Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ

16 Feb,2014

اے اصحاب اقتدار پاکستانی عوام اور معصوم بچوں کا کیا جرم ہے جو ایک نوالہ روٹی اور ایک گھونٹ پانی کو ترس رہے ہیں۔ اے حکمرانوں! جب تم اقتدار میں نہیں تھے تو تمہارے پاس بلٹ پروف گاڑیاں عظیم الشان بنگلے کہاں تھے۔ جب تم اقتدار میں آئے تو قوم کاسارا مال ہڑپ کر گئے۔ آج قوم کو تم نے سوائے بھوک و افلاس کے کچھ نہیں دیا وہ یتیم بچے جو بلک بلک کر اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹ جاتے ہیں۔ وہ بے روزگار جو اپنے بچوں کی معیشت کے بارے میں پریشان ہیں وہ افلاس مند جن کے لیے دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔ وہ جن کی عزتوں کا تماشا کیا گیا۔ وہ بے آبرو بے کس جو فٹ پاتھوں پر پڑے اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور ان کو ایک وقت کا کھانا کھلا دے۔ ان تمام لوگوں کا حساب کون چکائے گا۔ جبکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی میری لاپروائی سے مرجائے تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے متعلق بھی مجھ سے سوال ہوگا تو جو عوام آپ کے پاس اقتدار ہوتے ہوئے بھی آپ کے انصاف سے محروم ہوں ان کے متعلق کیا خیال ہے؟

اے حکمرانوں کی جماعت! اس کرب و درد میں سسکتی ہوئی قوم پر اتنا ظلم کرو جتنا کل اللہ کے دربار میں حساب دے سکو۔ اگر بے کسوں کا مداوانہ کیا گیا تو کل قیامت کو ان کے ہاتھ اور تمہارے گریبان ہونگے پھر تمہیں اللہ کی عدالت سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔

ہاں! اگر اللہ کے دربار میں کامیابی چاہتے ہو تو اللہ کے لیے اس قوم کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم کا ساماں کرو۔ لیکن افسوس کہ اس ملک عظیم پر ہر طرف مردہ خور گدھ ہی منڈلا رہے ہیں۔ نہ بھاگنے والوں کی منزل اور نہ رکنے والوں کو کوئی پناہ، جینا مرنا دونوں ہی مشکل نظر آتےہیں۔

حکمرانوں! اگر آج قوم سے غداری کرو گے تو جان لو کہ رات کے نالے اور دن کے ہاڑے عرش عظیم کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں تم اپنے جھوٹے آقاؤں ہنود و یہود کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی عوام پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہو۔

اے سابق اور موجودہ حکمرانوں! ابھی تو شروعات تھی کہ قوم کا اعتماد کچل کر رکھ دیا گیا پسی ہوئی قوم کا خیال کرتے اگر تم نے اپنا رویہ ایسا ہی رکھا تو تمہارا حال ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے بدتر ہوگا۔ غرور اور تکبر اللہ کو پسند نہیں اگر یہ امانت جو تم نے اپنے سر لے ہی لی ہے تو قوم سے دھوکہ نہ کرو۔ تمہارا مستقل ٹھکانہ امریکہ، لندن، برطانیہ، دبئی اور ایوان بالا نہیں بلکہ قبر کی اندھیر کوٹھڑی ہے جہاں اغیار کی پالیسی کام نہیں آئے گی پھر غیر کی تجویز چھٹکارا نہیں دلائے گی، پشت پناہی کے لیے سپر پاور کی امداد نہیں آئے گی پھر اکیلی جان اندھیرے میں گھبرائے گی اگر وہاں چھٹکارا چاہتے ہو تو عوام کے رستے ہوئے زخموں پر نمک پاشی نہ کرو۔ جن دشمنوں کی پالیسیوں کو اپنا کر تم اپنی زیست کو مزین کرنا چاہتے ہو ان درندوں کے دانتوں سے ابھی تک معصوم بچوں کا خون ٹپک رہا ہے عراق، افغانستان، شام، فلسطین، برما، صومال، کشمیر اور اب وزیرستان میں خون کی ندیاں بہانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اور اب یہ بات سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ نیٹو فوج پاکستان میں جب چاہے جہاں چاہے من مانی کاروائی کر سکتی ہے۔ پاکستان احتجاج ریکارڈ کروا بھی دے تو پاکستان کو اعلان کرنا پڑتا ہے کہ یہ کاروائی ہماری مرضی سے کی گئی یا ہم نے خود کی ہے۔ اور ویسے بھی کمزور اور کم ہمت غلامانہ ذہنیت رکھنے والے اپنوں کے لیے شیر اور اپنے آقاؤں کے لیے راکھ کا ڈھیر ہوتے ہیں ایسی ہی کسی کیفیت کی تعبیر کے لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا:

؎ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اے اصحاب حل و عقد! ہوش کے ناخن لو ان معصوم اور تڑپتی لاشوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

اپنا حال اس طوطے کی طرح نہ بناؤ جس کے گلے میں لال رنگ کا طوق غلامی ہوتا ہے وہ اپنے مالک کی رٹی رٹائی باتیں دہراتا رہتا ہے۔ پنجرے میں رہ رہ کر اس کی قوت پرواز یا خواہش پرواز ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو آزاد بھی کیا جائے تو اڑ کر زیادہ دور نہیں جا سکتا۔

اے ارباب نشاط! جس ملک کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہے اس کی تاریخ پڑھ کر دیکھو اس کے حصول کے لیے جانوں کو تڑپایا گیا نوجوان لڑکیوں کو ان کے ورثاء کے سامنے بے آبرو کیا گیا نوجوانوں کے سرنیزوں کی انیوں پہ لٹکائے گئے، ماؤں، بہنوں کی عزتوں کا تماشا کیا گیا لیکن افسوس آج اسی ملک پر بے حس مسلط ہیں جو ملک و ملت کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنی ذاتی ساکھ بچانا چاہتے ہیں۔ حکومت کے منصب کو سنبھالنا ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک یا پانی کے بہاؤ پر بہہ جانے والے کیڑوں مکوڑوں اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں ہیں۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلا موں کے لیے نہیں ہوں اور جو صبغۃ اللہ (اللہ کا رنگ) کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ عزیز رکھتے ہوں۔

انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوتا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نام ہے اور مڑجانے کا نام نہیں موڑ دینے کا نام ہے دنیا میں کبھی بزدلوں نے انقلاب برپا نہیں کیا جو لوگ اپنا کوئی اصول، نصب العین، مقصد حیات اور بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ اور مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں اور جو غیر کے سانچے میں ڈھل جاتے اور دباؤ میں آجاتے ہوں ان کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں ملتا تاریخ بنانا صرف بہادروں کا کام ہے بزدلوں کا نہیں۔

اے حکمرانوں! دنیاوی عدالتون سے معافی حاصل کرنا اور بریت حاصل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اخروی عدالت بھی تمہیں بری کر دے گی بلکہ وہاں تو ’’ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ‘‘ کا سامنا ہو گا اور قرآن کا فیصلہ سن لیں:

وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا   (الکھف 49)

اور کہیں گے ’’ہائے ہماری بدبختی اس کتاب نے نہ تو کوئی چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی، سب کچھ ہی ریکارڈ کر لیا ہے۔

اے صاحب اختیار! اس دن اقتدار، سرداری، چودھراہٹ، سطوت، شان اور مقام کام نہیں آئے گا۔ اس لیے آج اس فریضہ کو ایمان داری سے سر انجام دو وگرنہ یاد رکھو۔

اے حکمرانوں! اپنی جان کے متعلق اللہ سے ڈرو۔ آپ اکیلے پیدا ہوئے اکیلے مریں گے اکیلے اٹھیں گے اکیلے ہی حساب دیں گے اللہ تعالیٰ کی قسم جن لوگوں کو آج آپ اپنے قریب ترین دیکھ رہے ہو ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہ ہوگا۔ ہم آپ کو وہی وعظ و نصیحت کرتے ہیں جو سلف الصالحین حکام کو کیا کرتے تھے کہ لوگوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اللہ کے معاملے میں لوگوں سے نہ ڈرو، تمہارا قول فعل کے خلاف نہ ہو کیونکہ بہترین قول وہ ہے جس کی فعل تصدیق کرے۔

جو بھی مسلمانوں کے کسی کام کا والی ہو اسے قیامت کے روز اس حال میں اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن پر بندھے ہونگے اسے جہنم کے پل پر کھڑا کیا جائے گا اور وہ پل اس کو اس طرح جھنجھوڑے گا کہ اسے اپنا ہر جوڑ اکھڑتا ہوا معلوم ہوگا پھر اسے واپس لا کر اس کا حساب کیا جائے گا اگر وہ نیک ہوگا تو اپنی نیکی کی وجہ سے نجات پا جائے گا اور اگر برا ہوگا تو وہ پل اس کے لیے ٹوٹ جائے گا اور وہ ستر سال کی راہ تک جہنم میں گرتا جائے گا۔

بیروت کا قصائی

اسرائیل کا سابق وزیر اعظم اور وزیر جنگ و جدال لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ لال کرنے والا ایریل شیرون85 سال کی عمر میں دماغی فالج کی وجہ سے مسلسل 8 سال تک کومہ کی حالت میں رہنے کے بعد 11 جنوری 2014 کو جہنم واصل ہو گیا۔

مسلمانوں کا بدترین دشمن اور فلسطینیوں کا قاتل 8 سال تک زندہ لاش بنا رہا یہ وہی ظالم اور جابر تھا جس نے 1982ء میں لبنان جنگ کے دوران وزیر دفاع ہوتے ہوئے فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں، صابرہ اور شتیلا پر شب خون مارنے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں 460 صابرہ اور شتیلا میں 3500 نہتے فلسطینیوں کو بہت بے دردی اور سفاکی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کا قاتل ایریل شیرون کی انتہائی دردناک موت مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی حکمران خاص طور پر اور ہر ظالم، جابر اور آمروں کو عام طور پر چاہیے کہ اس ظالم کی موت سے سبق حاصل کریں اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد سے باز آ جائے۔ اگر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر قانون الٰہی مکافات عمل سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔ جیساکہ آج کل بہادر کمانڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والا بزدل آمر پرویز مشرف مکافات عمل کا مزہ چکھ رہا ہے۔ دنیا میں ظلم و جبر کرنے والوں کو یاد رہنا چاہیے کہ ایسے ظالم نہ صرف آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قہر و غصب کے مستحق ہیں بلکہ دنیا میں بھی انہیں عبرتناک سزا ملتی ہے۔

پس جان لو!

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ

آپ کے پروردگار کی گرفت یقینا بڑی سخت ہے۔

Read more...

زلزلوں کی کثرت اسباب اور حل

03 Jul,2016

بہت سارے ممالک زلزلوں کاشکار ہوئے ہیں مثلا ترکی،کسیکو،تائیوان،جاپان وغیرہ توکیا یہ کسی چیز پر دلالت کرتے ہیں ؟
الحمد للہ
سب تعریفات اللہ تبارک وتعالی کے لیے ہی ہیں اوراللہ تعالی کے رسول محمد ﷺان کی آل اورصحابہ اورنبی ﷺکی طریقہ پرچلنے والوں پر درود وسلام ہو :
بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے فیصلے میں علیم وحکیم ہے ، اوراسی طرح وہ شریعت اوراحکام میں بھی علیم وحکیم ہے ، وہ اللہ سبحانہ وتعالی جوچاہے اپنی نشانیوں کو پیدا فرماتا اور اسے اپنے بندوں کے تخویف اورڈراور نصیحت وعبرت کا باعث بناتا ہے اورانہیں ان پرجواحکامات واجب کیے ہیں ان کی یاددہانی کرانے کا باعث بناتا ہے ، اوراسی طرح اس میں انہیں شرک سے بچنے کی تحذیر اور اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حکم کی مخالفت نہ کریں اورجس سے روکا گیا ہے اس کے مرتکب نہ ٹھہریں جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا جس کا ترجمہ یہ ہے :
’’ ہم تولوگوں کوڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں ‘‘ (الاسراء :59 )
اوردوسرے مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :
’’ عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی اورخود ان کی اپنی ذات میں بھی دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ حق یہی ہے ، کیا آپ کے رب کا ہرچیز پرواقف اوراگاہ ہونا کافی نہیں ‘‘۔
( فصلت : 53 )
اورایک جگہ پر کچھ اس طرح فرمایا :
’’ آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئی عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کوگروہ گروہ کرکے سب کو بھڑا دے اورتمہارے ایک کودوسرے کی لڑائی چکھا دے ‘‘۔
(الانعام : 65 )
امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے اپنی صحیح میں جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
جب یہ آیت نازل ہوئی:
’’ آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئی  عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے ‘‘۔
تونبی ﷺنے فرمایامیں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں،{یا تمہارے پاؤں تلے سے } تونبی ﷺ نےکہا اعوذ بوجھك میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ۔( صحیح بخاری   5 / 193 )
اورابوشیخ اصبھانی رحمہ اللہ نے مجاھد رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر { آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئی عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے } میں سے نقل کیا ہے کہ یہ تم پرچیخ اور پتھر اور آندھی بھیج دے { یا تمہارے پاؤں تلے سے } انہوں نے کہا کہ نیچے سے زلزلہ اورزمین میں دھنسانا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دنوں بہت سارے ممالک میں جوزلزلے آرہے ہیں وہ انہیں نشانیوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالی اپنے بندوں کوتخویف دلاتا اور یاددہانی کراتا ہے ، یہ سب زلزلے اور دوسرے تکلیف دہ مصائب جن کا سبب شرک وبدعت اورمعاصی وگناہ ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :
’’ تمہیں جوکچھ مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے اپنے
ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اوروہ ( اللہ تعالی ) توبہت
سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ‘‘۔ ( الشوری  30 )
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا :
’’ تجھے جوبھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جوبرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ۔‘‘
( النساء  79 )
اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے متعلق فرمایا :
’’ پھرتو ہم نے ہرایک کواس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ان میں سے بعض پرہم نے پتھروں کی بارش برسائی اوربعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا اوراللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں ‘‘۔
(العنکبوت  40 )
تو مکلف مسلمان وغیرہ پریہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں اور معاصی سے توبہ کرے،اوراپنے دین اسلام پر استقامت اختیار کرے اورہرقسم کےگناہ اورشرک وبدعات سے بچے تاکہ اسے دنیا وآخرت میں ہرقسم کے شرسے نجات وعافیت حاصل ہو اوراللہ تعالی اس سے ہرقسم کے مصائب وبلایا دورکرے اورہرقسم کی خیروبھلائی عطافرمائے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے :
’’ اوراگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تم ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی توہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا ۔‘‘ (الاعراف  96)
اورایک جگہ پر اللہ سبحانہ وتعالی نے اہل کتاب کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا :
’’ اوراگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جوکچھ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اورکھاتے ‘‘۔ ( المائدۃ 66 )
اورایک مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :
’’ کیا پھربھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اور وہ سو رہے ہوں ، اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے اوروہ کھیل کود میں مصروف ہوں ، کیا وہ اللہ تعالی کی اس پکڑ سے بے فکر ہوگئے ہیں تواللہ تعالی کی پکڑ سے نقصان اٹھانے والوں کے علاوہ اورکوئی بے فکر نہیں ہوتا ‘‘۔ ( الاعراف 97 - 99 )
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
بعض اوقات اللہ تعالی زمین کوسانس لینے کی اجازت دیتا ہے توزمین میں بہت بڑے بڑے زلزلے بپا ہوتے ہیں ، تواس سے اللہ تعالی کے بندوں میں خوف اورخشیت الہی اور اس کی طرف رجوع ، معاصی وگناہ سے دوری اوراللہ تعالی کی جانب گریہ زاری اوراپنے کیے پرندامت پیدا ہوتی ہے ۔
جیسا کہ جب زلزلہ آیا تو سلف میں سے کسی نے کہا :
تمہارا رب تمہاری ڈانٹ ڈپٹ کررہا ہے ، اورسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مدینہ میں زلزلہ آیا توفرمانے لگے : لوگوں کوخطبہ دیتے ہوئے انہیں وعظ ونصیحت کی اور کہنے لگے اگر یہ زلزلہ دوبارہ آیا میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دونگا ۔ ابن قیم رحمہ اللہ کی کلام ختم ہوئی ۔
اس پرسلف سے بہت ہی زیادہ اثار منقول ہیں ۔
توزلزلہ یا کوئی اوراللہ تعالی کی نشانی مثلا سورج وچاند گرہن ، اورسخت ترین آندھی اوربگولہ وغیرہ ظاہرہوتو اللہ تعالی کی طرف رجوع اورتوبہ میں جلدی کرنی چاہیے اوراس کی طرف گریہ زاری اوراس سے عافیت کا سوال اورکثرت سے ذکرواذکار اوراستغفار کی جائے جس طرح کہ نبی اکرم ﷺکا معمول تھا اورانہوں نے سورج گرہن کے موقع پرفرمایاکہ :
اگر تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو اللہ تعالی کے ذکر اوراس سے دعا واستغفار میں جلدی کیا کرو ۔
یہ حدیث کا ایک حصہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح ( 2/ 30 ) میں اورامام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم ( 2 / 628 ) میں روایت کی ہے ۔
اوراسی طرح اس وقت فقراء ومساکین پررحم کھانا اوران پر صدقہ کرنا بھی مستحب ہے اس لیے کہ نبی ﷺنے فرمایا :’’رحم کرنے والوں پراللہ ورحمن بھی رحم کرتا ہے ، زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو توآسمان میں رہنے والا (اللہ تعالی) تم پررحم کرے گا ‘‘۔(سنن ابوداود 13 /285 ۔ سنن ترمذی   6 / 43 )
اورایک روایت میں ہے کہ نبی رحمت ﷺنے فرمایا :
’’ رحم کیا کرو تم پربھی رحم کیا جائے گا ‘‘۔ (مسند احمد 2 / 165 )
اور صحیح بخاری میں ہے کہ نبی معظم ﷺنے فرمایا :
’’ جورحم نہیں کرتا اس پربھی رحم نہیں کیا جاتا ‘‘۔ (صحیح بخاری 5 / 75 ۔ صحیح مسلم 4/1809 )
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی گئ ہے کہ وہ زلزلے آنے لگتے تو اپنے گورنروں کو حکم جاری کرتے کہ صدقہ وخیرات کرو ۔
ہربرائی اورشرسے عافیت و سلامتی کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ ولی الامر اورصاحب اقدار و سلطہ بے وقوفوں اور برے لوگوں کوبرائی سے روکیں اورانہیں حق پرلائیں اور اپنی رعایا میں شریعت اسلامیہ نافذ کریں ، اور امربالمعروف اورنہی عن المنکر کو ترویج دیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے بھی اس کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے :
’’ مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگارو معاون اور دوست ہیں ، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے اوربرائیوں سے روکتے ہیں ، نمازکی پاپندی کرتے اوراورزکوۃ ادا کرتے ہیں ، اللہ تعالی کی اور اس کے رسول  ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت جلد رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ تعالی غالب اورحکمت والا ہے ‘‘۔ ( التوبۃ 71 )
اورایک مقام پراللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
’’جواللہ تعالی کی مدد کرے گا اللہ تعالی بھی ضروراس کی مدد کرے گا ، بلاشبہ اللہ تعالی بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤ‎ں جما دیں تویہ پوری پابندی سے نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برائی سے روکیں تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے ‘‘۔
(الحج 40 / 41 )
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے ایک اورمقام پراس طرح فرمایا :
’’اورجوشخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے ، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو ، اورجو شخص اللہ تعالی پرتوکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا ‘‘۔ ( الطلاق 2/3 )
\ اس موضوع میں آیات توبہت زیادہ ہیں ہم اسی پراکتفا کرتے ہیں ۔
اورنبی ﷺکا فرمان ہے :
’’جوبھی اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالی بھی اس کی مدد میں رہتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری 3 / 98 ۔ صحیح مسلم 4 / 1996 )
اورنبی مکرم ﷺکا یہ بھی فرمان ہے :
’’ جس نے بھی کسی مومن سے دنیاوی تکلیف کا ازالہ کیا تواللہ تعالی روز قیامت اس کی تکلیف ختم کرے گا ، اور جس نے کسی تنگ دست پرآسانی کی اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت میں آسانی فراہم کرے گا ، اورجس نے بھی کسی مسلمان کی ستر پوشی کی اللہ تعالی دنیاوآخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا ، اوراللہ تعالی اس وقت بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے ‘‘۔
( صحیح مسلم 4 / 2074 )
اوراس طرح کی احادیث بھی بہت زیادہ ہیں ۔

اللہ تعالی ہی سے ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے ، اورانہیں دین کی سمجھ عطافرمائے اوردین اسلام پراستقامت نصیب فرمائے اورہرقسم کے گناہوں اورمعاصیات سے توبہ کرنے کی توفیق دے ، اورسب مسلمان حکمرانوں کوبھی درست کرے اور ان کے ساتھ حق کی مدد فرمائے اورباطل کوان کے ساتھ ذلیل ورسوا کرے اور انہیں اللہ تعالی کے بندوں میں شریعت اسلامیہ نافذ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
انہیں اورسب مسلمانوں کو ہرقسم کی گمراہی اورفتنوں اورشیطان کی وسوسوں سے محفوظ رکھے بلاشبہ اللہ تعالی اس پرقادر ہے آمین یا رب العالمین ۔
اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ﷺان کی آل اورصحابہ کرام اورقیامت تک ان کے طریقے پرچلنے والوں پررحمتیں برسائے ۔آمین
(دیکھیں : مجلۃ بحوث الاسلامیۃ عدد نمبر 51  سال  1418 ھ)

Read more...

مغربی میڈیا اور امت مسلمہ

10 Aug,2012

گذشتہ دو عشروں سے عالم اسلام پر الیکٹرانک میڈیا کی یلغار ہے، ٹی وی چینلز کے سیلاب کے ذریعے معاشرتی و اخلاقی اقدار کو بدل کر رکھ دیا گیا ہے، اگرچہ اخبارات اور رسائل میں بھی روز افزوں ترقی کا عمل جاری رہے لیکن ٹی وی چینلز نے اسلامی ثقافت پر گہری ضرب لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔

مغرب کا ہدف کیا ہے؟

اس کا اندازہ ایک فرانسیسی رسالے "لے مونڈ ڈپلومیٹ" میں شائع مضمون سے ہوسکتا ہے جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ :(اسلام کے خلاف جنگ صرف فوجی میدان میں نہیں ہوگی بلکہ ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی معرکہ آرائی ہوگی)۔امریکی فلمی مرکز ہالی ووڈ اسلام مخالف سازشوں کا مرکز گردانا جاتا ہے، ایک صدی سے زائد مدت تک یہاں فلموں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و کدورت، بغض و کینہ پوری دنیا میں پھیلایا جاتا رہا ہے۔

بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں ہالی ووڈ نے مسلم دشمنی پر مبنی فلمیں تیار کیں، جبکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا تجرباتی ڈراما اسٹیج کرنے کے لئے 1992میں "True Lies" اور "siege"نامی فلمیں بنائیں، ان فلموں میں اسلام اور مسلمانوں کا تشخص بری طرح مجروح کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو امن دشمن اور دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ انڈین میڈیا اور فلم نگر بھی پاکستان اور اسلامی شعائر اور اسلام مخالف ڈراموں اور فلموں کی تیاری میں سرگرداں ہے۔ انڈین ڈراموں نے پاکستانی اور اسلامی ثقافت، معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔بلکہ اب تو بعض پاکستانی ٹی وی چینلز بھی اسلام اور پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں پیش پیش ہیں۔

نائن الیون کے امریکا اور مغربی ممالک نےاسلحہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جدید میڈیا ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے، امریکا عالم اسلام کے وسائل، معدنیات اور تیل پر قبضہ کا خواہاں ہے، افغانستان اور عراق پر قبضہ اور نائن الیون کا خود ساختہ ڈراما اسی سلسلے کے کڑی ہے۔ عالم اسلام پر امریکی جارحیت اور مغربی میڈیا کا بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈہ چہار اطرف سے امت مسلمہ کے گرد گھیر اتنگ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔مغرب نے دنیا بھر کی معیشت اور میڈیا پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے، مصر سمیت کئی مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات مغرب کے زیر اثر ہیں۔

اسلام کے خلاف مغربی میڈیا کی پروپیگنڈہ مہم اور ہمارے کرنے کے کام

کبھی مغربی میڈیا میں توہین آمیز خاکے شائع کئے جاتے ہیں اور کبھی ہالینڈ میں قرآن اور اسلامی شعائر کے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیںمغربی میڈیا وقتا فوقتا مسلمانوں کو دہشت گرد،جہادی،اوربنیادپرست، ثابت کرنے کے لئے اپنی مہم چلائے رکھتا ہے۔

مسلم حکومتوں اور اداروں کا فرض ہے کہ وہ مغربی میڈیا کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے جامع پالیسی تشکیل دیں، عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اس اہم مسئلہ سے پہلو تہی برتی جارہی ہے،آج میڈیا کے محاذ پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے، مسلم تنظیموںاور اسلامی تحریکوں کو میڈیا کے میدان میں سرگرم عمل ہونا چاہئے اور اپنے اپنے دائرے میں ایسے افراد تیار کرنے چاہئیں جو میڈیا ٹیکنالوجی کو سمجھ سکیں اور تعمیری جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلم ممالک اپنی روایات، ثقافت اور نظریاتی اساس کے پیش نظر اپنی میڈیا پالیسی ترتیب دیں، حالات حاضرہ کے پروگرامز’’ٹاک شوز‘‘قومی نظریاتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں،پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو مغرب کی اندھی تقلید اور نقالی نہیں کرنا چاہئے۔

ٹی وی ڈراموں میں اسلامی تاریخ و ثقافت کو پروان چڑھانا چاہئے، اگر احساس زندہ ہو توآج بھی مثبت اور تعمیری تفریح کو مسلم ممالک میں فروغ دیا جاسکتا ہے،، تعمیری، اصلاحی، تاریخی اور معلوماتی پروگرامز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

مغرب کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ امت مسلمہ کے جذبات کو جانچنے کے لئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ایشوز اٹھاتا ہے، اسلامی شعائر کی توہین کی جاتی ہے تو مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے رد عمل سامنے آتا ہے، لیکن میڈیا کے ذریعے اس کا جواب نہیں دیا جاتا،مسلم دنیا کو الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ پر اسلامی تشخص کو عام کرنے اور مغربی پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دینے کے لئے اپنے دائرہ کار اور کاوشوں کو مؤثر اور منظم انداز میں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

مسلم ممالک اور مغرب میں موجود مسلم تنظیمیں بڑے محدود دائرے میں میڈیا کا کام کر رہی ہیں، مغرب نے جس سطح پر میڈیا سے کام لیا ہے وہ مغربی ایجنڈا دنیا پر مسلط کرنے کے لئے خاصہ کارگر ثابت ہوا ہے، مسلم تنظیموں اور اداروں اور تحریکوں کو لئے بے حد ضروری ہے کہ میڈیا کے لئے مناسب بجٹ مختص کریں، الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چیلنلز کو ہدف بنا کر کام کیا جائے،’’پروڈکشن ہائوسز‘‘ کے ذریعے اینکر پرسنز اور پروڈیوسرز کی تربیت کا بندوبست کیا جائے،آئندہ دس سال کا منظر نامہ سامنے رکھا جائے تو مسلم دنیا میں الیکٹرانک میڈیا میں ایسے افراد بڑی تعداد میں دستیاب ہو سکیں گے جو قومی و دینی سوچ اور نظریاتی شناخت کے حامل ہوں گے۔

مسلم ممالک میں تنظیموں اور اداروں کو میڈیا تھنک ٹینک کا قیام عمل میں لانا چاہئے ایسے میڈیا تھنک ٹینک جو مغرب سے مقابلہ کر سکیں، امریکا اور یورپ کے میڈیا تھنک ٹینک اسلام مخالف پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں، میڈیا تھنک ٹینک کے ذریعے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکتا ہے اور حالات و واقعات کی اصل تصویر دنیا کے سمانے پیش کی جاسکتی ہے۔

مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ کے منتظمین اپنی سطح پر محدود دائرے میں کام کر رہے ہیں، مکمل ادراک"Vision"

نہ ہونے اورمؤثرحکمت عملی سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات صحیح طور پر مرتب نہیں ہورہے، مسلم ممالک کی تنظیموں، اداروں اور تحریکوں کے میڈیا سے متعلق افراد کے نیٹ ورک کو منظم اور مربوط کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا جائے، اگر عالم اسلام کی "Media conferences"کا انعقاد تسلسل سے ہو تو نہ صرف میڈیا کے میدان میں پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے بلکہ درپیش چیلنجوں کے لئے مئوثر حکمت عملی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کے عام ہونے کے باعث مطالعہ کا رجحان کم ہوگیا ہے، اب لوگ ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعہ معلومات اور تفریح حاصل کرتے ہیں،پاکستان سمیت مسلم دنیا کے لئے ناگزیر ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کے حقیقی پیغام کو عام کریں، اس مقصد کے حصول کے لئے جدید خطوط پر پروگرامز کی تیاری کے لئے پروڈکشن ہائوس بنانے چاہئیں، اس کی ایک کامیاب مثال"Peace Tv"کی ہے، جہاں سے نشر ہونے والے پروگرامات پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر دیکھے جاتے ہیں، مختلف ممالک میں ایسے ٹی وی چینلز کو قائم کرنے کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جو معاشرے کی تعلیم و تربیت اور شعور و آگہی کو پروان چڑھا سکیں۔

امریکا اور یورپ میں الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا جارہا ہے، اب تو امریکا اور یورپ میں شہروں کی سطح پر حکومت اور این جی اوز کی سرپرستی میں پبلک براڈکاسٹنگ سینٹر بنائے جارہے ہیں، ان ٹریننگ سنٹرز میں میڈیا سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اینکر پرسن، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر اور کیمرہ و ایڈیٹنگ کی تربیت دی جاتی ہے،اس تناظر میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میںپبلک براڈکاسٹنگ سینٹرز کا قیام نہایت ضروری ہے،ان سینٹرز سے بہترین اینکرز، پروڈیوسرز اور دیگر باصلاحیت افراد تیار کئے جاسکتے ہیںجو مسلم دنیا میںمیں گہرے شعور و ادراک کو فروغ کے لئے کام کر سکیں۔

مغربی میڈیا کی جدید ٹیکنالوجی کے جواب میں اگرچہ عالم اسلام میں بھر پور پیش رفت نہ ہوسکی تاہم، سعودی عرب، قطر اور ترکی نے میڈیا کے میدان میں کافی پیش رفت کی ہے اور ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعے اسلام کی دعوت احسن انداز میں پیش کی جارہی ہے، تاہم مسلم ممالک میں جدید ٹیکنالوجی سے ابھی تک خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جاسکا، الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں پیش رفت کے لئے مئوثر اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے،اسلامی تحریکیں ، میڈیا ادارے اور مسلم تنظیمیںہر سطح پر اس کے لئے بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں، مسلم دنیا اگر مجوزہ سفارشات اور خطوط پر احسن انداز میں اقدامات اٹھائے تو امت مسلمہ میڈیا کے محاذ پر درپیش چیلنج کا پھر پور اورمؤثر جواب دے سکے گی۔

Read more...

موجودہ حالات میں فوج کا کردار

15 Sep,2013


6 ستمبر 1965کو جب فضائے بسیط میں پھیلی رات اپنی سیاہ و دبیز چادر سمیٹ چکی تھی، درختوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کوئل کی کوک ماحول کو سحر انگیز کر رہی تھی۔ وسیع و عریض نیلگوں آسمان تلے روئی کے گالوں کی مانند بادل ایک دوسرے کے تعاقب میں بھاگ رہے تھے۔ مشرق کی جانب سے شفق کی لالی ہویدا ہونے لگی تھی، لگتا تھا کہ سورج بھی رات کی گمبھیر تاریکیوں کے حصار سے آزاد ہو کراپنی سنہری اور تابناک کرنوں کا جال روئے ارض پر پھیلانے کی تیاری میں تھا۔ اسی رنگ و آہنگ کے دلفریب ماحول میں اچانک… وطن عزیز کے پڑوسی ملک بھارت نے غیر اعلانیہ طور پر بزدلانہ انداز سے حملہ کر دیا۔پاکستان کے دل شہر لاہور اور اس کے مضافات کے دیہاتوں میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ یلغار کر دی۔ ایک طرف بھاری توپیں شہری آبادیوں پر آتش و آہن کی بارش کر رہی تھیں تو دوسری جانب لڑاکا طیارے وقفے وقفے سے شہروں پر بمباری کر رہے تھے۔

پاکستان کے عوام کو اس بزدلانہ حملے کی اطلاع 6ستمبر کی دوپہر اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان کی نشری تقریر سے ملی۔ صدر پاکستان کی ولولہ انگیز تقریر نے پوری قوم کے اندر ایک نئی روح پھونک دی اور وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوگئی۔ صدر پاکستان نے قوم کو اسی نعرۂ تکبیر کے حوالے سے مخاطب کیا جو تحریک پاکستان کا نعرہ تھا یعنی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ صدر ایوب کہا:

’’ میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم،

دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے۔آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے پر لاہور سے حملہ کیااور بھارتی بیڑے نے وزیرآباد پر کھڑی ہوئی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا۔بھارتی حکمراں شروع سے ہی پاکستان   کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس آزاد مملکت کو انہوں نے کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ پچھلے اٹھارہ برس سے وہ پاکستان کے خلاف جنگی تیاریاں کر تے رہے ہیں۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل میں لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں ہو جا تیں۔ ہندوستانی حکمراں شاید ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ہمارے دلوںمیں ایمان و یقین کی طاقت ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم سچائی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ملک میں آج ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دشمن کو فنا کر نے کے لیے ہمارے بہادر فوجوں کی پیش قدمی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی مسلح فوجوں کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع عطا کیا ہے۔

میرے ہم وطنو! آگے بڑھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ خدا تمھارا حامی و ناصر ہو۔ آمین، پاکستان پائندہ باد‘‘۔

جب جنگوں کا عفریت سر ابھارتا ہے تو متحارب ملکوں میں خوف و دہشت اور افرا تفری کی فضا جنم لیتی ہے، مایوسی ، جان و مال کے تحفظ کا خدشہ، غیر یقینی کی کیفیت، گرانی، ذخیرہ اندوزی، قحط سالی، لوٹ مار اور نت نئے جرائم کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ طلب و رسد کا توازن بگڑجاتا ہے، یہ ہر جنگ کا منطقی تقاضا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جنگ ستمبر کے دوران پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے بر خلاف بھائی چارگی، حب الوطنی، جوش و ولولہ،نیک نیتی اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کے شدید جذبات پاکستانی معاشرےمیں اجاگر ہو گئے۔ ایوب خان کے الفاظ نے جادو کا سا کام کر دکھایا۔ پوری قوم ملی یک جہتی کے ساتھ دشمن کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاعروں نے سینوں میں گرماہٹ پیدا کر نے کے لیے جنگی نغمے لکھے، ان نغموں کے ذریعے عوام اور فوجوں میں جذبۂ شہادت کو اجاگر کیا۔ان دنوں ریڈیو اور اخبارات ہی ابلاغ کا ذریعہ تھے، چنانچہ ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں کے وقت ایک مجمع سا لگ جاتا تھا۔ دوسری طرف ملک میں شہری دفاع کا نظام تشکیل دیا گیا۔ رضا کاروں کی بھرتی شروع ہوئی۔ہسپتالوں اور طبی مراکز میں خون کے عطیات دینے والوں کی قطاریں لگ رہی تھیں۔کیا نوجوان کیا بوڑھے ، سب ہی شوق شہادت کے متمنی تھے۔خندقیں کھودی گئیں مگر کسی ایک فرد کو بھی خطرے کے سا ئرن بجتے وقت ان میں چھپتے نہ دیکھا گیا، بلکہ عین خطرے کے وقت لوگ محلے کی گلیوں اور سڑکوں پر آجاتے یا مکان کی چھتوں پر چڑھ جاتے۔۔ شاید زندہ قوموں کی یہی پہچان ہے۔

پاکستانی قوم میں اس معجزاتی قلب ماہیت کا سب سے بڑا سبب اس کے سوااور کچھ نہیں تھا کہ مملکت کے حکمران نے اس قوم کو اللہ اور رسول کے حوالے سے پکارا تھا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے قوت محرکہ صرف اسلام ہے۔یہ اسلام ہی تھا جس نے ان بدووں کی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی جن کی پوری معاشرت اورعقائد و رسومات پر جہالت کے دبیز پردے پڑے ہوئے تھے۔ غور کیا جائے تو پاکستان کا وجود تو خود ایک معجزہ ہے۔ اس کی بنیادوں کی آبیاری بھی اسلام کے آب مصفٰی سے کی گئی ہے۔اسلام ہی وہ قوت محرکہ(motivating force)ہے جو قوموں کی اجتماعی وانفرا دی زندگی کا ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات پیش کرتا ہے۔یہ اسلام کی ہی برکات ہیں کہ دنیا کے بیشتر خطوں میں جابر و فاسق حکمرانوں کے خلاف احیائی تحریکیں جنم لے رہی ہیں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے راہیں ہموار ہورہی ہیں۔

بہر حال پاکستانی قوم کی عظمت و عزیمت ، جوش و ولولے اور نیک نیتی نے اور پاک فوج کی بہادرانہ اور جذبہ ٔ سرفروشی نے وطن کی عزت و آبروبچا لی اور بھارت جیسے مکار اور ازلی دشمن کو ذلت آمیز شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ لاالہ الا اللہ کی نا قابل تسخیر قوت نے پاکستان کو نمایاں فتح عطا فرمائی۔یہ پاکستان کی عوا می اور عسکری یک جہتی اور حب الوطنی کی داستا ن تھی۔اس فتح و کامرانی کا چہرہ روشن اور تابناک ہے۔

اس خوش کن اور فتحیابی کے واقعہ کو گزرے 48برس بیت چکے ہیں ۔ آج وطن عزیز بدترین حالت سے دوچار ہے۔وہ خارجی اور داخلی دونوں جانب سے شدید خطرات کی زد میں ہے۔اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سلامتی مخدوش ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس کی سرحدوں کا تقدس پامال نہ کیا جاتا ہو، امریکا کو کھلی آزادی ہے کہ وہ جب چاہے، کہیں بھی ڈرون حملے کرسکتا ہے۔ شمال مغربی سرحدوں سے جب چاہتا ہے در اندازی کر کے پاکستان کی حدود میں گھس آتا ہے ، فوجی چوکیوں اور تنصیبات پر حملہ کر کے پاکستان کی سرحدوں اور اس کی سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے۔

اندرون ملک حالات روز افزوں بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں آئے دن خود کش حملے اور بم دھماکے ہورہے ہیں، مسجدیں، مدارس اور دینی مراکزتک اس دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے۔ بچیوں کے اسکولوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔دوسری جانب ملک کا سب سے بڑا معاشی و اقتصادی شہر کراچی برسوں سے بد امنی ، لاقانونیت اور دہشت گردی کا شکار ہے۔روزانہ پندرہ سے بیس افراد، جن میں نوجوان ، بوڑھے، خواتین اور معصوم بچے اس درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔اغواء برائے تاوان اور بوری بندمسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ جاری ہے۔انتظامیہ قطعی بے بس ہے یا خاموش تماشائی بن کر اپنی سیاسی آویزشوں میں مگن ہے۔کبھی پاکستان کا مطلب تھا لا الہ الا للہ، مگر آج پاکستان کا مطلب ، کرپشن، لوٹ مار ،ظلم و نا انصافی ،رشوت ستانی،خیانت، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، ہوشربا مہنگائی،بلیک مارکیٹینگ،حصول اقتدار کی رسہ کشی، وطن دشمن عناصر سے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ساز بازہوکر رہ گیا ہے۔

قائد اعظم ؒ کے اس دار فانی سے کوچ کے بعد مسند اقتدار جن ہاتھوں میں آئی ، ان میں سے کوئی بھی محب وطن اور ملک کا خیر خواہ نہیں

آج پاکستان کو بنے تقریبا ً 66 برس ہو چکے ہیں، اور پاکستان بتدریج معاشی، سماجی اور معاشرتی تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔سیاست دانوں نے تو یہ طے کیا ہوا ہے کہ اس بہتی گنگا میں جتنے ہاتھ دھو سکتے ہو دھولو، اس لیے کہ،

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

لیکن ذہنوں میں سوال ابھر تا ہے کہ ان مخدوش ، تباہ کن اور خوف و دہشت کے حالات میں وطن عزیز کی فوج کا کیا کردار ہونا چاہئے، آیا فوج کی ذمہ داری محض سرحدوں کی حفاظت کر نا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سرحدوں کے حوالے سے بھی صداقت آمیز جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ہماری تو سرحدیں بھی پوری طرح محفوظ و مامون نہیں ہیں۔پڑوسی ملک بھارت آئے دن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر تا رہتا ہے۔ اس کے طیارے فائرنگ کر کے بھاگ جا تے اور ہمارے بے حس حکمران ایک ڈھیلا ڈھالا سا احتجاج کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔تو ہماری افواج کا کردار تو یہاں بھی پوری طرح فعال نہیں ہے۔پورے ملک اور خصوصاً کراچی شہر میں رینجرز کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو سڑکوں، چوراہوں اور شہر کی بڑی بڑی شاہراہوں پر گشت کر تی نظر آتی ہے ۔لیکن جب بھی شہر کے کسی مصروف ترین علاقے، کاروباری مراکز یا کسی محلے میں کوئی دہشت گردی کی کار روائی ہوتی ہے، خود کش حملہ ہو یا بم دھماکہ، ایسی کسی جگہ پر رینجرز کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اکثر ایسے مقامات پر بھی دن دھاڑے دہشت گردی، لوٹ مار، ڈاکہ زنی اور قتل غارت گری کی کار روائی عمل میں آئی ہے،جہاں صرف چند قدم کے فاصلے پر ہی رینجرز کی چوکی موجود تھی۔ بعض سانحات کے موقعے پر رینجرز کے اہل کاروں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ ہمیں کسی معاملے میں دخل اندازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔گویا کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کوئی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کا شکار ہو جائے یا کوئی دہشت گردی کا نشانہ بن جائے ، یہ صرف حکم کے بندے ہیں، اور یہ ہر جگہ بے جان مجسموں (statue) کی مانند کھڑے رہتے ہیں۔

’’ایک عصری اخبار کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ایک ملاقات میں دیگر امور پر بحث کے ساتھ کراچی میں بڑھتی ہوئی بد امنی اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مجوزہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ٹاسک فورس بنانے پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ عسکری قیادت نے تجویزدی کہ گلی محلوں میں دہشت گردی کے خلاف آ پریشن میں فوج کو نہ گھسیٹا جائے۔ اس سے فوج کی کار کردگی پر اثر پڑنے کا خطرہ ہے۔اور دیگر کئی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔دوسری طرف پولیس اس مقصد کے لیے ویسے ہی فٹ نہیں۔ لہٰذا ایک نیا ادارہ بنایا جائے جسے فوج پوری طرح سے تربیت فراہم کرے گی۔ذ رائع کا کہنا ہے کہ اس ادارے میں آرمی کے ریٹائرڈ کمانڈوز،پولیس اور رینجرز سے دلچسپی رکھنے والے با صلاحیت افسروں اور جوانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بھرتی کی جائیگی اور اس ادارے کی تربیت کی ذمہ داری پاک فوج لے گی۔ اور یہ ادارہ مکمل طور پر دہشت گردی پر فوکس کرے گا‘‘۔

ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے نبٹنے کے لیے یہ یقینا خوش آئند اور راست فیصلہ ہے، جبکہ اس کو بہت پہلے طے ہوجانا چاہیے تھا اور اس کے مطابق عمل شروع ہو چکا ہوتا تو ممکن ہے کہ ہزاروں انسانی جانیں دہشت گر دی کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جاتیں۔ بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق جو حکومت اور عسکری قیادت کے مابین ذہنی ہم آہنگی کے مطابق تجویز کیا گیا ہے، اللہ کرے اس پر ترجیحی بنیادوں پر عمل بھی شروع ہوجائے۔ کیونکہ ہمارے ملک کا المیہ ہی یہ ہے کہ نظم و نسق کے حوالے سے اصول و قوانین تو ایک ہی نشست میں طے کر لیے جاتے ہیں مگر ان پر عمل پیرا ہونے کی نوبت آتی ہی نہیں ہے۔ البتہ ان امور پر فوری عمل کر لیا جاتا ہے جو حکومت کے اپنے مفادات میں ہوتے ہیں۔

کسی بھی ملک کی فوج ایک بہت بڑی قوت اور فعالیت کی حامل ہوتی ہے۔یہ ادارہ تو اپنے اند ر حکومتوں کے تختے الٹنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ اور جمے جمائے اقتدار کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے ہنر جانتا ہے، جبکہ ان حکومتوں کو بیرونی اور اندرونی دونوں طرف سے طاقت اور حمایت (support) بھی حاصل ہوتی ہے ، اس کے باوجود ان کے اقتدار کا دھڑن تختہ عسکری قوت کے ذریعے کر دیا جاتا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کے اندر پنپنے والی سازشیں، شورشیں اور دہشت گردی کی کار روائیاں تسلسل کے ساتھ جاری رہیں اور اپنے مذمو م مقاصد کو غذا فرہم کرتی رہیں۔یقینا کہیں نہ کہیں دال میں کالا ضرور ہوتا ہے۔کبھی مالی منفعتیں آڑے آتی ہیں تو کہیں عہدہ اور منصب پائوں کی زنجیر بن جاتا ہے ، اور ارباب حل و عقدسب کچھ دیکھ کر ، سن کر ، محسوس کر کے بھی ، سنگین حالات کی طرف سے چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں کہ اسی میں ان کے اغراض و مقاصد اور اپنے ذاتی ، خاندانی ،گروہی مفادات اور اقتدار کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

فوج کا اصل کردار تو ملک کی سرحدوں کی حفا طت اور ان کی نگہبانی ہوتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر حالات کشیدہ ہوں۔رعایا کو جان ومال، عزت و ناموس کا تحفظ اور سکون و اطمینان حاصل نہ ہو،ہر آن یہ دھڑکا لاحق ہو کہ نہ جانے کب،کس جگہ اور کس موقعہ پر اپنے مال و متاع اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں، جب کہ حکومتی سطح پر کوئی ان کی داد رسی کرنے والا اور ان کو تحفظ فراہم کر نے والا نہ ہو۔معصوم بچوں کے نازک جسموں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر بھی ان کے دل میں کوئی کسک پیدا نہ ہو۔جوانوں کے لاشے گھروں سے نکلتے دیکھ کر بھی ان کے سینے میں کوئی درد نہ اٹھے، کوئی ٹیس نہ ہو، وہ محض خاموش تماشائی بنے رہیں اور کسی بھی ہولناک واقعہ پر ایک رسمی سی مذمت کرکے، مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدۂ فردا کرکے اورلواحقین کے لیے کچھ رقم دینے کا اعلان کر کے اپنی جان چھڑالیا کریں…ان نامسائد حالات میں توفوج اپنے عسکری جوہر دکھا کراور مناسب حال حکمتِ عملی سے کام لے کر ملک میں ہونے والے ہولناک واقعات کا تدارک کرے، اس لیے کہ رعایا اور ریاست تو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ، رعایا کا وجود ہوگا تو ریاست کا جواز بھی پیدا ہوگا۔ اور جب یہ دونوں ہوں گے توملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کی ضرورت درپیش ہوگی۔چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ریاست کے اندر رعایا کی جان و املاک اور ان کے دیگر مفادات کا تحفظ کرنا حکومت کے ساتھ کسی حد تک فوج کی ذ مہ داری بھی ہے۔

اس سے پہلے کہ عوام دہشت گردگی کی روزمرہ کی وارداتوں، خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں اپنے جوان بیٹوں،بھائیوں،عزیزوں اور معصوم بچوں کے جسموں کے بکھرے ہوئے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک جائیں اور روز روز اپنی چہیتوں کے جنازے لے جاتے ان کے کندھے شل ہوجائیں ۔۔حکومت اور پاک فوج کو اس سنگین صورت حال سے نبٹنے کے لیے کوئی قرار واقعی اور ٹھوس قدم اٹھانے پر فوری اور اولین توجہ دینی چاہئے کہ اس میں ملک و قوم کی بقاء اور سلامتی ہے۔

پاکستانی عوام کے دل کی دھڑ کنوں میں آج بھی ستمبر 1965کی طرح لا الہ الا اللہ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ آج بھی اگر پاکستان کے حکمراں ملک و قوم سے مخلص ہوکر اپنا کردار ادا کریں اور قوم کو اس وطن عزیز کی بقاء اور تحفظ کے لیے پکاریں تو ان حالات میں بھی ستمبر 1965کا جذبۂ شہادت قوم کے سینے میں زندہ ہوجائے گا، یہ جذبہ آج بھی ماضی کی طرح ان کے قلب و ذہن میں موجزن ہے۔ آج بھی پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو شکست دے سکتی ہے۔ماہ ستمبر کا اصل پیغام یہی ہے کہ حکمرانوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر سوچنا پڑے گا۔ہر فیصلہ ملک و قوم کی فلاح اور ان کی خیر خواہی پر مبنی ہونا وطن کے وسیع تر مفاد میں ہے۔                                                                                                        

دوسری جانب فوج کو 6 ستمبر کے دن اپنے شہداء کو سلامی دینے اور ان کی فقید المثال جرأت و بہادری اور حب الوطنی کو خراج عقیدت پیش کر تے وقت یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاک افواج کے لیے، وطن عزیز کے کروڑوں عوام کے دلوں میں عزت و احترام کے شدید جذبات ہیں۔ وہ اس کو محض وطن کی سرحدوں کا محافظ ہی نہیں سمجھتے، بلکہ ملک کے موجودہ دگر گوں حالات کی سنگینی سے نجات حاصل کرنے اور سکھ کا سانس(a sigh of relief) لینے کے لیے بھی ان کی نظریں عسکری تدارک اور اس کی بھر پور مدد و اعانت پر لگی ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ عسکری قوت گہرے غور و فکر اور عوام دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وقت کے دھارے کا رخ صحیح سمت میں موڑنے کا فیصلہ کرے گی۔اور پاکستان کے عوام کوبے حس،مفاد پرست ، عوام کی دولت پر عیش و عشرت کے مزے لوٹنے والے، عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر یورپ و امریکا کے بینکوں میں بھاری رقمیں جمع کروانے ، ترقی یافتہ اور حور و قصور سے مزین ملکوں میں اپنے محل سرائے تعمیر کر نے والے، انسانی جذبات و احساسات سے عاری حکمرانوںکے غلبۂ حکمرانی سے نجات دلوائے گی۔یا ان کی فکری کجی اور سفاکیت کی روش کو حب الوطنی، اخلاص و درد مندی ، عوام کی خیر خواہی میں بدلنے کی کوششیں کرتے ہوئے انہیں یہ احساس دلائے گی، کہ اقتدار ان کا حق نہیں بلکہ یہ ایک بھاری ذمہ داری، کڑی آزمائش اور اللہ کی طرف سے سونپی ہوئی ایک امانت ہے جس کی اللہ کے سامنے جواب دہی کر نی ہوگی۔وطن عزیز کے حکمرانوں کو خلیفۃ المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کا وہ فکری اور خوف الٰہی سے لرزتا قول نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’ اگر نہر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاس سے مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے بارے میں عمر سے سوال کیا جائے گا‘‘۔

Read more...
  • Prev
  • 1
  • 2
  • Next
  • End

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول