اس وقت اگر ہم دنیا میں نگاہ اٹھاکر دیکھیں تو ہمیں کئی قسم کے علوم نظر آتے ہیں۔ سائنس، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، بینکنگ، بائیو، کیمسٹری، فزکس، ہوم اکنامکس، وغیرہ الغرض کہ ہر شعبہ کے حوالے سے ماہرین ملتے ہیں۔ اور ان کی کتب بھی سستے داموں دکانوں اور ٹھیلوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ لوگوں کا ایک جم غفیر ان علوم پر اپنا تن من دھن لٹانے کے لیے تیار نظر آتاہے۔ اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔

محترم قارئین! جس چیز کا تعلق صرف اور صرف دنیاوی زندگی کے ساتھ ہو تو اسے علوم کے بجائے فنون کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب آپ خود غور کیجئے ہمارے نبی نے فرمایا تھا: ’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘ علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ہم نے تو حصول فن پر ہی اپنی زندگیا ں خرچ کردیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمیں دنیا میں بڑے بڑے ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان تو نظر آتے ہیں لیکن محدث، مفسر، عالم نظر نہیں آتے۔یہ امت کے لیے بڑی محرومی کی بات ہے۔ نتیجتاً امت مسلمہ کی حالت زار آپ کے سامنے ہے کہ جہاں بھی مسلمان نظر آتے ہیں ظلم وسربریت کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ علم کا فقدان ہے۔

خدارا! اگر آج اپنی کھوئی ہوئی بلندیاں واپس لوٹانا چاہتے ہو تو حقیقی علم کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ دنیاوی فنون سے بہرہ ور فرما دے گااور اخروی کامیابی بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اس بات پر تاریخ شاہد ہے جن لوگوں نے اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کردیں وہ دنیا کے امام بنے اور آخرت کی کامیابی کا سرٹیفیکیٹ بھی ’’رضی اللہ عنہم ورضواعنہ‘‘ کی صورت میں جاری ہوئے۔ اس بات سے علم ہواکہ دین اسلام دنیاوی فنون کے حصول کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کو دین کے تابع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ آج امت مسلمہ اسی نقطہ پر دھوکے کا شکار ہوئی ہے کہ امت مسلمہ کا ایک طبقہ دنیا میں ایسا مگن ہوا کہ وہ دین سے بالکل فارغ رہا اور ایک گروہ دین میں ایسا گھسا کہ دنیاوی سیادت و قیادت سے نا آشنا۔ امت افراط و تفریط کا شکار ہو گئی جبکہ علم دین اس چیز کا قطعاً حکم نہیں دیتا بلکہ اس علم کے ذریعے تو دنیا و آخرت دونوں میں بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے: ’’ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین‘‘ بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندیاں عطا فرماتا ہے اور اس کو ترک کرنے کہ وجہ سے ان کو رسواکرتا ہے اور اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں۔

زمانہ جاہلیت کے عرب ادیبوں کو دیکھو۔ وہ علم لغت میں اپنے آپ کو وقت کا امام کہتے تھے اور باقی لوگوں کو عجم یعنی گونگے کہا کرتے تھے مگر ان کے اس علم نے ان کو صرف اور صرف عرب کے چند قبائل تک محدود رکھا اور آخر کار وہ سرداری بھی کھو بیٹھے۔ ان میں سے جنہوں نے علم دین کی طرف رخ کیا وہ دنیا کے حکمران بن گئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو اس وقت شہر مکہ میں چند پڑھے لکھے لوگ تھے۔ ان میں عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب بھی شامل تھے۔ عمرو بن ہشام نے علم دین کو ٹھکرایا تو وہ ابو جہل بن گیا اور اپنی چھوٹی سی سر داری بھی کھو بیٹھا جب کہ عمر بن خطاب تھے۔ انہوں نے اپنے اس علم کے ساتھ دینی علم کو بھی سینے سے لگایا تو فاروق اعظم بن گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ مسلمانوں کے حکمران بن گئے۔ ایسے حکمران کہ جن کے نام سے عالم کفر بھی کانپتا تھا۔ ہزاروں میل دور بیٹھے قیصرو کسریٰ کے اعوانوں میں لرزا طاری رہتا تھا۔ تو یہ ساری عزت علم دین کو اپنا نے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ اسی دور کی بات ہے کہ انہوں نے کسی علاقے پر ایک گورنر مقرر کیا ایک دن باہر نکلے تو سرراہ اسی گورنر سے ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا اپنی جگہ کس کو امیر بنا کے آئے ہو؟ جواب ملا: ابن ابزیٰ کو تو امیرالمومنین ناراض ہوئے اور کہنے لگے تونے آزادوں پر غلام کو امیر مقرر کر دیا ہے۔ تو گورنر نے عرض کی: ’’اے امیر المومنین! وہ غلام تو ضرور ہے مگر دین کا عالم ہے۔ امیرالمومنین کا غصہ کافور ہوا اور وہ یہ حدیث بار بار پڑھنے لگے۔

’’ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین‘‘ اسی طرح خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دورکی بات ہے کہ ایک بچہ جس کا رنگ کالا سیاہ، ناک چپٹی، آنکھوں سے اندھا، کانوں سے بہرہ (جب تھوڑا بڑا ہوا تو سماعت درست ہو گئی تھی) الغرض کہ ظاہری حسن و خوبی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنا ہوا تھا۔

ایک دفعہ خلیفہ عبدالملک بن مروان حج کے ارادے سے مکہ میں تشریف لائے اور ان سے چند سوالات کے جوابات مطلوب تھے۔ تو یہ مسجد میں آئے دیکھا کہ مفتی صاحب نماز میں مصروف ہیں۔ اب خلیفہ وقت اپنے بیٹوں سمیت مفتی صاحب کے پیچھے انتظار میں بیٹھ گئے اور مفتی صاحب نماز پڑھتے رہے۔ یہ منظر میرے اللہ نے علم دین کی برکت سے دکھا یا۔

جب مفتی صاحب نماز سے فارغ ہوئے تو خلیفہ وقت نے اپنے سوالات کے جواب لیے اور اپنے بیٹوں سمیت مسجد سے نکلنے لگے تو ایک آواز لگانے والے نے اعلان کیا کہ … آج کے بعد مکہ میں کوئی قاضی یا مفتی عطاء ابن ابی رباح کی اجازت کے بغیر فتویٰ نہیں دے گا توشہزادوں نے اپنے والد عبدالملک بن مروان سے پوچھا کہ یہ کس شخص کے بارے میں اعلان ہو رہا ہے؟ تو عبدالملک بن مروان نے جواب دیا، اے میرے بیٹو! یہ وہ شخص ہے جس کو دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا انتہائی حقیر سمجھا جاتا تھا۔ اس نے علم دین کو سیکھا تو اس کو یہ مقام ملا مکہ معظمہ کا قاضی و مفتی مقرر ہوا۔ اگر تم بھی دنیا و آخرت میں عزت چاہتے ہو تو علم دین کو سیکھو اور معزز بن جائو۔اس کو کسی خیر خواہ نے مشورہ دیا اور اس کے ذہن میں خیال آیا کہ میں اللہ کی کتاب کا علم حاصل کرلوں۔ شاید کہ یہ رسوائیاں چھٹ جائیں۔ پھر اسی سوچ کے ساتھ وہ حصول علم دین میں جُت گیا۔ اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ دین کا بہت بڑا عالم بن کر ابھرا۔ اور وہ شہر مکہ کا قاضی و مفتی مقرر ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے