Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

بے حیائی کا لباس گمراہی کی ابلیسی جال

03 Aug,2014

 

انسان اشرف المخلوقات ہے اس کے اندر حیا فطری طور پر موجود ہے اور اسے دیگر جانداروںپر امتیاز حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہـــــ ’’حیا ایمان ہے‘‘۔ تخلیقِ آدم پر ابلیس نے تکبر کیا اور آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے انسان سے کھلی دشمنی کا اظہار کیا اور خود کو برتر جانا۔جب اللہ تعالی نے اسے نافرمانی پر لعین قرار دیا تو یہ حسد کی بنیاد پر انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہو گیا۔ آدم و حوا علیہما السلام ابلیسی چال کی زد میں آئے اور جنت کے لباس سے دونوں میاں بیوی محروم کر دیئے گئے۔ زمین پر بھیجے جانے کے بعد آپ علیہما السلام اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرتے رہے جسے اللہ تعالی نے قبول فرما لیا۔ معلوم ہوا کہ شیطان کا پہلا حدف یہی ہے کہ انسان کا لباس اتروا کر اسے بے حیا کر دیا جائے اور وہ خود بخود جنت سے محروم ہو کر جہنم کا ایندھن بن جائے۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر27 میں اللہ تعالی نے اولادِ آدم کو نصیحت فرمائی ہے:

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا ۭاِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۭاِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ  

اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کے لباس اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں انہیں دکھلا دے۔ وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے ہمیں تنبیہ فرمائی کہ لباس کے تمام فتنے ابلیسی ہیں اور شیطان ہمیں ان فتنوں میں مبتلا کر کے جہنم رسید کروانا چاہتاہے ۔ شیطانی چیلے خوشنما طریقوں سے ایمان والوں کے درمیان بے حیائی پھیلاتے ہیں کہ انہیں اس کا احساس تک نہیں ہو تا اور صرف کمزور ایمان والے ہی متاثر ہو تے ہیں۔ شیطان نے آج ہمیں لباس کے جن فتنوں میں مبتلا کر رکھا ہے وہ تو بے انتہا ہیں اور آئے دن ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آئیے یہاں لباس سے متعلق چندمعاشرتی برائیوں کا ذکر کرتے ہیں۔

مردو زن میں عریاں لباس سب سے بڑا فتنہ ہے ۔ بعثتِ مبارکہ سے قبل مرد اور عورتیں بیت اللہ کا طواف عریاں ہوکر کرتے اور اسے باعثِ اجرو ثواب سمجھتے۔ اسلام نے اس عریانی کو ختم کیا اور بتایا کہ عریاں ہونا گناہ ہے اور اللہ تعالی کو نا پسند ہے۔ تاریخ کا طویل سفر طے کرنے کے بعد آج کا انسان جاہلیت کے اسی مقام پر آن پہنچا ہے جس مقام پر پتھر کے زمانے میں تھا۔ سنا ہے کہ قدیم دور میں انسان جاہلیت کی زندگی گزارتے تھے اور اکثر بے لباس ہوا کرتے تھے۔ بہت کم جسم کے مخصوص حصوں کو ڈھانپتے تھے اوریہ سب کم علمی اور غیر ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے تھا اس لیے اسے پتھر، جاہلیت اور غیر تہذیب یافتہ دور کہا جاتا ہے۔ یعنی اس وقت انسانی تہذیب توانا نہ تھی اور اس معاشرے کا انسان غیر مہذب تھا۔ پھر انسان نے ترقی کی۔ علم حاصل کیا اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مکمل لباس، رہائش اور دیگر آسائشو ں کو حاصل کیا اور پھر ایک دور آیا جو تہذیب یافتہ دور کہلایا۔ لوگ مکمل لباس پہنتے، صاف ستھرے رہتے اور مہذب کہلاتے اور ان کے مقابل کم لباس والے اور بے لباس غیر مہذب ہوتے۔ یعنی تاریخی طور پر بھی یہ ثابت ہوا جب انسان بے لباسی اور کم لباسی سے مکمل لباس کی طرف آیا تو غیر تہذیب یافتہ سے تہذیب یافتہ کہلایا لیکن آج افسوس سے کہناپڑ رہا ہے کہ شیطان نے مہذب اور غیر مہذب کی تعریف ہی کو بدل دیا ہے۔ آج حیادار، مکمل لباس پہننا دقیانوسی، جاہل، ان پڑھ اور گنوار ہونے کی علامت ہے جبکہ کم لباسی اور بے حیائی والا لباس جدید، ماڈرن اور مہذب ہونے کی علامت ہے۔ یعنی شیطانی چال نے مہذب کو غیر مہذب قرار دے دیا اور تاریخی حقیقت کو جھٹلا دیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دین اسلا م تو شروع ہی سے تہذیب یافتہ معاشرے کا تصور دیتا ہے اور اگر کوئی بد تہذ یبی تھی بھی تو دین اسلام سے دوری اور جاہلیت کی بنیاد پر تھی۔ آج کی مہذب دنیا کے دعوے داروں کا حال الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے۔ایک حیا دار انسان کے لیے یہ زمین تیزی سے تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک کی طرزِ معاشرت تو بس۔۔۔۔

اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ (الاعراف 179)

یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ ۔

مغربی معاشروں میں رہنے والے مسلمان بھی کچھ پیچھے نہیں ۔ ایک چوبیس سالہ مسلمان لڑکی مس سائرہ کریم نے گلاسکو (یوکے) میں 19 ستمبر 2001 کو عریاں عورتوں کا مقابلہ حسن منعقد کروانے کا اعلان کیا کہ اس سے جرنل نالج میں اضافہ ہو گااور ان کی تصویریں آرٹ گیلری میں بطور فن پیش کر کے خواتین کو با عزت مقام دلائوں گی۔ (اردو ڈائجسٹ لاہور جولائی 2010 ص 139) نامعلوم یہ مقابلہ ہوا یا نہیں لیکن ایسی کوششیں شیطانی حکم سے اب بھی جاری رہتی ہیں۔ امریکہ میں بعض ساحلی مقامات پر ایسی جگہیں بھی ہیں (Nacked City) جہاں صرف بے لباس لوگ ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ کہلوانے والے ممالک میں عریانی عیب کی بجائے باقائدہ فن اور ثقافت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ آرٹ گیلریوں میں عریاں تصاویر کی نمائش اور عجائب گھروں میں عریاں مجسموں کی حفاظت کو عصر حاضر کی ثقافت میں بلند مقام حاصل ہے۔ بیوٹی پارلروں میں خواتین کا اپنے سارے جسم کے بال صاف کروانے اور مہندی سے پورے جسم پر بیل بوٹے بنوانے کے لیے عریاں ہونا قطعاً عیب شمار نہیں ہوتا۔

یہ حقیقت ہے کہ عریانی کو تمام مذاہب میں چاہے وہ الہامی ہوں یا غیر الہامی گناہ اور معیوب سمجھا جاتاہے لیکن دورِ حاضر کی تہذیب جدید اور روشن خیالی جیسے فلسفوں نے مذاہب سے انسان کا تعلق واجبی سا رہنے دیا ہے بلکہ ختم ہی کر دیا ہے ۔ آج پارکوں ، بازاروں میں عریاں بازو، کھلے گلے، بلند چاک، دوپٹہ تک غائب والی شیطان کی بہنیں تو آوارہ جانوروں کی طرح پھرتی ملیں گیں لیکن حجاب والی بمشکل ہی نظر آئے گی۔ وطنِ عزیز کے ائیر پورٹ، ساحل اور دیگر تفریحی مقامات اب لندن اور واشنگٹن سے کچھ کم نہیں۔ مزارِ قائد پر قوم کی بیٹیاں اور بیٹے بے خوف ہو کر سرِعام عریانی اور فحاشی پھیلاتے ہوئے بابائے قوم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مختصر، تنگ جس سے جسم کے نشیب و فراز نمایاں ہوں یا باریک لباس جس سے جسم نظر آئے یہ سب عریاں لباس میں شمار ہوتے ہیںاور مردوں کے لیے جنسی ہیجان کا باعث بنتے ہیں اور معاشرے کو بے حیائی اور فحاشی کی طرف لے جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایسے لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی ہے ’’ ایسی عورتیں قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی ‘‘ (صحیح مسلم شریف) اور دوسری حدیث میں ارشادِ مبارک ہے ’’ ایسی عورتیں قیامت کے روز ننگی ہوں گی‘‘ (صحیح بخاری شریف)

بے حیائی میں مرد بھی عورتوں کے دوش بدوش مختصر شرٹ اور پائوں میں گھسٹتی ہوئی پتلون، کولہوں کے نیچے نہ ٹکنے والے مقام پر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتے ہیں جو خطرے سے خالی نہیں لیکن شرم دور دور تک نہیں۔ نمازی طبقہ بھی کچھ کم نہیں۔ مساجد کے تقدس کا بھی لحاظ نہیں۔ نمازیں بھی خشوع و خضوع سے محروم ہوتی جارہی ہیں۔ نماز بھی بس ایک ایکسر سائز بن کر رہ گئی ہے۔ بازئو ں کے بغیر بنیان اور گھٹنوں تک نیکر نوجوانوں کا عام لباس بنتا جا رہا ہے۔ اس لباس میں نوجوان کھلے عام پھرتے حتی کہ مساجد میں نمازیں ادا کرتے نظر آتے ہیں، کیا ایسا لباس باوقار، مہذب اور زینت والا قرار دیا جا سکتا ہے؟ رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق ٹخنوں سے ازار (پاجامہ) اونچا رکھنا دشوار اور شرم کا باعث لیکن مغرب کی نقالی اور شیطان کی رضا کی خاطر گھٹنوں تک نیکر پہننا اور ازار اونچا رکھنا عین مہذب اور پھر اس کے اوپر دلائل؟ یہ فتنہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ایک وقت آئے گا مسلمان پہلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلیں گے اگر وہ ایک بالشت چلیں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے اگر وہ دو ہاتھ چلیں گے تو تم بھی دو ہاتھ چلو گے حتی کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے(جو کہ انتہائی دشوار ہے) تو تم بھی اس میں داخل ہو گے اگر کوئی ان میں سے اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرے گا تو تم بھی ایسا کرو گے۔ (بزار) اللہ تعالی ہمیں اس فتنے سے محفوظ فرمائے آمین!

رسول اللہﷺ نے عورتوں کو مردوں کی مشابہت اور مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اب مرد بھی عورتوں کی طرح پھولدار، منقش کڑھائی والے اور چکن ایمبرائیڈری والے لباس زیبِ تن کیے نظر آتے ہیںاور عورتیں جینز میں، بعض دفعہ برقعوں کے نیچے بھی جینز نظر آتی ہے۔ یاد رہے جینز کی پتلون مردوں کا لباس ہے اور چست پتلون ہے جس کی تراش خراش مردوں کو بھی زیب نہیں دیتی چہ جائیکہ عورتیں پہنیں۔ زری اور کامدار کرتے مرد اور عورتیں دونوں ہی پہنتے ہیں۔ بھری کڑھائی کی شیروانیاں تو اب شادی بیاہ پر عام پہنی جاتی ہیں۔ لباس کے علاوہ مرد عورتوں کی طرح سونے اور تانبے کے کڑے، انگوٹھیاں، گلے میں چین اور کانوں میں بالیاں تک پہننے لگے ہیں۔ عورتوں کی طرح بعض نوجوان پونیاں بھی کرتے ہیں اور عورتوں کے شانہ بشانہ بیوٹی پارلروں کا رخ بھی کرنے لگے ہیں۔

دوسری طرف مرد بننے کی شوقین خواتین کا فتنہ بھی کچھ کم نہیں۔ مردانہ طرز کی قمیض، شرٹ، ٹخنوں سے اونچی شلوار یا پتلون، چوڑی دار پاجامہ، پی کیپ، رنگین عینک، مردانہ ساخت کے جوتے، مردانہ بال، چال ڈھال، حرکات، مردانہ انداز گفتگو اور مخلوط محافل کے جنون نے اسلامی تہذیب و ثقافت اور غیرتِ ایمانی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مشابہت کے اس فتنے میں دین دار حلقے بھی مبتلا نظر آتے ہیں۔ ارشادِ نبویﷺ ہے ’’ اللہ کی لعنت ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور اللہ تعالی کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں‘‘۔ (صحیح بخاری شریف)

شادیوں، پارٹیوں اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر مال اور لباس کی نمائش، شہرت اور تکبر، بلند معیارِ زندگی اور امارت کے اظہار کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے ’’شہرت اور ناموری کا لباس پہننے والوں کو قیامت کے دن اللہ تعالی ذلت کا لباس پہنائیں گے اورپھر اسے آگ میں ڈالیں گے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) لیکن اس کے باوجود مادر پدر آزاد اسلامی معاشرہ ایک ایسی منزل کی طرف گامزن ہے جس کا انجام دنیا اور آخرت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سب شیطان کی پیروی ہی کا نتیجہ ہے۔ بے شک شیطان اپنے پیرو کاروں کوبے حیائی اور منکرات کا حکم دیتا ہے جبکہ اللہ سبحانہٗ و تعالی بے حیائی اوربرائی کے کاموں سے روکتا ہے۔

انسان اپنے لباس میں ضرورت سے تجاوز کر گیا ہے۔ غریب سے غریب آدمی بھی کئی کئی جوڑے محفوظ رکھتا ہے اور گھروں میں سامان کے انبار ہیں۔ جنت کی بشارت پانے والوں نے ایسے لباس پہنے تو کیا دیکھے بھی نہ ہوں گے۔ تاریخ کے مطالعے سے قرونِ اولی میں آپ کو صحابیات میں سے کئی پیوند لگی لباس میں جنتی شہزادیا ں نظر آئیں گی۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے ’’گھر میں ایک بستر مرد کے لیے، دوسرا اس کی بیوی کے لیے، تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا (ضرورت سے زائد) شیطان کے لیے ہے‘‘ (صحیح مسلم شریف) دوسری حدیث میں ہے کہ انواع و اقسام کے لباس پہننے والے میری امت کے بد ترین لوگ ہوں گے۔ (طبرانی)

ضرورت سے زائد لباس بنانا دراصل شیطانی فعل ہے۔ شاہانہ زندگی گزارنے والے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ (عمر ثانی) جب خلیفہ بنے اور مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبد الملک کے بھائی نے کہا بہن امیر المومنین کے کپڑے میلے ہو رہے ہیں اور لوگ بیمار پرسی کے لیے آ رہے ہیں انہیں تبدیل کر دیں تو وہ خاموش رہیں، بھائی کے دوبارہ کہنے پر فرمایا اللہ کی قسم! امیر المومنین کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرے کپڑے نہیں ہیں۔

فتنوں کے اس دور میں ایمان والوں اور ایمان والیوں کو اپنے ایمان، شرمگاہوں اور دل و نظر کی حفاظت کرنی ہو گی اور یوم آخرت میں حصولِ جنت کے لیے بے حیائی، کم لباسی، مشابہت، لباس میںاسرف اور اس طرح کی گمراہ کن شیطانی چالوں سے کنارہ کش ہو کر قرآن و سنت کا دامن تھامنا ہو گا۔ شیطان تو چاہتا ہے کہ تمہیں اسی طرح بے لباس کر دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ (آدم ، حوا) کو کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں شیطانی چیلوں اور منافقین کی چالوں سے بھی ہوشیار رہنا ہو گاجو میڈیا کے زریعے ہمارے درمیان بے حیائی کاطوفان برپا کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور 19)

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو قرآن و سنت کے مطابق اپنی معاشرت قائم کرنے اور بے حیا ئی چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو اسے ترک کرکے پاکیزہ زندگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Read more...

اسلام میں بد شگونی کی قطعاً اجازت نہیں!!

15 Dec,2013

مسلمان پختہ عقیدے کا مالک ہوتا ہے۔ وہ موت کی ہر وقت تیاری کرتا ہے۔ تقدیر بدلنے والی ذات رب تعالیٰ ہے۔ تمام اولیا بھی اسی کے محتاج ہیں۔ کوئی خاص پتھر پہننے سے کچھ نہیں ہوتا۔

سوال: GemاورStoneکا انسانی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟

جواب: اسلام میں شگون لینے کی اجازت نہیں۔ مسلمان تو بہت پختہ عقیدہ کا مالک ہوتا ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جس چیز سے Avoidکرنا چاہتا ہے، وہ ہے ’’موت‘‘۔ موت جیسی چیز کے بارے میں بھی اسلام نے مسلمان کو ایک زبردست عقیدہ فراہم کیا کہ موت اٹل ہے۔ اس کا ایک وقت مقرر ہے۔ ہر وہ جان دار جو اس دنیا میں آیا ہے، اسے موت کا ذائقہ ایک روز ضرور چکھنا ہے۔ انسان جب یہ اٹل حقیقت جان جاتا ہے تو موت کے حوالے سےاس کا عقیدہ پختہ ہو جاتاہے اور وہ سوچتا ہے کہ مجھے آج نہیں تو کل اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔ یوں وہ موت سے ہر وقت خوف زدہ رہنے کے بجائے اس کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ انسان کو موت کے مقرر وقت سے بے خبر رکھنے میں بھی ایک حکمت پوشیدہ ہے۔

اگر ایک فوجی سے یہ کہہ دیا جائے کہ جنگ اٹل ہے اور تمہیں ہر صورت محاذ پر جانا ہے تو وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہو جائے گا۔ لیکن اگر اسے یہ کہا جائے کہ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ابھی اسی لمحے یا کچھ عرصے بعد تمہیں جنگ پر بھیج دیا جائے۔ ایسی صور ت میں وہ فوجی ہر لمحہ محاذ پر جانے کے لیے تیار رہے گا کہ نہ جانے کب مجھے بلا لیا جائے۔

مسلمان موت کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے کہ نہ جانے کب اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے اور مجھے یہ دنیا چھوڑ کر جانا پڑے۔ اسی سوچ کے تحت وہ اپنا نامہ اعمال اور تمام معاملات درست حالت میں رکھنے لگتا ہے۔

یوں موت جیسی اٹل حقیقت کے بارے میں بھی رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو عقیدہ عطا فرمایا اور انہیں شگون لینے سے منع کیا۔ اس لیے ہمGemاورStoneسے شگون نہیں لے سکتے کہ فلاں پتھر پہننے سے ہماری تقدیر بدل جائے گی۔ تقدیر بدلنے پر صرف رب قادر ہے۔ کوئی ولی اللہ خواہ کتنے ہی بلند مقام فائز ہو اس کے اختیار میں نہیں کہ رب کی مرضی کے خلاف ایک تنکا بھی توڑ سکے۔ کسی بندے سے یہ کہنا شرک ہے کہ تمہارے اختیار میں ہے جو چاہے کام کر لو۔

تمام قوتیں اللہ ہی کے پاس ہیں۔ صرف وہی ہے جو لوگوں کے دکھ دور کر سکتاہے اور لوگوں کو فائدہ پہنچاسکتاہے۔

دنیا کا کوئی ولی اللہ کسی چیز پر قادر نہیں۔ وہ بھی اسی رب کا محتاج ہے جس کے ہم سب محتاج ہیں۔ تو جو خود محتاج ہو وہ دوسرے محتاجوں کی کیا مدد کرے گا۔ اس لیے اس دھوکے سے نکل آئیے کہ کوئی ولی اللہ کسی کے لیے کچھ کرسکتا۔ تمام قوتیں، تمام اختیارات صرف رب تعالیٰ کے پاس ہیں۔ البتہ وہ جسے چاہتا ہے اور جو جو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔ اگر رب تعالیٰ کسی انسان کو مستجاب الدعوات کے مقام پر فائز کر دے تو یہ رب تعالیٰ کی عنایت ہو گی۔ اس شخص کا استحقاق نہیں ہو گا۔

یہ پتھر تو بے جان ہیں۔ یہ کسی کے لیے کیا کریں گے؟ رب تعالیٰ نے یہ عالم الاسباب بنائی۔ ہر شے کے لیے ایک سب بنا دیا۔ جب وہ کسی کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے لیے موافق حالات اور اسباب پیدا کر دیتا ہے۔

رب تعالیٰ نے کچھ چیزوں میں خاصیت رکھی ہے جیسے نیم کے درخت کے پھل میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ اس کو کھانے سے انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ نیم کے پتے کمرے میں رکھ دیئے جائیں تو وہاں مکھیاں اور مچھر نہیں آتے۔ بظاہر تو ہم کہتے ہیں کہ نیم کے پتوں اور شہد میں بہت تاثیر ہے لیکن درحقیقت سب کچھ کرنے والی ذات تو صرف رب ہی کی ہے۔

اسی طرح رب تعالیٰ نے رنگوں اور شعاعوں میں انسان کے لیے شفا رکھی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ روشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہے۔ جو چیز ہمیں کسی خاص رنگ میں دکھائی دیتی ہے اور وہ ایک رنگ کو جذب کر کے باقی رنگون کو Reflectکر رہی ہوتی ہے۔

رب تعالیٰ نے ان رنگوں اور شعاعوں میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ ان سے انسان صحت مند ہو جاتا ہے۔ پرانے گھروں، چرچ اور مندروں میں آپ نے رنگین شیشوں والی کھڑکیاں دیکھی ہوں گی۔ وہ رنگ بہت سوچ سمجھ کر منتخب کئے جاتے ہیں۔ ان میں عموماً سفید رنگ نہیں ہوتا۔ زیادہ تر نیلے شیشے کا استعمال ہوتا ہے، جس میں سرخ Patchesلگے ہوتے ہیں۔ جب سورج کی شعاعیں ان شیشوں پر پڑتی ہیں تو اندر جانے والی روشنی ان شیشوں سےFilterہو کر جاتی ہے۔ چونکہ شیشے کا زیادہ تر حصہ نیلے رنگ پر مشتمل ہوتا ہے اس لے اندر سکون کا ایک ماحول بن جاتا ہے اور ایسے ماحول میں اگر عبادت کی جائے تو یک سوئی بہت بڑھ جائی ہے۔ نیلے شیشوں میں سرخ رنگ کے Pucntuationکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کہیں نیلے رنگ سے اتنا سکون نہ پیدا ہو جائے کہ انسان کو نیند آنے لگے۔ سرخ رنگ انسان کوActiveرکھتا ہے۔ اسی طرح بعض عمارتوں میںسبز شیشوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ رنگ پاکیزگی کا احسا س دلاتا ہے۔

( ماخوذ از کتاب فقیر نگری، مؤلف: سرفراز علی شاہ)

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول