Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ

16 Feb,2014

اے اصحاب اقتدار پاکستانی عوام اور معصوم بچوں کا کیا جرم ہے جو ایک نوالہ روٹی اور ایک گھونٹ پانی کو ترس رہے ہیں۔ اے حکمرانوں! جب تم اقتدار میں نہیں تھے تو تمہارے پاس بلٹ پروف گاڑیاں عظیم الشان بنگلے کہاں تھے۔ جب تم اقتدار میں آئے تو قوم کاسارا مال ہڑپ کر گئے۔ آج قوم کو تم نے سوائے بھوک و افلاس کے کچھ نہیں دیا وہ یتیم بچے جو بلک بلک کر اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹ جاتے ہیں۔ وہ بے روزگار جو اپنے بچوں کی معیشت کے بارے میں پریشان ہیں وہ افلاس مند جن کے لیے دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔ وہ جن کی عزتوں کا تماشا کیا گیا۔ وہ بے آبرو بے کس جو فٹ پاتھوں پر پڑے اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور ان کو ایک وقت کا کھانا کھلا دے۔ ان تمام لوگوں کا حساب کون چکائے گا۔ جبکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی میری لاپروائی سے مرجائے تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے متعلق بھی مجھ سے سوال ہوگا تو جو عوام آپ کے پاس اقتدار ہوتے ہوئے بھی آپ کے انصاف سے محروم ہوں ان کے متعلق کیا خیال ہے؟

اے حکمرانوں کی جماعت! اس کرب و درد میں سسکتی ہوئی قوم پر اتنا ظلم کرو جتنا کل اللہ کے دربار میں حساب دے سکو۔ اگر بے کسوں کا مداوانہ کیا گیا تو کل قیامت کو ان کے ہاتھ اور تمہارے گریبان ہونگے پھر تمہیں اللہ کی عدالت سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔

ہاں! اگر اللہ کے دربار میں کامیابی چاہتے ہو تو اللہ کے لیے اس قوم کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم کا ساماں کرو۔ لیکن افسوس کہ اس ملک عظیم پر ہر طرف مردہ خور گدھ ہی منڈلا رہے ہیں۔ نہ بھاگنے والوں کی منزل اور نہ رکنے والوں کو کوئی پناہ، جینا مرنا دونوں ہی مشکل نظر آتےہیں۔

حکمرانوں! اگر آج قوم سے غداری کرو گے تو جان لو کہ رات کے نالے اور دن کے ہاڑے عرش عظیم کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں تم اپنے جھوٹے آقاؤں ہنود و یہود کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی عوام پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہو۔

اے سابق اور موجودہ حکمرانوں! ابھی تو شروعات تھی کہ قوم کا اعتماد کچل کر رکھ دیا گیا پسی ہوئی قوم کا خیال کرتے اگر تم نے اپنا رویہ ایسا ہی رکھا تو تمہارا حال ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے بدتر ہوگا۔ غرور اور تکبر اللہ کو پسند نہیں اگر یہ امانت جو تم نے اپنے سر لے ہی لی ہے تو قوم سے دھوکہ نہ کرو۔ تمہارا مستقل ٹھکانہ امریکہ، لندن، برطانیہ، دبئی اور ایوان بالا نہیں بلکہ قبر کی اندھیر کوٹھڑی ہے جہاں اغیار کی پالیسی کام نہیں آئے گی پھر غیر کی تجویز چھٹکارا نہیں دلائے گی، پشت پناہی کے لیے سپر پاور کی امداد نہیں آئے گی پھر اکیلی جان اندھیرے میں گھبرائے گی اگر وہاں چھٹکارا چاہتے ہو تو عوام کے رستے ہوئے زخموں پر نمک پاشی نہ کرو۔ جن دشمنوں کی پالیسیوں کو اپنا کر تم اپنی زیست کو مزین کرنا چاہتے ہو ان درندوں کے دانتوں سے ابھی تک معصوم بچوں کا خون ٹپک رہا ہے عراق، افغانستان، شام، فلسطین، برما، صومال، کشمیر اور اب وزیرستان میں خون کی ندیاں بہانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اور اب یہ بات سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ نیٹو فوج پاکستان میں جب چاہے جہاں چاہے من مانی کاروائی کر سکتی ہے۔ پاکستان احتجاج ریکارڈ کروا بھی دے تو پاکستان کو اعلان کرنا پڑتا ہے کہ یہ کاروائی ہماری مرضی سے کی گئی یا ہم نے خود کی ہے۔ اور ویسے بھی کمزور اور کم ہمت غلامانہ ذہنیت رکھنے والے اپنوں کے لیے شیر اور اپنے آقاؤں کے لیے راکھ کا ڈھیر ہوتے ہیں ایسی ہی کسی کیفیت کی تعبیر کے لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا:

؎ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اے اصحاب حل و عقد! ہوش کے ناخن لو ان معصوم اور تڑپتی لاشوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

اپنا حال اس طوطے کی طرح نہ بناؤ جس کے گلے میں لال رنگ کا طوق غلامی ہوتا ہے وہ اپنے مالک کی رٹی رٹائی باتیں دہراتا رہتا ہے۔ پنجرے میں رہ رہ کر اس کی قوت پرواز یا خواہش پرواز ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو آزاد بھی کیا جائے تو اڑ کر زیادہ دور نہیں جا سکتا۔

اے ارباب نشاط! جس ملک کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہے اس کی تاریخ پڑھ کر دیکھو اس کے حصول کے لیے جانوں کو تڑپایا گیا نوجوان لڑکیوں کو ان کے ورثاء کے سامنے بے آبرو کیا گیا نوجوانوں کے سرنیزوں کی انیوں پہ لٹکائے گئے، ماؤں، بہنوں کی عزتوں کا تماشا کیا گیا لیکن افسوس آج اسی ملک پر بے حس مسلط ہیں جو ملک و ملت کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنی ذاتی ساکھ بچانا چاہتے ہیں۔ حکومت کے منصب کو سنبھالنا ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک یا پانی کے بہاؤ پر بہہ جانے والے کیڑوں مکوڑوں اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں ہیں۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلا موں کے لیے نہیں ہوں اور جو صبغۃ اللہ (اللہ کا رنگ) کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ عزیز رکھتے ہوں۔

انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوتا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نام ہے اور مڑجانے کا نام نہیں موڑ دینے کا نام ہے دنیا میں کبھی بزدلوں نے انقلاب برپا نہیں کیا جو لوگ اپنا کوئی اصول، نصب العین، مقصد حیات اور بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ اور مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں اور جو غیر کے سانچے میں ڈھل جاتے اور دباؤ میں آجاتے ہوں ان کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں ملتا تاریخ بنانا صرف بہادروں کا کام ہے بزدلوں کا نہیں۔

اے حکمرانوں! دنیاوی عدالتون سے معافی حاصل کرنا اور بریت حاصل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اخروی عدالت بھی تمہیں بری کر دے گی بلکہ وہاں تو ’’ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ‘‘ کا سامنا ہو گا اور قرآن کا فیصلہ سن لیں:

وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا   (الکھف 49)

اور کہیں گے ’’ہائے ہماری بدبختی اس کتاب نے نہ تو کوئی چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی، سب کچھ ہی ریکارڈ کر لیا ہے۔

اے صاحب اختیار! اس دن اقتدار، سرداری، چودھراہٹ، سطوت، شان اور مقام کام نہیں آئے گا۔ اس لیے آج اس فریضہ کو ایمان داری سے سر انجام دو وگرنہ یاد رکھو۔

اے حکمرانوں! اپنی جان کے متعلق اللہ سے ڈرو۔ آپ اکیلے پیدا ہوئے اکیلے مریں گے اکیلے اٹھیں گے اکیلے ہی حساب دیں گے اللہ تعالیٰ کی قسم جن لوگوں کو آج آپ اپنے قریب ترین دیکھ رہے ہو ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہ ہوگا۔ ہم آپ کو وہی وعظ و نصیحت کرتے ہیں جو سلف الصالحین حکام کو کیا کرتے تھے کہ لوگوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اللہ کے معاملے میں لوگوں سے نہ ڈرو، تمہارا قول فعل کے خلاف نہ ہو کیونکہ بہترین قول وہ ہے جس کی فعل تصدیق کرے۔

جو بھی مسلمانوں کے کسی کام کا والی ہو اسے قیامت کے روز اس حال میں اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن پر بندھے ہونگے اسے جہنم کے پل پر کھڑا کیا جائے گا اور وہ پل اس کو اس طرح جھنجھوڑے گا کہ اسے اپنا ہر جوڑ اکھڑتا ہوا معلوم ہوگا پھر اسے واپس لا کر اس کا حساب کیا جائے گا اگر وہ نیک ہوگا تو اپنی نیکی کی وجہ سے نجات پا جائے گا اور اگر برا ہوگا تو وہ پل اس کے لیے ٹوٹ جائے گا اور وہ ستر سال کی راہ تک جہنم میں گرتا جائے گا۔

بیروت کا قصائی

اسرائیل کا سابق وزیر اعظم اور وزیر جنگ و جدال لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ لال کرنے والا ایریل شیرون85 سال کی عمر میں دماغی فالج کی وجہ سے مسلسل 8 سال تک کومہ کی حالت میں رہنے کے بعد 11 جنوری 2014 کو جہنم واصل ہو گیا۔

مسلمانوں کا بدترین دشمن اور فلسطینیوں کا قاتل 8 سال تک زندہ لاش بنا رہا یہ وہی ظالم اور جابر تھا جس نے 1982ء میں لبنان جنگ کے دوران وزیر دفاع ہوتے ہوئے فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں، صابرہ اور شتیلا پر شب خون مارنے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں 460 صابرہ اور شتیلا میں 3500 نہتے فلسطینیوں کو بہت بے دردی اور سفاکی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کا قاتل ایریل شیرون کی انتہائی دردناک موت مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی حکمران خاص طور پر اور ہر ظالم، جابر اور آمروں کو عام طور پر چاہیے کہ اس ظالم کی موت سے سبق حاصل کریں اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد سے باز آ جائے۔ اگر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر قانون الٰہی مکافات عمل سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔ جیساکہ آج کل بہادر کمانڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والا بزدل آمر پرویز مشرف مکافات عمل کا مزہ چکھ رہا ہے۔ دنیا میں ظلم و جبر کرنے والوں کو یاد رہنا چاہیے کہ ایسے ظالم نہ صرف آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قہر و غصب کے مستحق ہیں بلکہ دنیا میں بھی انہیں عبرتناک سزا ملتی ہے۔

پس جان لو!

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ

آپ کے پروردگار کی گرفت یقینا بڑی سخت ہے۔

Read more...

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

12 Oct,2013

 

اب سے کوئی چار ہزار سال پہلے جد الانبیاءجناب ابراھیم خلیل اللہ ایک پہاڑ کی اوٹ میں کھڑے ہو کر یہ دعا کر رہے تھے۔

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ   (سورۃ ابراہیم 37)

اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بےکھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انھیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں ۔

دلوں کے میلان اور رزق کی دعا کے ساتھ اپنی شریک حیات ھاجرہ علیہا السلام اور بڑھاپے میں (رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ )(اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما) کی تعبیر و قبولیت کے نتیجہ میں ملنے والے سہارے اور دل کے سرور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ وادی مکہ میں چھوڑ کر خود بہت دور جا رہے تھے کچھ کجھوریں اور تھوڑا سا پانی بہم پہنچا سکے تھے جس پر ان دونوں نفوس کا مدار حیات تھا مگر یہ سامان کب تک چلتا آخر ختم ہو گیا اور یہ بات تو ابراہیم علیہ السلام بھی جانتے تھے مگر رب تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لیے اور کمال توکل کا لازمہ ہونے کے ناطے انسان کو دنیاوی اسباب مقدور بھر اختیار کرنے چاہیں یہی پیغام ابراہیم علیہ السلام دے رہے تھے رب تعالیٰ کے فیصلہ پر شکر و رضا سے سر تسلیم خم کرنے والوں کو یقیناً اللہ ضائع نہیں کرتا یہی وہ حسن یقین تھا جس کا اظہار ام اسماعیل نے (اذا لا یضیعنا اللہ ابدا) اگر اللہ کا حکم ہے تو پھر وہ ہرگز ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ کے الفاظ کے ساتھ کرتے ہوئے عجیب اطاعت ووفا شعاری کی مثال قیامت تک آنے والیں حوا کی بیٹیوں کے لیے قائم کی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف زمزم زمزم کے چشمہ کی شکل میں پانی کا انتظام کیا بلکہ قیامت تک صفا و مروہ کے درمیان بیقراری میں اٹھنے والے ام اسماعیل کے پاؤں کے نشان یوں محفوظ فرمائے کہ بیت اللہ کی طرف آنے والے ہر حاجی اور عمرہ کرنے والے کے لیے انہی نشانات کے پیچھے چلنا ضروری قرار دے دیا۔

پھر بیت اللہ کی دیواریں بھی اٹھائی گئیں اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ’’واذن فی الناس بالحج‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حج کا عالمی اعلان فرما دیا ابراہیم علیہ السلام کا آتش نمرود میں بے خطر کود جانا پھر بیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ میں چھوڑ کر چلے جانا پھر اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں اپنا کلیجہ کاٹنے پر ناصرف آمادہ ہونا بلکہ عملی کوشش بھی کر ڈالنا بیت اللہ تعمیر کر کے اعلان حج کرنا یہ سب ایک ہی پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم محبت و اطاعت میں عقل کو لگام اچھا ہے کہ دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی تو اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ ابراہیم علیہ السلام کا یوں ایک ملک سے دوسرے ملک عراق سے شام پھر مصر اور فلسطین پھر حجاز مقدس تشریف لے جانا یہ سب رب کے حکم پہ اقامت توحید کے لیے تھا کہ جس کا انعام رب تعالیٰ نے ’’إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا‘‘ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا کی صورت میں دیا۔ اسماعیل علیہ السلام جب تک زندہ رہے مکہ میں سیادت و سرداری بھی ان کی رہے پھر ان کے بارہ بیٹوں میں سے نابت اور قیدار زیادہ مشہور ہوئے اور پھر 21 صدیوں تک کے لیے زمام اقتدار بنو جرھم کے ہاتھ میں چلی گئی مگر حاجیوں کا مال ظلم کے ذریعے ہتھیا لینا جب انہوں نے وطیرہ بنا لیا تو معاملہ بنو خزاعہ کے ہاتھ آگیا پھر قریش آئے یہاں تک کے رسول کریم تشریف لے آئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے اہل مکہ کو رزق کی فروانی رہی امن جیسی نعمت سے بھی سر فراز رہے رب تعالیٰ نے باور کروایا’’الذی اطعمہم من جوع وامنہم من خوف‘‘ امن و استقرار یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کے بغیر مال و دولت کی فراوانی اور دیگر نعمتوں کا مزہ کر کرہ ہو کر رہ جاتا ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے قبل جزیرۃ العرب میں امن و امان نام کی کوئی چیز نہ تھی جنگل کا قانون تھا اور لوگ حجاز کی چھوٹی سی حکومت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے مگر مایوس رہتے کہ یہ حکومت اپنے نازک کندھوں پہ عدل و انصاف کا بڑا بھاری بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک بعثت سے ظلم و طغیان کا خاتمہ ہوا نہ صرف جریرۃ العرب امن کا گہوارہ بن گیا بلکہ چہار دانگ عالم شمع رسالت کے پروانے امن و ہدایت کی روشنی کے ساتھ پھیل گئے۔ مگر آہستہ آہستہ قرون اولیٰ کے دور ہو جانے اور وقت گزرنے کے ساتھ ظلم و عدوان کی ایسی ہوا چلی کہ پھر حجاج کرام کہ قافلے لٹنے لگے شرک پھیل گیا یہاں تک کہ مصر میں بدوی و رفاعی عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ، سیدناحسین بن علی اور امام ابو حنیفہ، عبدالقادر جیلانی یمن میں ابن علوان سے مرادیں مانگی جانے لگیں نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ مکہ وطائف میں ابن عباس اور دیگر اصحاب رسول سے حاجت روائی کے لیے دعائیں مانگی جانے لگیں اور خود امام الہدیٰ سیدا لمرسلینﷺ کی مسجد کے آس پاس شرکیہ استغاثہ و استعانت کی صدائیں بلند ہونے لگیں خلافت عثمانیہ کا دور دورہ تھا ترکوں کا سکہ چل رہا تھا نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر خانہ جنگی کی عملی تصویر بنا ہوا تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے آنے والی رقوم مزاروں کے مجاوروں پہ تقسیم ہوتی تھی راستے غیر محفوظ ہو گئے تھے یہاں تک کہ ہندوستان میں مخصوص مسلک کے مفتیان کرام حج کی فرضیت ہی ساقط فرما چکے تھے ان حالات میں عیینہ کی وادی میں امام محمد بن عبدالوہاب توحید کی دعوت لیکر اٹھے لوگوں کو صحیح عقیدہ کی طرف بلایا وہاں کے امیر عثمان بن مسلم کو ساتھ ملا کر دعوت کے کام کو آگے بڑھایا مگر حدود اللہ میں سے ایک حد کے نفاذ کی وجہ سے احیا ء و قطیف کا عیاش حاکم آپ کے خلاف ہو گیا جس نے آپ کے قتل کا حکم صادر کر دیا عثمان بن مسلم استقامت نہ دکھا سکھا اور شیخ کو انتہائی کسمپرسی کے عالم میں عیینہ چھوڑنا پڑا اور پیادہ تپتے صحراؤں کا سفر طے کرتے ہوئے درعیہ پہنچے درعیہ کے امیر محمد بن سعود نے خوشدلی سے شیخ کا استقبال کیا یوں آل سعود کا آل شیخ کے ساتھ تعاونوا علی البر والتقوی پر معاہدہ ہو گیا جو بحمد اللہ اب بھی قائم ہے اور آل سعود جدید سعودی عرب کو ترقی کی راہ پہ گامزن کیے ہوئے امن استحکام کا پھریرا لہرا رہا ہے۔ توحید کا لہراتا ہوا علم استعمار کے ساتھ ساتھ صوفی افکار کے دلدادہ تقلید جامد کے رسیا اور خانقاہی مزاج رکھنے والے مسلمانوں کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا یہی وجہ ہے کہ فرنگی سامراج خانقاہی مزاج ترکی و مصری مدتوں شیخ کی شخصیت اور دعوت کو بدنام کرنے میں لگے رہے۔ دجل و فریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہویں صدی ہجری کی اس عظیم تحریک کو اس کے روح و رواں امام محمد سے منسوب کرنے کی بجائے ان کے والد عبدالوہاب کی طرف منسوب کر کے اس کے ڈانڈے دوسری صدی ہجری کی ایک خارجی تحریک رستمی وہابیت سے جاملائے کیونکہ اگر اس تحریک کو امام محمد بن عبدالوہاب سے منسوب کیا جاتا تو یہ تحریک اپنے نام ’’محمدیت‘‘ یا محمدیہ کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت جلد قبول عام حاصل کر لیتی یوں اس تحریک کو غیروں نے پامال کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اس کے لیے برٹش آرمی کے کمانڈر سیڈلیر کا سفر نامہ ہندوستان سے ریاض تک اگر پڑھ لیا جائے کی کافی ہے پھر درعیہ کے کھنڈرات کو ابراہیم پاشا نے کیوں مسمار کیا۔ اس تحریک کو اپنوں نے فراموش کیا اور غیروں نے خوب بد نام کیا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے کبھی انہدام بقیع پہ نوحہ کرتے ہوئے مذمتی بیز لگائے جاتے ہیںکبھی مزاروں اور قبوں کے خاتمہ پر سعودی حکومت مطعون ٹھرتی ہے پھر یہی نہیں نظریاتی اعتبار سے اس محمدی تحریک کے حامیوں پہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ جناب انہیں ریال ملتے ہیں قلم کو تلوار بنا کر اور اس کی نوک پر پگڑیاں اچھال کر صحافت کے بازار میں بھاؤ بڑھایا جاتا ہے بغض صحابہ کا مخصوص عقیدہ رکھنے والوں کی آبیاری کرتے ہوئے انہیں شیر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بغض معاویہ میں سعودی عرب کی ہر نیکی برائی نظر آنے لگتی ہے مصر میں ہونے والے ستم کی کوئی بھی تایید نہیں کر سکتا مگر جذباتی ہونے کے بجائے حقائق کو دیکھیں کہ اخوانیوں کو اقتدار دلانے والی سب سے بڑی حلیف جماعت (النور) کو مصر کے اقتدار میں اخوانیوں نے کتنا حصہ دیا وقت نکل جانے پہ کیا آنکھیں نہ پھیر لی گئیں سعودی عرب نے امداد بھی کی تائید بھی مگر اقتدار ملنے کے ساتھ انہی کے پاؤں تلے سے جمہوریت کے نام سے رداء اقتدار کھینچنے کی باقاعدہ منظم کوشش شروع کی گئی اور خبردار کرنے کے باوجود ان کے دشمنوں سے محبت کی پینگیں بڑھائی گئیں ایران سے قربت اور سعودیہ سے دوری بڑھی مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ ظلم کی داستان ہے یہ خون مسلم کی ارزانی ہے جو ذراسی ناعاقبت اندیشی کا کڑوا ثمر ہے اللہ ان کی مدد فرمائے ہم دوست اور دشمن کو سمجھیں سعودی حکمرانوں کے جرائم میں سے ایک کالم نگاریہ جرم بھی گنواتا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو پناہ دی جبکہ انہی کے ہم مسلک بریلویوں سے نفرت کی جاتی رہی۔ گویا کالم نگار تحت اللفظ یہ خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ نواز شریف کو پناہ نہیں دینی چاہیے تھی بلکہ ایٹم بم کی تخلیق کے باقی کرداروں کی طرح انہیں بھی پھانسی لگنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے تھا نیز پوری دنیا سے لوگ سعودی عرب جاتے ہیں کیا کبھی کسی کو صرف اس لیے ویزہ دینے سے سعودی عرب نے انکار کیا ہے کہ وہ بریلوی ہے یا کوئی اور بلکہ ایرانی بھی حرم جاتے ہیں اور جو کچھ ماضی میں وہ کر چکے ہیں وہ بھی کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے پھر بھی حرم کے دروازے سب پر کھلے ہیں تو نواز شریف کو مہمان بنانے پہ برہمی چہ معنی دارد اور اگر معیار ہی کی بات ہے تو یہی اخبار پیپلز پارٹی کو رگیدتا ہے بے نظیر کی کردار کشی کرتا ہے مگر جب بات پیسے اور مال کی ہوتی ہے تو اپنے اخبار کا آدھا فرنٹ پیج اشتہار کے مخصوص کر دیتا ہے بے نظیر کی تصویر چھاپتا ہے جمہوریت کا چیمپئن بتاتا ہے اور مال بناتا ہے یہ صفحہ قارئین کی امانت بھی ہے اور مخصوص نقطہ نظر کی وجہ سے یہ اخبار خریدنے والوں کے لیے اذیت کا باعث بھی۔ مگر آپکی اپنی بیان کردہ مثال شاید آپکے لیے قابل عمل ٹھری ہے۔ باغیاں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی۔ انہیں یہ بھی تکلیف ہے کہ سلفیوں کو جامعہ اسلامیہ میں داخلہ دیا جاتا ہے یہاں وہ اس بات پہ خوش نہیں کہ پاکستانی بھائی تعلیم کے لیے وہاں جاتے ہیں جہاں نہ صرف تعلیم کا بار سعودی حکومت اٹھاتی ہے بلکہ آمدورفت رہائش و طعام کے اخراجات کے ساتھ اسکالر شپ بھی دی جاتی ہے اور اب تو نیٹ پہ فارم پُر کیا جاتا ہے جس میں مسلکی تفریق کا کوئی خانہ نہیں۔ آپ تنقید کر رہے ہیں ٹھیک مگر حقائق کو مسخ نہ کریں شاہ عبد اللہ کی بیماری اور معذوری کا مذاق اڑاتے ہوئے کالم نگار یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ پاک ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ آج کا جُگت گو کل خود بھی لطیفہ بن سکتا ہے۔مصر سے بہت پہلے آپ کے پڑوس شام میں لگی ہوئی آگ کے بجھانے میں اخوانیوں کا کیا کردار رہا۔ لاکھوں نفوس کے قاتل بشار الاسد کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف آپکے قلم میں اتنی شدت کیوں نہیں پاکستان سے دینی تعلیم حاصل کر کے واپس ایران لوٹنے والے جو اسی پاداش میں تختہ دار پہ کھینچنے گئے کہ وہ کسی سلفی ادارہ سے پڑھ کر گئے تھے اور ان کی مخبری کرنے والے مخصوص سیاسی افکار کے حامل لوگ تھے۔ تل ابیب سے ماسکو تک مدینہ منورہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے استعمار اپنے گماشتوں کے ذریعے سعودی عرب کو گھیرنا چاہتا ہے ہم صرف یہ کہیں گے کہ ’’وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا‘‘   کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے ۔ توحید کی دعوت دینے والوں کا سعودی عرب سے تعلق مال سے زیادہ مآل سے ہے یہاں عقیدت کا راستہ عقیدہ کے ساتھ وابستہ ہے ریالوں اور ڈالروں کی ریل پیل تو 1938ء میں سعودیہ میں پیڑول دریافت ہونے کے بعد آہستہ آہستہ شروع ہوئی مگر اہل توحید تو اس سے بہت پہلے کہ ان سے جڑے ہوئےہیں۔ ٹی وی چینلز نے پرانے میراثیوں کی ذمہ داری سنبھال لی ہے امریکہ کا ایک جہاز امدادی سامان لے کر آئے تو ہر چینلز پہ چوبیس گھنٹے اڑتا نظر آتا ہے جبکہ سعودی عرب کا سفیر اپنے دیگر ساتھیوں سمیت ایام عید سیلاب زدگان میں گزار دے سعودی عرب بے پناہ امداد فراہم کرے تو انہیں جائز کوریج بھی نہ دی جائے مگر وہ شکوہ نہ کریں بلکہ امداد دے کر بھی ڈھنڈورا نہ پیٹیں۔ ڈپلومیٹک مشن کا عضو قربان کروائیں لیکن سعودی ٹی وی پہ خبر نہ چلائیں کہ پاکستان کی بدنامی نہ ہو ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے والے سعودی عرب کے خلاف استعماری ایجنٹ تو لکھیں یا بولیں تو سمجھ آتی ہے مگر جوش حق گوئی میں اپنوں کا قلم بہک جائے تو بہت تکلیف کی بات ہے ہر وہ بات جو پاکستان اور سعودی عرب کے مفادات کے مخالف ہو اس سے استعماری طاقتیں خوش ہوتی ہیں اور ہمیں یہ سب چیزیں سامنے رکھنی ہیں سعودی عرب کی حکومت کے کئی جرائم ہیں جن میں سے پوری دنیا میں دین کی نشر و اشاعت اور توحید خالص کے ابلاغ کے لیے مختلف دینی مراکز و مساجد کی تعمیر اپنے شہریوں کے حقوق کی پاسداری تنفیذ شریعت، خدمت حرمین شریفین، حجاج کرام کے لیے محفوظ اور مامون راستے مظلوم مسلمانوں کی ہر جگہ مدد جیسے برمی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینا اور بہت سے دیگر جرائم جنکی تفصیل ہم ان شاءاللہ اس ماہ کے مجلہ میں قارئین کی نذر کر رہے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ان معاملات میں پاکستان کو بھی سعودی عرب کا ہم نوا بنا دے دونوں ملکوں کو اللہ حاسدوں کے حسد اور اشرار کے شر سے محفوظ رکھے ، اور دیگر تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

شکیل آفریدی کے وزن میں کچھ لوگ محترمہ عافیہ صدیقی کو تول ر ہے ہیں اندھیرا اور اجالا برابرکیسے ہو سکتا ہے غدار اور وفادار کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔ طالبان سے مذکرات کے نام پہ استعماری ایجنٹوں کے پیٹ میں بل پڑ رہے ہیں بہرحال حل یہی ہے کہ یہ طاقت پاکستان کے لیے استعمال ہو ۔ زلزلوں کا ایک سلسہ شروع ہوا ہے اللہ پاک اہل بلوچستان کی مدد فرمائے۔ اور وہاں امدادی کاروائیوں میں مصروف عمل سب سے پہلے پہنچنے والی ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ اور دیگر احباب و اداروں کو ہمت بھی دے اور جزائے خیر سے نوازے۔ رکاوٹ بننے والوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ ہم سب کو آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔ چرچ میں بم دھماکے اور دیگر خود کش دھماکے اصل میں مذکرات کو سبوتاژ کرنے کی سوچی سمجھی اسکیم ہے اللہ سمجھنے کی توفیق کے ساتھ سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

Read more...

چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو کسی کے مر جانے سے کردار مر نہیں سکتا

15 Dec,2013

چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو

کسی کے مر جانے سے کردار مر نہیں سکتا


لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوْا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ (سورۃ المائدۃ82)

’’تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو جو شرک کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں دانش منداور عبادت گذار لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ‘‘۔

دین اسلام انسانیت میں اتفاق و اتحاد پیدا کرتا ہے ان کو آپس میں تسبیح کے دانوں کی ماند جوڑتا ہے لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے اگر مذہب، سیاسی، ذاتی، نسلی اور گروہی اغراض کے لیے استعمال کیا جائے تو امت مسلمہ کو توڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے ہمارا دین امن و سلامتی کا دین ہے اگر اسے مذکورہ بالا متعصبانہ مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو قتل و غارت گری کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اجمعین کے مبارک عہد کے بعد سے آج تک ہر دور میں مسلسل اسلام کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں،ہر زمانے میں اس کو مٹانے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مختلف جتن کئے گئے ،اسلام کے خلاف محاذ آرائی بیرونی طور پر جنگ وجدال اور صلیبی معرکوں کے ذریعہ جس شدومدسے کی گئی، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ میدان قتال میں اسلام کے خلاف دشمنوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ،جس کی انہیں توقع تھی ،البتہ اندرونی محاذ پر اُن کی تخریبی سازشیں پوری طرح کامیاب رہی ہیں جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ آج پارہ پارہ نظر آتی ہے۔ اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے کون لوگ ہیں اور انہوںنے کن ہتھیاروں سے اسلام کے قلعہ میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی ہے؟ اس کا جواب مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے واضح طور پر ملتا ہے۔

قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں ہمارے سب سے بڑے اور شدید دشمن ’’یہود ‘‘ قرار پاتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ لوگ بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ! اﷲتعالیٰ نے عیسائیوں کو کسی قدر ہمدرد بتایا ہے ۔ربّ العالمین سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے ؟لیکن جب ہم ان آیات کی روشنی میں تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ وہ نصاریٰ جن کے دلوں میں ہمارے لئے نرم گوشہ بتایا گیا ہے ،ان سے گذشتہ چودہ سو سالوں میں مسلمانوں کے بے شمار معرکے اور محاذ آرائیاںہوئی ہیں ،خاص طور پر صلیبی جنگوں کا طویل سلسلہ تو تاریخ میں مشہورہی ہے ۔،اسی طرح مشرکین اور کافروں سے بھی بہت سی جنگیں مسلمانوں نے لڑی ہیں ،مگر ہمارے سب سے بڑے دشمن یعنی ’’یہودی ‘‘ جو ہم سے شدید عداوت رکھتے ہیں ،ان کے بارے میں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیبر‘‘ میں یہود کی جو خبر لی تھی اور پھر آخر میں سیدنا عمر فاروق رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے انہیں خیبر اور گردونواح سے نکال باہر کیا تھا اس کے بعد سے یہود کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی قابل ذکر محاذ آرائی یا معرکہ موجودہ صدی تک ہمیں نظر نہیں آتا، البتہ اس صدی میں ’’اسرائیل‘‘ کے ناجائز قیام کے بعد سے یہود کی عربوں سے متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی ان سے جنگ وجدال کا ماحول جاری ہے ۔

ہمارا ایمان ہے کہ اﷲتعالیٰ کا کلام برحق ہے اور اسی طرح ہمیں یہ بھی یقین کامل ہے کہ کوئی ’’شدید دشمن’’چودہ سو سال کے طویل عرصہ تک خاموش اور چپ چاپ نہیں بیٹھ سکتا ۔وہ تو اپنی فطرت کے مطابق لازمی طور پر حریف کو نقصان پہنچانے اور اس کو خاک میں ملانے کی کوشش ہمہ وقت کرتا رہے گا۔

آئیے اس بات پر غور کریں کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ’’قوم یہود ‘‘ نے گذشتہ چودہ سو سالوں میں ہمیں کہاں کہاں اور کیسے کیسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲعنہ کے دور خلافت تک قوم یہود کو اسلام اور ملت اسلامیہ کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی ہمت بھی نہیںہوئی ،لیکن اس کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اﷲعنہ کے عہد مبارک میں اپنے آپ کو فعال بنانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے عبداﷲبن سبانامی یہودی جو یمن کا رہنے والا تھا ،اس نے ایک سازش کے تحت بظاہر اسلام قبول کیا اور پھر مسلمانوں کے درمیان رہ کر مکر وفریب کے جال پھیلانے میں مصروف ہوگیا، اور اس نے نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس وقت کے مسلمان (خصوصاً مصر اور عراق کے علاقہ میں )اس کے دام فریب میں پھنس گئے۔

پھر جب سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے عراق کے شہر ’’کوفہ‘‘ کو اپنا دارالخلافہ بنالیا۔ تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور چونکہ مختلف اسباب وجوہات کی بنا پر اس علاقہ کے لوگوں میں غالیانہ اور گمراہانہ افکار ونظریات قبول کرنے کی صلاحیت کچھ زیادہ ہی تھی۔ اس لئے کوفہ میں عبداﷲبن سبا کے گروہ کو اپنے مشن میں بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ابن جریر طبری کا بیان ہے کہ عبداﷲبن سبانے سادہ لوح مسلم عوام کو گمراہ کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کی محبوب اور مقدس ترین شخصیت کے بارے میں غلو وافراط کا نظریہ عام کیا جائے ،اس مقصد کے لیے اس یہودی نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ’’مجھے مسلمانوں پر تعجب ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا میں دوبارہ آمد کا عقیدہ تو رکھتے ہیں، مگر سید الانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل نہیں۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء سے افضل واعلیٰ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یقیناً دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ عبد اﷲ بن سبا نے یہ بات ایسے جاہل اور ناتربیت یافتہ مسلمانوں کے سامنے رکھی جن میں اس طرح کی خرافات قبول کرنے کی صلاحیت دیکھی پھر جب اس نے دیکھا کہ اس کی یہ غیر اسلامی اور قرآنی تعلیم کے سراسرخلاف بات مان لی گئی ،تو اس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خصوصی قرابت کی بنیاد پر آپ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شان میں غلو آمیز باتیں کہنا شروع کردیں، ان کی طرف عجیب وغریب ’’معجزے‘‘ منسوب کرکے سیدنا علی رضی ﷲعنہ کو مافوق الفطرت ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور جاہلوں اور سادہ لوح طبقہ جو اس کے فریب کا شکار ہوگیا، وہ اس کی ساری خرافات قبول کرتا رہا، اس طرح اس نے اپنی سوچی سمجھی سازش کے مطابق تدریجی طور پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ایسے خیالات رکھنے والے اپنے معتقدین کا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس یہودی نے انہیں یہ باور کرایا کہ اﷲتعالیٰ نے نبوت ورسالت کے لئے دراصل سیدنا علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کو منتخب کیا تھا، وہی اس کے مستحق اور اہل تھے۔ اور حامل وحی فرشہ جبرائیل امین کو ان کے پاس نبوت دے کر بھیجا تھا، مگر انہیں اشتباہ ہوگیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر محمدبن عبداﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔

اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے کچھ احمق اور سادہ لوح لوگوں کو یہ سبق پڑھایا کہ سیدنا علی رضی اﷲعنہ اس دنیا میں اﷲکا رُوپ ہیں اور ان کے قالب میں اﷲکی روح ہے، اور اس طرح گویا وہی اﷲہیں۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ ان کے لشکر میں کچھ لوگ ان کے بارے میں ایسی خرافات پھیلارہے ہیں تو آپ نے ان شیاطین کو قتل کردینے اور لوگوں کی عبرت کے لیے آگ میں ڈالنے کا حکم صادر فرمایا اور اس طرح سیدنا علی رضی اﷲ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے یہ شیاطین ان ہی کے حکم سے قتل کردئیے گئے اور آگ میں ڈالے گئے۔ عبد اﷲ بن سبا یہودی نے اسلام میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد یہ تحریک خفیہ طور پر اور سرگوشیوں کے ذریعہ جاری رہی اور رفتہ رفتہ اسلام میں مستقل طور پر ایک اسلام مخالف لابی وجود میں آگئی، جو سیدنا علی رضی اﷲعنہ کی محبت کی آڑ لے کر اسلام اور مسلمانوں میں مختلف ڈھنگ سے باہم نفرت وعداوت اور بغض وکینہ پیدا کرنے میں مصروف ہوگئی۔ اس طرح کچھ لوگ سیدنا علی رضی اﷲ کی الوہیت یا ان کے اندر روحِ الٰہی کے حلول کے قائل تھے اور کچھ ایسے تھے جو اُن کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل واعلیٰ نبوت ورسالت کا اصل مستحق سمجھتے تھے اور جبرائیل امین کی غلطی کے قائل تھے، کچھ لوگ ان میں ایسے تھے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نامزد امام ،امیر اور وصی رسول مانتے تھے ،اور اس بناء پر خلفا ثلاثہ یعنی سیدنا ابوبکرالصدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اﷲعنہم، اور ان تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جنہوں نے ان حضرات کو خلیفہ تسلیم کیا تھا اور دل سے ان کا ساتھ دیا تھا، یہ لوگ انہیں کافر ومنافق یا کم ازکم غاصب وظالم اور غدار کہتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی ان میں مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے گروہ تھے جو مختلف ناموں سے پکارے گئے۔ ان سب میں نقطۂ اشتراک سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں غلو تھا، ان میں بہت سے فرقوں کا اب دنیا میں غالباً کہیں وجود بھی نہیں پایا جاتا، تاریخ کی کتابوں کے اوراق ہی میں ان کے نام ونشان باقی رہ گئے ہیں۔ تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عبداﷲ بن سبا یہودی ہی اسلام میں مذکورہ بالا فرقہ کا موجد وبانی ہے۔ نیز یہ لوگ دراصل یہودی تحریک ہے جو اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو باہم متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا وجود ختم کرنے کے لیے، ایک سازش کے تحت برپاکی گئی تھی۔ ابن سبا کے بارے میں اسماء الرجال کی کتاب ’’رجال الکشی‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا جا رہاہے۔ابن جریر طبری ’’تاریخ الامم والملوک ‘‘ شہرستانی کی ’’الملل والنحل ‘‘ ابن حزم اندلسی کی ’’الفصل فی الملل والنحل ‘‘ اور ابن کثیر دمشقی کی ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ اس فرقہ کا بانی عبداﷲبن سبا یہودی ہے۔ مگر چونکہ بہت سے اس فرقہ کے علماء اورمصنفین عبداﷲ بن سبا سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں، یہاں تک کہ ماضی قریب کے بعض مصنفین نے تو عبداﷲبن سبا کو ایک فرضی ہستی قرار دے دیا ہے گویا وہ سرے سے اس کے وجود ہی کے منکر ہیں، اس لئے ان کے نزدیک اسماء رجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال الکشی‘‘ کاحوالہ پیش کرتے ہیں:

(ذکر بعض اہل العلم انّ عبد ﷲ بن سبا کان یھودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام ، وکان یقول وھو علی یھود یتہ یوشع بن نون وصی موسی بالغلو ، فقال فی الاسلام بعد وفاة رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم علی علیہ السلام مثل ذلک ، وکان اول من اشھر بالقول بفرض امامة علی واظھر البراء ة من اعدائہ وکاشف مخالفیہ کفرھم ۔) بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبد اﷲ بن سبا پہلے یہودی تھا، پھر اسلا م قبول کیا اور سیدنا علی علیہ السلام سے خاص تعلق کا اظہارکیااور اپنی یہودیت کے زمانے میں وہ موسیٰ کے وصی یوشع بن نون کے بارے میں غلو کرتا تھا، پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام میں داخل ہوکر وہ اسی طرح کاغلو سیدنا علی علیہ السلام کے بارے میں کرنے لگا، اور وہ پہلا آدمی ہے جس نے سیدنا علی کی امامت کے عقیدے کی فرضیت کا اعلان کیا، اور ان کے دشمنوں سے براء ت ظاہر کی اور کھلم کھلا ان کی مخالفت کی اور انہیں کافر قرار دیا۔ (رجال الکشی :ص١٧،طبع بمبئی ١٣١٧ھ ایضاً :ص٧١)

مذہب کے نام پر سب سے پہلے انہی لوگوں نے ہلاکوخان کو دعوت دی تھی جس نے بغداد پر حملہ کر کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بنو عباسیہ کے آخری خلیفہ مستعصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندا گیا اور خلیفہ کی بیٹی کو طلب کر کے چنگیز خان کے پوتے مونکو خان کے حرم میں دے دیا گیا۔ ایسے ہی شاہ اسماعیل صفوی جنہوں نے 1487ء سے لے کر 1526ء تک ایران میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور اب حال ہی میں اسی گروہ کے کارندوں نے عراق اور شام میں مسلمانوں کے خون کی ہوئی کھیلی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان کو جب بھی کسی ظالم حکمران طبقہ کی چھتری میسر آئی تو انہوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔

10 محرم 6جولائی 1986 کو کوئٹہ میں بھی ایسا خونی کھیل کھیلا گیا جب ایک ہی دن میں 700 مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اسکولز سے بچیوں کو اٹھا کر اغوا کر کے ان کے پستان کاٹے گئے جب پولیس نے مداخلت کرنا چاہی تو 17 پولیس اہلکاروں کے سر کاٹ کر فٹ بال بنا کر کھیلا گیا۔ اور ایسے ہی 10 محرم 31 دسمبر 2009 کو بولٹن مارکیٹ کراچی میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں چند لوگ قتل ہوئے تھے اس کے رد عمل کے طور پر مین مارکیٹ میں 300 دکانوں کو آگ لگائی گئی جس میں 30 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا ان دکانوں کے مالکان کا تعلق ایک اکثریتی مکتب فکر سے تھا۔ اسی طرح 10 محرم 22 نومبر 2013 بروز جمعۃ المبارک کو راولپنڈی میں اللہ کے گھر اور مدرسہ تعلیم القران میں ظالمانہ کاروائی کی گئی وفاق المدارس کے ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی کے بیان کے مطابق اس پورے حادثے میں 80 کے قریب لوگ جان بحق ہوئے اور مولانا اشرف علی مہتم مدرسہ تعلیم القرآن کے بیان کے مطابق 200 سے زائد طلبہ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ مجرموں نے مسجد اور مدرسہ کی الماریوں سے کتاب اللہ کے نسخے اور دینی کتب اٹھا کر مسجد کے صحن میں رکھ کر انہیں نذر آتش کیا گیا۔

راولپنڈی کے تاجر رہنما شرجیل میر کا کہنا تھا کہ مسجد و مدرسہ اور مدینہ کلاتھ مارکیٹ کو آگ لگانے والے کوئی عام لوگ نہ تھا بلکہ انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایک خاص قسم کے کیمیکل کی بوتلیں تھیں جیسے ہی دکانوں میں انڈیلتے وہاں آگ بھڑک اٹھتی اور ایک فائر فائیٹر نے بتایا کہ ان کی ٹیم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب آگ بجھانے کے لیے اس پر پانی ڈالا جاتا تو آگ مزید بھڑک اٹھتی اس کیمیکل کا آگ سے کوئی ایسا ری ایکشن ہوتا تھا جس سے آگ اور تیز ہو جاتی ایسا کیمیکل اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اور یہ کہا گیا کہ یہ حملہ آور آتشین اسلحہ خنجروں اور زنجیروں سے مسلح تھے۔ انسانیت سوز سانحہ راولپنڈی نے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھانے اور اندرونی عدم استحکام کو پھیلانے کی ایک مجرمانہ کاروائی ہے کہ ایک اقلیتی مکتب فکر نے اکثریتی مکتب فکر کو نشانہ بنایا ہے اس سارے کھیل کے پیچھے وہی یہودی کارستانی کارفرما دکھائی دیتی جو صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں وہ یہودی لابی پاکستان کو عراق، مصر اور شام بنانا چاہتی ہے اور اس کے بعد اس کا رخ ارض مقدس حرمین شریفین کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت جس کو اسلام کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے اگر اس نے سانحہ راولپنڈی کے مجرموں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا نہ دی اور انہیں عدالت کے کٹہرے نہ کھڑا تو پھر اکثریتی مکتب فکر کے غیض و غضب سے ملک کو بچانا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔

ذرائع ابلاغ کی طرف سے حسب سابق سانحہ راولپنڈی میں بھی جانبداری کا مجرمانہ مظاہرہ کیا گیا کہ پنڈی کے مسجد و مدرسہ کی توہین کے واقع پر ذمہ دارانہ صحافت کا بورڈ لگا معاملہ گول مول کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ میڈیا والوں کو کیا کبھی دوسرے اقلیتی مکتب فکر کے کسی واقع پر ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے۔ یقیناً جواب نفی میں ہو گا، تو اس کا مطلب واضح ہے کہ میڈیا بھی کسی اور کے اشاروں پر چلتا ہے یہ بھی ملک میں بد امنی اور افراتفری کا ذمہ دار ہے اس لیے میڈیا کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور عوام کا غیض و غضب بھی بے جرم ہوتا ہے۔

عیسائی حکومت کی عصبیت:

افریقی ملک انگولا کی کیتھولک عیسائی حکومت نے اپنے ملک میں اسلام کو خلاف قانون مذہب قرار دے کر پابندی لگا دی اور ملک میں 80 مساجد کو شہید، 320 مساجد اور 15 مدارس کو بھی مسمار کر دیا ہے سینکڑوں مسلمان طلباء علما کرام اور اساتذہ کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا ہے۔ انگولا کےان اقدامات کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے یہ مسلمانوں کے ساتھ بد ترین عصبیت کا مظاہرہ مگر اسلام کی فطرت ہے اسے جتنا بھی دبایا جائے اتنا ہی یہ ابھرے گا۔

’’اسلام کی فطرت میں قدرت نے وہ لچک دی ہے                           یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ اس کو دبا دیں گے‘‘

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول