Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

اہم پیغام مسلم حکمران اور عوام کے نام

07 Apr,2013

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اس کی اطاعت کی جائے تو ہمہ قسم کی خیر و برکات حاصل ہوتی ہیں، اور اگر اسکی نافرمانی کی جائے تو تباہی اور بربادی ہی مقدر بنتی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، وہی آسمان و زمین کا پروردگار ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے ، اسکے رسول ، انبیاء کے سربراہ اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں، اللہ تعالی ان پر انکی آل ، انکے اصحاب پردرود ، سلام بھیجے۔

حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!

مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں نعمتِ تقوی خیر و برکات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اسی سے تنگی آسانی میں بدل جاتی ہے، اور تکلیف کے بعد فراوانی میسر ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کےلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے (الطلاق: 4)

مسلمانوں کو بہت ہی سنگین فتنوں کا سامنا ہے اسی بارے میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (قیامت کے قریب عمل کم ہو جائیں گے، لالچ بڑھ جائے گی، اور فتنے بپا ہونگے)

ذرا توجہ کریں! آپس میں اختلاف و انتشار، دنیا داری میں پڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والا حسد و بغض یہ خطرناک ، نقصان دہ اور سب سے بڑے فتنے ہیں جو آج اکثر مسلم معاشروں میں پھیل رہے ہیں ، ان معنوی بیماریوں کی وجہ سے نا قابل تلافی نقصان امتِ مسلمہ کو اٹھانا پڑا ہے، انہی کی وجہ سے امن و امان کی دگر گوں صورتِ حال پیدا ہوئی ، انہیں کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، عزت و احترام کو تار تار کیا گیا اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور معاملہ یہاں تک جاپہنچا کہ مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرےکے خلاف اسلحہ تان لیا، اور اپنے ہی مسلمان بھائی کی عزت وآبرو کو خاک میں ملادیا یہ ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان صادق آتا ہے:

يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِأَيْدِيْھِمْ

وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے۔ (الحشر: 2)

اور اسی بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (ایک دوسرے کے قتل و غارت میں مشغول ہو کر میرے بعد کفر میں مت لوٹ جانا )

سنو! اگر ان فتنوں سے بچنا چاہتے ہو تو اسلامی اصول و ضوابط کا پابند ہونا پڑے گا، انکی پاسداری کرنا ہوگی، یہ ہی یکتا اور فرید راستہ ہے جس پر چل کر ہم فتنوں سے بچ سکتے ہیں اور ان سنگین بحرانوں سے نکل سکتے ہیں۔

ان اصول و ضوابط میں سے:

1) سب سے پہلے ہم یقین کریں کہ فساد کی جڑ اسلامی منہج سے دوری ہے، اللہ کی اطاعت میں سستی کرنا ہے، اسلامی احکام کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے یہ سب کچھ مسلمانوں پر آن پڑا ہے۔

کیا ہمارے رب نے فرمایا نہیں؟

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: 63)

جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے؟

اللہ عز و جل سے ڈرنا ، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا، قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا دستور بنانا ہی نجات کا راستہ ہے اسی کشتی میں سوار ہوکر ہم بچ سکتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ (الطلاق: 2، 3)

توحید خالص کے تقاضوں کو پورا کرنا، رب العالمین کی شریعت نافذ کرناہی امن و امان کی بنیادی کلید ہے، اسی بارے میں اللہ نے فرمایا:

الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُوْنَ

جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا، انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں ۔(الانعام: 82)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت کو وصیت تھی جو ہر وقت ہرجگہ پرمسلمانوں کیلئے موزوں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (اللہ کے حقوق کی تم حفاظت کرو ،اللہ تمہارے حقوق کی حفاظت کرےگا)، اے مسلمان! اللہ کو ہمیشہ یاد رکھ، امتِ مسلمہ! اسلام کی حفاظت کرو، احکامِ قرآن کی حفاظت کرو، آل عدنان کے سربراہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی حفاظت کرو، رحمن کی جانب سے آپ کا بھی خیال کیا جائے گا، عنایتیں بھی ہونگی اور حقوق کی حفاظت بھی کی جائے گی۔

آج پوری امتِ اسلامیہ کیلئے بڑی ہی شرمندگی والی بات ہے کہ امت نے سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو چھوڑ دیا ہے، اسی لئے تو پوری دنیا مسلمانوں کی بد حالی دیکھ کر مزے لے رہی ہے ، پیارے پیغمبر نے فرمایا تھا، (میں تمہارے لئے قرآن و سنت چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں مضبوطی سے تھام لو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے) روایت کی سند صحیح ہے۔

کتنی کانفرنسیں بلائی جاتی ہیں، مسلم عوام اور انکے حکمرانوں کی کتنی بارملاقاتیں ہوتی ہیں، لیکن جس سے اس امت کی اصلاح ہو انکی آنکھوں کو کوئی اسلامی راہنمائی نظر ہی نہیں آتی!!!

ابھی وقت ہے حکمرانو اور عوام الناس سب سن لو اگر ہم اپنا بھلا چاہتے ہیں، امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں، اپنے معاملات درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری مضبوطی ، اخلاص اور سچے دل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو پکڑنا ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ سے ہمیشہ ڈرتے رہو، حکمران کی بات سنو اور اس پر عمل بھی کرو، چاہے کسی حبشی غلام کو ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے، میرے بعد تمہیں بہت سے اختلافات کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسی حالت میں میرے طرزِ زندگی اور خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام کر رکھنا، ہاتھوں سے نکلنے لگے تو اپنی داڑھوں سے پکڑ لینا، دھیان سے اپنے آپ کو نئے طریقوں سے بچانا، اس لئے کہ ہر نیا طریقہ گمراہی ہے) اہل علم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔

مسلمانو!

2) فتنہ بپا ہونے کے وقت جن بنیادی قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے ان میں یہ بھی ہے کہ : ہم آپس میں ایمانی اخوت اور بھائی چارے والا تعلق مزید مضبوط کریں ، ہمیں یہ یقین ہو کہ ایمان کا مضبوط ترین کڑا اللہ کیلئے محبت کرنا ہے، اصل مسئلہ اسی بات کا ہےکہ اس کو اب قائم کیسے کیا جائے؟ اکثریت تو دنیا داری میں ڈوب چکی ہے!!

صحیح مسلم میں حدیث ہے نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ امت ابتدائی ادوار میں کامیاب رہے گی، جبکہ آخری دور میں بہت سی آزمائشیں اور ایسے معاملات ہونگے جو تمہیں ناگوار ہو نگے، ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ بپا ہوگا، مؤمن ایک فتنہ کو دیکھ کر کہے گا: ’’لگتا ہے اس سے میں نہیں بچ پاؤں گا‘‘ لیکن یہ چھٹ جائے گا اور نیا فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا، مؤمن پھر کہے گا: ’’اب کی بار نہیں بچ پاؤں گا‘‘ ایسے حالات میں جو جہنم کی آگ سے بچنا چاہے اور جنت میں داخل ہونے کا خواہش مند ہوتو اسے چاہئے کہ اسے موت آئے تو وہ ایمان کی حالت میں ہو، اور اخلاقی اقدار اتنی بلند ہوں کہ لوگوں سے ایسے ہی پیش آئے جیسے وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے)(صحیح مسلم)

یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی علامت ہے، کیونکہ ایسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا، ہماری امت ایک فتنے سے نکلتی ہے تو دوسرا فتنہ سر پر آن پہنچتا ہے۔

وَلَا حَوْلَ وَلَا قّوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

مسلمان بھائیو!

3) تمام مسلم حکمرانوں کیلئے ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی ملک کی رعایاہوں قرآن اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو یاد رکھیں، اس امت اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے اسلام نے جو حاکم اور رعایا کے حقوق رکھے ہیں انہیں پہچانیں، سنو!تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی ان قوانین کی دو طرفہ پاسداری کی گئی تو تب ہی چہار سو امن و سکون پھیلا ، ملک و قوم نے ترقی کی منزلیں طے کیں، اور ہر جگہ خوشیاں بکھر گئیں، اور جب ان پر عمل کرتے ہوئے کسی ایک جانب سے بھی سستی ہوئی ، تو فتنے بپا ہوئے، امن و امان خطرے میں پڑ گیا۔

4) انہی قواعد و ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر حکمران چاہے اسکا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، اس پر واجب ہے کہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی امانت اور ذمہ داری کو پورے اخلاص اور اللہ تعالی کو نگہبان جان کر ادا کرے ، اللہ تعالی کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی داود علیہ السلام کو بھیجا تھا:

يَا دَاوُوْدُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ

(ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا ور نہ یہ بات تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ (سورۃص: 26)

ہر حاکم کی ذمہ داری ہے چاہے کوئی بادشاہ ہے یا امیر ہے یا لیڈر ہے دل و جان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو یاد رکھے جو آپ نے امارت کے بارے میں سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (یہ امانت ہےاور قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا باعث ہے، ہاں وہ بچ جائے گا جس نے اپنے آپ کو حقدار سمجھتے ہوئے لیا، اور پھر اس کے نتیجے میں آنیوالی تمام ذمہ داریوں کو اپنا فرض سمجھ کر ادا بھی کیا)اسے مسلم نے بیان کیاہے۔

حکمرانو! کیا سمجھتے ہو کہ دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے ؟ یہ دنیا فانی ہے حکمران ہو ں یا رعایا سب نے یہاں سے جانا ہے۔

ہر حکمران کا شعار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہو: (کسی کو اللہ نے حکمران بنایا اور اس نے اپنی رعایا سے دھوکہ دہی کی اور وہ اسی حالت میں مر گیا، تو اللہ تعالی نے اسکے لئے جنت کی خوشبو بھی حرام کردی ہے) مسلم

اےمسلمان حاکم !! اختیار اب تمہارے پاس ہے، اپنی جگہ مقرر کر لیں جنت میں لینی ہے یا جہنم میں؟ آپ کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں صاف صاف بتلا دیا ہے۔

5) تمام حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے،کہ وہ مسلم ممالک میں عدل و انصاف کو قائم کریں، ظلم سے بچیں چاہے وہ کسی بھی شکل و صورت میں ہو، کبھی یہ ظلم وہ خود تو نہیں کرتے لیکن انکے مشیر و وزیر اور حواری حضرات کرتے ہیں،ایسی شکل میں بھی حاکم ہی سے پوچھا جائے گا، حدیثِ قدسی ہے (میں نے ظلم اپنے لئے حرام قرار دے دیا ہے، اور اسے تمہارے مابین بھی حرام بنایا ہے)

عدل و انصاف ہی کی صورت میں حاکم اور رعایا امن و سکون پا سکتے ہیں، جبکہ ظلم سے شر و فساد ہی پھیلتا ہے، دلوں میں حسد و کینہ پیدا ہوتا ہے، اگر دل نہ مانے تو اس وقت مسلم ممالک میں روز بروز ہونے والے مظاہرے اس بات کی واضح دلیل ہیں جس پر نبوی مہر ثبت ہے۔

6) حکمران کیلئے ضروری ہے کہ اپنی رعایا کے حالات کے بارے میں معلومات لے، اس امر کا خاص خیال بھی رکھے کہیں بعد میں پچھتانا پڑے، اپنے اور رعایا کے درمیان کو ئی رکاوٹ نہ کھڑی کرے، جب بھی ایسا ہوا تو حاکم اور رعایا کے درمیان فساد بپا ہو جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ نے کسی کو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری دی اور اُس نے اِنہیں اپنی ضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسکوضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دے گا)

7) حکمران پر یہ بھی لازم ہے کہ برائیوں اور تعصب سے بالکل کنارہ کش ہو جائے، متقی ،پرہیز گار ، اطاعت گزار، نیک صالح افراد کو مسلمانوں کے معاملات کی باگ ڈور تھمائے، جو لوگوں کیلئے خیر تلاش کرتے ہوں اور امین بھی ہوں،لوگوں کے دلوں کو ایک جگہ اکٹھے کرنے کی جن میں صلاحیت ہو، لوگوں میں انتشار نہ پھیلائیں، ملک و قوم کی ترقی کیلئے کام کریں اِسے ناکام ریاست نہ بنائیں، اگر وزیر و مشیربُرے لوگ بن جائیں تو شربڑھ جاتا ہے، اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے، اس بارے میں بھی تاریخ گواہی دیتی ہے، ان واقعات سے نصیحت پکڑنی چاہئے، اگر اب بھی کوئی نصیحت نہ لے تو کب لے گا؟

امام حاکم رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے فرمایا: (جس نے بھی کسی نالائق پارٹی پر ذمہ داری ڈالی اوروہ اُن سے بہتر پارٹی کے بارے میں جانتا تھا ، یقیناًاس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت کی اور مؤمنوں کی بھی خیانت کی)

حکمرانو! اللہ سے ڈرو، ایسی غلطی کر کے کسی کی دنیا کو بناتے ہوئے اپنے دین کو تباہ و برباد نہ کر لینا۔

8) حکمران کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ اس دنیا کی گرفت ہر زمانے میں دلوں پر بڑی مضبوط رہی ہے، اورمعاشرے میں بگاڑبھی اُسی وقت آتا ہے جب دنیاوی حرص و ہوس بڑھ جائے اور کرسی کے حصول کیلئے ہاتھ پاؤں مارے جائیں۔

لہٰذا جسے اللہ نے اس دنیا میں حکمرانی دی ہے وہ دنیا بنانے اور جمع کرنے میں نہ لگا رہے، اور نہ ہی اپنی رعایا کو بھولے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی اللہ کے مال سے ناحق لے گا اس کیلئے قیامت کی دن آگ تیار ہے) اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اس فرمان کو نافذ کرتے ہوئے فرمایا: (اللہ کی قسم! میں کسی کو مال و دولت سے نوازوں یا محروم رکھوں یہ سب میرے اختیار میں نہیں میں تو صرف وہاں تقسیم کرتا ہوں جہاں مجھے حکم دیا جاتاہے)

اسی لئے آپکی ان عملی اور قولی تعلیمات کے باعث سیدنا ابو بکر اورسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہماجیسے صحابہ کرام پیدا ہوئے، عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت اٹھا کر دیکھو، ان سے عرض کی گئی: امیر المؤمنین! آپ اللہ کے مال سے اپنی ذات کیلئے کچھ زیادہ لے لیا کریں، یہ ہیں وہ عمر جنہوں نے اپنے لئے تنگی برداشت کر لی اور اپنی رعایا کو اپنی جان سے مقدم سمجھا جواب میں کہا: "میری اور انکی مثال کیسی ہے جانتے ہو؟! ہماری مثال ان مسافروں جیسی ہے جنہوں نے سفر میں اپنے پیسے اکٹھے کئے اور ایک شخص کو تھما دئے کہ انکی ضروریات کو پورا کرے، تو کیا اس شخص کیلئے جائز ہے کہ بقیہ لوگوں سے زیادہ اپنے آپ پر خرچ کرے؟

9) حکمران پر ضروری ہے کہ، پانچ چیزوں کی حفاظت کرنے کیلئے تمام تر توانائی صرف کردے: 1 دین، 2 جان، 3 عقل، 4 عزت آبرو، 5 مال، اور سب سے اہم دین کی حفاظت ہے؛ اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کیلئے پوری کوشش کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرے، اور تمام معاملات کے حل کیلئے اللہ کی عنائت کردہ شریعت کو سُپریم جانے، اور اللہ کی شریعت کے منافی تمام کے تمام قوانین کو چھوڑدے، فسادیوں اور بدعتیوں کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں، اور کسی کو مسلمانوں کے دین و دنیا خراب کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا

اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو (الاعراف: 56)

اللہ کے بندو!

پورے معاشرے اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ حکمرانوں کے حقوق بھی ادا کریں:

1) جس میں سب سے پہلے شرعی کاموں میں انکی اطاعت کرنا ہے ، اور اس وقت تک اس بات پر کار بند رہنا ہے جب تک اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔

2) شرعی اصولوں کے مطابق حکمران کو مخفی طور پر نصیحت بھی کریں ، اعلانیہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اپنے انداز میں نرمی، دھیمہ لہجہ اور سوز پیدا کریں۔

3) اپنے حاکم کیلئے کامیابی ، بھلائی اور صحیح راستے پر چلنے کی دعا بھی کریں۔

4) سلطان اور حکمران کی عزت ، احترام، اور اسکی تکریم کرنا بھی رعایا کی ذمہ داری ہے، مسند احمد میں صحیح سند سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی عزت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکی عزت افزائی فرمائے گااور جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی اہانت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکو رسوا فرمائے گا)

5) رعایا پر یہ بھی لازمی ہے کہ حاکم کے ظلم پر بھی صبر کرے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میرے بعد دیکھو گے کہ حکمران اپنے آپ کو ترجیح دیں گے، اور اسکے علاوہ بہت سے ناگوار امور پیش آئیں گے)انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں کیا حکم کرتے ہیں اس بارے میں؟ آپ نے فرمایا: (انہیں انکا حق دو اور اپنا حق اللہ سے مانگو)

6) اسی طرح رعایا پر یہ بھی لازم ہے کہ اس وقت تک حکمران کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کریں جب تک وہ صریح کفر کا ارتکاب نہ کر لے، اور اگر بغاوت کی ضرورت بھی پڑے تو ان تمام قوانین اور قواعد کو مد نظر رکھا جائے جنہیں علمائے کرام مقرر کریں، اس بارے میں کسی جاہل اور بے علم شخص کی بات پر کان نہ دھرا جائے، بخاری ومسلم میں ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرہر حالت اور ہر وقت آپکی اطاعت کرنے کی بیعت کی، چاہے تنگی ہو یا فراخی، چاہے ہمیں نظر انداز کیا جائے ، اور اس بات پر بھی بیعت کی کہ کرسی کے حصول کیلئے جھگڑا نہیں کریں گے ۔ آپ نے فرمایا: (ہاں اگر صریح کفر دیکھو جسے تم کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کر سکو تب انکی اطاعت نہیں کرنی )

ایک اور بہت بڑا فتنہ جو مسلمانوں کو لاحق ہو گیا اور وہ ہے کفار کی مشابہت اختیار کرنا، اور خاص طور پر ان معاملات میں جو اسلام کے مخالف ہیں، اور اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہیں، اس کے باعث مسلمانوں میں خطرناک بیماریاں پھیلی ، اسی وجہ سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا: اور کہا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)

7) پُر فتن دور میں قابل ملاحظہ ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ پورے معاشرے کے افراد ایسا اقدام کریں جس سے اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا ہو، لوگوں میں محبت کا درس پھیلائیں نفرتیں پیدا نہ کریں، اسی طرح پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ صبر و تحمل کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے ہر اس اقدام سے دور رہیں جس کے نتائج بُرے نکل سکتے ہوں، اگر ایسا نہیں ہوا تو فتنے پھوٹ پڑیں گے، اور شر و فساد کو ہوا ملے گی۔

علماء کے مطابق فتنہ کی پیداوار دو طرح کی ہوتی ہے، یا تو حق پسِ پشت ڈالا جائے یا صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر

زمانے کی قسم،بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہےسوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔(العصر: 1 تا3)

8) حاکم اور رعایا دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حِلم ، برد باری کو ا پنا شعار بنائیں اور جلد بازی سے کام نہ لیں، اس انداز کے اپنانے سے معاملے کی حقیقت پہچاننا آسان ہو جاتی ہے، اور اسکا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جلد بازی کے کئے ہوئے فیصلے عموما ناگوار نتائج کا باعث بنتے ہیں۔

9) تمام لوگوں پر لازمی ہے کہ نرمی سے اپنے معاملات کو نمٹائیں، قواعدِ سنتِ محمدیہ میں ہے کہ: (جو بھی نرمی سے متصف ہوگا خوب رو بن جائے گا، اور جہاں سے نرمی غائب ہو جائے وہ بد صورت ہی رہ جاتا ہے، اسی لئے تو نرمی سر تا پا خیر ہی خیر ہے)

10) آخر میں مسلمانو! اس عظیم الشان نظام ِ زندگی کی حفاظت کرو اسی میں تمہاری دین و دنیا کی ترقی کے راز پنہاں ہیں، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

احسانات کے باعث تمام تعریفیں اُسی اللہ کیلئے ہیں، شکر بھی اسی کا بجا لاتا ہوں جس نے ہمیں توفیق دی اور ہم پر اپنا احسان بھی کیا، میں اسکی عظمتِ شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہےاسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم   اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے سب کو دعوت دی، یا اللہ ان پر انکی آل پر ، اور ان کے اصحاب پر درود و سلام بھیج۔

حمد و درودو سلام کے بعد!

اللہ عز وجل کاڈر اپنے دلوں میں پیدا کرلو دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے۔

اللہ کے بندو!

مسلمانوں نے جب توحید الہی کو قائم کردیا، ایمان کو تمام لوازمات اور تقاضوں کے مطابق مکمل قائم کردیا، اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہوگئے، اور اپنی زندگیوں میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو نافذ العمل کردیاتو اللہ تعالی انکے لئے ہر غم کو ان سے چھٹ دے گا، اور ہر تکلیف سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا، اور انہیں ایسی جگہ سے رزق عنائت فرمائے گاجہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہوگا اور انہیں ہر قسم کے شر و گناہ سے بچا دے گا، اسی بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا

جو لوگ ایمان لائے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے انکا دفاع کرتا ہے ۔(الحج: 38)

اللہ کے بندو!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ، خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر ، عمر ، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، تمام اہل بیت ، اور صحابہ کرام سے بھی راضی ہوجا، اور جو انکے راستے پر چل نکلیں ان سے بھی راضی ہو جا۔

یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یااللہ! تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ تمام مسلمانوں کی فتنوں سے حفاظت فرما، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا کر دے، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ ان پر سے غموں کے بادل چھٹ دے، یا اللہ انکی تکالیف کو دور فرما، یا اللہ انکی اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، ، یا اللہ انکی اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا اللہ انکی اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما

یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما

یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما

یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما

یا اللہ ! یا حیی! یا قیوم! ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما۔

یا اللہ ہم مہنگائی ، بیماری ، زلزلے، تکالیف، ظاہری اور پوشیدہ فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، جو زندہ ہیں انہیں بھی اور جو فوت ہو چکے ہیں انہیں بھی معاف فرما۔

یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یااللہ اسے نیکی اور تقوی کے کاموں کا راستہ دکھا، یا اللہ اسکے نائب کو ہر اچھا کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اسکا ہر عمل اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی رعایا کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔

یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ ! انکے لئے ان فتنوں سے نکلنے کا راستہ بھی بنا، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما۔

یا اللہ ! یا حیی ! یا قیوم، یا ذا الجلال و الاکرام، ملکِ شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ مصر میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ تیونس میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، لیبیامیں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ یمن میں مسلمانوں کی حفاظت فرما،یا اللہ! انہیں شریعتِ اسلامیہ نافذ کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انہیں جس چیز کی ضرورت ہے انہیں عنایت فرما۔

اللہ کے بندو!

اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔

Read more...

قربِ قیامت حکمرانوں اور عوام کی عقل و شعور کے فقدان کا منظر

20 Sep,2015

ہمارے گزشتہ مضمون کی گفتگو سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ مومن صاحبِ عقل ا ورصاحبِ بصیرت ہوتا ہے اور اس کی بنیاد ایمان ہی ہے۔اور کافر مومن کے مقابلے میں عقل و بصیرت میں انتہائی پرلے درجے پر ہوتا ہے ۔اسی طرح کسی مومن میں جس حد تک ایمان میں کمی ہوگی اسی حد تک اس کی بصیرت میں کمی ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ قرب ِقیامت اہل ایمان جس تیزی سے فتنوں کا شکار ہوتے جائیں گے اور ایمان سے دور ہوتے جائیں گے ظاہر سی بات ہے کہ وہ اسی حد تک عقل و شعور اور بصیرتِ صحیحہ سے بھی دور ہوتے جائیں گے ۔اور اس کی بنیاد ایمان میں کمی ہی ہوگی۔ نصوصِ شریعہ میں بڑے واضح انداز میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ قربِ قیامت انسانی بصیرت اور فہم میں بڑی کمی ہوگی ۔ہم اس مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک حصہ جس سے واضح ہوگا کہ عوام الناس بصیرت سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور دوسرا حصہ جس میں اس بات کو بیان کیا جائے گا کہ حکمران بھی ایسے مسلط کردئیے جائیں گے کہ جوعقل و شعور سے بالکل دور ہوں گے۔


قرب قیامت لوگوں کی بصیرت اور شعور کی کیفیت:

 ہم اس باب میں سب سے پہلے ایک حدیث پیش کرتے ہیں :سیدنا ابوھریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ بادروا بالا عمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مو منا ويمسي كافرا ا و يمسي مو منا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا‘‘(صحیح مسلم:118)
یعنی :’’ قرب ِقیامت ایسا وقت آئے گا کہ ایک شخص صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گااور شام کو مومن ہوگا اور صبح کافر ہوجائے گا۔ آدمی اپنے دین کو پیسوں کے بدلے بیچ دےگا۔‘‘
اب سوال اٹھتا ہے کہ لوگ تو یہ سمجھتے ہیںکہ دور جیسے آگے جارہا ہے، ترقی ہورہی ہے، دنیا چاند پر پہنچ گئی۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بصیرت اس حد تک ختم ہوجائےگی ایک ہی دن میں مختلف دین کو قبول کیا جارہا ہے ۔کیا وجہ ہے؟دوسری حدیث میں جواب موجود ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فا فتوا بغير علم فضلوا وا ضلوا‘‘ (صحیح بخاری:100، صحیح مسلم: 2673)
یعنی: ’’ علم اٹھ جائے گا اور اللہ تعالی علم لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نہیں نکالے گا۔بلکہ علماء کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔حتی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ اپنے رؤساء اور پیشوا جاہلوں کو بنالیں گے ان سے مسائل پوچھیں جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ، یہ جہلاء خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔‘‘
ان دونوں احایث کو سامنے رکھنے سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہے کہ اہل علم سے تعلق اور مصاحبت بصیرت صحیحہ کاسبب ہے۔اور قربِ قیامت جیسے جیسے علماء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ذریعےسے علم اٹھتا جائے گا، لوگ بھی بصیرت صحیحہ سے دور ہوتے چلے جائیں گے،حتی کہ لوگ جہلاء کو پیشوا بنالیں گے اور ان سے فتاوی پوچھیں گے نتیجتاً وہ گمراہی کی دلدل میں گرتے چلے جائیں گے۔آج بالکل یہی کیفیت بنتی جارہی ہے کہ آج میڈیا پر جن لوگوں سے دینیات کے مسائل پوچھے جارہے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مساجد کے منبروں نے قبول نہیں کیا،جو شاید دنیاوی امور میں علماء سے فائق ہوں لیکن دینی رہنما ہونے کے قطعاً حق نہیں رکھتے۔آج دینی بصیرت کے معدوم ہونے کے اسباب میں سے بڑا سبب یہی ہے کہ علماء ربانیین بڑی تیزی سے لقمۂ اجل بن رہے ہیں اور پھر خواہش پرست لوگ بڑی تیزی سے بمصداقِ ’’ نیم حکیم خطرۂ جان ‘‘ لوگوں کے ایمان کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے شرور سے ہمیں محفوظ رکھے۔(آمین)
بہرحال ان دونوں احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی صورت حال کی طرف چودہ سو سال پہلے ہی نشاندہی فرما دی تھی کہ کس طرح لوگ بصیرت صحیحہ سے دور ہوتے چلے جائیںگے۔بلکہ قیامت کے قریب لوگوں کی عدم ِشعوری کوبیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سيخرج في ا خر الزمان قوم ا حداث الا سنان سفهاء الا حلام يقولون من خير قول البرية يقرءون القرا ن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإن في قتلهم ا جرا لمن قتلهم عند الله يوم القيامة‘‘
یعنی: ’’عنقریب اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی نوعمر اور ان کے عقل والے بیوقوف ہونگے بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نہ اترے گا دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر کمان سے نکل جاتا ہے جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کردینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والے کو اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم:1006)
اس حدیث میں بڑے واضح انداز میںنبی ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ بظاہر بڑی اچھی بات کرنے والے نوجوان ہونگےدراصل وہ بے وقوف ہونگے۔یہ لوگ بھی صحیح فہم و شعور نہ ہونے کی وجہ سے دین میں غلو و افراط کرکے راہ ہدایت سے بھٹک جائیں گے ۔
گویا کہ پہلا گروہ (جس کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا کہ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے)جہالت کی وجہ سے دین میں تفریط اور کمی و تساہل کا شکار ہوگا اور ایمان سے محروم ہوجائے گا اور اسی طرح دوسرا گروہ (جس کا ذکر مذکور ہ حدیث میں ہوا کہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا)بھی اپنی جہالت اور صحیح فہم نہ ہونے کی وجہ سےافراط کا شکار ہوکر گمراہی کی دہلیز پر آکھڑا ہوگا۔ اس لئے صحیح فہم یہی ہے کہ راہ اعتدال کو اختیار کیا جائے اور افراط و تفریط اور جذباتی نعروں اور رویوں سے بھی گریز کیا جائے اور بلاوجہ کے تساہل سے بھی حد درجہ دور رہا جائے۔
ایک اور حدیث میں مزید صراحت سے قرب قیامت عقل و شعور کے فقدان کا ذکر کیا گیا ہے ،چناچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (قربِ قیامت ایسا دور آئے گا کہ) آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے اٹھالی جائے گی اور اس کا ایک دھندلا سا نشان رہ جائیگا۔ پھر سوئے گا تو باقی امانت بھی اس کے دل سے نکال لی جائے گی۔ تو اس کانشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا۔ جیسے چنگاری کو اپنے پاؤں سے لڑھکائے اور وہ پھول جائے اور تو اس کو ابھر ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کوئی چیز نہیں۔ حالت یہ ہوگی کہ لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے، لیکن کوئی امانت کو ادا نہیں کرے گا یہاں تک کہ کہا جائیگا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کسی کے متعلق کہا جائیگا کہ کس قدر عاقل ہے کس قدر ظریف ہے اور کس قدر شجاع ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی بھر بھی ایمان نہ ہو گا اور ہم پر ایک زمانہ ایسا گزرچکا ہے کہ کسی کے ہاتھ خرید و فروخت کرنے میں کچھ پرواہ نہ ہوتی تھی۔ اگر مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام اور نصرانی ہوتا تو اس کے مدد گار گمراہی سے باز رکھتے لیکن آج کل فلاں فلاں (یعنی خاص) لوگوں سے ہی خرید وفروخت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب رفع الامانۃ)
اس حدیث میں واضح انداز میں رسول اللہﷺ نے یہ خبر دی کہ قرب قیامت میں امانت بھی ختم ہوجائے گی اور بصیرت بھی ختم ہوجائے گی۔اعاذنا اللہ منھا

قربِ قیامت بے وقوف حکمران :


قیامت کے قریب عام انسانوں کے شعور و بصیرت کے منظر کے بعد ہم ذیل میں چند دلائل پیش کریں گے ،جن سے یہ ثابت ہوگا کہ قیامت کے قریب بےوقوف قسم کے حکمران مسلط کردئیے جائیںگے۔چناچہ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لا تقوم الساعة حتى يكون أسعد الناس بالدنيا لكع ابن لكع(جامع ترمذی:2209)
یعنی : ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دنیا میں سب سے زیادہ سعادت والا اسے نہ سمجھ لیا جائے جو کمینہ ہو اور کمینے کا بیٹا ہو۔‘‘
اسی طرح ایک روایت میں فرمایا:
بادروا بالموت ستا إمرة السفهاء وكثرة الشرط وبيع الحكم واستخفافا بالدم وقطيعة الرحم ونشوا يتخذون القران مزامير يقدمونه يغنيهم وإن كان ا قل منهم فقه (مسند احمد: 494/3، سلسلۃ الصحیحۃ : 979  )  
ترجمہ : ’’چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے موت کی تمنا کرو، بےوقوفوں کی امارت ،پولیس کا زیادہ ہونا، فیصلے کا بیچنا، انسانی خون کو ہلکا سمجھ لینا، قطع تعلقی کا عام ہونااور ایسے لوگوں کو (منبر و اسٹیج وغیرہ پر زیادہ بڑے عالم دین کے موجود ہونے کے باوجود )آگے کرنا تاکہ وہ گاگاکر قرآن سنائیں، حالانکہ وہ علم میں کم ہونگے۔‘‘
اس حدیث میںفرمایا گیا کہ دعا کرو کہ چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلےتمہیں موت آجائے۔ان میں سے ایک چیز بے وقوف اور فہم وبصیرت سے عاری لوگوں کی حکومت۔جیسا کہ دور حاضر میں اس کے مظاہر اور نقصانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے امارت سفھاء سے اللہ کے رسول ﷺ نے پناہ مانگی ،چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرۃ سے فرمایا:
اعاذك الله من إمارة السفهاء۔ قال: وما إمارة السفهاء؟ قال: ا مراء يكونون بعدي لا يقتدون بهديي ولا يستنون بسنتي فمن صدقهم بكذبهم وا عانهم على ظلمهم فا ولئك ليسوا مني ولست منهم ولا يردوا علي حوضي (صحیح ابن حبان:4514 مسند بزار:1609 )
 دیگر کتب میں یہ روایت کعب بن عجرۃ کی مسند سے بھی موجود ہے۔
ترجمہ :’’ اللہ تعالی تجھے بے وقوفوں کی امارت سے بچائے۔کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : بے وقوفوں کی امارت کیا ہے؟ فرمایا: میرے بعد ایسے امراء ہونگے جو میری رہنمائی کی اقتداء نہیں کریں گے اور نہ ہی میری سنت پر چلیں گے۔اور جو ان کے کذب کے باوجود ان کی تصدیق کریں گے اور ظلم میں ان کی مدد کریں گےایسے لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔اور نہ ہی وہ میرے حوض پر آسکیں گے۔اور جو لوگ ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کریں گےاور ظلم پر ان کی مدد نہیں کریں گے یہی لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔اور یہ میرے حوض پر بھی وارد ہونگے۔
اس روایت پرصحیح ابن حبان میں باب قائم ہے کہ
ذکر تعوذ المصطفی ﷺ من امارۃ السفھاء
یعنی نبیﷺ کا بے وقوفوں کی امارت سے پناہ مانگنا۔اس روایت میں نبیﷺ کے الفاظ ہیں ’’اعاذنا اللہ ‘‘ یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں۔
اور ان کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ جھوٹ بولنے والے اور ظالم ہونگے ۔حکمرانوں کا جھوٹ بولنا اور اور جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر کرسی حاصل کرنا یہ عقل مندی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک روایت میں جھوٹ بولنے والے حکمران کے لئے وعید بیان کی گئی ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم قال ا بو معاوية ولا ينظر إليهم ولهم عذاب ا ليم شيخ زان وملك كذاب وعائل مستكبر‘‘ (صحیح مسلم :107 )
ترجمہ:’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گااور نہ ہی انہیں پاک و صاف کرے گا اور ابومعاویہ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(1) بوڑھا زانی (2)جھوٹا بادشاہ(3) اورتیسرا شخص تکبر کرنے والامفلس ۔‘‘
مذکورہ روایت میں اس قدر سخت وعید کی وجہ یہی ہے کہ ان تینوں قسم کے افراد کو دوسروں کی بہ نسبت یہ تینوں گناہ بالاولیٰ زیب نہیں دیتے ،اور دوسروں کی بہ نسبت انہیں تو ان گناہوں سےزیادہ بچنا چاہئے تھا ،کیونکہ یہ ان کے لئے ان گناہوں سے دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آسان تھا۔اسی لئے ان کے لئے مذکورہ گناہوں کے حوالے سے سزا بھی خصوصی اور زیادہ سخت ہے۔اور یہ بہت بڑی سزا ہے کہ اللہ تعالی نہ ان سے کلام کرے اور نہ ہی ان کاتزکیہ کرے اور پھر ان کے لئے درد ناک عذاب بھی ہے۔
یہ تینوں گناہ مذکورہ تینوں قسم کے افراد کی بے وقوفی کو بھی واضح کرتےہیں اور بالخصوص جھوٹا بادشاہ جیسا کہ پچھلی حدیث میں صراحت کے ساتھ بے وقوف بادشاہ کے اوصاف میں دروغ گوئی کابھی بیان ہوا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کی گئی یہ پیشین گوئی آج من و عن پوری ہوتی جارہی ہے،اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جمہوریت کے راستے سے انتہائی نااہل اور عدیم البصیرت قسم کے افراد عہدوں کے وارث بن جاتے ہیں اور ان عہدوں کے حصول کے لئے انہیں دروغ گوئی سمیت دھوکہ ،فراڈ ،رشوت اور نہ جانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ۔اور پھر جس طرح سے یہ عہدوں کو حاصل کرتے ہیں ،کیسے یہ ممکن ہے کہ ان گناہوں اور معاشرے کی بربادی کے بنیادی اسبا ب کو ختم کریں،نتیجتاً ایسے جھوٹے مکار اور عدیم البصیرت حاکم کی وجہ سے برائیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مزید جنم لیتی ہیں۔اور ہر خاص و عام یہ بھی جانتا ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی اکثریت اسی قبیل کی ہے ،بہت ہی کم لوگ ہونگے جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا ہوگا ؟؟
بہرحال ایسے لوگوں کی امارت قیامت کی علامات میں سے ہے۔لہٰذا بصیرت صحیحہ کے حصول کے لئےدعائیں بھی کرنی چاہییں اور اہل علم اور اہل بصیرت سے تعلق بھی رکھا جائے۔اور رسول اللہﷺ کی طرح پناہ بھی مانگنی چاہئے۔جیساکہ اس حوالے سے حدیث گزری۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ امارت سفھاء کا مسئلہ صرف بے وقوفوں کی امارت تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی لپیٹ میں پورا معاشرہ بھی آجاتا ہے ،کیونکہ قرآن مجید میں فرمان الہی ہے :
وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ     (الانعام: 129)
ترجمہ : اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنا دیں گے کیونکہ وہ (مل کر ہی) ایسے کام کیا کرتے تھے۔
اس آیت کے مختلف معنی کئے گئے ہیں ایک معنی یہ ہے کہ جہنم میں باہم ظالم ایک دوسرے کے ساتھ ہونگے ۔دوسرا معنی دنیا میں بھی ظالم و کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔اور تیسرا معنی ظالم لوگوں پر اللہ ظالم لوگ ہی مسلط کردیتا ہے ،خواہ وہ حکمرانوں کی صورت میں یا کسی اورصورت میں ۔چناچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومعنى الآية الكريمة كما ولينا هؤلاء الخاسرين من الإنس تلك الطائفة التي أغوتهم من الجن كذلك نفعل بالظالمين نسلط بعضهم على بعض ونهلك بعضهم ببعض وننتقم من بعضهم ببعض جزاء على ظلمهم وبغيهم
ترجمہ : ’’آیت کامطلب یہ ہے کہ ہم نے جس طرح ان نقصان یافتہ انسانوں کے دوست ان بہکانے والے جنوں کو بنا دیا، اسی طرح ظالموں کو بعض کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں، اور بعض کو بعض کے ذریعے سے ہلاک کردیتے ہیں اور ہم ان کے ظلم و سرکشی اور بغاوت کا بدلہ بعض سے بعض کو دلا دیتے ہیں ۔‘‘(تفسیر ابن کثیر )
خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں میں سے جو بھی معنی مراد لیا جائے تینوں کے عموم اور وسعت میں ظالم حکمرانوں کا تسلط بھی آجاتا ہے اور تیسرے معنی میں تو سب سے زیادہ واضح ہے نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے جو معنی بیان کیا ہے ۔لہٰذا اس آیت کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جیسے لوگ ویسے حکمران ،یعنی حکمرانوں کی بے وقوفی لوگوں کی اکثریت کی بے وقوفی کی دلیل ہے ، ہم اس استدلال کی بنیاد اسی آیت مبارکہ پر رکھ رہے ہیں ،البتہ اس مضمون کی ایک ضعیف روایت بھی ہے
[كما تكونوا يولى عليكم]
ترجمہ :’’جیسے تم خود ہوگے ویسے ہی حکمران تم پر مسلط کردئیے جائیں گے ۔‘‘(سلسلۃ الضعیفۃ للالبانی :320)
اس روایت کوسنداً ضعیف ثابت کرنے کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں :
ثم إن الحديث معناه غير صحيح على إطلاقه عندي، فقد حدثنا التاريخ تولي رجل صالح عقب أمير غير صالح والشعب هو هو! .
 یعنی : اس حدیث کا معنی بھی مطلق طور میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ غیر صالح آدمی کے بعد صالح آدمی امیر بن جاتا ہے۔حالانکہ عوام تو وہی کی وہی ہے۔
جہاں تک علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس کلام کا تعلق ہے، اس حدیث کے سنداً ضعیف ہونےمیں ہم بھی متفق ہیں، لیکن اپنی ناقص العلمی کا اعتراف کرتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت اگر چہ ضعیف ہے ،لیکن مذکورہ قرآنی آیت اور صحیح احادیث کو سامنے رکھا جائے تو مفہوم یہ نکلتا ہےکہ ایسا قیامت کے قریب ہوگا کہ لوگوں کی اکثریت فہم و دانش سے دورہوجائے گی اور ایسے ہی حکمران ان پر مسلط کردئیے جائیں گے۔اس معنی کی روایات سے یہی مفہوم مراد لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ اس کا تعلق قربِ قیامت سے ہے،لہذا ان کا پچھلی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں،مزید یہ کہ دور حاضر میں ایسے مناظر بکثرت دیکھے جارہے ہیں۔واللہ اعلم -

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول