فتنہ کیا ہے ؟
فتنہ کئی معنوں میں آتا ہے،آزمائش،فساد پھیلانا،گمراہ کرنا،جسمانی اذیت پہنچانا،جنگ ، عشق،پاگل پن کی حد تک دیوانگی،یہ سب اسکے معانی ہیں،اسکے ہر معنی میں خیر کاپہلو نایاب جبکہ شر کے کئی پہلو ہیں ۔
فتنہ موت کی طرح ہے،جس کے لئے زمان و مکان ، اچھے ،برے کی کوئی قید نہیں،یہ رات کے اندھیرے کی طرح اپنا تاریک سایہ ہر سمت پھیلاتا جاتا ہے اور ہر گذرتے لمحے اسکی تاریکی بڑھتی ہی جاتی ہے،لیکن اسکی انتہا نہیں ہوتی،یہ آندھی و طوفان کی مانند ہے،جہاں جاتا ہے تباہی و بربادی لاتا ہے،کوئی ذی نفس اسکے فساد سے محفوظ نہیں رہتا کوئی ڈیم،بند یا دروازہ اسے روک نہیں سکتا یہ ہر دروازہ توڑ دیتا ہے اور ہمیشہ کے لئے بے لگام ہوجاتا ہے،یہ بارش کے قطروں کی طرح برستا ہے پھر سینے پھاڑ کر دلوں میں گھس کر جڑیں بناتا اور کونپلیں نکالتا ہے،یہ یاجوج ماجوج کی طرح ہے جنہیں آزاد ہونے کے بعد قید نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی انکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے،یہ دجال کی مانند ہے جو سراپا شر و فساد ہے ،جس سے ہر نبی نے پناہ مانگی جو خود کو منوانے کا فن بخوبی جانتا ہے ۔
شرک وکفر،بدعات و خرافات،زنا و بدکاری،شراب نوشی،قتل و غارتگری،چوری چکاری،لوٹ مار ،ڈاکہ ورہزنی،نفاق وفساد،جھوٹ،وعدہ خلافی، بددیانتی، خیانت، لڑائی جھگڑا،گالم گلوچ،فسق و فجور،معصیت و نافرنانی،خود غرضی،مفاد پرستی،خود پسندی،دھوکہ دہی،حق تلفی،ظلم و زیادتی،فاسق و فاجر حکام،نا اہل قیادت،الحاد و بے دینی،مال و دولت کی حرص،دین سے دوری و بیزاری،دنیا سے محبت،زندگی سے محبت،آخرت سے غفلت،موت سے نفرت،وغیرہ
شرک و کفر کو چھوڑ کر باقی سب اگر چہ گناہ و معصیت کے زمرے میں آتے ہیں،لیکن جب یہ کسی معاشرے میں جڑ پکڑ لیں،انکی عادت بن جائیں ، انکے لئے معمولی اور حقیر سے جرائم بن جائیں تو یہ فتنہ بن جاتے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے پر انکی یلغار ہے، ہر گزرتے دن ان میں اضافہ ہو رہا ہے ،اور اس صورتحال سے نمٹنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی ،یہ خونخوار اژدھے کی طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ،اسے توڑ پھوڑ رہا ہے ،اور اسے نگلنے کی جدوجہد میں ہے ۔
قدیم وجدید فتنے:
انسانی زندگی کا مدار چار چیزیں ہیں،
1عقائد و نظریات،
2اعمال وعبادات،
3عقود و معاملات
4سلوک و اخلاقیات ،انسانی زندگی کا کوئی پہلو ان چار میں سے کسی ایک سے خالی نہیں،اور فی زمانہ یہ چاروں ہی کئی طرح کے فتنوں کی زد میں ہیں ،بلکہ فتنوں کا شکار بن چکے ہیں ،عقیدے میں خلل شرکیات و توہمات کی صورت میں ،عبادات میں خلل بدعات و خرافات کی شکل میں ، معاملات میں خلل رسم و رواج اور کسب حرام کی صورت میں اور اخلاقیات میں خلل اغیار کی تقلید کی صورت میں پورے معاشرے پر یلغار کئے ہوئے ہے ، مذکورہ فتنے اسکی واضح دلیل ہیں۔
در اصل یہ سب قدیم فتنے ہیں جو نت نئی صورتوں میں سامنے آرہے ہیں ،فرق صرف لیبل اور لبادے کا ہے، بناوٹ وہی پرانی ہے ، آج بھی وہی شیطان مصروف عمل ہے جو کل تھا ، آج بھی اسکے وہی پھندے،ہتھکنڈے اور جال ہیں جو کل تھے ،طریقہ واردات ذرا مختلف ہے،کل بھی وہ حرص و ہوس ،طمع و لالچ،شہوت رانی و نفس پرستی جیسی انسانی کمزوریوں سے کھیلتا تھا ،آج بھی وہ انہی سے کھلواڑ میں مگن ہے،انداذ ذرا بدل گیا ہے،رقص و سرور کل تک عریانیت تھے آج فن ہیں ،شراب کل تک نشہ تھی آج ڈرنک ہے، سود کل تک ظلم تھا آج انٹرسٹ ہے، پہلے تصویر تھی آج ویڈیو ہے، جبکہ تصویر کی قدیم شکل بھی موجود و رائج ہے،پہلے گانا بجانا انسان کرتا تھا آج یہ آلات کے ذریعے بھی ممکن ہے،پہلے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین قومی جرم تھاآج یہ جمہوریت کا حسن اور آزادی اظہار رائے ہے،پہلے خواتین کو بے آبرو کرنا جرم تھا آج یہ آزادی و حقوق نسواں ہے،الغرض صرف شکلیں اور حیثیتیں بدلی ہیں حقائق وہی پرانے ہیں، چنانچہ انکے متعلق احکام شریعت آج بھی وہی ہیں جو زمانہ نبوت و رسالت میں تھے البتہ انکی موجودہ شکل و حیثیت پر تطبیق میں الفاظ ذرا بدل جاتے ہیں ۔
عقائد ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات سے متعلقہ فتنوں کو بیان کرنے سے پہلے چند ایسے فتنوں کا ذکر کرنا ضروری ہے جو دیگر تمام فتنوں میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ ہیں ، اگر مسلمان اپنی اس جانب کی اصلاح کرلیں تو بہت سے فتنوں سے محفوظ ہوجائیں ، ذیل میں ایسے ہی چند فتنے ذکر کئے جارہے ہیں :
1غفلت و بے حسی کا فتنہ:
ہمارے نگاہیں دنیا کی رنگینیوں سے اسقدر خیرہ ،ہمارے قلوب شہوات اور نفسانی خواہشات سے اسقدر لبریز اور ہماری عقل و فراست ان رنگینیوں کے حصول اور شہوات کی تکمیل کے راستے ڈھونڈنے میں اسقدر مگن رہتی ہے کہ ہم دوسری کسی جانب دیکھنے یا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ، اس پر مستزاد ابلیس ملعون اور اسکے انسانی و جناتی چیلوں کے پرکشش حملوں و ترغیبات نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ، وہ دنیا اور اسکی عارضی زندگی کو اسقدر خوبصورت اور پر کشش بناکر پیش کرتے ہیں کہ ہم جنت کی خوبصورتی اور دائمی زندگی کو فراموش کرکے دنیا کے پیچھے سر پٹ دوڑتے رہتے ہیں ، وہ شہوات کو اسقدر لذیذ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ ہم ان میں مست و مدہوش ہوکراللہ عز وجل کی اطاعت و عبادت کی لذت و چاشنی اور سرشاری کو بالکل فراموش کردیتے ہیں،زندگی بے لگام اور سرکش گھوڑے کی مانند اسی طرح دوڑتی رہتی ہے حتی کہ ہم موت کے گڑھے قبر میں جا گرتے ہیں:
ارشاد ربانی ہے :
أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ(1)حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
زیادہ کی طلب نے تمہیں غافل کردیا، یہانتک کہ تم نے قبروں کی زیارت کرلی۔(سورۃالتکاثر:2)
یہ عام ہے ،اموال ، اولاد ،جائداد ، کاروبار ،گھر وغیرہ ہر وہ چیز جس کی کثرت انسان کو محبوب اور اسکے حصول کی خواہش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کردے۔
سید ناعبداللہ بن شخیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أَتَيْتُ النَّبِىَّ -ﷺ- وَہُوَ يَقْرَأُ (أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ) قَالَ « يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِى مَالِى - قَالَ - وَہَلْ لَکَ يَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ إِلاَّ مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ ۔
میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا ، آپ الھاکم التکاثر پڑھ رہے تھے ،آپ نے فرمایا:انسان کہتا ہے :میرا مال،میرا مال،حالانکہ اے انسان تیرا مال صرف اور صرف وہی ہے جو تو نے کھا کر ختم کرلیا،یا پہن کر بوسیدہ کرلیا،یاصدقہ کرکے ذخیرہ کرلیا۔
(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،رقم:7609)
یعنی انسان ساری زندگی جس مال و متاع کے پیچھے بھاگتا ہے اگر وہ اسے مل بھی جائے تو آخرکاروہ اسکا نہیں رہتا بلکہ اسے اسکے وارث لے جاتے ہیں ، یہ تو نتیجہ ہے ، اس سے پہلے یہ مال اور یہ دنیا اسکی جو دوڑ لگواتے ہیں ، اس میں :
z وہ اپنے کتنے ہی قیمتی اوقات ضائع کردیتا ہے جنہیں صحیح مصرف میں استعمال کرکے اپنے رب کی خوشنودی پاکروہ جنت کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہو سکتا تھا،
zصحیح و غلط، جائز و ناجائز ،حلال و حرام ،حق وناحق کی تمیز چھوڑ کر اپنے مہربان خالق و مالک کو ناراض کرلیتا ہے،
zاپنی دنیا کو پرسکون بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی دھن میں بے آرام ، بیمار اور تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے،اور سب کچھ پاکر بھی حرص و ہوس پیچھا نہیں چھوڑتے اور بے سکونی و بے چینی مقدر بن جاتے ہیں۔
z دین و شریعت سےغفلت و بے حسی کا شکار ہو کر خود غرضی ، مفاد پرستی اور حصول زر کو اپنا مذھب بنالیتا ہے، آخر میں پھر بھی خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔
اس بے حسی اور غفلت کی بنیاد:
اسکی بنیاد دو چیزیں ہیں ایک مال دوسری اولاد ، اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (14) إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّہُ عِنْدَہُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (سورۃ التغابن:15)
اے ایمان والو تمہاری بیویوں اور بچوں میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں سو ان سے بچ کر رہواور اگر تم عفو و درگذر اور بخشش سے کام لو تو اللہ بھی بخشنے والا مہربان ہے دراصل تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں جبکہ اجر عظیم اللہ کے پاس ہے
یعنی وہ بیوی بچے اور مال و دولت جو دین سے دوری کا سبب بنیں وہ ہی اصل دشمن ہیں کیونکہ وہ اللہ کی ناراضگی اور اخروی خسارے کا باعث ہیں،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ(سورۃ المنافقون:09)
اے ایمان والو تمہیں تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں،اورجو ایسا کریں گے وہ خسارے میں ہوں گے۔
فطرتی طور پر انسان حسن و جمال اور زیب و زینت کا دلدادہ ہے اور شیطان انسان کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے لہذا وہ اس سے فائدہ اٹھاکر انسان کو اسکے اصل مقصد حیات یعنی اللہ کی بندگی سے غافل کردیتا ہے،اللہ تعالی نے اس انسانی کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْمَآَبِ
’’لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت، جیسے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان زدہ (عمدہ قسم کے) گھوڑوں مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنا دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ دنیوی زندگی کا سامان ہے اور جو بہتر ٹھکانا ہے وہ اللہ ہی کے پاس ہے‘‘(آل عمران:14)
لیکن انسان کی یہ حسن پرستی ، زیب و زینت ، سیم و زر کی فراوانی اور اولاد و جائیداد دنیا میں اللہ تعالی کے قرب اور آخرت میں حصول اجر و ثواب اور نجات کی امید کا باعث نہیں بن سکتے،چنانچہ ارشاد فرمایا:
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا (سورۃالکھف:46)
مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زیب و زینت ہیں،جبکہ تیرے خالق و مالک کے نزدیک باقی رہنے والے نیک اعمال حصول ثواب اور امید لگانے کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں۔نیز فرمایا:
وَمَا أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِکَ لَہُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَہُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آَمِنُونَ (سورۃ سبا:37)
تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں ہمارا قرب نہیں دلا سکتے لیکن جو ایمان لانے کے بعد نیک عمل کریں گے تو انکے لئے انکے اعمال کا دوگنا اجر ہے اور وہ جنت کے بالا خانوں میں اطمئنان سے رہیں گے۔
اولاد کی فتنہ انگیزی کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا:
الولد (ثمرۃ القلب)مجبنة مبخلة محزنة
’’اولاد بزدل وبخیل بنادیتی ہے اور دکھ دیتی ہے۔‘‘
(الضعيفة :4764- ضعيف الجامع:6165- وفي صحيح الجامع :7160، قال الشيخ:الحديث ثابت دون قولہ: ثمرة القلب، ولذلک أوردتہ في صحيح الجامع 7160 ،ولکن فاتنا حذف ہذہ الزيادة فلتحذف)
گذشتہ آیات و حدیث سے واضح ہے کہ اموال و اولاد کی تین حیثیتیں ہیں:
(1)یہ فتنے کا سامان ہیں۔
(2)یہ دنیاوی زندگی کی زیب و زینت ہیں۔
ان حیثیتوں میں یہ آخرت میں انسان کے کسی کام کی نہیں بلکہ اسکی ناکامی کا باعث ہیں۔
(3) دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ،اسکی صورت یہ ہے کہ اموال کو اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے اور اولاد کی دینی تعلیم و تربیت ہو تاکہ وہ نیک اور صالح بنے اور اپنے والدین کے لئے انکی زندگی میں اور انکی موت کے بعد بھی دعائیں کرے اور انکی نیک نامی کا باعث بنے ، جیسا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِہِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَہُ
جب انسان مرجائے تو اسکا عمل اس سے کٹ جاتا مگر تین اعمال جاری رہتے ہیں(یعنی انکا ثواب) صدقہ جو جاری ہو،علم جس سے نفع اٹھایا جارہا ہو ، نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہو۔(یعنی اسکی موت کے بعد)(صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ،باب ما یلحق النسان من الثواب بعد وفاتہ، رقم :4310)
بے حسی کا انجام:
اس غفلت و بے حسی کا انجام رشد و ہدایت سےمستقل محرومی اور فسق و فجور پر مستقل قائم رہنے کی بھیانک اور افسوسناک صورت میں نکلتا ہے یہی لا پرواہی کفار کو انکے کفر و فجور پر جمائے رکھتی ہے تا آنکہ وہ ھدایت کو سامنے پاکر بھی اس سے بے پرواہی برتتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْہِمْ أَأَنْذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا يُؤْمِنُونَ خَتَمَ اللَّہُ عَلَى قُلُوبِہِمْ وَعَلَى سَمْعِہِمْ وَعَلَى أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (سورۃالبقرۃ:7)
’’ آپ کفر کرنے والوں کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ایک ہی بات ہے وہ ایمان لانے والے نہیں اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگادی ہے کیونکہ انکے کانوں اور آنکھوں پر پردے پڑے ہیں،اور انکے لئے بڑا عذاب ہے‘‘
یعنی کفر ہو یا ایمان انکا مرکز دل ہے ، اور دل سے کفر کا خروج اور اسمیں ایمان کے دخول کے راستے کان اور آنکھیں ہیں جب انھوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں پر پردے ڈال دیئے کہ سن کر بھی ان سنی اور دیکھ کر بھی ان دیکھی کردیتے ہیں ، یا دیکھنے سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تو اللہ تعالی نے انکے دلوں پر مہر طبع کردی ۔
کفار اللہ کی جانب سے رشد و ہدایت سے محروم کردیئے گئے کیونکہ وہ دنیا کے حصول اور اس کی محبت میں مبتلا ہوکر رشد و ہدایت کی طلب سے غافل ہو گئے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
ذَلِکَ بِأَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآَخِرَةِ وَأَنَّ اللَّہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِينَ أُولَئِکَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّہُ عَلَى قُلُوبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَأَبْصَارِہِمْ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ لَا جَرَمَ أَنَّہُمْ فِي الْآَخِرَةِ ہُمُ الْخَاسِرُونَ (سورۃ النحل:109)
’’ یہ(یعنی بڑا عذاب) انکے لئے سلئے ہے کہ انہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اللہ ایسے کافروں کو ہدایت نہیں دیتا، اللہ نے انکے دلوں ، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگادی اور یہی لوگ غافل ہیں، یقیناً آخرت میں یہ خسارہ اٹھائیں گے‘‘
ایک اور مقام پر انکی غفلت و بے حسی کو جانوروں کی غفلت سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آَذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (سورۃالاعراف:179)
’’ بہت سے جن و انس کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ، وہ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے نہیں اور اپنے کانوں سے سنتے نہیں ،یہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے زیادہ بے پرواہ یہی لوگ غافل ہیں‘‘
انکی غفلت و لاپرواہی کا یہ عالم تھا کہ اللہ کی نشانیوں پر سے انکا گذر ہوتا اور وہ انہیں دیکھتے اور حق و اصلاح کے داعی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کرتے وہ انہیں سنتے بھی لیکن عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے نہ ہی انکے طرز حیات میں تبدیلی ہوتی،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَہُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِہَا أَوْ آَذَانٌ يَسْمَعُونَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (سورۃ الحج:46)
’’کیا وہ زمین پر گھومتے پھرتے نہیں ہیں ، کہ انہیں بھی سوچنے والے دل اور سمجھنے والے کان میسر ہوں،کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں بلکہ سینوں میں موجود دل اندھے ہوجاتے ہیں‘‘ نیز فرمایا:
وَمِنْہُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْکَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آَنِفًا أُولَئِکَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّہُ عَلَى قُلُوبِہِمْ وَاتَّبَعُوا أَہْوَاءَہُمْ (سورۃ محمد ﷺ :16)
’’ ان میں سے کچھ جب آپکی بات سن کر آپکے پاس سے چلے جاتے ہیں تو علم سکھادیئے جانے والوں سے پوچھتے ہیں کہ ابھی آپ نے کیا کہا؟ اللہ انکے دلوں پر مہر لگادی اور وہ اپنی خواہشات پر چلتے ہیں‘‘
دلوں پر مہر لگ جانا اور دلوں کا اندھا ہوجانا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب انکے ابواب یعنی آنکھوں اور کانوں پر انسان خود ہی تالے ڈال دے کہ نہ تو قدرت کی نشانیوں پر غور و فکر کرکے اللہ کی عظمت اور اپنی بندگی کا اعتراف کرے نہ ہی کانوں سے حق و اصلاح کی دعوت کو سن کراپنے نظريات اور طرز حیات کی اصلاح کرے۔
حالانکہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور اور سمع و بصارت کی دولت سے اسی لئے نوازا تاکہ یہ انکے ذریعے اپنے رب کی معرفت حاصل کرکے اسکی پسند و ناپسند کو ملحوظ رکھیں اور اسکی نعمتوں کی قدر کریں،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
وَاللَّہُ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (سورۃ النحل:78)
’’اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے،اور اس نے تمہیں کان ،آنکھیں اور دل عطا کئے تاکہ تم (ان نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے) اسکا شکر ادا کرو‘‘
بے حسی کا شرعی علاج :
دلوں پر لگے تالوں کی چابی ، ان پر چڑھے زنگ کی صفائی اور ان میں چھپی تنگی و سختی کا علاج صرف اور صرف قرآن پاک ہے ، لیکن قرآن پاک بھی اسی وقت موثر ہوگا جب اسے غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھا جائے، جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا
’’ کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا انکے دلوں پر تالے پڑے ہیں‘‘۔ (سورۃ محمد ﷺ :24) نیز فرمایا:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْہَا صُمًّا وَعُمْيَانًا(سورۃ الفرقان:73)
’’اہل ایمان کو جب انکے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے نہیں بنتے‘‘
یعنی توجہ سے سنتے اور غور و فکر کرتے ہیں،ابو جعفر محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’یعنی جب کوئی ناصح اللہ کی حجتوں کے ذریعے انہیں نصیحت کرتا ہے تو وہ بہرے نہیں ہوجاتے کہ سن نہ سکیں نہ ہی اندھے کہ دیکھ نہ سکیں بلکہ وہ پوری ہوشیاری و بیداری کے ساتھ اور دل و دماغ لگاکر سنتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں اللہ کی جانب سے کس بات کی نصیحت اور کس بات پر متنبہ کررہا ہے چنانچہ وہ اسکی نصیحتوں کو کانوں سے اچھی طرح سن کر دلوں میں محفوظ کرلیتے ہیں‘‘
(جامع البیان فی تاویل القرآن،19/73)
إِنَّ فِي ذَلِکَ لَذِکْرَى لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَہُوَ شَہِيدٌ (سورۃ ق:37)
’’بلا شبہ اس میں ہر اس شخص کے لئے نصیحت ہے جو دل رکھتا ہو اورحاضر دماغی کے ساتھ توجہ سے سنتا ہو‘‘
یعنی سن کر ان سنی نہ کرے بلکہ دل میں یاد رکھے اور اس پر غور فکر کرتا رہے اور اس پر عمل کے مواقع تلاش کرے اور موقع ملتے ہی تاخیر یا سستی کے بغیر عمل پیرا ہوجائے۔
نیز فرمایا:
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّہِ أُولَئِکَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُدَى اللَّہِ يَہْدِي بِہِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (سورۃ الزمر:23)
’’جس کے دل کو اللہ اسلام کے لئے کھول دے تو وہ اپنے رب کی جانب سے روشنی میں ہوتا ہے ، پس ہلاکت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے دل اللہ کو یاد کرنے کے لئے سخت ہوجائیں یہ لوگ واضح گمراہ ہیں ، اللہ نے ملتی جلتی آیات والی سب سے اچھی بات الکتاب(یعنی قرآن) کی صورت میں نازل کی ہے ، جسے(سن، پڑھ، سمجھ کر) اپنے رب سے ڈرجانے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر انکے چمڑے اور دل اللہ کی یاد کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہ اللہ کی رہنمائی ہے وہ جسے چاہتا ہے اسکی توفیق عطا فرماتا ہے اور جسے وہ گمراہی سے دوچار کردے تو کوئی اسکی رہنمائی نہیں کرسکتا‘‘
سید قطب شہید رحمہ اللہ نے کہا:
’’اللہ تعالی جس طرح آسمان سے پانی اتار کر لوگوں کے لئے مختلف رنگوں کی کھیتی اگاتا ہے اسی طرح وہ آسمان سے نصیحت نازل کرتا ہے جسے زندہ دل اپنے اندر سینچ لیتے ہیں چنانچہ انکے سینے کھل جاتے ہیں اوروہ زندہ وجود کی طرح متحرک ہوجاتے ہیں ، جبکہ سخت دل اس نصیحت کے ساتھ بے جان ، سوکھی اور سخت چٹان کی طرح پیش آتے ہیں‘‘
اللہ تعالی اسلام کے لئے وہی سینے کھولتا ہے جن میں اسے خیر نظر آئے،انہیں وہ اپنی روشنی عطا فرماتا ہے پھر وہ روشن اور منور ہوجاتے ہیں،اسطرح کے دلوں اور سخت دلوں کے مابین بڑا فرق ہے، یہ آیت ان دلوں کی حقیقت کو بیان کرتی ہے جو اسلام کے لئے کشادہ اورتر اور اللہ کے لئے انکی حالت و کیفیت ہشاش بشاش اور روشن و منور ہو،جبکہ دوسری قسم کے دلوں کو یہ آیت انکی سختی و شقاوت ، کجی و مردہ پن اور تاریکی و گمراہی سے تعبیر کرتی ہے
(تفسیر فی ظلال القرآن:6/230)
دنیا اور انسان کی حقیقت:
دنیا اور اسکی زیب و زینت جو اس غفلت و بے حسی کی بنیاد ہے ، اللہ تعالی نے اسکی حقیقت کو نہایت ہی احسن پیرائے میں بیان کیا ، ارشاد فرمایا:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ يَہِيجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَکُونُ حُطَامًا وَفِي الْآَخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (سورۃ الحدید:20)
’’یقین کرو ، دنیاوی زندگی صرف کھیل ،تماشا،زیب و زینت ،ایک دوسرے پر فخر کرنا اور اموال و اولاد میں خود کو دوسروں سے بڑھا کر پیش کرنا ہے،جس طرح سے بارش اور اسکی پیداوار کسانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے پر تم خود دیکھتے ہو کہ خشک ہونے پر وہ زرد ہوجاتی ہے بالآخر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے،یہ بھی یقین رکھو کہ آخرت میں سخت عذاب،نیز اللہ کی جانب سے بخشش و رضا مندی بھی ہے ،جبکہ دنیاوی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے‘‘
ابو الفرج عبد الرحمن بن احمد المعروف بابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا:
’’دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں:ایک وہ جو دنیا کے بعد بندوں کے لئے جزا و سزا کے منکر ہیں‘‘
انکے متعلق اللہ نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِهَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ، اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ
’’ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کے نشانوں سے غافل ہیں،ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے‘‘
اس قسم کے لوگوں(یعنی منکرین جزا و سزا) کا مقصد مرنے سے پہلےدنیا میں خوب فائدے اٹھا لینا اور اسکی خاطر انبار لگادینا ہوتا ہے ،ان میں سے کچھ لوگ دنیا میں زھد اختیار کرنے کا بھی کہتے ہیں، کیونکہ انکے خیال میں دنیا کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنا رنج وغم کا باعث بنتا ہے ، انکا ماننا ہے کہ دنیا سے جس قدر گہرا تعلق ہو گا ، موت کے وقت دنیا کی جدائیگی پر نفس کو اسی قدر تکلیف ہوگی،
دوسری قسم کے لوگ مرنے کے بعد جزا و سزا کو مانتے ہیں یعنی وہ لوگ جو انبیاء و رسل کی شریعتوں کی جانب منسوب ہوتے ہیںانکی تین اقسام ہیں۔
(1)اپنی جان پر ظلم کرنے والے۔
(2)اعتدال پسند۔
(3)اللہ کے حکم سےنیکیوں میں سبقت لے جانے والے۔
(1)ان میں اکثریت اپنی جان پر ظلم کرنے والوں کی ہے ، اور انکی اکثریت دنیاوی زیب و زینت تک محدود رہتی ہے ،اسے غلط طور پر لے کر غلط طور پر ہی استعمال کرتی ہے، دنیا انکا مقصد بن جاتی ہے ،اسی کی خاطر خوش اور ناراض ہوتے ہیں، اسی کی خاطر دوستی اور دشمنی کرتے ہیں،یہ لوگ کھیل ،تماشے،زیب و زینت ،ایک دوسرے پر فخر کرنے اور اموال و اولاد میں خود کو دوسروں سے بڑھا کر پیش کرنے والے ہیں،یہ دنیا کا مقصد نہیں جان پاتے،کہ وہ سفر(راستہ)ہے نہ کہ منزل،اس سے فقط اسکے بعد والے دار الاقامت(آخرت)کے لئے زاد راہ لینا ہے(نہ کہ اسی کا ہو کر رہ جانا)ان میں سے کچھ لوگ اگرچہ ایمان مجمل رکھتے ہیں لیکن ایمان مفصل کو نہیں جان پاتے ،نہ ہی اس لذت سے آشنا ہو پاتے ہیں جسے دنیا میں اللہ کی معرفت رکھنے والے پالیتے ہیں،جو ان نعمتوں کا حقیر سا نمونہ ہوتی ہے جو انکے لئے آخرت میں تیار کی گئی ہیں۔
(2)معتدل مزاج لوگ دنیا کو جائز و مباح طور پر لیتے ہیں ، اسکے حقوق ادا کرتے ہیں، اور جو ضرورت سے زائد ہو اسے اپنے لئے روک کر اس سے دنیاوی خواہشات کے مزے لوٹتے ہیں،۔آگے چل کر فرمایا:
(3) اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے والے یہ لوگ دنیا کا مقصد جانتے ہیں اوراسکے مطابق عمل کرتے ہیں،وہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں کو دنیا میں امتحان کے لئے بسایا ہے کہ کس کا عمل سب سے اچھا ہے۔ (جامع العلوم والحکم:تحت الحدیث رقم:31)
zنبی اکرم ﷺ نے دنیا کی حقیقت کو اسطرح بیان کیا:
(1)ارشاد فرمایا:
الدنيا سجن المؤمن وجنة الکافر
’’دنیا مومن کے لئے قیدخانہ اورکافر کے لئے جنت ہے۔
(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،رقم:7606)
علامہ محمد عبد الرؤف المناوی رحمہ اللہ (فیض القدیر :3/730) میں رقمطراز ہیں کہ:
’’امام ابن حجررحمہ اللہ جب قاضی القضاۃ تھے ایک دن بڑے سے جلوس میں شامل ہوکر عمدہ لباس میں بازار سے گذرے تو ایک تیل فروش بد ہیئت یہودی جسکا سارا لباس تیل میں تر بتر تھا نے انکے خچر کی لگام پکڑ کر کہا کہ:جناب شیخ الاسلام تمہارے بقول تمہارے نبی نے فرمایا کہ دنیا مومن کے لئے قید اورکافر کے لئے جنت ہے تو بتائیے کہ آپ (اپنی اس شان و شوکت کے ساتھ) کس قید میں ہیں اور میں (اپنی اس بد حالی کے ساتھ) کس جنت میں رہ رہا ہوں؟‘‘
تو امام نے فرمایا: ان نعمتوں کے مقابلے میں جو اللہ نے آخرت میں میرے لئے تیار کی ہیں گویا ابھی میں قید میں ہوں اور اس دردناک عذاب کے مقابلے میں جو اللہ نے آخرت میں تیرے لئے تیار کر رکھا ہے گویا ابھی تو جنت میں ہے،یہ سن کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔
(2)جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما نے کہا:
’’ کہ رسول اللہ ﷺ بازار سے گذرے لوگ آپ کے ساتھ تھے تو آپ کا گذر بکری کے ایک چھوٹے کانوں والے مردہ بچے پر سے ہوا آپ نے اسے کان سے پکڑ کر اٹھایا اور پوچھا:تم میں کون اسے چاندی کے ایک درھم کے عوض لینا چاہے گا ؟ لوگوں نے کہا کہ ہم اسے معمولی قیمت میں بھی نہ لیں ،اسکا ہم کیا کریں گے ،آپ نے پوچھا :کیا تم (مفت میں) لینا چاہو گے ؟لوگوں نے کہا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی یہ عیب دار ہوتا کیونکہ یہ چھوٹے کانوں والا ہے جبکہ یہ تو مردہ ہے،تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی گئی گزری ہے جسقدر تمہارے نزدیک یہ ‘‘
(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،رقم:7607)
(3)نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
ألا الدنيا ملعونة ملعون ما فيہا إلا ذکر اللہ وما والاہ وعالم أو متعلم
’’دنیا لعنت زدہ ہے اسکی ہر شے لعنت زدہ ہے ،سوائے اللہ کے دین کے اور جو اس سے تعلق رکھے اور سوائے عالم یا طالبعلم کے‘‘(سنن ترمذی،کتاب الزھد،رقم:2322-صححہ الالبانی فی الصحیحۃ برقم:2797)
یعنی دنیا اور اسکی زیب و زینت اللہ کی رحمت سے کوسوں دور ہے،اور اسے اپنانے والے کو بھی رحمت سے دور لیجاتی ہے،صرف دین اسلام کی کسوٹی پر پورا اترنے والا قول و فعل، دین سے متعلق مقامات ، اوقات، اشخاص و اشیا ، دین کے طالب اور داعی اس لعنت سے محفوظ اور اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں۔
(4)نیز فرمایا
لو کانت الدنيا تعدل عند اللہ جناح بعوضة ما سقى کافرا من شربة ماء
’’ اگر اللہ کے نزدیک دنیا مچھر کے پر برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔(سنن ترمذی،کتاب الزھد،باب ھوان الدنیا علی اللہ، رقم:2320)
یعنی اگر دنیا کی زیب و زینت اور مال و دولت کی اللہ کے نزدیک ذرا بھی حیثیت ہوتی تو وہ کفار کو اس سے محروم رکھتا،جبکہ مسلمانوں کو خوب نوازتا،لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے ،اللہ نے کفار کو ایمان کی دولت سے محروم رکھا جبکہ مسلمانوں کو اس حقیقی دولت سے مالا مال کردیا۔
(5)نیز فرمایا:
ما لي وللدنيا ؟ ما أنا في الدنيا إلا کراکب استظل شجرة ثم راح وترکہا
’’مجھے دنیا سے کیا مطلب،دنیا میں میری مثال تو اس مسافر کے جیسی ہے جو کسی درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لئے ٹہر جائے ، پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہوجائے۔ (سنن ترمذی،کتاب الزھد، رقم: 2377- صححہ الالبانی فی الصحیحۃ برقم:438)
یعنی اس آرام سے مسافر کا مقصد آگے کے سفر کو آسان بنانا ہوتا ہے ، نہ کہ سفر سے مقصود یہ آرام ہوتا ہے ۔
------- جاری ہے-------
انسانی دل اللہ تعالی کاعظیم ترین تحفہ ہے،جسمانی و روحانی زندگی کے دونوں پہلوؤں میں دل کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ،زندگی کے ہر دو پہلو کا مدار اسی پر ہے ، اگر یہ صحتمند ہے تو جسم بھی توانا اور روح بھی شاداب اور اگر یہ بیمار ہوجائے تو جسم بھی بیمار اور روح بھی کمزور ہوجاتی ہے اگر یہ میلا ہوجائے تو روح میلی ہوجاتی ہے اور جسم اپنے آقا کا باغی بن جاتا ہے،اور اگر یہ اجلا اور نکھرا ہو تو روح بھی صافی اور جسم بھی اپنے مالک کا تابعدار رہتا ہے، اس پر زنگ چڑھ جائے تو ظاہری اعمال و افعال صالحہ سست پڑجاتے ہیں،اور اگر اس پر ایمان کا رنگ چڑھ جائے تو کردار و گفتار ظاہری پر شریعت کا رنگ غالب نظر آتا ہے،اس میں کجی آجائے تو عقل و فہم اور قول و فعل میں کجی آجاتی ہے ،اور اگر یہ سیدھا رہے تو فکر و عمل بھی سیدھے رہتے ہیں۔
انسانی زندگی میں دل کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول ﷺ نے فرمایا:
أَلاَ وَإِنَّ فِى الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلاَ وَهِىَ الْقَلْبُ
(ترجمہ)غور سے سنو ،انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے،اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم درست ،اور اگر وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے،یاد رکھو،وہ دل ہے۔(بخاری:52)
یعنی دل کی اصلاح پر جسم کی اصلاح موقوف ہے اس معنی میں کہ اگر دل کی جملہ صفات(جو آگے آرہی ہیں)صحیح و درست ہوں تو جسم یعنی ظاہری اعضاء کی جملہ صفات (جنکی طرف آئندہ سطور میں اشارہ کیا گیا ہے) بھی صحیح و درست ہوجائیں گی اور اگر دل میں مذموم صفات جگہ بنالیں تو ظاہری اعضاء کی صفات بھی بگڑجاتی ہیں لہٰذا ظاہر کی اصلاح سے پہلے باطن کی اصلاح ضروری ہے اسکے بغیر ظاہر کی اصلاح ناممکن ہے ،بالفاظ دیگر تمام انسانی افعال و اقوال ، حرکات و سکنات ، عادات و صفات کی خوبی و خامی کی بنیاد اسکا دل ہے ، جو دل اسکے عزائم و ارادوں کا مرکز ہے ، اور عزائم و ارادے (نیّات)اسکے اقوال و افعال وغیرہ کے اچھے یا برے ہونےاور اسکے اقوال و افعال اسکے انجام کا فیصلہ کرتے ہیں ، نبی ﷺ کا درج ذیل فرمان اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے ارشادفرمایا:
إنما الأعمال بالنيات ، وإنما لكل امرئ ما نوى ، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
(ترجمہ)اعمال،نیتوں کے مطابق ہوتے ہیں،اور ہر شخص کو اسکی نیت کے مطابق ہی ملتا ہے،جسکی ہجرت(اسکی نیت کے مطابق) اللہ اور اسکے رسول کے لئے ہو،تو واقعی اسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کے لئے ہے،اور جسکی ہجرت(اسکی نیت کے مطابق)دنیا ،یا کسی عورت کو پالینے کی خاطر ہو،تو اسکی ہجرت اسی لئے ہی ہے۔(بخاری:01)
یعنی انسان کا باطن اسکے ظاہر کا فیصلہ کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالی بھی دنیا و آخرت ہر دو جہاں میں اسکی حیثیت کے تعین کے لئے اسکی دلی کیفیات و حالات کو بنیاد بناتا ہے ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللّٰهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ(مسلم:6708)
(ترجمہ)اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور اموال کو نہیں دیکھتا ،بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
یعنی ظاہری شکل و صورت اس قابل نہیں کہ وہ اعمال کو اللہ کے ہاں شرف قبولیت عطا کرواسکیں،یہ اعزا ز،ایمان اور عمل کرتے وقت کی باطنی کیفیات (نیات)اورطریقہ کار(کہ ادائیگی عمل کا طریقہ شریعت الہیہ کے مطابق ہے یا نہیں) کو حاصل ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آَمِنُونَ
(ترجمہ)تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارا مقرب بنادیں،مگر جو ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرے تو ان کے لئے ان کے اعمال کادوگنا اجر ہے، اور وہ بالاخانوں میں امن سے رہیں گے۔ (سبا:37)
قلب انسانی اسکے جسم کا امیر اور اسکے عقائد و نظریات کا محافظ ہے،رسالت الہیہ کے نزول کا مرکز بھی دل ،جبکہ وساوس شیطانیہ کے القاء کا مرکز،خیر و صلاح کی جائے پیدائش بھی دل ،جبکہ فتنوں کی آماجگاہ بھی دل ہے،دل کی اپنی ہی دنیاہے،یہ ایک قلعے کی مانند ہے، جس میں ہدایات ربانیہ” شاہ“،ایمان ”سپہ سالار“،تقوی اسکی” ڈھال“ اور صفات حسنہ و اعمال صالحہ” تلوار“،اور صفات سیئہ و برے اعمال” سازشی عناصر “ہیں، جس پر ہر لمحہ شیطانی حملے جاری رہتے ہیں،ہر نوع کے فتنے اس پر یلغار کئے رہتے ہیں،جبکہ سازشی عناصر ایمان کو کمزور کرنے میں لگے رہتے ہیں،اگردل میں ایمان اور نور ہو تو وہ ان کا مقابلہ کرلیتا ہے،اور یہ نور ایمانی سے محروم ہو تو ان حملوں کے آگے ڈھیر ہوجاتا ہے، چنانچہ نبی ﷺنے فرمایا:
تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا فَأَىُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ وَأَىُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا فَلاَ تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ وَالآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا لاَ يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلاَ يُنْكِرُ مُنْكَرًا إِلاَّ مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ
(ترجمہ)فتنے دلوں پر اسطرح پیش کئے جاتے ہیں جس طرح چٹائی ایک ایک تیلی سے ملکر بنتی ہے،پس جو دل انہیں قبول کرلے اس میں کالا دھبہ لگادیا جاتا ہے،اور جو دل اسے قبول کرنے سے انکار کردے اس پر سفید نشان لگادیا جاتا ہے،آخر کار وہ دل دو قسموں میں منقسم ہو جاتے ہیں،ایک چکنے پتھر کی مانند سفید،اسے زمین و آسمان کے قائم رہنے تک کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا،دوسراپلٹے ہوئے سیاہ گڑھے کی مانندجس میں بہت ہی معمولی سفیدی ہو، یہ دل نہ معروف کو پہچانتا ہے نہ منکر کا انکار کرتا ہے،صرف اپنی خواہش پر چلتا ہے۔(مسلم:386)
اس حدیث میں فتنہ زدہ دل کو ایسے مٹکے سے تشبیہ دی گئی جو زمین پر منہ کے بل رکھا گیا ہو ،اوراپنی پختگی اور پکے ہونے کے سبب سیاہ ہوچکا ہو ،یعنی اس میں کہیں سے کوئی خیر داخل نہیں ہوسکتی ،نہ منہ سے کہ وہ زمین کے بل رکھا ہے،نہ اوپر سے کہ وہ نہایت پختا ہے،اور اگر کچھ داخل ہو بھی جائے تو ٹک نہیں سکتی ،کیونکہ وہ الٹا رکھا ہے۔
چنانچہ دنیا و آخرت دونوں میں فوز و فلاح کے لئےضروری ہے کہ انسان کا دل منیب و سلیم ہو،یعنی اپنے رب سے جڑا رہے اور شیطانی حملوں اور فتنوں سے محفوظ ہو، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ
نیز فرمایا:متقین کے لئے جنت کو دوری کے بغیر قریب کیا جائے گاماسی کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے،یعنی ہر اس شخص سے جو بہت رجوع کرنے اور حفاظت کرنے والا ہو،جو جو رحمن سے غائبانہ ڈرتا ہو،اور قلب منیب لے کر آئے۔(ق:31-32-33)
نیز فرمایا:
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
(ترجمہ)اس روز نہ مال کام آئے گا نہ ہی بیٹے،مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے۔(الشعراء:88-89)
مال و اولاد جو دنیا میں اسکے لئے فخر اور اسکی زندگی کی خوشخالی کا باعث تھے آخرت میں یہ اسکے کسی کام نہ آئیں گے ، الا یہ کہ وہ دنیا میں قلب سلیم کا مالک ہو اور تاحیات اس وصف سے متصف رہا ہو اور موت کے وقت بھی اسکا دل ”سلیم “ ہو ، دل کے سلیم ہونے کی حقیقت کے متعلق امام ابن قیم نے کہا:
(ترجمہ)قلب سلیم وہ ہے جو رب اور اسکے احکامات کے تابع ہو،جس میں اسکے احکامات کی خلاف ورزی(کا خیال) نہ ہو،نہ اس میں اسکے بیان کردہ خبروں سے اختلاف ہو،وہ ہر غیر اللہ اور اسکے احکامات سے سالم ہو،صرف اللہ ہی کوچاہتا ہو،اسی کا حکم مانتا ہو،صرف اللہ وحدہ اسکا مقصودہو،جبکہ اسکا حکم و قانون اسکا وطیرہ وسلیقہ ہو،اسکے اور اللہ کے احکام کی تصدیق کے درمیان کوئی شک حائل نہ ہو،ہاں،اس پر جو بھی شبہہ وارد ہووہ اس پر سے یونہی گذر جائے،اسے معلوم ہو کہ وہ(یعنی شبہہ) اس دل میں ٹک نہیں سکے گا،نہ ہی کوئی خواہش اس دل اور اللہ کی پسند پر چلنے میں رکاوٹ بنے،اس قسم کا دل شرک و بدعت ،سرکشی و باطل سے پاک ہوتا ہے۔
نیز فرمایا:
(ترجمہ)قلب سلیم کی حقیقت یہ کہ وہ حیا کرتے ہوئے، ڈرتے ہوئے،طمع و امید رکھتے ہوئے،اپنے آقا کی غلامی قبول کرلے،اسکے سوا ہر ایک کی محبت سے بے نیاز ہوکر صرف اسی کی محبت میں چُور ہو،ہر ایک سے مایوس ہو کر صرف اسی سے آس لگائے،دل سے سچ مان کر اسکے اور اسکے رسول ﷺکے حکم کی اطاعت کرے،اسکا ہر فیصلہ مان لے،نہ اس پر ملامت کرے نہ اختلاف،نہ ہی اسکے فیصلوں پر برا منائے،جھک کر، گڑگڑاکر،گر کر،غلام بن کر اپنے مالک کے حکم کی تابعداری کرے،اپنے تمام احوال و اقوال ظاہریہ و باطنیہ کو اسکے رسول ﷺکی شریعت پر پیش کرے،اوراس شریعت کے مخالف آنے والی ہربات کو مسترد کردے،جوشریعت کے مطابق ہو مان لے،جو مخالف ہو چھوڑ دے، اور جسکا موافق یا مخالف ہونا واضح نہ ہو اس میں توقف کرے اور اسکے واضح ہونے کی امید رکھے،اور اسکے اولیاء اور اسکے فلاح یافتہ گروہ سے صلح رکھے کہ جو اسکے دین اور اسکے نبیﷺ کی سنت کا دفاع کرتے اور اسے غالب کرتے ہوں،اور اسکے دشمنوں سے دشمنی رکھے کہ جو اسکی کتاب اور اسکے نبی ﷺکی سنت کی مخالفت کرتے اور اور انکی مخالفت کی طرف بلاتے ہوں۔(مفتاح دار السعادۃ،1/41-42)
دل کی یہ اہمیت اس لئے ہے کہ” دل“ انسان کو درپیش اکثر حالات و کیفیات اور ان کی وجوہات کا مرکز ہے،ایمان، نفاق،اسلام ،کفر،وحی الہی،وسوسہ شیطانی،عزم وارادہ، قساوت و غلاظت،رافت و لطافت،محبت،الفت و چاہت، نفرت،بغض و عناد،،رشک و فخر،حسد وکینہ،عقل و ادراک، فہم و فراست،سکون و اطمینان ،بدسکونی و بے اطمینانی،حلاوت ایمانی،لذت نافرمانی،خوف و امید، یاس و حسرت،عجز و کبر ،حق و باطل کی معرفت ،تسلیم و انکار، نیکی و گناہ کی معرفت و تمیزوغیرہ ان سب کا محل انسانی دل ہے،دل حاکم اور باقی اعضاء اسکے تابع اور محکوم ہیں۔
ایمان کامحل وجود:
سلف صالحین کے موقف کے مطابق ”ایمان“ایک وصف ہے،جسکا اطلاق قول و عمل دونوں پر ہوتا ہے ،لہذا ایمان قول و عمل کانام ہے،اسکا محل وجود ”دل“جبکہ اسکا محل اظہار اعضاء ظاہری ہیں،مثلاً،زبان ،ہاتھ،پیر، آنکھ، کان وغیرہ،چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللّٰهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ(الحجرات :07)
یقین رکھو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے،اگر وہ بہت سے امور میں تمہاری ماننے لگے،تو تم مشکل میں پڑجاؤ گے،لیکن اللہ نے ایمان کو تمہارا محبوب بنادیا اور اسے تمہارے دلوں میں سجادیا،اور کفر و فسق اور نافرمانی کوتمہاری ناپسندیدہ شے بنادیا،یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔نیز فرمایا:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آَبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ(المجادلۃ:22)
(ترجمہ)آپکو کو ایسی کوئی قوم نہ ملے گی جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان بھی رکھتی ہو اور اللہ اور اسکے رسول کی صریح مخالفت کرنے والوں سے مودت بھی رکھتی ہو،اگر چہ وہ اسکے باپ دادا،اسکے بیٹے،اسکے بھائی بند،یا اسکا قبیلہ ہی ہو،یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا۔
نفاق کا محل:
”نفاق“ایمان کی ضد ہے،جسطرح اسلام کی ضد ”کفر“ہے،چنانچہ انکے محل قرار و اظہار بھی یکساں ہیں، یعنی انسانی قلوب و جوارح،دل میں اسکا وجود جبکہ اعضاء سے اسکا اظہار ہوتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ
(ترجمہ)منافقین خوفزدہ رہتے ہیں کہ انکے خلاف کوئی سورت نازل ہوجائے جو لوگوں کو انکے دل میں چھپا (نفاق)بتا دے،آپ کہیں کہ تمہیں جسکا ڈر ہے اللہ اسے ظاہر کرنے والا ہے۔(التوبۃ:64)
نیز قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی نے ”نفاق“کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا ہے ،جیسا کہ فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آَمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ يُخَادِعُونَ اللّٰهَ وَالَّذِينَ آَمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ
(ترجمہ)لوگوں میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے،حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے،وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں،حالانکہ وہ خود کو ہی دھوکہ دیتے ہیں اور انہیں یہ معلوم تک نہیں،انکے دلوں میں بیماری ہے،پس اللہ نے انہیں بیماری میں اور بڑھادیا،اور انکے جھوٹ بولنے کی وجہ سے انکے لئے درد ناک عذاب ہے۔ (البقرۃ:8-10)
نبی ﷺنے فرمایا:
لاَ يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ فِى قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ
(ترجمہ)جہنم میں ایسا کوئی شخص داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان ہو۔
(ضروری تنبیہ)اس حدیث کا یہ معنی نہیں کہ گناہگار مومن بھی جہنم میں نہ جائیںگے،اگر اللہ انہیں انکے گناہوں کی سزا دینا چاہے تو وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے ،لیکن ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل نہ ہوں گے ،بلکہ اگر جہنم میں ڈالے بھی گئے تو شفاعت کبری تک یا سزا پوری ہونے تک یا جب تک اللہ چاہے،اسکے بعد جہنم سے نکال لئے جائیں گے ،تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: بخاری(7072-22) پھر انہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا،بخاری(7071) اعبد اللہ بن مسعود نے کہا:
الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِى الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ وَالذِّكْرُ يُنْبِتُ الإِيمَانَ فِى الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ
(ترجمہ)گانا بجانا دل میں نفاق کو بڑھاتا ہے جس طرح پانی فصل کو اگاتا ہے،اور ذکر دل میں ایمان کو بڑھاتا ہے جسطرح پانی فصل کو اگاتا ہے۔
(بیہقی کبری:21536،علامہ البانی نے اسے موقوفا صحیح (تحریم آلات الطرب،ص:10)جبکہ مرفوعا ضعیف کہا،الضعیفۃ:2430)
امام ابن قیم نے کہا:
جان لے کہ گانے بجانے میں دل کو نفاق سے رنگ دینےاور اس میں نفاق کو پروان چڑھانے کی صلاحیت ہے، جس طرح پانی فصل کو پروان چڑھاتا ہے،گانا بجانا، دل کو غافل کردیتا اور اسےفہم قرآن اور عمل بالقرآن سے روکدیتاہے، قرآن و نفاق ایک دل میں کبھی یکجا نہیں ہوسکتے،کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اسطرح کہ قرآن خواہش کی اتباع سے روکتا اور نفسانی خواہشات اور اسباب بغاوت سے بچنے اور الگ رہنے کا حکم دیتا ہے،اور شیطانی راستوں پر چلنے سے منع کرتا ہے، جبکہ گانا بجانا اسکے بالکل برعکس حکم دیتا ہے،اور اسے اچھا قرار دیتا ہے،وہ نفوس کو سرکش جذبات پر ابھارتا ہے، پوشیدہ جذبات کو ظاہر جبکہ ظاہر کو بے لگام کرکے برائی کی جانب بڑھاتا اور خوبصورت مرد و زن کی جانب چلاتاہے ...آگے چل کر کہا....:حقیقت امر یہ کہ،گانا بجانا شیطان کا قرآن ہے،یہ اور رحمن کا قرآن ایک دل میں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے، نیز نفاق کی بنیاد یہ کہ ،ظاہر و باطن میں تضاد ہو،گانے بجانے والا بھی متردد رہتا ہے، کہ حرمت پامال کرکے فاجر بن جائے یا زہد و ورع ظاہر کرکے منافق بن جائے،وہ اللہ اور روز آخرت میں رغبت ظاہر کرتا ہے جبکہ اسکا دل شہوات اور اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی ناراضگی والے امور،آلات موسیقی کی آوازوںاور گانے بجانے پر عمل کرنے کے لئے بے چین ہوتا ہے،ان چیزوں سے تو اسکا دل لبریز جبکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺکی پسند کو پسند کرنےاور انکی ناپسند کو ناپسند کرنے سے خالی ہوتا ہے،یہی نفاق ہے،جبکہ ایمان قول و عمل کو کہتے ہیں،حق پرستی اور دل کی خوشی سے عمل کرنا،یہ وصف ذکر وتلاوت قرآن سے پروان چڑھتا ہے ،جبکہ باطل پرستی اور عمل میں سرکشی اختیار کرنا،یہ شے نفاق کو پروان چڑھاتی ہیں۔(اغاثۃ اللہفان،1/248-251)
جس طرح ایمان کے بہت سے شعبے ہیں اسی طرح نفاق کے بھی شعبے ہیں جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا:
الحَيَاءُ وَالعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الإِيمَانِ، وَالبَذَاءُ وَالبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ
(ترجمہ)حیا اور افہام مقصود پر عدم قدرت(سادہ گفتگو کرنا) ایمان کے دو شعبے جبکہ بے شرمی(ڈھٹائی)اور چرب زبانی نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی:2027،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا،صحیح الترغیب والترہیب:2629)
نیز جسطرح ایمان کے مراتب و درجات ہیں، جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا:
الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ
(ترجمہ)ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں ان میں سب سے افضل ”لاالہ الااللہ“ کہنا اور سب سے کمتر راستے سے تکلیف دہ شے ہٹانا ہے، اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مسلم:162)
اسی طرح نفاق کے بھی مراتب و درجات ہیں،بنیادی طور پر نفاق کی دو قسمیں ہیں،ایک اعتقادی،دوسری عملی ،نفاق اعتقادی یہ ہے کہ دل سے کافر ہو جیسے یہودی ،یا عیسائی یا ہندو وغیرہ ہو لیکن زبان سے خود کو مسلمان کہتا ہو،تاکہ اسلام کو نقصان پہنچائے،اس قسم کا نفاق اور ایمان کبھی بھی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آَمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ
(ترجمہ)اے رسول جو لوگ کفر میں تیزی دکھاتے ہیں وہ آپکو افسردہ نہ کریں،جو اپنے مونہوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،حالانکہ انکے دل ایمان نہیں لائے۔(المائدہ:41)
(تنبیہ)اعتقادی نفاق کو معلوم کرنے کا واحد ذریعہ وحی تھی جسکا سلسلہ نبی ﷺکی وفات کے ساتھ منقطع ہوچکا لہذا اب کسی پر اس قسم کے منافق ہونے کا حکم لگانا بہت ہی مشکل ہے،چنانچہ اس بارے میں بدگمانی اور بد زبانی دونوں سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیئے۔
جبکہ نفاق عملی یہ ہے کہ دل سے مسلمان ہو لیکن عملی طور پر اعتقادی منافقین جیسا عمل کرے ،مثلا ً،کثرت سے جھوٹ بولنا ،وعدہ خلافی کرنا، دھوکہ دینا،گالیاں دینا، خیانت کرنا،منافقین کی جس قدر علامات اس میں ہوں گی وہ عملی اعتبار سےاسی درجے کا منافق ہوگا،جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر
(ترجمہ)جس شخص میں چار عادتیں ہوں وہ پکا منافق اور جس میں ان میں سے کوئی ایک عادت ہو تو گویا اس میں نفاق کی ایک عادت ہے،تاآنکہ اسے بھی چھوڑدے، جب بھی امانت رکھوایا جائے تو خیانت کرے،جب بھی بات کرے جھوٹ بولے،جب بھی وعدہ کرے خلاف ورزی کرے،اور جب بھی جھگڑا کرے گالی دے۔ (بخاری:34)
(تنبیہ)حدیث میں مذکور منافقانہ خصلتیں ایمان کو نقصان ضرور پہنچاتی ہیں لیکن اسے کلیۃً ختم نہیں کرتی ہیں بشرطیکہ دل سے مسلمان ہو،اسی طرح دیگر صفات مذمومہ بھی،مثلاً:بغض ،حسد،وغیرہ جنکا تعلق دل سے ہے ایمان کو نقصان پہنچاتی ہیں ،اسے گھٹاتی رہتی ہیں،جبکہ صفات حسنہ جنکا تعلق دل سے ہے،مثلاً:رافت و اخلاص وغیرہ ایمان کو بڑھاتی اور سنوارتی رہتی ہیں،اسی طرح اعمال صالحہ بھی ایمان میں اضافے اور اسکی زینت کا باعث بنتے ہیں جبکہ اعمال سیئہ ایمان میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔
--- جاری ہے ---
محترم حضرات جیسے جیسے ہم عہد نبوت سے دور ہوتے جارہے ہیں ویسے ویسے دین کی اجنبیت میں اضافہ ہوتاجارہا ہے اور لوگ دین اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیںاس کا اہم سبب یہ ہےکہ لوگ دینی علم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ان کی پوری توجہ دنیاوی علوم اور اعلی سے اعلی ڈگریوں کے حصول پر مرکوز ہے ان کی تمنا ہےکہ ’’بینک بیلنس‘‘ اتنا ہوجائے کہ آنے والی نسل کےلیے کافی ہوجائے ! جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ اور ان کے اہل وعیال دین کے بنیادی مسائل اور حلال وحرام کے بارے میں بالکل نابلد ہیں، حلال وحرام کا ایک مسئلہ جس کو اس دور میں کھلونا بنا دیا گیا ہے وہ آلات موسیقی اور گانے بجانے کا مسئلہ! چنانچہ ہمارے بہت سارے لوگ ان چیزوں کو سرے سے حرام ہی نہیں سمجھتے جبکہ قرآن وحدیث میں آلات موسیقی اور گانے بجانے کے حرام ہونے کے دلائل بالکل واضح ہیںقرآن مجید کی جو آیات موسیقی کی تحریم پر دلالت کرتی ہیںوہ سب مکی ہیں جبکہ شراب کو احادیث متواترہ میں حرام قرار دیا گیا ہے ، یعنی موسیقی کی تحریم سے قبل نازل ہوئی ، آئیے اب ان دلائل کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
قرآن مجید میں موسیقی کے حرام ہونے کے دلائل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (لقمان: 6، 7)
’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیںآپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے‘‘
ان آیات کریمہ میں ’’ لَهْوَ الْحَدِيثِ‘‘ اللہ سے غافل کرنے والی بات سے مراد گانا بجانا اور موسیقی ہے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےاس کی یہی تفسیر کی ہے۔
1- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جوکہ اولین ،علماء اور فتوی دینے والےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے ان سے جب اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :
’’الغناء وللہ الذی لاإلٰہ الا ھو‘‘ یرددھا ثلاث مرات(تفسیر ابن جریر21/72)
’’اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس سے مراد گانا ہے‘‘ انہوں نے تین مرتبہ اسی طرح کیا ‘‘
2-ترجمان القرآن سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جن کے بارےمیںاللہ کے رسول ﷺ نے یہ دعا کی تھی کہ :
اللهُمَّ عَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ، وَفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (ابن ابی شیبۃ،ج 6ص:310)
اے اللہ اسے قرآن کی تفسیر کا علم دے اور اسے دین کی سمجھ نصیب فرما‘‘ وہ بھی اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ لَهْوَ الْحَدِيثِ‘‘سے مراد گانے کانا اور ان کا سننا ہے(تفسیر ابن جریر)
لہٰذا جوشخص بھی گانے سنتا اور سناتا ہو یا رقص و سرور کی محفلون میں شرکت کرتاہویاگھر میں بیٹھ کر ایسی محافل کا نظارہ کرتاہو اس کے لیے اس آیت کے مطابق رسواکُن عذاب ہے۔ والعیاذ باللہ
3-اللہ تعالی نے ابلیس کو جنت سے نکالتے ہوئے فرمایا
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَـطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۭ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا(الإسراء:64)
’’ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے گا بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی حصہ لگا اور انھیں (جھوٹے) وعدے دے لے ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں ‘‘
امام المجاھدین جبر المکی رحمہ اللہ (بصوتک) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (باللّھو والغناء) بے ہودہ کلام اور موسیقی وغیرہ کے ساتھ بہکانا(تفسیر ابن جریر)
حدیث میں موسیقی کے حرام ہونے کے دلائل
1- سیدنا ابو عامر یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ(صحيح البخاري (7/ 106)
’’ضرور بضرور میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو زنا ، ریشم کا لباس ، شراب اور آلات موسیقی کو حلال تصور کرلیں گے‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی ہے کہ کئی لوگ ان چار چیزوں کو حلال تصور کرلیں گے حالانکہ یہ چاروں چیزیں دین اسلام میں حرام ہیں۔
2- سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ، يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ، وَالْمُغَنِّيَاتِ، يَخْسِفُ اللّٰہُ بِهِمُ الْأَرْضَ، وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ (سنن ابن ماجه (2/ 1333)
میری امت کے کچھ لوگ ضرور بالضرور شراب نوشی کریں گے اور شراب کا نام کوئی اور رکھ لیں گے ان کے سروں کے پاس آلات موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی اللہ تعالی انہیں زمین مین دھنسا دے گا اور انہی میں سے کئی لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔
اس حدیث میں نہایت سخت وعید ہے اگرچہ یہ حرام نہ ہوتا تو اتنی بڑی وعید نہ آتی۔
3- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمِ الْخَمْرَ، وَالْمَيْسِرَ، وَالْكُوبَةَ " وَقَالَ:"كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ‘‘ (مسند أحمد (4/ 381)
بے شک اللہ تعالی نے تم پر شراب ، جوااور ڈھول کو حرام کردیا ہے اور آپﷺ نےفرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘
اس حدیث مبارکہ میں پوری صراحت کے ساتھ ڈھول وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔
سیدنا انس tبیان کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
صَوْتَانِ مَلْعُونَانِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ:صَوْتُ مِزْمَارٍ عِنْدَ نِعْمَةٍ وَصَوْتُ مُرِنَّةٍ عِنْدَ مُصِيبَةٍ(صحیح الجامع)
’’دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں خوشی کے وقت گانے بجانے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز‘‘
معز قارئین کرام ان واضح ترین دلائل کے بعد اب کسی کے ذہن میں شک نہیں رہنا چاہیے اور اس پر یقین کرلینا چاہیے کہ گانے گانا اور ان کا سننا حرام ہے ۔
موسیقی کے بارے میں ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کا موقف:
ائمہ اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ گانے گانا اور موسیقی سننا حرام ہے اور جو شخص گانے سنتا اور گاتاہوگاوہ فاسق وفاجر ہے۔
1-امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
امام صاحب کے مقلدین نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے کہ گانے سننا فسق ہے اور گانوں کے ذریعے لذت حاصل کرنا کفر ہے امام ابو حنیفہ کے سب سے بڑے شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ جو ہارون الرشیدکے زمانےمیں قاضی القضاۃ تھے وہ کہتے ہیں اگر میں کسی گھر کے پاس سے گذرتا اور گانوں کی آواز سن لیتا تو بغیر اجازت کے گھر میں داخل ہوجاتا اور گھر والوں کو منع کرتا کیونکہ برائی سے روکنا واجب ہے اور گانے سننا بھی ایک برائی ہے۔
انہوںنے حکم دیا تھا کہ ملک میں ذمی لوگوں کو ساز وآلات موسیقی اور ڈھول سے منع کیا جائے۔
2-امام مالک رحمہ اللہ
امام صاحب سے گانوں کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا:
’’انمایفعلہ الفساق عندنا‘‘
’’میرے ہاں (مدینہ منورہ میں) یہ کام صرف اور صرف فاسق لوگ ہی کرتے ہیں‘‘
اور القاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ :
’’الغناء باطل والباطل فی النار‘‘
’’گانا باطل ہے اور باطل جہنم میں ہے‘‘
3-امام شافعی رحمہ اللہ
امام موصوف جب بغداد سے مصر کی طرف گئے تو انہوں نے کہا میں بغداد سے نکل آیا ہوں اور اپنے پیچھے ایک چیز چھوڑکر جارہاہوں جسے چند زندیقوں نے اس لیے ایجاد کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کو قرآن سے دور کرنا چاہتے ہیں وہ اس کا نام ’’تغبیر‘‘ رکھتے ہیں اور ’’تغبیر‘‘ موسیقی کا ایک آلہ تھا۔
4-امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام صاحب کے صاحبزادے عبداللہ بیان کرتے ہیںکہ میں نے اپنے والد گرامی سے گانے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا مجھے اچھا نہیں لگتا اور گانا دل میں نفاق کو اگاتا ہے ، جیسا کہ پانی سبزی کو اگاتاہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ چاروں ائمہ کرام کے نزدیک گانا بجانااور گانے سننا حرام ہے۔
موسیقی اور گانوں کے نقصانات:
ویسے موسیقی اور گانوں کے نقصانات بہت سارے ہیں لیکن ہم ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں۔
موسیقی نفاق پیدا کرتاہے۔
1-سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں’’
الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ (السنن الكبرى للبيهقي (10/ 377)
’’گانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے کہ جیسے پانی کھتی باڑی کو پیدا کرتاہے‘‘
2-موسیقی اللہ کے دین سے دور کرتی ہے کیونکہ موسیقی کی آواز شیطانی آواز ہے یقینی طور پر یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ شیطانی آوازیں سُن سُن کر شیطان ان پر غالب آچکا ہے اوراس نے انہیں رب العزت کے دین سے بالکل غافل کردیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللّٰہِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ(المجادلة: 19)
’’شیطان ان پر مسلط ہوگیا ہے اور اس نے انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے یہی لوگ شیطان کی پارٹی ہیں ، تحقیق شیطان کی پارٹی کے لوگ ہی خسارہ پانے والے ہیں ‘‘
3-صرف گانے سننے اور فنکاروں کے رقص کا مشاہدہ کرنے کی خاطر لوگ اپنا سرمایہ ضائع کرتے ہیں اس کے علاوہ آڈیواور ویڈیو سیڈیز وغیرہ خرید کر بھی پیسہ برباد کیا جاتاہے۔
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (الإسراء: 27)
’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘
4-موسیقی فارغ اوقات کی بربادی کا ایک بہت بڑا سبب ہے اس کے بارے میں قیامت کے دن انسان سے پوچھا جائے گا کہ اوقات کو اللہ کی اطاعت میں لگایاتھا یا اس کی نافرمانی میں ضائع کردیا تھا؟
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ مَاذَا عَمِلَ بِهِ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أُنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فَيَا أَبْلَاهُ (المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (ص: 318)
کسی بندے کے قدم اس وقت تک ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار سوالات نہیں کرلیے جائیں گے اس نے اپنی عمر کو کس چیز میں ختم کیا ؟ اپنے علم پر کہا ں تک عمل کیا ؟ اور اس نے اپنا مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا ؟ او راس اپنے جسم کو کس کام میں بوسیدہ کیا (کھپایا) (ترمذی، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے)
فارغ وقت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر وقیمت وہی جانتاہے جو اس نعمت سے محروم ہے لیکن لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اسے وہ فضول وبے ہودہ کاموں میں خرچ اورضائع کرتے ہیں اور وہ اس نعمت کو پا کر بھی خسارے میں رہتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
نِعمتانِ مغْبونٌ فيهما كَثيرٌ مِن النّاس: الصِّحَّةُ والفَراغُ (مختصر صحيح الإمام البخاري (4/ 136)
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سارے لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں : تندرستی اور فارغ وقت‘‘
لہٰذا فارغ اوقات کو موسیقی وغیرہ میں برباد کرنے کے بجائے انہیں دینی لحاظ سے نفع بخش اور فائدہ مند کاموں میں مشغول کرنا چاہتاہیے اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اس بڑی لعنت سے محفوظ فرمائے(آمین)
-----------------------------
-----------------------------
بقیہ: اداریہ
اسی لیے حج میں خاص طور پر صبر وتحمل اور برداشت کا سبق یاد کرکے جانا چاہیے اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر حج پر جاکر دوسروں کی زندگیوں کے لیے خطرے کا سبب نہیں بننا چاہیے آخر میں دل کی گہرائیوں سے دعاہےکہ اللہ تعالی مرحومین کو درجۂ شہادت پر سرفراز فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطافرمائے ، زخمیوں کو شفایاب فرمائے ، حجاج کرام کو خاص کر اور مسلمانوں کو عام طور پر اپنے حفظ وامان میں رکھے اللہ تعالی حکومت سعودیہ کی مدد اور حفاظت فرمائے اور شرپسندوں کے شر سے محفوظ فرمائے ضیوف الرحمٰن کی مزید خدمت اور احسن انتظامات کی توفیق عنایت فرمائے ۔
پاکستان کے سیاسی حالات کی اگر بات کی جائے تو امیر جیش جنرل راحیل شریف کا نام سرفہرست آتاہے کہ جنہوں نے ملک میں امن وامان کی بگڑی صورتحال کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور دوسرے نمبر پر ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کا نام آتاہے کہ جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں بھارت کو مخاطب کرکے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب نے جو چار نکاتی امن کا فارمولا پیش کیا اس کی پوری دنیا میں تعریف کی گئی وہ چار نکاتی ایجنڈہ درج ذیل ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ سال 2013 میں تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد ان کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ بھارت سے تعلقات بہتر ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو کشیدگی کا باعث بننے والی وجوہات کو حل کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کرنے چاہیئے ہیں۔
اسی لیے میں آج اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو امن کے لیے تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن پر عمل کرنا نہایت آسان ہے۔
1: پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو سال 2003 کے لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کے معاہدے کا احترام کرتے ہوئےاس پر عمل کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرگروپوں کومزید فعال کیا جائے۔
2: ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کسی بھی طرح کے حالات میں طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا مرکزی حصہ ہے۔
3: کشمیر کو ڈیملیٹرائز یعنی غیر عسکری کرنا۔
4: دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن سے فوجوں کی غیر مشروط واپسی۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے روکنے کا میکنزم بنایا جائے، جبکہ پاکستان اور ہندوستان تنازعات کے حل کےلیے جامع مذاکرات کاسلسلہ شروع کریں۔