26 اکتوبر کو پاکستان میں چترال سے لاہو ر تک آنے والے شدید ترین زلزلہ جس کا دورانیہ چار سے پانچ منٹ بتایا جاتا ہے اور جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.6 نوٹ کی گئی، عبرت کی بات ہے کہ 4،5 منٹ کے زلزلے نےملک کے دوصوبوںکو ہلاکر رکھ دیا جس کی وجہ سے ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمزدہ ہے کیونکہ اس زلزلہ میں جاں بحق ہونے والوں میں کئی معصوم بچے بھی شامل ہیںجو اپنے والدین کی خوشیوں کا واحد ذریعہ تھے وہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، یہ بچے اور بچیاں جو مٹی تلے دب گئے جن کے ماں باپ کو ان کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا، یہ وہ پھول تھے جو بِن کھلے مرجھاگئے اور کچھ جوانی میں ہی شاخوں سے ٹوٹ کر منوں مٹی تلے دب گئےاور بہت سے ایسے ہیں جوہر آنے والے سے پوچھتے ہیں باباکب آئیں گے؟؟ ان معصوموں کو کون بتائے کہ ان کے اور باباکے درمیان مٹی کے پہاڑ حائل ہوگئے ہیں، اس زلزلے نے صرف زمین کا سینہ ہی شق نہیں کیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے، جوسر چھپانے کا آسراتھا وہ اب زمین سے برابر ہوگیا ہے زندگی بھر کی محنت ومزدوری خاک میں مل چکی ہے سیکڑوں لوگ آن واحد میں موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ یہ زلزلہ بھی دیگر زلزلوں کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انسان اپنی عقل ودانش فہم وفراست سے جتنی بھی حیرت انگیز ایجادات اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر جتنی ایڈوانس ٹیکنا لوجی حاصل کرلےان قدرتی آفات اور تنبیھات کے سامنے بے بس اور کمزور ہے، انسان جس کو اپنی عقل وتدبیر پر بڑا ناز ہے جوکہ اقتدار مال ودولت اور طاقت کے نشے میں تکبراور غرور پر اتر آتاہے جو کہ اپنی بلند وبالا عمارتوں اور اونچے محلات پر اتراتاہے جب اللہ تعالی کا حکم آتاہے تویہ مضبوط ترین قلعے مٹی کے گھروندوں کی طرح آن واحد میں زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔
زلزلے اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کے لیے درس عبرت اور اس کی نشانیوں کا اظہار ہیں جیساکہ ارشاد باری ہے :
وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(الاسراء:59)’’ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں ‘‘
سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّهٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(فصلت:53)عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے کیا آپ کے رب کا ہرچیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں‘‘
زلزلہ اہل ایمان کےلیے درس عبرت کے ساتھ اعمال وعقائد کی درستگی کا ذریعہ بھی ہے اور کفار کے لیے عذاب الٰہی کی ایک جھلک ہے زلزلے اس لیے بھی آتے ہیںجیساکہ قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتب میں واضح کیا گیا ہے کہ جب قومی سطح پر بے حیائی، بے راہ روی اور برائی اپنی انتہاؤں کو پہنچ کر اتنی عام ہوجائے کہ برائی برائی نہ رہے بلکہ اچھائی اور آزاد خیالی تصور کرلی جائے اور ثقافت کے نام پر گندگی فیشن بن جائے، بے پر دگی، فحاشی اور عیاشی کو شعار بنا لیا جائے، نیک سیرت، شریف النفس، حق و صداقت کے پیکرانسان کو معاشرے میں حقیر جانا جائے اور اس کے برعکس، بدمعاش، بدکردار، بے ایمان، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو جانتے ہوئے بھی مناصب، عہدوں اور عزتوں سے نوازاجائے،برائی پر فخر کیا جانے لگے تو پھر آسمانی آفات نازل ہوتی ہیں۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ کہ جب میری امت پندرہ قسم کے کام کرنے لگ جائے گی تو پھر اس وقت ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد یوں نقل کیا گیا ہے کہ طرح طرح کے عذابوں کا سلسلہ اس طرح لگاتار شروع ہو جائے گا جیسے کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ وہ پندرہ چیزیں کیا ہیں؟۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:1 جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت بنا لیا جائے یعنی اس کی صحیح تقسیم کی بجائے خواہشات نفسانیہ کے مطابق تقسیم ہونے لگے۔2: امانت کو غنیمت سمجھا جائے۔3: زکوٰۃ کی ادائیگی کو تاوان اور چٹی سمجھا جانے لگے۔یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی خوش دلی کی بجائےتنگ دلی سے ادا کی جائے۔ 4:آدمی اپنی بیوی کا فرمانبردار بن جائے۔5: اپنی ماں سے بدسلوکی اور نافرمانی کرنے لگے جائے۔6: اپنے دوست سے حسنِ سلوک اور نیکی کرے۔7: اپنے باپ سے بے وفائی اور نفرت برتے۔8 مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں یعنی کھلم کھلا شور و غوغا ہونے لگے۔9: سب سے کمینہ، رذیل اور فاسق آدمی قوم کا قائد اور نمائندہ کہلائے،یعنی قوم کا سردار وہ مقرر ہو گاجو سب سے زیادہ فاسق اور بدکار ہو۔ نہ کہ متقی اور پرہیز گار شخص۔10: آدمی کی عزت محض اس کے ظلم اور شر سے بچنے کے لئے کی جانے لگے۔11: شراب نوشی عام ہوجائے ۔12: مرد ریشم پہننے لگ جائیں۔13: گانے والی عورتیں رکھی جائیں4۔ مزامیر یعنی گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے۔15 : امت کا پچھلا حصہ پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کرنے لگے یعنی ان کو برا بھلا کہا جانے لگے۔(سنن الترمذی، شاکر (4/ 494)۔بَابُ مَا جَاءَ فِی عَلَامَةِ حُلُولِ المَسْخِ وَالخَسْفِ،حدیث ضعیف ولکن له أطراف صحیحة )
یہ تمام نشانیاں دور حاضر میں من عن پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، دھوکہ دہی، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری و عوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں بلکہ مساجد ومدارس میں بھی بیماریاںپائی جاتی ہیں مسلمانوں کا مالی نظام بد سے بدتر ہے عصری تعلیم کا شور اتنا طاقتور ہےکہ دینی درسگاہوں کے طلبہ کرام، مدرسے کی چہار دیورای میں رہتےہوئے دینی تعلیم سے بے فکر ہوکرساری توجہ عصری علوم کے حصول پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوچکے ہیں، بیوی کی اندھی محبت میں والدین سے بدسلوکی عام سی بات ہے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اس ماحول سے کچھ کسر باقی رہ گئی تھی جو موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے وہیں اپنے بھی پیچھے نہیں رہے اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیاء اور نیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور یہ ساری باتیں اس معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔
ان دنوں دنیامیں بہت سارے ممالک میں جوزلزلے آرہے ہیں وہ انہیں نشانیوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالی اپنے بندوں کوڈراتا اور یاددہانی کراتا ہے، یہ سب زلزلے اور دوسرے تکلیف دہ مصائب جن کا سبب شرک وبدعت اورمعاصی وگناہ ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ’’ تمہیں جوکچھ مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اوروہ ( اللہ تعالی ) توبہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے‘‘ (الشوریٰ30)، اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا :مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ۭوَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَکَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًا’’ تجھے جوبھلائ ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جوبرائ پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،، (النساء ( 79 )
اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے متعلق فرمایا : فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا کَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ’’پھرتو ہم نے ہرایک کواس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ان میں سے بعض پرہم نے پتھروں کی بارش برسائی اوربعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا اوراللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں،،( العنکبوت ( 40 ) ہرمسلمان پریہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں اور معاصی سے توبہ کرے، اور دین اسلام پراستقامت اختیار کرے اورہرقسم کےگناہ اورشرک وبدعات سے بچے تاکہ اسے دنیا وآخرت میں ہرقسم کے شرسے نجات وعافیت حاصل ہو اوراللہ تعالی اس سے ہرقسم کے مصائب وبلایا دورکرے اورہرقسم کی خیروبھلائی عطافرما، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے :وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ’’ اوراگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی توہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا،،(الاعراف ( 96 )علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :’’بعض اوقات اللہ تعالی زمین کوسانس لینے کی اجازت دیتا ہے توزمین میں بہت بڑے بڑے زلزلے بپا ہوتے ہیں، تواس سے اللہ تعالی کے بندوں میں خوف اورخشیت الہی اور اس کی طرف رجوع، معاصی وگناہ سے دوری اوراللہ تعالی کی جانب گریہ زاری اوراپنے کیے پرندامت پیدا ہوتی ہے،،جیسا کہ جب زلزلہ آیا تو سلف میں سے کسی نے کہا :’’تمہارا رب تمہاری ڈانٹ ڈپٹ کررہا ہے، اور جب مدینہ میں زلزلہ آیا توسیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کوخطبہ دیتے ہوئےانہیں وعظ ونصیحت کی اور فرمانے لگے:’’ اگر یہ زلزلہ دوبارہ آیا میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دونگا ‘‘
وہ بڑی بڑی وجوہات جوکہ ان زلزلوں، طوفانوں، آندھیوں، زمین میں دھنسادیئے جانے اور بندر و خنزیر بنائے جانے کا سبب بنیں گی، ان کو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں بیان کیا گیا:یَکُونُ فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ، إِذَا ظَهَرَتِ الْقِیَانُ وَالْمَعَازِفُ، وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ (صحیح الجامع الصغیر)”اس امت میں خسف (زمین میں دھنسنا)، مسخ (بندر وخنزیر بننا) اور قذف (پتھروں کی بارش) ہونا اور یہ اس وقت ہوگا جب گانے والیاں اور آلات موسیقی اور شرابیں کھلے عام پی جائیں گی“
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً (البقرہ:۳۰)
’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے اور اسے زمین میں خلیفہ بنانے سے پہلے کسی موجود شدہ نمونے کے بغیر زمین و آسمان کو پیدا فرمایا جو پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ زمین و آسمانوں کو اس لیے پہلے پیدا فرمایا تاکہ مکین سے پہلے مکان اور حاکم سے پہلے اسکی ریاست کی تخلیق اور تزئین کر دی جائے ۔
ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمٌ (البقرہ:۲۹)
’’ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کا ارادہ فرمایا تو ان کو سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔
استواء کا معنٰی آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔سورہ ھود آیت ۷ میں وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔{ وَ کَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآ ءِ}’’اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ پھر وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر مستوی ہوا۔ اس آیت کے آخر میں واضح فرمایا:اے انسان! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر مستوی ہونے کا یہ معنی نہیں کہ وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بے خبر اور لاتعلق ہو گیا ہے۔ کان کھول کر سنو! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے اور انکے درمیان ہر کام کے بارے میں حکم صادر فرمانے والا ہے ۔
إِنَّ اللہَ لَا یَخْفَی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ (آل عمران:۵)
’’یقینا اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں‘‘
اَللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا (الطلاق:۱۲)
’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائی ہیں وہ ان کے درمیان حکم صادر کرتاہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بڑی تفصیل کے ساتھ سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے۔ عربی زبان میںـ" الارض " کا لفظ واحداورجمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس مقام پر وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کیے اوران کی مثل سات زمینیں بنائیں۔ وہ ان کے درمیان اپنے احکام نازل کرتاہے تاکہ تم انہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوروہ اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تمام معاملات اس کے حضور پیش کیے جاتے ہیںوہی ان کا فیصلہ فرماتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی طرح سات زمینیں بنائیں ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ سات زمینیں اوپر نیچے ہیں یا جس زمین پر ہم بستے ہیں یہ سات قطعات اور طبقات پر مشتمل ہے۔
وَلِلہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَإِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (آل عمران:۱۰۹)
’’اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اورزمین میں ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جائیں گے۔‘‘
قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُونَ لَہُ أَنْدَادًا ذَلِکَ رَبُّ الْعَالَمِینَ (حٰم السجدہ:۹)
’’اے نبی ان سے فرمائیں: کیا تم اُس ذات کا انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسربناتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا، وہی پوری کائنات کا رب ہے۔‘‘
قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی اور سمجھائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میں اس کا کوئی شریک تھا ۔اس لیے یہاں کفار سے استفسار کیا ہے کہ کیاتم اس ذاتِ کبریاء کا انکار کرتے ہو؟ کہ جس نے زمین کو دودنوں میں پیدا فرمایا لیکن اس کے باوجود تم بتوں ،بزرگوں اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ تمام جہانوں کا پیداکرنے والا صرف ’’ اللہ ‘‘ ہے اور وہی عبادت کے لائق اور تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔ سورۃ حٰم السجدۃ میں یہ بات قدرے تفصیل سے بیان فرمائی:
وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَائً لِلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَی فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (حم السجدہ: ۱۰تا ۱۲)
اُس نے زمین بنانے کے بعد اُس پر پہاڑ جما دیے، اس میں برکتیں رکھ دیں اور زمین میںسب طلب گاروں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق ٹھیک اندازے کے مطابق اُنکے خورد و نوش کا انتظام فرما دیا، یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اُس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے۔ تب اُس نے دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس کا قانون جاری کر دیا، آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے خوبصورت بنا یا اور اسے محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست جاننے والی ہستی کا بنایا ہوا ہے ۔‘‘
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاہَا وَأَلْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیہَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَہُ بِرَازِقِینَ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (الحجر:19-21)
’’اور ہم نے زمین کو پھیلا یا ،ا س میں پہاڑ گاڑ دیئے اور ہم نے اس میںہر چیز مناسب مقدار میں اُگائی اور ہم نے اس میں تمہارے لیے کئی قسم کے اسباب پیدا کئے ہیں او ران کیلئے بھی جنہیں تم کھلانے پلانے والے نہیں ہو ۔ کوئی ایسی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے اپنی حکمت کے مطابق اُتارتے رہتے ہیں ۔‘‘
یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا کر اس میں پہاڑوںکا ایک وسیع سلسلہ جما دیا اور ہر چیز کو زمین میں مقررہ مقدار اور معیار کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اور اس میں لوگوں کی معیشت کا بندوبست فرمایا اور ان کے رزق کا بھی بندو بست کیا، جن کا رزق تمہارے ذمہ نہیں ہے یعنی چرند ،پرند، درند اور حشرات الارض وغیرہ۔
ان آیات میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہر چیز کو نہایت متناسب اور موزوں انداز میں پیدا کیا گیا ہے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز اپنے تخلیقی معیار کو پہنچ کر خود بخود ایک مقام پر جا کر کے ٹھہر جاتی ہے۔
پھول کی رنگت، اس کا بناؤ سنگھار اور اس کی مہک اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اب مجھے کسی کے گلے کا ہار یا کسی گلدستے کی زینت بننا چاہیے ۔ اسی طرح ایک پودا ، بیل اور بڑے سے بڑا درخت مقررہ معیار اور مدّت سے آگے نہیں بڑھتا ۔
جنس انسانی کے اعتبار سے اگر دنیا میں ہمیشہ مرد یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب اور متوازن رہ سکتا تھا۔ یہی صورتِ حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی اور چیز کی پیداوار وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ تاکہ لوگ رسد و نقل کے ذریعے ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے رہیں اور ایک دوسرے سے تعلق قائم کریں۔ گویا کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں بچھایا اور پھیلایا گیا بلکہ اس میں ہر جاندار بالخصوص لوگوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ انسان اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤںمیں رہنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتاہے۔ ہر کسی کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق اُسے پہنچائی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر وقت اور ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں مقررہ مقدار کے مطابق نکالتا اور نازل کرتا ہے۔
ایک صدی پہلے کسے پتہ تھا کہ زمین سے تیل، پٹرول اور گیسیں نکلیں گے اور اسی پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہو گا ، کیا معلوم! زمین میں کون کون سے خزانے موجود ہیں اور انہیں کس کس دور کے لوگ نکالیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ حمید میں زمین کے کئی اوصاف اور فائدے بیان فرمائے جن کا اختصار اس طرح ہے:۔
وَاللہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا (نوح:۱۹)
’’اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایاہے ۔‘‘
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا (النٰزعٰت:۳۰ )
’’ اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا۔‘‘
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِہَادًا (النبا:۶)
’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم نے زمین کو فرش بنایاہے۔‘‘
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ کِفَاتًا(المرسلات:۲۵)
’’کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ زندہ ، مردہ اور ہرچیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔زمین میں بے شمار خصوصیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی ترجمان ہیں مثلاً:
٭ مٹی صدیوں تک چیز کو محفوظ رکھتی ہے اور خود ختم نہیں ہوتی۔
٭ زمین میں اپنانیت ہے اورہر جاندار اس پر قیام کرتاہے اور اس کی ان گنت ضروریات زمین سے وابستہ ہیں ۔
٭ زمین میں ٹھہرائو اور برداشت ہے ۔
٭ زمین میں پانی ہے اور اس سے ہر جاندار کی حیات وابستہ ہے۔
زمین کی خصوصیت بیان فرماکر یہ ثابت کیا ہے کہ جس زمین میں مدّتوں پڑے ہوئے بیج اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُگ آتے ہیں کیا قیامت کے دن خالق کے حکم سے دوبارہ مردے پیدا نہیں ہوسکتے ؟
وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ
’’اور ہم نے زمین کو بچھایا ہے اور ہم بہت اچھا بچھانے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات: 48)
جہاں تک اس فرمان کا عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن بدن نہ صرف انسانوں کی تعداد میں اضافہ کررہاہے بلکہ ان کے وسائل میں بھی اضافہ کیے جارہا ہے۔غور فرمائیں ! آج سے سوسال پہلے کا انسان موجودہ وسائل بالخصوص ذرائع مواصلات کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان کو کیاکیا نعمتیں میسر ہوں گی ۔خوردونوش کی اشیاء کا اندازہ فرمائیں کہ آج سے پچاس سال پہلے گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ بیس مَن سے زیادہ نہ تھی اورآج درمیانے درجے کے کھیت سے فی ایکڑ پچاس ساٹھ مَن گندم حاصل کی جارہی ہے ۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کاحال ہے کہ ان کی پیدوار اور مقدار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،گویا کہ جس طرح کھانے والے بڑھ رہے ہیں اسی حساب سے ان کے دسترخوان کو وسعت دی جا رہی ہے۔
فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ (المؤمنون:14)
’’بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔‘‘
فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَی طَعَامِہِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَائَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا فَأَنْبَتْنَا فِیہَا حَبًّا وَعِنَبًا وَ قَضْبًا وَزَیْتُونًا وَنَخْلًا وَحَدَائِقَ غُلْبًاوَفَاکِہَۃً وَأَبًّا مَتَاعًا لَکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ (عبس:24تا 32)
’’ انسان اپنی خوراک پر غور کرے۔ ہم نے خوب پانی برسایا، پھر زمین کو پھاڑا پھر اس سے اناج اُگائے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجوریں اور باغات اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمہارے اور تمہارے مویشیوںکے فائدے کے لیے پیدا کیے۔‘‘
اس مقام پر انسان کو اس کی خوراک کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنے کھانے پینے پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تیری خوراک کا کس طرح بندوبست کرتاہے ؟ ارشاد ہوا کہ یقینا ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور ہم نے زمین کو پھاڑا ،پھر ہم نے اس میں اناج اُگایا، اناج میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گھنے، گنجان اور لہلاتے ہوئے باغ ہیں جو تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے ہیں۔
انسان کو اس کی خور اک اورچوپاؤں کے چارے کا حوالہ دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والو! دیکھو اورغور کرو!کہ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو کون اُگاتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا اس دانے کو کوئی نکالنے اور اُگانے والا نہیں ہے۔وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کر سکتا۔ بارش کی وجہ سے زمین میں نَم پیدا ہوتا ہے اوراس نَم کی وجہ سے زمین میں پڑا ہوا بیج پھول پڑتا ہے اورہر دانہ اپنی اصلیت کی بنیاد پر شگوفے یا تنے کی شکل میں نکل پڑتا ہے۔ ان میں انگور ، سبزیاں ،زیتون ، کھجوریں اور مختلف قسم کے باغات ہیں۔ کچھ درخت اور پودے پھل دار ہوتے ہیں اور کچھ چارے اور دیگر ضروریات کے کام آتے ہیں۔
’’اور زمین کے ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف قطعات ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں۔بہت سے تنوں والے اور ایک تنے والے بھی۔ جنہیں ایک ہی پانی سے سیرا ب کیا جاتا ہے او ر ہم پھلوں کو ایک دوسرے پر فوقیت دیتے ہیں ۔ یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیا ں ہیں جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‘‘ (الرعد:۴)
اگر انسان ان نعمتوں اور نباتاتی نظام پر غور کرے تو نہ اپنے رب کی نافرمانی کرے اور نہ اسکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔
قُلْ أَغَیْرَ اللہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِینَ (الانعام:14)
’’پوچھیں کیا میں اللہ کے سواجو آسمانوں اورزمین کو پیدا کرنے والا ہے کسی اور کو اپنامددگار بنائوں ؟ وہ سب کو کھلاتا ہے اور اسے کھلایانہیں جاتا،فرما دیں کہ بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے رب کی فرماں برداری کروں اورآپ شرک کرنے والوں سے ہرگز نہیں ہیں۔‘‘
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید نے پہلی دفعہ لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں اسی طرح ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے پھولوں کے بھی جوڑے بنائے ۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجو د کوئی میٹھا ہے ، کوئی کڑوا ، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے۔ ایک ناقص ہے اور دوسرا اعلیٰ قسم کا اور نہایت قیمتی اور لذّت دار ہے۔ پہلے وقتوں میں انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جاندار کی طرح پودوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ اب جدید نباتات کا علم بتاتا ہے کہ ہر پودے میں نر اور مادہ ہوتے ہیں ۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا پائے جاتے ہیں ۔
اعلیٰ درجہ کے پودوں (Superior Plants)میں نسل خیزی کی آخری پیداوار اُن کے پھل (Fruits)ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول نکلتاہے جس میں نر اور مادہ اعضا (Organs)یعنی اسٹیمنز(Stamens)اور اوویولز(Ovules)ہوتے ہیں۔ جب کوئی زردانہ (Pollen) پھول تک پہنچتا ہے ، تو وہ ’’بار آور‘‘ ہو کر پھل کی صورت اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ پک جاتا ہے تو اس کے بیج اس کی افزائش کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمام پھل اس حقیقت کا پتا دیتے ہیں کہ پودوں میں بھی نر اور مادہ کے اجزاء ہوتے ہیں ۔ یہ ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے ۔
وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِہٖٓ أَزْوَاجًا مِّنْ نَبَاتٍ شَتَّی [طٰہٰ:۵۳]
’’اور اوپر سے پانی برسایا اور پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار جوڑا جوڑا نکالی ۔ ‘‘
’’اسی نے ہر طرح کے پھلوں میں جوڑے پیدا کیے ہیں۔ ‘‘ [ الرعد: ۳]
’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود انسان کی اپنی جنس میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو وہ نہیں جانتے ۔ ‘‘ [یٰس:۳۶]
’’ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق سیکھو۔ ‘‘ [الذاریات: ۴۹]
ان آیاتِ مبارکہ میں ’’ہر چیز ‘‘ کے جوڑا جوڑا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے ، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انسان انہیں دریافت کر لے ۔ پودوں اور پھلوں کے بارے میں غور فرمائیں مثال کے طور پر ہم کھجور کو دیکھیں کس طرح نر اور مادہ درختوں کے ذریعہ سے اس کی بے شمار قسمیں وجود میں آرہی ہیں ۔
یوں تو تمام پودے اور پھل خالقِ ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن جن پودوں کا تذکرہ ذاتِ الٰہی نے اپنے کلام میں کیا ہے ، اس سے ان کا نام ابد الآباد تک محفوظ ہو گیا اور کلامِ الٰہی میں ان کا ذکر آنے سے ان کی خصوصیتوں کا سمجھنا ایک علمی و دینی ضرورت بن چکا ہے۔ قرآن مجید نے اس کے تین نام لیے ہیں :
انگلش میں : Date اردو ، پنجابی اور ہندی میں: کھجور
فارسی میں: خرما
قرآن مجید میں انگور ، انجیر ، انار اور زیتون کا تذکرہ کئی بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے، وہ کھجور ہے۔ نخل، النخیل اور نخلۃ کے ناموں کا ذکر قرآن کریم میں بیس مرتبہ آیا ہے ۔یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلیوں کا ذکر بھی قرآن پاک میں الگ الگ ناموں سے ہوا ہے ۔ مختلف ناموں کے حوالے سے کھجور کا ذکر قرآن حکیم میں اٹھائیس دفعہ آیا ہے ۔ زرعی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ قارئین اور سامعین کی دلچسپی کے لئے کھجور کے بارے میں چند مزید معلومات پیش خدمت ہیں۔
عربوں میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال کے فائدے ہیں۔کھجور کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں وٹامن اے ، وٹامن بی ، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ سوڈیم، کیلشیم ، سلفر ، کلورین ، فاسفورس اور آئرن ، سے بھرپور نر اور مادہ درخت ہوتے ہیں۔اس کا استعمال ایک مکمل غذا بھی ہے اور اچھی صحت کے لیے ایک لاجواب ٹانک بھی بشرطیکہ کھانے والے کو کوئی شوگر وغیرہ نہ ہو ۔ طب نبوی میں کھجور کی بڑی افادیت بیان کی گئی ہے۔
کھجور کی عالمی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ۱۹۸۲ء میں کھجور کی عالمی پیداوار چھبیس لاکھ ٹن تھی جس کا ۵۶ فیصد حصہ عراق ، سعودی عرب ، مصر اور ایران میں پیدا ہوتا ہے۔ صرف عراق میں ۴۴۵ اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں، اب تک کھجور کے حوالے سے عراق پوری دنیا میں سرفہرست ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ قرآن مجید میں کھجور کا کئی بار ذکر ہوا ہے عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ انسان زمین اور ان پودوں پر غور کرے، اپنے رب پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک نہ ٹھہرائے۔
کھجور کے ذکر سے پہلے زمین کی خصوصیت اور اس کے فوائد کی بات ہو رہی تھی ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
لِتَسْلُکُوا مِنْہَا سُبُلًا فِجَاجًا (نوح:۲۰)
’’ تاکہ تم زمین کے کشادہ راستوں پر چلو۔‘‘
ہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِی مَنَاکِبِہَا وَکُلُوا مِنْ رِزْقِہِ وَإِلَیْہِ النُّشُورُ (الملک:۱۵)
’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم رکھا ہے تاکہ اس کے راستوں پر چلو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ،اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے تاکہ تم اس کے راستوں پر چلو اور اپنے رازق کارزق کھائو اوریاد رکھو! کہ تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں زمین کے لیے ’’لِتَسْلُکُوْا‘‘ اور ’’ذَلُوْلًا‘‘کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ’’لِتَسْلُکُوا‘‘ کا معنیٰ چلنا اور’’ذلولاً ‘‘ کا معنٰی نرم ہے۔ بے شک زمین میں پہاڑ اور چٹانیں بھی پائی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انسان کو فہم اور وسائل عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق زمین میں راستے بنائے اور انہیں ہموار کرے تاکہ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکے۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کے سبب انسان نے زمین پر شاہرائیں بنائیں اورپہاڑوں کے سینے چیر کر راستے ہموار کیے۔ یہاں تک کہ سمندر میں بھی راستے بنا لیے ہیں۔ جیسا کہ سعودیہ اور بحرین کے درمیان سمندرپر ایک پُل بنایا گیا ہے۔ جس سے مختلف ممالک کی اشیاء اور اناج بآسانی دوسرے ملکوں میں پہنچ رہا ہے۔ اس سے لوگوں کے وسائل اور رزق میں کشادگی پیدا ہوئی اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آسانی میسر آئی۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین پر راستے نہ بناتا اور انسان کو مواصلات کے ذرائع بنانے کی صلاحیت نہ دیتا تو لوگ اپنے اپنے علاقے میں قیدی بن کررہ جاتے۔ نہ ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکتے اور نہ ہی دنیا اس قدر ترقی کر پاتی۔
۔۔۔
سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو بڑی نشانیاں ہیں، یہ بے نور ہوجائیں تو انسان خوفزدہ ہوجاتاہے ایسے میں اسلام کی راہنمائی یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے عاجز بن کر کھڑا ہوجائے، اپنی کمزوری کا اعتراف کر نے، اس سے ڈھارس بندھ جائے گی، تقویٰ اور للہیت کا الگ ہی نظارہ ہوگا اور سنت پر عمل ہوجائے گا۔
سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا (صحیح البخاری:1041،صحیح مسلم:901)
’’سورج اور چاند کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے یہ تو اللہ کی نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن دیکھیں تو نماز ادا کریں۔‘‘
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا، وَادْعُوا اللَّهَ (صحیح البخاری:1043 ، صحیح مسلم:915)
’’ عہد نبوی ﷺ میں سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی یوم وفات کےدن سورج گرہن ہوا لوگ کہنے لگے کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے گرہن ہوا ہے تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :|’’ سورج اور چاند گرہن کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ گرہن نظر آئے تو نماز پڑھیں اور دعا کریں۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا (صحیح البخاری:1044، صحیح مسلم:901)
’’سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ، گرہن دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں ،اس کی بڑائی بیان کریں ، نماز پڑھیں اور صدقہ کریں۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا (صحیح البخاری : 1042، صحیح مسلم:914)
’’سورج اور چاند کسی کی موت وحیات کے سبب گرہن نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ کی نشانیاں ہیں انہیں دیکھیں تو نماز پڑھیں۔‘‘
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَيْتُهُ قَطُّ يَفْعَلُهُ وَقَالَ هَذِهِ الْآيَاتُ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ (صحیح البخاری:1059، صحیح مسلم:912)
ایک دفعہ آفتاب گرہن ہوا تو نبی کریمﷺ خوفزدہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ آپ گھبرائے کہ شاید قیامت آ گئی۔ پھر آپ مسجد میں تشریف لائے اور اتنے طویل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھائی کہ اتنی طویل نماز پڑھاتے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: "یہ نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، یہ کسی کے مرنے جینے کی وجہ سے ظہور پذیر نہیں ہوتیں، لہذا جب تم ایسا دیکھو تو ذکر الہٰی کی طرف توجہ کرو، نیز دعا اور استغفار بھی خوب کرو۔"
محمود بن لبید رحمہ اللہ کہتے ہیں :
انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ. فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ. فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بعد أيها النَّاسُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَيَاةِ أَحَدٍ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى الْمَسَاجِدِ. وَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَبْكِي وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ! قَالَ:إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَيَخْشَعُ الْقَلْبُ وَلا نَقُولُ مَا يُسْخِطُ الرَّبَّ. وَاللَّهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ! وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا. وَقَالَ: إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ (طبقات ابن سعد 1/142،143 وسند ہ حسن)
’’صاحبزادۂ رسول سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی یوم وفات کو سورج گرہن ہوا تو لوگ کہنے لگے کہ سیدنا ابراہیم کی موت کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا : سورج اور چاند کو کسی کی زندگی یا موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا، گرہن دیکھیں تو جلدی سے مسجد کا رخ کریں(اور نماز پڑھیں) اس وقت آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ، صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ آپ اللہ کے رسول ہیں ،فرمایا : میں بھی انسان ہوں ، آنسو بہہ رہے ہیں اور دل غمزدہ ہے مگر ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والی بات نہیں کہیں گے، ابراہیم ! اللہ کی قسم! ہمیں تیرے بچھڑنے کا غم ہے ۔ فرمایا : جنت میں ان کے لیے دودھ پلانے والی موجودہوگی ، ابراہیم اٹھارہ ماہ کی عمر میں فوت ہوئے تھے۔‘‘
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں :
أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعَتَاقَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ (صحیح البخاری:1054)
’’نبی کریم ﷺ نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔‘‘
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَأَيْتُهُ هَوَى بِيَدِهِ لِيَتَنَاوَلَ شَيْئًا، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ شَيْءٍ وُعِدْتُمُوهُ إِلَّا قَدْ عُرِضَ عَلَيَّ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، وَأَقْبَلَ إِلَيَّ مِنْهَا شَرَرٌ حَتَّى حَاذَانِي مَكَانِي هَذَا، فَخَشِيتُ أَنْ يَغْشَاكُمْ (صحیح ابن خزیمہ : 890 وسندہ حسن)
’’ ہم نے ایک دن نبی کریم ﷺ کے ہمراہ گرہن کی نماز پڑھی تو آپ ﷺ نے لمبا قیام کیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کوئی چیز پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہے ہیں ، سلام کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : جن چیزوں کا آپ سے وعدہ کیاگیاہے وہ پیش کی گئیں، جہنم سامنے لائی گئی ،مجھے خطرہ ہوا کہ اس کی چنگاریاں آپ کو لپیٹ میں لے لیں گی ، کیونکہ وہ اس قدر قریب آگئی تھی۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
كَسَفَتْ الشَّمْسُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَنَادَى أَنْ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا مِثْلَ قِيَامِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا مِثْلَ رُكُوعِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى فِي الْقِيَامِ الثَّانِي ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ أَدْنَى مِنْ سُجُودِهِ الْأَوَّلِ ثُمَّ تَشَهَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ فِيهِمْ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَأَيُّهُمَا خُسِفَ بِهِ أَوْ بِأَحَدِهِمَا فَافْزَعُوا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِذِكْرِ الصَّلَاةِ (مسند احمد 2/159 ، سنن النسائي:1498 واللفظ له ، سنن ابي داود:1194)
ایک دفعہ سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز کی جماعت ہونے والی ہے۔ لوگ اکٹھے ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں نماز پڑھائی۔ آپ نے اللہ اکبر کہا، پھر لمبی قراءت کی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا رکوع کیا، اپنے قیام جتنا یا اس سے بھی لمبا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُکہا، پھر طویل قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا سجدہ کیا، رکوع جتنا یا اس سے بھی لمبا، پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھایا اور پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہہ کر اٹھے اور لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سرا ٹھایا اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا اور پھر لمبی قراءت کی جو دوسرے قیام کی پہلی قراءت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا لیکن پہلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُکہا، پھر اللہ اکبر کہہ کر پہلے سجدوں سے کم لمبے سجدے کیے۔ پھر تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا۔ پھر آپ (تقریر کے لیے) کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی بنا پر بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں سے جسے گرہن لگ جائے تو گھبرا کر (فوراً) نماز کی صورت میں اللہ کا ذکر شروع کردو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (901،1389،1392) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (2838،2839) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ قَالَ شُعْبَةُ وَأَحْسَبُهُ قَالَ فِي السُّجُودِ نَحْوَ ذَلِكَ وَجَعَلَ يَبْكِي فِي سُجُودِهِ وَيَنْفُخُ وَيَقُولُ رَبِّ لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا أَسْتَغْفِرُكَ لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا فِيهِمْ فَلَمَّا صَلَّى قَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ مَدَدْتُ يَدِي تَنَاوَلْتُ مِنْ قُطُوفِهَا وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَجَعَلْتُ أَنْفُخُ خَشْيَةَ أَنْ يَغْشَاكُمْ حَرُّهَا وَرَأَيْتُ فِيهَا سَارِقَ بَدَنَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دُعْدُعٍ سَارِقَ الْحَجِيجِ فَإِذَا فُطِنَ لَهُ قَالَ هَذَا عَمَلُ الْمِحْجَنِ وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً طَوِيلَةً سَوْدَاءَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقِهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ وَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا انْكَسَفَتْ إِحْدَاهُمَا أَوْ قَالَ فَعَلَ أَحَدُهُمَا شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (سنن النسائی : 1497)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی۔ قیام بہت لمبا کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا تو بہت دیر کھڑے رہے۔ اسی طرح سجدہ بھی خوب لمبا کیا۔ آپ ﷺ سجدے میں روتے تھے، آہیں بھرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’اے میرے رب! تو نے مجھ سے اس (عذاب) کا وعد نہیں کیا تھا جبکہ میں تو تجھ سے بخشش طلب کررہا ہوں۔ تو نے مجھ سے اس (عذاب) کا وعدہ نہیں کیا تھا جبکہ میں ان میں موجود ہوں۔‘‘ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’مجھ پر جنت پیش کی گئی، حتی کہ اگر میں اپنا ہاتھ بڑھاتا تو میں اس کے کچھ خوشے لے لیتا، نیز مجھ پر آگ پیش کی گئی تو میں اس میں پھونکیں مارنے لگا کہ کہیں تمھیں اس کی تپش نہ آلے۔ اور میں نے اس میں اپنی دو اونٹنیوں کا چور بھی دیکھا، نیز میں نے اس میں بنودعدع کا وہ شخص دیکھا جو حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا۔ اور اگر پتا چل جاتا تو وہ کہتا کہ یہ چھڑی کی کارستانی ہے۔ اور میں نے اس میں ایک لمبی کالی عورت دیکھی جسے ایک بلی کے بارے میں عذاب دیا جارہا تھا جسے اس نے باندھ دیا تھا۔ نہ تو اسے کھلایا پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی حتی کہ وہ مرگئی۔ اور (یاد رکھو!) سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں گہناتے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب ان میں کسی کو گرہن لگ جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو۔‘‘
نماز کسوف وخسوف کیلئے منادیٰ :
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
لَمَّا كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُودِيَ إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ فَرَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ ثُمَّ جَلَسَ ثُمَّ جُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ (صحیح البخاری:1051، صحیح مسلم:910)
جب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو الصلاة جامعة کا اعلان کیا گیا۔ نبی کریمﷺ نے اس نماز میں ایک رکعت کے اندر دو رکوع کیے، پھر آپ ﷺکھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کیے اس کے بعد آپ تشہد میں بیٹھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
إِنَّ الشَّمْسَ خَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ مُنَادِيًا: بالصَّلاَةُ جَامِعَةٌ، فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ (صحیح البخاری:1066،صحیح مسلم:901)
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک منادی کرنے والے کو تعینات کیا جو الصلاة جامعة کا اعلان کرتا تھا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور دو رکعات میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔
نمازِ خسوف وکسوف میں خواتین کی شرکت :
سورج اور چاند گرہن سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں، ایسے میں خواتین وحضرات مسجد میں نماز کے لیےجمع ہوں ، رب کے سامنے عاجزی ودرماندگی کااظہار کریں۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں :
فَزِعَ يَوْمَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أَدْرَكَ بِرِدَائِهِ، فَقَامَ بِالنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا، يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ، فَلَوْ جَاءَ إِنْسَانٌ بَعْدَمَا رَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ رَكَعَ، مَا حَدَّثَ نَفْسَهُ أَنَّهُ رَكَعَ، مِنْ طُولِ الْقِيَامِ . قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَكْبَرُ مِنِّي، وَإِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي قَائِمَةً، وَأَنَا أَحَقُّ أَنْ أَصْبِرَ عَلَى طُولِ الْقِيَامِ مِنْهَا(مسند احمد6/351،صحیح مسلم:906)
’’جس دن سورج گرہن لگا ، آپ ﷺ بے چین ہوگئے ، قمیص زیب تن کر کے اس پر چادر اوڑھی، لوگوں کے ساتھ طویل قیام کیا ، آپ ﷺ قیام کرتے ، پھر رکوع کرتے، ر کوع کے بعد اتنا لمبا قیام کرتے کہ بعد میں اگر کوئی آئے تو یہ جان ہی نہ پائے کہ آپ رکوع کر چکے ہیں، بلکہ دل میں خیال تک نہ آئے ۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو مجھ سے عمر رسیدہ تھی، لیکن وہ قیام کر رہی تھی پھر میری نظر ایک عورت پر پڑی جو مجھ سے کمزور تھی لیکن قیام کر رہی تھی، یہ دیکھ کر میں نے سوچا : میں تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ قیام کرنے کا حق رکھتی ہوں۔‘‘
مسجد میں نماز خسوف وکسوف :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ إِلَى المَسْجِدِ، فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ (صحیح البخاری:1046،صحیح مسلم:901)
’’دور نبوی ایک مرتبہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ مسجد کی طرف تشریف لائے لوگوں نے آپ ﷺ کے |پیچھے صفیں بنالیں۔‘‘
ہر رکعت میں ایک رکوع :
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْنَا فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى انْجَلَتْ الشَّمْسُ (صحیح البخاری: 1040)
ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آفتاب گہن ہو گیا۔ آپ فورا اٹھے، اس حال میں کہ آپ کی چادر گھسٹ رہی تھی اور مسجد میں داخل ہوئے۔ ہم بھی مسجد میں آئے۔ آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی یہاں تک کہ آفتاب روشن ہو گیا۔
سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
بَيْنَمَا أَنَا أَرْمِي بِأَسْهُمِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهُنَّ وَقُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا يَحْدُثُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْكِسَافِ الشَّمْسِ الْيَوْمَ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَدْعُو وَيُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ حَتَّى جُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ فَقَرَأَ سُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ (صحیح مسلم:913)
میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اپنے تیروں کے ذریعے سے تیر اندازی کررہا تھا کے سورج کو گرہن لگ گیا،تو نے ان کو پھینکا اور(دل میں ) کہا کہ میں آج ہرصورت دیکھوں گا کہ سورج گرہن میں رسول اللہ ﷺ پر کیا نئی کیفیت طاری ہوتی ہے۔میں آپ کے پاس پہنچا تو(دیکھا کہ) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے،(اللہ کو) پکار رہے تھے،اس کی بڑائی بیان کررہے تھے،اس کی حمد و ثنا بیان کررہے تھے اور لاالٰہ الا اللہ کا ورد فر رہے تھے،یہاں تک کہ سورج سے گرہن ہٹا دیاگیا، پھر آپ ﷺ نے(ہررکعت میں) دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں ادا کیں۔
سنن النسائی (1461 وسندہ صحیح) میں یہ الفاظ ہیں :
فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ
’’آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں اور چار سجدے کیے۔‘‘
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
بَيْنَمَا أَنَا وَغُلَامٌ مِنَ الْأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ، أَوْ ثَلَاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنَ الْأُفُقِ، اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا! قَالَ: فَدَفَعْنَا، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ، فَاسْتَقْدَمَ، فَصَلَّى، فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، قَالَ ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسُ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ (سنن ابی داود:1184،سنن النسائی:1484 ، سنن الترمذی:562 وقال حسن صحیح غریب، سنن ابن ماجہ : 1264 وسندہ حسن)
ایک دفعہ میں اور ایک انصاری نوجوان نشانہ بازی کر رہے تھے ، حتیٰ کہ دیکھنے والے کی آنکھ میں جب سورج افق سے دو یا تین نیزے پر تھا تو وہ سیاہ ہو گیا جیسے کہ تنومہ ( گھاس) ہو ۔ ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : چلو آؤ مسجد کی طرف چلیں ، قسم اللہ کی ! رسول اللہ ﷺ سورج کی اس کیفیت میں امت کو ضرور کوئی نئی بات کی تعلیم فرمائیں گے ۔ سو ہم فوراً وہاں پہنچ گئے ( جیسے گویا ہمیں دھکیل دیا گیا ہو ) تو وہاں آپ ﷺ گھر سے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ پس آپ ﷺ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی ۔ آپ ﷺ نے ہمیں نہایت طویل قیام کرایا ایسا کہ کسی بھی نماز میں آپ ﷺ نے ہمیں نہیں کرایا تھا۔ ہم آپ ﷺ کی آواز نہیں سن رہے تھے ۔ پھر آپ ﷺ نے ہمیں نہایت طویل رکوع کرایا جو کسی بھی نماز میں آپ ﷺ نے ہمیں نہیں کرایا تھا ۔ ہم آپ ﷺ کی آواز نہیں سن رہے تھے ۔ پھر آپ ﷺ نے ہمیں نہایت طویل سجدہ کرایا جو کسی بھی نماز میں آپ ﷺ نے ہمیں نہیں کرایا تھا ۔ ہم آپ ﷺ کی آواز نہیں سن رہے تھے ۔ پھر دوسری رکعت میں بھی آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا ۔ اور دوسری رکعت میں بیٹھنے کے دوران میں سورج صاف ہو گیا ۔ پھر آپ ﷺ نے سلام پھیرا ۔ پھر کھڑے ہوئے ، اللہ کی حمد و ثنا کی ، اللہ کی توحید اور اپنی عبدیت و رسالت کی شہادت دی ۔
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ(1397) امام ابن حبان رحمہ اللہ (597) نے صحیح کہا ہے ۔ امام حاکم (1/329) نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس سند کو ’’حسن‘ ‘کہا ہے۔(خلاصۃ الاحکام 2/891)
ہر رکعت میں دو رکوع :
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ فَكَبَّرَ فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ وَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ وَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَالَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَانْجَلَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ هُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ (صحیح البخاری:1046، صحیح مسلم:901)
نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں سورج بے نور ہوا تو آپ مسجد میں تشریف لائے، لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں۔ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر لمبی قراءت فرمائی۔ اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر ایک طویل رکوع کیا۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو کھڑے رہے اور سجدہ نہ کیا بلکہ طویل قراءت کی جو پہلی قراءت سے قدرے کم تھی۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہا اور سجدے میں چلے گئے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا۔ اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ نماز مکمل کی۔ نماز ختم ہونے سے پہلے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا: "یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں بایں حالت دیکھو تو اللہ سے التجا کرتے ہوئے نماز کی طرف آ جاؤ۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
انْخَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ (صحیح البخاری:1052،صحیح مسلم:907)
نبی ﷺ کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَاكَ فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ (صحیح مسلم:904)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن سورج کوگرہن لگ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کے ساتھ نمازپڑھی،آپ نے(اتنا) لمبا قیام کیا کہ کچھ لوگ گرنے لگے،پھر آپ نے رکوع کیا اوراسے لمبا کیا،پھر(رکوع سے) سر اٹھایا اور لمبا(قیام) کیا،آپ ﷺ نے پھر رکوع کیا اور لمبا کیا۔پھرآپ ﷺ نے(رکوع سے) سر اٹھایا اور (اس قیام کو لمبا ) کیا،پھر دو سجدے کیے،پھر آپ(دوسری رکعت کے لئے) اٹھے اور اسی طرح کیا،اس طرح چار رکوع اورچار سجدے ہوگئے۔
ہر رکعت میں تین رکوع :
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّاسُ إِنَّمَا انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ (صحیح مسلم:904)
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں،جس دن رسول اللہ ﷺ کے بیتے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے،سورج گرہن ہوگیا،(بعض)لوگوں نے کہا: سورج کو گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کی بنا پر لگا ہے۔(پھر) نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں،چار سجدوں کے ساتھ(دو رکعت) نماز پڑھائی۔
ہر رکعت میں چار رکوع :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
إِنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفٍ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ قَالَ وَالْأُخْرَى مِثْلُهَا (صحیح مسلم:909)
آپ نے کسوف(کے دوران) میں نماز پڑھائی، قراءت کی پھر رکوع کیا،پھر قرءات کی،پھر رکوع کیا،پھر قراءت کی ۔پھر رکوع کیا۔پھر قراءت کی۔پھر رکوع کیا۔پھر سجدے کئے ۔کہا:دوسری(رکعت)بھی اسی طرح تھی۔
نماز کسوف وخسوف میں اونچی آواز سے قرأت :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَرَ فِي صَلَاةِ الْخُسُوفِ بِقِرَاءَتِهِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ (صحیح البخاری : 1065 ، صحیح مسلم : 901)
’’نبی کریم ﷺ نے نماز خسوف میں اونچی آواز سے قرأت فرمائی ، دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیئے۔‘‘
مخفی قرأت :
سیدنا جابر بن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ رَكْعَتَيْنِ، لَا نَسْمَعُ لَهُ فِيهِمَا صَوْتًا(مسند احمد 4/16،17 ۔ سنن ابی داود : 1184 ، سنن النسائی : 1484، سنن الترمذی : 562 وقال حسن صحیح غریب ، سنن ابن ماجہ : 1264 وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1397 ) اور امام ابن حبان (597) نے صحیح کہا ہے۔ امام حاکم (1/329) نے اسے صحیح بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ نے سند کو حسن کہا ہے ۔ ( خلاصۃ الاحکام 2/891)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سند کو قوی کہا ہے ۔ (نتائج الافکار، ص:412)
ثعلبہ بن عباد ’’حسن الحدیث‘‘ ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
كُنْتُ إِلَى جُنُبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ، فَلَمْ أَسْمَعْ لَهُ قِرَاءَةً (المعجم الکبیر للطبرانی 11/192، حدیث : 11612وسندہ حسن)
’’میں نے رسول کریم ﷺ کے پہلو میں سورج گرہن کی نماز پڑھی لیکن آپ کی قرأت نہ سن سکا۔‘‘
موسیٰ بن عبد العزیز جمہور محدثین کے نزدیک ’’صدوق، حسن الحدیث ‘‘ ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ البَقَرَةِ (صحیح البخاری:1052، صحیح مسلم:907)
’’نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ ﷺ نے نماز پڑھی ، سورۃ بقرہ کی قرأت کے برابر لمبا قیام کیا۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَامَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ، فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ... وَسَاقَ الْحَدِيثَ, ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ آلِ عِمْرَانَ (سنن ابی داود : 1187 وسندہ حسن)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گہنایا تو رسول اللہ ﷺ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے پس میں نے آپ ﷺ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو محسوس کیا کہ آپ ﷺ نے سورۃ البقرہ تلاوت فرمائی ہے ۔ اور حدیث بیان کی ۔ پھر آپ ﷺ نے دو سجدے کیے ، پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی ۔ میں نے آپ ﷺ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو میں نے سمجھا کہ آپ ﷺ نے سورۃ آل عمران تلاوت کی ہے ۔
امام حاکم (1/334) نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
نماز خسوف وکسوف کا خطبہ :
نماز خسوف وکسوف کا خطبہ مسنون ہے جو کہ نبی کریم ﷺ نماز کے بعد ارشاد فرماتے تھے :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ فِيهِمْ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَأَيُّهُمَا خُسِفَ بِهِ أَوْ بِأَحَدِهِمَا فَافْزَعُوا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِذِكْرِ الصَّلَاةِ (سنن النسائی : 1197 ، سنن ابی داود:1194)
پھر سلام پھیرا۔ پھر آپ (تقریر کے لیے) کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی بنا پر بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں سے جسے گرہن لگ جائے تو گھبرا کر (فوراً) نماز کی صورت میں اللہ کا ذکر شروع کردو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (901،1389،1392) اور امام ابن حبان رحمہما اللہ (2838،2839) نے صحیح کہا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
انْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ هُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ (صحیح البخاری:1046، صحیح مسلم:901)
نماز ختم ہونے سے پہلے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا: "یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں بایں حالت دیکھو تو اللہ سے التجا کرتے ہوئے نماز کی طرف آ جاؤ۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ، وَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ (صحیح البخاری:922، صحیح مسلم:901)
’’سورج چمک رہا تھا، آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا ، اللہ کے شایان شان حمد وثنا کی ، فرمایا : اما بعد ۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نماز کسوف کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا :
إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا وَلَوْ أَصَبْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا وَأُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ قَالُوا بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُفْرِهِنَّ قِيلَ يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ قَالَ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ(صحیح البخاری:1052، صحیح مسلم:710)
"میں نے جنت کو دیکھا اور ایک خوشہ انگور کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا، اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ اس کے بعد مجھے جہنم دکھائی گئی۔ میں نے آج تک اس سے زیادہ بھیانک منظر نہیں دیکھا۔ میں نے اہل دوزخ میں زیادہ تر عورتوں کی تعداد دیکھی۔" لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: "اس کی وجہ ان کی ناشکری ہے۔" عرض کیا گیا: آیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: "(نہیں بلکہ) وہ اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں۔ اگر تم کسی عورت کے ساتھ تمام عمر احسان کرو، پھر کبھی تمہاری طرف سے کوئی ناخوش گوار بات دیکھے تو فورا کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
وَقَدْ انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا(صحیح البخاری:1044،صحیح مسلم:901)
پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: "بلاشبہ یہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے جینے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے۔ جس وقت تم ایسا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی کا اعتراف کرو، نماز پڑھو اور صدقہ و خیرات کرو۔" پھر آپ نے فرمایا: "اے امت محمد! اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے کہ اس کا غلام یا اس کی باندی بدکاری کرے، اے امت محمد! اللہ کی قسم! اگر تم اس بات کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہیں ہنسی بہت کم آئے اور رونا بہت زیادہ آئے۔"
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خطبہ کسوف میں فرمایا :
فَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي قَصَّرْتُ عَنْ شَيْءٍ مِنْ تَبْلِيغِ رِسَالَاتِ رَبِّي لَمَا أَخْبَرْتُمُونِي ذَاكَ، فَبَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّي كَمَا يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُبَلَّغَ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي بَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّي لَمَا أَخْبَرْتُمُونِي ذَاكَ(مسند احمد 4/16،17 ۔ سنن ابی داود :1184 سنن النسائی:1484، سنن الترمذی:562 وقال:حسن صحیح غریب،سنن ابن ماجہ:1264وسندہ حسن)
’’ نبی کریم ﷺ نے سلام پھیر کر اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور آپ نے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہونے کی گواہی دے کر فرمایا : لوگو! میں آپ کو اللہ رب العزت کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے رب کا پیغام آپ تک پہنچانے میں کوتاہی کی ہے ، تو مجھے بتا دیں، میں نے کما حقہ رب کا پیغام پہنچا دیا ہے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میری طرف سے رب کا پیغام آپ تک پہنچ گیا ہے، تب بھی بتادیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(1397) اورامام ابن حبان(597) نے صحیح کہا ہے ۔ امام حاکم ( 1/329) نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (خلاصۃ الاحکام 2/891)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی کہا ہے ۔ (نتائج الافکار 2/4)
ثعلبہ بن عباد’’حسن الحدیث‘‘ ہے ، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔ ثابت ہوا کہ نماز کے بعد آپ ﷺ نے خطبہ بھی ارشاد فرمایا تھا۔
فائدہ :
نماز کے بعد سورج گرہن ختم ہوجائے تو بھی خطبہ مسنون ہے۔
خطبۂ خسوف وکسوف کے لیے منبر :
منبر پر خسوف وکسوف کا خطبہ مسنون ہے ، دلائل ملاحظہ ہوں :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے خسوف وکسوف کا احوال یوں بیان کرتی ہیں :
وَتَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ فِيمَا يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالَتْ عَائِشَةُ كُنَّا نَسْمَعُهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ(سنن النسائی : 1475وسندہ صحیح )
اور سورج بھی پورا روشن ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو منبر پر بیٹھ گئے اور (تقریر کے دوران میں) فرمایا: ’’بلاشبہ لوگوں کو قبروں میں فتنۂ دجال کی طرح آزمایا جائے گا۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم آپ کو اکثر عذاب سے پناہ مانگتے سنتے تھے۔
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (2840) نے صحیح کہا ہے۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، َفقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ، وَإِلَى الصَّدَقَةِ، وَإِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (مسند احمد 6/354 وسندہ حسن وان صح سماع محمد بن عباد بن عبد اللہ بن الزبیر من جدتہ أسماء بنت أبی بکر)
’’سورج گرہن ختم ہوچکا تھا، آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے ، فرمایا : لوگو! سورج اور چاند اللہ عزوجل کی نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا ، ایسا منظر دیکھیں تو نماز،صدقہ اور ذکر الٰہی کی طرف دوڑیں۔
۔۔۔