23 مارچ یومِ قرارداد پاکستان کے حوالے سے خصوصی تحریر

کسی بھی ملک کے ترقی یافتہ اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہونے کے لیے مضبوط اور پائیدار قوانین کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود میں بہترین کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ گویا کہ وہ قوانین ایک مکمل ضابطۂ حیات ہوں۔ اس ضابطۂ حیات میں عوام کے لیے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق وافر معلومات ہوں۔ ان خصوصیات کا حامل ضابطۂ حیات اسی وقت مرتب کیا جا سکتا ہے جب اس کی اساس قوانین الٰہیہ کو بنایا جائے۔

اس کے لیے اسلام اعلیٰ قوانین پیش کرتا ہے۔ اگر ان قوانین کو مرکزی حیثیت دی جائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس ملک کو کھوکھلا نہیں کر سکتی۔ خصوصاً ایک اسلامی ملک میں ان قوانین کا نافذ العمل ہونا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ہمارا ملک موجودہ دور میں خارجی اور داخلی طور پر پیچیدہ صورت حال سے دو چار ہے۔ خارجی طور پر غیر مسلم ممالک کی طرف سے بے بنیاد الزامات کی بارش، امریکہ بدمعاش کی طرف سے ڈرون حملوں اور وطنِ عزیز کی مظلوم بیٹی ’’عافیہ صدیقی‘‘ پر ظلم کی انتہا کی وجہ سے ہر فرد پریشانی کا شکار ہے۔ اور داخلی طور پر بد امنی، فحاشی و عریانی، بے حیائی، حیا باختہ مناظر، دھوکہ دہی و فریب بازی، کساد بازاری، معیشت کی بد حالی، قتل و غارت، سیاسی جماعتوں کی کھینچا تانی اور معاشی حالات سے تنگ لوگوں کا خود کشی کو ترجیح دینا ایسے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے۔

اگر ان حالات میں اسلامی قوانین کو صحیح طور پر ملک عزیز میں نافذ کر دیا جائے تو حالات کو بہت اعلیٰ طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ خارجی طور پر اگر وہی پالیسی اختیار کی جائے جو نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے حوالے سے اپنائی تھی، تو پاکستان ایک مستحکم سلطنت کے طور پر متعارف ہو سکتا ہے۔ اسلام نے ریاست کی کامیابی اور ترقی کے لیے جو راہ نما اصول بیان کیے ہیں ہم ان میں سے بنیادی طور پر چند چیزیں ذکر کرتے ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا مقصد موجودہ سنگین حالات میں وطن عزیز کا رخ صحیح سمت موڑنا اور در پیش مسائل کو اچھے طریقے سے کنٹرول کرنا ہے۔

عقیدہ توحید

مستحکم ریاست کے قیام کے لیے سب سے پہلی چیز عقیدہ توحید ہے۔ عقیدہ توحید کی بدولت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جس معاشرے سے عقیدہ توحید ناپید ہو جائے اس معاشرے کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ ایسے معاشرے دیگر اقوام کے لیے لقمہ بن جاتے ہیں۔ گویا کہ ان کی حیثیت ایک نوالے کی سی ہوتی ہے۔ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ کی بنیادیں استوار کیں تو مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں پر موجود قبروں کو ختم کروا دیا۔ (صحیح البخاری: 428) اس کا مقصد لوگوں کے ذہن میں اس بات کو موجزن کرنا تھا کہ ہماری عبادت خالص اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہو گی۔ چونکہ قبر شرک کا پہلا چور دروازہ ہے، اس لیے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کوئی قبر باقی نہ رہنے دی۔

آپصلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا اور یہود و نصاریٰ کے اس فعل پر ان کو مخلوق کا بد ترین گروہ قرار دیا۔

(صحیح البخاری: 427)

فتح مکہ کے موقع پر نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کرنا تھا۔ کیونکہ اب مکہ ایک اسلامی سلطنت کے طور پر متعارف ہونے والا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر مکہ میں موجود دیگر بتوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھی دیگر صحابہ کرام کو روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ ان بتوں کا بالکل خاتمہ کر دیں۔

بہر حال کسی بھی ملک کی معاشی مضبوطی اور امن و امان کے قیام کے لیے عقیدہ توحید بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔ وہ جس نے انھیں بھوک سے (بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔‘‘ (قریش106:3-4) اور دوسرے مقام پر فرمایا: ’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو بلاشبہ اس کے لیے گزران تنگ ہو گا۔‘‘ (طٰہٰ20:124) ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے اس ملک کا قیام کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا۔ البتہ قیام پاکستان کے بعد کی جو صورت حال اب تک ہمارے ملک میں رواج پذیر ہے بہت ہی افسوسناک ہے۔ جگہ جگہ قائم شرک کے اڈوں پر غیر اللہ کی پوجا جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 64 سال گزر جانے کے باوجود ہمارا ملک مسلسل مسائل کا شکار چلا آ رہاہے۔ ملک عزیز کے استحکام اور اپنی فلاح و کامیابی کے لیے اجتماعی طور پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز میں جس جس اعتبار سے بھی غیر اللہ کی پوجا ہو رہی ہے اس کا خاتمہ ناگزیر ہے کیونکہ ترقی کی راہ میں یہ ایک ناسورہے۔

منصف مزاج امیر

قیام ریاست کے بعد ایک مصلح اور منصف مزاج امیر یا موجودہ اصطلاح میں منصف مزاج وزیر اعظم کا ہونا ضروری ہے۔ منتخب وزیر اعظم شرعی قوانین کو نافذ کرنے والا اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کرنے والا ہو۔ ایسے وزیر اعظم کا تعین کیا جائے جو ملک کے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے والا ہو۔

ایسا وزیر اعظم جو خود تو عیش و عشرت کی زندگی گزارے مگر عوام کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنائے، اس کے بارے میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! جو میری امت کے معاملات کا والی بنے اور پھر وہ لوگوں پر سختی کرے، تو توں بھی اس پر سختی فرمانا۔‘‘ (صحیح مسلم: 1828) موجودہ دور میں سختی کی بہت ساری صورتیں ہیں، مثلاً: معاشرے کو بے دین بنا کر دین دار لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا، لوگوں کو روز گار مہیا نہ کرنا اور مہنگائی کا طوفان برپا کرنا وغیرہ۔

وزیر اعظم کا نجی زندگی کے اعتبار سے بھی اعلیٰ کردار کا حامل ہونا ضروری ہے۔ تاریخ اسلامی میں اعلیٰ کردار کے حامل امراء کی زندگیاں ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ سیدنا یوسفu کا واقعہ بھی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ جب سیدنا یوسفu کو اقتدار کی پیشکش کی گئی تو انھوں نے سب سے پہلے جس بات کو چیلنج کیا وہ اپنے کردار کی صفائی تھی۔ اقتدار کی پیشکش کو قبول کرنے سے پہلے اس داغ کو اپنی ذات سے دھونے کا کہا جو عزیز مصر کے گھرانے کی طرف سے ایک سازش کے تحت چسپاں کیا گیا تھا۔

الغرض! وزیر اعظم کا عادل، انصاف پسند اور اعلیٰ کردار کا حامل ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز کو ایسے کردار کا حامل کوئی وزیر اعظم میسر نہ آسکا۔ قیامِ پاکستان سے اب تک بننے والے وزرائے اعظم کا کردار کس قدر داغ دار ہے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، العیاذ باللہ۔

اس حوالے سے ایک اور بات ذہن نشین رہے کہ حکومت کے کسی بھی عہدے پر عورت کومامور نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن و سنت کی بے شمار نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں مگر یہ تفصیل کا محل نہیں۔

باصلاحیت عاملین / وزراء کا تقرر

وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے دیگر صوبوں اور شہروں میں ایسے عامل مقرر کرے جو باصلاحیت ہوں۔ وہ عاملین حقیقت میں عوام کی خدمت کرنے والے اور ان کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ ایسے عامل یا وزراء مقرر کیے جائیں جو امانت دار اور لوگوں کے مال کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ ایسے عامل ہرگز مقرر نہ کیے جائیں کہ جن کی نظر ہمیشہ لوگوں کے مال پر ہو، وہ ہمیشہ اس انتظار میں ہوں کہ کب ان کو لوگوں کی طرف سے تحائف سے نوازہ جائے۔ ان عاملین یا وزراء کے بارے میں نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے جو اپنے عہدے کی آڑ میں لوگوں سے تحائف کے خواہشمند ہوں۔

عاملین/ وزراء کے تقرر کے بارے میں لوگوں کی صلاحیت کو پس پشت ڈال کر اپنی قربت کو ترجیح دینا یا عام فہم الفاظ میں اپنی پارٹی اور جماعت کو ترجیح دینا ایک گھناؤنا جرم ہے۔ قیامت کے دن اس فعل پر ضرور بازپرس ہو گی کیونکہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’کُلُّکُمْ رَاعٍ وکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عن رَعِیَّتِہٖ‘ ’’تم میں سے ہر ایک شخص نگران ہے اور تم میں سے ہر کسی سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاری: 893) اور فرمایا: ’’جو آدمی کسی جماعت پر ایک شخص کو مسلط کر دیتا ہے، حالانکہ وہ اس جماعت میں اس سے زیادہ اچھے آدمی کو پاتا ہے تو وہ اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔‘‘

(مستدرک حاکم: 7023)

حدود اللہ کا نفاذ

امن و امان کے قیام، قتل و غارتگری، چوری چکاری، ڈاکازنی، زناکاری، شراب خوری اور فحاشی و عریانی کے خاتمے اور عفت و عصمت کے تحفظ اور جان و مال کی حفاظت کے لیے حدود اللہ کا نفاذ ناگزیر ہے۔ شریعت نے جن گناہوں کی جو جو سزائیں مرتب کی ہیں معاشرے میں امن و امان کے قیام کے لیے ان کا نفاذ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً: زنا کے ارتکاب پر رجم کی سزا، چوری پر ہاتھ کاٹنا، شراب خوری پر کوڑوں کی سزا اور قتل پر قصاص کا نفاذ وغیرہ۔

جب ہم نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دس سالہ دور نبوت کو دیکھتے ہیں تو مدینہ طیبہ کا ماحول بڑا پاکیزہ نظر آتا ہے۔ حدود اللہ کے نفاذ کی وجہ سے زنا اور چوری کے گنتی کے چند واقعات ملتے ہیں۔ اگر دس سال کے طویل عرصے کے تناظر میں ان واقعات کو دیکھا جائے تو وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

دور جدید میں حدود اللہ کے نفاذ کی وجہ سے امن و امان کے قائم ہونے کی بڑی واضح مثال مملکت سعودیہ ہے۔

مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک

کسی بھی ملک کی سالمیت کی خاطر انٹیلی جنس کا شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ملک دشمن طاقتوں کی بیخ کنی کے لیے یہ محکمہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اندرونی اور بیرونی ملک مخالف قوتوں پر کڑی نظر اور ان کے تمام منصوبہ جات کے متعلق معلومات اکٹھی کرنا اور پھر ان کا توڑ اس محکمے کی اہم ذمہ داری ہے۔

البتہ اس حوالے سے اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس شعبے میں صرف ان افراد کو بھرتی کیا جائے جو اسلام کے سچے جانشین اور محب وطن ہوں۔ ایسے افراد کو قطعاً شامل نہ کیا جائے جو ظاہراً تو ملکی مفاد کی باتیں کرتے ہوں مگر باطنی طور پر ملک کی بنیادیں کھودنے والے ہوں۔ سیرت نبوی سے ہمیں بہت سارے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی نقل و حرکت اور ان کے منصوبوں سے آگاہی کی خاطر صحابہ کرام کو روانہ فرمایا تھا۔

محکمہ دفاع

ویسے تو ریاست کے ہر فرد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ملکی دفاع کے لیے تیار رکھے۔ جب کبھی مملکت کی خاطر جان دینی پڑے تو اس کی بھی پرواہ نہ کرے۔ اس لیے کہ ملک کا دفاع حقیقت میں اسلام کا دفاع ہے جس کی خاطر ملک کا قیام وجود میں آیا۔ البتہ ملکی دفاع کی خاطر خاص طور پر ایک شعبے کا قیام عمل میں لانا ضروری ہے۔ اس شعبے سے متعلقہ افراد کی ذمہ داری صرف ملکی دفاع ہو۔

محکمہ دفاع کے حوالے سے یہ بات بڑی قابلِ غور ہے کہ اس محکمے کی کمان ایسے افراد کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو نڈر اور بے باک ہوں۔ جو دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اور سینہ تان کر مقابلہ کرنے والے ہوں۔ ایسے افراد کا چناؤ ہرگز نہ کیا جائے جو دشمن کی دھمکی سے مرعوب ہو کر ہتھیار ڈال دینے والے ہوں۔ ملکی دفاع کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ان (کافروں کے مقابلے) کے لیے تم مقدور بھر قوت (تیروتفنگ) اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جن سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں اور ان کے علاوہ دوسروں کو ڈرائے رکھو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ انھیں جانتا ہے۔‘‘ (الانفال8:60) ایسے افراد جو ملکی دفاع کی خاطر سرحد کا پہرہ دیتے دیتے فوت ہو جائیں ان کے اس عمل کو شریعت نے صدقہ جاریہ میں شمار کیا ہے۔(صحیح مسلم: 1913)

تعلیم کا فروغ

دین اسلام نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی ہے۔ چونکہ کسی بھی اسلامی ملک کے قیام کا اولین مقصد صحیح طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہوتا ہے، اس لیے تعلیم کا ہونا ضروری ہے تاکہ علم کی روشنی میں اللہ کی عبادت کی جا سکے۔ اس حوالے سے عمر بن عبدالعزیزa کا قول بڑی جامعیت رکھتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: جو شخص علم کے بغیر عمل کرتا ہے وہ اچھے کاموں کی نسبت برے کام زیادہ کرتا ہے۔ (شعب الایمان: 1680) اسی طرح ملکی ترقی کے لیے وہاں کے عوام کا پڑھا لکھا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت ترقی نہیںکر سکتا ہے جب تک کہ اس ملک کے باشندے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون کو سیکھنا بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، اس لیے حکومتِ وقت کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ مدارس، سکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لائے۔ ان میں دینی اور دنیاوی علوم و فنون کی یکساں تعلیم کا اہتمام ہو۔

قابل افسوس بات ہے کہ موجودہ دور میں ہمارے ملک کا یہ اہم شعبہ بھی غیر مسلموں کی نظر ہو چکا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو مدارس دینیہ اور مسلم سکولز میں داخل کروانے کے بجائے ان سکولوں اور کالجوں کا رخ کرتے ہیں جہاں کا سلیبس مکمل طور پر غیر مسلموں کا ترتیب دیا ہوا ہوتا ہے۔ آخر کار اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے اسکول اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد ان کے ہی گن گاتے ہیں۔ ایسے افراد کو اسلام اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ آج ہمارے پیارے ملک کے مسائل میں گِھر جانے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارا صاحب اقتدارطبقہ ایسے ہی اسکولوں اور کالجوں کا تعلیم یافتہ ہے۔ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ ان افراد کو ملکی سالمیت سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اپنی اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین اور بد ترین مثال صاحب اقتدار حلقے کا ایک ایسے ملک کو پسندیدہ قرار دینا ہے کہ جو ہمیشہ سے اسلام اور وطن عزیز کا دشمن رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے وطن عزیز کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس کو پسندیدہ قرار دینا اسلامی تہذیب و تمدن کو ذبح کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ مثال مشہور ہے: جو جس کا کھائے اسی کا گائے۔

بہر حال یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس حوالے سے بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کی سالمیت اور بقا کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں تو تعلیم کا میدان اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہم اپنے دین کی طرف پلٹیں، دینی اور دنیاوی تعلیم کو یکساں طور پر حاصل کریں۔ یہود و نصاریٰ کی مشنری کے تحت چلنے والے اسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کریں تا کہ نسل نو صحیح سمت کا تعین کر سکے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

ملکی سلامتی کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس فریضے کو ادا کرنے کی سب سے پہلی ذمہ داری صاحب اقتدار طبقے پر لازم آتی ہے۔ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں، نماز کی خود بھی پابندی کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں اور زکوۃ ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل اقتدار لوگوں کی یہی صفت بیان کی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یہ مسلمان وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔‘‘(الحج22:41)

صاحب اقتدار طبقہ یہ فریضہ اسی وقت انجام دے سکتا ہے جب دینی تعلیم سے مکمل آگاہی رکھتا ہو۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے مقتدر حلقے میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کو سورہ اخلاص بھی صحیح طرح سے نہیں آتی ہے۔

الغرض! صاحب اقتدار طبقے سے متعلقہ افراد کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے سے برائی کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کریں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دینی ماحول فراہم کریں۔ اسی طرح علماء، خطباء اور واعظین کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی طاقت اور قوت کے مطابق اس فریضے کو ادا کرے، اس لیے کہ کوئی بھی معاشرہ اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک معاشرے میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے والے موجود ہوں۔ بصورت دیگر قوموں کی تباہی اور بربادی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’لوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ ان پر عذاب عام بھیج دے۔‘‘ (سنن أبي داود: 4338)

عدل و انصاف کی فراہمی

ملکی سلامتی اور امن و امان کے قیام میں عدل و انصاف کا بڑا کردار رہا ہے۔ عدل و انصاف کا قیام اسلام کی اساسی تعلیمات میں سے ہے۔ ملکی بقا اور عدل کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب کسی ملک یا معاشرے سے عدل اٹھ جائے تو وہ اس ملک کی تباہی و بربادی کی ابتدا ہوتی ہے۔ تاریخ انسانی ایسے بے شمار واقعات سے لبریز ہے۔ مقتدر حلقے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو عدل و انصاف فراہم کرے اور عدل و انصاف تک رسائی کو لوگوں کے لیے آسان بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے داؤدu کو اقتدار بخشنے کے بعد یہی حکم فرمایا تھا: اے داؤد! بے شک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، سو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور خواہش کی پیروی نہ کر، ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ یقینا وہ لوگ جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔ (صٓ 38:26)

اسلام کا قانون عدالت سب کے لیے یکساں ہے۔ کسی کو کسی دوسرے پر امتیازی حیثیت حاصل نہیں۔ جرم کا ارتکاب کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو، قانوناً انصاف کے کٹہرے میں پیش ہونا اس کا اخلاقی فرض ہے۔ وزیر اعظم، صدر سمیت حکومت کے کسی عہدیدار یا کسی وڈیرے کو کوئی استثناء حاصل نہیں ہے۔ اسلامی امراء کے اپنے آپ کو عدالت میں پیش کر دینے کے بے شمار واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ ایسے واقعات موجودہ حکمران طبقے کے لیے اسوہ حسنہ کا مقام رکھتے ہیں۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم اور صدر سے لے کر ایک عام آدمی تک، ہر شخص اپنے آپ کو اسلام کے قانون عدالت کا پابند سمجھے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھے گا تو ظاہر ہے وہ کسی بھی وقت قانون سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے استثناء کا ڈھونگ رچا سکتا ہے۔ ہماری موجودہ ملکی صورتحال اس کی زندہ مثال ہے۔

الغرض! ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کا ایک مقصد قیام عدل بھی بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بلاشبہ ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔‘‘

(الحدید57:25)

بیت المال کا قیام

ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بیت المال کا قیام بھی ناگزیر ہے۔ معاشرے میں جو افراد معاشی بد حالی کا شکار ہوں ان کو بیت المال سے ایک مخصوص رقم دی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ غربت کی شرح کم ہو گی اور ملک کا ایک عام باشندہ بھی برسرروز گار ہو گا۔ اسی طرح وہ ایک اچھا شہری ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا تاجر بھی ہو گا۔

صدقہ و خیرات اور زکوۃ کا جتنا بھی مال ہو اس کو بیت المال میں جمع کیا جائے اور غرباء میں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان دیگر مصارف میں بھی خرچ کیا جائے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت :60 میں کیا ہے۔ چونکہ بیت المال میں جمع شدہ مال اللہ اور مسلمانوں کا مال ہے، اس لیے کسی شخصیت کا اس کو اپنی ملکیت بنانا ناجائز ہے۔ اس مال کو ان لوگوں پر خرچ کیا جائے جو اس کے صحیح مستحق ہیں۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بھی یہی عمل تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم عاملین کو بھی یہی حکم فرماتے تھے کہ امیر لوگوں سے زکوۃ و صدقات کا مال لے کر غرباء میں تقسیم کیا جائے۔ تقسیم زکوٰۃ کا یہ ایک ایسا طریق کار ہے کہ اگر اسے اپنا لیا جائے تو ملک میں بے روز گاری کی نحوست کبھی اپنے پنجے نہیں گاڑ سکتی۔ مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں امراء سے لے کر غرباء میں تقسیم کرنے کے بجائے، غرباء سے مختلف چیزوں کے نام پر ٹیکس وصول کر کے امراء کو مختلف آسائشوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔

انسداد احتکار

ملکی خوشحالی کے لیے انسداد احتکار بھی بہت ضروری ہے۔ وہ احتکار چاہے دولت سے تعلق رکھتا ہو یا اشیائے خوردونوش سے۔اس نیت سے اشیائے خورد و نوش کو اسٹاک کر لینا کہ جب قیمتیں زیادہ ہوں گی تو مارکیٹ میں لائیں گے، شرعی طور پر ناجائز اور ممنوع فعل ہے۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ذخیرہ اندوزی گناہ گار شخص ہی کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم:1605(103)) حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے افراد پر کڑی نظر رکھے جو ذخیرہ اندوزی کے جرم میں ملوث ہیں۔ اگر اس فعل قبیح کو کنٹرول کر لیا جائے تو مہنگائی کے بد ترین بحران سے بچا جا سکتا ہے۔ وطنِ عزیز مہنگائی کے جس بد ترین بحران سے دو چار ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ذخیرہ اندوزی ہی ہے۔ ایسے افراد کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں جو ضروریات زندگی کو اپنے اسٹورز میں جمع کیے رکھتے ہیں۔ جب ان اشیاء کی قیمتیں آسمان کو پہنچ جاتی ہیں تو ان کو مارکیٹ میں لاتے ہیں۔

موجودہ ملکی صورت حال میں حکومت کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ فوراً ایسے افراد کے بارے میں ایکشن لے اور ان کے جمع کر دہ ذخیرے کو عام ریٹ پر مارکیٹ میں لائے۔ ان اشیاء تک عام ریٹ پر عوام کی پہنچ کو یقینی بنانا حکومت وقت کی اہم ذمہ داری ہے۔

دھوکہ دہی و فریب کا خاتمہ

شریعت نے دنگا و فساد کی جڑ دھوکہ دہی اور فریب کو بتایا ہے۔ گویا کہ ملک میں امن و امان کی خاطر دھوکے اور فریب کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ جس معاشرے کے اندر دھوکہ اور فریب عام ہو جائے، تباہی اور بربادی اس معاشرے کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

ناپ تول میں کمی، اشیاء میں ملاوٹ، صنعت و تجارت میں فریب، امانت میں خیانت، کپڑا ناپتے وقت گز یا میٹر میں کمی و بیشی دھوکہ دہی اور فریب کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایسے افراد جو ناپ اور تول میں کمی کرتے ہیں ان کے بارے میں بہت سخت وعید نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بڑی ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔ وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔ اور جب انھیں ماپ کر، یا انھیں تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ بے شک وہ اٹھائے جانے والے ہیں۔‘‘(المطففین83:14)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے