Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2018
  • شمارہ جات 2017
  • شمارہ جات 2016
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015

مکافاتِ عمل

04 Mar,2018

اسلام کے نام پر بننے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بعض نام نہاد ایسے مسلمان بھی ہیں جو نہ تو اسلام کو ماننے کو تیار ہیں ، نہ نظریۂ پاکستان اور نہ ہی اسلامی حدودوقوانین کو کوئی اہمیت دیتے ہیں یہ نہ تو مذہبی ہیں اور نہ ہی لبرل ، نہ جانے کسی مٹی کا خمیر ہیں؟ دعویداراس اسلامی ملک کی حکمرانی کے ہیں، کہلانے میں مسلمان بھی ہیں مگر سورت اخلاص پڑھنی نہیں آتی حتی کہ اسلام کا اہم ترین رکن نماز تک پڑھنی نہیں آتی بلکہ سنت طریقہ سے نماز میں ہاتھ باندھنے نہیں آتے ۔ یہ منظر گزشتہ دنوں ایک فوت شدہ خاتون کے جنازہ میں دیکھنے کو ملا وہ موصوفہ قادیانیوں کی بہو اور عیسائی نوجوان کی ساس عاصمہ جہانگیر تھی جنہوں نے شانِ رسالت محمدیہ ﷺ کے گستاخوں کے حق میں کیس ترجیحا لڑے۔ 90 کی دہائی کی ابتداء میں بھارت میں ایک لیکچر کے دوران اسلامی حدود وسزاؤں کو وحشیانہ قرار دیا ، والدین کی عزت کوخاک میں ملا کر گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں کو پناہ دے کر بے حیائی کو فروغ دیتی رہی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف کبھی لب کشائی نہیں کی جبکہ اسلام مخالف سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہیں ان کا شوہر میاں طاہر جہانگیر قادیانی ہے ، عاصمہ کے بارے میں بھی عمومی تأثر یہی تھا کہ وہ خود بھی قادیانی تھی ۔ شاید اس لیے عام طور پر اسلام کا مذاق اڑاتیں اور ہمیشہ تحفظ ناموس رسالت کے قانون اور وفاقی شرعی عدالت کی مخالفت کرتی رہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ لیکن وہ لوگ خوش قسمت کہ جن کا خاتمہ بالخیر ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : 
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:102)
’’اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘
جہاں تک عاصمہ جہانگیر کے اسلام کا تعلق ہے تو انکا اسلام تو مشکوک ہے اگرچہ یہ خود ایک نام نہاد مسلمان، ملک غلام جیلانی پاکستان مخالف انسان کی بیٹی تھی مگر اس کا شوہر ایک قادیانی ہے جوکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کی ذیلی شق نمبر 3 میں واضح طور پر تحریر ہے کہ قادیانی بشمول لاہوری گروپ غیر مسلم ہیں، عاصمہ جہانگیر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے پارلیمنٹ کے فیصلے کی بھی ہمیشہ مخالفت کرتی رہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کے مطابق عاصمہ جہانگیر کواگر نام نہاد ، دین بیزار لبرل مسلمان مان بھی لیا جائے تو بھی اسلام شعائر کو کھلواڑ بناکر مردوزن کا مخلوط نماز جنازہ پڑھنا کونسا اسلام ہے ؟ جبکہ اسلام تو عام حالا ت میں بھی مخلوط مجالس سے منع کرتا ہے ، مساجد میں خواتین کا نماز کے لیے آنے کی کڑی شرائط عائد کرتا ہے تاکہ بےپردگی اور بے حیائی کا شائبہ تک نہ ہونماز جنازہ فرض کفایہ ہے اگر بعض لوگ ادا کرلیں تو دوسروں سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے عورتوں پر نمازجنازہ فرض کفایہ بھی نہیں اگر خواتین شریک ہونا چاہیں تو شروط وقیود کو ملحوظ خاطر رکھ کر شرکت کر سکتی ہیں مگر ان کی صفیں مردوں سے بالکل الگ اور پیچھے رکھی ہیں۔صحیح احادیث میں تو عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا ممنوع ہے
جیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
نُهِيْنَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا (صحیح بخاری ، حدیث:1278 کتاب الجنائز ) 
’’ہمیں(یعنی عورتوں) کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کیاگیاہے اگرچہ سختی بھی نہیں کی گئی۔ ‘‘

مگر بے پردہ ہوکر اختلاط کی شکل میں نمازجنازہ پڑھنا تو کسی طرح بھی جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا شریعت اسلامیہ اورشعائر اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف اور قرآن وسنت کے واضح احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی ہے ۔ عاصمہ جہانگیر اپنی زندگی میں ہمیشہ متنازعہ کردار کی حامل رہی وہ بڑی بے باکی سے شعائر اسلام کی توہین کرتی رہیں توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو ہمیشہ ان کی قانونی معاونت حاصل رہی۔ اغیار کو خوش کرنے کے لیے اس عورت کے مرنے کے بعد بھی جنازےمیں اسلامی شعائر کی تضحیک کی گئی اور اپنے والدین کا ناخلف متنازع شخص حیدرفاروق مودودی نے اپنے سر پر ہندوؤں کی مخصوص علامت والی ٹوپی پہنے نماز جنازہ پڑھائی ۔ نظر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ قدرت کی طرف سے انتقام ہی ہے کہ جس اسلام کے شعائر کو مذاق بنایا آج جب میت کو بخشش کے لیے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہوئی ہے وہ استغفار وطلب مغفرت کا اجتماع خود مذاق کا منظر پیش کر رہا تھا لوگ زبردستی ایسی شخصیت کو جنت میں داخل کروانا چاہ رہے ہیں جس نے ہمیشہ اس خالق جنت کے احکام کا مذاق اڑایا۔فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
پاکستان جہاں عوام کی اکثریت اسلام، نظریۂ ختم نبوت اور نظریۂ پاکستان کے لیے اپنی جانیں تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے مگر اسلام، ختم نبوت اور قرار داد مقاصد پر کوئی آنچ برداشت نہیں کر سکتے ۔ ایسے ملک میں اس طرح مخلوط اجتماع کرنا اسلامی عقائد کے ساتھ کھیلنا اور کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہے ایسے ہی محرکات اور اسباب سے شدت پسندی اور دہشت گردی کو تحریک ملتی ہے اس لیے ہم ارباب اقتدار ،سیکورٹی اداروں اورچیف جسٹس صاحب سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ آئندہ ایسے اسلام مخالف اعمال کے ارتکاب سے روکا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا واحدملک ہے جو کہ ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ ملک ہے تو ادارے ہیں اس لیے تمام اداروںبشمول حکومت،عدلیہ اور فوج کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام اسلام اور ملک کی حفاظت کےلیے اپنی ذمہ داری کو کما حقہ ادا کریں ورنہ کل قیامت کے دن اپنے وظیفۂ منصبی میں خیانت کے جرم میں گرفتار ہوسکتے ہیں اس رسوائی وذلت سے بچنے کے لیے ابھی وقت ہے۔
مزید یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ حکومت پنجا ب یونیورسٹی کے تحت چلنے والے لاء کالج کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اگر ایسا ہے تو اس کی پر زور مذمت کرنی چاہیے کیونکہ عاصمہ جہانگیر نے اسلام ،ملک وقوم کی خدمت کا کونسا ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے بلکہ اس خاتون نے تو اپنی پوری زندگی اسلامی ثقافت ،تہذیب اور اسلامی اقداروروایات کو تبا ہ کرنے میں بسر کردی ، اورحقوق انسانی کے نام سے اسلام اور ملک دشمنی قوتوں خاص طور پر قادیانیت کو پروان چڑھانے کے لیے انہوں نے جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے اظہر من الشمس ہے ان کی روشن خیالی فکر ارتدار کا سبب بنی وہ خود ببانگ کہا کرتی تھیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ایسی متنازع خاتون کے نام سے کسی مؤقر ادارے کومنسوب کرنا ملک ،اسلام اور طلبا ء و طالبات کےساتھ زیادتی ہوگی حکومت کو ایسا قدم اٹھانے سے باز رہنا چاہیے ورنہ پاکستان کی عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ یہ اسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستانی قوم خاص طورپر نسل نو کے دل ودماغ کو اسلامی نظریات و افکا ر سے دور ہٹا کر بے دینی اور بے حیائی کو عام کیا جارہا ہے۔
جن لوگوں نےاسلام ،ملک و ملت اور معاشرے کے لیے گراںقدر خدمات انجام دی ہوںتعلیمی اداروں کی نسبت ان کی طرف کرنا ایک اچھی روایت ہے مگر اس عورت کا کوئی ایسا کردار نہیں رہا جس کی وجہ سے اسے یہ اعزاز دیا جائے اگر دینا ہی ہے توان سپوتوں کودو کہ جنہوںنے اپنی جان اسلام ،ملک وقوم کے لیے قربان کی ان شہداءاسلام کو اس اعزاز سے نوازا جائے ۔
مجرم کوسر عام سزا دینا :
اسلامی شریعت اس بات پر بہت زور دیتی ہے کہ مجرم کو سر عام سزا دی جائے تاکہ مجرم کو نشان ِعبرت بناکر دوسروں کو جرائم سے روکنا سزا کا اصل مقصد جو کہ سر عام سزا دئیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا قرآن کریم میں بھی اس کا واضح طور پر حکم موجود ہے :
اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (النور:2)
’’زنا کار عورت اور مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں غیر شادی شدہ زانی مرد اور عورت کو 100کوڑوں کی سزا بتائی گئی اور اسلام کا فوجداری قانون ثابت کیا گیا ہے نفاذ قانون میں ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو مجرم کوسر عام سزا دینا یہ قانون فطرت ہے ملک وقوم اور معاشرے میں امن امان پیدا کرنے کا واحدحل ہے ۔

Read more...

تہذیب و ثقافت اور اسلام

13 Sep,2015

عام طور پر ثقافت، تہذیب اور تمدن کے ہم معنی یا مترادف کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ جدا جدا الفاظ ہیں اور ان کے اپنےاصطلاحی مفاہیم مقرر ہیں۔ثقافت کے معنی ہنر یا سیکھنے کے ہیں۔انگریزی کے(culture)کا صحیح مترادف لفظ یہی ہے۔کلچر کے معنی’’ہل چلانا‘‘ یا’’کھیتی باڑی‘‘ کے ہیں۔ اور اصطلاحاً ’’انسانوں کا طریق زندگی‘‘یا ان کے طرز حیات کو کہا جاتا ہے، جو انسان غیر جبلی طور پر یعنی سیکھ کر انجام دیتا ہے۔ گویا ثقافت ایک جامع اصطلاح ہے، جس میں انسانوں کا رہنا سہنا، ملنا جلنا، کھانا پینا اور سلیقہ سکھانا سب کچھ آجاتا ہے۔

ہر وہ کام جو سیکھ کر انجام دیا جائے، خواہ یہ سیکھنا اپنی سوچ اور اپنے فکر و نظر پر مبنی ہو یا مشاہدہ کائنات سے ہو ثقافت کہلاتا ہے۔ اس میں وہ کام شامل نہیں ہیں جو جبلی طور پر انجام پاتے ہیں۔مثلاً بھوک پیاس جبلی شے ہے، اس لیے یہ ثقافت نہیں۔ اپنا جسم چھپانا جبلت انسانی) (Human Instinct(ہے، اس لیے سترپوشی ثقافت نہیں ہے۔لیکن کھانا کھانے اور کپڑے پہنے کے جتنے طریقے اور جتنے انداز اختیار کئے جائیں گے، انھیں ثقافت (culture) کا نام دیا جائے گا۔

ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ انسانی احتیاج (Human Necessity) اورماحول (Environment(بھی ثقافت کو جنم دیتے ہیں اور انسان کی تخلیقی سوچ (creative thinking) بھی۔پھر یہ ثقافت و حشیانہ( Frightfully)بھی ہوسکتی ہے اور مہذب (Civilized) بھی۔ مثلاً پتھر کے دور کی ثقافت غیر تہذیب یافتہ (Uncivilized)تھی جو 3000 قبل مسیح میں مہذب ہوئی۔ثقافت عقائد، سماجی معیارات، تعلیم، ادب، تجربہ، طبعی حالات، ٖضرورت، فکرواحساس اور ایجاد و تخلیق سے متاثر ہوتی ہے۔

تہذیب (Civilization )سے مراد عام طور پر ادب، سلیقہ، تعلیم اور رکھ رکھاو اور اخلاقی قدریں لئے جاتے ہیں۔ گویا ثقافت میں جب سلیقہ کا رنگ اجاگر ہوجاتا ہے تو وہ’’تہذیب‘‘بن جاتی ہے۔ ا س میں رسم الخط، شہروں کا وجود، سیاسی تغیرات اور پیشہ ورانہ تخصص Professional specialization))شامل ہے۔

اس کائنات میں پوری انسانی تہذیب کو اکائی( (Unit سمجھا جاتا ہے اور یہ انسانی تہذیب مرورزمانہ کا ساتھ تین ادوار سے گزری ہے۔ قدیم یعنی جبری تہذیب (Ancient or compulsive)، قرون وسطیٰ (Middle Age)اور جدید جمہور (Modern Democracy) تہذیب، مختلف قومیں، ادوار، علاقے، زبانیں اس تہذیب کا جزو ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر قوم نے تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ہر قوم اور گروہ ثقافت میں اپنا کردار اد اکرے ان تین تہذیبوں کے علاوہ چوتھی تہذیب نے ایک نیا روپ بھرا۔چنانچہ ایک طرف اشتراکیت( Socialism )نے اپنے پنچے پھیلائے تو دوسری جانب سرمایہ داری (Capitalism) نے اپنا منہ کھولا۔آج کی جدید جمہوریت ایک تماشہ بن چکی ہے جس کی تعبیر ہر کوئی اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہذیب کسی اور منزل کی طرف گامزن ہوتی جو فطرت)Nature) کے قریب ہوگی، سائنٹیفک اصولوں پر مبنی ہوگی، دین فطرت ہوگی گویا دوسرے معنی میں وہ اسلام ہوگا۔

تمدن تہذیب کی ایک شاخ ہے۔ یہ لفظ’’مدینہ‘‘سے نکلا ہے۔ جس کے معنی شہر( (City کے اور باہم مل جل کر رہنے کے ہیں۔ تمدن کو شہروں کے حوالے سے پہچاننا ضروری ہے۔ یہ مدنی ثقافت ہے۔ غلطی سے ہم تمدن کی جگہ تہذیب کا لفظ ہڑپا اور موہنجوڈارو وغیرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تمدن ایک عارضی اور مقامی تہذیب کا نام ہے۔ ہر قوم اور علاقے کا تمدن (مدنی ثقافت) اس کے ساتھ ہی نشوونما پاتا ہے۔ اور مٹ جاتا ہے۔ تمدن وحشی بھی ہوسکتا ہے اور مہذب بھی۔ لیکن اس کا ثقافت میں پایا جانا ضروری ہے۔ دور جدید میں ثقافت کا لفظ تہذیب ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ غیر مہذب ثقافت کا دائرہ اب محدود ہوچکا ہے یا ممکن ہے کسی وحشی قوم میں رائج ہو۔

اسلام اپنی ایک مخصوص ثقافت اورتہذیب و تمدن رکھتا ہے۔ چنانچہ جب ہم اسلامی ثقافت کا جائزہ لیں گے تو ان اصولوں کی بات کریں گے جو اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے ہمیں دیئے ہیں اور جنھیں سیکھ کر مسلمانوں نے اپنی زندگی کا رخ متعین کیا ہے۔ اسلام کی تہذیب کے مطالعہ سے وہ ایجادات، تخلیقات اور تحریرات بھی سامنے آئیں گی جو اسلام کی تحریک کے ذریعے سے وجود میں آئیں۔ اور تمدن کی بات ہوگی تو اسلام کے ان اصولوں پر نظر رکھنی ہوگی جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں نے اپنی شہری زندگی کو جاری و ساری کیا۔

اسلام اپنے وجودمیں ایک مکمل ثقافت ہے۔ اس کا واحد معیار تقویٰ ہے جو زندگی کے طرز اور مظاہرے کو پرکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی زبانی اور عملی طور پر توحید کا اقرار ہے اور اسی اقرار پر اسلامی ثقافت کی پوری عمارت استوار ہوتی ہے۔ ہر وہ ثقافتی مظہر جس میں اللہ کی وحدانیت نمایاں ہو اور جس میں تقوٰیٰ کی جھلک واضح نظر آتی ہو وہ اسلامی ثقافت کا مظہر ہے۔اس کے برخلاف مسلمانوں کا ہر وہ طرز عمل جو اسلام کے بنیادی اصولوں کی نفی کرتا ہو وہ غیر اسلامی ہے خواہ مسلمانوں نے اسے کتنا ہی اپنے سینوں سے لگا رکھا ہو۔

فرانسیسی ماہر علم البشریات رابرٹ بریفالٹ نے اپنی تصنیف’’تشکیل انسانیت‘‘ میں اسلامی ثقافت کے بارے میں لکھا ہے :’’یہ صرف سائنس ہی نہیں جس سے یورپ کے اندر زندگی کی لہر دوڑ گئی بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے متعدد اور گو ناگوں اثرات ہیں جس سے یورپ میں پہلے پہل زندگی نے آب و تاب حاصل کی، مغربی تہذیب کا کوئی پہلو نہیں جس سے اسلامی تہذیب و تمدن کے فیصلہ کن اثرات کا پتہ نہ چلے۔لیکن اس سے بڑھ کر روشن ثبوت اس طاقت کے ظہور سے ملتا ہے جو عصر حاضر کی مستقل اور نمایاں ترین قوت اور اس کے غلبہ اور کارفرمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے‘‘۔  

درحقیت اسلامی تہذیب ایک تخلیقی اور نظریاتی تہذیب کی حامل ہے۔ یہ انقلابی اور جرات مند ذہن کی پیداوار ہے۔ جو توحید باری تعالیٰ، عظمت انسانی، مساوات اور اتحاد عالم پر مبنی ہے۔ سیاسی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ثقافت دراصل دین اور سیاست کے آمیزے کا نام ہے۔ کیونکہ سیاست سے دین اوردین سے سیاست کو نکال دیا جائے تو پھرچنگیزیت اور فرعونیت اپنا تسلط جمالیتی ہے،پھر ثقافت ادب اور آرٹ سے تعلق رکھنے والی ان سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں جس سے ہمارے خوش حال طبقوں کے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ثقافت ان لوگوں کی پوری زندگی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے جو ایک قوم کی حیثیتوں سے مل جل کر رہتے ہیں اور جن کو معاشرہ میں سرائیت کرجانے والا ایک ایسا ہمہ گیر نقطہ نظر باہم متحد کردیتا ہے جسے لوگ شعوری طور پر اپناتے یا خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں۔

امریکی ادیب اور معروف شاعر ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ’’کسی قوم کی ثقافت بنیادی طور پر ایک مذہب کی تجسیم ہوتی ہے‘‘۔۔۔۔درحقیقت اسلامی ثقافت کے تمام سرچشمے قرآن و حدیث سے پھوٹتے ہیں۔کتاب و سنت کے مطابق صحیح اسلامی زندگی ہی اسلامی ثقافت کا امتیازی نشان ہے اور اسلامی ثقافت کی روح وہ قومی روایات ہیں جو عہد رسالتﷺ، عہد خلفائے راشدین، عہد صحابہ کرام، عہد تابعین اور تبع تابعین کی یادگارہیں۔ اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے اور پورا عالم اس کے وطن کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے دوسری قوموں کی ثقافت کی مانند اسلامی ثقافت نہ ملکی آب و ہواسے متاثر ہوتی ہے نہ جغرافیائی حدود کے اندر محدود ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت چودہ سو سال سے ایک منہج پر چلی آرہی ہے۔اس کی بنیاد ناقابل تغیر اسلامی قانون پر رکھی گئی ہے جس کا ہر مسلمان پابند ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی رہتا ہو۔ نیک اور صالح مسلمان اپنے اعمال صالحہ عمدگی معاملات، دیانتداری و خوش خلقی، انسانی ہمدردی اور خدمت خلق جیسے اوصاف حمیدہ سے فوراً پہچانا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہے اور یہی اسلامی ثقافت کا بنیادی مظہر (Basic Phenomenon) ہے۔

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Read more...

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے

07 Apr,2013

 

عصر حاضرمیں امت مسلمہ کعبہ و کلیسا کی کشمکش میں، مشرق ومغرب کے مابین معلق ہو کر رہ گئی ہے۔اس کے فکر وعمل میں معرکہ ایمان و مادیت برپا ہے۔اسلامی معاشرے کی غالب اکثریت تو ابھی تک پرانی روایات اور قدیم نظام اقدار سے وابستہ ہے۔جبکہ معاشرے کا بااپر،صاحب ثروت اور مغربی تہذیب کا دلدادہ طبقہ،بدقسمتی سے جس کے ہاتھوں میں معاشرے کی باگ ڈور بھی ہے،وہ مغربی تہذیب کو ہی معراج کمال سمجھتا ہے۔اور اس فکر ونظر کی کجروی کے باعث اپنے مرکز سے دور ہوتے ہوئے مکمل طور پر ملّی اقدار اور اصل تشخیص کی نفی کرتے ہوئے اپنے سودوزیاں کا احساس بھی کھوبیٹھتا ہے۔پھر ایک بااثر طبقہ ہمارے چند ادیبوں،دانشوروں،عالموں اور تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد کابھی ہے۔جس کی لغت میں اپنی روایات واقدار، بنیادی تصورات،اپنے دین سے بے توجہی اور بے نیازی کانام آفاقیت،وسیع المشربی،رواداری اور روشن خیالی ہے۔یہ طبقات آج بھی مغرب کے ان مستشرقین کے تزویراتی خیالات کو سند کا درجہ دیتے ہیں جو آئے دن ان جدید افکار و نظریات کو قرآن وحدیث کے حوالے سےعین اسلام ثابت کر کے دکھانے کی سعی لاحاصل کرتے رہتے ہیں۔

اس حقیقت سے ہربا شعور شخص خوب اچھی طرح واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی علم کامل ہے۔اور اس کی ان گنت صفات عالیہ میں سے ایک صفت ہے۔وہ علیمٌ بذات الصدور ہے۔یعنی جوہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے ،وہ تو اس کو بھی بخوبی جانتا ہے۔اس کےبرعکس

مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے جو انتہائی محدود ہے۔ارشاد ربانی ہے:

وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ

ترجمہ:اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ جتنا چاہے (سورۃ البقرۃ 255)

پھر انسان کے اس وہبی علم میں کمی پیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔

انسان علم دوذرائع سے حاصل کرتا ہے،ایک علم وحی ہے اور دوسرا علم کسبی(acquired knowledge) انسان کی دلآویز شخصیت کے لیے ان دونوں علوم کے ارتقاء میں ایک توازن قائم رہنا ضروری ہے۔بسا اوقات انسان کاکسبی علم،محدود عقل وفہم کی بنا پر ناقص ثابت ہوتا ہے۔اور پھر یہی نقص انسان کی خود ساختہ توجیہات اور تاویلات سے اس کےلیے فکروعمل کی گمراہی کا باعث بن جاتا ہے۔بقول علامہ یوسف القرضاوی ’’انسان کا ناقص فہم دین اس کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔اس کی بصیرتی اور بے بضاعتی سے مراد وہ کم علم لوگ ہیں جو اپنےناقص علم کے باوجود اس خوش فہمی میںمبتلا رہتے ہیں کہ وہ علماء کے زمرے میں شامل ہو گئے ہیں۔حالانکہ دین کی بہت سی باتوں کووہ جانتے ہی نہیں اور جو کچھ وہ جانتے ہیں وہ یہاں وہاں کی کچھ سطحی اور غیر مربوط باتیں ہوتی ہیں۔ ان کے علم میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی۔وہ نہ جزئیات کو کلّیات سے مربوط کرپاتے ہیں اور تعارض اور ترجیح کے فن سے آگاہ ہوتے ہیں۔اور نہ متشابہات و ظنیّات کو محکمات کی

روشنی میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ‘ ‘

روس کا ادیب اور پروفیسر پیٹر ڈی او سپینکی(Peter D.Ospensky)لکھتا ہے:

’’ جب کوئی کسی تہذیبی اثرات سے زیادہ اثر قبول کر لیتا ہے تو اس کی شخصیت میں ایک مرکز پیدا ہو جاتا ہے۔یہ مرکز ایک مقناطیس (magnet)کی طرح ہوتا ہے، جو بکھرے ہوئے اثرات کو اپنی طرف کھینچ کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔ یہ مرکز جتنازیادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے،شخصیت میں اتنی ہی قوت آتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ بعض لوگوں میں یہ مرکز اتنا قوی ہو جاتا ہے کہ ان کی شخصیت کے تمام اجزا اس کے تابع ہوجاتے ہیں۔اب یہ مرکز مختلف قسم کے اثرات کی وجہ سے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی انسانوں کی دو قسموں کاذکر کیا ہے۔جن میں ایک قسم کے لوگ باطنی طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اندر سے کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔شاہ صاحب رحمہ اللہ پہلی قسم کے لوگوں کو ’’اہل اصلاح‘‘اور دوسری قسم کے افراد کو’’اہل تجاذب‘‘کہتے ہیں۔

آج ایسےہی بہت سے’’اہل تجاذب‘‘ جنہیں جدیدیت کے ماحول میں سیکولر دانشور کہا جاتاہے،سیکولر سے مراد وہ معاشی،معاشرتی وتعلیمی نظام لیتے ہیں،جس کی اساس سائنس پراستوار ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔جبکہ سیکولرازم کی اصل تعریف یہ ہے کہ ’’انسانی زندگی کے اجتماعی امور یعنی سیاست،معیشت اور معاشرت سے اللہ کی دی ہوئی تعلمات کو یکسر خارج کردیا جائے۔انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہ بنیادی غلطی تھی جو دین کے دائرے میں کی گئی،کیونکہ انسانیت کو حیات انسانی کے ان اجتماعی گوشوں میں اللہ کی رہنمائی کی شدیدضرورت تھی اور اس عالم کی بساط لپیٹے جانے تک رہے گی۔ان اہم ترین گوشوں میں اللہ کی عطا کی ہوئی رہنمائی اور ہدایات کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ سرے سے ہے ہی نہیں۔جس کو اختیار کر کے انسان ان معاملات میں افراط وتفریط کےدھکوں سے بچ سکے۔

علم ناقص کے کینوس کوپھیلایا جائے تو ہمارے کچھ دانشور یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہےکہ اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے۔حیرت کی بات ہے کہ ان حضرات کو مطالعہ قرآن حکیم کے دوران یہ نظر نہ آیا کہ اس میں معاشرتی زندگی کے متعلق احکامات دئیے گئے ہیں،سیاسی زندگی کے اصول ومبادی بتائے ہیں،معاشی و اقتصادی تعلیمات واضح طور پر موجود ہیں۔نجی اور خانگی زندگی کے اصول بتائے گئے ہیں،یہ سب کیا ہے؟ان آیات بیّنات کی موجودگی کے باوجود،کیا پھر بھی اسلام ضابطہ حیات نہیں ہے۔پھر یہ کہ قرآن نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں بہترین نمونہ کا تذکرہ کیا ہے۔بفحوائے قرآن حکیم:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے(سورۃالاحزاب 21)

کیارسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ جامع الصّفات ہونے کے ناتے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی نہیں کرتی؟ قرآن حکیم میں اسلام کے لیے مذہب کی بجائے دین کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔اور اصل دین وہی ہوتا ہے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے جامع رہنمائی موجود ہو۔اور ان ہی صفات کا حامل دین تمام عالم کے ادیان پر غالب رہتا ہے۔ارشاد الٰہی ہے:

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے۔(سورۃ التوبۃ،سورۃ الفتح،سورۃ الصف)

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم میں اسلامی ریاست کا کوئی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔حالانکہ اگر سورۃالحج کی آیت 41 کا مطالعہ کریں تو صورت حال واضح ہو جائے گی۔اللہ فرماتا ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ

(اللہ کے دین کی مدد کرنے والے) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوہ ادا کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔ اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اس آیت مبارکہ میں اسلامی حکومت کے نصب العین اورحکمرانوں کی اساسی ذمہ داریوں کو صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔اس سے یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کس چیز کا نام ہے۔ پولیٹیکل سائنس کا ایک ابتدائی طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ حکومت کے بغیر ریاست کا تصور ممکن ہی نہیں اور ریاست کے بغیر حکومت بے بنیاد ہے۔ریاست اگر تصور ہے تو حکومت اس عمل کے اظہار کا ذریعہ ہے۔اس طرح حکومت وریاست ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔مولانا مودودی رحمہ اللہ اپنے مضمون ’’اسلام کیا ہے‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام کسی ایسے دین کانام نہیں جسے پہلی مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش کیا ہواور اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بانی اسلام کہنا درست ہو۔قرآن اس امر کی پوری صراحت کرتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نوع انسانی کے لیے ہمیشہ ایک ہی دین بھیجا گیا اور وہ ہے اسلام،یعنی اللہ کے آگے سر جھکا دینا۔اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور چند عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک جامع سسٹم (مکمل ضابطہ حیات) ہےجو دنیا سے زندگی کے تمام ظالمانہ اور مفسدانہ نظاموں کو مٹانا چاہتا ہے۔اور ان کی جگہ ایک اصلاحی پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے۔جس کو وہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے بہتر سمجھتا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

’’دنیا کی پوری زمین میرے لیے مسجد بنادی گئی ہے‘‘ چنانچہ دینا کے تمام علاقوں اور حصوں سے اسلام کا گہرا ربط وتعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے نہ غربی بلکہ یہ صحیح معنوں میںایک عالمگیر اورآفاقی نظام زندگی ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے صرف رحمت المسلمین نہیں بلکہ رحمت اللعالمین بنا کر دینا میں بھیجا ہے۔سیکولر ازم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرازم،مذہب سے کسی نوع کے تعلق،اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کاحل پیش کرتاہے۔یہ نظریہ اسلامی فکروفلسفہ کے قطعی برعکس ہے۔اور اس میدان میں اسلام اور سیکولرازم میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے۔ایک نظریہ حیات انسانی کےچند گوشوں کی نمائندگی کرتا ہے،تو دوسرا انسانی زندگی کےتمام گوشوں اور تمام پہلوؤں کی فوزوفلاح کا علمبردار ہے۔

Read more...

اہم پیغام مسلم حکمران اور عوام کے نام

07 Apr,2013

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اس کی اطاعت کی جائے تو ہمہ قسم کی خیر و برکات حاصل ہوتی ہیں، اور اگر اسکی نافرمانی کی جائے تو تباہی اور بربادی ہی مقدر بنتی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، وہی آسمان و زمین کا پروردگار ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے ، اسکے رسول ، انبیاء کے سربراہ اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں، اللہ تعالی ان پر انکی آل ، انکے اصحاب پردرود ، سلام بھیجے۔

حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!

مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں نعمتِ تقوی خیر و برکات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اسی سے تنگی آسانی میں بدل جاتی ہے، اور تکلیف کے بعد فراوانی میسر ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کےلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے (الطلاق: 4)

مسلمانوں کو بہت ہی سنگین فتنوں کا سامنا ہے اسی بارے میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (قیامت کے قریب عمل کم ہو جائیں گے، لالچ بڑھ جائے گی، اور فتنے بپا ہونگے)

ذرا توجہ کریں! آپس میں اختلاف و انتشار، دنیا داری میں پڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والا حسد و بغض یہ خطرناک ، نقصان دہ اور سب سے بڑے فتنے ہیں جو آج اکثر مسلم معاشروں میں پھیل رہے ہیں ، ان معنوی بیماریوں کی وجہ سے نا قابل تلافی نقصان امتِ مسلمہ کو اٹھانا پڑا ہے، انہی کی وجہ سے امن و امان کی دگر گوں صورتِ حال پیدا ہوئی ، انہیں کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، عزت و احترام کو تار تار کیا گیا اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور معاملہ یہاں تک جاپہنچا کہ مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرےکے خلاف اسلحہ تان لیا، اور اپنے ہی مسلمان بھائی کی عزت وآبرو کو خاک میں ملادیا یہ ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان صادق آتا ہے:

يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِأَيْدِيْھِمْ

وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے۔ (الحشر: 2)

اور اسی بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (ایک دوسرے کے قتل و غارت میں مشغول ہو کر میرے بعد کفر میں مت لوٹ جانا )

سنو! اگر ان فتنوں سے بچنا چاہتے ہو تو اسلامی اصول و ضوابط کا پابند ہونا پڑے گا، انکی پاسداری کرنا ہوگی، یہ ہی یکتا اور فرید راستہ ہے جس پر چل کر ہم فتنوں سے بچ سکتے ہیں اور ان سنگین بحرانوں سے نکل سکتے ہیں۔

ان اصول و ضوابط میں سے:

1) سب سے پہلے ہم یقین کریں کہ فساد کی جڑ اسلامی منہج سے دوری ہے، اللہ کی اطاعت میں سستی کرنا ہے، اسلامی احکام کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے یہ سب کچھ مسلمانوں پر آن پڑا ہے۔

کیا ہمارے رب نے فرمایا نہیں؟

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: 63)

جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے؟

اللہ عز و جل سے ڈرنا ، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا، قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا دستور بنانا ہی نجات کا راستہ ہے اسی کشتی میں سوار ہوکر ہم بچ سکتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ (الطلاق: 2، 3)

توحید خالص کے تقاضوں کو پورا کرنا، رب العالمین کی شریعت نافذ کرناہی امن و امان کی بنیادی کلید ہے، اسی بارے میں اللہ نے فرمایا:

الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُوْنَ

جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا، انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں ۔(الانعام: 82)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت کو وصیت تھی جو ہر وقت ہرجگہ پرمسلمانوں کیلئے موزوں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (اللہ کے حقوق کی تم حفاظت کرو ،اللہ تمہارے حقوق کی حفاظت کرےگا)، اے مسلمان! اللہ کو ہمیشہ یاد رکھ، امتِ مسلمہ! اسلام کی حفاظت کرو، احکامِ قرآن کی حفاظت کرو، آل عدنان کے سربراہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی حفاظت کرو، رحمن کی جانب سے آپ کا بھی خیال کیا جائے گا، عنایتیں بھی ہونگی اور حقوق کی حفاظت بھی کی جائے گی۔

آج پوری امتِ اسلامیہ کیلئے بڑی ہی شرمندگی والی بات ہے کہ امت نے سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو چھوڑ دیا ہے، اسی لئے تو پوری دنیا مسلمانوں کی بد حالی دیکھ کر مزے لے رہی ہے ، پیارے پیغمبر نے فرمایا تھا، (میں تمہارے لئے قرآن و سنت چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں مضبوطی سے تھام لو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے) روایت کی سند صحیح ہے۔

کتنی کانفرنسیں بلائی جاتی ہیں، مسلم عوام اور انکے حکمرانوں کی کتنی بارملاقاتیں ہوتی ہیں، لیکن جس سے اس امت کی اصلاح ہو انکی آنکھوں کو کوئی اسلامی راہنمائی نظر ہی نہیں آتی!!!

ابھی وقت ہے حکمرانو اور عوام الناس سب سن لو اگر ہم اپنا بھلا چاہتے ہیں، امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں، اپنے معاملات درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری مضبوطی ، اخلاص اور سچے دل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو پکڑنا ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ سے ہمیشہ ڈرتے رہو، حکمران کی بات سنو اور اس پر عمل بھی کرو، چاہے کسی حبشی غلام کو ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے، میرے بعد تمہیں بہت سے اختلافات کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسی حالت میں میرے طرزِ زندگی اور خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام کر رکھنا، ہاتھوں سے نکلنے لگے تو اپنی داڑھوں سے پکڑ لینا، دھیان سے اپنے آپ کو نئے طریقوں سے بچانا، اس لئے کہ ہر نیا طریقہ گمراہی ہے) اہل علم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔

مسلمانو!

2) فتنہ بپا ہونے کے وقت جن بنیادی قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے ان میں یہ بھی ہے کہ : ہم آپس میں ایمانی اخوت اور بھائی چارے والا تعلق مزید مضبوط کریں ، ہمیں یہ یقین ہو کہ ایمان کا مضبوط ترین کڑا اللہ کیلئے محبت کرنا ہے، اصل مسئلہ اسی بات کا ہےکہ اس کو اب قائم کیسے کیا جائے؟ اکثریت تو دنیا داری میں ڈوب چکی ہے!!

صحیح مسلم میں حدیث ہے نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ امت ابتدائی ادوار میں کامیاب رہے گی، جبکہ آخری دور میں بہت سی آزمائشیں اور ایسے معاملات ہونگے جو تمہیں ناگوار ہو نگے، ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ بپا ہوگا، مؤمن ایک فتنہ کو دیکھ کر کہے گا: ’’لگتا ہے اس سے میں نہیں بچ پاؤں گا‘‘ لیکن یہ چھٹ جائے گا اور نیا فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا، مؤمن پھر کہے گا: ’’اب کی بار نہیں بچ پاؤں گا‘‘ ایسے حالات میں جو جہنم کی آگ سے بچنا چاہے اور جنت میں داخل ہونے کا خواہش مند ہوتو اسے چاہئے کہ اسے موت آئے تو وہ ایمان کی حالت میں ہو، اور اخلاقی اقدار اتنی بلند ہوں کہ لوگوں سے ایسے ہی پیش آئے جیسے وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے)(صحیح مسلم)

یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی علامت ہے، کیونکہ ایسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا، ہماری امت ایک فتنے سے نکلتی ہے تو دوسرا فتنہ سر پر آن پہنچتا ہے۔

وَلَا حَوْلَ وَلَا قّوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

مسلمان بھائیو!

3) تمام مسلم حکمرانوں کیلئے ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی ملک کی رعایاہوں قرآن اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو یاد رکھیں، اس امت اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے اسلام نے جو حاکم اور رعایا کے حقوق رکھے ہیں انہیں پہچانیں، سنو!تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی ان قوانین کی دو طرفہ پاسداری کی گئی تو تب ہی چہار سو امن و سکون پھیلا ، ملک و قوم نے ترقی کی منزلیں طے کیں، اور ہر جگہ خوشیاں بکھر گئیں، اور جب ان پر عمل کرتے ہوئے کسی ایک جانب سے بھی سستی ہوئی ، تو فتنے بپا ہوئے، امن و امان خطرے میں پڑ گیا۔

4) انہی قواعد و ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر حکمران چاہے اسکا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، اس پر واجب ہے کہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی امانت اور ذمہ داری کو پورے اخلاص اور اللہ تعالی کو نگہبان جان کر ادا کرے ، اللہ تعالی کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی داود علیہ السلام کو بھیجا تھا:

يَا دَاوُوْدُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ

(ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا ور نہ یہ بات تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ (سورۃص: 26)

ہر حاکم کی ذمہ داری ہے چاہے کوئی بادشاہ ہے یا امیر ہے یا لیڈر ہے دل و جان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو یاد رکھے جو آپ نے امارت کے بارے میں سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (یہ امانت ہےاور قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا باعث ہے، ہاں وہ بچ جائے گا جس نے اپنے آپ کو حقدار سمجھتے ہوئے لیا، اور پھر اس کے نتیجے میں آنیوالی تمام ذمہ داریوں کو اپنا فرض سمجھ کر ادا بھی کیا)اسے مسلم نے بیان کیاہے۔

حکمرانو! کیا سمجھتے ہو کہ دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے ؟ یہ دنیا فانی ہے حکمران ہو ں یا رعایا سب نے یہاں سے جانا ہے۔

ہر حکمران کا شعار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہو: (کسی کو اللہ نے حکمران بنایا اور اس نے اپنی رعایا سے دھوکہ دہی کی اور وہ اسی حالت میں مر گیا، تو اللہ تعالی نے اسکے لئے جنت کی خوشبو بھی حرام کردی ہے) مسلم

اےمسلمان حاکم !! اختیار اب تمہارے پاس ہے، اپنی جگہ مقرر کر لیں جنت میں لینی ہے یا جہنم میں؟ آپ کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں صاف صاف بتلا دیا ہے۔

5) تمام حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے،کہ وہ مسلم ممالک میں عدل و انصاف کو قائم کریں، ظلم سے بچیں چاہے وہ کسی بھی شکل و صورت میں ہو، کبھی یہ ظلم وہ خود تو نہیں کرتے لیکن انکے مشیر و وزیر اور حواری حضرات کرتے ہیں،ایسی شکل میں بھی حاکم ہی سے پوچھا جائے گا، حدیثِ قدسی ہے (میں نے ظلم اپنے لئے حرام قرار دے دیا ہے، اور اسے تمہارے مابین بھی حرام بنایا ہے)

عدل و انصاف ہی کی صورت میں حاکم اور رعایا امن و سکون پا سکتے ہیں، جبکہ ظلم سے شر و فساد ہی پھیلتا ہے، دلوں میں حسد و کینہ پیدا ہوتا ہے، اگر دل نہ مانے تو اس وقت مسلم ممالک میں روز بروز ہونے والے مظاہرے اس بات کی واضح دلیل ہیں جس پر نبوی مہر ثبت ہے۔

6) حکمران کیلئے ضروری ہے کہ اپنی رعایا کے حالات کے بارے میں معلومات لے، اس امر کا خاص خیال بھی رکھے کہیں بعد میں پچھتانا پڑے، اپنے اور رعایا کے درمیان کو ئی رکاوٹ نہ کھڑی کرے، جب بھی ایسا ہوا تو حاکم اور رعایا کے درمیان فساد بپا ہو جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ نے کسی کو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری دی اور اُس نے اِنہیں اپنی ضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسکوضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دے گا)

7) حکمران پر یہ بھی لازم ہے کہ برائیوں اور تعصب سے بالکل کنارہ کش ہو جائے، متقی ،پرہیز گار ، اطاعت گزار، نیک صالح افراد کو مسلمانوں کے معاملات کی باگ ڈور تھمائے، جو لوگوں کیلئے خیر تلاش کرتے ہوں اور امین بھی ہوں،لوگوں کے دلوں کو ایک جگہ اکٹھے کرنے کی جن میں صلاحیت ہو، لوگوں میں انتشار نہ پھیلائیں، ملک و قوم کی ترقی کیلئے کام کریں اِسے ناکام ریاست نہ بنائیں، اگر وزیر و مشیربُرے لوگ بن جائیں تو شربڑھ جاتا ہے، اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے، اس بارے میں بھی تاریخ گواہی دیتی ہے، ان واقعات سے نصیحت پکڑنی چاہئے، اگر اب بھی کوئی نصیحت نہ لے تو کب لے گا؟

امام حاکم رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے فرمایا: (جس نے بھی کسی نالائق پارٹی پر ذمہ داری ڈالی اوروہ اُن سے بہتر پارٹی کے بارے میں جانتا تھا ، یقیناًاس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت کی اور مؤمنوں کی بھی خیانت کی)

حکمرانو! اللہ سے ڈرو، ایسی غلطی کر کے کسی کی دنیا کو بناتے ہوئے اپنے دین کو تباہ و برباد نہ کر لینا۔

8) حکمران کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ اس دنیا کی گرفت ہر زمانے میں دلوں پر بڑی مضبوط رہی ہے، اورمعاشرے میں بگاڑبھی اُسی وقت آتا ہے جب دنیاوی حرص و ہوس بڑھ جائے اور کرسی کے حصول کیلئے ہاتھ پاؤں مارے جائیں۔

لہٰذا جسے اللہ نے اس دنیا میں حکمرانی دی ہے وہ دنیا بنانے اور جمع کرنے میں نہ لگا رہے، اور نہ ہی اپنی رعایا کو بھولے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی اللہ کے مال سے ناحق لے گا اس کیلئے قیامت کی دن آگ تیار ہے) اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اس فرمان کو نافذ کرتے ہوئے فرمایا: (اللہ کی قسم! میں کسی کو مال و دولت سے نوازوں یا محروم رکھوں یہ سب میرے اختیار میں نہیں میں تو صرف وہاں تقسیم کرتا ہوں جہاں مجھے حکم دیا جاتاہے)

اسی لئے آپکی ان عملی اور قولی تعلیمات کے باعث سیدنا ابو بکر اورسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہماجیسے صحابہ کرام پیدا ہوئے، عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت اٹھا کر دیکھو، ان سے عرض کی گئی: امیر المؤمنین! آپ اللہ کے مال سے اپنی ذات کیلئے کچھ زیادہ لے لیا کریں، یہ ہیں وہ عمر جنہوں نے اپنے لئے تنگی برداشت کر لی اور اپنی رعایا کو اپنی جان سے مقدم سمجھا جواب میں کہا: "میری اور انکی مثال کیسی ہے جانتے ہو؟! ہماری مثال ان مسافروں جیسی ہے جنہوں نے سفر میں اپنے پیسے اکٹھے کئے اور ایک شخص کو تھما دئے کہ انکی ضروریات کو پورا کرے، تو کیا اس شخص کیلئے جائز ہے کہ بقیہ لوگوں سے زیادہ اپنے آپ پر خرچ کرے؟

9) حکمران پر ضروری ہے کہ، پانچ چیزوں کی حفاظت کرنے کیلئے تمام تر توانائی صرف کردے: 1 دین، 2 جان، 3 عقل، 4 عزت آبرو، 5 مال، اور سب سے اہم دین کی حفاظت ہے؛ اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کیلئے پوری کوشش کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرے، اور تمام معاملات کے حل کیلئے اللہ کی عنائت کردہ شریعت کو سُپریم جانے، اور اللہ کی شریعت کے منافی تمام کے تمام قوانین کو چھوڑدے، فسادیوں اور بدعتیوں کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں، اور کسی کو مسلمانوں کے دین و دنیا خراب کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا

اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو (الاعراف: 56)

اللہ کے بندو!

پورے معاشرے اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ حکمرانوں کے حقوق بھی ادا کریں:

1) جس میں سب سے پہلے شرعی کاموں میں انکی اطاعت کرنا ہے ، اور اس وقت تک اس بات پر کار بند رہنا ہے جب تک اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔

2) شرعی اصولوں کے مطابق حکمران کو مخفی طور پر نصیحت بھی کریں ، اعلانیہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اپنے انداز میں نرمی، دھیمہ لہجہ اور سوز پیدا کریں۔

3) اپنے حاکم کیلئے کامیابی ، بھلائی اور صحیح راستے پر چلنے کی دعا بھی کریں۔

4) سلطان اور حکمران کی عزت ، احترام، اور اسکی تکریم کرنا بھی رعایا کی ذمہ داری ہے، مسند احمد میں صحیح سند سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی عزت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکی عزت افزائی فرمائے گااور جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی اہانت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکو رسوا فرمائے گا)

5) رعایا پر یہ بھی لازمی ہے کہ حاکم کے ظلم پر بھی صبر کرے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میرے بعد دیکھو گے کہ حکمران اپنے آپ کو ترجیح دیں گے، اور اسکے علاوہ بہت سے ناگوار امور پیش آئیں گے)انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں کیا حکم کرتے ہیں اس بارے میں؟ آپ نے فرمایا: (انہیں انکا حق دو اور اپنا حق اللہ سے مانگو)

6) اسی طرح رعایا پر یہ بھی لازم ہے کہ اس وقت تک حکمران کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کریں جب تک وہ صریح کفر کا ارتکاب نہ کر لے، اور اگر بغاوت کی ضرورت بھی پڑے تو ان تمام قوانین اور قواعد کو مد نظر رکھا جائے جنہیں علمائے کرام مقرر کریں، اس بارے میں کسی جاہل اور بے علم شخص کی بات پر کان نہ دھرا جائے، بخاری ومسلم میں ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرہر حالت اور ہر وقت آپکی اطاعت کرنے کی بیعت کی، چاہے تنگی ہو یا فراخی، چاہے ہمیں نظر انداز کیا جائے ، اور اس بات پر بھی بیعت کی کہ کرسی کے حصول کیلئے جھگڑا نہیں کریں گے ۔ آپ نے فرمایا: (ہاں اگر صریح کفر دیکھو جسے تم کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کر سکو تب انکی اطاعت نہیں کرنی )

ایک اور بہت بڑا فتنہ جو مسلمانوں کو لاحق ہو گیا اور وہ ہے کفار کی مشابہت اختیار کرنا، اور خاص طور پر ان معاملات میں جو اسلام کے مخالف ہیں، اور اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہیں، اس کے باعث مسلمانوں میں خطرناک بیماریاں پھیلی ، اسی وجہ سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا: اور کہا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)

7) پُر فتن دور میں قابل ملاحظہ ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ پورے معاشرے کے افراد ایسا اقدام کریں جس سے اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا ہو، لوگوں میں محبت کا درس پھیلائیں نفرتیں پیدا نہ کریں، اسی طرح پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ صبر و تحمل کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے ہر اس اقدام سے دور رہیں جس کے نتائج بُرے نکل سکتے ہوں، اگر ایسا نہیں ہوا تو فتنے پھوٹ پڑیں گے، اور شر و فساد کو ہوا ملے گی۔

علماء کے مطابق فتنہ کی پیداوار دو طرح کی ہوتی ہے، یا تو حق پسِ پشت ڈالا جائے یا صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر

زمانے کی قسم،بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہےسوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔(العصر: 1 تا3)

8) حاکم اور رعایا دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حِلم ، برد باری کو ا پنا شعار بنائیں اور جلد بازی سے کام نہ لیں، اس انداز کے اپنانے سے معاملے کی حقیقت پہچاننا آسان ہو جاتی ہے، اور اسکا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جلد بازی کے کئے ہوئے فیصلے عموما ناگوار نتائج کا باعث بنتے ہیں۔

9) تمام لوگوں پر لازمی ہے کہ نرمی سے اپنے معاملات کو نمٹائیں، قواعدِ سنتِ محمدیہ میں ہے کہ: (جو بھی نرمی سے متصف ہوگا خوب رو بن جائے گا، اور جہاں سے نرمی غائب ہو جائے وہ بد صورت ہی رہ جاتا ہے، اسی لئے تو نرمی سر تا پا خیر ہی خیر ہے)

10) آخر میں مسلمانو! اس عظیم الشان نظام ِ زندگی کی حفاظت کرو اسی میں تمہاری دین و دنیا کی ترقی کے راز پنہاں ہیں، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

احسانات کے باعث تمام تعریفیں اُسی اللہ کیلئے ہیں، شکر بھی اسی کا بجا لاتا ہوں جس نے ہمیں توفیق دی اور ہم پر اپنا احسان بھی کیا، میں اسکی عظمتِ شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہےاسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم   اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے سب کو دعوت دی، یا اللہ ان پر انکی آل پر ، اور ان کے اصحاب پر درود و سلام بھیج۔

حمد و درودو سلام کے بعد!

اللہ عز وجل کاڈر اپنے دلوں میں پیدا کرلو دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے۔

اللہ کے بندو!

مسلمانوں نے جب توحید الہی کو قائم کردیا، ایمان کو تمام لوازمات اور تقاضوں کے مطابق مکمل قائم کردیا، اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہوگئے، اور اپنی زندگیوں میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو نافذ العمل کردیاتو اللہ تعالی انکے لئے ہر غم کو ان سے چھٹ دے گا، اور ہر تکلیف سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا، اور انہیں ایسی جگہ سے رزق عنائت فرمائے گاجہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہوگا اور انہیں ہر قسم کے شر و گناہ سے بچا دے گا، اسی بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا

جو لوگ ایمان لائے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے انکا دفاع کرتا ہے ۔(الحج: 38)

اللہ کے بندو!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ، خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر ، عمر ، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، تمام اہل بیت ، اور صحابہ کرام سے بھی راضی ہوجا، اور جو انکے راستے پر چل نکلیں ان سے بھی راضی ہو جا۔

یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یااللہ! تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ تمام مسلمانوں کی فتنوں سے حفاظت فرما، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا کر دے، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ ان پر سے غموں کے بادل چھٹ دے، یا اللہ انکی تکالیف کو دور فرما، یا اللہ انکی اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، ، یا اللہ انکی اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا اللہ انکی اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما

یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما

یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما

یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما

یا اللہ ! یا حیی! یا قیوم! ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما۔

یا اللہ ہم مہنگائی ، بیماری ، زلزلے، تکالیف، ظاہری اور پوشیدہ فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، جو زندہ ہیں انہیں بھی اور جو فوت ہو چکے ہیں انہیں بھی معاف فرما۔

یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یااللہ اسے نیکی اور تقوی کے کاموں کا راستہ دکھا، یا اللہ اسکے نائب کو ہر اچھا کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اسکا ہر عمل اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی رعایا کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔

یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ ! انکے لئے ان فتنوں سے نکلنے کا راستہ بھی بنا، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما۔

یا اللہ ! یا حیی ! یا قیوم، یا ذا الجلال و الاکرام، ملکِ شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ مصر میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ تیونس میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، لیبیامیں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ یمن میں مسلمانوں کی حفاظت فرما،یا اللہ! انہیں شریعتِ اسلامیہ نافذ کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انہیں جس چیز کی ضرورت ہے انہیں عنایت فرما۔

اللہ کے بندو!

اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔

Read more...
  • Prev
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
  • 6
  • 7
  • Next
  • End

good hits

 

  • sitemap
YJSG_LINKS_YOUJOOMLA_BRANDING
صفحہ اول