انسان کو زندگی کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کبھی سردی سے تو کبھی گرمی سے ۔ ایک مومن بندے پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے کو کتاب وسنت کے مطابق بسر کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ راقم نے مضمون ہذا میں زندگی کے ایک مرحلے گرمی اور اس کے احکام ومسائل اور اس سے ملنے والی نصیحتوں کو جمع کیا ہے تاکہ اہل اسلام اس موسم کے احکام ومسائل اور اس سے ملنے والی نصیحتوں سے واقف ہو سکیں ۔
1 گرمی کی وجہ :
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جو اتنی گرمی پڑتی ہے اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ یہ اتنی سخت کیوں ہوتی ہے ؟ صحیح بخاری میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ (صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق ، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ ، الحدیث : 3260)

’’دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! آگ کی شدت کی وجہ سے) میرےبعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘
اسی طرح صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

قَالَتِ النَّارُ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأْذَنْ لِي أَتَنَفَّسْ، فَأْذِنْ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ بَرْدٍ، أَوْ زَمْهَرِيرٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ، وَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ حَرٍّ، أَوْ حَرُورٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ(صحیح مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ، باب استحباب الابراربالظہر فی شدۃ الحر ، الحدیث : 617)

’’آگ نے عرض کی اے میرے رب ! میرا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھا رہا ہے مجھے سانس لینے کی اجازت مرحمت فرما تو ( اللہ تعالیٰ نے ) اس ےدو سانس لینے کی اجازت دی ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں تم جو سردی یاٹھنڈک کی شدت پاتے ہو وہ جہنم کی سانس سے ہے اور جو تم حرارت یا گرمی کی شدت پاتے ہو تو وہ جہنم کی سانس سے ہے ۔
2 وجۂ گرمیٔ جہنم :
گرمی کی شدت کی وجہ آپ نے جان لی کہ یہ جہنم کی گرمائش میں سے ہے تو آیئے ذرا جہنم کی گرمی اور اس کی تپش کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ جس جہنم کی تپش اتنی ہے تو اس جہنم کی اپنی گرمی کیا ہوگی؟
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً قَالَ: فُضِّلَتْ عَلَيْهِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَاِ (صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق ، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ ، الحدیث : 3265)

’’تمہاری دنیا کی آگ کی حرارت جہنم کی آگ (کی حرارت) کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (ہماری آگ کی حرارت) کافی ہے فرمایا کہ وہ اس پر انہتر حصہ زیادہ کردی گئی ہے ہر حصہ میں اتنی ہی گرمی ہے۔ ‘‘
اسی طرح سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

ذَكَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا، ثُمَّ ذَكَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ(صحیح البخاری ، کتاب الرقاق باب صفة الجنة والنار الحدیث : 6563)

’’نبی کریمﷺ نے دوزخ کا ذکر کیا تو اپنا منہ پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی، پھر فرمایا کہ دوزخ سے بچو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو اور جس شخص کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی باتوں کے ذریعہ (اس سے بچے) ۔ ‘‘
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
’’ اہل جہنم میں سے سب سے کم عذاب میں وہ ہوگا جو آگ کی دو جوتیاں پہنے ہوگا اس کی جوتیوں کی گرمی سے اس کا دماغ کھولے گا ۔‘‘ ( صحیح مسلم ، حدیث : 514)
مذکورہ احادیث سے وہی گرمی(جہنم کی) اور تپش واضح ہوتی ہے کہ رحمۃ للعالمین ﷺ جیسے ہی جہنم کا ذکر کرتے تو اپنا چہرہ مبارک(جہنم کی تپش محسوس کرتے ہوئے) پیچھے ہٹا دیا کرتے تھے اور بھی قرآن حکیم واحادیث صحیحہ سے جہنم کی گرمی اور اس کے تپش کا ذکر ملتاہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اللھم إنی أعوذبک من حر جھنم
3 روزِ محشر کی گرمی
قارئین کرام! آپ گرمی کی وجہ اور پھر وجۂ گرمی جہنم کی گرمی کی شدت کاذکر پڑھ آئے ہیں لیکن اس گرمی سے ملنے والی عبرت ونصیحت یہ ہے کہ اس دنیاوی گرمی سے اتنا پریشان ہیں تو روزِ محشر جہاں باری تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا کتنی خطر ناک گرمی ہوگی اس گرمی کا ذکربزبان وی یوں کیا جاسکتاہے

يَعْرَقُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ حَتَّى يَذْهَبَ عَرَقُهُمْ فِي الأَرْضِ سَبْعِينَ ذِرَاعًا، وَيُلْجِمُهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ آذَانَهُمْ (صحیح البخاری ، کتاب الرقاق باب قولہ تعالی ’’ألا یظن اولئک أنھم مبعوثون…، الحدیث:6532)

’’لوگ قیامت کے دن پسینہ میں غرق ہو جائینگے یہاں تک کہ ان کا پسینہ زمین میں ستر گز پھیل جائے گا اور ان کے منہ تک پہنچ کر ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا۔ ‘‘
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ القِيَامَةِ، حَتَّى يَبْلُغَ العَرَقُ نِصْفَ الأُذُنِ، فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوسَى، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ ، باب من سأل الناس تكثرا، الحدیث : 1475)

’’قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہوجائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا ۔ لوگ اسی حال میں اپنی خلاصی کے لیے آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے پھر موسی علیہ السلام سے اور پھر محمد ﷺ سے ۔‘‘
4 روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ کے اسباب :
روزِ محشر کی گرمی کی شدت اور اس کی تپش کا ذکر آپ پڑھ آئے ہیں کہ وہ کتنی سخت گرمی ہوگی ہر بندہ چاہے امیر ہو یا غریب گرمی کی شدت کو برداشت نہیں کر پائے گا دنیا میں تھوڑی سی گرمی آنے پر فوراً سایہ تلاش کیا جارہاہوگا سوچیے اگرچہ 70 حصوں کے ایک حصے(کی گرمی) کو برداشت نہیں کر پا رہے تو 69حصوں (کی گرمی) کو کیسے برداشت کریں گے ؟ لہٰذا جیسے دنیا کی گرمی سے بچاؤ کا ذریعہ تلاش کرتے ہو ایسے ہی روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ کا بھی سوچیں تو کیا واقعی روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ مل سکتا ہے ۔ جی ! نبوی زبان ﷺ سے روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ کا ذریعہ اس طرح ذکر کیا گیا ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ فِي خَلاَءٍ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسْجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ إِلَى نَفْسِهَا، قَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ [ص:164] يَمِينُهُ (صحیح البخاری ، کتاب الحدود، باب فضل من ترك الفواحش، الحدیث : 6806)

’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں لے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، امام عادل اور وہ جوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی راہ میں صرف کی ہو اور وہ مرد جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے اور وہ دو آدمی جو آپس میں اللہ کے لئے محبت کریں اور وہ جسے کوئی منصب والی اورخوبصورت عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ جو پوشیدگی سے اس طرح صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ ‘‘
جہنم کی گرمی سے بچاؤ کا ایک بہترین ذریعہ زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنا ہے اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَتِرَ مِنَ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَلْيَفْعَلْ(صحیح مسلم :1016وسنن ابن ماجہ :185، سنن ترمذی:2415)

’’ تم میں سے جو اپنے چہرے کو جہنم کی گرمی سے بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ۔‘‘
جہنم کی گرمی سے بچاؤ کا ایک ذریعہ اچھی بات بھی ہے ۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شام میں آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے(ان کے آنے کے بعد) آپ نے نماز پڑھی ، پھر آپ نے کھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا آپ ﷺ نے فرمایا (صدقہ)دو اگرچہ ایک صاع ہو،اگرچہ آدھا صاع ہو، اگرچہ ایک مٹھی ہو اگرچھ ایک مٹھی سے بھی کم ہو جس کے ذریعے سے تم میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی یا جہنم سے بچا سکتاہے(تم صدقہ دو) چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ چاہے آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے ہی کوئی اللہ کے پاس پہنچنے والا ہے اللہ اس سے وہی بات کہنے والا ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں (وہ پوچھے گا) کیا ہم نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں نہیں بنائیں ؟ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں ، اللہ پھر کہے گا کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا کیوں نہیں تو نے ہمیں مال اور اولاد سے نوازا۔ وہ پھر کہے گا وہ سب کچھ کہاں ہے جو تم نے اپنی ذات کی حفاظت کے لیے آگے بھیجا ہے؟ (یہ سن کر) وہ اپنے آگے،پیچھے، دائیں بائیں دیکھے گا لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچا سکے، اس لیے تم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچانے کی کوشش وتدبیر کرنی چاہیے ایک کھجور ہی صدقہ کیوں نہ کرنا پڑے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی وبھلی بات کہہ کر ہی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچائے۔۔۔ الخ (الصحیحہ للألبانی : 3263)
جہنم کی تپش اور اس کی شدت گرمی سے بچاؤ کے لیے کثرت سے دعائیں کرنا چاہیے سیدہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ، وَرَبَّ إِسْرَافِيلَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ حَرِّ النَّارِ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ(سنن النسائی : 5528)

ــ’’اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کی گرمی اور عذاب قبر سے۔ ‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ابو القاسم ﷺ کو اپنی نماز میں کہتے ہوئے سنا

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ (سنن النسائی : 5529)

’’اے اللہ! میں قبر ،دجال ، موت وزندگی کے فتنے سے اور جہنم کی گرمی سے پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘
روزِ محشر کی گرمی سے بچنے کے لیے مذکورہ اعمال کی پابندی کرناضروری ہے ۔
5گرمی میں پیدا ہونے والے امراض سے پناہ کی دعائیں :
گرمی کی وجہ سے بندہ بیمار ہوسکتاہے ،گرمی کی تپش کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اس لیے شریعت نے گرمی میں بلا وجہ بیٹھنے سے منع کیا ہے جس کا تذکرہ آگے آئے گا۔ إن شاء اللہ
لہٰذا گرمی کی تپش اور اس سے پیدا ہونے والے امراض کی اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ یہ جہنم کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہیں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَأَطْفِئُوهَا بِالْمَاءِ قَالَ نَافِعٌ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ، يَقُولُ: اكْشِفْ عَنَّا الرِّجْزَ (صحیح البخاری کتاب الطب باب الحمى من فيح جهنم ، الحدیث : 5723)

’’بخار جہنم کا شعلہ ہے، اس لئے اس (کی گرمی) کو پانی سے بجھاؤ اور نافع نے کہا کہ عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم سے مصیبت دور کر۔ ‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر قسم کے درد میں یہ دعا پڑھنا سکھاتے تھے۔

بِسْمِ اللهِ الكَبِيرِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ العَظِيمِ مِنْ شَرِّ كُلِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ، وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ (سنن الترمذی أبواب الطب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الحدیث:2075)

’’میں بڑے اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور عظمت والے اللہ کے واسطے سے ہر بھڑکتی رگ اور آگ کی گرمی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘
6 خامخواہ گرمی میں بیٹھنا :
خامخواہ گرمی میں بیٹھنا جائز نہیں کیونکہ ایک تو یہ گرمی جہنم کی تپش سے ہے خامخواہ گرمی میں بیٹھنا گویا اپنے آپ کو زندگی میں ہی جہنم کی تپش چکانے کے مترادف ہے اور دوسری بات کہ اس گرمی کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے خیر خواہی کے طور پر بھی اس سے منع کیا ہے تاکہ انسان تکالیف سے محفوظ رہے ۔
سیدنا قیس بن ابی حازم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ
رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ فِي الشَّمْسِ فَقَالَ: تَحَوَّلْ إِلَى الظِّلِّ فَإِنَّهُ مُبَارَكٌ(مستدرک للحاکم :7711)
’’نبی کریم ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میں دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا ’’سائے میں آجاؤ کہ یہ مبارک ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ

نَهَى أَنْ يُجْلَسَ بَيْنَ الضِّحِّ وَالظِّلِّ، وَقَالَ: مَجْلِسُ الشَّيْطَانِ (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ لإمام الألبانی :838)

نبی کریمﷺ نے کچھ دھوپ اور کچھ سائے میں بیٹھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ شیطانی نشست ہوتی ہے۔ ‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ابو القاسم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سائے میں ہو پھر سایہ اس سے سمٹ جائے اور اس کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سائے میں ہو تو وہ وہاں سے اٹھ جائے ۔ ( صحیح مسلم : 5308)
ان تینوں احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ خامخواہ گرمی میں بیٹھا درست نہیں ہے ۔
7گرمی سے بچنے کے لیے سر پر کپڑا رکھنا :
گرمی سے حتی الامکان بچنا چاہیے جس کی وضاحت ہم کر آئیں ہیں کہ یہ جہنم کی تپش سے ہے اور اس سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں احادیث نبوی ﷺ وآثار صحابہ سے بھی ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے سر پر کپڑا وغیرہ رکھا جائے۔
یحییٰ بن حسین اپنی دادی ام حسین سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ آپ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ کو گرمی سے بچانے کے لیے آپ کے اوپر اپنے کپڑے کا سایہ کیے ہوئے تھے اور آپ حالت احرام میں تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی پھر لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور بہت سی باتیں ذکر کیں۔(سنن نسائی :3078)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم اپنے گھر میں گرمی میں عین دوپہر کے وقت بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک کہنے والے نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا یہ رسول اللہ ﷺ سر ڈھانپے تشریف لارہے ہیں ایک ایسے وقت جس میں آپ نہیں آیا کرتے ہیں چنانچہ آپ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر تشریف لائے۔ (سنن ابو داؤد : 4083)
مذکورہ بالا دونوں احادیث اور دیگر کئی احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ گرمی سے بچاؤ کے لیے کپڑا وغیرہ سر پر رکھنا چاہیے۔
8گرمی سے بچاؤ کے لیے درخت وغیرہ کا سایہ لینا:
سایہ داراشیاء من جانب اللہ نعمت ہیں ان کی قدر کرنی چاہیے موسم گرما میں ان سے سایہ حاصل کیا جائے نبی کریم ﷺ اور تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گرمی کی وجہ سے درختوں کا سایہ لیا کرتے تھے ۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے ایک ایسے جنگل میں جہاں ببول کے درخت بکثرت تھے ، قیلولہ کا وقت ہوگیا، تمام صحابہ سائے کی تلاش میں (پوری وادی میں متفرق درختوں کے نیچے) پھیل گئے اور نبی کریم ﷺ نے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا …. الخ ( صحیح البخاری : 2913)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر صحابہ رضی اللہ عنہم جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے مختلف درختوں کے سائے میں پھیل گئے تھے پھر اچانک بہت سے صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد جمع ہوگئے …. الخ ( صحیح البخاری : 4187)
9گرمی کی وجہ سے سواری پر نماز وغیرہ کے لیے سوار ہونا:
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی تھا میرے علم میں کوئی اور آدمی اس کی نسبت مسجد سے زیادہ فاصلے پر نہیں رہتا تھا اور اس کی کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی اس سے کہا گیا یا میںنے(اس سے کہا ) اگر آپ گدھا خرید لیں کہ(رات کی) تاریکی اور (دوپہر کی)گرمی میں آپ اس پر سوار ہوجایا کریں اس نے جواب دیا مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر مسجد کے پڑوس میں ہو ، میں چاہتا ہوں میرا مسجد تک چل کر جانا اور جب میں گھر والوں کی طرف لوٹو تو میرا لوٹنا میرے لیے ثواب کا باعث بنے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ تمہارے لیے اکٹھا کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 1514)
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز وغیرہ کے لیے گرمی کی وجہ سے سواری پر سوار ہوکر جانا چاہیے ، آدمی یہ سوچ نہ رکھے کہ مجھے پیدل چلنے کا اجر سواری پر جانے سے نہیں ملے گا بلکہ اللہ تعالیٰ بندے کو اس کے ہر قدم کے بدلے نیکی لکھ دیتے ہیں ۔
10 گرمی کی وجہ سے نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میںادا کرنا :
گرمی کی شدت کی وجہ سے نماز ظہر ٹھنڈے وقت پر پڑھنی چاہیے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ (صحیح البخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ باب الإبراد بالظہرفی شدۃ الحر، الحدیث:533)

’’ جب گرمی زیادہ ہو جائے، تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہوتی ہے۔ ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
أَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ (صحیح البخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ باب الإبراد بالظہرفی شدۃ الحر، الحدیث:538)
’’ (گرمی کے موسم میں) ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہوتی ہے۔ ‘‘
11 گرمی کی وجہ سے نماز جمعہ ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا:
نماز جمعہ آپ ﷺ دوپہر کو پڑھایا کرتے تھے لیکن گرمیوں میں گرمی کی وجہ سے نماز جمعہ مؤخر فرما کر ٹھنڈے وقت میں پڑھایا کرتے تھے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ يَعْنِي الجُمُعَةَ ( صحیح البخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب إذا اشتد الحر يوم الجمعة، الحدیث:906)

’’نبی کریم ﷺ سردی کے موسم میں (نماز جمعہ) جلدی پڑھ لیتے جبکہ گرمی کے موسم میں (نماز جمعہ)تاخیر سے پڑھتے۔‘‘
12گرمی کی وجہ سے نفلی روزے نہ رکھنا :
اگر گرمی کی شدت زیادہ ہو اور بندے میں اتنی طاقت نہ ہو تو وہ روزہ رکھ سکے تو اسے شرعی طور پر اجازت ہے کہ وہ بھلے نہ رکھے اگر وہ فرضی روزے ہوں تو (وہ ویسے چھوڑنا صحیح نہیں ہیں سوائے سفر کے) اور وہ بعد میں سفر سے لوٹ کر وہ روزے رکھے جو اس نے چھوڑے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَکْثَرُنَا ظِلًّا الَّذِي يَسْتَظِلُّ بِکِسَائِهِ وَأَمَّا الَّذِينَ صَامُوا فَلَمْ يَعْمَلُوا شَيْئًا وَأَمَّا الَّذِينَ أَفْطَرُوا فَبَعَثُوا الرِّکَابَ وَامْتَهَنُوا وَعَالَجُوا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ(صحیح البخاری ، کتاب الجہاد والسیر ،باب فضل الخدمة في الغزو ، الحدیث:2890)

’’ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺکے ہمراہ تھے تو ہم میں سے سب سے زیادہ سایہ اس شخص پر تھا، جو اپنی چادر سے سایہ کئے ہوئے تھا (بعض آدمی سورج سے اپنے ہاتھوں کی آڑ کرلیتے تھے) بعض آدمیوں کا روزہ تھا، بعض کا نہ تھا جنہوں نے روزہ رکھا تھا، انہوں نے کچھ کام نہیں کیا اور جن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تھا انہوں نے اونٹوں کو اٹھایا اور ان پر پانی بھر بھر کے لائے، غرض ہر طرح کی خدمت کی اور کام کیا، آپ ﷺنے فرمایا کہ آج تو روزہ نہ رکھنے والے (سب) ثواب (لوٹ) لے گئے۔‘‘
13گرمی کی وجہ سے روزہ توڑنا :
اگر گرمی کی شدت زیادہ ہو اور بندے میں برداشت کی طاقت نہ ہو تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے۔ سیدنا ابو بکر بن عبد الرحمن بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ النَّاسَ فِي سَفَرِهِ عَامَ الْفَتْحِ بِالْفِطْرِ، وَقَالَ: تَقَوَّوْا لِعَدُوِّكُمْ، وَصَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ: الَّذِي حَدَّثَنِي لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، وَهُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ، أَوْ مِنَ الْحَرِّ(سنن ابو داؤد : 2365)

’’میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا آپ نے فتح مکہ کے سال دوران سفر لوگوں کو افطار کا حکم دیا اور فرمایا اپنے دشمن کے واسطے قوت حاصل کرو ابوبکر نے کہا کہ اسی شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے آپ کو عرج کے مقام پر روزہ کی حالت میں گرمی (یا پیاس) کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘
14گرمی میں پانی سے افطاری کرنا :
عام طور پر آپ ﷺ کھجور سے افطاری کرتے اور اسے افضل قرار دیا لیکن گرمی میں کھجور کے بجائے پانی سے افطاری کرتے تھے جیسے صحیح مسلم میں ہے کہ
كان يفطر في الشتاء على تمرات وفي الصيف على الماء(سنن الترمذي : 696)
’’رسول اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔‘‘
15 گرمی کی وجہ سے سجدہ گاہ پر کپڑا بچھانا :
سجدہ گاہ پر گرمی کی وجہ سے زمین کی تپش سے بچنے کے لیے کپڑا وغیرہ بچھایا جاسکتاہے ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ(صحیح البخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب السجود على الثوب في شدة الحر، الحدیث : 385)

’’ہم نبی ﷺکے ہمراہ نماز پڑھتے تھے، تو ہم میں سے بعض لوگ گرمی کی شدت سے سجدہ کی جگہ کپڑے کا کنارہ بچھا لیا کرتے تھے۔ ‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ

كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ، فَسَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الحَرِّ (صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ ، باب: وقت الظهر عند الزوال ، الحدیث : 542)

’’ہم رسول اللہ ﷺکے پیچھے نماز پڑھتے تھے، تو گرمی (کی تکلیف) سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ ‘‘
16سخت گرمی کی وجہ سے جمع بین الصلاتین
اگر گرمی زیادہ ہو تو ظہر کو عصر کے ساتھ ملا کر پڑھا جاسکتا ہے یعنی گرمی کی وجہ سے جمع بین الصلاتین کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا ابو صحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر میں نکلے تھے آپ نے وضو کیا اور ظہر کی نماز دو رکعت پڑھی اور عصر کی دو رکعت پڑھی اور آپ کے سامنے نیز بطور سترہ تھا۔‘‘ (سنن نسائی : 494)
17۔گرمی میں جمعہ کے لیے جلدی آنے کی فضیلت :
جو بندے گرمیوں میں گرمی کی پرواہ کیئے بغیر جمعہ کیلئے جلدی آتے ہیں تو ان کے لیے حدیث مبارکہ میں فضیلت وارد ہوئی ہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن ہوتاہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں جو (آنے والوں کی ترتیب کے مطابق نام لکھتے ہیںجب امام (منبر پر) بیٹھ جاتاہے تو وہ (ناموں والے) رجسٹر لپیٹ کر امام کا خطبہ سنتے ہیں اور گرمی میں(پہلے)آنے والے کی مثال اس انسان جیسی ہے جو اونٹ قربان کرتا ہےپھر (جو آیا) گویا وہ گائے قربان کر دیتاہے پھر گویا وہ مینڈھا قربان کردیتاہے پھر گویا وہ تقرب کے لیے مرغی پیش کرتا ہے پھر(جو آیا) وہ تقرب کے لیے انڈا پیش کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم:1984)
18 گرمی میں کمانے والے مزدوروں کی قدر کرنا :
ہر مزدور کی قدرکرنا چاہیے بالخصوص جو گرمی کی شدت کو برداشت کرکے ہمارے ہاں کام کرتا ہے تو ہم پر حق ہے کہ ہم اس کی قدر کریں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
’’ جب تم میں سے کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمے اس کو کھانے میں سے اسے کھلا دے کیونکہ اس نے(پکاتے وقت) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے ۔ (صحیح بخاری :5465)
ایک اور روایت میں آپ ﷺ کی نصیحت مبارکہ ہے

أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ (سنن ابن ماجہ :2443)

’’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔‘‘
19گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے ٹھنڈی چیزیں استعمال کرنا :
گرمی سے بچاؤ کے لیے ٹھنڈی چیزیں استعمال کی جاسکتی ہیں بشرطیکہ وہ حلال ہوں جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ فَيَقُولُ: نَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا، وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا(سنن ابی داؤد :

3836)
’’رسول اللہ ﷺ تربوز کو تر کھجور کے ساتھ ملا کر کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہم کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک سے اور تربوز کی ٹھنڈک کو کھجور کی گرمی سے توڑتے ہیں ۔‘‘
20گرمی کی وجہ سے دورانِ روزہ غسل کرنا :
گرمی کی وجہ سے دوران روزہ چہرے کو پانی لگانےیا گیلا کپڑا سر پر رکھنے یا غسل وغیرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ سنن ابوداؤد وغیرہ میں روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا
’’یصب الماء علی رأسہ من الحر وھو صائم ‘‘ (سنن ابی داؤد :2072۔ أحمد : 375)
’’ آپ ﷺ روزے کی حالت میں گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے تھے ۔‘‘
21گرمی کی بُو کی وجہ سے روزِ جمعہ غسل کرنا :
ہر جمعہ کے دن غسل کرنا سنت، لیکن شدت گرمی کے دن غسل کرنا اور بھی ضروری ہوجاتاہے کیونکہ شدت گرمی میں پسینے کی بدبو سے دیگر نمازیوں کو تکلیف ہوسکتی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ يَوْمَ الجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالعَوَالِيِّ، فَيَأْتُونَ فِي الغُبَارِ يُصِيبُهُمُ الغُبَارُ وَالعَرَقُ، فَيَخْرُجُ مِنْهُمُ العَرَقُ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَ عِنْدِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّكُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِيَوْمِكُمْ هَذَا ( صحیح البخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب من أين تؤتى الجمعة، وعلى من تجب، الحدیث : 902)

لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ گاؤں سے(مسجد نبوی میں) باری باری آیا کرتے تھے لوگ گرد وغبار میں چلے آتے ، گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا نہیں اسی حالت میں ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اس دن(جمعہ میں) غسل کر لیا کرتے تو بہتر ہوتا۔‘‘
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے