يٰٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً
اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی
رواں سال جاتے جاتے ہم سے ہمارا ایک عظیم علمی اثاثہ بھی لے گیا، امور حرمین شریفین کی کمیٹی کے سابق سربراہ اور امام حرم مکی الشیخ محمد بن عبد اللہ السبیل رحمہ اللہ جو کہ گذشتہ ہفتہ نوے سال کی عمر میں قضائے الہی سے وفات پا گئے انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ رب العزت نے بقائے خلد کسی ذی نفس کے لیے نہیں رکھی یہ اللہ تعالی کی سنت ہے جس سے کسی بھی صورت میں کسی بھی انسان کے لئے مفر ممکن نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا : { إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ } [الزمر: 30]
اور ایک مقام پر فرمایا :
{كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ } [العنكبوت: 57]
قرآن مجید نے موت کو مصیبت (فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ (المائدہ106)کے نام سے یاد کیا ہے غالبا نہیں بلکہ یقینا ایسے ہی افراد کی موت مصیبت ہو سکتی ہے اور شاید ایوب السختیانی رحمہ اللہ کا قول ایسی ہی کسی موت کے لیے کہا گیا ہے : مجھے جب بھی اہل سنت میں سے کسی فرد کی موت کا بتایا جاتا ہے گویا کہ میں اپنے جسم کے بعض اعضا سے محروم ہو جاتا ہوں۔ (الکائی)
میرے اور اہل سنت و جماعت کے ممدوح فضیلۃ الشیخ امام کعبہ محمدعبد اللہ بن السبیل رحمہ اللہ جنہوں نے تقریبا 45 سال مسجد الحرام کی امامت کی اور مختلف علمی اور انتظامی مناصب پر فائز رہے۔ بلکہ عبد اللہ جہیمان کی بغاوت کا واقعہ بھی اسی دوران پیش آیا جب آپ فجر کی نماز پڑھا کر فارغ ہی ہوئے تھے جو کہ یکم محرم 1400 کی میں پیش آیا تھا۔ مسجد الحرام میں آپ نے آخری نماز 11 ربیع الاول 1428 ہجری میں پڑھائی تھی۔
شیخ محترم رحمہ اللہ عالم اسلام کی ایک مقبول شخصیت تھے اور اسلامی ممالک کے سربراہوں سے والہانہ محبت کیا کرتے تھے ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ خیر اور بھلائی کے عملی قائل تھے۔ پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں اور دین اسلام کی نشر واشاعت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی سرپرستی اور مدد بھی کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے انتقال پر ہر طبقہ کے افراد نے اظہار تأسف کیا۔
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں ظہر کی نماز کے بعد وکیل الجامعہ شیخ ضیا الرحمن اور شیخ نور محمد حفظہما اللہ نے دین اسلام کی نشر و اشاعت کے حوالے سے شیخ محترم رحمہ اللہ کی خدمات کا تذکرہ کیا اور غائبانہ نماز جنازہ شیخ نور محمد نے پڑھائی۔ اس کے علاوہ جماعت غربا اہلحدیث کے تحت جمعہ کے اجتماعات میں شیخ کے لیے غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا ۔ اور جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے امام کعبہ محمد عبد اللہ بن سبیل رحمہ اللہ کے انتقال پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا۔
آپ کا مکمل نام محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز السبیل ہے۔ آپ 1345 ھجری ⁄ 1924 میلادی میں مشہور شہر قصیم کے علاقے البکیریة میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک مقامی مدرسہ میں حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں آپ کے والد محترم رحمہ اللہ جو کہ قصیم میں قاضی تھے اور الشیخ عبد الرحمن الکریدیس سے بہت چھوٹی عمر میں مختلف کتب پڑھی جب آپ کی عمر صرف 14 سال تھی ۔ اس سے پہلے آپ نے بہتچھوٹی عمر میں اپنے والد صاحب رحمہ اللہ کے پاس قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے آبائی علاقے میں اتنی کم عمری میں قرآن حفط کرنے والے اولین فرد تھے۔
فن تجوید اور قرات آپ نے معروف قاری الشیخ سعدی یاسین سے حاصل کیا اور اس کے بعد آپ نے اپنے بڑے بھائی عبد العزیز السبیلرحمہ اللہ جو کہ اپنے والد کی جگہ پر قصیم کے قاضی رہے، الشیخ محمد مقبل اور الشیخ عبد اللہ بن حمید رحمہم اللہ جمیعا سے علوم شرعیہ حاصل کیے۔
اس کے علاوہ مکۃ المکرمہ میں آپ نے مشہور محدث عبد الحق الہاشمی اور الشیخ ابو سعید عبد اللہ الہندی رحمہ اللہ سے علم حدیث میں اجازت حاصل کی۔
آپ نے تین شادیاں کی تھی اور ان تین بیویوں سے کل چار بیٹے ہوئے
پہلے بیٹے عمر السبیل جو کہ حرم کے امام تھے جن کا انتقال (1999)کےایک حادثے میں ہوا تھا
دوم ڈاکٹر عبد العزیز جو وزارت ثقافت و ٹیکنالوجی میں وکیل رہےاور ابھی سعودی عرب کے وزیر تعلیم کے مشیر ہیں۔
سوم ڈاکٹر عبد المالک جو کہ جامعۃ ام القری مکۃ المکرمہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں
چہارم پروفیسر عبد اللہ السبیل جو کہ وزارت بلدیات میں وکیل کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور اسی حوالے سے کویت میں بھی کچھ عرصے رہے۔
فراغت کے بعد شیخ محمد سبیل رحمہ اللہ نے وزارۃ المعارف اور دیگر تعلیمی اداروں اور مختلف مساجد میں توحید، تفسیر، فقہ، اور اصول فقہ، فرائض ، نحو ، بلاغہ ، عروض اور قوافی وغیرہ کے حوالے سے تقریبا 20 برس تک تدریسی خدمات سر انجام دیں ۔ اسی دوران مدرسہ بکیریہ میں 1367 ھ میں ان کی تعیناتی بطور مدرس ہوئی اور 1373 ھ میں بریدہ کے مشہور المعہد العلمی میں مدرس کے طور پر منتخب ہوئے اور 1385 ھ میں شاہی فرمان کے مطابق مسجد حرام کے امام وخطیب اور صدرالمدرسین مقرر ہوئےیعنی مسجد حرام میں دروس دینے والے تمام مدرسین اور مراقبین کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی سال 1390 ہجری میں حرم مکی میں مذہبی امور سے متعلق کمیٹی کے نائب سربراہ مقرر ہوئے سال 1411ھ میں حرمین شریفین میں عمومی امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے ۔ اور اس کے علاوہ شیخ سعودی عرب میں کبار علما کی کمیٹی اور رابطہ عالم اسلامی کے تحت المجمع الفقہی کے رکن بھی تھے۔
شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل رحمہ اللہ طویل عرصہ حرم مکی کی امامت پر فائز رہے اور ان کے ایک بیٹے عمر بن محمد بن عبد اللہ السبیل رحمہ اللہ بھی حرم کی امامت پر فائز رہے اور انتہائی خوبصورت آواز کے مالک تھے جو چند سال قبل ٹریفک کے ایک حادثے میں شہید ہو گئے تھے۔
عالم اسلام پر چہار اطراف سے دشمنان اسلام کی فکری یلغار سے شیخ محترم رحمہ اللہ یہ محسوس کرتے تھے کہ عالم اسلام ان کاروائیوں سے آپس میں اختلافات کا شکار ہو سکتا ہے لہذا اس سے بچنا ازحد ضروری ہے جیسا کہ اپنے ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں :
اعداء اسلام کی عادت رہی ہے ماضی و حال میں اسلام کی بیخ کنی کرنے پر ابناء اسلام کے قلوب سے ۔ اور ان کے سوایل خبیثہ میں سے ہے کہ وہ فقہ و فقہاء کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے راستے پر چلے اور بعض جاہلوں اور بےوقوفوں کو مسخر کیا۔ سو انہوں نے مذاہب کے متبعین ( یعنی مقلدین) کے سامنے اختلافی مسائل کو اچھالا تاکہ ایک طرف تو وہ ان کے درمیان فسادو نزاع برپا کریں اور ان کو ان اختلافی مسائل کی وجہ سے ایسے امور سے غافل کردیں جو ان فقہاء کو گھیرے ہوے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو فقہ وفقہاء پر اعتماد کی دولت سے محروم کر دیں اور ان کو احکام دین اور مذاہب سے باہر کر دیں نتیجہ وہ اہواء و آراء کے شرک میں مبتلا ہو جائیں۔ اور البتہ تحقیق ماضی میں ائمہ اعلام ان سازشوں پر متنبہ ہوے تو انہوں نے ان اعداء اسلام کے چہروں سے نقاب الٹ دیا اور ان کے تمام راستوں میں ان کا تعاقب کیا۔ سو انہوں نے اختلاف فقہاء کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے چھوٹی اور بڑی کتابیں تالیف کیں۔ اور انہوں نے اصولی وفروعی اختلاف کے درمیان فرق واضح کیا۔ اور لوگوں پر ان اعداء اسلام کی بری نیات اور فساد مقاصد کو بھی خوب واضح کیا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا فرمان جو بعض فقہی اختلافی مسائل پر بحث کے بعد ہے ملاحظہ ہو شیخ نے فرمایا۔
اور اس کی وجہ سے ان لوگوں کا معاون بن گیا جو اہل سنت کے مذاہب کے درمیان فتنہ پیدا کرتے ہیں تاکہ یہ داعیہ بن جاے ان کے اہل السنت والجماعت سے نکلنے کا اور رافضیوں اور ملحدین کے مذاہب میں داخل ہونے کا۔
اور اپنے ایک مکتوب میں مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
آخر میں عرض یہ ہے کہ بے شک آج مسلمانوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اس وسعت اور فراخدلی کو قایم رکھیں جو ان کے سلف صالحین میں تھی اور اپنے نفسوں پر اس امر کے بارے میں تنگی پیدا نہ کریں جس میں اللہ نے وسعت رکھی ہے ۔ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو حق بات پر جمع کر دے تو یہ کہ وہ ہمیں ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۔ اللہ تمہارا نگہبان ہو ۔
شیخ محترم رحمہ اللہ امت مسلمہ میں اتحاد کے داعی تھے اس اعتبار سے آپ نے 50 سے زائد مختلف ممالک کے سو سے زائد سفر کیے۔ جس میں 1415 ھ کا مالی کا سفر قابل ذکر ہے جس میں مالی کے رئیس الفا عمر کوناری نے آپ سے درخواست کی کہ مالی کے مختلف قبائل میں کافی عرصے سے خونریز جنگ جاری ہے آپ ان کے مابین اصلاح احوال کی دعا کریں شیخ محترم رحمہ اللہ نے نہ صرف دعا کی بلکہ عملا ان قبائل کے زعما سے باقاعدہ مذاکرات کیے یہاں تک کہ ان قبائل میں صلح ہو گئی اور امن و امان قائم ہو گیا۔
سعودی عرب کا مشہور قرآن مجید کے حوالے سے جاری پروگرام ’’نور علی الدرب ‘‘آپ کی شرکت سے ہی مشہور ہوا اور اب وہ عالم عرب کا مقبول ترین پروگرام ہے ۔
شیخ کے معروف شاگردوں میں سے الشیخ صالح الفوزان جو کہ ھیئۃ الکبار کے رکن ہیں ، الشیخ عبد الرحمن الکلیہ جو کہ محکمہ علیا کے رئیس ہیں ، الشیخ مقبل بن ھادی الدواعی رحمہ اللہ جو کہ معروف یمنی محدث ہیں ۔
شیخ محترم کی معروف تالیفات
شیخ محترم رحمہ اللہ کی علمی جہود درج ذیل ہیں
۱۔ رسالۃ فی حد السرقۃ
۲۔ ردِّ قادیانیت پر رسالہ
۳۔ علم فرائض
۴۔ من منبر مسجد الحرام
۵۔ بیان حق الراعی و الرعیۃ
۶۔ حکم الاستغاثۃ بغیر المسلمین فی الجہاد
۷۔ الخط المشیر الی الحجر الاسود و مدی مشروعیتہ
۸۔ دعوۃ المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
۹۔ فتاوی و رسائل مختارۃ
۱۰۔ من ھدی المصطفی ﷺ جس میں منتخب احادیث کی شرح بیان کی گئی ہے۔
۱۱۔ حکم التجنیس بجنسیہ دولۃ غیر اسلامیہ
۱۲۔ دیوان شعر
مسجد الحرام مین تاریخی خطبة جمعه
حمد و صلوٰۃ کے بعد !
مسلمان بھائیو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو کہ اُس نے تم ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو تم پر اُس کی آیات تلاوت کرتا، تمہیںپاک صاف کرتااور تمہیں کتاب و حکمت اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اُس نعمت کو عملی جامہ پہنائو کہ نبی مکرم رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع بجا لائو، ان کے بتائے ہوئے طریقے پرچلو، ان کی لائی ہوئی شریعت پر گامزن رہو اور خواہشات و نفسیات کے مارے ہوئے لوگوں نے جو بدعات و منکرات ایجاد کررکھی ہیں، ان سے کنارہ کشی اختیار کرو۔
برادرانِ اسلام ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و تابعداری اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینے کے بارے میںاحکامات کثرت سے قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں، یہ سب کے سب صریح اور واضح نصوص ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور بلاچوں و چراں سرآفندگی و سپردگی پہ دلالت کرتی ہیں اور کسی طرح بھی ان سے سرموانحراف کی گنجائش نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ } (الانفال :۲۰)
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کاکہنا مانو اور اس سے روگردانی نہ کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔‘‘
نیز فرمایا:
{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ } (آل عمران :۱۳۲)
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرادری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
نیز فرمایا:
{وَمَا اٰ تَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہٗ فَانْتَھُوْا} (الحشر :۷)
’’اور تمہیںجو کچھ رسول دے ،لے لو اور جس سے روکے رُک جاؤ‘‘
نیز ارشاد فرمایا:
{قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ } (آل عمران:۳۱)
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بدظنی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ عقیدت میںگستاخی کی ناعاقبت اندیشی سے ڈراتے ہیں، خواہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں سرزد ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ کے دائرئہ سنت میں اس طرح کہ آپ کی سنت کو پس پشت ڈال کر کسی اور طریقہ کو اوّلیت و فوقیت دی جائے یا کسی سنت ِمطہرہ کی مخالفت کی جائے یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے مقابلہ میں عناد و تعصب برتا جائے، دین میںبدعات کا دروازہ کھولا جائے اور اس کے فروغ کی کاوشیں کی جائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ o يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ}
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقینا اللہ تعالیٰ سننے اورجاننے والاہے، اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ اس سے اونچی آواز میں بات کرو، جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اِکارت جائیںاور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘(الحجرات :۱،۲)
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کے بُرے انجام سے آگاہ کردیا ہے۔ فرمایا:
{ وَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہِ أنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ } (النور :۶۳)
’’سنو! جو لوگ حکم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیںڈرتے رہنا چاہئے کہ ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں کوئی دُکھ کی مار نہ پڑے۔ ‘‘
اسی طرح رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع کی خلاف ورزی خواہ زندگی میں ایک بار ہی کیوں نہ ہو، کو کھلی گمراہی اور دین میں انحراف کے مترادف قرا ردیا ہے جوبلا شبہ نعمت ِایمان کے فقدان اور اس کے زوال کا موجب ہے۔ فرمایا:
{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا} (الاحزاب:۳۶)
’’اور کسی مسلمان مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے بعد کسی امر کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘
نیز فرمایا:
{فَلَا وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حتیّٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} ( النساء :۶۵)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیںہوسکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں، اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘
نیز فرمایا:
{فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہٗ إِلَی ﷲِ وَالرَّسُوْلِ إنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الٰاخِرِ} (النساء :۵۹)
’’اگرکسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔‘‘
احادیث ِ مبارکہ کے بیش بہا ذخیرے بھی ان دلائل و احکامات سے بھرے پڑے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث کا ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
فمن رغب عن سنتی فلیس مني (صحیح بخاری:۱۸۲۸)
’’جس نے میری سنت سے اعراض وپہلو تہی برتی، وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
نیز سیدنا عرباض بن ساریہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
إنہ من یعش منکم فسیرٰی اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجد وإیاکم و محدثات الأمور فان کل بدعۃ ضلالۃ (سنن ابوداؤد :۴۶۰۷ وجامع ترمذی:۲۶۷۶)
’’تم میں جو شخص زندہ رہا تو وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو، اور اپنے دانتوں سے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لو اور دین میں نت نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ ہربدعت (من گھڑت کام) گمراہی ہے۔‘‘
برادرانِ اسلام! کتاب و سنت کے ان مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو سنت ِنبوی سے وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور دین میں نئی نئی باتیں، جن کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں، کو اختیار و ایجاد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم برابر اپنے خطبوں میں سنت پر گامزن رہنے اور بدعات سے پرہیز کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:
أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب ﷲ وخیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ و سلم وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالۃ (صحیح مسلم:۸۶۷)
’’سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ اور سب سے بدترین کام نئی نئی چیزوں کی اختراع ہے اور ہر نئی بات گمراہی ہے۔‘‘
نیز سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنهافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھورد (صحیح بخاری:۲۶۹۷ )
’’جس نے ہمارے اس دین میں نئی بات پیدا کی جس کا اس سے تعلق نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
اس سلسلہ میں سلف صالحین کے ایسے نقوشِ پا موجود ہیں جو قرونِ اولیٰ کے بہترین طرزِعمل کی وضاحت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے ہر زبان و مکان میں بہترین کردار اور اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ انہی سے اپنے دوشِ زندگی اور اپنے کردار و خیالات کی راہ متعین کریں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی الله عنه فرماتے ہیں:
’’اتباع و تابعداری کرتے رہو اور نئی نئی باتیں مت گڑھو، یہی تمہارے لئے کافی ہے۔‘‘
نیز آپ رضی الله عنه نے ارشاد فرمایا: ’’سنت ِرسول پہ اکتفا کرلینا کہیں بہتر ہے اس سے کہ بدعات کی ترویج کے لئے آدمی کوشاں ہو۔‘‘
سیدنا ابن عباس رضی الله عنهما فرماتے ہیں:
’’لوگوں پہ کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کرچکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ وپائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘ (المعجم الکبیراز امام طبرانی :۱۰؍۳۱۹)
سیدنا حذیفہ رضی الله عنه فرماتے ہیں:
’’ہر نئی بات گمراہی ہے خواہ لوگ اسے حسنات میں شمار کیوں نہ کریں۔‘‘
سیدنا عمر بن عبدالعزیزرحمه الله فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء كرام رضی الله عنهم نے سنت پہ ثابت قدم رہ کربتلا دیا کہ اس کی پابندی درحقیقت قرآنِ مجید کی تصدیق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دین ِمتین کو تقویت پہنچانا ہے۔ جو اس پر عمل پیرا ہو، وہ راہ یاب ہے، جس نے اس سے مدد چاہی وہ فائز المرام ہے اور جو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا، اس نے مؤمنین، صالحین و کاملین سے بغاوت کی راہ اختیار کی، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منہ کی کھلائے گا اور جہنم رسید کرے گا۔‘‘
امام مالک رحمه الله فرماتے ہیں :
’’اس امت کے متاخرین کی اصلاح و کامیابی صرف اس طریقہ پر ہوگی جس پر چل کر قرونِ اولیٰ کے مسلمان کامیاب و راہ یاب ہوئے۔‘‘ (الاعتصام از امام شاطبی:۱؍۴۹)
بعض بزرگوں سے یہ قول منقول ہے کہ’’الله كی مخلوق کے لئے تمام راستے بند ہیں، صرف ایک ہی راستہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش ِقدم کی پیروی کی جائے۔‘‘
دوسرا خطبه:
میرے دینی بھائیو! جب دین و مذہب پر غربت و اجنبیت طاری ہے، جب اس کے اعوان و انصار کی قلت ہوگئی، جب دشمنانِ دین کی تعداد فزوں تر ہوگئی، جب اہل ایمان ویقین تہی دامن و تہی دست ہوگئے اور دین سے بیزار ہوکر گریز کی راہ اپنالی، جب داعیانِ سوء اور اربابِ بدعات و خرافات کی کثرت ہوگئی تو حالات میں ایک تغیر رونما ہوگیا۔ معرو ف نے منکر کا روپ دھار لیا اور سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت کا نام دے دیا گیا۔ پھر تو بدعات لوگوں میں رواج پذیر ہوگئیں، ان کے دل و دماغ اور ان کے قلوب و اذہان میں سرایت کرگئیں، جیسے جسم میں خون کی آمیزش ہوجاتی ہے۔
برادرانِ اسلام! آج دین میں نئی نئی باتوں کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جن سے لوگوں کے خیالات و افکار متاثر ہورہے ہیں، اور یہ خیالات دل و دماغ میں راسخ و پیوست ہوتے جارہے ہیں۔ جن پربلا شبہ معروف وحسنات کا لبادہ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں جنہیں وہ ربیع الاوّل کے مہینے میں انجام دیتے ہیں، جلسے جلوس اور محفلیں منعقد کرتے ہیں، جن کے جواز کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں کوئی دلیل نہیں۔ ان جلسے، جلوسوں اور محفلوں کو وہ ’میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض نے تو حد کردی کہ وہ اس مہینہ میں خاص طور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا بالقصد رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ وہ جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تقرب حاصل کریں۔ یہ حضرات بڑے زعم و فریب میں مبتلا ہیں جب کہ ان کے پاس افعال و اعمال کے لئے کوئی سند ودلیل نہیں ۔یہ وہ تخصیص ہے جس کے لئے وہ کوئی ثبوت و شہادت نہیں پیش کرسکتے:
{قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ} (البقرۃ:۱۱۱)
’’آپ ان سے کہئے: کہ اگر اس دعویٰ میں سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔‘‘
ربیع الاول کے اس مہینہ یا اس کے بعض دنوں کو مجالس و محافل کے لئے خصوصیت سے اپنا لینا مندرجہ ذیل امور کی بنا پر شرعاً صحیح نہیں ہے:
اوّلاً:یہ دین میں ایک نئی ایجاد ہے، اس لئے کہ یہ نہ تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے، نہ ہی خلفاے راشدین، دیگر صحابہ کرام رضی الله عنهم، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں سے کسی نے ایسا کیا۔ حالانکہ یہ حضرات سنت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سب سے زیادہ پابند و شناسا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں سب سے زیادہ سرشار اور آ پ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے سب سے زیادہ تابعدار و فرمانبردار تھے۔ لہٰذا ہم بعد کے مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی کی گنجائش ہے جس قدر گنجائش اُنہوں نے روا رکھی، اگر یہ طرزِعمل خیر کا باعث ہوتا تو وہ یقینا اس میں ہم سے پہل کرچکے ہوتے۔
ثانیاً: مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ اور احادیث ِ شریفہ کی روشنی میں یہ بات ظاہرو باہر ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت واجب، آپ کی سنت کی پیروی ضروری اور ابتداع فی الدین سے پرہیز و اجتناب لازم ہے۔
ثالثاً : اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین کی تکمیل فرما دی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے من وعن اللہ کا پیغام واضح انداز میں لوگوں تک پہنچا دیا۔ اب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے دین میں اختراع گویا اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذ اللہ دین کی تکمیل نہیں فرمائی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پیغامِ الٰہی کی تبلیغ میں کوتاہی برتی تاآنکہ چھٹی صدی ہجری میں متاخرین اور ان کے بعد کچھ دوسرے لوگ پیدا ہوئے اور اُنہوں نے شریعت ِالٰہی میں اپنی طرف سے کچھ نئی چیزیں شامل کرلیں۔ حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی ثبوت، اور نہ ہی احکامِ الٰہی کو ان کی بدعات سے کوئی واسطہ، بالائے ستم یہ کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیںکہ یہ محافل تقرب الیٰ اللہ کا ذریعہ ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کی شان میں بے باکانہ اعتراض کی یہ جرات لاحاصل اور تبلیغ رسالت ِمحمدی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تھک کوششوں کے آگے مجنونانہ گستاخی نہیں؟
رابعاً: اس طرح کی محفلوں اور اجتماعات کا انعقاد جادۂ حق سے بغاوت کی علامت اور یہود و نصاریٰ کے اعیاد و مراسم کی نقل ہے، حالانکہ ہمیںاہل کتاب سے مشابہت اور ان کے طریقوں کی نقل كرنےسے روکا گیا ہے۔
خامساً : شریعت کے اُصول و قواعد اور دین کے اغراض و مقاصد اور مزاج و طبیعت ان بدعات و خرافات کا قلع و قمع کرتے ہیں۔ پھر جملہ اسلامی عبادات محض توقیفی ہیں، یعنی وہ اللہ کی طرف سے رہنمائی و ہدایت پر ہی موقوف ہیں، اب کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ شریعت سازی کرنے کی جرات کرنے لگے۔ شریعت اور حق وہی ہے جو اللہ ربّ العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہمیںملا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{أَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللَّهُ } (الشوریٰ:۲۱)
’’کیا ان لوگوں کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں شریعت مقرر کی ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘
نیز شریعت کا یہ ثابت شدہ و مسلمہ قاعدہ ہے کہ باہم متنازع فیہ اُمور میںقرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہم نے اس بابت جب دونوں مآخذوں کی طرف رجوع کیا تو یہی معلوم ہوا کہ اس طرح کے اعمال سے تنبیہ فرمائی گئی ہے۔
نیز سدّ ذرائع اور ازالـۂ ضررکا مسلمہ قاعدہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے، اور ضرر في الدین سے بڑھ کر اور کیا ضرر ہوسکتا ہے؟
یہ معاملہ یہیں پر آکر نہیں رُک جاتا بلکہ ان محفلوں میں منکرات تک کا ارتکاب ہوتا ہے اور شرک باللہ سے بڑھ کر اور کوئی منکر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعائیں مانگی جاتیں اور ان سے حاجت روائی کی جاتی ہے۔ مشکل کشائی کی دہائی دی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ عقیدت میں ایسے نعتیہ مدحیہ قصائد پیش کئے جاتے ہیں جن کے ڈانڈے شرک و غلو سے جاملتے ہیں۔ ان میں اختلاط کی گرم بازاری بھی ہوتی ہے، مال و دولت کا بے جا اسراف ہوتا ہے، ایک ہنگامہ شوروغوغا برپا ہوتا ہے اور جھوٹے راگ الاپے جاتے ہیں۔باوجود یہ کہ ربیع الاوّل کے جس مہینے میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے، بعینہٖ اسی مہینے میں رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات بھی ہوئی تو پھر حزن و ملال کو بالائے طاق رکھ کر مسرت وشادمانیوں کے نغمے الاپنا کہاں سے افضل و اولیٰ قرار پاگئے؟
الغرض ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو ان محفلوں اور مجالس کے لئے مخصوص کرنا، کوتاہ اندیشی اور مؤرخین کے مختلف فیہ اقوال کے ہوتے ہوئے ہویٰ پرستی کے مترادف ہے۔
اب جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جشن میلاد النبی منانے کے لئے کسی ایک دن کا تعین کیا تو وہ ذمہ دار ہے کہ دلیل پیش کرے حالانکہ دلیل نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔ دوسری طرف علمائے اسلام جو اتباعِ سنت ِرسول میں مشہور و معروف ہیں، ان کی تالیفات کا بیش بہا خزانہ اور ان کے اقوال کا گراں مایہ سرمایہ موجود ہے جو ان محفلوں کے رد میں دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمه الله فرماتے ہیں:
’’کسی بھی ایسے تہوار کو اپنانا جو شریعت کے مقرر کردہ اعیاد و مراسم کے علاوہ ہے، جیسے ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو اس غرض کے لئے مخصوص کرلینا کہ یہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رات ہے تو یہ بدعت ہے، جسے سلف صالحین نے پسند نہیں فرمایا، نہ ہی عملاً کبھی برتا۔ ‘‘
نیز فرماتے ہیں:
’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جشن و خوشی کے طور پر منانے کا رواج سلف صالحین میں مقتضائے حال اور عدمِ مانع کے باوجود نہیں رہا۔ اگر یہ خیر محض ہوتا یا راجح مسئلہ ہی ہوتاتو وہ ہم سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہتے، کیونکہ وہ محبت ِرسول صلی اللہ علیہ و سلم میں ہم سے کہیں زیادہ پیش پیش اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و احترام کے ہم سے کہیں زیادہ دل دادہ اور خیرو بھلائی کے کاموں میں ہم سے کہیں زیادہ خواہش مند تھے۔‘‘
آگے چل کر فرماتے ہیں:
’’رہا مسئلہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محافل، اس کی نشستوں اور کارروائیوں میں شرکت، اور رقص وسرود، گانے بجانے کی مجلسوں میں شمولیت اور عبادات کی طرح دلچسپی سے ان کو اختیار کرنے کا تو ان کے منکرات ہونے میں صاحب ِعلم و ایمان کو قطعاً شک و شبہ نہ ہوگا۔ یہ تو وہ منکرات وبدعات ہیں جن سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب کوئی جاہل مطلق اور زندیق و فاسق ہی اُنہیں خیر کی نگاہ سے دیکھے گا۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۱۰؍۳۷۰،۳۷۱)
برادرانِ اسلام! تین قسم کے لوگ ہیں جو اس طرح کے گمراہ کن اعمال میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں:
(۱) جاہل و ناداں اور تقلید کے متوالے جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے لہٰذا ہم بھی ان کے نقش ِپا کے راہی ہیں۔ ان کی مثال اس فرمانِ الٰہی کے موجب ہے
{إنَّا وَجَدْنَا اٰبٰائَ نَا عَلٰی اُمَّۃٍ فَاِنَّا عَلیٰ اٰ ثـَارِھِمْ مُھْتَدُوْنَ} (الزخرف:۲۲)
’’ہم نے اپنے آباء کو اسی طریقہ پر پایا لہٰذا ہم ان ہی کے نقوش کے پیروکار ہیں۔‘‘
(۲) زر خرید، گھروں کے خادم، اور فساق و فجار جو ان قسم كے جشنوں کے پس پردہ اکل و شرب، لہو ولعب اور اختلاط و اجتماع کے ذریعے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔
(۳) ضلالت و گمراہی کے پرستاران مبلغین اور کینہ پرور دشمنانِ اسلام جو دین کے خلاف دسیسہ کاریوں میں مشغول ہیں اور لو گوں کو جادۂ سنت سے ہٹا کر بدعات و خرافات کی راہ پر لگا دینا چاہتے ہیں۔ بدعت کے ان بہی خواہوں کے ذہنوں میںشیطان نے کچھ شبہات پیدا کردیے ہیں۔ اس نے بدعات کو آراستہ و پیراستہ کرکے انکے سامنے پیش کیا، اب وہ اِتراتے پھرتے ہیں کہ اس لبادہ کو عوام پر ڈال دیں۔ حالانکہ یہ شبہات مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ نازک و کمزور ہیں کیونکہ یہ سراسر قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ کے خلاف ہیں۔
ان کی کم عقلی و خام خیالی کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ جشن محبت ’ عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ میلاد النبی کی یاد مسرتوں کی سوغات ہے اور جو اس سے گریزاں ہے وہ محبت ِرسول کا پاسدار نہیں، حالانکہ یہ دیوانگی اور بے بنیاد دلیل ہے۔ اس طرح کے دعویدار ظن و تخمین کے پرستار اور نفس کے غلام ہیں، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہماری محبت کا معیار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کی اتباع اور آپ کی سنت کی پابندی میں ہے، نہ کہ گمراہ کن محفلوں کے سجانے اور روشنیوں کی دنیا بسا کر نئے تماشے دکھانے میں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ } (آلِ عمران :۳۱)
’’آپ کہئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘
ان کا ایک باطل خیال یہ بھی ہے کہ یہ مجالس و محافل بدعت ِحسنہ ہیں اور ہر بدعت کو گمراہی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔لیکن قرآن و سنت میں ایسی دلیل کہاں ہے جس سے اسلام میں بدعت ِحسنہ کی تقسیم نکلتی ہو؟ ان کی خام خیالی یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں : لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے آئے ہیں اور ایسی محفلوں کو بغیر کسی اعتراض و نکیر کے بجا لاتے آئے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال و کردار کی پرستش نہیں کرتے، ہم تو صرف قرآن و سنت سے ثابت شدہ حقیقت کو اٹل سمجھ کر مانتے ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ شیطان نے منکرات کو ان کے سامنے مزین کرکے پیش کیا، اب وہ اُلجھ گئے ہیں اور اس میں بے جا دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ایسی محفلوں میںشرکت کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، عصبیت کا لبادہ اوڑھ کر آتے ہیں، ان کی طرف سے مدافعت کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز اُٹھانے والوں پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ حالانکہ ان میں بیشتر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے شرعی فرائض و واجبات کو پس پشت ڈال رکھا ہوا ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے پامال کیا ہے۔ اس راہ میں ان کی زبان نہیں کھلتی، ان کا سر نہیں اُٹھتا، بلا شبہ ان کا یہ رویہ دین میں بصیرت و فراست کی کمی اور واضح جہالت کا نتیجہ ہے۔
بعض لوگ اس خیال و فریب کے شکار ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی اس محفل بدعات وخرافات میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوش آمدید کہتے ہیں حالانکہ یہ باطل و جہالت آمیز خیال ہے۔
مسلمانانِ گرامی! ان روشن دلائل و کھلے حقائق اور ان واضح تردیدات کی روشنی میں بدعات کی بے حقیقت پسندیاں کھل کر سامنے آگئیں۔ ان کی قلعی کھل گئی، ان کے دعوؤں کی بنیادیں زمین بوس ہوگئیں، ان کی غلطیاں فاش ہوگئیں۔ محبت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حق پرستی کا جھوٹا دعویٰ ظاہر ہوگیا۔ اب ہم مسلمانوں اور خصوصاً بدعات میں ملوث ان لوگوں کو بڑے درد و کسک کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ وہ عذابِ آخرت کا خیال کریں، جب وہ بارگاہِ ربّ العالمین کے حضور تہی داماں کھڑے ہوں گے۔
ہم اُنہیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بدعات و خرافات کی جڑیں اُکھاڑ پھینکیں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے دوری پیدا کرنے والی چیزیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے اعراض وگریز کا انداز سکھاتی ہیں۔
ہم ان سے کہتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم كی سنت پر عمل پیرا ہوجائیں اور ان محافل ومظاہر سے اجتناب کریں کہ ان سے اسلام کے رُخِ زیبا کی شکل بگڑ رہی ہے، اس کے جمالِ جہاں آرا کو نظر لگ رہی ہے، اس کے حسن و جلال و کمال، اس کی قوت و شوکت اور اس کی ہمہ گیر اسپرٹ پر آنچ آرہی ہے۔ اگر یہ اب بھی اس دعوت و پکار پر لبیک نہیںکہتے تو یہ سمجھ لیجئے کہ یہ خواہشاتِ نفس کے بندے اور ہوس کے مارے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ }(القصص:۵۰)
’’اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو، بے شک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
فرزندانِ اسلام! کب تک ان باطل پرستوں اور اندھیروں میںبھٹکتے پھرو گے؟ کب تک ان خرافات کے جال میں پھنسے رہو گے؟ عقیدئہ توحید پہ تمہاری غیرتوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے عملی وابستگی کی تمہاری خواہش و تڑپ ختم ہوگئی ہے؟ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
صحیح فرمایا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بدأ الإسلام غریبا وسیعود کما بدأ غریبا فطوبی للغربائ
’’اسلام اجنبیت کی حالت میں اُبھرا، پھر وہ اجنبیت کی راہ پر واپس آجائے گا تو مبارک ہیںاجنبی لوگ۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۳۲)
اے مولائے کریم! ہم مسلمانوں کے احوال کی درستگی فرما، ہمیں معاصی اور دین میں بدعات پیدا کرنے سے دور رکھ اور ہمیں سنت سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم پر چلنے کی توفیق نصیب فرما۔
سرور کائنات رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ، معرفتِ دین کی اہم بنیاد ہے جو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
اسی مقصد كے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا مختصر خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسلام نے جہاں ہدایت ورشد کے قوانین وضع کیے ہیں وہاں لوگوں کی جسمانی حفاظت کے لیے بھی خاص قوانین وضع کیے جو ان کو تمام امراض سے محفوظ رکھتے ہیں ، اسلام کے ان قوانین کی امتیازی کیفیت یہ ہے کہ اس میں روح اور جسم دونوں کے فطری تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہے اور ان کے مابین ایک مضبو ربط قائم کیا جو مسلمانوں کو اپنے رب سے اور نزدیک کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے ۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو مثبت زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے اور جسمانی طور پر بیمار فرد کو اپنی ذات سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ زندگی کے مقاصد پر غوروفکر کرے اور اس انسانی فرض کی ادائیگی کر سکے جو رب العزت کی طرف سے اس پر عائد کیا گیا ہے اور وہ فرائض جو مسلم معاشرہ کے ایک فرد پر عائد ہوتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک مفید شہری بن سکے ۔
مریض انسان کمزور ارادہ ، ضعف اعضاء ، مضطرب فکر اور انتشار اعضاء کا شکار ہوتا ہے جس سے اس کے معاشرہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جبکہ مضبوط اور صحت مند افراد معاشرے کو اپنی ذات سے بھر پور فائدہ پہنچا سکتے ہیں اسی لیے دین اسلام نے جو لوگ جسمانی طاقت کے ساتھ سلیم النفس اور عمدہ اخلاق کے مالک ہوں ان کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :
سیدنا شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی زبان سے سیدنا موسی علیہ السلام کے متعلق توصیف بیان کی گئی ہے :
{یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِینُ}(القصص: ۲۶)
’’اے ابا جان آپ ان کو اجرت پر رکھ لیں کیونکہ اچھا ملازم وہ ہے جو مضبوط ہو اور امانت دار بھی ہو ‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہے جو اس امر پر دلالت کر تاہے کہ جسمانی طاقت قابل تعریف ہے ، سیدنا طالوت علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :
{إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّہُ یُؤْتِی مُلْکَہُ مَنْ یَشَاء ُ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ}(البقرۃ: ۲۴۷)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقابلے میں ان کو منتخب فرمایاہے اور ان کو علم (سیاست )اور جسمانی طاقت زیادہ عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ وہ اپنا ملک جس کو چاہیں دیں اور اللہ تعالیٰ وسعت والے اور جاننے والے ہیں ‘‘
اس آیت میں بنی اسرائیل سے خطاب کیا گیا ہے اور طالوت کے انتخاب کی دو بڑی وجوہات بیان کی گئی ہیں ، ایک وسعت علم جس کے باعث مثبت فکر اور تدبیر امور اور تیراندازی ہو سکتی ہے ، دوم : جسمانی اعتبار سے صحت مند ہونا صحت اور سوچ کے لیے لازم ملزوم ہے ۔
ایک حدیث میں بھی مضبوط اور جسمانی صحت کی تعریف کی گئی ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
الْمُؤمِنُ القَوِیُّ خَیْرٌ وَأحَبُّ اِلَی اللہِ مِنَ الْمُؤمِنِ الضَّعِیْف وَفِی کُلِّ خَیْرٍ…(مسلم)
’’قوی مومن اللہ پاک کے نزدیک ضعیف کی نسبت محبوب اور بہترہے اوربھلائی ہر ایک میں ہے ‘‘
اور اسلام کی جامعیت واکملیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں پر صحت کے و ہ اصول وقوانین فرض قرار دیئے جو عصر حاضر میں طب جدید نے امراض کے واقع ہونے سے قبل ان کی مدافعت کیلئے اساس وبنیاد تصور کرتی ہے اور اگر ایسے امراض پیدا ہو بھی جائیں تو ان سے بچت اور نجات حاصل کرنے کے لیے بھی قوانین وضع کیے گئے اور ان کے علاج کے ضمن میں مکمل ہدایات بیان کیں۔
امراض سے بچائو کے لیے قوانین مدافعت:
کسی بھی مرض کا بہترین علاج پرہیز میں مضمر ہے حفاظتی تدابیر پر مشتمل طب کا یہ پہلو ترقی یافتہ ممالک میں ایک باقاعدہ علم کی حیثیت سے نشوونما پارہا ہے اسلام نے ان حفاظتی تدابیر یا قوانین مدافعت کو درج ذیل تقسیم کے ساتھ بیان کیا ہے :
۱۔ عمومی صفائی
۲۔ کھانے پینے کی اشیاء میں صفائی۔
۳۔ صحت عامہ
۴۔ جسمانی ریاضت
ان قوانین سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے صحت کے حوالے سے تمام ممکنہ جوانب کا احاطہ کیا ہے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی ۔
۱۔ عمومی صفائی :
اسلام نے صفائی کو بہت اہمیت دی ہے جیسا کہ ارشادات نبوی سے یہ امرظاہر ہوتا ہے ، فرمایا؛
الطہور شطر الایمان ۔
’’نظافت (صفائی ) ایمان کا جزو ہے ‘‘
غالبا نہیں بلکہ یقینا اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اپنے متبعین کو صفائی کی اتنی شدت سے تاکید کی جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔
اس کی وضاحت درج ذیل امور سے ہوتی ہے
وضو کا فائدہ:
اسلام نے نماز ادا کرنے سے پہلے وضولازمی قرار دیا ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُء ُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ}(المائدہ: ۶)
’’اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھوئو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوئو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرائض وضو پر کلی کرنا ، ناک کی صفائی اور کانوں کا مسح ، ہاتھ اور پیر وں کی انگلیوں کے خلال کااضافہ کیا ہے ۔جب طہارت کا یہ عمل دن میں کم از کم پانچ بار دہرایا جائے تو اس کے مختصر فوائد یہ ہیں:
۱۔ آنکھیں مرض امد سے محفوظ رہیں گی جس میں آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں ، کیونکہ دن میں وہ کئی مرتبہ دھوئی جائیں گی ۔
۲۔ ناک کے نتھنوں کا دھلنا زکام سے بچائو میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔
۳۔ اسی طرح چہرے ، ہاتھوں اور دونوں کانوں کا دھلنا ان کو جلدی امراض اور سوزش پیدا کرنے والے امراض پیدا ہونے سے بچاتاہے ۔
غسل کا فائدہ:
اسلام نے طہارت کے حصول کیلئے غسل کو سب سے بڑا وسیلہ قرار دیا ہے جو ہر مردوعورت پر ازدواجی تعلقات کے بعد یا احتلام کے بعد فرض ہے ، قرآن مجید میں ارشاد رب العالمین ہے :
{وَاِنْ کُنْتُم جُنُباً فاَطَّہَّرُوا} (المائدہ:۶)
’’اگر تم جنبی ہو تو طہارت حاصل کرو‘‘
ازدواجی تعلقات کے بعد غسل سے مردو عورت دونوں اپنی جسمانی طاقت بحال کر لیتے ہیں اور اس غسل کا روحانی فائدہ یہ ہے کہ مسلمان روحانی طور پر بھی صفائی کی اس کیفیت سے گزرتاہے جو شہوانی غلبہ سے باز رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتاہے ۔
دانتوں کی صفائی :
بہت سے امراض اس بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں کہ دانتوں کی مناسب صفائی نہیں کی جاتی اور وہ جراثیم منہ کے ذریعے معدے میں چلے جاتے ہیں اور معدے اور جگر کے امراض کا سبب بنتے ہیں اس کا اسلام نے ایک مناسب حل تجویز کیا ہے کہ مسواک کی جائے اور اس پر اتنی تاکید فرمائی :
لَو لَا أنْ أشُقَّ عَلَی اُمَّتِی لأمَرْتُھُم بِسِواکٍ مَعَ کُلِّ صَلَاۃٍ۔ (متفق علیہ)
’’اگر میری امت پریہ عمل دشوارنہ گزرے تو میں ان کو حکم دیتا کہ ہر نماز سے قبل مسواک کریں‘‘
مسواک دراصل باریک ریشوں پر مشتمل لکڑی ہوتی ہے جسے دانتوں کی صفائی کیلئے استعمال کیا جاتاہے اور جس کا کوئی نعم البدل جدید سائنس آج تک نہیں دے سکی کیونکہ مختلف مسواک میں بعض سریع الزوال تیل اور مفید اجزاء کا خلاصہ اور معدنی نمکیات پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے مسواک کے مسلسل استعمال کے بعد بے شمار امراض سے بچائو ممکن ہو جاتاہے ، کیونکہ دانتوں کی صفائی نہ کرنے سے چند جراثیم پیدا ہوتے ہیں جن میں زہریلے مادے پیدا ہوجاتے ہیں ان کو جب جسم چوستاہے تو بہت سارے امراض پیدا ہوتے ہیں۔اسی طرح برش کا استعمال بھی اسی غرض سے کیا جاتاہے ۔
ناخنوں اور بالوں کا کاٹنا:
اسلام نے جسمانی صحت کے حوالے سے کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیالہذا جسمانی صفائی کو مدنظر رکھتے ہوئے جسم سے زائد بالوں کا مونڈنا اور ناخن کٹوانے کا حکم دیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
پانچ اشیاء فطری واجبا ت میں سے ہیں ، زیر ناف بال صاف کرنا ، ختنہ کرانا ، مونچھوں کا کاٹنا ، بغل کے بال صاف کرنا اور ناخن کٹوانا۔
فطرت سے مراد سنت ہے جس پر عمل کرنا گویا اپنی طبعی حالت میں واپس آنا ہے بعض نے فطرت سے مراد دین لیا ہے لیکن اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زیر ناف بال کی مستقل صفائی سے بعض جنسی امراض سے یقینی بچائو ممکن ہوتاہے اور جنسی افعال میں اضافہ بھی ہوتا ہے، ختنہ کرانے سے بعض جنسی امراض سے بچائو ممکن ہو تا ہے کہ ختنہ نہ کرانے سے صفائی کا عمل ناممکن ہو جاتاہے ، مونچھوں کو کٹوانے سے ان امراض سے بچائو حاصل ہو تا ہے جو کھانے پینے کی اشیاء کا مونچھوں سے لگنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اسی طرح بغل کے بال جو ایک بند جگہ پرہوتے ہیں صفائی کے نہ ہونے کی وجہ سے امراض کا سبب بنتے ہیں اسی طرح ناخن کٹوانا ،نہ کٹوانے کی صورت میں ناخنوں میں مضر جراثیم جنم لیتے ہیں جو کھانے پینے کی غذائوں کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں اور مہلک امراض کا سبب بنتے ہیں
نجاست سے طہارت حاصل کرنا:
اسلام نے ہر مضر جراثیم شدہ چیز کو نجس قرار دیاہے جس سے کوئی بیماری جنم لے سکتی ہو ، اس سے طہارت وصفائی حاصل کرنے کا حکم ایک سے زائد مقامات پر آیاہے ۔ اس میں کپڑوں کی پاکیزگی جو عبادات میں فرض ہے ۔
وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۔ (المدثر:۴)
ــ’’اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو‘‘
یہ امر قابل غور ہے کہ اسلام نے اسے پانی سے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا جو نہ صرف طاہر ہو یعنی پاک ہو بلکہ مطہر بھی ہو یعنی پاک کرنے والا کیونکہ بعض مائعات طاہر تو ہوتے ہیں لیکن مطہر نہیں ہوتے مثلاً: کولڈ ڈرنک یا دیگر مشروب وغیرہ۔
مطہر پانی کی کچھ صفات بھی مقرر کی گئی ہیں۔ جن میں تبدیلی کی صورت میں پاک کرنے والا وصف ختم ہو جاتاہے مثلا کسی پانی میں رنگ ، بواور ذائقہ میں سے کسی ایک امر کی تبدیلی اسے اس وصف سے خارج کر دیتی ہے ۔بلکہ اسلام میں طہارت حاصل کرنے کی اس قدر تاکید فرمائی گئی ہے کہ اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لے اور اس کے ساتھ اس قدر احتیاط کا قائل ہے کہ طہارت حاصل کرتے وقت بایاں ہاتھ استعمال ہو کیونکہ دایاں ہاتھ کھانا کھانے اور مصافحہ کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔
ا رشاد رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم ہے :
’’جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء جائے تو اپنے عضو کو نہ دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور اپنے دائیں ہاتھ سے صفائی نہ کرے۔ (بخاری)
بلکہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس کو تین بار نہ دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو پتہ نہیں کہ اس کے ہاتھ کس جگہ پر لگتا رہتا ہے ۔‘‘
کھانے اور پینے کی اشیاء میں صفائی:
انسانی صحت کا دارومدار اس امر پر ہے کہ وہ جو اشیاء بطور غذا استعمال کر رہا ہے وہ پاک ہوں ، ناپاک نہ ہوں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلَّہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (172) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللَّہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ} (البقرہ:۱۷۲۔ ۱۷۳)
اے ایمان والو ! جو پاک چیزیں ہم نے تم کو عطا کی ہیں ان میں سے جو چاہو کھائو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو تو ، اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف ان چیزوں کو حرام قرار دیاہے جو مردار ہیں ، بہتا ہوا خون اورخنزیر کا گوشت اور ایسے جانور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیے گئے ہوں ۔
۱۔ مردا ر جانور : ایسا جانور جو طبعی موت یا کسی حاد ثہ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گیا ہو کیونکہ طبعی موت اسباب کے ساتھ واقع ہوتی ہے جس کی وجہ مضر جراثیم کا اس کے گوشت میں باقی رہنا ہے کیونکہ یہ بات تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مردار جانور کا گوشت آگ کے ذریعے بھی ذبح کیے گئے جانور کی خاصیت حاصل نہیں کر سکتا اور اگر جانور بوڑھا تھا تو ایسے گوشت کا ہضم ہونا اورغذائی افادیت کا کم ہو نا صاف ظاہر ہے جو بعض اوقات معدے پر بوجھ بنتاہے ۔ (جاری ہے
ہمارا معاشرہ بہت سے مسائل سے دو چار ہے۔دہشت گردی،قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، بے چینی، فکر مندی، بد دیانتی، نافرمانی گویا جہاں دیکھیں بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔بات یہیں تک نہیں قدرتی آفات نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے کبھی بے وقت کی برسات ہے جو سیلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو کہیں خشک سالی کا سامنا ہے۔معاشی بد حالی ہے کہ رکنے میں نہیں آتی، توانائی کے بحران نے ترقی کی راہیں مسدود کردی ہیں۔ دنیا کی پہلی مسلم نیو کلیئر اسٹیٹ ہونے کے باوجود غیر ملکی دراندازی کو روکنے میں ہم ناکام ہیں۔یہ کیفیت روز افزوں بڑھتی جا رہی ہے۔زندگی کے کسی شعبے میں بھی بہتری کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ یہ ملک اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا پھر ہم اسی کے پیارے کے نام لیوا ہیں ۔ماہِ رمضان ہو یا ربیع الاول کی آمد،بڑی بڑی محافل سجاتے ہیں۔ہر طرف روح پرور ماحول بیدار ہوتاہے۔عید الاضحی پر سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور اسمعیل ذبیح اللہ کی یاد میں جانوروں کی قربانیاں دیتے ہیں گویا ہر ہر موقع پر رب سے تعلق جوڑنے کے دعویدار بھی ہیں۔ماہِ صیام کا چاند نظر آئے تو مساجد کی وسعتیں کم معلوم ہوتی ہیں۔پھر آخری عشرے میں معتکفین عبادت میں لگتے ہیں یوں توسال بھر عمرے کی سعادت پانے والے عازم سفر ہیں مگر رمضان المبارک میں تو یہ تعداد لاکھوں میں ہوجاتی ہے۔حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہونے والے بھی ہر سال بڑھ رہے ہیں کتنے ہی ہیں جو تیاری کرتے ہیں مگر مقررہ تعداد پوری ہونے کے بعد مایوس و نا امید ہوکر آئندہ برس مقاماتِ مقدسہ کی دید آنکھوں میں سجائے اداس ہو بیٹھتے ہیں ان تمام عبادات و ریاضتوں کے باوجود معاشرتی مسائل اور نفسانفسی اپنے عروج پرہے آخر کیوں؟
آئیے ذرا اپنی عملی زندگی کا جائزہ لیں کہ خرابی کا آغاز کہاں سے ہو رہا ہے؟اس حوالے سے جو سب سے پہلی چیز سامنے آتی ہے وہ حلال اور حرام کے فرق سے ناآشنائی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان اک خفیف سی لکیر حائل ہے جو غیر محسوس انداز میں عبور ہوجاتی ہے یوں ہم حرام کے دائرے میں داخل ہو کر اپنی عبادات کی اصل روح کو کھو دیتے ہیں جب ہمارا کھانا،پینا،پہننا اور اوڑھنا ہی حرام ہو تو عبادات کیونکر قبول ہوسکتی ہیں اور جب عبادات قبول نہ ہوں گی تو ان کے ثمرات سے استفادہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ذرا گہرائی اور گیرائی سے غور کریں تو یہی حرام ہر برائی کی جڑ ثابت ہوگا۔اس کا تعلق نافرمانی سے ہو یا متوقع پریشانی سے،فکر مندی سے ہو یا بے چینی سے،دہشت گردی سے ہو یا قدرتی آفت سے، بلاشبہ ہر مسئلے کی بناء یہی حرام کی آمیزش ہے۔
آئیے ذرا غور کریں کہ تمام تر جفاکشی،محنت،احساس ذمہ داری کے باوجود یہ حرام کیسے درآتاہے؟اصل میں ہم ایمان کی اس روح کو فراموش کر بیٹھے ہیں جس میں رنج و راحت اور خوش حالی و تنگ دستی کو آزمائش قرار دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔دنیوی زندگی میں جن حالات سے سابقہ پڑتا ہے وہ خوشگوار و تکلیف دہ ہوسکتے ہیں ایسی صورت میں مومن کا رویہ صبروشکر کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اس کا مدد گار و حامی و ناصر تو اللہ رب العالمین ہے اور یہ آزمائش محض وقتی اورمقدور بھر ہے۔اسی موقع کے لیے ارشاد ہوا’’اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا‘‘(سورۃ ابراہیم آیت 7ترجمہ سید ابو الاعلیٰ مودودی)
یہ معاملہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔جب اقوام کو کوئی مصیبت،مشکل اور آزمائش درپیش ہو تو ہمت، جواں مردی،حوصلے اور رب کی استعانت کے ساتھ ہی کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی۔ہمیں چاہیےکہ اگر کوئی تکلیف یا مصیبت آپڑے تو اللہ کی رضا کی خاطر صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کاشکر ادا کریں اسی میں دین و دنیا دونوں کی کامیابی ہے۔مگر ہم بے صبرے اور ناشکرے بھی ہیں حرص اور لالچ نے ہمیں آپے سے باہر کر دیا ہے۔ذرا بجلی گئی تو ہم اس کے بغیر چند لمحے گزارنے کو تیار نہیں فوری طور پر غیر قانونی ذرائع سے بجلی حاصل کی جاتی ہے جو یقیناً حرام کے زمرے میں آتی ہے۔اسی بجلی کی روشنی میں آپ پڑھتے ہیں اور محض دنیوی علوم نہیں قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں اسی بجلی سے پانی کھینچنے یا چڑھانے کی موٹر بھی استعمال کرتے ہیں گویا حرام کی بجلی سے پانی حاصل کیا جسے نہانے ،منہ دھونے،کپڑے دھونے،کھانا پکانے،پینے اور یہاں تک کہ وضو کرنے تک بھی استعمال کرتے ہیں اب ذرا سوچئے!جب آپ کی بنیاد ہی حرام ہے تو دیگر امور کے فوائد کیسے مل سکتے ہیں۔رب العالمین نے فرمایا ’’اور نماز قائم کرو یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘(سورۃ العنکبوت آیت 45 ترجمہ سید ابو الاعلیٰ مودودی)
اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم نماز ادا کرتے ہیں اس کے قائم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں یعنی مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے ہیں مگر باہر نکلتے ہیں تو معاشرے میںتبدیلی نہیں۔اس کی دو بڑی وجوہات سامنے آتی ہیں کہ یا تو یہ مفہوم درست نہیں لیکن نعوذ باللہ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ قرآن کریم الہامی کتاب ہے اور اس پر ہمارا ایمان بھی ہے تو پھر ارشاد ربانی کے باوجود نماز ادا کرنے یا قائم کرنے کے بعد بھی برائیوں کا خاتمہ کیوں نہیں ہورہاـ؟تو دوسری وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ جس پانی سے وضو کیا گیا،کپڑے دھوئے گئے،پینے اور کھانا پکانے میں استعمال کیا گیا وہ تو سارا حرام تھا تو تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ ویسے اس کی ایک اور وجہ بھی جو زیرِ بحث موضوع سے ہٹ کر ہے وہ یہ کہ ہم نماز ادا کرنےکے دعویدار ہیں مگر شعوری طور پر اس کے قیام میں مخلص نہیں الا ماشاءاللہ آپ کو کچھ لوگ ملے گےجو اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھنے سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے تک جو کچھ زبان سے ادا کرتے یا جہری نمازوں میں امام سے سنتے ہیں اس کے مفہوم، مطالب، مقاصد اور خود پر نافذ کرنے کے حوالے سے باخبر ہیں ورنہ تمام ہی رٹے رٹائے انداز میں تمام کلمات ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔
حرام کی یہ آمیزش گیس کی چوری یا دیگر مواقع پر بھی نظر آتی ہے مثلاً چوراہوں،بازاروں اور سڑک کے کنارے ٹھیلے والے اکثر کنڈے کی بجلی استعمال کرتے ہیں جو ناجائز و حرام کے زمرے میں آتی ہے۔وہ بڑی محنت و جانفشانی سے روزی کماتے اور گھر لے جاتے ہیں اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے ہیں مگرمسئلہ وہی ہے کہ جب حرام کی بجلی کی روشنی میں کاروبار کیا گیا یا کاروباری اشیاء استعمال کی گئیں تو روزی حلال کہاں رہی؟
سرکاری دفاتر میں کسی جائز کام کو کروانا ہو تو بغیر رشوت دیے یہ کام کرانا ممکن نہیں سب جانتے ہیں کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔رہے رشوت دینے والے تو انہوں نے تو مجبوری،ناکامی اور اضطرابی کیفیت پر ایسے فتاویٰ حاصل کر لیے ہیں کہ جب جائز کام بھی نہ ہو تو بحالتِ مجبوری کراہت و گناہ سمجھتے ہوئے رشوت دی جا سکتی ہے۔سرکاری محکموں کے رشوت خور ملازمین کی توجہ جب اس ناجائز اورحرام طریقے کی طرف دلائی جاتی ہےتو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں یہ رشوت تو نہیں آپ کا کام کرنے کی رقم لی ہے۔اگر ان سے کہا جائے کہ حکومت آپ کو یہی کام کرنے کی تنخواہ دیتی ہے تو جواب ملتا ہے تنخواہ صرف دفتر آنے کی ملتی ہے کام کرنے کے لیے الگ سے نذرانہ دیجیے۔
سرکاری محکموں میں رشوت ستانی میں حکومت اور عدلیہ بھی برابر کی شریک ہے۔جب بھی یہ افسران منظر عام پر آتے ہیں تو کوئی احتساب کرتے ہوئے نہیں پوچھتا کہ جس قدر تنخواہ پر یہ کام کر رہے ہو،پرآسائش زندگی گزارنے، رہن سہن اورآمدورفت میں کیسے کامیاب ہوئے؟اصل میں نظام عدل ہی موجود نہیں کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والا کروڑوں کے مکانات اور لاکھوں کی مالیت کی گاڑیاں رکھتا اور اپنی آمدنی سے کہیں زائد اخراجات کا حامل ہے مگر پکڑ نہیں۔ہاں!خدا ترسی بھی دکھائی جاتی ہے اسی حرام کمائی سے عمرہ،حج،قربانی اور رمضان المبارک میں غریبوں کو راشن دلوا کر اللہ کی خوش نودی اور بندوں کی دعائیں سمیٹی جاتی ہیں۔
آپ جس قدر غور کریں گے اسی قدرہر ایک اس لت میں گرفتار نظر آئے گا۔پرائیویٹ اسکول انتظامیہ فیسوں کی وصولی پرمطمئن نہیں اسے اس بات سے دلچسپی بھی ہے کہ بچہ کتابیں،بیگ،یونیفارم اور جوتے فلاں فلاں دکان سے خریدے۔اسی طرح ڈاکٹر صاحبان کو یہ دلچسپی ہے کہ ادویات فلاں کیمسٹ سے اور ٹیسٹ فلاں لیبارٹری سے کرائے جائیں۔یہی نہیں کارپینٹر،میسن،رنگریز ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس کی بتائی ہوئی دکان سے سامان لیا جائے تاکہ بعد میں وہ اپنا کمیشن حاصل کر سکے۔اس دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہیں۔گاڑی والوں کو شکایت ہے کہ پٹرول پمپوں پر ناپ تول صحیح نہیں توخود ان کا رویہ بھی مسافروں کے ساتھ مشفقانہ نہیں بلکہ مجبوری کافائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
معلم کا پیشہ پیغمرانہ شمار ہوتا ہے۔یہاں بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی کچھ ایسے ذرائع اختیار کیے جا رہے ہیں جو حدود سے متجاوز ہیں۔مثلاً اساتذہ تعلیمی اداروں میں کم وقت دیتے ہیں اور پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز میں زیادہ محنت اور توجہ سے پڑھاتے دیکھے گئے ہیں۔بالکل اس طرح مسیحائی کے دعویدار ڈاکٹرز سرکاری اسپتال میں مریضوں کے ساتھ انتہائی روکھائی اور اکھڑپن سے پیش آتے ہیں کوئی سوال کروتو جواب نہیں دیتے اور جب ان کے کلینک میں جائیں توبالکل ہی مختلف معلوم ہوتے ہیں بڑی باریک بینی کے ساتھ مرض کی نوعیت،پرہیز وغیرہ بتاتے ہیں۔
اب ذرا غور کیجئے! جب ہماری روزی میں حرام کی ہلکی سی آمیزش بھی ہوگئی تو پھر بیوی بچوں کی نافرمانی،والدین اور بزرگوں سے بیزاری،بڑے چھوٹوں کا ادب و احترام کیسے ملحوظ رہ سکتا ہے پھر رزق میں برکت کیسے ہو گی؟ جب عبادات ہی قبول نہ ہوں گی تو اللہ کی مدد کیسے آئی گی؟ پھر تو آفات صحیح آرہی ہیں ہم عذاب کے حقدار ہیں اور خود ہی طلب کر رہے ہیں پھر پریشانی کیوں؟