کچھ عرصہ قبل میرے عزیز شاگرد عبداللطیف تبسّم صاحب نے ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث میں “رمضان مبارک کے فضائل ومسائل “عنوان سےایک مضمون لکھا اور لیلۃ القدر کی دعا بحوالہ سنن الترمذی(مطبوعہ مکتبہ دارلسلام الریاض) ان الفاظ کے ساتھ نقل کی۔
الّلھم انّک عفو کریم تحب العفو فاعف عنّی (ص 801 رقم الحدیث3513)
میں نے ’’کریم‘‘ کا لفظ امام کعبہ فضیلتہ الشیخ عبدالرحمن السدیس صاحب کی قیام رمضان میں وتر میں مانگی گئی دعاؤں میں سنا تھااور میرا خیال تھا کہ یہ “کریم “کا لفظ کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے جب ترمذی کے حوالہ سے مذکورہ بالانسخہ میں دیکھا تو تحقیق کی جستجوپیدا ہوئی چونکہ مذکورہ نسخہ میں یہ لفظ قوسین ()میں لکھا ہوا ہے۔جب کتابیں کھنگالنی شروع کیں تو امام ابن العربی المالکی کی کتاب عارضتہ الاحوذی شرح سنن الترمذی (ص 45 جلد 13)میں بھی یہ لفظ موجود تھا البتہ بقیہ تمام مصادر ومراجع حتی کہ سنن ترمذی کے معتمد ترین نسخہ اور دیگر ناقلین کی کتابوں میں سے کسی میں بھی “کریم “کا لفظ نہیں مل سکا ۔یہ تحقیق “الاعتصام “کے دفتر اور دارالدعوہ السلفیہ لاہور کی لائبریری میں جا کر کی لیکن “کریم “کا لفظ کسی کتاب میں موجود نہ پایاگیا۔اب اس مضمون اور تحریر کا سبب جناب مفتی محمدخاں قادری صاحب شیخ الجامعہ الاسلامیہ لاہور بنے۔
واقعہ یہ ہے کہ کتب کی خریداری کے لیےمکتبہ اسلامیہ قیصر ہوٹل لاہور گیا غالباً رمضان کا مہینہ تھا نصف رات گزر چکی تھی وہاں ایک بزرگ انتہائی انہماک سے کتب بینی میں مصروف تھے اور عبدالرحیم خان صاحب مکتبہ اسلامیہ کی مختلف کتابیں ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔پھر یہ حضرت بذات خود اٹھ کر کتب تلاش کرنےلگےاس دوران انہوں نے نہایت محبت بھرے انداز اور مشفقانہ لہجہ میں پوچھاکہاں سے تشریف لائے؟میں نےعرض کیا اوکاڑا سے۔فرمانے لگے اسم گرامی میں نے عرض کیا محمد حسین ظاہری ۔پوچھاکیا مصروفیت ہے؟میں نےبتایا کہ درس وتدریس ،افتاء اور خطابت ۔اس پر بہت خوش ہوئےاور دعائیں دیں نیز فرمایا کہ پڑھنے لکھنے میں مصروف رہا کریں بہت اچھی بات ہے ۔میں نے پوچھا کہ جناب کا کیا تعارف ہے ؟تو فرمانے لگے “مفتی محمد خان قادری “۔چونکہ میں ان کی شخصیت سے متعارف تھا لیکن ملاقات نہ ہوئی تھی اس لیے میں خوش ہوا ۔مفتی صاحب نے اپنا وزٹنگ کارڈ(جو کہ بہت پرانا اور بوسیدہ حالت میں تھا )اس کے پیچھےاپنا موبائل نمبر لکھ کر عنایت کیا اورفرمایا کبھی موقعہ ملے توجامعہ میں بشریف لائیں۔میں نےعرض کیا انشاءاللہ ضرور حاضری دوں گا ۔اس کے بعد میں نےپوچھا کہ آج کل کیا مصروفیت ہے؟فرمایا تفسیر کبیرامام رازی کا ترجمہ کررہا ہوں کچھ جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ پچلے دنوں دسمبر 2014 ہمارے دوست مولانا محمد یوسف صاحب کراچی سے مکتبات کا وزٹ کرنے کےلیےتشریف لائےان کے ساتھ مفتی صاحب کا مکتبہ اور جامعہ دیکھنے کا پروگرام بنایامفتی صاحب سے فون کرکے ٹائم بھی لیالیکن مشیت الہی نہیں تھی پروگرام ملتوی ہوگیا۔دوبارہ پنجاب یونیورسٹی کے”کتاب میلہ “کےموقع پر 3 اپریل 2015 مفتی صاحب سے رابطہ کیا تو وہ میٹنگ میں مصروف تھےاگلےدن کا ٹائم دیا لیکن بعض مصروفیات کی بنا ء پر حاضر نہ ہوسکا ۔اس کي بعد میرا پروگرام مرید کے کے قریب ایک گاؤں ٹپیالہ دوست محمد میں تھا اس دن رابطہ کیا تو مفتی صاحب جامعہ میں موجود تھے لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوا۔ الشان لائبریری دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کچھ دیر مفتی صاحب سے لائبریری کےمتعلق بات چیت ہوتی رہی۔ اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور حدیث پر بھی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتےہوئےفرمایا محدثین کرام نے حفاظت حدیث کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہےتاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس اثناء میں مفتی صاحب نے فرمایا ہمارےقاری صاحب لیلتہ القدر کی دعا “الّلھم انّک عفو کریم تحب العفو فاعف عنّی”میں “کریم “کا لفظ زیادہ پڑھتےہیں میں نے ان کو کہا کہ یہ لفظ حدیث میں مذکور نہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ یہ لفظ حدیث میں موجود ہےبہر حال عرصہ دراز بعد سنن ترمذی میں لفظ مذکورموجودہ “موسوعہ حدیث “میں شامل سنن ترمذی کے نسخہ میں مل گیا اس پر بہت خوشی ہوئی ۔میں نے عرض کی کہ میں کچھ عرصہ قبل اس پرتحقیق کر چکا ہوں لیکن اپنی روایتی سستی کی بناء پر احاطہ تحریر میں نہیں لاسکا یہ لفظ کسی حدیث کی کتاب میں ان دومذکورہ بالانسخوں کے علاوہ موجود نہیں اس پر مفتی صاحب نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئےخواہش ظاہر کی کہ اگر آپ اس پر تحقیقی مضمون لکھ دیں تو میں اپنے ماہ نامہ رسالہ میں شائع کردوں گا میں نے وعدہ کر لیا لیکن وہی روایتی سستی غالب رہی ابھی پچھلے ہفتہ جب میں ڈیرہ غازی خان کے تبلیغی پروگرام سے فارغ ہو کر واپس آرہا تھا تو مفتی صاحب کا فون آیا اور دوبارہ یادہانی کروائی اور توجہ دلائی کہ ماہ رمضان سےقبل یہ مضمون لکھ کر بھیج دیں تو اسےرسالہ میں شائع کردیا جائےگا ۔اس بناء پر اب اللہ کی توفیق سےیہ دلائل پیش کیے جاتے ہیں ۔
جامع الترمذی کےنام سےدرسی نسخہ جسےمیر محمد کتب خانہ کراچی نے شائع کیا ہے۔
اس کے صفحہ نمبر 190 جلد نمبر 2 میں یہ حدیث درج ہے۔

1۔ حدثنا قتیبہ بن سلمان الضبعی عن کھمس بن الحسن عن عبداللہ بن بریدہ عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قلت یا رسول اللہ ارایت ان علمت ای لیلۃ لیلۃ القدر ما اقول فیھا؟قال قولی اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی (ھذا حدیث حسن )

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے کہا
’’اے اللہ کے رسول صلیعلیہ وسلم اگر میں جان لوں کہ کون سی رات قدر کی ہے تو اس میں کون سی دعا مانگوں ؟تو آپ صلیاللہعلیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہو۔اے اللہ تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے تو معاف کرنا پسند کرتا ہے لہذا مجھے معاف فرما دے ۔امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے۔
2۔ شیخ عبدالرحمن مبارک پوری صاحب شارح جامع الترمذی اپنی شرح تحفہ الاحوذی میں اس روایت کو انہی مذکورہ بالا الفاظ سے ہی نقل کرتے ہیں لیکن آخر میں امام ترمذی کا قول اس میں لفظ “صحیح “کا اضافہ ہے ۔ھذاحدیث حسن صحیح یہ حدیث حسن ہےصحیح ہے (صفحہ نمبر 264 جلد نمبر4)
جامع ترمذی کا نسخہ جسے مبارک پوری صاحب نے تحفہ الاحوذی میں اصل بنایا ہے اس پر اہل علم اعتماد کرتے چلےآرہے ہیں جیسا کہ شیخ شعیب الارناؤوط ني الجامع الکبیر کي مقدمہ میں ذکر کیا ہے۔دیکھیں(صفحہ نمبر 168 جلد نمبراول)۔
3۔ اس وقت میرے سامنے جامع ترمذی کا نسخہ جو کہ دارالرسالۃ العالمیہ نے شیخ شعیب الارناؤوط اور عبداللطیف حرزاللہ کی تحقیق کي ساتھ الجامع الکبیر (سنن الترمذی)کے نام سے شائع کیا ہے ۔اس میں بھی مذکو رہ سند کیساتھ یہ الفاظ’’ اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی‘‘ذکر کیے ہیں ۔دیکھیں (صفحہ نمبر 119 جلد نمبر 6)
اس نسخہ کی خصوصیات :
1۔یہ نسخہ چھ خطی نسخہ جات (مخطوطات )سے تقابل کرکے شائع کیا گیا ہے۔
2۔ موجودہ مطبوعہ نسخوں کیساتھ بھی تقابل کیا گیا ہے ۔
3۔اس میں جن چھ خطی نسخوں کا تقابل کیا گیا ہےان میں سرفہرست امام ابوالفتح عبدالمالک ابن ابی القاسم عبداللہ بن ابی سھل بن ابی القاسم بن ابی منصور بن تاج الکروخی الھروی البزارکا اپنے ہاتھوں سےلکھا ہوا نسخہ ہےاور مذکورہ شجرہ نسب بھی ان کےاپنے ہاتھ سے اسی نسخہ پر ورقہ نمبر 271 پر لکھا ہواہے۔
4۔یہ امام ابو العباس احمد بن محمد بن کوثر المحاربی کا نسخہ ہے اس پر امام کروخی نے اپنے ہاتھ سے بذات خود تصریح کی ہے ۔کہ یہ نسخہ میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔دیکھیں مقدمۃ الجامع الکبیر (ص 110 تا 167 جلد اول)امام الکروخی کے اس نسخہ کو اصل اور بنیاد بنایا گیا ہے ۔معلوم ہوا کہ یہ نسخہ صحیح ترین ہے اس میں لفظ “کریم “موجود نہیں مذکورہ بالاالفاظ ہی ہیں ۔
5۔ امام کروخی اور ان کےنسخہ کی مزید تفصیل کے لیےدیکھیں آراءالمحدثین فی الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ(ص 506 تا 526)۔
6۔ امام ذھبی نےامام کروخی کا ترجمہ سیراعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے اس میں لکھتے ہیں:
’’حدث عنہ خلق کثیر،منھم السمعانی ،وابن عسا کرو ابن الجوزی‘‘
ان سے کثیر لوگوں نے حدیث بیان کی ہے ان میں سے امام سمعانی(صاحب انساب)ابن عساکر (صاحب تاریخ دمشق)،ابن الجوزی (صاحب موضوعات) اور دیگر لوگوں کے نام ذکر کئے ہیں ۔(ہم نے طوالت کے خوف سے چھوڑدئیے ہیں ظاہری)۔
7۔امام سمعانی کے حوالےسے نقل کرتے ہیں کہ:

قال السمعانی ھوشیخ صالح دیّن خیر حسن السیرۃ صدوق ثقۃ قرات علیہ جامع الترمذی وقری علیہ عدہ نوب ببغداد وکتب بہ نسخۃ بخطہ ووقفھا ووجد واسماعہ فی اصول المؤتمن الساجی وابی محمد بن السمر قندی وکنت اقرا علیہ فمرض فنفّذ لہ بعض السامعین شیاء من الذھب فماقبلہ وقال بعد السبعین واقتراب الاجل آخذ علی حدیث الرسول صلی اللہ علیہ وسلم شیاء!!وردّہ مع الاحتیاج الیہ ثم جاور بمکۃ حتی توفی وکان ينسخ کتاب ابی عيسی باجرۃ ويقوّت (ص 275 جلد 20)

نیز انساب سمعانی (ص 410 ۔409 جلد 10)(ذیل تاریخ بغداد ص 84۔83 جلد 1)امام سمعانی فرماتے ہیں کہ شیخ صالح ،متدین ،خیر ،حسن سیرت ،سچے اور بااعتماد ہیں میں نے ان پر جامع ترمذی کی قرات کی اور بغداد میں ان پرکئی مجالس میں اس کی قرات کی گئی اور شیخ نے اپنے ہاتھ سے اس کا نسخہ لکھا اور اسےوقف کر دیا امام الموتمن ساجی اور ابی محمد بن سمر قندی کے اصل نسخوں کا انہوں نے سماع بھی لکھا ہوا پایا ۔اور میں ان پر قرات کرتا تھا شیخ بیمار ہو گئے تو ان کے بعض شاگردوں (سماع کرنے والوں )نے ان کے لیے کچھ سونے کا انتظام کیا تو انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا 70 سال کے طویل عرصہ بعد اور موت کے قریب ،رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر میں اجرت وصول کروں !!
باوجود سخت ضرورت کے اسے رد کردیا اور مکہ جا کر آباد ہو گئے اور روزی روٹی کے لئے امام ترمذی کی کتاب اجرت پر لکھتے تھے ۔
8۔ امام ذھبی فرماتے ہیں ہمارے شیخ ابن ظاھری نے کروخی کے واسطے سے نشتبری پر جامع ترمذی کی مکمل قرات کی اور عمر بن کرم نے اس کی سند اجازت کے ذریعہ کروخی کے واسطہ سے تحدیت کی ۔سیراعلام النبلاء (ص 275 جلد 20)
اس سے معلوم ہوا کہ امام کروخی جامع ترمذی کی تحدیت بھی کرتے اور ان کے تلامذہ ان پر قرات بھی کرتے نیز یہ جامع ترمذی کے مختلف نسخے لکھ کر اپنی گزر بسر بھی کرتے تھے اس لئے کہ امام کروخی کے نسخے اہل علم کے نزدیک انتہائی معتبر سمجھے جاتے تھے ۔
9۔ اسی لئےشیخ شعیب ارناؤوط نے بھی اس نسخہ کو اصل اور بنیاد بنا کر تحقیق کی ہے ۔فرماتے ہیں:
“واماالرواۃ عن ابی الفتح الکروخی فی ھذہ النسخہ خلق کثیر بلغو السبعۃ وعشرين رجلا تقریبا‘‘
ابو الفتح کروخی سے یہ نسخہ روایت کرنے والے کثیر لوگ ہیں جن کی تعداد تقریبا 27 تک پہنچتی ہے ۔
10۔پھر فرماتے ہیں:

“وقد روی عن الکروخی جماعتہ لم تذکر اسماءھم فی ھذہ النسخۃ من جلۃ الحفاظ منھم الحافظ ابو الفرج ابن الجوزی ولہ نسخۃ بخطہ۔۔۔ (الجامع الکبیر ص 124 جلد اول)

امام کروخی سے ایک جماعت نے روایت کی ہے ان کے نام اس نسخہ میں ذکر نہیں کیے گئے ۔جو کہ کبار حفاظ میں سے ہیں ان میں ایک امام ابن الجوزی ہیں ان کے پاس بھی ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ موجود تھا ۔
11۔ ہمارے مکتبہ ظاہریہ میں الحمدللہ کروخی کا نسخہ موجود ہے جو کہ A-4کے بڑے سائز میں ہے اس کے صفحہ نمبر238 (دائیں جانب )یہی الفاظ جو شعیب الارناؤوط کے محققہ مطبوعہ نسخہ سے نقل کیے گئے ہیں موجود ہیں ۔
12۔شیخ احمد شاکر کی تحقیق سے شائع ہونے والے نسخہ میں بھی’’ کریم ‘‘کا لفظ نہیں ہے ۔دیکھیں (صفحہ نمبر534 جلد نمبر 5 رقم 3513 )اس کے آخر میں بھی “قال ھذا حدیث حسن صحیح ‘‘ہے۔
اب ہم ان محدثین اور ائمہ کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے امام ترمذی کی کتاب کے حوالے سے اپنی کتب میں یہ حدیث بغیر “کریم “کےلفظ کےنقل کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی “کریم “کا لفظ استعمال یا نقل نہیں کیا ۔
13۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے جدا مجد مجدالدین ابو البرکات عبدالسلام بن تیمیہ الحرانی نے بھی مذکورہ بالا الفاظ نقل کئے اور آخر میں لکھتے ہیں:
“رواہ الترمذی وصححہ واحمد وابن ماجہ وقالافیہ ارایت ان وافقت لیلۃ القدر۔ (صفحہ 206 جلد 2 حدیث رقم 2291) طبع دارالمعرفۃ بیروت۔

14۔ امام محی السنۃ ابو الحسین بن مسعود بن محمد الفراء البغوی المتوفی (516ھ)اپنی کتاب “مصابیح السنۃ “میں یہی الفاظ نقل کیے ہیں (صفحہ نمبر 104۔103 جلد نمبر 2 رقم 1499)
تحقیق دکتور یوسف عبدالرحمن المرعشلی ،محمد سلیم ابراھیم سمارہ ،جمال حمدی الذھبی ۔طبع دارالمرفۃ بیروت ۔

15۔ صاحب مشکاۃ ،امام محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی نے ام کی تخریج کی ہے اور کہا کہ اسے احمد ،ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔(صفحہ نمبر 646 جلد اول بتحقیق الشیخ الالبانی) شیخ البانی نے بھی اس رویت کو صحیح قرار دیا ہے حوالہ مذکورہ۔
16۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ھدایۃ الرواۃ الی تخریج احادیث المصابیح والمشکاۃ میں دونوں کتابوں کی تخریج کی ہے اس روایت کی تخریج کرتے ہوئے (ترمذی 3513)نسائی فی السنن الکبری (1070)ابن ماجہ (3850)کا حوالہ دیا ہے اور آخر میں امام ترمذی کا قول نقل کیا ہے ۔
وقال الترمذی صحیح ۔ (تحقیق علی بن حسن عبدالحمید الحلبی صفحہ نمبر 356۔355 جلد نمبر 2)طبع دار ابن القیم الدمام ۔۔۔۔دار ابن عفان القاھرہ ۔
17۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور ومعروف کتاب بلوغ المرام میں اس روایت کی نقل کر کے لکھتے ہیں رواہ الخمسۃ غیر ابی داؤد وصححہ الترمذی والحاکم۔اسے پانچوں نے روایت کیا ہے سوائے ابوداؤد کے اور امام ترمذی او حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ۔(درسی نسخہ صفحہ نمبر 142)
حاشیۃ العلامہ احمد حسن الدھلوی من علماء الھند ۔باضافتہ الفوائد الجدیدۃ للشیخ محمد صدیق بن عبدالعزیز السرکودھوی ۔ طبع ادارۃ احياء السنۃ النبويۃ سرگودھا۔
دوسرا نسخہ (صفحہ نمبر 125 رقم 575)تحقیق محمد خالد سیف طبع طارق اکیڈمی لائل پور (فیصل آباد )
تیسرا نسخہ (صفحہ نمبر 158 رقم 659)تحقیق تخریج عصام الدین الصبابطی و طبع دارالحدیث القاھرہ ۔
چوتھا نسخہ (صفحہ نمبر 164 رقم 691)اتحاف الکرام تعلیقات علی بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمن مبارکپوری (طبع دارالسلام )

18۔ امام نووی ۔ابو زکریا یحی بن شرف النووی الدمشقی (632۔0676)اپنی معروف کتاب “ریاض الصالحین” میں اس روایت کو ترمذی کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور آخر میں امام ترمذی کا قول حدیث حسن صحیح بھی لکھا ہے (ص 472رقم1195) تحقیق ،تخریج ،تعلیق ،شعیب الارناؤوط، عبدالعزیز رباح،احمد یوسف الدقاق۔طبع ،نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۔محققین نے اس کی تخریج میں حاشیہ پر لکھا ہے ترمذی (3508)اسنادہ صحیح اس کی اسناد صحیح ہے ۔
دوسرا نسخہ (شیخ البانی کی تحقیق وتخریج ۔ص 432 رقم 1203)
تیسرا نسخہ (طبع مکتبہ دارالسلام )مترجم حافظ صلاح الدین یوسف مصنف تفسیر احسن البیان (ص 201۔200 جلد نمبر 2 رقم 1195)
19۔امام نووی اپنی کتاب “الاذکار “میں’’باب مایدعو بہ اذا صادف لیلۃ القدر‘‘کے تحت لکھتے ہیں:

روی بالاسانید الصحیحہ فی کتب الترمذی والنسائی وابن ماجہ وغیرھا عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قلت یا رسول اللہ ان علمت لیلۃ القدر مااقول فیھا ؟قال قولی اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی قال الترمذی حدیث حسن صحیح (ص رقم163۔162)حقق نصوصہ وخرج احادیثہ وعلق علیہ ۔عبدالقدرالارناؤوط طبع مرکز الفلاح للطباعتہ والنشر دمشق۔

خاص طور پر شیخ عبدالقدر الارناؤوط نے نص کی تحقیق کی ہے ۔
دوسرا نسخہ (صحیح کتاب الاذکار وضعیفہ بقلم ابو اسامہ سلیم عیدالھلالی (ص 498۔497 جلد اول رقم 557/401)طبع مکتبہ الغرباء الاثریۃ۔
(شیخ سلیم ھلالی ،شیخ البانی کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں راقم کی ان سےپہلی ملاقات پاکستان میں ہوئی اور کچھ دن اکٹھے علمی سفر کیا اس کے بعد دو مرتبہ کویت میں تشریف لائے اس دوران بھی ان سے ملاقات رہی فن حدیث میں ید طولی رکھتے ہیں کئی ایک کتب کے شارح، محقق اور مصمف ہیں )
20۔امام شمس الدين ابوعبداللہ محمد بن قيم الجوزيہ المعروف اپنی کتاب الوابل الصيب ورفع الکلم الطيب (صفحہ344) ميں اس روايت کو امام ترمذیکے حوالے سے نقل کرتے ہيں ۔
21۔امام محمد بن سليمان المغربی (المتوفی1094ھ) نے اپنی کتاب جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد (ص نمبر657جلدنمبر4 رقم9446)طبع المجلس العلمی کراچی ميں ترمذیکے حوالہ سے يہ روايت نقل کی ہے ۔
22۔اس کے حاشيہ پر علامہ عبداللہ ھاشم يمانی کی تخريج اعزب الموارد فی تخريج جمع الفوائد کے نام سے موجود ہے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ رواہ ايضا النسائی واحمد وابن ماجہ وصححہ الترمذی والحاکم کذانی بلوغ المرام صفحہ 84۔
23۔امام منذری ۔(عبدالعظيم بن عبدالقوی المنذری المتوفی 656ھ) نے بھی صرف امام ترمذیکے حوالہ سے نقل کيا ہے ديکھيں الترغيب والترھيب ( صفحہ 273جلد 4) طبع دارلاحياء التراث العربی بيروت ۔
24۔ امام ابوالفداء اسماعيل بن کثير القرشی الدمشقی (متوفی774ھ) اپنی تفسيرالقرآن العظیم المعروف تفسير ابن کثير ميں لکھتے ہيں:

’’وقد رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ عن طریق کھمس بن الحسن ۔۔۔۔۔اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی وھذا لفظ الترمذی ثم قال ھذا حديث حسن صحيح واخرجہ الحاکم فی مستد رکہ وقال ھذا صحيح علی شرط الشيخين ورواہ النسائی ايضا من طريق سفيان الثوری عن علقمتہ بن مرثد عن سليمان بن بريدہ عن عائشہ قالت قلت يارسول اللہ أرايت ان وافقت ليلتہ القدر ما اقول فيھا ؟ قال قولی اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ( 568جلد4) طبع جمعيتہ احياء التراث الاسلامی الکويت‘‘

امام صاحب نے جن کتابوں کے حوالے دئيے ہيں ان کتب ميں سے کسی میںبھی “کريم ” کا لفظ نہيں ۔ ” بطور خاص فرماتے ہيں يہ ترمذی کے الفاظ ہيں ” فافھم وتدبر۔
25۔شيخ البانی نے اس روايت کو صحيح الترغيب والترھيب ميں ذکر کيا ہے اور صحيح کا حکم لگايا ہے ۔ (325جلد3)
26۔امام جلاالدين عبدالرحمن السيوطی (المتوفی 911ھ) الفتح الکبير فی ضم الزيادہ والجامع الصغير ميں ترمذیاور حاکم کے حوالہ سے رقم طراز ہيں ۔(ص305جلد 2) طبع دارالکتب العربيہ ۔مصر)
27۔شيخ البانی نے بھی صحيح الجامع الصغير وزيادہ الفتح الکبير ميں يہ حديث نقل کی ۔ (145جلد 4رقم 4299)
28۔ امام سيوطی نے اس روايت کو ترمذی، ابن ماجہ ،اور حاکم کے حوالہ سے جامع الاحاديث الجامع الصغير وزوائدہ والجامع الکبير ميں نقل کيا ہے ۔(ص370جلد6)
29۔امام ابو عبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی نے بھی اپنی تفسير الجامع لاحکام القرآن المشھور تفسير قرطبی (ص138جلد 20)ميں اس روايت کو ذکر کيا ہے ۔
30۔امام شوکانی نے نيل الاوطارمن اسرار منتقی الاخبار (ص458جلد8)تحقيق محمد صحبی بن حسن حلاق ميں نقل کيا ہے ۔
31۔امام عبدالرحمن بن علی المعروف بابن الدبيع الشيبانی الزبيدی الشافعی المتوفی(944ھ)اپنی کتاب ’’تيسير الوصول الی جامع الاصول من احاديث الرسول صل اللہ عليہ وسلم (ص85جلد2)ميں صرف ترمذی کا حوالہ ديتے ہيں ۔يہ کتاب “جامع الاصول لاحاديث الرسول”امام ابوالسعادات محمد بن محمدبن عبدالکريم بن الاشيرالجزاری (المتوفی سنہ 606ھ)کی کتاب کا اختصارہے گويا کہ جامع الاصول ميں بھی مذکورہ بالاالفاظ ہی ہيں ۔
32۔ امام ولی الدين احمد بن عبدالرحيم بن الحسين العراقی (المتوفی826ھ) اپنے رسالہ “ليلتہ القدر” ميں مذکور مشہورلفظ ہی نقل کرتے ہيں ديکھيں (ص59)طبيع مکتبہ التراث العربی القاہرہ ۔اس نسخہ ميں بہت زيادہ اغلاط ہيں ۔
امام سخاوی نے الضواءالامع (ص344_336جلد اول) کے ترجمہ ميں اس کتاب کا نام شرح الصدر بذکر ليلتہ القدر لکھا ہے (ص343جلد اول)ان کے ترجمہ کے لئے ديکھيںالبدرالطالع(ص72جلداول)شذرات الذھب (173جلد7)
33۔ المسند الجامع کے مؤلفين،محقيقين،مرتبين اور ضبط الفاظ(نصوص)کا اہتمام کرنے والے دکتوربشار عوادمعروف ، السيد ابوالمعاطی محمد النوری احمد عبدالرزاق عيد، ايمن ابراہيم الزملی ،محمود محمد خليل، نے اس کتاب ميں عائشہ رضی اللہ عنھا والی روايت کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ تمام روايات کے الفاظ ايک دوسرے کے قريب اور ملتے جلتے ہيں اور ہم نے ابن ماجہ کے الفاظ نقل کئے ہيں اس کتاب ميں احاديث کے طرق کئے گئے ہيں لہذا کسی کتاب کے حوالے سے بھی لفظ “کريم” کا ذکر نہيں کيا۔ديکھيں (225_224جلد20)
34۔امام طيبی شرف الدين حسين بن عبداللہ الطيبی(المتوفی743ھ)شرح الطيبی علی مشکوۃ المصابيح المسمی بالکاشف عن حقائق السنن (204جلد4) مذکورہ بالا الفاظ طبعی نقل کئے ہيں ۔
35۔ملا علی قاری مرقاۃ المفاتيح(ص833جلد4)مترجم طبع مکتبہ رحمانيہ لاہور نے انہي الفاظ کو برقرار رکھا ہے (مرقاۃص321جلد4) عربی طبع ملتان۔
36۔الشيخ ابو الحسن عبيداللہ بن عبدالسلام المبارکپوری اپنی مايہ ناز کتاب مرعاۃ المفاتيح شرح مشکوۃالمصابيح ميں اس روايت کی تخريج وشرح کرتے ہوئے لکھتے ہيں ( و صححہ ) اي الترمذی وقال الحاکم صحيح علی شرط الشيخين و و فقہ الذھبی(ص135_134ج7) امام ترمذی کے ہم دوسرے محدثين و ائمہ کی کتب سے بھی اس روايت کے الفاظ کی تحقيق پيش کرتے ہيں۔
37۔(1) سنن ابن ماجہ طبع مکتبہ دارالسلام الرياض (ص550رقم3850)
38۔(2)مسند احمد (ص236جلد42)(الموسوعہ الحدیثيہ رقم 25384 نيز رقم25495-25497-25505-25741-26215)
(3) دوسرا نسخہ (ص171-182-183-258جلد)
39۔(4)نسائی (السنن الکبير رقم10708-10709-107010) نسائی عمل اليوم والليلۃ(872-873-874)
40۔(6)امام ابن السنی۔عمل اليوم والليلۃ (رقم767)
41۔(7)کتاب الدعا امام طبرانی(ص1227جلد2رقم915)
42۔ (8) کنزالعمال(رقم24282/3716)
43۔(9)تاريخ بغدادللخطيب البغدادی (ص18جلد12)
44۔ (10)آخر میں تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوۃ کے خوالہ سے بھی عرض ہے کہ اس میں بھی “کریم “کا لفظ مذکور نہیں للعلامہ ابی الوزیر احمد حسن (ص 46 جلد 2)تلک عشرۃ کاملہ ۔
ان تمام کتابوں میں:’’ اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی‘‘کے ہی الفاظ ہیں صرف مکتبہ دارالسلام کے نسخہ میں اللھم انک عفو “کریم “کے الفاظ موجود ہیں یا ابن العربی کی شرح عارضہ الاحوذی جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ۔ جامع الترمذی کا مطبوعہ نسخہ جسے دارالاسلام والوں نے شائع کیا ہے اس کے ٹائٹل پر لکھا ہے باشراف ومراجعۃ فضیلۃ الشیخ صالح بن عبدالعزیز بن محمد بن ابراھیم آل الشیخ ۔
لیکن خبردی اور دل چسپ واقعہ سنایا نیز اس کے شروع میں کلمۃالناشر کے تحت جن نسخوں کا حوالہ دیا گیا معلوم ہوتا ہے عارضۃ الاحوذی سے ہی یہ الفاظ نقل کئےگئے ہیں کسی مخطوط (خطی نسخہ )کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔
اس کی واضح اور بين دلیل یہ ہے کہ ۔
1۔جن نسخوں کا حوالہ دیا گیا ہےان میں تحفہ الاحوذی شرح جامع ترمذی جبکہ ہم اس کے حوالہ سے ابتداء میں ہی ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں “کریم “کا لفظ نہیں ہے ۔
2۔ جس قدر قلمی نسخے محقیقن کی نظر سے گزرے یا انہوں نے دوران تحقیق ان کی طرف مراجعت کی تو کسی نسخہ میں بھی یہ لفظ موجود نہیں ۔
3۔ناقلین میں سے کسی نے اس لفظ کا ذکر نہیں کیا ۔
4۔امام ابن العربی کی کتاب عارضۃ الاحوذی میں یہ لفظ موجود ہے لیکن مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ یہ لفظ غلطی سے نقل ہو گیا وگرنہ کسی نا کسی نسخہ میں موجود ہوتا یا کسی ناقل نے ضرور نقل کیا ہوتا ۔
5۔ ان تمام تفصیلات سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ لفظ غلطی سے نقل ہو گیا ہے کیونکہ تمام مصادر و مراجغ اور نسخ معتمدہ جو ہمیں میسّر آسکے ان میں کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں اس لئے اصل الفاظ ” اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی”ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
ائمہ و محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس کے شواہد موجود ہیں تفصیل کے لئے دیکھیے مسند احمد (الموسوعۃ الحدیثیہ ص 236 جلد 42 رقم 25384)
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے