الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لانبی بعدہ امابعد!
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ   [النحل: 125]

(اے نبی)! آپ (لوگوں کو) اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔

میرے عزیزو! اس آیت میں رب تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو رب تعالیٰ کے راستے سے روشناس کرواؤ انکو دین کی دعوت دو جیسا کہ دوسرے مقام پر آیا ہے۔

{يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ}[المائدة: 67]

اے رسول! آپ وہ احکام لوگوں کو سنادیں ان تک پہنچا دیں جو آپکی طرف ارسال کئے گئے ہیں رب تعالیٰ نے وہ احکام آسمان سے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں۔

{وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ} [المائدة: 67]

اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا (یہ ہمیں سمجھانے کے لیے کہا جارہا ہے ورنہ آپ سے تو یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا) تو آپ نے احکام الٰہی کو لوگوں تک پہنچانے کا حق ادا نہ کیا۔ باقی رہی یہ بات کہ اس دعوت و تبلیغ کی بنا پر اگر آپ کو کوئی جان سے مارنے کی دھمکی دے تو اللہ پاک آپکی حفاظت کریں گے۔ تیسری آیت یوں ہے:

فَلِذٰلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ [الشورى: 15]

آپ لوگوں کو دین ہی کی طرف دعوت دیں اور اس پر بڑی مضبوطی اور پختگی اختیار کریں۔ جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان کی خواہش پر نہ چلیں۔

میرے دوستو! اس انداز کی کئی آیات آپ کو ملیں گی جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست خطاب کیا جا رہا ہے کہ آپ دین کی دعوت پر کمر بستہ رہیں۔

پہلی آیت میں اللہ پاک نے دعوت و تبلیغ کے دو اصول اور ضابطے بیان کئے ہیں کہ دعوت دین ان دو اصولوں پر مبنی ہوگی۔ تو ثمر آور ہوگی۔ ایک اصول ہے کہ دعوت توحید حکمت و بصیرت اور دانائی و عقلمندی کے ساتھ دی جائے دوسرا اصول یہ ہے کہ اچھی نصیحت اور خیر خواہی کے ساتھ یہ کام کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اخلاق محبت و پیار کا دامن بالکل نہ چھوٹنے پائے۔

دعوت بالحکمۃ: دعوت بالحکمۃ کا مقصد یہ ہے کہ بڑے نرم انداز اور دھیمے لہجے میں کسی کو دعوت دینا اور اسکو قائل کرنا تاکہ اس کے لیے دین قبول کرنا آسان ہو جائے اور سننے والے کو سمجھ آجائے کہ اس دعوت کو قبول کر لینے میں میرا اپنا ہی فائدہ ہے دیکھئے جناب باری تعالیٰ نے جناب موسی اور ہارون علیہم السلام کو حکم دیا کہ جاؤ جاکر فرعون کو توحید کا پیغام سناؤ! مگر فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا (سورہ طہ ۴۴) کہ بات بڑی حلیمی بردباری اور تحمل سے کرنی ہے۔ لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى ہو سکتا ہے اس کو راہ حق مل جائے۔ توحید کا قائل ہو جائے یا پھر اس کے دل میں اللہ پاک کا خوف و خشیت آ جائے اور اسکی ساری زندگی کا رخ صحیح ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ نرمی سے دعوت دینے سے مقصد کا حصول ممکن ہے جبکہ سختی سے لوگ متنفر ہوتے ہیں۔

قارئین کرام! آپ دیکھ لیں کہ رب تعالیٰ اپنے آخری نبی جناب محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کی تلقین فرمارہے ہیں اور انجام سے آگاہ فرمارہے ہیں۔

وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [آل عمران: 159]

اگر آپ (خدانخواستہ) تند مزاج اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب لوگ آپ کے پاس سے تتر بتر ہوجاتے۔

اللہ پاک کی رحمت کی بنا پر آپ نرم دل ہیں آپ صاحب خلق عظیم ہیں آپ میں نرمی و ملائمت آپ پر پاک رب کا احسان عظیم ہے اور اس صفت کا ایک داعی کے اندر ہونا ضروری ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ تند خو، بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے قریب آنے کی بجائے آپ سے دور بھاگ جاتے مگر یہ جاتے اس لیے نہیں کہ آپ درگزر سے کام لیتے ہیں۔

