور روایات کے نقل و جمع كرنے میں شمار هوتے ہیں۔ حافظ ابو نعیم رحمه الله پر اُن کے ہم عصر حافظ ابن مندہ رحمه الله نے بعض اوقات سخت الفاظ میں تنقید کی جس پر حافظ الذھبی رحمه الله نے میزان الاعتدال میں تحریر کیا: مجھے ان دونوں کا اس سے زیادہ غلطی معلوم نہیں کہ یہ موضوع روایات کو خاموشی کے ساتھ روایت کرجاتے هیں ۔ (56/1)

حافظ ابو نعیم رحمه اللهکے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله کتاب التوسل میں بیان کرتے ہیں ۔ فضائل اعمال وغیرہ میں جن لوگوں نے کتب تصنیف کی مثلاً ابن السنی اور ابو نعیم وغیرہ ان کی کتب میں بہت سی روایات موضوع ہیں جن پر اتفاق کرنا، اعتبار کرنا، باتفاق العلماء جائز نہیں۔(ص193)

اور اس کتاب میں ایک مقام پر تحریر کیا کہ وہ فضائل اعمال وغیرہ میں بکثرت روایات بیان کرتے ہیں جن میں صحیح و حسن، ضعیف بلکہ موضوع اور بے بنیاد روایات بھی ہوتی ہیں۔(ص201)

قاضی عیاض رحمه الله نے اپنی مشہور کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ میں ایسی روایات بغیر کسی سند کے تحریر کیں اور یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ میلاد ناموں میں پائی جانے والی روایات اس کتاب میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔

اس کتاب کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله نے تحریر کیا:

’’اس طرح کی روایات پر شریعت کی بنیاد جائز نہیں بلکہ جمہور مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان روایات سے دین میں کوئی حجت نہیں لی جاسکتی کیونكه ان کا تعلق اسرائیلیات سے ہے۔‘‘(198)

متاخرین میںسے سب سے معروف کتاب جو حافظ سیوطی رحمه الله کی تالیف الخصائص الکبریٰ ہے۔ سابقہ کتب اور اس کتاب میں یہ فرق ہے کہ سابقہ کتب کا اكثر حصہ ضعیف و موضوع روایات پر مشتمل ہے جس میں سند کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ، لیکن اس کتاب کے ماخذ اس کتاب کو سابقہ کتب سے بہتر ثابت کر رہے ہیں جن میں صحاحِ ستہ یعنی بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ،جامع ترمذی کے علاوہ طیالسی، حاکم، ابو یعلیٰ، بیہقی، ابو نعیم، ابن السعد، طبرانی، ابن شاهین، ابن النجار، ابن مندہ، ابن عساکر،دیلمی، خرائطی، اور خطیب بغدادی رحمهم الله کی معروف کتب شامل ہیں۔ لیکن جب اس کتاب کے مندرجات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حافظ سیوطی رحمه الله نے اس کتاب میں ضعیف، موضوع، صحیح، سقیم ہر قسم کی روایات بغیر اسناد کے درج کردی ہیں اور ایک حیران کن امر یہ ہے کہ حافظ سیوطی رحمه الله نے ان کتب میں بعض ایسی روایات کو بھی درج کردیا جو ان کے نزدیک ضعیف تھیں یا جن روایات کی بابت انہیں علم تھا کہ یہ ضعیف ہیں لیکن تساهل پسندی والا قاعدہ استعمال ہوا اور متقدمین کی کتب سے ماخوذ واقعات اس کتاب میں درج کردیئے گئے۔ چنانچہ میلاد ناموں کے حوالے سے حافظ ابو نعیم رحمه الله کے حوالے سے کچھ واقعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اس روایت میں اور اس سے قبل کی روایت میں شدید قسم کی نکارت پائی جاتی ہے میں نے اپنی کتاب میں اس سے زیادہ منکر روایات درج نہیں کی گو کہ میرا دل ان روایات کو درج کرنے پر آمادہ نہ تھا لیکن حافظ ابو نعیم رحمه الله کی پیروی میں ایسا کیا۔(ج1/ص49)

اورجن روایات کی بابت حافظ سیوطی رحمه الله یہ تحریر کر رہے ہیں وہ روایات ابو نعیم رحمه الله کی مطبوعہ دلائل النبوۃ میں موجود ہی نہیں ہیں۔

روایات میلاد کے حوالے سے بر صغیر میں سب سے اہم ترین کتاب شاہ عبد الحق محدث دھلوی رحمه الله کی مدارج النبوۃ ہے جو کہ فارسی زبان میں ہے اس کتاب کا منہج بھی حسب سابق ہے یعنی روایات بغیر سند کے درج کی گئی ہیں اور ہر قسم کی روایات بلا تعدد و تحقیق شامل تحریر کر لی گئی روایات میں ایک بڑا ماخذ کتب سیرت ہے جس میں ابن اسحاق، واقدی، ابن سعد اور طبری کی کتب شامل ہیں۔ ان میں واقدی پر شدید جرح کی گئی ہے بلکہ محدثین نے واقدی سے ترک روایت کو ہی مستحسن خیال کیا ہے۔(تذکرۃ الحفاظ، ذ ھبی ج1/ص318)

واقدی کے علاوہ ابن اسحاق پر بعض علماء نے جرح کی ہے جس کی وجہ غالبا یہی ہے کہ محدثین نے روایات حدیث میں ابن اسحاق پر زیادہ اعتبار نہیں کیا اور اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب المغازی کے ابواب میں ابن اسحاق سے ایک بھی روایت بیان نہیںکی، لیکن ایک بات اہم ہے کہ ابن اسحاق، طبری، ابن سعد کی جلالت شان کہیں بھی یہ مفہوم بیان نہیں کرتی کہ ان کی کتب صحیح ہیں بلکہ ان تینوں کی روایات میں ضعیف اور منکر روایات بھی شامل ہیں مثال کے طور پر سیرت ابن اسحاق کے بارے میں امام ابن حبان رحمه الله نے تحریر کیا: وہ روایت نقل کرنے میں فحش غلطیوں کا ارتکاب کرتے تھے اور کثیر الوھم تھے اور اگر وہ روایت کو تنہا نقل کریں اس سے احتجاج جائز نہیں۔(تہذیب التہذیب ، ابن حجر العسقلانی ج2/ص376)

اور ابن سعد امام واقدی رحمه الله کے شاگرد خاص ہیں اور ان کی نصف سے زائد روایات واقدی سے ہی اخذ کی ہوئی ہیں، جنہیں محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن سعد کی واقدی سے بیان کردہ روایات کے علاوہ باقی روایات بھی ایک کثیر تعداد غیر ثقہ راویوں سے بیان کی گئی ہیں۔(شبلی نعمانی، سیرت النبی ج1/ص49)

کتب سیرت میں ضعیف روایات کی کثرت کی معروف وجہ تو یہ ہے کہ سیرت میں کسی بھی واقعہ کی تمام تر جزئیات صحیح روایات سے نہیں مل پاتی، لہٰذا واقعات کے ایسے مقامات جو صحیح روایات میں بیان نہیں ہوئے وہ مجبوراً ضعیف اور موضوع روایات سے اخذکئے جاتے ہیں اور دوسری وجہ حدیث کی صحت میں سب سے بڑی وجہ اتصال سند ہے اور تاریخ میں اتصال سند کی کوئی شرط نہیں اور اتفاقا میلاد نامے کی جتنی بھی روایات کتب سیرت میں پائی جاتی ہیں ان تمام میں اتصال سند کی شرط نہیں پائی جاتی۔

تیسری وجہ جو صحتِ حدیث میں اہم ہے وہ راوی کا ثقہ ہونا ہے جبکہ میلاد ناموں کی روایات میں رواة کی ایک بہت بڑی تعداد ضعیف اور منکر ہے۔

چوتھی وجہ کتب سیرت کے مولفین کا یہ فہم تھا جس کے تحت روایات کی تعداد تحقیق ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب احکام و مسائل پر مبنی روایات اور احادیث سامنے ہوں اس سے ہٹ کر روایات میں نقد و تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا کتب میں صحیح روایات کے ساتھ ضعیف اور موضوع روایات کی ایک بہت بڑی تعداد جمع ہوگئی ہے ، جس کا سب سے بڑا مظہر میلاد نامے ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ اس مرجوع منهج کو اختیار کرنے والوں کی فہرست بعض نام مثلا حاکم، قاضی عیاض، حافظ سیوطی، حافظ موسیٰ المدینی، ابن عساکر، خطیب البغدادی رحمه الله اجمعین وغیرہم کبار محدثین میں شمار ہوتے ہیں گوکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی ایک توجیہہ بیان کی:

ان روایات کے بیان کرنے سے ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ مطلوبہ واقعہ میں موجود جو کچھ بھی مرویات میں پایا جائے وہ لوگوں کے سامنے لایا جائے اور ان کا مقصد ان روایات سے استدلال نہیں ہوتا تھا۔(کتاب الوسیلہ ص202)

اگرامام ابن تیمیہ رحمه الله کی اس توجیہہ کو مدنظر رکھا جائے تو جو صورت حال سامنے آتی ہے، وہ یہ هےکہ کتب تاریخ و سیرت کے علاوہ ایسی روایات کتبِ تفسیر وغیرہ میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ لیکن سوال پھر بھی موجود ہے کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ’’ سنی سنائی بات کو بیان کرنا کذب بیانی ہے‘‘ کے باوجود کتب تاریخ میں ایسی روایات کے بیان کرنے میں تساہل پسندی کیوں کر ممکن ہوئی اور یہ خیال اور تصور کس طرح ایک فہم اختیار کرگیا کہ نقد و تحقیق اوراحتیاط پسندی صرف احکام و مسائل پر مبنی روایات میں ضروری ہے۔

اس تمہیدی سطور کے بعد یہ بات کہنا آسان ہے کہ جب میلاد ناموں پر مبنی کتب کی روایات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کا سب سے بڑا ماخذ حافظ ابو نعیم، ابن عساکر ، امامطبری اور سیوطی رحمهم الله وغیرہ کی کتب ہیں۔ روایات کے ضعف کے لئے یہی کافی ہے ، درجہ اولیٰ یا دوم کی تمام کتب ان روایات سے خالی ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ولادت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق یہ روایات سرے سے ہی غیر مستند اور موضوع ہیں ان کو وضع کرنے والے قصاص اور واعظین ہیں جنہوں نے اپنے بیانات کو پر کشش بنانے کے لئے ایسے جھوٹے واقعات کا سہارا لیا اسی وجہ سے ان قصہ گو واعظین کو امام ابن الجوزی رحمه الله’’ معظم البلاء‘‘ کہتے تھے

ان روایات کے وجود میں آنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ واعظین حضرات نے اپنے تخیلات کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کو دل کش بنانے کے لئے شاعرانہ انداز میں بیان کرنا شروع کیا مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے بعد سیدہ آمنہ کا گھر منور ہوگیا، مکہ کے سوکھے درختوں میں بہار آئی، ستارے زمین پر جھک گئے، آسمان کے دروازے کھل گئے، فرشتوں نے اظہار مسرت کیا، شیطان کو باندھ دیا گیا، اس سال مکہ میں کسی لڑکی کی پیدائش نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔(سیرت النبی، شبلی نعمانی۔ص734)

اور بعد کے غیر محتاط قصہ گو افراد نے اس شاعرانہ تخیلات کو بھی امر واقعہ سمجھ لیا۔

بلکہ ہر واعظ اور قصہ گو نے اس میں اپنی طرف سے اضافہ بھی کیا ایسی روایات کی ایک واضح مثال مولانا معین الدین الھروی رحمه الله کی معروف کتاب معارج النبوۃ ہے۔

اسی وجہ سے مشہور مفسر ابو الکلام آزاد نے معارج النبوۃ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

ملا معین الدین الھروی، حکایات طرازی، روایات ضعیفہ و موضوعہ نقل کرنے میں اسرائیلیات اور اخبار یہود وغیرہ میں اپنا جواب نہیں ركھتے انهوںنے انہی سب بے سروپا روایات کو اپنی كتاب معارج النبوۃ میں فارسی میں رنگ و روغن کے ساتھ جمع کردیا چنانچہ اردو زبان میں جس قدر بھی مولود نامے لکھے گئے وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی معارج النبوۃ اور ان جیسی کتب سے ماخوذ ہیں۔ (ولادت نبوی،ابو الکلام آزاد ص81)

میلاد ناموں پر مبنی کتب میں ضعیف و منکر کے علاوہ موضوع روایات کا ایک انبار ہے ان ہی میں چند مشہور روایات درج ذیل ہیں:

۱۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا نور اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا ہے۔

۲۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کا نور پیدا کیا۔

۳۔ اے نبی ! اگر تم نہ ہوتے تو تو آسمان کو پیدا نہ کرتا۔

۴۔میں اس وقت بھی نبی تھا، جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے مرحلے میں تھے۔

۵۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ کی نبوت کب واجب ہوئی، فرمایا جب آدم علیہ السلام روح اور حکم کے درمیان تھے۔

۶۔ جس رات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت ہوئی اس رات کسری کے محل میں زلزلہ آگیا اور ۱۶ کنگرے گر گئے اور نہرساوہ خشک ہوگئی اور فارس کا آتش کدہ بجھ گیا۔

الغرض ایسی تمام روایات میں سے ایک بھی روایت قابلِ اعتبار نہیں اسی طرح کا کوئی واقعہ حدیث کی مستند کتب میں منقول نهیں ہے، یہ تمام واقعات اور روایات دلائل معجزات اور تاریخ سیرت کی کتب سے نقل کئے گئے جو بقول علامه شبلی نعمانی محتاج تنقیح ہیں۔(سیرت النبی، شبلی نعمانی ج1/ص84)

مشہور مفکر تقی امینی اپنی معروف کتاب حدیث کا درایتی معیار میں میلاد ناموں پر مبنی روایات کی تحقیق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنهم میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے وقت روایات بیان کرنے کی هو اور اگر تمام روایات واقعات مبعوث ہونے کے بعد رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بیان فرمائے ہوتے تو اتنے اہم واقعات کا تذکرہ حدیث کی مستند کتابوں میں ضرور ہوتا، یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام بڑے بڑے محدثین كرام رحمهم الله متفقہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش اور ایام طفولیت کے دلائل نبوت کو نظر انداز کردیتے اگر یہ واقعات عوام میں ایک حقیقت کے طور پر مشہور ہوتے تو اعلان نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تبلیغ رسالت میں جس قدر دشواریاں پیش آئیں وہ نہ آتیں بلکہ ہر شخص ان واقعات کی شہرت کی بناء پر ایمان لانے پر مجبور ہوتا۔(ص208)

Read more...

مختلف خود ساختہ نمازیں قسط1

07 Apr,2013


1۔    قضائے عمری  

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنی اولادوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہو جائیں او ردس برس کی عمر میںنماز نہ پڑھنے پر انہیں تنبیہاً مارو (درمنثور) لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ والدین نے اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دیا نہ رغبت دلائی ، نہ خود مسجد گئے نہ اولاد کومسجد کا راستہ دکھایا ۔ عمر عزیز کاایک طویل عرصہ گمراہیوں میں گزار کر کبھی کسی فطرتِ سلیمہ رکھنے والے کو اس کا ضمیر کچوکے لگاتا ہے اور اسے بندگئ رب العالمین کی طرف راغب کرتا ہے پھر یہ شرمندۂ نظر و قلب اللہ کے گھر میں داخل ہوتا ہے او راپنی معصیت کا ذکر اپنے پیش امام صاحب سے کرتا ہے کہ میں نے اب اللہ کے فضل و کرم سے نماز پڑھنا شروع کر دیا ہے آپ استقامت کی دعا فرمائیے ۔ ادھر سے جواب ملتا ہے کہ قضائے عمری بھی پڑھتے ہو کہ نہیں ؟ یہ سوال کرتا ہے ، جی یہ قضائے عمری کیا چیز ہوتی ہے ؟ فرماتے ہیں گیارہ برس کی عمر سے لیکر اب تک کی عمر کا حساب لگاؤ کہ کتنے برس تم نے نماز نہیں پڑھی پھر اس کے بعد اتنے ہی برس تک ہر فرض نماز کے ساتھ ان سالوں کی فوت شدہ قضاء نماز ادا کیا کرو ۔ اگر قضائے عمری ادا نہیں کرو گے تو یہ نماز بھی جو کہ تم پڑھ رہے ہو کوئی فائدہ نہیں دے گی چنانچہ عوام کی اکثریت جو کہ بے خبر رموز شریعت ہے ان جاہل ملاؤں کی بات مان کر

 

 

قضائے عمری نام کی نمازیں ادا کرتی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ قضائے عمری کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ہے نماز نہ پڑھنا بلا شک و شبہہ گناہ عظیم ہے لیکن یہ گناہ شرک کی مانند توبہ کر لینے سے معاف ہو جاتا ہے توبہ کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ اس کے سبب پچھلے تمام گناہ حق تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے اس مسلمان کے واقعے سے کون ناواقف ہو گا جس نے سو قتل کئے تھے پھر توبہ کرنے کے بعد کوئی نیکی کرنے سے قبل ہی اسے موت آگئی لیکن حق تعالیٰ نے چونکہ اس کی توبہ قبول فرما لی تھی لہٰذا صرف اسی بنیاد پر اسے اپنی جنت کا مستحق قرار فرمایا اور سنئے کہ معصیت رسول کتنا بڑا گناہ ہے غزوئہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے تین صحابیوں کا یہ گناہ بھی حق تعالیٰ نے ان کی توبہ اور استغفار کے سبب معاف فرما دیا جس کا ذکر سورئہ توبہ اور سورئہ نساء میں بیان کیا کیا ہے ۔ مشرکین مکہ کے شرک سے کون بے خبر ہے؟ انہوں نے اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ بت سجا رکھے تھے اور علی الاعلان ان بتوں کو پوجا کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور معافی مانگی تو آپ نے انہیں معاف فرما دیا پھر ان کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا لیکن ان میں سے کسی ایک کو اللہ کے رسول نے قضائے توحید بشکل قضائے عمری کا حکم نہیں دیا اس لئے کہ توبہ کر لینے سے ان کے گناہوں کو حق تعالیٰ نے معاف فرما دیا

 

 

تھا میرا خیال ہے کہ قضائے عمری پڑھنے والوں کی توبہ اللہ کے ہاں یقینا مقبول نہیں ہوتی ہے جبھی توانہیں توبہ کے ساتھ ساتھ قضائے عمری بھی پڑھنی پڑتی ہے میں کہتا ہوں کہ قضائے عمری پڑھنے والوں نے اللہ ارحم الراحمین سے ناامیدی اختیار کر رکھی ہے اور شریعت اسلامی میں قضائے عمری کی صورت میں ایک ایسا قبیح عمل ایجاد کیا ہے جس نے توبہ اور استغفار کے مفہوم کو یکسر غلط انداز میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے ۔ قضائے عمری کو عبادت سمجھنا یکسر غلط ہے اس لئے کہ عبادت صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول سے عملاً، قولاً اور تقریراً ثابت ہو جائے جبکہ قضائے عمر ی کا ان تینوں صورتوںمیں کسی ایک صورت سے بھی ثبوت نہیں ملتا ہے ۔

2۔     کفارئہ نماز

روزنامہ جنگ کراچی میں لدھیاؔنے کے ایک مولوی صاحب آپ کے مسائل اور ان کا حل نامی کالم میں اکثر لکھتے رہتے ہیں کہ جو شخص بے نمازی مر گیاہو اور اس کے وارثین اگر اُس کی نمازوں کا کفارہ ادا کرنا چاہیں تو انہیں چاہئیے کہ ہر نماز کا کفارہ ڈھائی کلو گندم فطرئہ عید کے حساب سے ادا کر دیں اس طرح اس بے نمازی کی نمازوں کا کفارہ ادا ہو جائے گا ۔لدھیاؔنے کے ان مولوی صاحب کے ساتھ دیگر مفتیان فرقہ ہائے مقلدین کا یہی فتویٰ ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ مرنے سے پہلے نماز غیر ادا شدہ کا کفارہ قضائے عمری ہے اور مرنے کے بعد نماز کا کفارہ فی نماز ڈھائی کلو گندم ہے اب ذرا حساب لگائیے کہ ایک دن کی پانچ نمازوں کا کفارہ ساڑھے بارہ کلو گندم ہوا اور ایک سال کی ۱۸۲۵ نمازوں کا کفارہ تقریباً ۴۵۰۰ کلو گرام ہوا ۔ دس سال کی نمازوں کا کفارہ ۴۵۰۰۰ کلو گرام ہوا اور بیس سال کا تقریبا ۹۰۰۰۰ کلو گرام ہوا اسی طرح حساب لگاتے چلے جائیں پھر یہ ہزاروں اور لاکھوں کلوگرام تک پہنچنے والا کفارہ بصورت گندم یا اس کی قیمت کی مساوی رقم لدھیانے کے مولوی کے ہاں جمع کرا دی جائے ادھر کفارہ جمع ہوا اور اُدھر قبول ہو گیا ۔ کیسے قبول ہو گیا ؟ کس نے قبول کر لیا ؟ یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہ تو کسی نے محسوس کی اور نہ ہی اس کاروبار لات و منات کو چلانے والے مولوی نے ا سکے بتانے کی زحمت گوارا کی ۔ کفارہ دینے والوں کو اپنے سر سے بوجھ اتارنا تھا ، سو اتار دیا شریعت اس معاملے میں کیا کہتی ہے ؟ اس بارے میں لدھیانے کے مولوی کا قول ان کے لئے کافی و شافی ہے حالانکہ قرآن مجید میں صاف صاف لکھا ہے کہ بے نمازی پکے دوزخی ہیں اگر ادائیگی کفارئہ نماز کے ذریعے یہ گناہ معاف ہو سکتا ہوتا او رکفارئہ نماز کو خود حق تعالیٰ نے مقرر کیا ہوتا یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کے مقرر کرنے کا حکم دیا ہوتا تو پھر بے نمازیوں کے حق میں اس نے کیوں فرمایا :

مَا سَلَکَکمْ فِیْ سَقَرَ ۔ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ ا لْمُصَلِّیْنَ (المدثر ۴۲،۴۳)

ترجمہ وہ جنتی پوچھیں گے کہ کونسی چیز تمہیں دوزخ میں لے گئی ؟ وہ کہیں گی کہ ہم لوگ بے نمازی تھے پھر اسی سورۃ کی اڑتالیسویں آیت میں فرمایا کہ کسی سفارش کرنے والے کی سفارش ان بے نمازیوں کے حق میں نفع مند نہیں ہو گی ۔ لیکن قرآن کے برعکس لدھیانے کے مولوی صاحب جن کاکام اختلاف امت ہی پیدا کرنا ہے مسلسل یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ ڈھائی کلو گندم فی نماز کفارہ نکالو نہ صرف وہ بلکہ ساری ہی مفت خور مفتی یہی فتویٰ دیتے ہیں اور کفارہ کھانے کے لئے اپنے مدارس کوپیش کرتے ہیں جہاں ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کی دھومیں مچی ہوئی ہیں کفارئہ نماز کی حقیقت بخاری و مسلم میں صرف اتنی ہے ’’مَنْ نَسِیَ صَلاَۃً فَلْیُصَلِّہَا اِذَا ذَکَرَہَا لاَ کَفَّارَۃَ لَہَا اِلاَّ ذَالِکَ‘‘ یعنی جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے اسی وقت پڑھ لے یہی اس نماز کا کفارہ ہے ۔ معلوم ہوا کہ کفارئہ نماز صرف نماز کا پڑھنا ہی ہے اور اسی کے لئے ہے جو نماز پڑھنا بھول جائے یا نماز کے وقت سوتا رہ جائے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے ۔ اس کے لئے نہیں جو ساری زندگی بے نمازی رہا اور اسی حالت میں مر کر جہنم رسید ہوا ۔ ان جہنمی لوگوں کے بارے میں نبی علیہ اسلام واضح الفاظ میں فرما گئے ہیں کہ ’’مَنْ تَرکَ الصَّلوٰۃَ مُتعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ‘‘ یعنی جس نے جان بوجھ کر نماز چھوری تحقیق وہ کافر ہو گیا ان کافروں کی نمازوں کے کفارہ کا ٹھیکہ لدھیانے کے مولوی صاحب اور ان کے دیگر ساتھیوں نے ایسے ہی لے رکھا ہے جیسے مردوں کو قرآن بخشنے کا ٹھیکہ انہوں نے قرآن خوانی کی شکل میں لے رکھا ہے ۔ جیسے قرآن خوانی کی مروجہ صورت قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے اسی طرح مروجہ کفارئہ نماز کا بھی قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کفارئہ نماز ایک بدعت اور اس کے مرتکب بدعتی ہیں ۔

3۔     صلوٰۃ عاشورہ

غنیۃ الطالبین میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے چند ایسی راتوں کے نام لکھے ہیں جن میں شب بیداری کرنا اورنوافل ادا کرنا ان کے نزدیک مستحب ہے ان راتوں میں سے ایک رات شبِ عاشورئہ محرم ہے جس میں بعض بدعتی صلوٰۃ عاشورہ پڑھتے ہیں ۔ غنیہ الطالبین ہی میں لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی آدمی عاشورے کے روزہ رکھے اور شب بیدار رہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو جب تک وہ چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے ‘‘ اس روایت کی بنیاد پر اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے اس شب کے بیان کردہ فضائل پر نیز دوسرے صوفیاء سے منقول روایات کے سبب پر بھی اس شب کو لوگ جن کا تعلق فرقہ حنفیہ سے ہے مساجد مین اہتمامِ نوافل کرتے ہیں، اس شب کی عبادت حنفیہ فرقے کی جماعت رائے ونڈیہ اور بریلویہ کے تمام افراد کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے چونکہ اس شب کے فضائل بیان کئے ہیں لہٰذا یہ شب معتبر ہے لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ غنیہ الطالبین احادیث صحیحہ کی کتاب نہیں ہے اس میں شیخ صاحب نے بہت سی ایسے روایات بھی لکھ دی ہیں جو کہ علمائے حدیث اور فقہاء کے نزدیک موضوعات میں شمار ہوتی ہیں البتہ فرق ہائے باطلہ پر ان کی تحقیق لاجواب ہے جس نے فرقہ حنفیہ اور اس کے بانی و مبانی کا سار کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہ موضوع روایات ہمارے نزدیک ناقابل عمل ہیں حالانکہ امت کی اکثریت ان پر عمل پیرا ہے لیکن ہمارے نزدیک مطاع یعنی لائق اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں نہ کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ، پھر دوسری بات یہ کہ عبادت کی تعریف یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تعامل سے ثابت ہو ، وہ عبادت بنفسہٖ عبادت نہیں جو آپؐ سے ثابت نہیں بلکہ وہ بدعت ہے چاہے اس پر عمل کرنے والا اور اس کی تائید کرنے والا کوئی بھی ہو ۔ پھر دیکھئے کہ اپنی کتاب میں مشہور حنفی ملا علی قاری کیا لکھ گئے ہیں ۔ فرماتے ہیں ’’اسی طرح نمازِ عاشورا ، نماز رغائب بالاتفاق موضوع ہیں اسی طرح رجب کی بقیہ راتوں کی نمازیں ، ستائیسویں رجب کو (شب معراج) اور پندرھویں شعبان کی نمازیں موضوع ہیں‘‘۔ تعجب ہے احناف پر کہ اپنے عالم کی بات نہیں مانتے ہیں ۔ (موضوعاتِ کبیر ص۴۷۵)

4:     صلوٰۃ الکفایہ

یہ نماز صوفیوں میں کافی معروف ہے جبکہ عوام الناس کی اکثریت اس نماز سے اور ا سکے طریقِ ادائیگی سے بے خبر ہے لیکن جنہیں اس کا علم ہو جاتا ہے پھر وہ صوفیاء کی زبانی اس کے فضائل وغیرہ سن کر اس بدعت پر عمل پیرا ہونے سے باز نہیں رہ سکتے ہیں ۔ چونکہ بہت سے لوگ صوفیاء سے اس کے فضائل سن کر او رکتب ِ صوفیاء میں پڑھ کر اس کے عامل ہوئے ہیں اسی سبب میں یہ لکھ رہا ہوں کہ یہ بدعت سے نہیں رہ سکتے ۔ میںنے اس نماز کے فضائل بھی بالخصوص غنیہ الطالبین میں پڑھے ہیں ۔ اس میں اس نماز کا طریقہ لکھا ہے کہ ’’نماز کفایہ دو رکعت ہے اور ہر ایک رکعت میں ایک دفعہ سورئہ فاتحہ پڑھے اور گیارہ دفعہ قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ اور پچاس دفعہ یہ پڑھے فَسَیَکْفِیْکَہُمْ اﷲُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ اور اس کے بعد سلام پھیر کر یہ دعا پڑھے‘‘۔ (غنیہ الطالبین مترجم ص۵۹۳)

میں نے بخوف طوالت دعا کے الفاظ درج نہیں کئے ہیں وگرنہ دعا کے الفاظ بھی خود ساختہ ہیں اور مسنون نہیںپھر دعا لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’جو آدمی اس دعا کو پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے واسطے کافی ہوتاہے اور اس نماز کے پڑھنے سے آدمی کا غم اور الم جاتا رہتا ہے اس کی دل جمعی ہو جاتی ہے اور اس کی بدی اس سے جاتی رہتی ہے ‘‘۔ (غنیہ الطالبین ص۵۹۴)

اس سے قبل کہ میں اس بدعت کے رد مین کچھ کہوں ۔ سیدنا علیؓ کا ایک فرمانِ عالی شان آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں یہ فرمان ایک واقعہ کی شکل میں ہے ۔ ’’سیدنا علیؓ نے عید کے روز نماز کی ادائیگی سے قبل ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نفل نماز پڑھنے کا ارادہ کر رہا ہے آپؓ نے اس کو منع فرمایا ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور وہ عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کسی عبادت پر عذاب نہیں دیتا آپ نے جوابًا فرمایا ’’میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل پر ثواب نہیں دیتا جب تک اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انجام نہ دے لیں یا اس کی ترغیب نہ فرما لیں اس صورت میں تیری یہ نماز بے کار ثابت ہوئی اور بیکار شے پر عمل کرنا حرام ہے پس شاید اللہ تعالیٰ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کی وجہ سے عذاب دے‘‘۔ (نظم البیان ص۷۳، لجنہ ص۱۶۵ مؤلف سید جمال الدین محدث بحوالہ شبِ برأت ایک تحقیقی جائزہ از حبیب الرحمن کاندھلوی) اسی طرح سنن دارمیؔ میں ہشام بن حجیر سے روایت ہے کہ طاؤسؒ عصر کی نماز کے بعد دوگانہ پڑھا کرتے تھے ، ابن عباسؓ نے ان سے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو ، طاؤسؒ نے کہا کہ ممانعت تو ان دو رکعتوں کی ہے جنہیں لوگ غروب آفتاب تک پڑھنے کا ذریعہ نہ بنا لیں ۔ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے میںنہیں جانتا ہے کہ اس نماز کے پڑھنے پر تجھے ثواب ملے کا یا عذاب اس لئے کہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ ’’وَمَا کَاَنَ لِمُؤْمِنِ وَّلاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیْرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ (سنن دارمی)

ابن عباسؓ اور سیدنا علیؓ کے ان فرامین کو ملاحظہ فرمانے کے بعد احادیث صحیحہ کا بغور مطالعہ فرمائیں کہ کیایہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے ؟ احادیث کی تمام معتبرکتابیں اس موضوع نماز اور اس کی فضیلت سے پاک ہیں ۔ اب سیدنا علیؓ کے فرمان کی روشنی میں اس بات کا تعین فرما لیجئے کہ اس نماز کے پڑھنے والے ، پڑھانے والے اہل سنّت کہلانے کے لائق ہیںیا بدعتی؟ نیز یہ بھی کہ عنداللہ وہ ثواب کے مستحق ہیں یا اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں؟

5۔     صلوٰۃ اسبوعی

یہ نماز بھی صوفیاء میں بالخصوص سلسلۂ قادریہ سے تعلق رکھنے والے افراد پڑھتے ہیں اور اس کا وجود بھی غنیہ الطالبین سے ثابت ہے وگرنہ احادیث صحیحہ میں صلاۃِ اسبوعی کاکہیں بھی ذکر نہیں ہے ۔ غنیہ الطالبین میںجو کچھ صلوٰۃ اسبوعی کے بارے میں لکھا ہے میں اسے اختصار سے پیش کرتا ہوں ۔

جمعہؔ کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب آفتاب نیزہ بھر بلند ہو جائے اگر دو رکعت پڑھی جائیں تو دو سو نیکیاں اس کے عوض ملیں گی اور دو سو گناہ معاف ہوں گے اگر چار رکعت پڑھی جائیں تو اللہ تعالیٰ نمازی کے جنت میں چار سو درجے بڑھا دیتا ہے اگر آٹھ رکعت پڑھے تو جنت میں آٹھ سو درجے بلند کیا جائے گا اور تمام گناہ معاف ہوں گے اور اگر بارہ رکعت پڑھے تو اس کے بدلے میں دو ہزار دو سو نیکیاں ملیں گی ۔ دو ہزار دو سو گناہ معاف ہوں گے اور جنت میں دو ہزار دو سو درجے بڑھا دئیے جائیں گے اگر نماز جمعہ اور نماز عصر کے درمیان دو رکعت نماز یوں پڑھے پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک بار ، آیۃ الکرسی ایک بار ، سورۃ الفلق پچیس بار ، دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ ایک بار ، سورۃ اخلاص ایک بار اور سورۃ الفلق بیس بار پھر سلام پھیر کر پچاس بار لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ ِپڑھے تو یہ شخص مرنے سے قبل خواب میں اللہ کا دیدار کرے گا اور جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا اس کے علاوہ چند اور طریقوں سے بھی یہ نماز اس کتاب میں لکھی ہے ۔

ہفتہؔ کی نماز چار رکعت ہے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ، تین بار سورئہ اخلاص پھر سلام پھیر کر آیت الکرسی پڑھی جائے تو ایک سال کے روزوں اور قیام اللیل کے برابر ثواب ملے کا نیز ایک حرف کے بدلے ایک شہید کا اجر بھی ملے گا اور بروز محشر ایک ہزار انبیاء اور شہداء کے ہمراہ سایہ عرش نصیب ہو گا ۔

پیرؔ کی نماز آفتاب بلند ہونے کے بعد دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک بار آیۃ الکرسی ایک بار سورئہ اخلاص ایک بار اور معوذ تین بھی ایک بار ہی پڑھی جائے بعد سلام کے دس بار استغفار کرے اور دس بار ہی نبی علیہ السلام پر درود بھیجے تو تمام گناہ معاف ہوں گے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بارہ رکعت پڑھے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی پڑھے بعد سلام کے بارہ بار سورئہ اخلاص پڑھے اور بارہ ہی مرتبہ استغفار کرے توبروز محشر اسے پکار کر بارگاہِ الہٰی سے بطور ثواب ایک ہزار بہشتی حُلّے دئیے جائیں گے تاجپوشی ہو گی پھر بہشت میں ایک لاکھ فرشتہ بمعہ تحفوں کے اس کا استقبال کرے گا اور ایک ہزار نوری محلات سے گزرے گا ۔

بدھؔ کی نماز بلندئ آفتاب کے بعد بارہ رکعت ہے ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ، ایک بار آیۃ الکرسی ، تین بار سورئہ اخلاص اور تین بار معوذتین پڑھے تو بروز محشر عرش کے پاس سے اسے پکارا جائے گا ، عذابِ قبر سے بچایا جائے گا نیز اس کا اعمال نامہ مثل پیغمبروں کے لکھا جائے گا ۔

منگلؔ کی نماز آفتاب بلند ہونے کے بعد دس رکعت ہے ہررکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ایک بار آیت الکرسی اور تین بار سورئہ اخلاص پڑھے توستر دن تک نامۂ اعمال میں کوئی گناہ نہیں لکھا جائے کا اگر ستر روز کے اند ر مر گیا تو شہید ہو گا اور ستر برس کے گناہ بھی معاف ہوں گے ۔

جمعراتؔ کی نماز ظہر اور عصر کے درمیان ہے پہلی رکعت مین ایک بار سورئہ فتحہ اور سوبار آیت الکرسی ، دوسری رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ اور سو بار سورئہ اخلاص پڑھے بعد سلام کے سو بار درود پڑھے تو رجب و شعبان کے روزوں کے برابراجر اور حجاج کے برابر ثواب ملتا ہے ۔

اتوارؔ کی نماز ظہر کے بعد ہے اور دو طریق سے ہے پہلا یہ کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ اور آمَنَ الرَّسُوْلُ پڑھے تو جتنی نصرانیوں کی تعداد ہے اتنا ثواب ملے گا، ایک پیغمبر کا ثواب بھی ملے گا، نیز ایک حج اور ایک عمرے کا بھی ثواب ملے گا ہر رکعت کے عوض ایک ہزار نماز کا ثواب اور ہر حرف کے عوض بہشت میں ایک شہر ملے گا ۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ چار رکعت پڑھے پہلی رکعت میں فاتحہ اور الم سجدہ پڑھے ، دوسری میں فاتحہ اور ملک پڑھے ، بعد کی دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورئہ جمعہ پڑھے پھر جو مانگے گا اللہ وہ حاجت پوری کرے گا اور نصاریٰ کے عقیدہ و مذہب سے اللہ اسے بچائے گا ۔

یہ ہیں وہ نمازیں جو کہ صلوٰۃ اسبوعی کہلاتی ہیں ان کا ثبوت کسی بھی صحیح حدیث سے نہیں ملتا ہے ۔ معلوم نہیں کہ غنیہ الطالبین میں یہ موضوع روایات کس نے داخل کر دی ہیں ۔ ہمارایہ ایمان ہے کہ کوئی بھی عالم دین ان غلط روایات کی تائید نہیں کر سکتا ۔ ضرور یہ کسی رافضیؔ یا حنفی کی حرکت ہے کہ اس نے غنیہ الطالبین میں ان روایات کو اس لئے داخل کر دیا ہے کہ ان کی بنیاد پر یہ پوری کتاب بے اعتبار قرار پا جائے یہی وجہ ہے کہ شبِ برأت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے متعصب حنفی اور نام نہاد امام الحدیث حبیب الرحمن کاندھلوی نے شیخ عبدالقادر جیلانی کی شخصیت پر رکیک حملے کئے ہیں اسکی وجہ وہی ہے کہ پہلے گزر گئی ہے کہ شیخ نے اس کتاب میں ان کے خود ساختہ اور جعلی امام کی حقیقت بیان کی ہے بس اسی پر چراغ پا ہو کر بہت سے حنفی کچھ اول فول کہتے ہیں، میں کہتا ہوںکہ بے شک صلوٰۃ اسبوعی سے متعلق روایات موضوع ہیں ان پر تعامل بدعت ہے ، ان کے فضائل و محاسن بیان کرنا کسی بھی اعتبار سے لائق استحسان نہیں ۔ ہم شیخ عبدالقادر جیلانی کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں ہیں اگر یہ واقعتًا انہی کی عبارت ہے تو پھر ان کا معاملہ ہم اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور اگر یہ تحریفات ہیں تو پھر اللہ کے عذاب میں انہیں کوئی گرفتار نہیں کرا سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

Read more...

ماہِ رجب کے بارے میں چند گذارشات

15 Jun,2012


تمہید:

دینِ اسلام دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعوت دیتا ہے۔ اسلامی عبادات زمین و آسمان میں موجود آفاقی علامات کے ساتھ مرتبط ہیں اس لئے اہل اسلام اسلامی مہینوں کے بارے میں مکمل معلومات رکھا کرتے تھے، مگر افسوس کہ الحاد و تشکیک اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت سے متاثر نسل نو کی اکثریت اسلامی مہینوں کے مسائل تو کجا نام بھی نہیں جانتی(الی اللہ المشتکی)۔

اہل بدعت نے دینِ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لئےہر اسلامی ماہ میں مخصوص بدعات رائج کی ہوئی ہیں۔ اسی کا تسلسل ماہِ رجب میں رائج شدہ بدعات و خرافات بھی ہیں، اس مضمون میں ہم قرآن و سنت کے حوالے سے ماہِ رجب کے بارہ میں اہم گزارشات تحریر کریں گے۔

ماہِ رجب احادیث کی روشنی میں:

سیدنا ابن ابی بکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! زمانہ پھر اسی نقشہ پر آ گیا جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ ایک سال بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں جن میں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذیعقدہ، ذی الحجہ، محرم اور ایک رجب کا مہینہ ہے جو کہ جمادی الآخر اور ماہ شعبان کے درمیان آتا ہے۔(بخاری،کتاب التفاسیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام میں فرع ہے اور نہ عتیرہ۔ (ابوداؤد)

سیدنا ابوہریرہ t فرماتے ہیں کہ رسول معظم ﷺ نے فرمایا: فرع اور عتیرہ واجب نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرع اورعتیرہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ علما فرماتے ہیں کہ فرع سے مراد اونٹ کا سب سے پیدا ہونے والا بچہ ہے، جسے مشرکین اپنے بتوں کے نام سے قربان کیا کرتے تھے، اس کا گوشت تو کھاتے تھے مگر اس کی کھال کو درخت پر لٹکا دیا کرتے تھے۔

عتیرہ سے مراد وہ جانور ہے جسے مشرکین رجب کے ابتدائی دس دنوں میں ذبح کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

ایک شخص نے منیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم لوگ دور جاہلیت میں رجب میں عتیرہ کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ذبح کرو (رجب کی تخصیص نہیں بلکہ)جس ماہ میں تمہارا دل چاہے اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے نیکی کرو اور تم (غرباء کو) کھانا کھلاؤ۔(نسائی)

ماہِ رجب سے متعلق ضعیف احادیثـ:

۱۔ رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے، جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر شیریں ہے۔ جو ماہِ رجب میں ایک دن کا روزہ بھی رکھے گا وہ اس جنت کا پانی پئے گا۔ (ابن شاہین، کتاب الترغیب و الترھیب)

امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں غیر معروف روات ہیں، یہ سند مکمل طور پر ضعیف ہے مگر اس پر وضع کا حکم لگانا آسان نہیں۔ (العلل المتناہیہ،۱۵ج۲)

۲۔ اے اللہ ! رجب و شعبان کو ہمارے لئے بابرکت بنادے اور ہمیں رمضان تک پہنچادے۔(یعنی رمضان تک زندگی کی مہلت دیں)۔(مسند احمد)

اس حدیث میں زائدہ بن ابو الرقاد نامی راوی پرکبار محدثین مثلاً امام ابو حاتم، حافظ ابن حجر، امام بخاری، امام نسائی اور امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے سخت جرح کی ہے۔ جس کی بناء پر یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے۔ (تفصیل کے لئے امام ابن حجر رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف تبیان العجب بما ورد فی فضل رجب ملاحظہ فرمائیں)

ماہِ رجب کے بارے میں من گھڑت روایات:

۱۔ رجب اللہ تعالیٰ کا ، شعبان میرا جبکہ رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ (الموضوعات، ابن الجوزی)

۲۔ رجب باقی مہینوں کے مقابلے میں ویسے ہی افضل و اعلیٰ ہے جس طرح کہ قرآن پاک باقی اذکار سے افضل ہے۔ (تبیان العجب بما ورد فی فضل رجب لابن حجر)

۳۔ ماہِ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس میں بہت زیادہ روزے رکھے جاتے ہیں، جس نے ایمان کی حالت میں، ثواب کی نیت سے ماہِ رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا وہ اللہ کی سب سے بڑی رضا کا حقدار بن جاتا ہے۔ (الفوائد المجموعہ للشوکانی)

۴۔ جو آدمی ماہِ رجب میں تین روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب لکھ دیتے ہیں اور جو شخص اس ماہ میں سات دن روزے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم کے سات دروازے بند کر دیتے ہیں۔ ( اللائی المصنوعہ للسیوطی ۱۱۵)

۵۔جو شخص ماہِ رجب کے روزے رکھتا ہے اور اس میں چار رکعت نماز ادا کرتا ہے اس شخص کو اس وقت تک موت نہیں آئےگی جب تک کہ وہ جنت میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ نہیں لیتا ۔ (الموضوعات لابن الجوزی ۱۲۴ج۲)

۶۔ ماہ رجب عظیم الشان مقام والا ہے جو شخص اس میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ہزار سال کے روزوں کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔ (اللائی المصنوعہ ۱۱۵ج۲)

عہد جاہلیت میں ماہِ رجب:

رجب کا لغوی معنی عزت وتکریم ہے۔کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں اس مہینے کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا اس لیئے اس ماہ کو رجب کے نام سے موسوم کردیا گیا۔کتب تواریخ میں اس ماہ کے تقریباًچودہ نام ذکر ہوئے ہیں۔

۱۔ رجب: کیونکہ عہدِ جاہلیت میں اس کی تعظیم کی جاتی تھی اس لئے اس کا نام رجب رکھ دیا گیا۔

۲۔ الأصم: چونکہ اس ماہ میں اسلحہ کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، اس لئے اس کو اصم کہا جاتا ہے۔

۳۔أصب: کفارِ مکہ کا عقیدہ تھا کہ اس ماہ میں بے تحاشا رحمت الٰہی کا نزول ہوتا ہے اس لئے اس کو أصب کہا جانے لگا۔

۴۔رجیم:عہد جاہلیت میں یہ عقیدہ رکھا جاتا تھا کہ اس ماہ میں شیاطین کو رحمتِ الٰہی سے دور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس ماہ کو

۵۔ الکرم، ۶۔ المقیم، ۷۔ مقشقش،۸۔ مبری،۹۔ فرد، ۱۰۔ معلی، ۱۱۔ منصل السنۃ، ۱۲۔ منفس، ۱۳۔ مطہر۔ ۱۴۔ شہر العتیرہ بھی کہا جاتا ہے۔

ماہِ رجب کی بدعات:

ہوس پرست علما ء نے عوام الناس کے مذہبی جذبات کو گرما کر اس ماہ حرم میں کچھ بدعات کو رائج کیا ہے۔ عوام الناس تک کتاب وسنت کا واضح پیغام پہنچانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے ایمان کو بدعات کی آمیزش سے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ رجب کی مخصوص بدعات درج ذیل ہیں۔

۱۔ ماہ رجب کی بدعتی نمازیں:

ماہ رجب میںمخصوص ایام میں مخصوص طریقے سے کچھ نمازیںبالتزام ادا کی جاتی ہیں مثلاً صلاۃ الرغائب ماہ رجب کی مشہور ترین بدعات میں سرفہرست ہے اس نماز میں مخصوص اذکار مخصوص تعداد اور مخصوص حالا ت میں پڑھے جاتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

یہ نماز رجب کی پہلی جمعرات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس میں بارہ رکعتیںہوتی ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ القدر وسورۃ الاخلاص بالترتیب تین دفعہ پڑھی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بارہ رکعات دو دو رکعت کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر ساٹھ دفعہ یہ درود پڑھا جاتاہے ؛ اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ۔۔۔ پھر سجدہ کی حالت میں ساٹھ دفعہ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح کہا جاتاہے، سجدہ کے بعد یہ دعا ساٹھ دفعہ پڑھی جاتی ہے :رب اغفرلی وارحم وتجاوز عما تعلم انک انت العزیز الاعظم۔ پھر دوسرے سجدہ میں بھی اسی طرح کیا جاتاہے۔

فضیلت:

جس طرح صلاۃ الرغائب مشکل ترین اور پیچیدہ نماز ہے بعینہ اس کے متعلق ثواب وجزاء اور اس کی فضیلت بھی پیچیدہ اور ناقابل فہم ہے۔

مثلاً:۱۔ اس نماز کے بعد انسان کے تمام گناہ (چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں جتنے ہوں) معاف ہو جاتے ہیں۔

۲۔ اس نماز کو ادا کرنے والا قیامت کے دن ستررشتہ داروں کے لیے شفاعت کر سکے گا۔

۳۔ صاحب قبر کہے گا تم کون ہو اللہ کی قسم میں نے تم سے زیادہ حسین، خوش گفتار اور خوشبودار نہیں دیکھا ہے تو یہ ثواب اس کو کہے گا کہ میں تو اس نماز کا ثواب ہوں جو کہ تو نے رجب کی فلاں رات پڑھی تھی میں آج تیرا حق لوں گا، قبر میں تیری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو ختم کر دوں گا، قیامت کے دن میں تمہارے سر پر سایہ بن جائوں گااور تم کبھی بھی خیر سے محروم نہیں ہو گے۔

اس نماز کا ثواب خوشخبری سنائے گا کہ مجھے پڑھنے والے تو آج عذاب قبر سے بچ گیا ہے۔

حقیقت حال:

اس نماز کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اس نماز کی بنیاد ہی موضوع حدیث پر ہے جیسا کہ اس حدیث کے متصل بعدامام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند کے تمام رواۃ مجہول ہیں، میں نے علم رجال کی تمام کتب چھان ماری ہیں لیکن مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ امام الشوکانی اس روایت کو الفوائد المجموعۃ میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایت ہے۔ اہل علم نے اس روایت کے موضوع ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ امام مقدسی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے۔

۲۔ اگراس نماز کی اہمیت اتنی زیادہ تھی تو پھر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام نے اس کا اہتمام کیوں نہ کیا ؟یقینا وہ مقدس ہستیاں خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔

۳۔ نماز میں اطمینان اور سکون انتہائی ضروری ہے مگر صلاۃ الرغائب میں یہ چیز ممکن نہیں ہے کیونکہ نماز پڑھنے والا اذکار کی کثرت تعداد کو شمار کرتے وقت بہت زیادہ حرکت کا مرتکب ہو گا جو کہ اطمینان کے منافی ہے۔

۵۔ نماز میں خشیت لازمی امر ہے مگر اس بدعتی نماز میں یہ چیز عنقا اور مفقود ہو جاتی ہے۔

۶۔ اس نماز میں ہر دورکعت کے بعدعلیحدہ دو سجدے کئے جاتے ہیں، شریعت اسلامیہ میں نماز کے علاوہ ان سجدوں کے بارے میں کوئی نص نہیںہے۔

۷۔ اس نماز سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے جس میں آپؐ نے جمعہ کی رات کو خصوصی قیام سے منع کیا ہے۔ (مسلم ۲/۸۰۱)

اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس نماز کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھا: اما صلاۃالرغائب فلا اصل لہا بل ھی محدثۃ فلا تستحب لا جماعۃ ولا فرادی۔ اس نماز کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ تو باجماعت ادا کرنا درست ہے اور نہ ہی منفرد۔ (مجموع الفتاویٰ :۲۳/۱۳۴)

امام نووی رحمہ اللہ شارح صحیح مسلم سے جب صلاۃ الرغائب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا : یہ نماز نہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابہ کرام اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی نے پڑھی ہے اور نہ ہی اس کی (فضیلت +طریقہ )کی طرف اشارہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بسند صحیح اس کے بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے بلکہ یہ تو بعد کے زمانے میں ایجاد کی گئی ہے۔ (البدع الحولیۃ، ص:۴۵۔۴۷)

اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : وکذالک احادیث صلاۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب کلہا کذب مختلق علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (المنار المنیف فی الصحیح والضعیف، ص:۹۵، حدیث:۱۶۷)

’’رجب کے پہلے جمعہ میں اد ا کی جانے والی نماز (یعنی صلاۃ الرغائب) کے بارے میں مذکور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہتان ہے۔‘‘

رجبی روزے :

ماہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے مشہور ترین بدعت اس مہینے کو روزہ کیلئے خاص کرنا بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث سے ثابت شدہ روزے باعث ثواب ہیں جب کہ ماہ رجب کے مخصوص روزے کسی صحیح نص سے یا اشارہ سے ثابت نہیں ہیں۔

اس مہینے کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ یا ساتویں تاریخ یا پورے مہینے کے روزے رکھے جاتے ہیں اس بدعت کو سنت کا رنگ دینے کیلئے سخت ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لیا جاتاہے اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بدعتی روزوں کی تردید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ماہ رجب کے روزوں کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے نہ سلف صالحین میں سے کسی نے خصوصی طور پر ان روزوں کا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مہینہ میں روزے رکھنے والوں کو تعزیراً مارتے تھے اور فرماتے : اس (ماہ رجب) کو ماہ رمضان کے مثل نہ بنائو۔ (ارواء الغلیل : ۴/۱۱۳)

ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم یصم الثلاثۃ الا شہر سردا رجب شعبان ورمضان کما یفعلہ بعض الناس ولا صام فی رجب قط (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ۲/۶۴)

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی رجب شعبان اور رمضان میں تسلسل کے ساتھ روزے نہیں رکھے یہ فعل تو کچھ لوگوں نے اپنا لیا ہے۔ ماہ رجب اس میں توآپ ﷺنےبھی خصوصی روزہ نہیں رکھا۔ واللہ اعلم

شب معراج کی عبادت:

ماہ رجب کی بدعات میں سے ایک اور بدعت شب معراج میں عبادت بھی ہے۔حالانکہ اس رات کی خصوصی عبادت قرآن وسنت تو کجا ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس بدعت کو موضوع روایات کا سہارا دیا گیا ہے اور اس شب میں عبادت کا خصوصی اہتمام کتاب وسنت اور عقل سلیم کے سراسر منافی ہے۔

رجب کے کونڈے:

برصغیر پاک وہند کے سادہ لوح عوام کی دینداری کا رخ شروع سے ہی صحیح طرف نہ تھا جہاں نام نہاد ملائوں نے اپنی ذاتی اغراض ومقاصد کیلئے دین اسلام کو بے دردی سے استعمال کیا جس کا مظہر رجب کے مروجہ کونڈے بھی ہیں۔ ہندوستان کے ایک آدمی نے داستان عجیب نامی کتاب میں اس بدعت کا تذکرہ’’نیاز نامہ امام جعفر صادق ‘‘ کے نام سے کیا ہے کہ ایک روز امام جعفر صادق اپنے محبین اور اصحاب کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک آپ نے دریافت کیا کہ یہ کون سا ماہ ہےـ؟ اصحاب نے اطلاع دی کہ یہ ماہ رجب ہے پھر دریافت کیا کہ آج کیا تاریخ ہے ؟ محبین نے عرض کی کہ آج ماہ رجب کی ۲۲ تاریخ ہے یہ سن کر امام صاحب نے کہا کہ کوئی شخص کیسی ہی مشکل یا حاجت رکھتا ہو آج کے دن جو اللہ نے مقدر کر دیا ہو وہ موافق مقدور کے پوریاں میرے نام کی پکا کر کھیر دو کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام فاتحہ دے کر رب کی بارگاہ میں جو کچھ اپنی حاجت و مراد ہو مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان کر دے گا اور حاجت ومراد اس کی بر لادے گا اور دعا اس کی مستجاب ہو گی اگر نہ ہو گی تو روز محشر میرا دامن اور اس کا ہاتھ ہو گا۔ (ندائے جامعہ شمارہ ۴، ص:۱۸)

اس تحریر کے ایک ایک جملہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ رجب کے کونڈے بدعت سئیہ ہے کیونکہ:

1 یہ تحریر ہندوستان کے ایک مجہول آدمی نے قرون مفضلہ کے بعد لکھی۔

2 امام جعفر صادق کی یہ وصیت چودہ سو سال بعد ہی ظاہر کیوں ہوئی اس سے پہلے یہ تحریر کہاں تھی؟

3 امام جعفر صادق اللہ کے ولی اور موحد انسان تھے عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ کوئی موحد انسان اپنی ذات کیلئے نذرونیاز کی وصیت کرے۔

4 نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت صر ف رب العالمین ہی کیلئے خاص ہے نہ کہ مخلوق میں سے کوئی اس کا روادار ہو۔

اصل بات:

دین اسلام کو ختم کرنے، اس کی صاف وشفاف تعلیمات سے لوگوں کو بدظن کرنے اور شریعت محمدی کا حلیہ بگاڑنے کیلئے اہل تشیع نے یہ ایک چال چلی ہے جس میں اہل بیت کی محبت کو استعمال کر کے بغض صحابہ کیلئے راہ ہموار کی ہے کیونکہ ۲۲ رجب کو ہی جلیل القدر صحابی، عرب کے منجھے ہوئے سیاستدان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب کے کونڈے امام کی وصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ سیدنا معاویہ رضی للہ عنہ کی وفات کی خوشی میں ہوتے ہیں۔فافہم وتدبّر

قارئین کرام مذکورہ بالا اور دیگر بدعات کتاب اللہ ، سنت حبیب اللہ اورعقل سلیم کے سراسر منافی ہے۔

کتاب:

رب تعالیٰ اس بات کی وضاحت فرماتے ہیں کہ آج (روز عرفہ) میں نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تکمیل کا اعلان کر دیا تو اس وقت اس قسم کی عبادت نہ تو مروج تھی اور نہ ہی اس کا ذکر تھا پس جو عبادت اس وقت موجود نہ تھی آج وہ عبادت بدعت ہی ہو گی نہ کہ عبادت۔

سنت:

شارح قرآن نے متعدد دفعہ اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ دین میں ایجاد کردہ ہرکام بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت اور ہر ضلالت جہنم پر منتج ہو تی ہے۔

لہٰذا اس ماہ میں عبادت کا خصوصی اہتمام باعث ضلالت وگمراہی ہے۔

عقل سلیم :

عقل سلیم کبھی بھی کتاب وسنت کی ہدایات کے خلاف نہیں ہو سکتی جس طرح قرآن وسنت نے ماہ رجب کی عبادات کو بدعت کہا ہے بعینہ عقل سلیم اس چیز کو بدعت ہی کہتی ہے کیونکہ: اس شب معراج کے تعین میں ہی اختلاف ہے جس وقت کی تعیین میں ہی اندازے لگائے جائیں اسلام اس میں عظیم عبادت کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔

سلف صالحین نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے اس ماہ میں خصوصی عبادت کا اہتمام انہوں نے نہیں کیا کیونکہ وہ اس کو عبادت ہی تصور نہیں کرتے تھے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بدعات وخرافات سے بچا کر دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ (آمین)

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول