Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

عیدین کی سنتیں

14 Aug,2011

عید الفطر اور عیدالاضحی کی سنتیں

احادیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں :۔

1آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر عید کے دن اپنی حبری چادر (یمن میں بنی ہوئی ایک عمدہ چادر ) پہنا کرتے تھے۔(شافعی)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے (مؤطا)

عیدین کے دن غسل کرنا ، خوبصورت (نئے یا دھلے ہوئے) کپڑے پہننا اور خو شبو لگا نا چا ہئے۔

2 عید الفطر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تک نماز کے لئے نہیں نکلا کرتے تھے جب تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم طاق تعداد (1، 3، 5 ،7) میں کھجور کھایا کرتے تھے۔( بخاری )

 اگر عید الفطر والے دن کھجوریں میسر نہ ہوں تو کوئی بھی میٹھی چیز عید گاہ جانے سے پہلے کھالینی چاہئے لیکن عید الاضحی میں نمازِ عید اداکرنے کے بعد کھانا کھانامسنون ہے بہتر ہے کہ قربانی کا گوشت کھایا جائے۔ ( مسند احمد)

3عید الاضحی کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس نہ آ جاتے۔ (ترمذی )

4عید الاضحی والے دن نماز ِعید سے واپس آکر قربانی کے گوشت میں سے ہی کھایا کرتے تھے۔(ا حمد)

5آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ سے باہر نکل کر عید گاہ میں نمازِ عید ادا کیا کرتے تھے البتہ اگر بارش ہوتی تو مسجد میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ ‘‘ (ابوداؤد)

6نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ کی طرف پید ل جا یا کرتے تھے (ابن ما جہ ۔عن ابن عمر رضی اللہ عنہما)

 عید گاہ اگر گھر کے قریب ہو تو عید گاہ کی طرف پیدل جانا مسنون ہے اگر عید گاہ گھر سے کافی دور ہوتو سواری پر بھی جایا جا سکتا ہے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہے: کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے مزین کرو۔(مجمع الزوائد197/2)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید کے دن صبح سورج نکلتے ہی عید گاہ تشریف لے جاتے اور عید گاہ تک بآواز بلند تکبیریں پڑھتے ہوئے جاتے تھے:

اَ للہُ اَ کْبَرُ اَ للہُ اَ کْبَرُ لَآ اِ لٰہَ اِلَّا اللہُ وَ

اللہُ اَ کْبَرُ اَ للہُ اَکْبَرُ وَ لِلہِ الْحَمْدُ

اور پھر عید گاہ میں بھی تکبیریں کہتے رہتے ۔ جب امام خطبہ شروع کر دیتا تو تکبیریں پڑھنا چھوڑ دیتے ۔(شا فعی رحمہ اللہ )۔ ذو الحجہ کے پہلے 10 دن پورے سال میں نہایت اہم ہیں اس لئے ان 10 دنوں میں اور ایام تشریق (11 ، 12 اور 13 ذو الحجہ) میں ذکر اللہ بہت زیادہ کرنا چاہئے ۔ ( مفہوم حدیث بخاری کتاب العیدین ۔عن ابن عباس رضی اللہ عنہما )

7سيده ام عطيه رضي الله عنها فرماتي هيں كه نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ عید ا لفطر او ر عید الاضحی کے دن ہم چھوٹی بچیوں ، جوان (پردہ والی) اور حائضہ عورتوں کو بھی( عیدگاہ) لے جائیں۔ البتہ حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہیں اور مسلمانوں کی(صرف) دعا میں شریک ہوں ‘‘ میں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔‘‘ فرمایا جس عورت کے پاس چادر نہ ہو اس کی بہن کو چاہئے کہ اسے اپنی چادر پہنا کر ساتھ لے لے۔‘‘ (بخاری)

8نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عید ا لفطر اور عید ا لا ضحی کے دن عید کی نماز کے لئے کوئی اذان نہیں کہی جاتی تھی اور نہ ہی عیدین (کے میدان) میں منبر ہوتا تھا امام کھڑا رہتا تھا۔ ‘‘ (بخاری)

9نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید کی نماز کے لئے عید گاہ تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے 2 رکعت نماز (نمازِ عید) پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ نمازِ عید سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ ہی بعد میں(بخاری)

نوٹ:جب کسی کی نمازِعید جماعت سے رہ جائے تو وہ 2 رکعت( نمازِ ظہر سے پہلے) نمازِ عید اداکر لے(بخاری)  اسی طرح اگر کسی کی ایک رکعت نکل جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اداکر لے ۔ اگر کسی کی نماز فجر وقت پر ادا نہیں ہوسکی ہو تو گھر پر یہ نمازفجر پڑھ کر جائے۔

0 جب آپ علیہ السلام عید کے بعد اپنے ساتھیوں سے ملتے تو یہ کلمات کہتے:

  تَقَبَّلَ اللہُ مِنِّی وَ مِنْکَ

(اللہ مجھ سے اور آپ سے قبول فرمائے۔)

عید کے دن مندرجہ ذیل کام کرنے مسنون ہیں:

1غسل کرنا۔

2مَردوں کو خوشبو استعمال کرنا۔

3صدقہ فطر عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کرنا (یا نماز عید سے پہلے تو ضرور ادا کردے)

4 عید الفطر کے لئے جانے سے پہلے کھجوریں طاق عدد میں کھانا اور پانی پیکر عیدگاہ جانا۔

5عیدالاضحی (بقر عید) کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا۔ (مفہوم احادیث بخاری،مسلم)

6نئے یا صاف کپڑوں کا اہتمام کرنا۔ اگر ممکن ہو۔

انعامات پر شکر کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچا جائے، اور زبان سے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جائے، یعنی ذکر و فکر کا اہتمام کیا جائے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نعمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان شاء اللہ العزیز

Read more...

زکوٰۃ ادا کرنے کی سنتیں

14 Aug,2011

زکوٰۃ کے لغوی معنیٰ: الزیادۃ والتزکیۃ یعنی بڑھنے اور پاک ہونے کے ہے۔

زکوٰۃ کے شرعی معنیٰ: حق واجب فی مال خاصٍ لطائفۃ مخصوصۃٍ لوقت مخصوصٍ۔

(معونۃ اولی النھی شرح المنتھی ،لابن نجار 551/2)

مخصوص افراد کے لئے خاص اوقات میں جو خاص مال  خرچ کیا جاتا ہے اسے شریعت میں زکوٰۃ کہتے ہیں۔

وضاحت:

یعنی ایک سال مکمل ہونے پر سونا، چاندی، نقدی،مویشی اور مالِ تجارت پر زکاۃ ہے جب کہ غلہ اورپھل تیار ہوجانے پر اور معین مقدار شہد یا معدنیات کا حصول ہو تو ان میں زکاۃ فرض ہے۔اسی طرح عیدالفطر کی رات سورج غروب ہوجانے پر صدقۃ الفطر فرض ہے۔

فرضیتِ زکوٰۃ:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۔  (البقرہ:43)

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ تم بھی رکوع کیا کرو۔

مزید ارشاد ِفرمایا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا(التوبہ103)

اے نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم )! ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرکے انہیں پاک و صاف کردو۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم نے جب معاذبن جبل رضی اللہ کو یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو ارشاد ہے:

 اَخْبِرْھُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ

کہ لوگوں کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو مالدار لوگوں سے لیا جائے گا اور ان ہی کے نادار لوگوں کو دیا جائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِيَاءِ وَتُرَدَّ ...)

زکوٰۃ، نماز کے بعد اسلام کا انتہائی اہم ترین رکن ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں82 مقامات پر ہوا ہے۔ جس سے زکوٰۃ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ ساتھ درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور زکاۃ ادا کرنے والے کا مال حلال اور پاک بنتا ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور زکوٰۃ کوئی تاوان یا ٹیکس نہیں جس سے مال کم ہوتا ہو اور دینے والے کو نقصان اٹھانا پڑے بلکہ اس کے برعکس زکوٰۃ سے مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد ہے:

مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، (صحیح مسلم)

صدقہ (زکوٰۃ) دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔

زکوٰۃ کی حکمت:

زکوٰۃ کے فرض ہونےمیں مندرجہ ذیل حکمتیں پنہاں ہیں:

1۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسانی نفوس بخل و کنجوسی، لالچ، حرص، خودغرضی اور سنگدلی جیسے اخلاق رذیلہ سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں۔

2۔ مال کی بے جا محبت کم ہوجاتی ہے اور زکوٰۃ سے اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار مثلاً ایثار  و قربانی، احسان ، جود و سخا اور خیر خواہی جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔

3۔ فقراء مساکین، تنگدست، محتاجوںاور ضرورت مندوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔

4۔ مصالح عامہ جن پر امت کی زندگی اور سعادت موقوف ہے ، زکوٰۃ سے وہ پورے ہوتے ہیں۔

5ْ۔زکوٰۃ ادا کرنے سے مسلمانوں کو دولت کمانے اور خرچ کرنے کی حدود و قیود سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

6۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کویہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مال و دولت کا اصل مالک اللہ ربّ العزت ہے۔

7۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے روپیہ ،پیسہ گردش میںرہتا ہے۔

8۔ زکوٰۃ عام آدمی کی خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔

9۔ زکوٰۃایک ایسا عمل ہے جو دین کی تکمیل اور تقرب الی اللہ حاصل ہونے کےعلاوہ ایک عام آدمی سے لیکر پورے معاشرے کی اجتماعی خوشحالی کا ضامن ہے۔

زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا:

فرمانِ الٰہی ہے:

وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ   o يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰي بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(التوبہ آیات34تا35)

’’دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ان لوگوں کو جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیںلیکن اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں،پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا(اور کہا جائے گا) یہ وہ خزانہ ہے جسے تم اپنے لیے سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے، اب اپنے خزانے کا مزہ چکھو۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد مبارک ہے کہ

 مَنْ اٰتَاهُ اللّٰهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ - يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ- يَقُولُ: أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے هیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس نے اس کی زکوۃ نہ دی تو قیامت کے روز اس کا مال اس کے لئے سانپ بن جائے گا اس کے سر پر بال اور آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے اور پھر یہ سانپ اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈالا جائے گا اور وہ سانپ اپنی زبان سے کہتا ہوگا کہ میں تیرا مال ہو میں تیرا جمع کردہ خزانہ ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب التفاسیر، بَابُ :وَلَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ ۔۔۔)

اس اخروی عذاب کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوٰۃ کی دائیگی سے منہ موڑتی ہے، قحط سالی اور مشاکل میں مبتلا کردیتا ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی  صلی اللہ علیہ و سلم  ہے:

 جو قوم بھی زکوٰۃ سے انکار کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کردیتا ہے۔ (صحیح الترغیب، لالبانی467/1)

ایک اور مقام پر آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا:جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے وہ بارانِ رحمت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات)

زکوۃ فرض ہونے کی شرائط :

زکوٰۃ فرض ہونے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں :

۱۔ مسلمان ہونا  : کافر پر زکوۃ فرض نہیں کیونکہ وہ اسلامی احکامات کا مکلف نہیں ہے اس میں بچہ اور عورت عاقل اور غیر عاقل بھی شامل ہے ان کی طرف سے ان کاولی زکوٰۃ اداکرے گا ۔

۲۔ آزاد مرد اور عورت : کیونکہ غلام کا اپنا کوئی مال نہیںہوتا بلکہ وہ تو خود کسی کی ملکیت ہوتاہے۔

۳۔ نصاب کا مالک ہونا :یعنی ساڑھے سات تولے سونا(87گرام) یا ساڑھے باون تولے چاندی (612گرام)یا اس نصاب کے برابر نقدی ہو یا جانوروں کا نصاب یا زرعی پیداوار گندم ،جو،کشمش اور دیگر پھل وغیرہ یعنی تقریباً 19 من (750کلوگرام)تک پیداوار حاصل ہو۔

۴۔مذکورہ بالا نصاب پر پورا سال گزر جائے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا مال میں زکوۃ تب ہے جب اس پر ایک سال گزر جائے۔ ( ابن ماجہ ، کتاب الزکاۃ ، باب استفاد مالا )

البتہ زمین کی پیداوار میں ایک سال کاگزرناشرط نہیں بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اگر نصاب پورا ہو (یعنی تقریباً 19من 750کلوگرام)ہو تو زکوۃ ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ   ڮ       (الانعام:141)

اور اجناس کی کٹائی کے دن اس کا حق (زکاۃ)ادا کرو۔

وضاحت:

٭ مقررہ نصاب کو پہنچے ہوئے جانوروں کے دوران سال پیدا ہونے والے بچے اور مال تجارت سے دوران سال حاصل ہونے والا منافع بھی اسی سال کی آمدن تصور ہوگا۔زکوٰۃ ادا کرنے میں سال گزرنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔

 مگر استعمال کی عام چیزوں میں زکوٰۃ نہیں مثلاً : رہائشی گھر اور اس کا سامان، گاڑیاں، مشینری اور سواری کیلئے جانور وغیرہ۔

٭ جن چیزوں سے کرایہ حاصل ہوتاہو ان پر زکاۃ نہیں بلکہ ان کی آمدن پر زکاۃ ہے بشرطیکہ نصاب کو پہنچے اور سال بھی گزر جائے۔

٭ اگر کسی شخص پر زکاۃ فرض ہو اور وہ ادا کرنے سے  پہلے فوت ہوجائے تو اس کے ورثاء پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد ہے ’’فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضٰى ‘‘(بخاری ، کتاب الصوم ، باب من مات وعلیہ صوم)

’’اللہ تعالیٰ کا قرض زیادہ حق رکھتاہے کہ اسے اداکیاجائے ۔‘‘

وہ اموال جن پر زکوٰۃ فرض ہے:

حدیث میں جن چیزوں کی زکوٰۃ کا ذکر ہے، ان کا پانچ قسمیںہیں:

۱۔  سونا اور چاندی یا اس سے مساوی نقدی

۲۔  مال تجارت

۳۔  زرعی پیداوار

۴۔  مویشی

۵۔  کان اور دبے ہوئے خزانے

چاندی کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:

اس بارے میں اجماع ہے کہ چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ(علمائے حدیث و فقہ اور علمائے لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک اوقیہ کا وزن چالیس درہم اور دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہے۔(شرح مسلم، للنووی)مثقال کا وزن ہمارے ہاں کے لحاظ سے ساڑھے باون ماشہ ہے۔ لہٰذا ۲۰۰ درہم کا وزن ساڑھے ۵۲ تولہ ہوا۔)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم  نے  فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم چاندی پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔(مسلم)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے، لیکن چاندی کی زکوٰۃ ادا کرو، ہر چالیس درہموں پر ایک ایک درہم زکوٰۃ ہے۔ ایک سو نوے درہموں پر کوئی زکوٰۃ نہیں، لیکن جب وہ دو سو درہم ہوجائیں، تو ان پر پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔(ترمذی)

 شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے۔

سونے کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:

جمہور(اکثر سلف) کے نزدیک سونے کا نصاب بیس دینار(۲۰ مثقال، ساڑھے ۷ تولہ) ہے اور شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے یعنی اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے ۷ تولہ سونا ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر اس کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: تم پر سونے میں اس وقت تک کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، جب تک وہ بیس دینار(۲۰ مثقال) نہ ہوجائے، اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر ایک سال گذر جائے تو اس کی نصف دینار(یعنی چالیسواں حصہ)زکوٰۃ ادا کرو۔(سنن ابوداؤد ، کتاب الزکوٰۃ ،   باب:بَابٌ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ)

دھات اور کاغذی سکوں کی زکوٰۃ:

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  کے زمانے میں نقدی کے طور پر سونا اور چاندی(بشکل دینار ودرہم) استعمال ہوتے تھے۔ موجودہ دزمانہ میں دھات اور کاغذ کے سکے سونے اور چاندی کے قائم مقام ہوگئے ہیں اور انہیں ہر وقت سونے اور چاندی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جب کسی شخص کے پاس دھات یا کاغذ کے سکوں کی اتنی مقدار ہوجائے جس سے سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا ہو اور اس پر ایک سال گذر چکا ہو، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔

موجودہ دور میں 10 گرام سونے کی قیمت 44,914 روپے ہے جبکہ سونے کا نصاب 87گرام کی کل قیمت 390751.80/ روپے بنتی ہے اس پر 2.50 فیصد زکاۃ کی رقم 9768.79روپے بنے گی اگر کسی کے پاس اس مقدار میں سونا نہیں بلکہ نقدی ہوتو اس پر بھی زکاۃ فرض ہے۔

اسی طرح موجودہ دور میں 10گرام چاندی کی قیمت 103.14روپے ہے جبکہ 612 گرام کی قیمت.32 63103 روپے بنتی ہے اور 2.50فیصد کے حساب 1577.58 روپے زکاۃ بنتی ہے اور ان دونوں نصاب میں سے کوئی ایک بھی پورا ہورہا ہوتو زکوۃ فرض ہے مگر اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں جوکرنسی رائج ہو اسی کو نصاب بنایا جائے مگر بعض علماء کے ہاں جس کرنسی سے فقراء اور مساکین کو زیادہ فائدہ ہو اس کو نصاب بنایا جائے تو دوسرے قول کا لحاظ کرتے ہوئے چاندی کا نصاب مقرر کرنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر کسی پاس ساڑھے 52 تولے چاندی یا612 گرام چاندی یا 63103 روپے نقدی ہوتو وہ صاحب نصاب ہے،اس پر زکاۃ فرض ہوگی۔

عورت کے زیور پر زکوٰۃ:

موتی، یاقوت اور دوسرے تمام جواہرات، کپڑوں اور دوسرے سامان(جیسے گھرکے برتن) پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ جبکہ وہ محض استعمال اور زینت کے لئے ہوں، لیکن اگر وہ تجارت کے لئے ہوں تو ان پر زکوٰۃ سب کے نزدیک ضروری ہے۔(نیل الاوطار، الفقہ علی المذاہب الاربعہ)

عورت کے سونے اور چاندی کے زیور پر زکوٰۃ ضروری ہے، جبکہ اس کا وزن بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر ایک سال گزرچکا ہو۔

سیدناعمرو بن شعیب اپنے والد کے ذریعے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی  صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک لڑکی تھی، جس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ قیامت کے روز تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟(ابوداوٗد، ترمذی، نسائی)

سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سونے کےکنگن پہنے ہوئے تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ کنگن کنز(جمع کیا ہوا خزانہ جس کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعید فرمائی ہے) کی تعریف میں آتے ہیں؟۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا اگر تم نے ان کی زکوٰۃ دیدی تو یہ کنز نہیں ہیں۔(ابوداوٗد، دارقطنی)

وضاحت:اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زیور جس کی ملکیت ہو وہی اس کی زکوٰۃ بھی ادا کرے۔

زرعی پیداوار پر زکوٰۃ:

زرعی پیداوا رمیں بعض اجناس پر زکوٰۃ فرض ہے :

 إِنَّمَا سَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فِي هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ: الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ

آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے درج ذیل چار چیزوں میں زکوٰۃ مقرر فرمائی، گندم، جو، کشمش، کھجور

(الدارقطنی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحیۃ لالبانی ۲/۸۷۹)

زمین کی پیداوار کے لئے زکوٰۃ کا نصاب:

زرعی زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:

جب تک غلہ اور کھجور کی مقدار پانچ وسق(تقریباً 19 من، یا 750کلوگرام)تک نہ ہوجائے، زکوٰۃ نہیں ہے۔(صحیح سنن النسائی لالبانی2330/2)

قدرتی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کے لئے شرح زکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور مصنوعی ذرائع (مثلاً کنواں، ٹیوب ویل، نہر)سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کی شرح زکوٰۃ بیسواں حصہ(نصف عشر)ہے جیسا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہے:

فِيمَا سَقَتِ السَّمَآءُ وَالعُيُوْنُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا العُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْرِ(بخاری، الزکوٰۃ، بَابُ العُشْرِ فِيمَا يُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِي...)

نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا جس زمین کو بارش یا چشمے پانی پلائیں یا زمین ترو تازہ ہو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ زکوٰۃ ہے، جس زمین کو کنویں کے ذریعے پانی دیا جائے اس میں سے نصف عشر(بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہے۔

حرام کمائی سے حاصل شدہ مال پر زکوٰۃ :

حرام طریقہ سے حاصل کیا ہوا مال مثلاً ڈاکہ ،چوری، فریب، رشوت، سود ، دھوکہ،شراب ، ہیرون، بھنگ، چرس وغیرہ سے حاصل شدہ مال پر زکوٰ ۃ نہیں  ہے ۔اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ خود پاک ہیں  اورپاک مال ہی کو قبول کرتے ہیں ۔

سیدنا ابوہریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللهe نے فرمایا جس نے پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اللہ صرف پاک کمائی کو قبول کرتا ہے، پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لئے پالتا رہتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کو پالتا ہے،یہاں تک کہ وہ خیرات پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب  الصدقۃ من کسب طیب.)

عورت کے حق مہر سے زکوٰۃ:

عورت کا حق مہر ادا کرنا ضروری ہے اسی لئے کہ یہ شوہر پر قرض ہوتا ہے جس طرح قرض ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے ا لاّ یہ کہ عورت معاف کردے۔عورت کے حق مہر کی رقم زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو تو اڑھائی فیصد(2.5%)کی شرح سے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔

مشترکہ کاروبار پر زکوٰۃ:

اگر چند افراد کا مشترکہ کاروبار ہوتو ہرشخص کو اپنے نفع سے زکوٰۃ نکالنی ہوگی بشرطیکہ کے وہ نصاب کو پہنچ جائیں۔

فیکٹری پر زکوٰۃ :

فیکٹری ، کارخانہ کے آلات مشینری اور بلڈنگ پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مال تجارت نہیں بلکہ آلات تجارت ہیں۔جبکہ زکوٰۃ مال تجارت پر فرض ہوتی ہے۔ البتہ فیکٹری یا کارخانہ سے جو مال تیار ہوتا ہے۔ خواہ وہ خام مال ہو یا تیار مال ہو اس کی قیمت پر اڑھائی فیصد (2.5%)کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، 864/2)

خاوند اور زیر پرورش بچوں پر زکوٰۃ خرچ کرنا:

چونکہ بیوی اور بچوں کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔اگر مرد غریب اور عورت مالدار ہو تو وہ عورت اپنی زکوٰۃ اپنے غریب شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہے۔ جیسا کہ عبداﷲ بن مسعود t کی بیوی زینب rنے آپ e سے دریافت کیا میرا شوہر غریب ہے کیا میں اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں ۔ آپe نے فرمایا:۔ان پر خرچ کرنے سے تجھے دہرا اجر ملے گا۔(۱)قرابت (صلہ رحمی) کا (۲) زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ،  باب:بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي ..)

مگراس كے برعكس خاوند اپني بيوي كو زكوة نهيں دے سكتا۔

مصارفِ زکوٰۃ:

شریعتِ اسلامیہ نے زکوٰۃ کے مصارف کا تذکرہ بھی پوری تفصیل سے کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللهِ  ۭوَاللهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ     ؀

 صدقات تو دراصل فقیروںمسکینوں اور ان افرادکے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب، غلام آزاد کرانے، قرضداروں کے قرض اتارنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروںپر خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

مصارفِ زکوٰۃ کی کل تعداد آٹھ ہے۔ جو درج ذیل ہیں:

[1-2]  فقراء و مساکین :

 فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔

 سیدنا ابو ہریرہ tکہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔

(بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ لَا يَسْــئَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی )

 گویا محتاجگی کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو حاجت کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔

[3] زکوٰۃ وصول کرنے والے لوگ:

 زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔

 سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں انہوں نے پوچھا پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔ سیدنا عمر نے فرمایا ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ مجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔ تو آپ نے فرمایا یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی )

[4] تالیف کے حقدار :

 اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جا سکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی نے یمن سے آپ کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمر نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کر دیا تھا کہ اب اسلام غالب آ چکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہٰذا بوقتِ ضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

[5] غلاموں کی آزادی کے لئے:

 اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کر دیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہو گئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔

[6] مقروض کے قرضہ کی ادائیگی :

 یہاں قرض سے مراد خانگی ضروریات کے قرضے ہیں تجارتی اور کاروباری قرضے نہیں اور قرض دار سے مراد ایسا مقروض ہے کہ اگر اس کے مال سے سارا قرض ادا کر دیا جائے تو اس کے پاس نقد نصاب سے کم مال رہتا ہو۔ یہ مقروض خواہ برسر روزگار ہو یا بے روزگار ہو اور خوا ہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اس مد سے اس کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔

[7] فی سبیل اللہ:

 اور یہ میدان بڑا وسیع ہے۔ اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس مد سے دینی مدارس کا قیام اور اس کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر وہ ادارہ بھی اس مصرف میں شامل ہے جو زبانی یا تحریری طور پر دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے یا اسلام کا دفاع کر رہا ہو۔

[8] مسافر خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو:

 اگر دوران سفر اسے ایسی ضرورت پیش آ جائے تو اس کی بھی مدد کی جا سکتی ہے مثلاً فی الواقع کسی کی جیب کٹ جائے یا مال چوری ہو جائے وغیرہ۔(واللہ اعلم بالصواب)

 

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول