گذشته دنوں فضیلة الشیخ القاری صهیب احمد میرمحمدي حفظه الله جامعه میں تشریف لائے انهوں نے بعد از نماز ظهر طلباء كرام سے عربی زبان میں خطاب كیا اس كا خلاصه قارئین كرام كی خدمت میں پیش كیاجارها هے۔
حمد وثناء كے بعد :
محترم سامعین ! نور اسلام سے پهلے لوگ شرك وضلالت‘ اخلاقی گراوٹ كی اتھاه گهرائیوں میں ڈوبے هوئے تھے اس صورت حال پر قرآن نے یوں روشنی ڈالی هے ۔
وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ
حالانکہ اس سے پہلے وہ کھُلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔(الجمعہ:2)
سسكتی انسانیت كے لیے رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم كو قرآن عظیم دے كر مبعوث كیا ۔
لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(ابراهیم:۱)
’’(تاكه) آپ لوگوں كو (گمراهی كے)اندھیروں سے نكال كر روشنی میں لے كر آئیں۔‘‘
رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم نےانسانیت كو اخلاق كریمانه كے اوج كمال تك پهنچایا ۔آج كی اس مجلس میں هم اپنے قلوب و اذهان كو اخلاقی برائیوں مثلاً حسد وبغض ، كینه وغیره سے پاكیزه كرنے كی كوشش كریں گے۔
رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم كا ارشاد گرامی هے :
لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَنَافَسُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا(متفق علیه)
اے لوگو! بغض نهیں كرو ، ایك دوسرے كے خلاف (گندی سوچ) مت ركھو۔ اور نه هی (اخلاق رذیله میں) ایك دوسرے سے مقابله كرو بلكه اے الله كے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘
اسی طرح رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا ، و لا تؤمنوا حتى تحابوا ، ألا أدلكم على ما تحابون به ؟ قالوا : بلى ، يا رسول الله قال : أفشوا السلام بينكم ( صحیح مسلم)
اے مسلمانو! تم اس وقت تك جنت میں داخل نهیں هوسكتے جب تك مومن نه بن جاؤ اور جب تك تم آپس میںمحبت نهیں كرو گے مومن نهیں بن سكتے كیا میں تمهیںوه چیز نه بتاؤں جس پر عمل پیرا هوكر تم محبت كرنے لگو گے آپس میں سلام كو عام كرو۔‘‘
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا كه كونسے لوگ افضل هیں تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا ۔
هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ ، لَآ إِثْمَ فِيهِ ، وَلاَ بَغْيَ ، وَلاَ غِلَّ ، وَلاَ حَسَدَ
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1096
پرہیز گار پاک صاف وہ ہے کہ جس کے دل میں نہ گناہ ہو نہ بغاوت نہ بغض نہ حسد۔
جنت میں اهل ایمان كے دلوں سے كدورت كو ختم كردیاجائے گا ارشادباری تعالیٰ هے:
وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ (الحجر : ۴۷)
اُن کے دلوں میں جو تھوڑا بہت بغض ہوگا اسے ہم نکال دیں گے ، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔
سامعين! اپنے قلوب كو بغض سے پاك كریں ۔ كسی مسلمان كے بارے میں برا گمان نه ركھیں تو باری تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا جیسا كه مشهور حدیث هے كه ایك صحابی رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم جب سونے لگتے تھے تو اپنے دل سے بغض كو ختم كردیتے تھے اور هر مسلمان كو معاف كركے سوتے تھے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی جلیل كو اسی عمل كی بناء پر جنتی قرار دیا تھا۔
باهمی منافرت اور حقد وحسد كے اسباب:
اس بیماری كے بنیادی اور اساسی اسباب درج ذیل هیں۔
۱۔ شیطان كی اطاعت :
باری تعالیٰ كا ارشاد هے :
اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا بنی اسرائیل:53
دراصل یہ شیطان ہے جوانسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے (وسوسہ اندازی کرنے ) کی کوشش کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
۲۔ غضب :
غضب اور غصه كرنے سے بھی آپس میں عناد پیدا هوتاهے اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے نصیحت طلب كرنے والے صحابی كو بار بار غصه نه كرنے كی تلقین كی ۔
۳۔چغل خوری :
چغل خوری معاشرے كو دیمك كی طرح چاٹ لیتی هے۔ باهمی تنازعا ت سے بچنے كے لیے چغل خوری سے محفوظ رهنا بهت ضروری هے ۔
باری تعالیٰ نے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم كو حكم دے امت مسلمه كو سمجھایاهے كه چغل خور كی اتباع نه كیا كریں۔
هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ (القلم:۱۱)
طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا كه :
لا یدخل الجنة المنان
چغل خور جنت میں داخل نهیں هوگا ۔‘‘(نسائی)
۴۔ حسد :
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا كه تم حسد سے بچو یه نیكیاں كو اسی طرح ختم كر دیتا هے جس طرح آگ لكڑیوں كو ختم كردیتی هے۔كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ(سنن ابن ماجه)
۵۔ مقابله بازی :
دنیا كی جاه وحشمت اور شان وشوكت حاصل كرنے كے لئے ایك انسان دوسرے انسانوں سے مقابله كرتاهے اس سے بھی دلوں میں كدورت پیدا هونے كا خطره هے۔
۶۔ كثرت مذاق :
مذاق كی مثال نمك كی طرح هے اگر كھانے میں نمك كی مقدار كم هوتو اس كو مزیدار بنا دیتاهے جبكه یهی نمك اگر زیاده هوجائے تو كھانے كو خراب بھی كردیتاهے اسی طرح اخلاقیات كی حدود میں رهتے هوئے جو مذاق كیا جائے وه انسان كی شخصیت كو مقبول عام بناتا مگر بعض اوقات مذاق كی كثرت انسان كی شخصیت كو قابل نفرت بنادیتی هے۔
بچاؤ :
قلوب واذهان كی روحانی بیماریوں سے بچنا اسی وقت ممكن هے جب هم درج هدایات پر عمل پیرا هونگے۔
cتقدیر الٰهی پر راضی رهنے سے بندے كیلئے فلاح وبهبود كے دروازے كھول دیے جاتے هیں ۔
c قرآن كریم كی تدبر كے ساتھ تلاوت كرنا۔
cجو آدمی قرآن كے ذریعے شفاء حاصل نهیں كرتااور اس كے ذریعے روحانی امراض كا علاج نهیں كرتا در حقیقت یهی آدمی نقصان اور دھوكے میں هے ۔
باری تعالیٰ نے تو قرآن كے باره میں ارشاد فرمایا : رحمة للعالمینــ’’ ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے ۔‘‘
دوسری جگه فرمایا : شفاء لما فی الصدور
ــ’’ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے۔‘‘
c دعا كرنا
c صدقه كرنا ۔ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
’’اپنی بیماریوں كا علاج صدقه كے ذریعے كرو۔‘‘
cقرآن كریم نے فرضیت زكوٰ ةكی حكمت بیان كرتے هوئے فرمایا :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا
’’اے نبی ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور ان كا تزكیه نفس كرو۔‘‘(التوبة :103)
مفسرین نے لكھا هے كه تطهرهم سے مراد دلوں كی پاكیزگی سے اور تزكیهم تزكیه نفس كی طرف اشاره هے۔
cیادركھئے! جس آدمی كے باره میں آپ اپنے دل میں بغض ركھتے هیں وه آپ كا اسلامی بھائی هے كا فر عیسائی یا یهودی نهیں كوئی عقل مند اپنے بھائی كے باره میں بری سوچ ركھ سكتاهے۔
cكثرت سے السلام علیكم كهنا ۔
دوسرے كے حالات كے باره میں غیر ضروری سوالات كی بھر مار سے بھی دلوں میں نفرت پیدا هوتی هے همیشه رسول مكرم كا یه فرمان ذهن نشین ركھیں۔
مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ
’’انسان كے بهترین اسلام كی دلیل یه هے كه وه غیر ضروری معاملات كو چھوڑ دیتاهے۔‘‘
cچغلی ، غیبت كو سننا چھوڑ دیں دلوں كی تما م بیماریاں آهسته آهسته ختم هوجائیں گی۔
همیشه اصلاح قلوب كی فكر كریں، رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ(متفق علیه)
ــ’’جسد خاكی میں ایك خون كا لوتھڑا هے اگر وه درست هوجائے تو پورا جسم درست هوجاتا ہے اور اگر وهی ٹكڑا خراب هوجائے تو پورا جسم خراب هوجاتا هے (آگاه رهو كه)وه (ٹكڑا) دل هے۔‘‘
آخر میں شیخ صاحب نے اردو زبان میں نئے سال كے موقع پر سامعین كو نصیحت كرتے هوئے كها كه آج یه عزم كرلیں كه هم نے اس سال نیكی اور بھلائی كے وه كام كرنے كی كوشش كریںگے جو كه گزشته سال نهیں كرسكے۔
اپنے آنے والے سال كو گزرے هوئے سال سے بهتر بنائیں ۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
مدیر الجامعہ کی نصیحت:
مؤرخه ۳ صفر ۱۴۳۳ ھبمطابق ۲۹ دسمبر ۲۰۱۱ء جامعه ابی بكر الاسلامیه كے مدیر محترم جناب حضرت الامیرڈاكٹر محمد راشد رندھاوا حفظهلله نے صبح كی اسمبلی میں طلباء اور اساتذه كرام كو ناصحانه خطاب فرمایا۔
انهوں نے طلباء كرام كو قرآن كریم اور احادیث نبویه كو حفظ كرنے كی تلقین كی اور بتلایا كه جماعت مجاهدین كے سرخیل شاه محمد اسماعیل شهید رحمه الله نے ۸ سال كی عمر میں قرآن پاك حفظ كیا اور ۱۵ سال كی عمر میں انهوں نے مروجه كتابیں پڑھ لی تھیں ۔اور اسی طرح انهیں ۳۰ هزار احادیث مباركه زبانی یاد تھیں۔ میں نے لاهور كے ایك دار العلوم كا وزٹ كیا تھا جس میں تمام طلبه حافظ قرآن تھے اس لیے هم بھی چاهتے هیں كه همارا هر طالب علم فارغ هوتے وقت قرآن پاك كاحافظ هواور اسے كثرت كے ساتھ احادیث نبویه بھی یادهوں۔
انهوں نے طلباء كرام كو نماز اشراق نفلی روزے اور دین اسلام كے جمله احكامات پررغبت سے عمل كرنے كی تلقین كی۔
فضیلة الشیخ الحافظ مسعود عالم حفظه الله
ماه محرم میں جماعت اهلحدیث كے جید عالم دین استاذ الحدیث والتفسیر حافظ مسعود عالم صاحب جامعه میں تشریف لائے انهوں نے مختصر سے وقت میں طلباء كرام كو قیمتی پند ونصائح سے نوازا اس كا اردو میں ترجمه پیش خدمت هے ۔
محترم سامعین كرام ! آپ الله تعالیٰ كے پسندیده افراد هیں كیونكه آپ كو الله نے اپنے دین كے علم كے لیے منتخب فرمایا هے ۔ ارشاد باری تعالیٰ هے :
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا
(فاطر:۳۲)
’’پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ ‘‘
علم كی حقیقت كیا هے یادر كھئے علم حقیقی سے دلوں میں یقین پیدا هوتاهے اور معرفت الٰهی حاصل هوتی هے معلومات كا حصول علم كی حقیقت نهیں هے ۔ عصر حاضر میںحقیقی علم كی كمی هے اسی وقت كے بارے میں رسول اللهصلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا :
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَكْثُرَ الْجَهْلُ وَيَكْثُرَ الزِّنَا وَيَكْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ (متفق علیه)
قیامت كی علامتوں میں سے یه كه ایك وقت آئے گا كه علم اٹھا لیا جائے گا جهالت كی كثرت هوگی ، زناكاری عام اور شراب خوری كثرت سے هوگئی عورتوں كی تعداد مردوں سے زیاده هوجائے گی۔‘‘اور ایك روایت میں هے كه عمل برائے نام ره جائے گا۔‘‘زیاده پڑھنا ، رٹا لگانا علم كی معراج نهیں بلكه علم حقیقی سے انسان كو باری تعالیٰ كی ذات كے باره میںیقین كامل ملتاهے۔
رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم كاا رشاد هے :أَكْثَرُ مُنَافِقِي أُمَّتِي قُرَّاؤُهَا
میری امت كے اكثر منافق كثرت سے پڑھنے والے هونگے كیا۔(مسند احمد،حدیث حسن لغیر ہ) (یعنی وه عمل میں سست هونگے) امام اهل السنه امام احمد رحمه الله فرماتے هیں كه میں نے جو حدیث بھی پڑھی اس پر عمل ضرورکیا
اپنے آپ كو زیور علم سے آراسته كریں تاكه آپ معاشرے كی اصلاح كرسكیں۔اپنے استاذ كی عزت كرنا ان سے ادب سے پیش آنا حصول علم كا اہم ذریعه هے ۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم كے اس فرمان كو اپنا حرز عمل بنالیں ۔
إن الهدي الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جز من النبوة
عمدہ چال چلن، عمدہ اخلاق اور میانہ روی، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔(ابوداوٗد:4776)
الحمدللہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں طلبہ کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی تربیت کیلئے خاص پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے کل کو بہتر سے بہتر بناسکیں اور عوام الناس کیلئے بھی اچھے رہبر ثابت ہوں۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے مورخہ 16/ دسمبر بروز اتوارکو ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں فضیلۃ الشیخ ذوالفقار احمد صاحب حفظہ اللہ مدعو تھے جو کہ ابوہریرہ اکیڈمی لاہور کے شیخ الحدیث اور ماہر اسلامی اقتصادیات و بینکاری ہیں۔ انہوں نے اساتذہ اور طلباء کے سامنے موجودہ بینکاری نظام کا تفصیلی تعارف پیش کیا اور اس کی اقسام بیان کیں۔ اسی طرح موجودہ اسلامی بینکوں کے کام کے بارے میں بھی بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی بینک بھی اسلامی طریقہ کار پر کام نہیں کررہا بلکہ ان میں بھی چور دروازے موجود ہیں جن میں سود (ربا) جیسا مرض پایا جاتا ہے اور یہ نام نہاد اسلامی بینک بھی اسلام کا نام لے کر دوسرے بینکوں کی طرح ہی کام کررہے ہیں۔ انہوںنے صحیح بخاری کی کتاب البیوع کو بغور پڑھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ امام بخاری نے اسلامی بینکنگ کو چلانے کا صحیح طریقہ بیان کیا ہے اور اسی ترتیب سے احادیث کو لے کر آئے ہیں حالانکہ اُس زمانے میں بینکنگ کا نظام بھی نہیں تھا۔ لیکن اسلام نے انسان کی مکمل زندگی اور ضروریات کو پہلے ہی بیان کردیا ہے۔ انہوں نے طلبہ کو اس سلسلے میں مفید کتب بھی بتائیں اور ان کے مطالعے کا مشورہ دیا اور کہا کہ آج کل بہت سارے لوگوں کے سوالات بینکاری نظام سے متعلق ہی ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں اس بارے میں معلومات نہیں ہوں گی تو ہم ان لوگوں کی راہنمائی نہیں کرسکیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے خود بھی بخاری میں کتاب البیوع پڑھ اور پڑھا کرہی اس نظام کو سمجھا ہے اور اس میں فرق کرنے کے قابل ہوا ہوں، میرے پاس سب سے زیادہ تاجر حضرات آتے ہیں آج موجودہ نظام کے حوالے سے سوالات کرنے کے لیے تو آپ اس پر پوری توجہ دیں اور اس میں مہارت حاصل کریں۔ آخر میں انہوں نے مشورہ دیا کہ عوام الناس میں صحیح اسلامی بینکاری کا شعوراجاگر کیا جائے تاکہ ہمارے درمیان سود جیسے مرض کا خاتمہ ہو۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد ﷺ
طلبہ کو نکھارنے اور ان کی تربیت کرنے کے سلسلے کی اگلی مجلس 17/ دسمبر کو منعقد ہوئی، جس میں فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالحمید ازہر حفظہ اللہ ’’ڈائریکٹر :مکتبۃ الدعوۃ ‘‘مدعو تھے، جو معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ کے ہمعصر ہیں۔ ان کے ساتھ فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ بھی تشریف لائے تھے لیکن قلیل وقت کے سبب طلبہ کو ان کے نصائح سے مستفید ہونے کا موقع نہ مل سکا۔
حافظ صاحب نے طلبہ کو قیمتی نصیحتیں فرمائیں اور اپنی علمی گفتگو سے طلبہ کو مستفید کیا۔ انہوں نے طلبہ کو خوب لگن سے علم حاصل کرنے کا مشورہ دیا اور اپنے اساتذہ کی عزت و تکریم کرنے کا فرمایا کیونکہ اسی سے علم حاصل ہوتا ہے۔ انہوںنے طلبہ کو اپنے اوپر ضروری قرار دینے والی چار باتیں بیان فرمائیں۔
۱) الاستماع:
استاد کی بات کو توجہ سے سننا اور اس پر غور کرنا۔ اللہ کا فرمان ہے: اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ (سورۂ ق)
۲) فہم وادراک:
اچھی طرح سننے کے بعد اس کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا۔ آپ نے محدثین کی عادات و اطوار بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ صرف ایک حدیث سننے کیلئے طویل سفر کرتے اور پورا دن اس کیلئے انتظار کرتے۔ انہوں نے طلبہ کو اچھی طرح ایک ایک لفظ سمجھے بغیر آگے نہ بڑھنے کا مشورہ دیا اور کہاکہ نہ استاد کو آگے بڑھنے دیں اور نہ خود آگے بڑھیں، جب تک بات کو پوری طرح سمجھ نہ لیں۔
۳) الحفظ والعمل:
سننے اور سمجھنے کے بعد اس کو یاد کرنا اور یاد رکھنا ضروری ہے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ مثلاً ہم نماز پڑھتے ہیں۔ اس میں کتنی احادیث ہیں جو ہمیں یا عام آدمی کو یاد ہیں؟ لیکن نماز ہمیں پوری یاد ہے کیونکہ ہم سب اس پر عمل کرتے ہیں۔ علم کے طالب کو تو عمل کی زیادہ ضرورت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے فرمایا: خذ الکتاب بقوۃ اس کے معنی کتاب کو ہاتھ سے پکڑنا نہیں بلکہ قوت سے مراد قوت عمل ہے۔ علمائے سلف میں احمد بن حنبل اور علی بن المدینی فرمایا کرتے تھے کہ علم کی زکوٰۃ ادا کرو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ سو احادیث یاد کی ہیں تو ان میں سے کم از کم تین پر عمل کریں۔
۴) الابلاغ:
سبق لینے سمجھنے اور یاد کرکے عمل کرنے کے بعد اس کو دوسروں تک پہنچانا۔ اس طرح علم پر عمل بھی ہوگا اور دوسروں تک پہنچانے سے یاد بھی رہے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ علم لے کر عمل کرو اور اس کو دوسروں تک پھیلائو تاکہ جہالت کا خاتمہ ہو اور ہر طرف اللہ کی بڑائی بیان ہو۔ سیدنا ابوحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اپنے طلبہ کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ اے طالب علم! اس راہ پر گامزن رہو۔ اگر تم اس پر چلو گے تو بہت سے لوگ تم سے بہت آگے ہیں۔ اگر اس راستے کو چھوڑ کر ادھر ادھر نکلے تو پھر بہت بڑی گمراہی ہوگی۔ اسی طرح حضرت حافظ صاحب نے طلبہ کو وقت کی قدر کرنے پر زور دیا اور اس کی مثالیں سعید بن المسیب اور احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین کی کامیاب زندگی سے دیں۔ یہ تمام لوگ اپنے زمانے کے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے وقت کی قدر کرتے ہوئے اس سے پورا فائدہ حاصل کیا۔ طالب علم کی نظر میں ہروقت علم کا فروغ ہونا چاہئے۔ حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ ایک عام طالبعلم کی نظر میں تمام طرق حدیث ہونا لازمی ہیں۔
حافظ صاحب نے طلبہ کو اپنی کامیابی کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تراجم پڑھنے کا حکم دیا اور کتابوں سے رشتہ جوڑنے کا کہا۔ ان تراجم کے پڑھنے سے صحابہ کے اقوال ملتے ہیں۔ ان میں سب سے اچھی کتاب سیر اعلام النبلاء کو قرار دیا۔ ان تراجم کو پڑھنے سے تکبر ختم ہوتا ہے اور ہمت بڑھتی ہے۔
آخر میں حافظ صاحب نے خشیت الٰہی پر زور دیا۔
قولہ تعالیٰ: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔
’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں ۔‘‘
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۔
’’ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔‘‘
وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ۔
’’ اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے ۔‘‘
علم حاصل کرنے کیلئے اللہ کا خوف اور عاجزی انتہائی ضروری ہے۔ انسان کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اندر خشیت الٰہی کو رکھے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں
العلم خشیۃ اللہ
علم خشیۃ الٰہی سے ہی ہے۔
سعید بن المسیب کو ۱۵۰ حدیثیں یاد تھیں جو وہ روایت کرتے تھے۔ کثرت روایت کا نام علم نہیں بلکہ خشیت الٰہی کے بغیر علم علم نہیں ہوتا۔ خشیت الٰہی کس چیز کا نام ہے؟ اگر خشیت الٰہی ہوگی تو علم حاصل کرنے میں مخلص ہوں گے۔ اگر کوئی سوال یا مسئلہ پوچھے گا تو اس میں جلدبازی نہیں کریں گے۔ اپنے علم کے زور پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کریں گے۔ اللہ کا خوف ہوگا تو پھر شریعت کو کھیل نہیں بنائیں گے۔ لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ اللہ کے بندوں کو مایوس کردیں۔ خشیت الٰہی جب آپ پر ہوگی تو آپ اللہ سے ڈریں گے اور آپ پر لرزہ طاری ہوگا اور آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو جب کوئی بات یا مسئلہ سمجھ نہ آتا تو آپ باہر نکلتے۔ ویرانے میں مسجد ڈھونڈتے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے نماز پڑھتے اور دعا کرتے:
اللھم معلم ابراہیم معلمنی
یہ طریقہ انہوں نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے لیا جو علم کے پہاڑ تھے۔ عمر کے آخری حصے میں بیمار ہوگئے تو ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ آپ کے بعد ہمیں علم کون سکھائے گا؟ آپ کے الفاظ تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ فرمایا علیکم معلم ابراھیم جس نے سیدنا ابراھیم علیہ السلام کو سکھادیاتھا۔ جب کوئی نہیں ہوگا تو وہ تمہیں بھی سکھائے گا۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بِحَسْبِ الْمَرْءِ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ يَخْشَى اللهَ (الزھد)
’’آدمی کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے دل میں خشیت الٰہی آجائے۔‘‘ دوسرا قول فرماتے ہیں کہ ’’گناہ اتنا ہی کافی ہے کہ آدمی کے استغفراللہ کرنے سے جاتا رہے۔‘‘
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں علم اور عمل کی توفیق دے۔ آمین
واخر دعوانا ان الحمدللہ العالمین
آخر میں وکیل الجامعہ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ نے مہمانوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور ان کے قیمتی وقت سے طلبہ کو استفادہ دینے کا شکریہ ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حافظ صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین
جزاکم اللہ خیرا
کسی دانا کا قول ہے کہ اخبارات قوم کی آواز ہوتے ہیں ایک اور دانشور نے کہا کہ اچھےجرائد مذہب ،قوم اور ملک کی ترجمانی کرتے اور اس کے حقوق کے نگران ہوتے ہیں۔
مجلہ اسوہ حسنہ :
جامعہ ابی بکرالاسالامیہ کا تحقیقی و اصلاحی ماہنامہ ہے اور دوسرے معنوں میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ترجمان ہے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ جماعت اہلحدیث پاکستان کے نامور عالم دین ،عظیم اسکالر ،بلند پایہ خطیب ومقرراور وعظ و مبلغ کے پروفیسر چوہدری ظفرا للہ رحمہ اللہ وفات (1997جون )میں کراچی میں قائم کیا جامعہ کا آغاز 1978ء میں ہوگیا تھا لیکن اس کو مثالی بنانے میں چوہدری ظفر اللہ رحمہ اللہ مرحوم نے سعی و کوشش کی کہ وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک روشن باب ہے ۔
اس جامعہ میں ذریعہ تعلیم عربی کو قرار دیا گیا ہے جو اللہ کے فضل وکرم سے کامیابی سے چل رہا ہے اس جامعہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ کسی غیر عرب ملک کی پہلی غیر سرکاری درسگاہ ہے جس میں ذریعہ تعلیم عربی ہے اس کا نصاب ِتعلیم مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ اورریاض کی جامعہ امامحمد بن سعود سے ہم آہنگ ہے اس کے اساتذہ کے تقرر کا معاملہ عام جامعات سے مختلف ہے اساتذہ عالم اسلامی کی سات مشہور جامعات سے لئے گئے ہیں یعنی
1جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ
2جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
3جامعہ امام محمد بن سعود الریاض
4جامعہ ازہر قاہرہ مصر
5جامعہ خرطوم سوڈان
6جامعہ بغداد عراق
7جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی (باکستان)
نصاب تعلیم کے علاوہ:
اس جامعہ کا بنیادی مقصد عقیدہ سلف کی نشرو اشاعت اوراس کے مطابق قرآن وسنت نبوی ﷺ کے احکام طلباءکے ذہنوں میں راسخ کرنا اور امت مسلمہ کو اتحاد واتفاق کی سیدھی راہ پرلگانا ہے ۔
چوہدری ظفراللہ رحمہ اللہ اس جامعہ کو بلندی کے مقام پر پہنچاناچاہتے تھے اور ان کے ذہن میں اس جامعہ کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے کئی ایک پروگرام تھے لیکن ہوتا وہی ہے جواللہ کو منظور ہوتا ہے انہوں نے سردست جامعہ میں ایک بہت بڑی لائبریری قائم کی جس میں ہر فن کی کتب یعنی تفسیر ،حدیث ،فقہ ، رجال ،تاریخ، فلسفہ ، منطق،ادب معاشیات ،لغت ،سیاسیات ،وغیرہ پر ہر زبان (عربی وفارسی ،اردو انگریزی میں کتابوں کازخیرہ جمع کیا ہے ۔
چوہدری صاحب کے ذہن میں جو منصوبے تھے وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے آپ نے 3جون 1997ء کو اپنےدو صاحبزادوںایک بھانجا اور خالہ کے ہمراہ
کار حادثہ میں انتقال کیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ،اللہم اغفرلہم وارحمہم ۔
مجلہ اسوہ ٔحسنہ کا اجرا ء:
مجلہ اسوہ حسنہ کااجر اء 2009ءسے ہو ا،اس وقت مجلہ کی جلد نمبر 10چل رہی ہے اس کا اجراء چوہدری ظفر اللہ کے معاونین فضیلۃالشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ ا للہ ، فضیلۃالشیخ ضیاء الرحمٰن المدنی حفظہ اللہ ، فضیلۃالشیخ محمد طاہر آصف حفظہ اللہ ،اور اس کے سرپرست اعلی ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ ہیں ۔ فضیلۃالشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ ا للہ اسکے مدیر اعلی وبانی اور روح رواں ہیں مجلس ادارت میں جماعت اہلحدیث کے نامور علماءکرام ،عظیم اسکالر اور مصنف ادیب افراد شامل ہیں ڈاکٹرمحمد حسین لکھوی ،صوفی محمدعائش (ماموں کانجن )، ڈاکٹر عبد الحئ المدنی ،ڈاکٹر فیض الابرار صدیقی اور کئی دوسرے مشائخ شامل ہیں ۔مجلہ اسوہ ٔ حسنہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ترجمان ہے یہ رسالہ پابندی کے ساتھ ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا ہے ۔مضامین کے سلسلے میں اس میں یہ التزام رکھا گیا ہے کہ جو مضمون کی شکل میں یا کسی کتاب میں چھپانہ ہو ،ہر مضمون بلند پایہ،علمی و تحقیقی ہوتا ہے بعض مضامین بہت طویل ہوتے ہیں جو کئی کئی قسطوں میں شائع کیے جاتے ہیں ،اس کا اداریہ محترم ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں اداریہ کے علاوہ دیگر موضوعات پر ڈاکٹر صاحب کے مضامین مجلہ اسوہ ٔحسنہ کے زینت بنتے ہیں اس رسالے میں ہر سال آخر میں ایک مضمون عربی کا شامل اشاعت کیا جاتا ہے ۔اداریہ
میں ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ تاریخ اہلحدیث اور مسلک اہلحدیث کی اشاعت او رملک کے عام حالات پر ملکی مسائل پر اور تعلیمی مسائل پر سنجیدہ اور متوازن اظہار خیال ہوتا ہے اور کبھی کبھی علمی دنیا کی خاص بات پر علمی اظہار خیال کیا جاتا ہے ۔
مجلہ اسوۂ حسنہ کی ایک خاص چیز نئی کتابوں پر تبصرہ ہے تبصرہ اصلاََ نئی کتابوں شائع ہونے پر کتابوں کے بارے میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی اور کتاب کاموضوع بنایا گیا ہے ،وہ حقیقت پر مبنی ہے یا قارئین کو دھوکا دینے کے لیے لفاظی کی گئی ہے ۔
تبصرہ نگار کا فرض ہے کہ کتاب کے بارے میں واضح الفاظ میں بیان کیا جائے اور پوری دیانتداری سے بتایا جائے کہ اس کتاب میں کہاں خامیاں ہیں اوراس بارے میں مصنف کو اور ناشر کتب کو مشورہ دیا جائے ۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
المستشار مؤتمن
جس سےمشورہ لیاجائے اس کو امین ہونا چاہیے۔
تبصرہ نگار اگر کسی کتاب کے بارے میں جانبداری اختیار کرتا ہےتو وہ قارئین ِکتاب سے خیانت اور بد دیانتی کرتا ہے۔
مجلہ اسوہ ٔحسنہ کے تبصرہ نگار نے کبھی بھی کسی کتاب کی بے جا تعریف نہیں کی اور ہمیشہ کتاب کے بارےمیں ،جس موضوع پر کتاب ہے اسے احاطہ تحریر میں لائی گئی اس کو واضح کیا گیا ہے نہ کسی کتاب بے جا تعریف کی گئی ہے اور نہ ہی کسی کتاب کی تنقیص کی گئی ہے ۔
مجلہ اسوہ ٔحسنہ ہر لحاظ سے بڑاعلمی ،اصلاحی ،تحقیقی،تاریخی او ر معلوماتی ماہنامہ ہے ۔مجلہ کا ادارتی عملہ اورخاص کر اس کے مدیر اعلی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ نے صحافت کی دنیا میں اس کو بام عروج پر پہنچانے میں جو سعی وکوشش کی ہے اور مزیداس کو صحافتی دنیا میں اس کو خاص مقام دلانے کے لیے بہت زیادہ خواہش مند ہیں اللہ تعالی اس سلسلے میںانکا معاون و مددگار ہو ا۔
اللہ تعالی مکی صاحب حفظہ اللہ کے جو عزائم ہیں ان میں انہیںکامیابی و کامرانی عطافرمائے ۔
مجلہ اسوہ ٔحسنہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی مدت اشاعت 10سال ہے اور میری معلومات میں مندرجہ ذیل مجلات خصوصی نمبر زکے ساتھ شائع ہوئے ہیں :
1قرآن کریم
2دفاع ناموس رسالت ﷺ
3سیرت رسول ﷺ
4مؤسس الجامعہ ’’پروفیسر شیخ محمد ظفر اللہ ‘‘ رحمہ اللہ
5دفاع بلادِ حرمین شریفین
6 بے دینی ، دہریت اور الحاد پر علمی محاسبہ وتعاقب
7 تذکرئہ خیر البشر ﷺ
ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفطہ اللہ مبارک باد کے مستحق ہیں جو مجلہ اسوہ حسنہ کی ترقی وترویج میں ہمہ تن مصروف ہیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کےعلم وعمل میں برکت عطافرمائے۔آمین یا رب العالمین
۔۔۔
جب میں اپنے دوستوں کا تصور کرتا ہوں۔ تو میرے پردۂ ذہن پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں۔ جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں، اورساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو یاد کر کے مجھے ہنسی آتی ہے اور ان پر پیار بھی بہت آتا ہے۔ ان دوستوں میں سے چند کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ابو نعمان بشیر احمد، طاہر آصف، چوہدری امجد علی، یوسف ضیاء، مجیب عالم، حافظ عبیداللہ، حافظ فضل الرحمن، حبیب اصغر اور شیخ مقبول صاحب۔
میرے محسن جناب ڈاکٹر مقبول احمد صاحب، ضلع اوکاڑہ شہر رینالہ خورد کے قریب گائوں چک نمبر 2/1.L میں بتاریخ 4 ستمبر 1967 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے پھوپھا مولانا شیث محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور پھر گائوں ہی میں موجود گورنمنٹ پرائمری اسکول سے حاصل کی اور گورنمنٹ ہائی اسکول رینالہ خورد سے بہترین گریڈ میں سائنس کے ساتھ میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کے بعد رینالہ میں ملازمت کی اور اس کے بعد کچھ وقت کے لیے لاہور میں کسی پرائیویٹ ادارے میں بھی ملازمت کی۔
گائوں میں میری ممدوح سے بہت دوستی تھی۔ ہم گائوں کے ماحول کے مطابق کھیلوں میں ایک ساتھ حصہ لیتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میں اکثر اسکول کے امتحان کی تیاری کے لیے ان ہی سے پڑھا کرتا تھا۔ اگست 1984ء میں جب استاذ محترم شیخ خلیل الرحمان لکھوی اور شیخ ابو نعمان بشیر احمد کی معرفت جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں دینی تعلیم کے لیے کراچی آیا تو میرے ممدوح کے دل میں بھی شوق پیدا ہوا۔ شوق کی بات یہ تھی کہ جناب کی دوستی مجھ سے زیادہ ابو نعمان بشیر احمد سے تھی۔ مجھ سے جامعہ کے بارے میں معلومات اور مسلسل ابو نعمان سے رابطے کے بعد آپ نے بھی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گائوں میںآپ انجمن طلباء اسلام کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ اورگائوں میں اکثر ATI کے پروگراماموں میںسرگرم رہتے تھے۔
یہ اکتوبر 1984 کی بات ہے کہ آپ نے جامعہ میں تعلیم کیلئے کراچی کا سفر شروع کیا۔ خود ان کی زبانی کہ میں گائوں سے اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا تو دل میں اپنے پیارے اہل خانہ، عزیزوں اور دوستوں کی یادیں ابھرنے لگیں اور دل واپس گائوں کی طرف کھنچنے لگا۔ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ اچانک گاڑی آگئی اور میں سوار ہو گیا۔ سیٹ پر بیٹھا تو وہی تصورات ایک بار پھر گردش کرنے لگے۔
والدہ کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ کم سنی سے لے کر میٹرک تک دیکھ بھال کرنیو الی پیاری بڑی بہن اور والد محترم جن کی محبت، پیار اور شفقت اتنی تھی کہ والدہ کی کمی کاشدید احساس نہیں ہونے دیا۔ ان سے جدا ہونے کا خیال میرے لیے بڑا تکلیف دہ تھا۔ یہی ساری یادیں تھیں جو واپس لوٹنے پر مجبور کررہی تھیں۔ مگر دوسری طرف دینی تعلیم حاصل کرنے کا بہترین موقع مل رہا تھا۔ کشش دونوں طرف تھی میرا ذہن ماضی کی جانب محو سفر تھا۔جبکہ ٹرین کراچی کی طرف دوڑ رہی تھی۔ گاڑی جس اسٹیشن پر رکتی، دل واپس جانے کی طرف مائل ہوتا۔ کئی اسٹیشنوں پر تو میں نے اپنا بیگ اٹھالیا اور اترنے کا ارادہ کرہی لیا مگر کوئی قوت روک دیتی تھی۔ یہاں تک کہ حیدرآباد آگیا۔ اب واپس جانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ چنانچہ بیگ اٹھایا اور گاڑی سے نیچے اتر گیا پھراپنے آپ سے کہنے لگا ’’اللہ کے بندے! دینی تعلیم کے لیے گھر سے نکلے ہو۔ آگے بڑھو۔ اللہ کوئی بہتر راستہ دکھا دے گا۔‘‘ یہ سوچ کر دوبارہ سوار ہوگیا اور کراچی پہنچ کر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی راہ لی۔ جامعہ میں ابو نعمان بشیر صاحب اور محترم استاد شیخ خلیل الرحمن لکھوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دلی سکون ملا۔ چند دن گزرنے کے بعد جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کی محبت کے ساتھ ساتھ جامعہ کے ماحول نے اپنا اسیر کرلیا اور دن رات محنت اور پڑھائی او رمسلسل تحقیقات میں گزرنے لگے۔
چونکہ مسلکی لحاظ سے اہلحدیث نہیں تھا۔ لہٰذا جامعہ کے برابر والی بریلوی مسلک کی مسجد میں کبھی کبھار نماز پڑھنےیادل بہلانے چلا جاتا۔مگرجامعہ میں اساتذہ نے محبت اور پیار سےجس طرح رہنمائی کی نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ رب العزت نے صراط مستقیم پہ گامزن کردیا الحمد للہ ۔
جامعہ کے ابتدائی تین سال گزر گئے پھر پاکستانی نیوی میں بھرتی ہونے کا آرڈر بھی آگیا۔ کیونکہ گھر والوں کے سخت اصرار پر نیوی کی ملازمت کے لیے انٹرویو دے رکھا تھا مگراللہ کی توفیق سے دینی تعلیم، اپنے اساتذہ اور دوست احباب کی محبت خصوصی طور پر محترم انس محمد صاحب کی نصیحت غالب رہی اور ملازمت کاارادہ ملتوی کر دیا۔ جامعہ کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ انٹرمیڈیٹ اور بی اے کراچی یونیورسٹی سے کرلیا۔
کلیۃ الحدیث کے پہلے سال میں تھا کہ کراچی کے ایک بہترین پرائیویٹ اسکول، اینگلو اورینٹل میں بحیثیت اسلامیات اور عربی استاد کام کیا۔ جامعہ کے آٹھ سال کے دوران میرا اور آپ کا ایک ایسا رشتہ تھا کہ ہر کوئی ہمیں حقیقی بھائی ہی سمجھتا تھا اور الحمدللہ آج بھی ایسا ہی ہے۔ دینی تعلیم میں بھی آپ نے اور ابو نعمان بشیر صاحب نے میرا بہت ساتھ دیا۔
آپ نے 1992ء جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے فراغت کی سند’’ شہادۃ العالیہ ‘‘بہت اچھے نمبروں سے حاصل کی اور ہم نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر جامعہ سے باہر فلیٹ کرائے پر حاصل کیا اور رہائش اختیار کی۔ ساتھ ساتھ ملازمت کے لیے سینٹرل جیل کراچی میں قائم دینی تعلیم کے مدرسے میں بطور معلم کام شروع کیا۔ وہاں پر ہمارے محسن جناب حکیم انور صاحب کی سر پرستی ملی، جن کی شفقت اور محبت میں ہمیں پڑھنے اور پڑھانے میں بہت مزا آیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جیل کی تمام بیرکوں میں سائونڈ سسٹم کا انتظام تھا۔ صبح تلاوت کے بعد ایک استاد درس قرآن دیا کرتا تھا۔ شیخ صاحب اس کار خیر میں مسابقت کرتے ہوئےخود درس قرآن دیتے۔آپ کے درس سے قیدی بہت متاثر ہوتے۔ سینٹرل جیل میں شیخ صاحب نے تقریباً ڈیڑھ سال کام کیا۔آپ جیل کے مدرسے میں صبح 8 سے دوپہر 12 تک اور پھر ایک بجے سے شام 5 تک اینگلو اورینٹل اسکول میں معلم کی حیثیت سےکام کیا کرتے تھے۔ اینگلو اورینٹل کی پرنسپل آپ کے اچھےکردار کی وجہ سے آپ کا بہت احترام کرتی تھیں۔اب جب بھی کبھی ملاقات ہو توآپ کا بہت اچھے لفظوں سے تذکرہ کرتی ہیں۔ پرنسپل صاحبہ کی راہنمائی سے شیخ صاحب پاکستان کے نامورسسٹم آف اسکولز یعنی دی سٹی اسکول گلشن اقبال کراچی میں عربی اور اسلامیات کے معلم مقرر ہوئے۔ آپ کو اسکول میں کام کرتے ہوئے چھ سات ماہ ہی ہوئے تھے کہ اچانک خوشخبری ملی کہ ان کا سعودی عرب میںبلد الامین مکہ مکرمہ کی ام القری یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی تمام دوست و احباب کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگے۔ ہر طرف سے مبارک باد آنے لگی۔ سٹی اسکول کے اساتذہ بھی بہت خوش ہوئے۔ آپ نےحصول تعلیم کے لیے سٹی اسکول کو 15 مارچ 1993 میں خیر آباد کہہ دیا۔ اب آپ کے سعودیہ میں داخلہ ہونے کے راقم الحروف میں نے اینگلو اورینٹل اسکول اور دی سٹی اسکول میںآپ کی جگہ عربی اور اسلامیات کے استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ میرے لیے ان اسکولز میں کام کرنا تھوڑا سا مشکل تو ہوا کیونکہ شیخ صاحب جیسے قابل اور ذہین استاد کی جگہ کام کرنا آسان نہیں تھا۔ مگر شیخ طاہر آصف اور بعض دوسرے دوستوں کی رہنمائی اور تعاون سے میں نے اس مشکل پر قابو پالیا۔ شیخ صاحب سعودی عرب ام القری یونیورسٹی گئے اور اپنے والد محترم کو حج کیلئے بلایا۔ آپ کے والد محترم چند سال قبل قضائے الٰہی سے وفات پاگئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے، شیخ صاحب کو صبر جمیل عطا فرمائے اوراپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ (آمین)
ام القری یونیورسٹی سے فراغت کے بعد آپ واپس پاکستان جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں آئے۔ آپ نے اپنی معلمانہ سرگرمیوں کا دوبارہ سے آغاز جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی ذیلی درس گاہ دنبہ گوٹھ سپر ہائی وے میں بحیثیت انچارج کیا، جو کراچی سے چند میل کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ ذمہ داری آپ کیلئے ایک بڑا چیلنج تھی مگر آپ نے دن رات محنت کر کے وہاں کا نظام بہترین انداز مین سنبھالا اور حفظ و ناظرہ کی کلاسز کو یوں منظم کیا کہ رئیس الجامعۃ محترم جناب ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب نے بھی تعریف کی اور طلبہ کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ آپ وہاں پر زیادہ عرصہ کام نہ کر پائےتھے کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں استاد کی ضرورت کےپیش نظر آپ کو جامعہ میں ہی استاد مقرر کر دیاگیا۔
جامعہ میں بھی آپ نے دن یارات کو نظر انداز کرتے ہوئے سخت محنت کی اور طلبہ میں اپنےنام کی طرح مقبول ہوگئے۔ دوران تدریس آپ نے، ڈاکٹر راشد صاحب کےتعاون اوراساتذہ جامعہ کی کوششوں سے ایک ماہنامہ ’’مجلہ جامعہ ابی بکرالاسلامیہ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ جس کی بدولت آپ لوگوں کی نظروں میں الحمدللہ اچھی قدر سے پہنچانے جانے لگے۔ بعد میں رسالے کا نام تبدیل کرکے ’’اسوہ حسنہ‘‘ کر دیا گیا۔ رفتہ رفتہ میگزین نے اتنی ترقی کی کہ آج الحمدللہ اسوۃ حسنہ کے نام سے جامعہ سے شائع ہو کرنہ صرف پورے پاکستان بلکہ غیر ممالک میں بھی ارسال کیا جاتا ہے، جو کہ ماشاءاللہ آپ کی محنت کاثمرہے۔ گزشتہ سال آپ نے کراچی یونیورسٹی سے عربی زبان میں ’’رباعیات لامام البخاری من خلال کتابہ الجامع الصحیح‘‘ کے موضوع پر پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وقت حاضر میں آپ جامعہ میں تدریس کے ساتھ کراچی یونیورسٹی میں فل ٹائم لیکچرار کی حیثیت سے بھی کام کررہے ہیں۔ جامعہ میں درس و تدریس کے شعبے میں شیخ صاحب کا اہم مقام ہے۔ جامعہ میں گزشتہ سالوں سے اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں جناب شیخ ضیاء الرحمن، وکیل الجامعہ، مولانا عبدالطیف اور جناب شیخ صاحب پیش پیش ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے میرے محسن جناب ڈاکٹر شیخ مقبول احمد مکی صاحب کی عمر میں برکت عطا کرے اور دن رات محنت و لگن کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ درحقیقت میرے تمام دوست میرے محسن ہیں۔ چاہے وہ اسکول کے زمانے کے ہوں یا جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے زمانے کے ہوں۔ انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔ مجھے اس وقت تعلیم دی جب میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے میں نے دین و دنیا کی بھلائی سیکھی۔ (عربی میری مادری زبان نہیں ہے) جامعہ سے میں نے عربی زبان سیکھی۔ بے شمار معلومات اور عقل کی باتیں جامعہ نے مجھے سکھائیں درحقیقت جامعہ ابی بکر الاسلامیہ بھی میرے محسنین میں شامل ہے۔ یہ بات میں جناب مدیر الجامعہ یا وکیل الجامعہ کو خوش کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا ہوں۔ بلکہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ اور یہ داستان حیات کا کچھ حصہ اصل میں اپنے جیسے طلباءکومہمیزدینے کہ لیے ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کے اجر ضائع نہیں کرتا’’وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ‘‘ ترجمہ:اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیںہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے ۔
ہاں یہاں بہت سی وہ باتیں درج نہیں ہیں جن کا تعلق ہے ’’ قطرے پہ کیاگزرے ہے گہر ہونے تک‘‘
اپنے محسنین کے ساتھ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے لیے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں پاکستانی بچے کہ ان کے ملک میں ایک نامور دینی درس گاہ ہے جو صحیح معنوں میں تربیت اور رہنمائی کرتی ہے۔اللہ اسے مزید ترقی دے اور ہر شر سے محفوظ رکھے آمین۔