زمین وآسمان کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے ، اپنی ان دو عظیم الشان مخلوقات کے جس حصے کو وہ چاہتا ہے عزت و برتری عطا فرماتا ہے ، اور جس حصے کو چاہتا ہے اپنے غیظ و غضب اور نحوست کے نزول کا مقام بنادیتا ہے ، چنانچہ خطہ ارض پر اس نے بعض مقامات کو دیگر مقامات پر برتری عطا کر رکھی ہے ، جن میں سرفہرست مکة المکرمة اور مدینة المنورة یہ دو شہر ہیں ، ان دو مقامات کی افضلیت کے کئی پہلو ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
فضائل مکہ:
دنیا کا قدیم ترین اور پہلا شہر مکہ ہے:
روئے زمین پر سب سے پہلے آباد ہونے والا شہر مکہ ہے یہیں سے انسان کی آبادی زمین کے دیگر حصوں تک پہنچی، چنانچہ اللہ تعالی نے مکہ کی قدامت کو اشارتا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (آل عمران:96)
انسانوں کے لئے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ جو مکہ میں ہے، جو سب جہاں والوں کے لئے برکت اور ہدیت کا باعث ہے۔
یعنی زمین پر انسانوں کے لئے بنائی جانے والی پہلی عبادت گاہ مکہ میں بنائی گئی جو کہ البیت العتیق ،بیت اللہ ، الکعبۃ ، اور المسجد الحرام کے نام سے معروف ہے ، اس میں اشارہ ہے کہ مکہ پہلا شہر ہے جسے انسانوں نے آباد کیا اور اس میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کے لئے ایک گھر کی تعمیر کی ، اس سے قبل انسانوں کے لئے کوئی گھر نہ تھا نہ عبادت خانہ نہ دولت خانہ ، جبکہ انسانیت اپنے آغاز میں اللہ تعالی کی توحید اور اپنے مقصد حیات "یعنی اللہ کی عبادت" کی قائل و فاعل تھی۔
نبی ﷺ نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے ، چنانچہ ابو ذر غفاری نے کہا کہ
: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ (صحیح مسلم)
میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ:زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:مسجد حرام۔
اسی لئے مکہ کو "ام القری" یعنی تمام علاقوں کی ماں (بنیاد) کہا گیا ، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا
یہ مبارک کتاب ہم نے نازل کی تاکہ آپ اسکے ذریعے ام القری اور اسکے اردگرد رہنے والوں کو ڈرائیں۔(الانعام:92)
یعنی شہر مکہ دیگر تمام شہروں اور علاقوں کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور بنیاد سب سے پہلے رکھی جاتی ہے۔
مکہ کی قدامت پر قدیم صحیفے تورات ، انجیل وغیرہ اور بت پرستوں کی مقدس کتابیں بھی شاہد ہیں۔(ملاحظہ ہو:تاریخ المکۃ المکرمۃ،از محمد عبد المعبود،ج:1 ،ص:114تا132)
اشکال:ابراہیم نے جب ہاجرہ اور ننھے اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا تو وہاں کوئی انسانی آبادی نہ تھی ، اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مکہ پہلا شہر نہیں ۔
ازالہ:مکہ ہی پہلا شہر ہے جیسا کہ گزشتہ آیات سے واضح ہے ، ابراہیم کے زمانے میں اسکے غیر آباد ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ پہلے کبھی آباد نہ ہوا ہو، ممکن ہو نوح کے طوفان سے پہلے آباد ہو لیکن طوفان میں اجڑ گیا ہو اور پھر ابراہیم کے ذریعے دوبارہ آباد کیا گیا ہو ، کیونکہ نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹہری تھی جو کہ عراق میں ہے۔
دنیا کا سب سے افضل شہر مکہ ہے:
قدیم ہونے کے ساتھ مکہ سب سے افضل شہر بھی ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے اس شہر کی بار بار قسم اٹھائی جیسا کہ
mوَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (والتین:1تا3)
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور اس امن والے شہر کی۔
mلَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ (البلد:1)
میں اس شہر کی قسم اٹھاتا ہوں۔
جد الانبیاء ابراہیم نے مکہ کے لئے برکت و امن کی دعائیں کیں اور اسے حرمت والا شہر قرار دیا ، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آَمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آَمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ (البقرۃ:126)
یاد کرو جب ابراہیم نے کہا :اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنادے اور اسکے اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے باشندوں کو پھلوں سے رزق عطا فرما۔
اللہ تعالی نے انکی دعا کو قبول فرمایا اور مکہ کو امن کا گہوارہ اور برکت والا شہر بنادیا چنانچہ اہل مکہ کی بابت ارشاد فرمایا:
mلِإِيلَٰفِ قُرَيْشٍ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآَمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ
قریش کو سردی و گرمی کے سفروں سے مانوس کرنے کی بنا پر انہیں چاہیئے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں امن دیا (سورۃ قریش)
mأَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آَمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا (القصص:57)
کیا ہم نے انہیں امن والا حرم عطا نہیں کیا جسکی طرف ہر طرح کے پھل لائے جاتے ہیں یہ رزق ہم نے دیا۔
mأَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آَمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ (العنکبوت:67)
کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے حرم کو امن والا بنادیا جبکہ انکے اردگرد سے لوگ لوٹ لئے جاتے۔
mوَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آَمِنًا (آل عمران:97)
اس میں جو بھی داخل ہوا وہ امان میں آگیا۔
نیز (سورۃ والتین آیت نمبر:3) بھی ملاحظہ ہو۔
نبی ﷺ نے بھی مکہ کی افضلیت کو بیان کیا چنانچہ مكہ سے ہجرت کرتے وقت آپکی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:
وَاللهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَيَّ وَاللهِ لَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ
اللہ کی قسم تو زمین کا سب سے بہتر حصہ ہے اور اللہ کی سب سے پسندیدہ ہے ، اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔ (سنن ترمذی،المناقب،فضل مکۃ،رقم: 3860-الصحیحۃ،تحت رقم:2857)
واضح ہو کہ "خیر" اور "احب" دونو اسم تفضیل کے صیغے ہیں جو مکہ کی افضلیت پر دلالت کرتے ہیں۔
نیز آپ ﷺ نے مکہ سے اپنی دلی وابستگی اورمحبت کا اظہاراسطرح کیا :
ما أطيبك من بلد وأحبك إلي ولولا أن قومي أخرجوني منك ما سكنت غيرك
تو کس قدر عمدہ شہر اور مجھے کسقدر محبوب ہے ، اگر تیرے باشندے مجھے تجھ سے نہ نکالتے میں تیرے علاوہ اور کہیں نہ رہتا۔ (سنن ترمذی،رقم:3861)
مکہ بے شمار مقدسات کا شہر ہے:
مکہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن میں تقریبا 50 مرتبہ اسکا ذکر خیر آیا ہے ،اوراس میں اسلامی تاریخ کی بے شمار مقدسات پائی جاتی ہیں ، یہاں 300 سے زائد انبیاء و رسل کی قبریں ہیں ، یہیں صفا و مروہ ، مقام ابراہیم ، چاہ زمزم ہے ، اللہ نے اسے مناسک حج کے لئے منتخب فرمایا ، جنت کا پتھر حجر اسود بھی اسی شہر میں ہے ، یہی مولد و مسری النبی ﷺ ، مھبط وحی ، قبلۃ المسلمین ، مرکز اسلام ہے ، اسکے قبرستان جنت المعلاۃ میں بے شمار صحابہ ، شہداء ، اولیاء محو استراحت ہیں ، اسکی سرحدوں پر فرشتوں کا پہرہ ہے ، اس میں دجال داخل نہ ہوگا ، سب سے بڑھ کر مسجد حرام مکہ میں ہے جہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔
مکہ حرمت والا شہر ہے:
اللہ تعالی نے اسے روز اول سے ہی حرم یعنی حرمت والا شہر قرار دیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے نبی ﷺ سے حکایت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
mإِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا (النمل:91)
مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی بندگی کروں جسے اس نے حرمت والا قرار دیا
نیزنبی ﷺ نے فرمایا:
m إن هذا البلد حرمه الله يوم خلق السماوات والأرض
اس شہر کو اللہ نے اس دن سے حرمت والا قرار دیا جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔(صحیح بخاری)
نوح کے طوفان میں جب مکہ شہر ڈوب گیا اور پھر ابراہیم کے ذریعے اسے دوبارہ آباد کیا گیا تو ابراہیم نے بھی اسکی دوبارہ آبادی میں اسکی حرمت کا خیال رکھا ، چنانچہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
إن إبراهيم حرم مكة فجعلها حراما
ابراہیم نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا۔(صحیح مسلم)
نیزمکہ کی یہ حرمت روز قیامت تک برقرار رہے گی ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة
وہ اللہ کے حرمت والا قرار دینے کے باعث تا قیامت حرمت والا ہے۔(صحیح بخاری)
کسی بھی شخصیت کے لئے قطعا جائز نہیں کہ وہ اسکی حرمت کو حلال کرے خواہ ایک ساعت کے لئے ہی سہی ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي
وہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال ہوا نہ ہی میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔(صحیح بخاری)
حتی کہ خود نبی ﷺ کے لئے بھی اسکی حرمت کو حلال کرنے کا اختیار نہ تھا البتہ فتح مکہ کے موقع پر صرف ایک ساعت کے لئے اسکی حرمت کو آپ ﷺ کے لئے حلال کردیا گیا تھا تاکہ مکہ فتح ہوجائے ، چنانچہ ارشاد فرمایا:
ولم يحل لي إلا ساعة من نهار فهو
وہ میرے لئے بھی حلال نہیں سوائے ایک ساعت کے۔(صحیح بخاری)
ایک اور روایت میں فرمایا:
وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ
مجھے دن کی ایک ساعت اجازت دی گئی ، اور آج اسکی حرمت لوٹ آئی ہے جس طرح کل اسکی حرمت تھی۔ (بخاری)
یہ ایک ساعت جو آپکے لئے حلال کی گئی تھی اسکا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے ارشاد فرمایا:
وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ
آپ اس شہر میں حلال ہیں۔(البلد:2)
حرمت کا کیا مطلب ہے؟:
حرمت کا مطلب ہے کہ حدود حرم کی ہر شے کی تعظیم کی جائے اور اسکی بے حرمتی نہ کی جائے ، وہاں فتنہ و فساد ، جنگ و جدال ، فسق و فجورا ور معاصی کا ارتکاب نہ کیا جائے اور ان پابندیوں کا خیال رکھا جائے جو نبی اکرمﷺ نے خاص طور پر حرم کی نسبت لگائی ہیں ، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً
مکہ کو اللہ نے حرمت والا بنایا نہ کہ لوگوں نے چنانچہ کسی کے لئے جائز نہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہوکہ وہ اس میں خونریزی کرے اور نہ یہ کہ وہ اس میں درخت کاٹے۔(صحیح بخاری)
mلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ
اسکی بوٹی کو نہ چنا جائے ، نہ اسکا درخت کاٹا جائے ، نہ اسکا شکار بھگایا جائے ، نہ اسکا گمشدہ سامان اٹھایا جائے مگر شناخت کروانے والے کے لئے۔(صحیح بخاری)
نیز فرمایا: لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ
اسکی کانٹے دار جھاڑی بھی نہ کاٹی جائے۔(صحیح بخاری)
mلا يحل لأحدكم أن يحمل بمكة السلاح
تم مین سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ مکہ میں اسلحہ تانے۔(صحیح مسلم)
البتہ کتب فقہ میں چند استثنائی صورتیں مذکور ہیں جنکا یہ محل نہیں۔
حرمت مکہ کا خیال رکھنے کا اجر و ثواب:
اللہ تعالی نے احکام حج بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ذالِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ (الحج:30)
جو بھی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اسکے رب کے نزدیک اسکے حق میں بہتر ہے۔نیز نبی ﷺ نے فرمایا:
لا تزال هذه الأمة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها
یہ امت اسوقت تک خیریت سے رہے گی جب تک اس حرمت کی کما حقہ تعظیم کرے گی۔(سنن ابن ماجہ المناسک،فضل مکۃ،رقم:3901)
مکہ کی بے حرمتی کا وبال:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آَمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو نہ ادب والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہوجن لوگوں نے تمہیں مسجدحرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے(المائدہ:2)
دوسرے مقام پر واضح الفاظ میں فرمایا:
وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيم (الحج:25)
جو بھی وہاں ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے گا ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔
الحاد کج روی اور بے دینی کو کہتے ہیں ، ظلم کے ساتھ الحاد کا معنی ہے کہ شریعت کی خلاف ورزی کرنا خواہ کبیرہ گناہ شرک ، بدعت ، قتل ، زنا ، چوری وغیرہ کی صورت میں ہو یا صغیرہ گناہ کی صورت میں کیونکہ دونوں ہی ظلم کی تعریف میں داخل ہیں ، دردناک عذاب کی یہ سزا مذکورہ معصیت کا محض ارادہ کرلینے پر بیان کی گئی ہے اگرچہ اس پر عمل نہ کیا جائے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرم میں معصیت کا گناہ دیگر مقامات پر معصیت کے گناہ سے کئی گنا زیادہ ہے اور حرم میں معصیت کا فقط ارادہ کرنا بھی بڑا گناہ ہے ۔
امام ابن جریر الطبری نے فرمایا:
وأولى الأقوال التي ذكرناها في تأويل ذلك بالصواب القول الذي ذكرناه عن ابن مسعود وابن عباس، من أنه معنيّ بالظلم في هذا الموضع كلّ معصية لله
اس آیت کی تفسیر میں ہمارے ذکر کردہ اقوال میں راجح قول ابن مسعود اور ابن عباس کا ہے کہ یہاں ظلم سے مراد ہرطرح کی معصیت ہے۔(تفسیر الطبری،تحت آیۃ مذکورۃ)
(نوٹ)یہاں سے ان لوگوں کی حیثیت کا بھی تعین ہوجاتا ہے جو حرمین پر قبضے کا خواب دیکھتے ہیں ، جو ہمشہ خواب ہی رہے گا ، کیونکہ دجال جیسا طاقتور اس پر قابض نہیں ہو سکتا تو اسکے ہمنواؤں میں اتنی جرات کہاں؟
نیز نبی ﷺ نے فرمایا:
لا تزال هذه الأمة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها فإذا ضيعوا ذلك هلكوا
یہ امت اسوقت تک خیریت سے رہے گی جب تک اس حرمت کی کما حقہ تعظیم کرے گی اور جب وہ اسے ضائع کردے گی تو تباہ و برباد ہوجائے گی۔(سبق تخریجہ)
mيغزو جيش الكعبة فإذا كانوا ببيداء من الأرض يخسف بأولهم وآخرهم
ایک لشکر کعبہ پرحملے کے لئے آئیگا جب وہ بیدا پہنچے گا اسے اسکے آگے اور پیچھے والوں سمیت زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔(صحیح بخاری)
نیزتمیم داری کی حدیث جسکے مطابق جب کچھ لوگوں کی دجال سے ملاقات ہوئی تو اس نے ان سے نبی اکرم ﷺ کے متعلق پوچھا انہوں نے کہا کہ وہ ظاہر ہو چکے ہیں اور عرب کے لوگ انکی اطاعت اختیار کررہے ہیں تو دجال نے کہا :
أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا
انکے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ انکی اطاعت کریں ، میں تمہیں اپنے متعلق بتاؤں : میں مسیح دجال ہوں قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت مل جائے ، میں 40 دن کے اندر زمین کی ہر بستی میں جاؤں گا سوائے مکہ اور طیبہ کے ، وہ دونوں مجھ پر حرام کردیئے گئے ہیں ، میں جب بھی ان میں سے کسی ایک میں داخل ہونا چاہوں گا ایک فرشتہ تلوار تانے میرے سامنے آجائے گا ، اور مجھے اس سے روک دے گا ، اور اسکے ہر نقب پر فرشتے پہریدار ہیں۔ (مسلم)
نیز جو شخص مکہ پر حملہ کرے اسکے گناہ کے متعلق نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
لو وزنت ذنوبه بذنوب الثقلين لوزنتها
اگر اسکے گناہوں کو دو جہانوں (تمام جن و انس) کے گناہوں کے ساتھ تولا جائے تو اسکے گناہ بھاری ہوں۔ (مسند احمد،رقم:5924-الصحیحۃ،رقم:2462)
اللہ تعالی نے مکہ پر حملہ کرنے والوں کا انجام بیان کرنے کے لئے پوری ایک سورۃ نازل کی ارشاد فرمایا:
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ (سورۃ الفیل)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ، کیا اس نے انکی تدبیر کو ناکام نہ کیا اور ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے جو ان پر نوکیلے پختہ پتھر برساتے ، پس اس نے انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کردیا۔
بد خواہان حرم کا ہمیشہ یہی حشر ہوا ہے اور آئندہ بھی یہی حشر ہوگا۔
فضائل مدینہ:
مکہ کی طرح مدینہ منورہ بھی بے شمار عظمتوں ، برکتوں اور فضیلتوں کا حامل ہے ، دونوں ہی حبیب کریم ﷺ کے شہر ہیں ، ایک آپکا مولد و منشا تو دوسرا آپکا مھجر و مضجع ہے ، دونوں ہی حرم ہیں ، دونوں کی حرمت بیان کرنے اور انکے لئے دعائیں کرنے والے دو معزز ترین رسول ہیں ، ایک جد الانبیاء والرسل سیدنا ابراہیم ﷺ ہیں ، دوسرے خاتم الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد ﷺ ہیں ، مکہ میں آب زمزم ہے تو مدینہ کی مٹی اور عجوہ کھجور باعث شفا ہے ، مکہ میں حجر اسود جنت کا ٹکڑا ہے تو مدینہ میں روضہ مسجد نبوی ﷺ جنت کا حصہ ہے ، مکہ میں شجر و حجر آپ کو سلام کرتے تھے تو مدینہ میں کھجور کا تنا آپ کے فراق میں روتا تھا ، دونوں ہی مھبط وحی ، مرکز اسلام ، مقام نزول برکات و مقدس شخصیات ہیں ، دونوں ہی میں جبریل امین کی آمد و رفت رہی ، دونوں ہی میں انصار و مہاجرین ملتے جلتے رہے ، دونوں ہی دجال اور اسکے ہمنواؤں کے شر سے محفوظ رہیں گے ، دونوں ہی سرحدوں پر فرشتے متعین ہیں ، الغرض دونوں میں کئی قدریں مشترک و متحد ہیں ، مکہ کے فضائل آپ ملاحظہ کرچکے اب مدینہ کے فضائل ملاحظہ ہوں:
مدینہ ایمان واخلاص اور نصرت اسلام کا شہر ہے:
مکہ کا تقدس مکہ ہی طرح قدیم ہے لیکن مدینہ کو تقدس حاصل ہے نبی ﷺ کی ذات کی بنا پر ، کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کریں اور اسے اپنا مسکن بنائیں ، اسی شہر کے باشندوں کے ذریعے اللہ اسلام کو غالب فرمائے گا ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ
مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا جو سب بستیوں کو کھا جائےگی ، وہ مدینہ ہے ، وہ لوگوں کو اسطرح نکھار دیتا ہے جسطرح بھٹی لوہے کا زنگ دور کردیتی ہے۔(صحیح مسلم)
امام ابن حجر نے اسکی تشریح میں فرمایا:
أَيْ تَغْلِبهُمْ . وَكَنَّى بِالْأَكْلِ عَنْ الْغَلَبَة لِأَنَّ الْآكِل غَالِب عَلَى الْمَأْكُول . وَوَقَعَ فِي " مُوَطَّأ اِبْن وَهْب " : قُلْت لِمَالِك مَا تَأْكُل الْقُرَى ؟ قَالَ : تَفْتَح الْقُرَى . وَبَسَطَهُ اِبْن بَطَّال فَقَالَ : مَعْنَاهُ يَفْتَح أَهْلهَا الْقُرَى فَيَأْكُلُونَ أَمْوَالهمْ وَيَسْبُونَ ذَرَارِيّهمْ
یعنی ان پرغالب آجائے گی ، کھانے سے غلبہ مراد لیا کیونکہ کھانے والا کھانے کو کھا جاتا ہے ، موطا ابن وھب میں ہے کہ: میں نے مالک سے پوچھا کہ بستیوں کو کھاجانے کا کیا مطلب ہے؟
تو انہوں نے فرمایا:بستیوں کو فتح کرے گی ، ابن بطال نے اسکی وضاحت کی ہے کہ:اسکے باشندے علاقوں کو فتح کریں گے انکے اموال کو کھاجائیں گے اور انکے باثیون کو قید کریں گے۔(فتح الباری،الحج،فضل المدینۃ،تحت حدیث رقم:1738)
یعنی اہل مدینہ دیگر علاقوں کے باشندوں پر ایمان و اخلاص اور اسلام کی نصرت میں دیگر علاقوں کے مسلمانوں پرسبقت لے جائیں گے،جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الْإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا
ایمان بالآخر مدینہ میں ہی رہ جائے گا جسطرح سانپ بالآخر اپنے بل میں جا گھستا ہے۔(صحیح بخاری)
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ وَهُوَ يَأْرِزُ بَيْنَ الْمَسْجِدَيْنِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ فِي جُحْرِهَا
اسلام آغاز میں اجنبی تھا اور جلد دوبارہ اجنبی ہوجائے گا، اور دو مسجدوں (مسجد حرام ، مسجد نبوی) میں رہ جائے گا جس طرح سانپ بالآخر اپنے بل میں جا گھستا ہے۔(مسلم)
نیزجسطرح ماضی میں اسلام کو مدینہ میں اور پھر اہل مدینہ کے ذریعے سارے عرب میں غلبہ حاصل ہوا اسی طرح مستقبل میں بھی اسی طرح ہوگا ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ فَإِذَا تَصَافُّوا قَالَتْ الرُّومُ خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا فَيُقَاتِلُونَهُمْ فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ
قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا ( یہ دونوں مقام شام میں ہیں حلب کے قریب) پھر مدینہ سے ایک لشکر ان کی طرف نکلے گا، جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا، جب دونوں لشکر صف باندھیں گے تونصاریٰ کہیں گے کہ تم ان لوگوں(یعنی مسلمانوں) سے الگ ہو جاؤ جنہوں نے ہماری بیویاں اور لڑکے پکڑے اور لونڈی غلام بنائے ہیں ہم ان سے لڑیں گے، مسلمان کہیں گے کہ نہیں اللہ کی قسم ! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے الگ نہ ہوں گے، پھر لڑائی ہوگی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا، ان کی توبہ اللہ تعالیٰ کبھی قبول نہ کرے گا اورایک تہائی لشکر مارا جائے گا، وہ اللہ کے ہاں سب شہیدوں میں افضل ہوں گے اورایک تہائی لشکر کی فتح ہوگی، وہ عمر بھر کبھی فتنے میں نہ پڑیں گے، پھر وہ قسطنطنیہ (استنبول) کو فتح کریں گے (جو نصاریٰ کے قبضہ میں آگیا ہو گا)۔(صحیح مسلم)
نیز یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ انصار صحابہ نے اپنی جانوں اور مالوں دونوں کو آپ ﷺ اور آپ کے رفقاء مہاجرین کے قدموں میں نچھاور کردیا اور اسلام کی مدد میں کبھی پیچھے نہ رہے ، نبی ﷺ نے انکی ان خدمات کے اعتراف میں ان سے یہ خطاب کیا:
أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ
کیا تمہیں پسند ہے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں جبکہ تم اپنے گھر میں نبی ﷺ کو لے کر جاؤ، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ، اگر لوگ وادی اور گھاٹی میں جائیں تو میں انصار کی وادی میں جاؤں ، انصار شعار(وہ کپڑا جو جسم کے ساتھ چپکا ہو)ہیں جبکہ لوگ دثار(وہ کپڑا جو بدن سے ملے ہوئے کپڑے کے اوپر پہنا جائے)ہیں۔(صحیح بخاری)
نیزجس طرح مکہ میں منافق جی بھر کر آب زمزم نہیں پی سکتا اسی طرح مدینہ میں بھی منافق ٹک نہیں سکتا ، چنانچہ جابر بن عبد اللہ نے کہا:
أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا
ایک اعرابی نے رسول ﷺ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی ، اور مدینہ میں بیمار ہوگیا ، پھر وہ نبی ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا کہ :اللہ کے رسول مجھے میری بیعت واپس کردیجئے ، نبی ﷺ نے انکار کیا ، اس طرح تین مرتبہ ہوا ، پھر وہ مدینہ سے چلا گیا ، تو نبی ﷺنے فرمایا:مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو خام مال کو جلا دیتی ہے اور عمدہ مال کو بچا لیتی ہے۔(صحیح بخاری)
مدینہ خوش نصیبوں کا شہر ہے:
مدینہ وبائی امراض سے پاک اور برکتوں والا شہر ہے ، نبی ﷺ نے اسکے لئے دعا فرمائی کہ:
اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ
یا اللہ مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت نازل فرما۔( بخاری)
ایک روایت میں دعا کے الفاظ اسطرح ہیں:
اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا وَصَحِّحْهَا لَنَا وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ
یاللہ مکہ کی طرح مدینہ کو بھی ہمارا محبوب بنادے یا اس سے بھی زیادہ ، یااللہ ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت فرما اور اسے ہمارے لئے پرصحت مقام بنادے ، اور اسکا بخار جحفہ میں منتقل کردے۔(صحیح بخاری)
mعَلَى أَنْقَابِ المَدِينَةِ مَلاَئِكَةٌ لاَ يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، وَلاَ الدَّجَّالُ (صحيح البخاري (3/ 22)
مدینہ کے ہر نقب(داخلی راستے)پر فرشتے مقرر ہیں ، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے۔
مدینہ میں سکونت اختیار کرنا سعادت ، اسکے مصائب پر صبر کرنا سعادت اور اس میں مرنا بھی سعادت ہے ، چنانچہ مدینہ میں سکونت اختیار کرنے کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَدْعُو الرَّجُلُ ابْنَ عَمِّهِ وَقَرِيبَهُ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَخْرُجُ مِنْهُمْ أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ فِيهَا خَيْرًا مِنْهُ أَلَا إِنَّ الْمَدِينَةَ كَالْكِيرِ تُخْرِجُ الْخَبِيثَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَنْفِيَ الْمَدِينَةُ شِرَارَهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ
لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ آدمی اپنے(مدنی)چچا زاد یا قریبی کو کہے گا کہ:آؤ آسانی کی طرف(یعنی مدینہ چھوڑ کر)حالانکہ مدینہ ہی انکے لئے بہتر ہوگا اگر یہ جانیں، اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو بھی اس سے جی چراکر نکلتا ہے اللہ اسکے نکلنے پر مدینہ میں بہتری پیدا فرماتا ہے ، یاد رکھو مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو ہر خباثت کو نکال باہر کرتی ہے ، قیامت اسوقت تک قائم نہ ہوگی جب تک مدینہ اپنے شریروں کو نکال باہر نہ کرے جیسے بھٹی لوہے کے خام کو جلا دیتی ہے۔(صحیح مسلم)
نیز مدینہ میں پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے کے متعلق ابن عمر نے فرمایا:
ترجمہ: انکی ایک لونڈی ان سے کہنے لگی کہ مجھ پر مشکل وقت آپڑا ہے لہذا میں عراق جانا چاہتی ہوں ، انہوں نے کہا کہ :شام کیوں نہیں جو جائے نشور ہے ؟ احمق عورت صبر کر ، کیونکہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ : جو مدینہ کی سختی اور تکالیف پر صبر کرے گا روز قیامت میں اسکے حق میں شفاعت کروں گا۔(سنن ترمذی3853)
اور مدینہ میں مرنے کے متعلق فرمایا:
مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا
جس سے ہوسکے مدینہ میں مرے کیونکہ میں اس میں مرنے والے کی سفارش کروں گا۔(سنن ترمذی،ایضا ،رقم:3852-الصحیحۃ،رقم:2928)
مدینہ بھی بے شمار مقدسات کا شہر ہے:
مدینہ میں ہی مسجد نبوی ہے جہاں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں سے زیادہ ہے۔(صحیح بخاری)
اسی مسجد میں جنت کا باغ ہے جہاں تسبیح و تحمید جنت کے میوے چننے کے مترادف ہے۔(صحیح بخاری)
اسی میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے حجرات ہیں جہاں آپ ﷺ اپنے شب و روز بسر کیا کرتے تھے۔
اسی میں آپکا مسکن تھا جس میں لاتعداد بار جبریل پیغام الہی لے کر آئے۔
اسی میں مسجد قبا ہے جہاں دو نفل کا ثواب عمرے کے برابر ہے۔(صحیح ابن حبان،الصلاۃ،المساجد، رقم: 1654)
اسی میں جبل احد ہے جس سے نبی ﷺ اور جو نبی ﷺ سے محبت کرتا ہے۔(صحیح بخاری)
اسی میں جنت البقیع ہے جس میں کتنے ہی صحابہ ، شہداء اور اولیاء امت محو استراحت ہیں اور جس میں مدفون مومنین کے لئے نبی ﷺ نے بخشش کی دعا کی۔(صحیح مسلم)
اسی میں وادی عتیق ہے جسے مبارک قرار دے کر رب تعالی نے اس میں نماز پڑھنے کا حکم دیا۔(صحیح بخاری)
اسی میں روضۃ نبوی ﷺ ہے جہاں آپ ﷺکا جسد اطہرمدفون ہے۔
اسکی مٹی بھی شفا کا باعث ہے ، چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَمَّى الْمَدِينَةَ طَابَةَ
اللہ نے مدینہ کا نام "طابۃ" رکھا ہے۔(صحیح مسلم)
ایک روایت میں فرمایا:
هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ
یہ "طیبۃ" ہے(صحیح مسلم)
امام ابن حجر نے کہا:
ترجمہ: طابۃ اور طیبۃ دونوں کا مادہ اور معنی ایک ہے یعنی پاک شے ، کہا جاتا ہے کہ (مدینہ کا یہ نام رکھا گیا)اسکی مٹی کی پاکی کی بنا پر ، یہ بھی کہا گیا کہ اسکے باشندوں کی پاکیزگی کی بنا پر ، یہ بھی کہا گیا کہ اس میں سکونت کی عمدگی کی بنا پر ، ایک عالم نے کہا کہ :اسکی ہوا اور مٹی میں موجود عمدگی اس نام کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ اسکے باشندے اسکی مٹی اور ہوا میں عمدہ خوشبو پاتے ہیں جو اور کہیں نہیں ملتی ، اور میں نے ابو علی الصدفی کے ہاتھ سے تحریر کردہ انکے صحیح بخاری کے نسخے کے حاشیے میں انہی کے ہاتھ سے لکھا ہوا پڑھا ہے کہ:حافظ نے کہا کہ:مدینہ کی ہوا اور مٹی کی پاکیزگی کو وہاں رہنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے ، اور اسکی خوشبو بھی اعلی معیار کی ہوتی ہے ، مدینہ کی اپنی خوشبو مدینہ میں دیگر شہروں کی نسبت زیادہ بڑھتی ہے ، یہی معاملہ عود اور دیگر خوشبوجات کا ہے۔
(فتح الباری،الحج،المدینۃطابۃ،تحت حدیث رقم: 1739)
اس بات کی تائید نبی ﷺ کی اس دعا سے بھی ہوتی ہے جس کے ساتھ آپ دم کیا کرتے تھے ، چنانچہ عائشہ نے کہا:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى الْإِنْسَانُ الشَّيْءَ مِنْهُ أَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ أَوْ جُرْحٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِٓ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعِهِ هَكَذَا وَوَضَعَ سُفْيَانُ سَبَّابَتَهُ بِالْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَهَا " بِاسْمِ اللَّهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا لِيُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا "
جب کسی کو تکلیف ہوتی یا پھوڑا یا زخم تو نبی ﷺ اپنی انگلی زمین پر رکھتے پھر اسے اٹھاتے ، (سفیان نے اپنی انگلی کو زمین پر رکھی )اور کہتے:اللہ کے نام سے ، ہمارے شہر کی مٹی اور ہمارے تھوک کے ذریعے ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دی جاتی ہے۔( مسلم)
مدینہ بھی مکہ کی طرح حرمت والا شہر ہے:
مدینہ کی حرمت بھی مکہ کی طرح ہے ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللھم إن إبراهيم حرم مكة فجعلها حراما وإني حرمت المدينة حراما ما بين مأزميها أن لا يهراق فيها دم ولا يحمل فيها سلاح لقتال ولا تخبط فيها شجرة إلا لعلف
ابراہیم نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا میں مدینہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں ، اس میں قتال کے لئےاسلحہ نہ تانا جائے ، نہ اسکے پودے کاٹے جائیں مگر چارے کے لئے۔ ( مسلم)
(نوٹ)مدینہ بھی مکہ کی طرح "حرم" اور اللہ کی نشانی یعنی "شعار" ہے لہذا اسکی حرمتوں کا لحاظ کرنے کا بھی وہی اجر و ثواب ہے جو حرم مکی کے تقدس کا خیال رکھنے کا لہذا اسکے اعادے کی ضرورت نہیں۔
حرم مدنی کی بے حرمتی کا وبال:
مدینہ کی حرمت پامال کرنے والے کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا:
المَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى كَذَا، فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ(بخاري (4/ 102)
عیر سے لیکر ثور تک مدینہ حرمت والا ہے ، جس نے اس میں بدعت ایجاد کی ، یا بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو ، اسکا نفل یا فرض کوئی عمل قبول نہ کیا جائے گا۔
اہل مدینہ کے خلاف سازش کرنے کا وبال:
لاَ يَكِيدُ أَهْلَ المَدِينَةِ أَحَدٌ، إِلَّا انْمَاعَ كَمَا يَنْمَاعُ المِلْحُ فِي المَاءِ (صحيح البخاري (3/ 21)
جس کسی نے اہل مدینہ کے خلاف سازش کی وہ ایسے پگھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
ایک روایت میں فرمایا:
مَنْ أَرَادَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ بِسُوءٍ أَذَابَهُ اللَّهُ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ (صحیح مسلم)
جس کسی نے اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا اللہ اسے پگھلادے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
حرم مکی پر حملے کی نیت سے آنے والے ابرہہ اور اس کے لشکر کا یہی حشر ہوا تھا کہ گھلتا ہوا وہ جب یمن لوٹا تو چوزے کی طرح رہ گیا تھا پھر وہیں مردار ہوا، نبی ﷺ نے مذکورہ احادیث میں حرم مدنی پر بری نگاہ رکھنے والے کے بھی اسی حشر کی خبر دے دی۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ ظُلْمًا أَخَافَهُ اللَّهُ وَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا
(ترجمہ)جس نے اہل مدینہ کو ظلم سے ڈرایا اللہ اسے ڈرادے گا ، اس پر اللہ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو ، روز قیامت اسکی کوئی عبادت قبول نہ کی جائے گی۔(مسند احمد،رقم:15962)
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں اسطرح ہے کہ:
أَنَّ أَمِيرًا مِنْ أُمَرَاءِ الْفِتْنَةِ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَكَانَ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُ جَابِرٍ فَقِيلَ لِجَابِرٍ لَوْ تَنَحَّيْتَ عَنْهُ فَخَرَجَ يَمْشِي بَيْنَ ابْنَيْهِ فَنُكِّبَ فَقَالَ تَعِسَ مَنْ أَخَافَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْنَاهُ أَوْ أَحَدُهُمَا يَا أَبَتِ وَكَيْفَ أَخَافَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ مَاتَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَخَافَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَقَدْ أَخَافَ مَا بَيْنَ جَنْبَيَّ
ایک امیر فتنہ مدینہ آیا ، جبکہ جابر کی بصارت زائل ہوچکی تھی ، جابر سے کہا گیا کہ آپ اس سے دور رہیئے گا ، پھر ایک دن وہ اپنے دو بیٹوں کے سہارے باہر نکلے تو انہیں (امیر کی آمد پر) کنارے کی جانب دھکیل دیا گیا ، تو وہ کہنے لگے : ہلاک ہو جس نے رسول اللہ ﷺ کو ڈرادیا ، تو انکے ایک بیٹے نے پوچھا : وہ کس طرح آپ ﷺ کو ڈرا سکتا ہے جبکہ آپ فوت ہوچکے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ : جس نے اہل مدینہ کو خوفزدہ کیا اس نے مجھے خوفزدہ کیا۔
(مسند احمد،رقم:14290-صحیح الترغیب والترھیب ،رقم: 1213)
آخر میں اللہ سبحانہ و تعالی سے انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا ہےکہ وہ مجھ ناچیز کو بھی اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے اور میری اس حقیر سی کاوش کو قبول فرمائے۔(اللھم آمین)
سنت اعتکاف کی نیت سے کسی شخص کا خود کو مسجد میں مخصوص کیفیت میں روکے رکھنا اعتکاف ہے۔
ہر عمل کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے،اور نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ،جبکہ زبان سے جو الفاظ ادا کئے جائیں انہیں اقرار کہا جاتا ہےنہ کہ نیت،اعتکاف کی نیت کے لئے مروجہ الفاظ نویت سنۃ الاعتکاف کسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث سے ثابت نہیں،لہذا یہ الفاظ ادا کرنا بدعت ہے،کیوںکہ نہ نبی ﷺ نے ادا کئے نہ کسی صحابی نے حالانکہ وہ ہم سے زیادہ محتاط تھے۔
اعتکاف کرنا سنت موکدہ ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ہر سال اعتکاف کیا کبھی اعتکاف چھوڑا نہیںجیسا کی عائشہکی حدیث میںہے۔ (صحیح بخاری،ح:2026-صحیح مسلم،ح:1172)
نبی ﷺنے فرمایا:’’سات قسم کے لوگوں کو اللہ سبحانہ وتعالی اپنا سایہ عطا فرمائے گا اس دن اسکے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔..جسکا دل مسجد کے ساتھ لگا رہے۔
(صحیح بخاری،ح:6806)
نیز فرمایا:مسجد ہر متقی کا گھر ہے،اللہ ہر اس شخص کو خوشی،رحمت،پل صراط سے صحیح سلامت گزارکر اللہ کی رضا،جنت کی طرف لیجانے کی ضمانت دیتا ہےجو مسجد کو اپنا گھر بنالے۔ (طبرانی کبیر،ح:6143-بیہقی شعب الایمان،ح:2689-جامع معمر بن راشد،ح:20029-زوائد البزار،ح:434-تمام المنۃ للالبانی:1/292)
نیز فرمایا:جو شخص بھی نماز و ذکر الہی کے لئے مسجد کو (گویا)وطن بنالیتا ہے اللہ اس سے ملکر اس طرح خوش ہوگا جس طرح وہ لوگ خوش ہوتے ہیں جنکا کوئی کھویا ہوا لوٹ آئے۔
(صحیح ابن حبان،ح:1607-2278-سنن ابن ماجہ،ح 800 صحیح الترغیب،ح:327)
نیز فرمایا:(کچھ لوگ)مسجد کی میخیں ہیں،فرشتے انکے ہم نشین ہوتے ہیںاگر وہ نہ آئیں تو فرشتے انکا پوچھتے ہیں،اگر بیمار ہوں تو فرشتے انکی عیادت کرتے ہیں،اور اگر کسی کام(حاجت) کو جائیں تو فرشتے انکی مدد کرتے ہیں۔ (السلسلۃالصحیحۃ،ح:3401-مستدرک حاکم،ح:3507 مسند احمد،ح:9424)
حکمت:عطاءبن ابی رباح نے فرمایا:معتکف کی مثال محرم کی مانند ہے جس نے خود کو رحمٰن کے سامنے ڈال دیااور کہا:میں اسوقت تک نہ ٹلوں گا جب تک تو مجھے بخش نہ دے۔(بیہقی شعب الایمان،ح:3684)
اعتکاف ایک رات کا بھی جائز ہےجیسا کہ عمرنے مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کی نذر مانی تھی تو نبیﷺ نے نذر پوری کرنے کی اجازت دیدی۔ (بخاری،ح:2042-1656)
استحاضہ(ولیکوریا)کے مرض میں مبتلا خواتین بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ملاحظہ ہو(صحیح بخاری،ح:2037)
اعتکاف خواہ مرد کرے یا خاتون صرف جامع مسجد(جس میں جمعہ ادا کیا جاتا ہو)میں جائز ہےتاکہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے نکلنا نہ پڑے اسکے علاوہ اعتکاف جائز نہیں کیونکہ :
mاللہ تعالی نے قرآن میں جب بھی اعتکاف کا ذکر کیا مسجد میں کیا ارشاد فرمایا:(ترجمہ)اور تم ان(اپنی بیویوں) سےمباشرت نہ کرو جب تم مساجد میںاعتکاف میں ہو۔
(البقرۃ:187)
نیزابراہیم و اسماعیل ؉سےفرمایا:تم دونوں میرا گھر طواف کرنے،اعتکاف کرنے،رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک کرو۔(سورۃ البقرۃ:125)
mنبی کریم ﷺ نے جب بھی اعتکاف کیا مسجد میں کیا مسجد کے بغیر اعتکاف نہیں کیااور آپکی حیات میں اورآپکی وفات کے بعد امہات المومنین نے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کیا ۔ملاحظہ ہو:(صحیح بخاری،ح:2026-صحیح مسلم،ح:1172-سنن ابی داود، ح:2465)
mنیززمانہ خیر القرون میں خواتین کا گھروں میں بنی مساجد(جاءنماز)میں اعتکاف بیٹھنا ثابت نہیں۔
mسیدنا ابن عباس؆نے فرمایا:اللہ کے نزدیک سب سے بدتر کام بدعت ہے اور گھروں میں بنی مساجد میں اعتکاف بیٹھنا بھی ایک بدعت ہے۔(بیہقی کبری،ح:8573)
mسیدہ عائشہنے فرمایا:جامع مسجد کے سوا اعتکاف نہیں ہوتا۔(سنن ابی داود،ح:2473- ارواءالغلیل، ح: 966- قیام رمضان للالبانی،ص:36-بیہقی کبری،ح:8594)
mسیدناعلی سے بھی اس طرح کا قول مروی ہے ۔ملاحظہ ہو: (مصنف عبد الرزاق،ح:5176)
نبیﷺ فجر کی نماز پڑھتے اور اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے۔(صحیح بخاری،ح:2033-صحیح مسلم، ح: 1172 سنن ترمذی،ح:791)
درج ذیل امور معتکف کے لئے جائز ہیں:
1-اعتکاف کی جگہ پر خیمہ لگایا جاسکتا ،اور اس میں چارپائی اور بستر بھی رکھا جاسکتا ہے (سنن ابن ماجہ،ح:1774-صحیح ابن خزیمۃ،ح:2236)
2-معتکف مسجد کی چھت پر جا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی مسجد کا حصہ ہے۔(المغنی:3/196 ناشر:مکتبۃ القاہرہ ،1968ء)
3-معتکف سے اسکی بیوی ملنے ،بات کرنے آسکتی ہے اوراگر ضروری ہو تو وہ اسے گھر تک چھوڑنے جا سکتا ہے۔ (بخاری،ح:2038)
4-معتکف کے لئے مسجد میں کھانا،پینا اور سونا جائز ہے۔ (سنن ترمذی،ح:321-المغنی:3/196-فقہ السنۃ للسید سابق :1/421)
5-شہوت کے بغیر خاوند اپنی بیوی کو چھو سکتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ نبیﷺ کی کنگھی کیا کرتی تھیں۔
(صحیح بخاری،ح:2029)
6-راہ چلتے (رکے بغیر)مریض سے اسکا حال پوچھا جا سکتا ہے۔(تفسیر ابن کثیر تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر:187)
7-اسی طرح،جنازہ اگر مسجد میں آجائے تو اس میں شامل ہوا جاسکتا ہے۔
8-مسئلہ:معتکف کے لئے غسل راحت کرنا یا سر دھونا جائز ہے بشرطیکہ مسجد میں اسکا اہتمام ہو البتہ غسل جنابت کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے جبکہ مسجد میں انتظام نہ ہو۔ملاحظہ ہو:(صحیح بخاری،ح:2031-سنن ابی داود،ح: 2473)
9-کسی سخت حاجت کے لئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے جو اسکے جائے بغیر پوری نہ ہو۔ (سنن ابی داود،ح:2473)
10-عورت کو اگر دوران اعتکاف ماہواری یا نفاس شروع ہوجائے تووہ اعتکاف ختم کرکے گھر چلی جائےاس میں کوئی حرج نہیں۔ (سنن ابی داود،ح: 232-ارواء الغلیل، ح:193)
واضح ہو کہ اگر دوران اعتکاف احتلام ہو جائے تو اس سے اعتکاف کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ غیر اختیاری ہے البتہ اس صورت میں غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ قیام مسجد میں ہے۔
درج ذیل امور معتکف کے لئے جائز نہیں:
1-امام ابن قدامہنے فرمایا:معتکف کے لئے بہتر ہے کہ نماز،تلاوت اورذکرمیں مصروف رہے نیز اس دوران قرآن پڑھانا ،تعلیم دینا ،فقہاء سے مناظرہ کرنا،انکی مجلس اختیار کرنا ،حدیث لکھنا اوراس جیسے دیگر ایسےکام کرنا جنکا نفع دوسروں تک پہنچتا ہو ہمارے اکثر اصحاب کے نزدیک بہتر نہیں،اور امام احمد کے کلام سے یہی ظاہر ہے۔ (المغنی لابن قدامہ3/201)
2-سیدہ عائشہ نے فرمایا:اعتکاف کرنے والے کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کرے نہ نماز جنازہ میں شرکت کو جائے نہ عورت کو(شہوت کی نیت سے)چھوئے اور نہ اس سے مباشرت کرے(یعنی اسکے ساتھ لیٹے نہیں)۔ (سنن ابی داود ،ح:2473)
نیز فرمایا:اعتکاف کرنے والا مسجد سے باہر نہ نکلے مگر ایسی ضرورت کے لئے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔
(سنن ابی داود، ح:2473)
3-عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف کرے۔ (المغنی:3/205)
4-عورت کو اگر دوران اعتکاف ماہواری شروع ہوجائے تو اب اسکے لئے مسجد میں ٹہرنا جائز نہیں۔(سنن ابی داود،ح:232-ارواء الغلیل،ح:193)
5-دوران اعتکاف کسی بھی طرح خرید و فروخت کرنا کیونکہ: نبیﷺ نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے سے منع کیا ہے۔(سنن نسائی،ح:714-سنن ترمذی، ح:1321 -المغنی:3 /195)
درج ذیل کاموں سے اعتکاف باطل ہوجاتاہے:
mکسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنا کیونکہ کبیرہ گناہ عبادت کی ضد ہے جیسا کہ حدث طہارت اور نماز کی ضد ہے۔ (تفسیر قرطبی، البقرۃ آیت نمبر: 187 ،مسئلہ نمبر:32)
mجماع و ہمبستری کرنے سے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اور تم ان(اپنی بیویوں)سےمباشرت نہ کرو جب تم مساجد میںاعتکاف میں ہو۔(البقرۃ :187)
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگر اعتکاف کرنے والے نے جماع کرلیا تو اسکا اعتکاف باطل ہوگیا وہ نئے سرے سے اعتکاف بیٹھے۔(قیام رمضان للالبانی،ص:41 مصنف ابن ابی شیبہ،ح: 9680)
mسی شدید ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر چلے جانا۔(المغنی: 3/194) کیونکہ یہ اعتکاف کی حقیقت اور رکن کے خلاف ہے،مسجد میں ٹہرے رہنا اعتکاف کا بنیادی رکن ہے۔
اعتکاف کی بدعات:
mان مساجد میں اعتکاف کرنا جو قبروں پر یا قبرستان میں بنائی گئی ہوں۔
mگھروں میں اعتکاف کرنا۔
mمزاروں یا خانقاہوں میں اعتکاف کرنا۔
mذکر کے اجتماعی حلقے لگانا۔
mمعتکفین کا اجتماع کرنا مثلاًکھانے کے لئے،یا سحری و افطاری کے لئےکیونکہ یہ اعتکاف کی روح کے منافی ہے کیونکہ اعتکاف خلوت کا نام ہے نہ کہ جلوت و اجتماع کا نیز عہد رسالت میں ایسا ثابت بھی نہیں ہے ۔
mمعتکف کا با اہتمام استقبال کرنا یا اسے رخصت کرنا یا اعتکاف کی مبارکباد دینا۔
شب قدر کے فضائل مسائل:
اللہ تعالی نے فرمایا:’’ہم نے اسے(قرآن کو)شب قدر میں نازل کیا ،اور آپ کیا جانیں شب قدر کیا ہے،شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے میں فرشتے اور روح(جبرئیل ؈)ہر کام سرانجام دینے کے لئےاپنے رب کے حکم سے (زمین پر)تشریف لاتے ہیں، طلوع فجر تک یہ رات سراسر سلامتی ہے ‘‘ (سورۃ القدر)
(وضاحت)یعنی اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں تقریباً83 سال 3 ماہ کی متواتر عبادت سے افضل ہے۔
mنبی کریمﷺ نے فرمایا:اس رات زمین پر آنے والے فرشتوں کی تعداد کنکریوں کی تعداد سے زائدہے (الصحیحۃ،ح:2205-مسندالطیالسی،ح:2668- ابن خزیمہ،ح:2194)
تنبیہ:شب قدر میں جبرئیل ؈ کے مصافحہ والی حدیث ضعیف ہے ۔ ملاحظہ ہو:(ضعیف الترغیب،ح:654- 589-السلسلۃالضعیفۃ،ح:1333)
ایسے ہی شب قدر میں فرشتوں کے خانہ کعبہ کی چھت پر سبز پرچم لگانے والی حدیث بھی من گھڑت ہے ۔ ملاحظہ ہو:(ضعیف الترغیب،ح:594)
وقت:نبی کریمﷺ نے فرمایا:شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوںمیں تلاش کرو۔(صحیح بخاری،ح:2021)
علامات:
mنبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کی صبح سورج کے بلند ہونے تک اسکی شعاع(چمک میں تیزی)نہیں ہوتی وہ ایسے ہوتا ہے جیسے تھالی۔
(صحیح سلم،ح:762 -ابوداود،ح:1378-ترمذی،ح: 3351- نسائی کبری،ح:3392)
mنیز فرمایا:تم میں سے کسے یاد ہے (شب قدر میں) جب چاند طلوع ہوا تو بڑے تھال کے کنارے جیسا تھا۔(صحیح مسلم ،ح:1170)
mنیز فرمایا:شب قدر معتدل ہوتی ہے نہ گرم نہ ٹھنڈی اسکی صبح سورج اسطرح طلوع ہوتا ہے کہ اسکی سرخی مدھم ہوتی ہے۔ (بیھقی شعب الایمان،ح:3419-مسند طیالسی، ح:2802- ابن خزیمہ،ح:2190-2192-طبرانی کبیر۔ح :1962- صحیح الجامع ،ح:5475- ابن حبان،ح:3688)
mنیز فرمایا:میں نے خود کو دیکھا(یعنی خواب میں)کہ میں اس رات کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں،ابو سعید الخدرینے کہا:پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی اور نبیﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ سے چھت ٹپکنے لگی...میں نے خود دیکھاکہ نبیﷺ فجر کی نماز پڑھاکر آرہے تھے اور آپ کے چہرہ مبارک پر مٹی اور پانی لگا تھا۔ (صحیح بخاری،ح:2018-صحیح مسلم،ح:1167)
شب قدر کے اعمال:
mنبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے گئے۔(بخاری،ح: 2014)
mبکثرت توبہ و استغفار کرنا: جیسا کہ عائشہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
mتلاوت قرآن : کیونکہ قرآن کا نزول اسی رات میں ہوا ہے۔
mبکثرت صدقہ وخیرات کرنا: کیونکہ ابن عباس؆ نے فرمایا:نبیﷺ خیر کے کاموں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپکی سخاوت اسوقت بڑھ جاتی جب جبرئیل؈ سے رمضان میں ملاقات ہوتی، اور جبرئیل؈ سے رمضان کی ہر رات ملاقات ہوتی حتی کہ رمضان گزرجاتا،نبیﷺ جبرئیل؈سے قرآن کا دور کرتے،اور جب وہ آپ سے ملتے تو آپ تیز آندھی سے بھی زیادہ خیر کے کاموں میں سخاوت کا مظاہرہ کرتے۔
( بخاری،ح:1902-مسلم،ح:2308)
شب قدر کی خاص دعا:
عائشہ نے فرمایا:میں نے نبیﷺ سے پوچھا: اگر مجھے یقین ہوجائے کہ یہ شب قدر ہے تو کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:
اَللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی
یا اللہ تو معاف کردینے والا ہے،معاف کردینا تجھے پسند ہے،پس مجھے معاف کردے۔ (سنن ابن ماجہ،ح:3850 سنن ترمذی،ح:3513-نسائی کبری، ح:7665)
تنبیہ :علامہ البانی(سلسلہ صحیحہ،ح:3337)
کےذیل میں رقمطراز ہیں:سنن ترمذی کے ایک نسخے میں لفظ\\\'\\\'عفو\\\'\\\' کےبعد \\\'\\\'کریم\\\'\\\' کا اضافہ ہےحالانکہ اسکی گزشتہ تخریج میںاوردیگر ناقلین سے اس اضافے کاکوئی ثبوت نہیں ہےچنانچہ ظاہرہے کہ یہ اضافہ کسی ناسخ یا ناشر کا درج کردہ ہے،سنن ترمذی کی ہندی طباعت جس میں اسکی شرح تحفۃ الاحوذی ازمبارکپوری (4/264) ہے اس میں نہ ہی کسی اور طباعت میں یہ لفظ موجود ہے،اسکی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام نسائی نے اپنی روایت (عمل الیوم واللیلۃ،ح:872)میں یہ حدیث بعینہ اس سند سے بیان کی ہے جس سند سے امام ترمذی نے اسے روایت کیا ہےان دونوں نے اپنے شیخ قتیبہ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہےمگراس میں یہ (یعنی لفظ کریم کا)اضافہ نہیں ہے۔
شب قدر کی بدعات ومفسدات:
m شب قدر کی مخصوص دعاکو لفظ \\\'کریم کے اضافے کے ساتھ سنت سمجھ کر پڑھنا،کیونکہ یہ لفظ سنت سے ثابت نہیں جیسا کی ہم ذکر کر آئے ہیں۔
mذکر کے اجتماعی حلقے بنانا۔
mزعفران سے یہ سوچ کر اجتناب کرنا کہ اس کے لگانے سے فرشتے قریب نہیں آتے۔
mنماز شب قدر مخصوص طریقے سے ادا کرنا۔
mصلاۃ التسبیح کے لئے شب قدر کو مخصوص کرلینا۔
mاس رات جمع ہوکر بحث و مباحثہ کرنا یا گپے لگانا ۔
وللہ الحمد والمنۃواللہ ولی التوفیق
مسجد وہ مقام ہے جہاں اللہ کے بندے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اس کے سامنے عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہیں ، مسجد وہ جگہ ہے جہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنےوالے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ایک ہی اللہ قبلہ کی طرف رخ کرکےسب ایک ہی اللہ کو پکارتےہیں اس سے راز ونیاز کی باتیں کرتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں۔
محترم بھائیو!
ہمیں مسجدوں کو آباد کرنا چاہیے اور ان میں باجماعت نماز پڑھنا چاہیے۔
مساجد کو آباد کرنے کے فضائل:
اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ مساجد کو تعمیر کرکے ویران چھوڑدیا جائے، بلکہ اسلام اس بات کی ترغیب دلاتا ہے کہ ان کو آباد کیا جائے ان کی رونق میں اضافہ کیا جائے او ان سےدل لگایا جائے اور ان مین پانچوں نمازیں قائم کی جائیں اور انہیں قرآن وحدیث کی دعوت کا مرکز بنایا جائے حدیث نبوی میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد سے دل لگانے اور اسے آباد کررکھنے والے شخص کو قیامت کےروز عرش کےباری کے سائے میں جگہ پانے کی عظیم خوشخبری دی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ (صحيح البخاري (1/ 133)
’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے(عرش کے) سائے میں جگہ دےگا اور اس دن اس کے سائے کےعلاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ، عادل حکمران ، وہ نوجوان جس کی نشونمااللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی ، وہ آدمی جنہوں نے اللہ کی رضاکی خاطر محبت کی اس پر اکھٹے ہوئے او اسی پر جدا ہوئے، وہ آدمی جس کو ایک منصب وحُسن والی عورت نے دعوت (زنا) دی تو اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتاہوں ، وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلاکہ اس کے دائیں نے کیا خرچ کیا ہے اور وہ آدمی جس نے علیحدگی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ آئے‘‘
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ، بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (سنن ابن ماجه (1/ 257)
’’اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو بشارت دے دیجئے کہ انہیں قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہوگا۔ ‘‘
اور اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’جوشخص اپنے گھر میں وضو کرکے پھر اللہ کے گھروں میںسے کسی گھر کی طرف روانہ ہوجائے اور اس کا مقصد صرف اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ (یعنی نماز) کو اداکرنا ہو تو اس کے دو قدموںمیں سے ایک قدم ایک گناہ مٹاتا ہے اور دوسرا ایک درجہ بلند کرتا ہے‘‘(صحیح مسلم)
مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (البقرۃ:43)
’’اور نماز پڑھا کرو اور زکوۃ دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو‘‘
اور اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ (سنن ابن ماجه (1/ 260)
’’جو شخص اذان سنے پھر وہ اذان کی جگہ یعنی مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہاں اگر عذر ہوتو کوئی حرج نہیں۔‘‘
امام بخاری نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ میں اپنی ایک قوم کے گروہ کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو ہم نبی کریمﷺ کے پاس 20 رات ٹھہرے آپ ﷺ مہربان اور نرم دل تھے جب آپ ﷺ ہمارا اپنے گھر والوں کے ساتھ اشتیاق دیکھا تو فرمایاتم لوٹ جاؤ اور انہی میں رہو انہیں تعلیم دینا اور نماز پڑھانا اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے ایک تمہارے لیے آذان دے اور تم میں سے سب سے بڑی عمر والانماز پڑھائے اس حدیث میں آپ ﷺ نے نماز کا وقت ہونے پر آذان اور امامت کا حکم دیا امامت کا حکم دینے کا مقصد یہی ہے کہ نماز باجماعت اداکی جائے ( بخاری628)
امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث سے باجماعت نماز کے واجب ہونے پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ووجه الاستدلال به أنه أمر بالجماعة وأمره على الوجوب (الصلاة وأحكام تاركها (ص: 106)
’’اور اس سے وجہ استدلال یہ ہے کہ آپﷺ نے جماعت کا حکم دیا اور آپ ﷺ کا حکم دینا وجوب پر دلالت کرتا ہے ‘‘
ایک صحابی ابن مکتوم رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو کہ نابینا اور عمر رسیدہ تھے جن کا گھر دور تھاگھر اور مسجد کے درمیان بہت سانپ اور درندے وغیرہ بھی تھےاور انہوں نے یہ اعذار بیان کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میں نابینا ہوں اور مجھے مسجد میں لانے والا کوئی نہیں ہے تو مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دیجئے توآپ ﷺ نے اجازت دیدی پھر جب وہ جانے لگا تو آپ ﷺ نے پوچھا ’’ھل تسمع النداء وفی روایۃ ھل تسمع حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح؟کیا تم آذان کی آواز سنتے ہو ایک روایت میں ہے کہ :حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح کی آواز سنتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں سنتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’لاأجد لک رخصۃ‘‘ وفی روایۃ فأجب‘‘ میرے پاس تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں ہے ایک روایت میں ہے کہ اگر تم آذان سنتے ہو تو ا س کو قبول کرتے ہوئے مسجد میں آکر نماز پڑھا کرو(صحیح مسلم :6531)
اللہ تعالی سے دعا ہےکہ اللہ تعالی ہمیں مسجدوں کو آباد کرنے اور مسجدوں میں باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔
نیکوکاروں کی بخشش:
اللہ تعالیٰ نے نیکی کرنے والوں اور عمل صالح کرنے والوں میں اپنے خزانے لٹائے ہیں۔ یہ خزانے رحمت و بخشش کے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں چند اعمال صالحہ اور ان کے انعام و اکرام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
سوال: کیا تم گناہوں سے اس طرح پاک ہونا چاہتے ہو جس طرح نومولود بچہ ہوتا ہے؟
جواب: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو بیت اللہ کا حج کرنے آتا ہے اور کوئی گناہ نہیں کرتا، کسی کو گالی نہیں دیتا تو وہ اس طرح لوٹتا ہے جس طرح اس کو آج ہی اُس کی ماں نے جنا ہو‘‘۔ (یعنی گناہوں سے بالکل پاک)۔
سوال: کیا تم اپنے گذشتہ گناہوں سے جان چھڑانا چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص میرے وضو کی مانند وضو کرے، پھر دو رکعات نماز پڑھے اور ان رکعات کے دوران دل سے کوئی بات نہ کرے (یعنی خیالات میں نہ رہے) تو اس کے تمام گذشتہ گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (واضح رہے کہ یہ صغیرہ گناہوں کی بات ہو رہی ہے)۔
سوال: کیا تم لوگوں کی تعداد کے برابر نیکیاں چاہتے ہو؟
جواب: رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص تمام مومن مردوں، عورتوں کے لئے استغفار کرتا ہے تو اس کو ہر مومن اور مومنہ کے بدلے ایک نیکی دی جاتی ہے‘‘۔
سوال: کیا تم پہاڑ کے برابر نیکیاں چاہتے ہو؟
جواب: رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص حالت ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے مسلمان کے جنازے میں شرکت کرتا ہے، نمازِ جنازہ کے ساتھ ساتھ دفنانے تک ساتھ جاتا ہے تو اس کو دو قیراط اجر و ثواب ملتا ہے۔ ایک قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ایک قیراط اجر و ثواب کا حقدار ہوتا ہے۔ (مسلم)۔
سوال: کیا تم ایک نیکی چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص نیک کام کرنے کا صرف ارادہ کر لے اور ابھی عمل نہ بھی کیا ہو تو اسے ایک نیکی کا اجر و ثواب ملتا ہے‘‘۔ (یعنی نیت کرنے پر اجر ملتا ہے)۔
سوال: کیا تم سو نیکیاں حاصل کرنا چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص گرگٹ کو پہلی ضرب میں مارے اسے سو نیکیاں ملتی ہیں۔ (چھپکلی بھی شامل ہے)۔
سوال: کیا تم سات سو نیکیوں کا حصول چاہتے ہو؟
جواب: اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال ایک دانے کی ہے، جو سات بالیاں اُگاتا ہے، ہر بالی سے ایک سو دانے مزید پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ یعنی ایک نیکی کرنے سے بھی سات سو کے قریب نیکیاں ملتی ہیں۔
سوال: کیا تم بے حساب اجر و ثواب چاہتے ہو؟
جواب: فرمانِ الٰہی ہے: ’’بے شک صبر کرنے والوں کو بغیر حساب بدلہ دیا جائے گا‘‘۔
سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ پرتمہارے لئے بلا حساب لا محدود اجر دینا لازم ہو؟
جواب: فرمانِ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’جو شخص معاف کرے اور صلح کرے (خیر خواہی چاہے) اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ جو چاہے گا دے گا بے شمار … ان گنت …)۔
سوال: کیا تم آخرت میں نجات چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اس کی تنگی کو دور کر دے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے تلے رکھے گا۔ قیامت کے دن اس کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہو گا‘‘۔
سوال: کیا تم اپنے عیبوں کی پردہ پوشی چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص دنیا میں اپنے مسلمان بھائی کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے تو قیامت کے دن اس پر اللہ تعالیٰ پردہ ڈال دے گا‘‘۔ (اس کے عیبوں کو لوگوں پر ظاہر نہیں کرے گا)۔
سوال: کیا جہنم کی آگ سے رکاوٹ چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جس شخص کی تین بیٹیاں ہو اور وہ ان پر صبر کرے۔ انہیں کھلائے پلائے، اچھا لباس پہنائے تو یہ بیٹیاں اس شخص کے لئے جہنم سے رکاوٹ بن جاتی ہیں
سوال: کیا تم پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت چاہتے ہو؟؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر صبح و شام دس دس بار درود پڑھتا ہے تو اس کو قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی‘‘۔
سوال: کیا تم جہنم سے آزادی چاہتے ہو؟
جواب: جو شخص کسی دوسرے کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کا خیال کرے (اس کی توہین کو ختم کرے) تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے جہنم سے آزاد کرے۔
سوال: کیا تم جنت میں اپنا گھر بنانا چاہتے ہو؟؟
جواب: 1رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بناتا ہے، جس میں صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو اس کے مثل جنت میں گھر بنایا جاتا ہے‘‘۔ 2جو شخص ایک دن میں بارہ رکعات سنتوں کی پابندی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا‘‘۔ 3جو شخص دس بار ’’سورہ اخلاص‘‘ پڑھتا ہے تو اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے۔
سوال: کیا تم جنتی لباس چاہتے ہو؟؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص لباسِ فاخرہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے چھوڑ دے (حالانکہ وہ لباس فاخرہ پہننے کی استطاعت رکھتا ہو) تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے ایمان کا لباس پہننے کا اختیار دیا جائے گا کہ جو چاہے لباس پہنے…‘‘۔ (یعنی دنیا میں نمود و نمائش اور فخر ورِیا کو ترک کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے)۔
سوال: کیا تم قیامت کو ریشم و دیباج کا لباس پہننا چاہتے ہو؟
جواب: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد فرمایا: ’’جو کسی مسلمان کو کفن پہناتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ ریشم کا لباس پہناتا ہے‘‘۔
سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ جنت میں تمہارے اپنے لئے درخت لگائے جائیں؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’سبحان اﷲ و بحمدہٖ‘‘ کہنے والے کے لئے جنت میں درخت لگائے جاتے ہیں۔
سوال: کیا تم شیطان سے چھٹکارا چاہتے ہو؟؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص یہ کلمات پڑھتا ہے تو اس کے لئے ایک سو بار پڑھنے پر ایک سو نیکیاں لکھی جاتی اور ایک سو گناہ مٹائے جاتے ہیں اور شیطان سے پناہ مل جاتی ہے، یہاں تک کہ شام ہو جائے؛ کلمات درج ذیل ہیں:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
سوال: کیا تم فتنوں اور دجال سے حفاظت چاہتے ہو؟؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص سورہ کہف کی پہلی دس آیات یاد کرتا ہے تو اس کو فتنہء دجال سے پناہ مل جاتی ہے‘‘۔
سوال: کیا تم اپنی عمر کو دراز اور رزق کو وسیع کرنا چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی اور اس کی عمر میں وسعت ہو تو اس کو چاہیئے کہ وہ صلہ رحمی کرے‘‘۔
سوال: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز پڑھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمے اور حفاظت میں آجاتا ہے‘‘۔
سوال: کیا تم ایسے شخص کی دعا چاہتے ہو جس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو؟؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا کے لئے فرشتہ آمین آمین کہتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ اے دعا کرنے والے تجھے بھی اس کی مثل ہے‘‘ـ۔ (یعنی اللہ تعالیٰ تجھے بھی دے)۔
سوال: کیا تم جہنم کی آگ اور منافقت سے مکمل آزادی چاہتے ہو؟؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص چالیس دن اللہ تعالیٰ کے لئے باجماعت نماز تکبیر اُولیٰ کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس کے حق میں جہنم اور منافقت سے آزادی لکھ دی جاتی ہے‘‘۔
سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحمتیں نازل کرے؟
جواب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پردس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کا ذکر فرشتوں کی جماعت میں کیا جاتاہے‘‘۔
سوال: سوال کیا تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے شہادت کی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا اجر و ثواب عطا فرماتا ہے اگرچہ وہ شہید نہ بھی ہو‘‘۔
سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو؟؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے۔ سو تم اس حالت میں کثرت سے دعائیں مانگو‘‘۔
سوال: کیا تم ساری رات قیام کرنے کا اجر و ثواب چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے تو اس کو آدھی رات قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے تو اس کو تمام رات قیام کرنے کا اجر و ثواب ملتا ہے‘‘۔
سوال: کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور جہنم کے درمیان دُوری ڈال دے؟
جواب: رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ستر سال کی دُوری ڈال دیتا ہے‘‘۔
سوال: کیا تم شاہراہِ جنت پر چلنا چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص علم حاصل کرنے کی راہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے‘‘۔
سوال: کیا تم روزے دار اور مجاہد کا ثواب چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص بیواؤں اور مساکین کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مجاہد فی سبیل اللہ اور روزے دار کا اجر و ثواب دیتا ہے‘‘۔
سوال: کیا تم حج کرنے کا اجر و ثواب چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے‘‘۔ یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھ حج کرنے کے مترادف ہے‘‘۔
سوال: کیا تم اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص سے راضی ہوتا ہے جو کھانا کھاتا ہے تو الحمد ﷲ کہتا ہے۔ اگر پانی پیتا ہے تو الحمد ﷲ کہتا ہے‘‘۔
سوال: کیا تم جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت چاہتے ہو؟
جواب: پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے کہ یہ دو انگلیاں ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا۔
سوال: کیا تم جنت کے خزانوںکا حصول چاہتے ہو؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اِرشاد فرمایا: ’’لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲ‘‘ جنت کا خزانہ ہے‘‘۔
سوال: کیا آپ اللہ تعالیٰ کی ملاقات چاہتے ہیں؟
جواب: نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات چاہتا ہے‘‘۔ (یعنی جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے اور روزِ حشر باعزت ملاقات فرمائے گا)۔
آمین یارب العالمین
جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے گناہوں، منکرات اور برائیوں کو چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بہترین نعم البدل عطا فرمائے گا۔
دیکھئے! خواہشات اور شہواتِ نفس، دلوں کو کنٹرول کر لیتی ہیں۔ بلکہ دلوں کو اپنے قبضے میں لے کر اپنی مرضی کے مطابق چلاتی ہیں۔ ان شہواتِ نفس سے جان چھڑانا بہت کٹھن اور چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔ لیکن جو دل اللہ تعالیٰ کے تقوی سے معمور ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے درخواستگار ہوں تو وہ کبھی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوتے۔
اللہ رب العزت کا اِرشاد ہے: ’’جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے‘‘۔
جو شخص گناہوں اور خواہشاتِ نفس کو کسی غیر اللہ کے لئے چھوڑتا ہے تو اس کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا کے لئے گناہوں سے دُور رہنے والے کو کوئی مشکل آڑے نہیں آتی۔ صرف چند ابتدائی آزمائشیں ہوں گی تاکہ معلوم ہو کہ توبہ کرنے والا سچا اور خلوصِ دل رکھتا ہے یا صرف ظاہراً توبہ کر رہا ہے۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ گناہوں کی جس قدر لذت زیادہ ہو گی اور اسباب گناہ جتنے زیادہ ہوں گے ان سے توبہ کرنے والے کو اسی قدر اجر و ثواب بھی زیادہ ملے گا۔
انسان فطرتاً خطا کا پتلا ہے۔ اس لئے اگر دل کا جھکاؤ کبھی کبھار گناہوں کی طرف ہو جائے تو اسے فطرتی عمل سمجھنا چاہیئے۔ اس لئے تقوی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن گناہوں میں لت پت ہونا اور اس سے نفرت نہ رکھنا قطعاً غلط ہے۔ بلکہ ہمیشہ گناہوں سے جان چھڑانے کی جدوجہد جاری رکھی جائے۔ اور صمیم قلب سے اللہ کی پناہ مانگی جائے۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے گناہوں کو ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑھ کر اور بہتر بدلہ عنایت کرتا ہے۔
’’بدلہ‘‘ مختلف انواع کا ہو سکتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کا حصول۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکونِ قلب و اطمینان کا حاصل ہونا۔ دنیا و آخرت کی خیر و برکت اور اکرام و انعام الٰہی کا حصول۔ زیر نظر سطور میں ہم مختلف مثالوں کے ذریعے یہ بات سمجھا رہے ہیں۔
1جو شخص لوگوں سے مانگنا، ان کے آگے دست سوال دراز کرنا، چھوڑ دے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو تو اللہ تعالیٰ اسے قناعت، صبر اور عزت نفس کی دولت عطا فرمائیں گے۔ اس کا دل غنی اور خوددار ہو گا۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر فرمائے گا۔ (یعنی اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا)۔ اور جو شخص مانگنے سے پرہیز کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا فرمائے گا‘‘۔
2جو شخص تقدیر پر شکوہ کرنا اور اعتراض کرنا ترک کرے گا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے رضا و یقین کی نعمت عطا کرے گا۔ اس کے انجام کو اچھا کرے گا اور جہاں سے اسے کوئی خیال بھی نہ ہو گا، وہاں سے نعمت الٰہی سے سرفراز فرمائے گا۔
3جو شخص جادوگروں، کاہنوں اور عاملوں کے پاس جانا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے صبر، توکل اور توحید خالص کی دولت سے سرشار کر دے گا۔
4و شخص دنیا کے پیچھے مارا مارا پھرنا، ہمیشہ دولت دنیاوی کے لئے بھٹکنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے دل کا غنی کر دے گا۔ اس کے تمام معاملات کو حل کر دے گا اور دنیا اس کے پیچھے پیچھے پھرے گی۔
5جو شخص ’’غیر اللہ‘‘ سے ڈرنا چھوڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے وہم و خوف سے نجات دے گا، ہر چیز سے محفوظ کر دے گا، امن و سلامتی کی دولت مہیا کرے گا۔
6جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے گا اور ہمیشہ سچ کو مد نظر رکھے گا تو اسے نیکی کی ہدایت ملے گی، سچ بولنے کی توفیق ملے گی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ’’صدیق‘‘ کہلائے گا۔ عوام الناس میں اس کی سچائی، صداقت و امانت کا احترام ہو گا۔ اس کی عزت و منزلت بڑھے گی۔
7جو آدمی جھگڑا کرنا ترک کر دے گا (اگرچہ وہ حق پر ہو) تو اللہ تعالیٰ اسے درمیانِ جنت ایک محل کی ضمانت دیتا ہے۔ اور وہ آدمی جھگڑوں ، مصیبتوں سے محفوظ بھی رہے گا۔ اور وہ پاکیزہ دل اور پاک دامن بھی ہو جائے گا۔
8 جو آدمی کاروبار میں دھوکہ دہی، خیانت کو ترک کرے گا تو لوگوں کا اعتماد اس پر بڑھتا جائے گا۔ اور اس کا کاروبار وسیع تر ہوتا جائے گا۔
9 جو شخص سودی کاروبار اور ناپاک کمائی کو ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت ڈال دے گا۔ اس کے لئے خیر و برکت کے دروازے کھل جائیں گے۔
10 جو شخص برے کاموں اور حرام کردہ مقامات پر نظر ڈالنا ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ درست فہم و فراست، نورِ قلب اور لذتِ عبادت عطا فرمائے گا۔
11 جو شخص بخیلی، کنجوسی کو ترک کرے گا اور سخاوت اور دریا دلی کو اپنا شعار بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی محبت، قربت الٰہی عطا فرمائے گا۔ وہ شخص غموں، پریشانیوں اور تنگ دلی سے نجات پائے گا۔ کمال و فضیلت کے درجوں پر فائز ہو گا۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ:
اور جو شخص اپنے نفس کی بخیلی سے بچ گیا تو وہ فلاح پا گیا۔ (الحشر)
12 جو آدمی تکبر کرنا چھوڑ دے گا اور عاجزی و انکساری اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر و منزلت کو بلند کر دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشادِ گرامی ہے کہ ’’جو اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بلند کر دیتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)
13 جو شخص بے وقت کی نیند کو ترک کرے اور سستی و کاہلی کو چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھے تو اس کو اللہ تعالیٰ دلی خوشی، فرحت و نشاط اور محبت الٰہی عطا فرماتا ہے؛
14 جو شخص اللہ کے لئے سگریٹ نوشی، نشہ آور اشیاء کو چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اسے ہر حال میں ملتی ہے۔ اس کو صحت و عافیت ملتی ہے۔ یہ خوشی ہمیشہ رہنے والی ہے اور تندرستی ہزار نعمت ہے۔
15 جو شخص ذاتی انتقام کو باوجود قدرت کے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قلبی وسعت عطا فرمائے گا۔ دلی خوشی، اطمینان و سکون زندگی کی مٹھاس اور عزتِ نفس ملے گی۔ رسول اللہ کا اِرشاد ہے: ’’معافی دینے والے کی عزت مزید بڑھتی ہے‘‘۔
16 جو شخص بری صحبت اور دوستی کو ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اچھے دوست عطا فرماتا ہے جن سے نفع و سکون ملتا ہے۔ دنیا و آخرت کی بھلائیاں ان افراد کی محبت سے ملتی ہیں۔
17 جو شخص کثرت طعام کو ترک کرتا ہے تو اسے بڑے بڑے امراض سے نجات ملتی ہے۔ پیٹ کی خرابیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ جو شخص زیادہ کھاتا پیتا ہے تو لازماً سوتا بھی بہت ہے۔ ایسا شخص تو بہت ہی محروم رہتا ہے۔
18 جو شخص قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔ اور اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
19 جو شخص غیض و غصہ کو ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت و کرامت کو بلند فرماتا ہے۔ ندامت و شرمندگی کی ذلت سے وہ دُور رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک صحابی نے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔ (صحیح بخاری)۔ امام ماروردی فرماتے ہیں کہ ’’ہر باشعور اور عقل مند آدمی کو اپنے غصے پر کنٹرول رکھنا چاہیئے، وہ حلم و بردباری اختیار کرے، شدت پسندی، غصے کو اپنی عقل و فراست سے محدود کر کے رکھے تاکہ خیر و برکت اور سعادت و کامرانی اس کا مقدر بنے‘‘۔ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز ایک دن کسی شخص پر شدید غضبناک ہوئے۔ اس کو بطور سزا قید کرنے کا حکم دیا۔ اور جب اسے کوڑوں کی سزا دی جانے لگی تو عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: ’’اس قیدی کو رہا کر دیا جائے۔ میں نے جب اسے سزا سنائی تھی تو میں غصے میں آگیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفت بھی یہی بیان کی ہے کہ مومن تو غصے کو پی جاتے ہیں۔ (بحوالہ سورہ تفسیرآل عمران)
20 جو شخص عوام الناس کی عزتوں کے درپے ہو اور ان کے عیبوں، لغزشوں کا پردہ چاک نہ کرے تو اس کے اپنے عیبوں پر پردہ ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ لوگوں کے شر سے محفوظ رہے گا۔ اس کی بصیرت و فراست میں اضافہ ہو گا۔ سیدنا احنف بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص لوگوں کی ناپسندیدہ باتوں کی طرف جلدی لپکتا ہے تو لوگ بھی اس کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو اس نے کبھی کہی نہ سنی ہوں۔
ایک دیہاتی عورت اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’اے میرے بیٹے! اپنے آپ کو لوگوں کی عیب جوئی سے بچاؤ۔ تم دوسروں کے عیبوں کو فاش کرو گے تو لوگ تمہیں بھی نشانہ بنا لیں گے۔ اور تم جانتے ہو کہ جس مقام پر بہت سے تیر پے درپے مارے جائیں تو وہ مقام اپنی قوت و مضبوطی کے باوجود کمزور ہو جاتا ہے بلکہ ٹوٹ کر گر جاتا ہے‘‘۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کوئی شخص واقعتا مومن ہے تو وہ لوگوں کے عیبوں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ جس طرح کوئی بیمار ہے تو وہ لوگوں کی بیماریوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں بلکہ اسے اپنی بیماری کی پڑی ہوتی ہے‘‘۔
21 جو شخص جاہلوں اور کم علم لوگوں سے مناظرے، بحث و مباحث کو ترک کرتا ہے تو اس کی اپنی عزت بھی محفوظ ہوتی ہے اور اس کا نفس بھی پرسکون رہتا ہے۔ اور تکلیف دہ باتوں کو سننے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ: ’’معافی دینے کو اپنا شعار بناؤ۔ نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے دُور رہو‘‘۔ (سورہ اعراف)
22 جو آدمی حسد سے دُور رہتا ہے تو وہ مختلف نقصان دہ کاموں سے بچا رہتا ہے۔ حسد تو ایک خطرناک ناسور ہے۔ زہریلا پن، گھٹیا پن اور کمینگی حسد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ حسد کرنے والا اپنے بھائیوں، دوستوں، اور قریبی رشتے داروں سے دور ہوتا ہے۔ اہل نظر کا کہنا ہے کہ ’’ظالم لوگ بھی حسد کی بیماری کی وجہ سے ایک طرح کے مظلوم ہوتے ہیں۔ ان کا دل بیمار، غم و فکر کی آماجگاہ اور ٹھکانہ ہوتا ہے‘‘۔
23 جو شخص برے گمان سے بچتا ہے تو وہ اپنے دل کو فکر مندی، پریشانی، بدگمانی اور کدورت سے بچا لیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اے مومنو! کثرتِ گمان سے بچو۔ بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘۔ (سورہ حجرات)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کثرت گمان سے پرہیز کرو، بیشک گمان جھوٹی بات ہے‘‘۔ (بحوالہ صحیح بخاری و مسلم)۔
24 جو شخص سستی، کسل مندی اور سہل انگاری کو ترک کرے اور عمل و جدوجہد کو اپنا نصب العین بنائے تو اس کا مقام بلند، اس کا وقت برکت والا ہو گا۔ بہت کم عرصے میں بڑی طویل کامیابی کو سمیٹ لے گا۔ کسی اہل نظر کا کہنا ہے : ع
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے
25 جو شخص شہرت و ناموری کی خواہش کو ترک کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ اس کی فضیلت زبان زدِ عام ہوتی ہے۔ شہرت و ناموری اس کے پیچھے پیچھے پھرتی ہے۔
26 جو شخص نافرمانی کو ترک کر کے والدین کے حقوق ادا کرتا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کی اپنی اولاد کو بھی نیک بنا دیتا ہے۔ اور اس کو جنت میں بھی داخل فرماتا ہے۔
27 جو شخص قطع رحمی کو ترک کر کے رشتے داروں سے تعلق قائم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو وسیع رزق عطا فرماتا ہے۔ اس کی عمر میں برکت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کا مددگار رہتا ہے۔
28 جو شخص ناجائز عشق و محبت کو ترک کرتا ہے اور ایسے کام جو عشق و محبت کو پروان چڑھاتے ہیں اُن سے دُور رہتا ہے اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت ِنفس، سکونِ قلب عطا فرماتا ہے۔ ذلت و رسوائی اور دل کی جلن سے سلامتی ملتی ہے۔ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھرپور رہتا ہے۔ محبت الٰہی دل کی پراگندگی، میلے پن کو صاف کر دیتی ہے۔ دل کو غنی، پرسکون کر دیتی ہے۔ بے شک دلوں کو سکون و اطمینان، فرحت و سرور صرف اور صرف عبادتِ الٰہی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
29 جو شخص بداخلاقی، بدگوئی اور چہرے کا متکبرانہ پن چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو نرمی، اخلاق اور کشادہ دلی کی نعمت عطا فرماتا ہے۔ ایسے شخص پر جان نچھاور کرنے والے بے شمار ہوتے ہیں اور دشمن بہت قلیل ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشادِ گرامی ہے: ’’تمہارے بھائی کے لئے تمہاری مسکراہٹ بھی صدقہ ہے‘‘۔ (جامع ترمذی)۔ ابن عقیل کہتے ہیں کہ ’’مسکراہٹ محبتوں کو پیدا کرتی ہے، مقبولیت کی بنیاد مسکراہٹ ہے۔ مسکراہٹ کی ضد نفرت و خشونت ہے‘‘۔
اگر ہم دریا کو کوزے میں بند کر کے یہ کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کوئی بھی براعمل ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بدلے میں بہتر بلکہ بہت بہترین عوض عنایت فرماتا ہے‘‘۔
فرمانِ الٰہی ہے: (ترجمہ): ’’جو شخص ایک ذرے کے برابر بھی نیکی کرے گا تو وہ اسے (قیامت کو) دیکھے گا۔ اسی طرح جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا تو وہ بھی دیکھ لے گا‘‘۔ (الزلزال7تا8)
اگر آپ جیتی جاگتی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب یوسف علیہ السلام کے قصے میں دیکھ سکتے ہیں۔ آپ علیہ السلام کی سوانح عمری کا ایک درخشاں واقعہ، عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس عورت نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو گمراہ کرنے، اپنے راستے سے بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس عورت نے ’’گناہ‘‘ کے تمام اسباب، ذرائع اور تقاضے پورے کیے۔ اگر گناہ کے ان ذرائع میں سے بہت کم ذرائع آج کل کسی کو میسر ہوں تو وہ گناہ کی اتھاہ گہرائیوں میں گر سکتا ہے۔ بلکہ آج کل تو لوگ بذاتِ خود تلاش و بسیار کے بعد لذتِ گناہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ذلت و رسوائی کی پستیوں میں گر کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھی جاتی ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ اور ادھر دیکھئے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو لغزش پر آمادہ کرنے کے لئے عزیز مصر کی بیوی نے کون کون سی تیاریاں کی تھیں اور ’’گناہ‘‘ میں ملوث ہونے کے قوی اسباب بھی تھے:
1 پہلا بڑا سبب ِ گناہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام مکمل جوانِ رعنا تھے۔
2 آپ علیہ السلام ابھی کنوارے تھے۔ خواہش نفس کو سرد کرنے کا کوئی بھی ذریعہ نہ تھا۔
3 علاوہ ازیں اس سرزمین مصر پر آپ بالکل اجنبی مسافر تھے۔ عام طور پر ایسے گناہ کے لئے اپنا شہر اور عزیز و اقارب کی موجودگی ایک بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ یہ رکاوٹ بھی نہیں تھی۔
4 مزید ستم یہ کہ آپ زرخرید غلام تھے۔ پندرہ درہم کی قلیل رقم میں آپ کو خریدا گیا تھا۔ غلام لوگ اپنی جان، دل کے مالک کب ہوتے ہیں؟
5 دعوتِ گناہ دینے والی عورت انتہائی حسین و جمیل تھی۔
6 وہ عورت جناب یوسف علیہ السلام کی ’’مالکن‘‘ بھی تھی اور ملکۂ مصر بھی تھی۔
7 اس ’’مالکن‘‘ کا شوہر بھی موجود نہ تھا۔
8 اس عورت نے اپنے حسن و رعنائی کو مزید دوآتشہ کرنے کے لئے تمام تر تیاریاں کی تھیں۔
9 ہر قسم کی رکاوٹ اور خوف کو دُور کرنے کے لئے اس نے تمام دروازوں کو بند کر دیا تھا۔
10 پیش قدمی کرنے والی اور دعوتِ گناہ دینے والی بھی خود وہ عورت ہی تھی۔
11 اُس عورت نے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ملوثِ گناہ نہ ہوئے تو وہ جیل میں ڈال دے گی۔ دنیا کی نگاہوںمیں ذلیل و رسوا کردے گی۔
لیکن یہ تمام دعوت ہائے گناہ اور تمام تر حشر سامانیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے تمام دعوتوں کو مسترد کر دیا، تمام پیش قدمیاں روک دیں۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو عظیم ترین نعم البدل عطا فرمایا۔ آپ علیہ السلام سعادت و خوش بختی کی بلندیوں کو پہنچے۔ دنیا میں بادشاہت ملی، آخرت میں جنت الفردوس سے نوازے گئے۔ حالات نے کروٹ بدلی۔ جناب یوسف علیہ السلام آقا بن گئے۔ اور آپ علیہ السلام کو جیل میں ڈالنے والی ’’مالکن‘‘ غلام بن گئی۔
ہر عقل مند باشعور شخص کو اس واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ اور سوچنا چاہیئے کہ اس دنیا کی وقتی لذت کے بدلے کہیں وہ ہمیشہ کے انعام و اکرام سے محروم تو نہیں ہو رہا ہے۔
اے عزیزانِ گرامی! وقت درحقیقت عمر رواں ہے۔ وقت کو سستی اور غفلت میں ضائع کرنا، اپنی عمر کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ باشعور اور باحکمت لوگ اپنے وقت کی حفاظت کرتے ہیں۔ بیکار گفتگو اور لایعنی کاموں میں وقت کو ضائع نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اچھے اور نیک کام کرتے ہیں۔ ایسے کام جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ عوام الناس کو فائدہ پہنچے۔ آپ کی عمر کا ہر منٹ، ہر لمحہ اس قدر قیمتی ہے کہ آپ اس ایک منٹ میں اپنی زندگی، عمر، قابلیت، سعادت اور عمل صالحہ میں اضافے اور سربلندی کا سنگ میل عبور کر سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنی عمر سے ایک قیمتی منٹ صرف کر کے خیر کثیر حاصل کریں تو آپ درج ذیل اعمال کی محافظت کریں؛ ممکن ہے ان اعمال میں سے کوئی ایک عمل آپ کی زندگی، فہم و فراست، نیکیوں میں اضافے کا سبب بن جائے:
1 ایک منٹ میں سورہ اخلاص چھ مرتبہ پڑھی جا سکتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے کا اجر و ثواب ایک تہائی قرآن ہے (بخاری)۔ اس طرح چھ مرتبہ پڑھنے پر دو قرآن مجید پڑھنے کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک یہ عمل تسلسل سے جاری رکھا جائے تو ایک مہینے میں ساٹھ قرآن پڑھنے کا ثواب مل سکتا ہے۔
2 ایک منٹ میں قرآن شریف کی متعدد آیات دیکھ کر پڑھی جا سکتی ہیں۔
3 ایک منٹ میں کوئی نہ کوئی ایک آیت حفظ کی جا سکتی ہے۔
4لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
یہ تسبیح ایک منٹ میں ہم تین سے پانچ مرتبہ پڑھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس تسبیح کو دس مرتبہ پڑھنے کا اجر و ثواب اولادِ اسماعیل علیہ السلام میں سے آٹھ غلاموں کو فی سبیل اﷲآزاد کرنے کے اجر کے برابر ہے۔
5 ایک منٹ میں ’’سُبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِہٖ‘‘ بیس سے زیادہ مرتبہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اور جو شخص اس تسبیح کو ایک سو مرتبہ پڑھتا ہے تو اس کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اگرچہ یہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں (بخاری)
6 ہم ایک منٹ میں ’’سُبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ الْعَظِیْم‘‘ تقریبا دس مرتبہ پڑھ سکتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کلمات کو پڑھنا رحمن کو بڑا محبوب ہے۔ زبان پر بہت آسان اور ترازو میں بہت بھاری ہیں۔
7 سُبْحَانَ اﷲِ وَ الْحَمْدُ ِﷲِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اکْبَر
یہ کلمہ ایک منٹ میں متعدد مرتبہ پڑھا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کلمات سے بہت محبت تھی۔ یہ افضل الکلام ہیں۔ میزانِ قیامت میں ان کا وزن بہت بھاری ہو گا۔ (مفہوم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم )۔
8 لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲ ایک منٹ میں تقریباً بیس مرتبہ پڑھا جا سکتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق یہ جملہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
9 لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ایک منٹ میں بیس سے پچیس مرتبہ پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ کلمہ توحید ہے جس شخص کا آخری کلام یہ کلمہ بن جائے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
10 سُبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِہٖ عَدَدِ خَلْقِہٖ وَ رِضَا نَفْسِہٖ وَ زِنَۃِ عَرْشِہٖ وَ مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ ایک منٹ میں کئی مرتبہ پڑھا جا سکتا ہے۔ ان کلمات کے پڑھنے سے بے شمار تسبیحات کا اجر و ثواب ملتا ہے۔
11 اللہ تعالیٰ سے معافی و بخشش طلب کرنا ہر مسلمان کا شعارِ زندگی ہونا چاہیئے۔ ایک منٹ میں مکمل فہم و فراست اور قلبی احساس کے ساتھ ’’اَسْتَغْفِرُاﷲ‘‘ پڑھنا چاہیں تو بیسیوں مرتبہ پڑھ سکتے ہیں۔ استغفار کی فضیلت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ یہ بخشش و مغفرت، دخولِ جنت اور حصول برکت و رزق کا عظیم ترین سبب ہے۔
12 ایک منٹ میں ہم دو تین بار مکمل درود شریف پڑھ سکتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک بار درود و سلام بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں حاصل ہوتی ہیں۔
13 خالق کائنات کی اس عظیم ترین کائنات پر غور و فکر اور عبرت اقوم گذشتہ ایک منٹ میں کی جا سکتی ہے۔
14 اللہ سے محبت، شکر گزاری، خوف و تقویٰ، بندگی کا احساس، ان تمام جذبات کو ایک منٹ میں ابھارا جا سکتا ہے۔
15 سیرت النبی، اخلاقیات، احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر مبنی کوئی کتاب کا ایک قیمتی صفحہ، ایک منٹ میں پڑھا جا سکتا ہے۔
16 ایک منٹ میں ٹیلی فون کے ذریعے کسی رشتہ دار کے ساتھ صلہ رحمی بھی کر سکتے ہو۔
17 ایک منٹ میں اپنے لئے، اپنے والدین کے لئے، اہل و عیال کے لئے کوئی بھی دعا مانگ سکتے ہو۔
18 کئی مسلمان بھائیوں کو السلام علیکم کہہ سکتے ہو۔
19 کسی کو برائی سے روکنا یا نیکی کا حکم دینا، ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہ عمل بھی ہو سکتا ہے
20 کسی مسلمان بھائی کے حق میں جائز سفارش کی جا سکتی ہے۔
21 راستے میں چلتے چلتے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹائی جا سکتی ہے۔
کم و بیش ایک سو دفعہ سُبْحَانَ اﷲ پڑھا جا سکتا ہے جس سے ایک ہزار نیکیاں ملیں گی یا ایک ہزار (صغیرہ) گناہ معاف ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔ (صحیح مسلم)۔
عزیزانِ گرامی! آپ نے دیکھا اور پڑھا کہ ہم ایک منٹ کو کس قدر عظیم اور قیمتی بنا سکتے ہیں۔ بے شمار نیکیاں کر سکتے ہیں۔ ہمارے اخلاص کی وجہ سے ان نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان اعمال پر عمل پیرا ہونے کے لئے کوئی بہت بڑی مشقت، کوئی بہت بڑا چلہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ بغیر تھکاوٹ، مشقت اور بغیر رقم خرچ کئے عظیم ترین اجر کا مستحق ہوا جا سکتا ہے۔ یہ عمل چلتے پھرتے، دورانِ سفر گاڑی یا بس یا ٹرین و ہوائی جہاز میں بیٹھے بیٹھے کیا جا سکتا ہے۔
یہ اعمال خوش قسمتی، سعادت، انشراح صدر کا سبب بنتے ہیں۔ ان اعمال کو اپنا تکیہ کلام بنائیے، حرزجان سمجھ کر محفوظ رکھئے۔ اپنے بھائی بہنوں کو تلقین کیجئے۔ نیکی کو کبھی بھی چھوٹا یا حقیر نہ سمجھئے بلکہ ہر عمل وقت آنے پر بڑا گراں قدر بن جاتا ہے۔
اہم ترین اسباب تقویٰ عبد اللہ
(1کثرت عبادت : فرمان الٰہی ہے ’’اے لوگو اللہ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیاہے اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی۔تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ‘‘۔(سورئہ بقرہ:۲۱)
2 عمل صالح پر مکمل مضبوطی اختیار کرنا فرمان الٰہی ہے ’’جو ہم نے تم کو دیا ہے اسکو مضبوطی سے تھام لو،اور جو حکم (اس کتاب میں )ہے اسکو یاد رکھو تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔(بقرہ:۶۳)
3) حدود شرعی کولاگو کرنا :فرمان ہے ’’اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو!تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔(بقرہ:۲۳۷)۔
(4 عدل کرنا:فرمان ہے ’’عدل کرو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے‘‘۔(بقرہ:۲۳۷)
(5 معاف کرنا: ’’اور اگر تم معاف کرو تو یہ زیادہ تقویٰ کی بات ہے‘‘۔ (بقرہ:۲۳۷)
(6 تعظیم الرسول: ’’بے شک وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنی آواز کو پست رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جنکے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے خاص کیاہے‘‘۔ (سورہ حجرات:۳)۔
مختصراً تمام عبادات ، عمل صالح اور اتباع سنت سے حصول تقویٰ ہوتا ہے ۔
فوائد و ثمرات:1 دنیا وآخرت کی خوشخبری حاصل ہونا۔فرمان الٰہی ہے ’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور متقی ہوئے ۔ ان کے لئے دنیا کی زندگی اور آخرت میں خوشخبری ہے‘‘ ۔(یونس:۶۳)۔
(2مددو نصرت خداوندی: بے شک اللہ تعالیٰ متقین کیساتھ ہے جو لوگ نیکوکارہیں (نحل:۱۲۸)
(3 درست راستے کی ہدایت ملنا: اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈروگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے فرقان (پیدا)کر دے گا‘‘۔ (سورہ انفال:۲۹) فرقان سے تم حق و باطل میں فرق اور درست راہ کی راہنمائی حاصل کرسکوگے۔
(4 گناہوں کی بخشش ملنا: ’’او رجوشخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا تو اسکے گناہوں کو مٹادیا جائے گا اور اجر و ثواب میں اضافہ کر دیا جائے گا‘‘۔ (سورہ نساء:۱۲۹)۔
(5 کشادگی و آسانی پیدا ہونا: ’’اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا تو اسکے کاموں کوآسان کر دیاجائے گا‘‘۔ (سورہ طلاق:۴) ۔
’’اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا تو اللہ اس کیلئے (پریشانیوں) سے نکلنے کی راہ پیدا کردے گا۔اور اس کو وہاں سے رزق ملے گاجہاں گمان بھی نہ ہوگا‘‘۔ (سورہ طلاق:۲۔۳)
(6’’ عذاب سے نجات ملنا : بے شک اللہ تعالیٰ متقی لوگوں سے محبت کرتا ہے ‘‘۔ (مریم:۷۲)۔
(7 باعزت ہونا: ’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘‘۔ (سورۃ الحجرات :۱۳)۔
(8 اللہ کی محبت ملنا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ متقی لوگوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (سورہ توبہ:۴)۔
(9 کامیابی ملنا: ’’اور اللہ سے ڈرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ‘‘۔ (سورۃ البقرہ: ۱۸۹)۔
(10 عمل صالح کاضائع نہ ہونا: ’’بے شک جو تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے نیکی کرنے والوں کوضائع نہیں کرتا‘‘۔ (سورہ یوسف:۹) ۔
(11 نیکیوں کی قبولیت: ’’بے شک اللہ تعالیٰ متقین کاعمل قبول فرماتا ہے‘‘۔ (سورہ مائدہ ۲۷)۔
(12 جنت کاحصول : ’’بیشک متقین ، جنتوں اور پانی کے چشموں میں رہیں گے‘‘ (الذاریات:۱۵)
(13 مختلف انعامات کاملنا: ’’بے شک متقین کامیاب ہوں گے ۔باغات و انگور ہوں گے ۔ ہم عمر کنواری دوشیزائیں اور لبالب جام ہونگے‘‘۔(النباء:۳۱تا۳۴)
(14 اللہ رب العزت کی قربت اور دیدار کاحصول ہونا: ’’بے شک متقین لوگ باغات اور نہروں میں رہیں گے اور ان کیلئے قدرت رکھنے والے مالک کے ہاں من پسند جگہ ہوگی‘‘ (سورۃ القمر:۵۵)۔
(15 دل کی پاکیزگی اور سلامتی کاملنا: ’’دنیاکے گہرے دوست قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے ۔مگر متقی لوگ ہرگز دشمن نہ ہوں گے‘‘۔ (سورۃ الزخرف:۶۷)۔
(16اصلاح عمل اور مغفرت کاحصول: ’’اے ایمان والو! پختہ بات کرو اور اللہ سے ڈرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کر دے گا اور گناہوں کو معاف کردے گا‘‘۔ (سورہ احزاب:۷۰)۔
(17صاحب بصیرت اور زودفہم ہونا: ’’بے شک اللہ سے ڈرنے والوں کو جب کوئی شیطانی گروہ ملتا ہے تو انکو فوراً (اللہ )یاد آجاتا ہے اور وہ دیکھنے والے بن جاتے ہیں‘‘ ۔(اعراف: ۲۰۱)۔
(18 غوروفکر کرنا: ’’بے شک دن اور رات کا بدلنا اور آسمانوں و زمین کی پیدائش میں بڑی کھلی نشانیاں ہیں ۔ متقی قوم کے لئے‘‘۔ (سورہ یونس: ۶۰)۔
19) اچھا انجام ملنا: ’’تم صبر کرو بے شک متقین کے لئے اچھا انجام ہے‘‘۔ (سورہ ھود:۴۹)
20)اللہ کی دوستی ملنا: ’’اور اللہ تعالیٰ متقین کادوست ہے‘‘۔ (سورۃ الجاثیہ:۱۹)
ؕاقتاس از: الطریق الی الجنۃ(جنت کا راستہ)