ایک واقعہ: ثمامہ بن اثال بنو حنیفہ قبیلے کا ایک آدمی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر نجد کی طرف روانہ فرمایا تو وہ اس ثمامہ کو گرفتار کر کے آپ کی خدمت میں لے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دو! چنانچہ اس کو حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ (کچھ وقت گزرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ثمامہ کیا حال ہے؟ اس نے کہا (مجھے کیا ہے؟) میں ٹھیک ہوں اور پھر (سینہ تان کر) کہتا ہے:

إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ

اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قتل کریں گے تو کرکے دیکھ لیں (میرا خون اتنا سستا نہیں ہے کہ اس کا بدلہ نہ لیا جائے بدلہ لینے والے ہیں) اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو احسان کا شکریہ ادا کروں گا (میں احسان فراموش نہیں ہوں) اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال چاہیے تو بات کریں کتنا مال چاہیے؟ جتنا مال مانگیں گے اتنا مال مل جائےگا۔ آپ بات کریں؟

یہ باتیں سن کر بھی آپ نے کسی قسم کی خفگی و گرمی کا اظہار نہیں کیا اور وہ بھی نہ جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کتنا فراخ ہے محسن انسانیت نے دوسرے دن پھر الفت بھری زبان سے پوچھا کہ ثمامہ کیا حال ہے؟ ٹھیک ہو؟ قیدی سے گفتگو ہو رہی ہے۔ جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا ہے ٹھیک ہے۔

؎سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقری کی

وہ تیز بات کرتا ہے اور آپ نرمی کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا اس نے پھر وہی الفاظ دہرائے۔

إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ

یہ الفاظ سن کر بھی آپ نے اس کو کوئی جواب نہ دیا اور چلے گئے جب تیسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ازراہ ہمدردی پوچھا کہ ثمامہ کیا حال ہے؟ طبیعت کیسی ہے؟ جناب! اس نے پھر وہی (اوپر والے) کلمات دھرا دئیے حالانکہ ان الفاظ میں ایک قسم کی دھمکی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ فراخدلی، حلم و برباری اور برداشت کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا:

اَطْلِقُوْا ثُمَامَۃَ

ثمامہ کو کھول دو اسکو جانے دو۔ ثمامہ جاؤ کوئی بات نہیں ہے وہ چلا گیا۔ اور مسجد نبوی کے قریب ایک باغ تھا وہاں جا کر اس نے غسل کیا اور پھر مسجد نبوی میں آگیا اور کلمہ کا اقرار کیا اور

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔

میرے بھائیو! اس کو اس عمل پر کس چیز نے امادہ کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین اخلاق، عمدہ گفتگو، شفقت بھری کلام اور خندہ پیشانی سے پیش آنے نے اس کو مطیع کر لیا تھا وہ ہمیشہ کے لیے مرید با صفاء اور بہترین امتی بن گیا وہ سوچتا ہوگا کہ میں جتنا گرم ہوتا تھا وہ اتنے ہی نرم ہوتے تھے حتیٰ کہ کچھ کہے بغیر انہوں نے مجھے رہا کر دیا۔ آپ کے حسن اخلاق نے ثمامہ کے دل کو ایسی زنجیر ڈال دی تھی کہ ظاہری زنجیر کھول دی گئی۔ مگر اندرونی زنجیروں نے اس کو کلمہ کا اقرار کرنے کے لیے آپ کے سامنے حاضر کر دیا اب وہ اپنے ایمان کا یوں اظہار کرتا ہے۔

وَاللهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! واللہ روئے زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ بُرا چہرہ کوئی نہ تھا مگر اب آپ کا چہرہ تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہے پھر کہتا ہے۔ واللہ آپ کا دین میرے نزدیک تمام دینوں سے بُرا تھا مگر اب آپ کا دین تمام ادیان سے بہتر لگتا ہے۔ پھر کہتا ہے واللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر مجھے بہت بُرا لگتا تھا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر تمام شہروں سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔

اے اللہ کے نبی آپ کا لشکر مجھے پکڑ کر آپ کے پاس لایا ہے جبکہ میں عمرہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اب آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خوشخبری دی اور کہا کہ اب جاؤ عمرہ ادا کرو وہ جب مکہ مکرمہ آیا تو کسی نے کہہ دیا کہ صابی (اب کے خیال میں صابی بمعنیٰ بے دین) ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ہوں یاد رکھنا کہ ثمامہ کے علاقہ سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ ہاں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں گے تو پھر کوئی انکار نہیں ہے۔

(صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ، باب حکم الاسراء ص 344 ج2)

۲۔ دوسری صورت یہ ہوگی کہ جس کو آپ دین کی دعوت دینا چاہتے ہیں پہلے آپ پیار و محبت اور الفت سے اس کے دل پر قبضہ کریں۔ اس کو کھلائیں پلائیں اس کے معاملات میں اس کے کام آئیں تو وہ آپ کا گرویدہ ہو جائے گا۔ پھر آپ اس سے جس قسم کی قربانی کا مطالبہ کریں گے تو وہ اس کو پورا کرنے سے انکار نہیں کرے گا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ طریقہ پسند فرمایا ہے جب آپ پر یہ وحی آئی۔

وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ( الشعراء 214)

تو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی سے فرمایا: اے علی دعوت کا اہتمام کرو! تاکہ میں اپنی برادری کے احباب کو کھانا کھلاؤں اور پھر اپنی دعوت بھی ساتھ ساتھ ان کے اندر داخل کروں جناب علی نے کھانے کا اہتمام کیا تو ابوجہل اینڈ کمپنی آئی اور کھانا کھا کر اپنی باتیں کرکراکر چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے جناب علی کو دعوت کا حکم دیا انہوں نے کھانا بنایا برادری والے آئے کھانا کھانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی دعوت ایمان، دعوت توحید یعنی ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی دعوت دینا شروع کی۔

میرے دوستو! قوم آئی اور کلمہ کی دعوت سن سنا کر چلی گئی تو اب دعوت دین کے کام کا آغاز ہو گیا یاد رہے کہ اس عمل سے عوام الناس دعوت دہندہ کے ساتھ محبت کرنے والے بن جاتے ہیں۔

کھانا کھلانے اور پانی پلانے سے تو بڑے بڑے سخت دل والے بھی نرم ہو جاتے ہیں مگر اس میں اخلاص شرط ہے اور پھر یہ عمل مسلسل کرنا ہے پھر کہیں جا کر مطلوبہ نتائج اللہ پاک کی توجہ اور توفیق سے حاصل ہوتے ہیں اسی لیے آپ نے فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو تاکہ تمہاری آپس میں محبت پیدا ہوجائے۔

(جامع الصغیر مع شرحہ للمناوی ص 271 ج 1)

میرے ساتھیو! جان، مال، وقت۔ یہ تین چیزیں جس کا م پر بھی لگیں گی اس کی اہمیت دل میں آئے گی یہ تین چیزیں اگر دنیا پر لگیں گی تو اس کی اہمیت دل میں آئے گی۔ جیسا کہ آجکل ہماری جان ، مال اور وقت دنیا پر لگ رہا ہے، دنیا بنانے میں صرف ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے دنیوی مفاد کو نقصان کا خطرہ ہو تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں دین کو اگر نقصان پہنچے کہ ہمارے بچے، بچیاں، بھائی، بہنیں، ماں، باپ اور اہل محلہ نماز نہ پڑھیں تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی سارے کے سارے گناہ میں لگے رہیں تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ دنیا کے لیے ہماری کوئی محنت نہیں اس پر نہ جان لگی نہ مال لگا اور نہ ہی وقت لگا تو اہمیت کیسے پیدا ہوگی، دیکھئے ہم ایک مکان تعمیر کرتے ہیں اس پر ہماری جان بھی لگتی ہے مال بھی لگتا ہے اور وقت بھی لگتا ہے یہ تینوں چیزیں لگ کر ایک مکان تیار ہوجائے اب کوئی آدمی ہتھوڑا لے کر اس کا کوئی کنارہ، دروازہ کھڑکی توڑنا چاہے تو ہم توڑنے دیں گے؟ بالکل نہیں توڑنے دیں گے، کیونکہ ہماری تین چیزیں اس پر لگی ہیں تو اس کی اہمیت دلوں میں آئی ہے دین پر ہمارا کچھ بھی نہیں لگا تو اس کی کوئی اہمیت و مقام ہمارے دلوں میں نہیں ہے، الا ما شاء اللہ۔ ایک دھوبی کپڑے دھو کر دھوپ میں ڈالتا ہے تو کوئی آدمی اس پر مٹی ڈال دے تو کیا وہ دھوبی اس کو معاف کر دے گا؟ ایک کمہار برتن بنا کر دھوپ میں رکھتا ہے تو کوئی اس کو توڑنا چاہے تو وہ کمہار آرام سے بیٹھا رہے گا؟ ہرگز آرام سے نہیں بیٹھے گا، وہ تو اس کا ہر حال میں مقابلہ کرے گا اسی طرح دنیا کی بے شمار چیزیں ہیں جن پر ہماری جان و مال اور وقت لگتا ہے تو ہم ان کی فکر میں ہوتے ہیں کہ وہ خراب نہ ہوں ان کو کوئی خراب نہ کرے مگر دین پر ہمارا کچھ بھی نہیں لگا تو اس کی اہمیت ہمارے دلوں میں کیسے آئے گی، پھر دین کے خراب ہونے سے ہمارے ماتھے پر شکن نہ ظاہر ہو گا، جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سب کچھ دین پر لگا تھا تو ان کی خلافت میں بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا تو انہوں نے جہاد کا اعلان کر دیا

لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ

مسند أحمد ط الرسالة (1/ 358)

کہ جو لوگ کہیں گے کہ ہم نماز تو ادا کریں گے مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ ان سے جہاد قتال کریگا ان کا مقصد یہ تھا کہ میری زندگی میں اللہ پاک کا کوئی حکم ضائع نہ ہوا اگر وہ ضائع ہو گیا تو ہماری زندگی بے مقصد ہو کر رہ جائیگی۔

۳۔ حکمت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ داعی لوگ دوسرے لوگوں کے معاملات میں ان کی معاونت کریں ان کے کام آئیں جب تک وہ لوگوں کے کام آئیں گے اللہ پاک اس داعی کے کام کرتے رہیں گے۔

وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ (مشکوٰۃ :ج1 ص 32 بحوالہ صحیح مسلم)

اور اللہ اپنے بندے کی مدد کرتے ہیں جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔

اگر داعی حضرات اس طریقے کو اپنائیں گے تو لوگوں سے ربط و تعلق پیدا ہو گا لوگوں کے قلوب و اذہان پر چھاجائیں گے دیکھیے! جب آپ پر پہلی نازل ہوئی تو آپ نے گھبرا کر اپنی زوجہ محترمہ جناب خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جن الفاظ کا استعمال کیا وہ بہت بڑی شہادت ہے وہ فرماتی ہیں:

إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتُقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ (صحیح بخاری باب بدءالوحی ج1 ص 2)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزت دیں گے کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں لوگوں کا بوجھ اٹھالیتے ہیں معدوم کو کسب مہیا کرتے ہیں یا اسکو کما کر دیتے ہیں آپ مہمان نواز ہیں آپ حق بات کی اعانت کرتے ہیں۔

دوسری جگہ مزید یہ ہے:

وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ (صحیح بخاری: ص 740 ج 12)

اور آپ سچی بات کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ لوگوں کے معاملات میں ہاتھ بٹانے والا ان کے معاملات میں کام آنے والا آدمی بڑا مقبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا داعی کو بھی یہ خوبی اپنے اندر پیدا کرنا ہو گی تاکہ اس کی محنت سے دین پھیلنا شروع ہو جائے اور یہ دین کا کام اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے اور ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ کے قاعدے کے مطابق یہ کام عام ہوتا جائے اور آہستہ آہستہ ساری دینا پر یہ پھیل جائے ہر کچے پکے گھر میں دین کی بہاریں آ جائیں اور قرون اولیٰ کی یادیں تازہ ہو جائیں۔

۴۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب آپ دعوت کا کام کریں تو غیر شعوری یا غیر ارادی طور پر مخالفت کرنے والے بعض دفعہ آپ سے سوالات کریں گے تاکہ دعوت میں الجھاؤ پیدا ہو آپ کہہ دیں کہ یہ مسئلہ علماء سے دریافت کریں وہی اہل علم ہیں ہمیں بھی جب ضرورت ہوتی ہے ہم بھی علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں ہم تو صرف دین کی محنت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ اگر داعی حضرات مسائل پر گفتگو کرنا شروع کر دیں تو پھر بحث و تکرار کا دروازہ کھل جائے گا۔ پھر نتیجہ یہ ہو گا کہ مسجد والے حضرات ہی کہہ دیں گے کہ ہم نے کیا شور مچارکھا ہے؟ یہاں بحث شروع کر دی ہے چلو یہاں سے نکلو تم کہاں سے آ گئے ہو ہمیں خواہ مخواہ پریشان کر رہے ہو نمازیوں کو نماز ادا کرنے دو ان کی نمازیں  خراب نہ کرو اپنی بحث بند کرو بچوں نے سبق پڑھنا ہے اب اگر آواز آئی تو تمہارے بستر باہر پھینک دیں گے ان ساری باتوں کا ایک ہی حل ہے کہ مسائل پر گفتگو کرنے سے گریز کریں۔

دوسرا اصول: دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ گفتگو خیر خواہانہ ہو، موعظہ حسنہ کا معنی یہی مناسب ہے داعی کے دل میں بہت ہی دلسوزی و ہمدردی ہو، خیر و صلاح کا جذبہ ہو، ترغیب و ترہیب کی فکر ہو، دعوت ایسے انداز سے دی جائے اور ایسے دلائل و شواہد سے دی جائے اور ایسی براہین پیش کی جائیں کہ ان سے خوف الٰہی پیدا ہو اور بعض اوقات ایسی مؤثر گفتگو ہوتی ہے کہ پتھر دل انسان بھی نرم اور موم ہو جاتے ہیں شرط یہ ہے کہ داعی کا سچا جذبہ ہو، لگاتار محنت و کوشش کرتا رہے اور تنگ دل نہ ہو تو ضرور تعلق باللہ کی کیفیت سامنے آئے گی۔

ارشاد ہے:

فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ [ق: 45]

آپ اس آدمی کو نصیحت و تلقین کریں جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے ڈرانے سے ڈر اور خوف پیدا ہو جاتا ہے مزید یہ فرمان بھی ہے:

فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ [الغاشية: 21]

آپ کا منصب ہی یہ ہے کہ آپ لوگوں کی خیر خواہی کریں اور ان کو مواعظ کہیں۔

فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ [الطور: 29]

آپ ان کو سمجھا دیں آپ اپنے رب کے فضل و احسان سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون و دیوانے ہیں انکو آپ کی عظمت کا کیا پتہ ہے؟ بھلا دیوانے لوگ اتنی عمدہ گفتگو، دلنشین بیان ، حکیمانہ اصول، اعلیٰ درجہ کی پندو نصائح اور پر مغز طرز بیان اختیار کر سکتے ہیں؟ بالکل نہیں کر سکتے تو پھر بحمد اللہ تعالیٰ نہ آپ کاہن ہیں اور نہ ہی آپ دیوانے ہیں آپ تو دین کے داعی اور رسول و پیغمبر ہیں آپ اپنا کام جاری رکھیں آپ گھبرائیں بالکل نہ، ارشاد ہے:

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

(الذاريات: 55)

آپ سمجھائیں کیونکہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے کیونکہ مومن لوگ مان لیتے ہیں انکو فائدہ ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ دین و ایمان قبول کر چکے ہیں ان کو یہ نصیحت اور وعظ و تذکرہ ضرور فائدہ دیتی ہے ایمان تازہ ہو جاتا ہے عمل کی توفیق مل جاتی ہے پھر دوسروں کو بھی دعوت دینے کی نوبت آ سکتی ہے آہستہ آہستہ یہ سلسلہ چل نکلے گا جس سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہوں گے۔

یاد رہے کہ یہ ان آیات اور دیگر اس مضمون کی آیات کا تقاضا ہے کہ داعی کے دل میں خیر خواہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری ہمدردی و خیر خواہی سے دعوت کا عمل جاری رکھا، دیکھئے! ایک یہودی بچہ (اس کا نام عبد القدوس تھا۔ فتح الباری) آپ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ اچانک بیمار ہو گیا آپ اس کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے حال و احوال دریافت کرنے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا: اے بیٹا! ’’قل لا الہ الا اللہ‘‘ اے بیٹا! ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پڑھ لو، اس کا اقرار کر لو، اس بچے نے سر اٹھا کر اپنے باپ کی طرف دیکھا نظرون کا تبادلہ ہوا تو بچے کے باپ نے بچے سے کہا۔ ’’اطع اباالقاسم‘‘ اے بیٹا! ابو القاسم کی بات مان لو، اس بچے نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ
(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات فہل یصلی علیہ ص 181 ج 1)

تمام تعریفات اس ذات کی ہیں جس نے اس بچے کو آگ سے بچا لیا ہے۔

یہ الفاظ آپ کی خوشی کا مظہر ہیں دیکھئے ایک بچہ مسلمان ہوتا ہے تو آپ کی خوشی کی انتہاء نہیں ہوتی، آپ سمجھتے ہیں کہ میرا ایک امتی اور بڑھ گیا اور وہ آگ سے بچ کر جنت میں جانیوالا بن گیا آپ کے اس طرز عمل سے ثابت ہوا کہ دین کی محنت و دعوت اور چیز ہے اور دین پر عمل کرنا اور چیز ہے، ہمارے دین کی بنیاد دعوت و تبلیغ پر ہے۔ دعوت سے ہی ایمان و یقین بنتا ہے، پھر اس سے عمل کی قوت بھی حاصل ہوتی ہے یاد رہے کہ جب ایمان و یقین صحیح اور اعمال درست ہو جائیں گے تو حالات بھی درست ہو جائیں گے۔

جیسا کہ ارشاد ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

(الأعراف: 96)

اور اگر (ان) بستیوں والے ایمان لے آئیں اور پرہیز گاری اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکات (کے دروازے) کھول دیں گے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔

اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ جوں جوں ان کے اعمال درست ہوتے گئے توں توں ان کے حالات صحیح ہوتے گئے پھر اتنی مالی فراوانی ہوئی کہ مسجد نبوی میں سونے اور چاندی کے ڈھیر لگ گئے یہ سارا دعوت دین کا اثر تھا سب بھائی چاہتے ہیں ناکہ دین پھیل جائے تو سب بھائی تیار رہیں۔

وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

اصل میں دعوت کے دو ہی اصول ہیں یہ تیسرا اصول پہلے دو اصولوں کی مضبوطی و استحکام کے لیے ہے کیونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چلتے چلتے کام کو روکنے کا سبب بن جاتے ہیں، کج بحثی کرنا ان کی عادت ہوتی ہے، ایسے لوگ نہ تو حکمت کی بات قبول کرتے ہیں اور نہ ہی وہ وعظ و نصیحت سے کوئی اثر لیتے ہیں بلکہ وہ بحث و تکرار اور مناظرے کے موڈ میں ہوتے ہیں ان کی باتیں سن کر بعض اوقات اہل فہم و دانش اور طالبان حق کو بھی شبہات لا حق ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ایسے موقع پر جب تک بحث نہ کی جائے ان کی تسلی و تشفی نہیں ہوتی تو اس مقام پر حکم فرمایا:

وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

ایسا کوئی موقع آئے تو تہذیب و شائستگی، خوش اخلاقی، حق شناسی سے تفہیم کی خاطر کچھ گفتگو ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یاد رکھنا کہ بد اخلاقی، ہٹ دھرمی اور کج بحثی سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، ہاں جب معقول انداز سے اور دلائل سے بات کی جائے تو دوسرا آدمی غور کرنے پر مجبور ہو جائے گا جیسے کوئی ساتھی کسی دوسرے ساتھی کو دعوت دے کہ آپ سارے نیک اعمال کرتے ہیں تو ایک بات کی کمی ہے اس کو بھی ختم کر دیں وہ یہ ہے کہ اپنے چہرے پر داڑھی کو سجائیں تو کوئی آدمی ایسا بھی ہو سکتا ہے جو کہے کہ داڑھی تو فطرت کے خلاف ہے اگر فطرت کے مطابق ہوتی تو پیدا ہوتے ہی یہ چہرے پر اگی ہوتی جیسے دیگر اعضاء ہیں معلوم ہوا کہ یہ خلاف فطرت ہے تو اس کا بہت معقول اور مسکت جواب یہ ہے کہ پھر تو آپ کو لباس بھی نہیں استعمال کرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی خلاف فطرت ہے پھر تو آپ کو اپنے دانت بھی نکلوا دینے چاہئیں یہ بھی خلاف فطرت ہیں پھر تو آپ کو کلام بھی اور گفتگو بھی نہیں کرنی چاہیے یہ بھی خلاف فطرت ہے پھر آپ کو شادی بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بھی خلاف فطرت ہے پھر آپ کو کاروبار، لین دین، آنا جانا بھی ترک کرنا ہوگا کیونکہ یہ بھی سب چیزیں خلاف فطرت ہیں اس طرح مکالمہ کرنے سے کسی کی دل آزادی بھی نہ ہو گی اور مدمقابل بھی خاموش ہو جائے گا اب آگے وہ تسلیم کرے یا نہ کرے اس کی قسمت کی بات ہے ہمارا کلام اصلاح کرنا ہے۔

؎کوئی سمجھے نہ سمجھےصدا کر چلیں ہیں

ہم اپنے فرض کو ادا کر چلیں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے