چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ
کتبہ:عبد الرحمن شاکربلوچ(متعلم جامعہ ہذا)
صححہ: محمد شریف بن علی (نائب مفتی جامعہ ہٰذا)
سوال :لےپالک بیٹے کی ولدیت تبدیل کرنے کے بارے میں شرعی حکم ؟
جواب:کسی بھی یتیم یا لاوارث کو پالناثواب ہے لیکن اس کی شناخت ختم کرنااور اسے اپنی طرف منسوب کرنا ناجائز اور حرام ہے اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک شناخت عطا کی ہے اس کی شناخت ختم کرنا اس کے ساتھ ظلم ہے اسی طرح جس کو بھی اللہ تعالی نے اولادعطا فرمائی ہے یہ اس کیلئے نعمت ہے اور کسی بھی بیٹے کا (اپنے باپ کی طرف نسبت )اپنے با پ کے علاو ہ کسی اور کی طرف ا پنی نسبت کرنا یہ اللہ تعالی کی نعمت کی نا شکری ہے ۔زمانہ جاہلیت سے یہ رسم چلی آرہی ہےکہ لوگ لے پالک بیٹے کو اپنی طرف منسوب کرتے تھے اسی طرح آغازاسلام میں بھی یہ حکم تھا کہ جس طرح سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کہا جاتا تھا لیکن اللہ تعالی نے اس نسبت کو ختم کردیا اور یہ حکم نازل فرمایا:
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ(الاحزاب 5)
لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا عدل وانصاف یہی ہے۔
یعنی سب سےبڑاعدل یہ کہ کسی کی شناخت کوختم نہ کیاجائے اور کسی اور کی نسبت سےنہ پکارا جائے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکے حقیقی باپ اگر معلوم نہ ہو توپھر انکو کس کی نسبت سے پکارا جائے اس آیت کے فورابعد اللہ تعالی نے اس مشکل کو بھی حل کردیا اور فرمایا
فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا (الأحزاب:5)
پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد نہیں بلکہ زید بن حارثہ کے نام سے پکارا جاتاتھا اسکے بعد نبی اکرم ﷺ نے بھی سیدنا زیدرضی اللہ عنہ کو بیٹا کہہ کر نہیں پکارا بلکہ آپﷺ نے فرمایا
أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا(بخاری ،کتاب المغازی باب عمرۃالقضاء4251)
’’ آپ ہمارے بھائی اور دوست ہیں ‘‘۔
اور جوشخص غلط انتساب کرتا ہے تووہ سخت گنہگارہے اللہ کے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے
وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلً(مسلم کتاب الحج باب تحريم تولي العتيق غير مواليه)
’’جس شخص نے اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی یاغلام نے اپنے مولی کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی اس پر اللہ تعالی فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی اور قیامت کے دن اس کی نہ نفلی عبادات قبول ہوگی نہ فرضی ۔
اسی طرح سیدناسعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا
مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ (بخاری کتاب الفرائض باب من ادعیٰ الی غیر ا بیہ حدیث6766)
جس نے اپنے آپ کو اپنے سگے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا اوروہ جانتا بھی ہے کہ وہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ كُفْرٌ(بخاری 6768کتاب الفرائض)
’’اپنے والدین کو چھوڑ کر اوروںکی طرف نسبت نہ کرو جس نے ایسا کیا تو اس نے کفر کیا‘‘ ۔
یعنی اللہ تعالی نے جو نسب آپ کو دیا اس سے راضی نہ ہونا کفران نعمت میں آجاتا ہے ۔ سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا
لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا ليْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ(مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من قال لأخیہ المسلم یا کافر 61)
جوشخص جانتے ہوئے بھی اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کی اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اور جس نے کسی ایسی قوم میں ہونے کا دعویٰ کیا جس قوم میں اس کانسب نہیں تووہ اپنا ٹھکانا جہنمبنالے ۔
ایک اور مسئلہ ہے جس کے باپ معلوم نہ ہو تو اسکو دوست یا بھائی کہہ کر پکارا جائے گا لیکن انکے کاغذات میں کیا لکھا جائے گا اسکے لیے (ابن ابیہ) لکھا جاسکتا ہے کیونکہ سلف سے کتب تاریخ ادب میں زیادہ ترابن ابیہ لکھا ہوا ملتا ہے۔مذکورہ احادیث مطہرہ میں شدید
بَاب مَنْ أَجَابَ الْفُتْيَا بِإِشَارَةِ الْيَدِ وَالرَّأْسِ
اس شخص کا بیان جو ہاتھ کے اشارے سے فتوی کا جواب دے
12-85- حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ وَالْفِتَنُ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْهَرْجُ فَقَالَ هَكَذَا بِيَدِهِ فَحَرَّفَهَا كَأَنَّه يُرِيدُ الْقَتْلَ .
مکی بن ابراہیم ،حنظلہ بن ابی سفیا ن،سالم ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آئندہ زمانے میں علم اٹھا لیا جائے گا اور جہل اور فتنے غالب آجائیں گے اور ہرج پھرعرض کیا یا رسول اللہ ہرج کیا ہے ؟آپﷺ نے ہاتھ سے تِرچھا اشارہ کر کے فرمایا اس طرح ،گویا آپ کی مراد (ہرج سے ) قتل تھی۔
معانی الکلمات :
یقبض :اٹھا لیا جائےگا ،
یظہر :ظاہر ہوگا
الفتن :فتنہ کی جمع
یکثر :کثرت ہو جائے گی
ھرج :فتنہ ،مراد قتل
ترا جم الرواہ:
1۔نام و نسب :مكي بن إبراهيم بن بشير بن فرقد
کنیت:ابو السکن
رتبہ :امام البخاری کے کبار شیوخ میں سے ہیں اور امام ترمذی ،امام ابو داؤد ،اور نسائی ان سے روایت کرتے ہیں ،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ہیں ۔
ولادت :126ہجری
وفات :214ہجری کو بلخ میں ہوئی ۔
2۔حنظلہ بن ابی سفیان بن عبد الرحمٰن بن صفوان بن امیہ بن خلف الحمحی المکی
عبدا للہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدامام احمد بن حنبل سے حنظلہ بن ابی سفیان کے بارےمیں پوچھا توا نہوں نے فرمایا ثقہ،ثقہ ۔
حنظلہ بن ابی سفیان کا رتبہ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ صحۃا ور امام الذھبی رحمہ اللہ کے ہاں الاثبات تھے۔اور کہا جاتا ہے کہ مکہ میں حدیث کے امام تھے ۔
وفات :حنظلہ بن ابی سفیان کی وفات 151ہجری میں ہوئی ۔
3۔نام و نسب :سالم بن عبد اللہ بن عمربن الخطاب القرشی العدوی المدنی الفقیہ
کنیت: ابو عمریا حفص، کہاجاتاہےکہ ابو عبداللہ یا ابو عبید اللہ
ولادت:سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میںآپ کی ولادت ہوئی ۔
وفات :106ہجری میں ہوئی ۔
تشریح گزشتہ حدیث میں ملاحظہ فرمائیں ۔
بَاب مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ الْإِمَامِ أَوِ الْمُحَدِّثِ
امام یا محدث کے پاس ( ادب سے) دو زانو بیٹھنے کا بیان
13-93- حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فَقَامَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ مَنْ أَبِي فَقَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا فَسَكَتَ
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انھیں انس بن مالک نے بتلایا کہ ( ایک دن) رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ﷺحضور میرا باپ کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : حذافہ پھر آپ ﷺ نے بار بار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد ﷺکے نبی ہونے پر راضی ہیں ( اور یہ جملہ ) تین مرتبہ ( دہرایا ) پھر ( یہ سن کر ) رسول اللہ ﷺخاموش ہو گئے۔
وروى بألفا ظ مختلفة وسندهما واحد أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ فَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا ثُمَّ قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ فَلَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا فَأَكْثَرَ النَّاسُ فِي الْبُكَاءِ وَأَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَقَامَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ فَقَالَ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ فَلَمْ أَرَ كَالْخَيْرِ وَالشَّرِّ(رقمه:540)
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے زہری کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب سورج ڈھلا تو نبی اکرمﷺ حجرہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر منبر پر تشریف لائے۔ اور قیامت کا ذکر فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں بڑے عظیم امور پیش آئیں گے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔ کیونکہ جب تک میں اس جگہ پر ہوں تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے۔ میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ لوگ بہت زیادہ رونے لگے۔ آپ ﷺ برابر فرماتے جاتے تھے کہ جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ سہمی کھڑے ہوئے اور دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے باپ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ حذافہ تھے۔ آپ اب بھی برابر فرما رہے تھے کہ پوچھو کیا پوچھتے ہو۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ ادب سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمدکے نبی ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔ ( پس اس گستاخی سے ہم باز آتے ہیں کہ آپ سے جا اور بے جا سوالات کریں ) اس پررسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابھی ابھی میرے سامنے جنت اور جہنم اس دیوار کے کونے میں پیش کی گئی تھی۔ پس میں نے نہ ایسی کوئی عمدہ چیز دیکھی ( جیسی جنت تھی ) اور نہ کوئی ایسی بری چیز دیکھی ( جیسی دوزخ تھی)۔
وروى بسند آخرحدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ صَلَّى لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ فَأَشَارَ بِيَدَيْهِ قِبَلَ قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ الْآنَ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَكُمُ الصَّلَاةَ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مُمَثَّلَتَيْنِ فِي قِبْلَةِ هَذَا الْجِدَارِ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ ثَلَاثًا ( رقمه : 749 )
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے قبلہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابھی جب میں نماز پڑھا رہا تھا تو جنت اور دوزخ کو اس دیوار پر دیکھا۔ اس کی تصویریں اس دیوار میں قبلہ کی طرف نمودار ہوئیں تو میں نے آج کی طرح خیر اور شر کبھی نہیں دیکھی۔ آپ نے قول مذکور تین بار فرمایا۔
وروى بسند آخرحدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِي اللَّه عَنْه سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ الْمَسْأَلَةَ فَغَضِبَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي الْيَوْمَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ يَمِينًا وَشِمَالًا فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي فَإِذَا رَجُلٌ كَانَ إِذَا لَاحَى الرِّجَالَ يُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبِي قَالَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَيْتُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَالْيَوْمِ قَطُّ إِنَّهُ صُوِّرَتْ لِيَ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَتَّى رَأَيْتُهُمَا وَرَاءَ الْحَائِطِ وَكَانَ قَتَادَةُ يَذْكُرُ عِنْدَ هَذَا الْحَدِيثِ هَذِهِ الْآيَةَ ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) (رقمه:6362)
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہاہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ کئے تو رسول اللہﷺ کو ناگواری ہوئی ، پھر آپﷺ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا ، آج تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں بتاؤںگا ۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ سراپنے کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رورہے تھے ، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف ( طعنہ کے طورپر ) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے باپ کون ہیں؟رسول اللہﷺنے فرمایا کہ حذافہ ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا ہم اللہ سے راضی ہیں کہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے ، محمدﷺ سے کہ وہ سچے رسول ہیں ، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، آج کی طرح خیروشر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا ، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا ۔ قتادہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت سورۃ مائدہ کی ) اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے ” اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق نہ سوال کرو کہ اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہرہوجائے تو تم کو برالگے۔ “
سیدناعمررضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ رب، اسلام کو دین اورمحمدؐ کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انھوںنے آپ سے اپنی تشفی حاصل کرلی۔سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دوزانو ہوکر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اورثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، سیدنا عمر رضی اللہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپﷺ کا غصہ جاتا رہا اور آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔
اس حدیث میں کچھ سوال وجواب کا بھی ذکر ہے۔ آپ ﷺکو خبر لگی تھی کہ منافق لوگ امتحان کے طور پر آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لیے آپﷺ کو غصہ آیا اورفرمایا کہ جو تم چاہو مجھ سے پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اورکا بیٹا کہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے تحقیق چاہی اورآپﷺکے جواب سے خوش ہوئے۔ لوگ آپ کی خفگی دیکھ کر خوف سے رونے لگے کہ اب اللہ عذاب آئے گا یا جنت ودوزخ کا ذکر سن کر رونے لگے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے آپ کا غصہ معلوم کرکے وہ الفاظ کہے جن سے آپ کا غصہ جاتا رہا۔
اس شخص کا بیان جو کوئی بات سنے اور اس کو نہ سمجھ نہ سکے پھر اسکے بارے میںدوبارہ پوچھے یہاں تک سمجھ لے
14-103- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ أَوَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى(فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا) قَالَتْ فَقَالَ إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَهْلِكْ .
سعید بن ابی مریم، نافع ابن عمر، ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی زوجہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جببھی ایسی بات کو سنتیں جس کو نہسمجھ نہ پاتیںتو پھر دوبارہ اس میں تفتیش کرتیں، تاکہ اس کو سمجھ لیں۔چنانچہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺنے فرمایا (قیامت میں) جس کا حساب لیا گیا اس پر (ضرور) عذاب کیا جائے گا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (یہ سن کر) میں نے کہا کہ اللہ پاک تو یہ فرماتا ہے کہ پس عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا (معلوم ہوا کہ حساب کے بعد عذاب کچھ ضروری نہیں) آپ نے فرمایا یہ حساب جس کا ذکر اس آیت میں ہے درحقیقت حساب نہیں بلکہ صرف پیش کردینا ہے لیکن جس شخص سے حساب میں جانچ کی گئی وہ یقینا ہلاک ہوگا۔
Ibn Abu Mulaika: Whenever Aisha (the wife of the Prophet) heard anything which she did not understand, she used to ask again till she understood it completely. Aisha said:Once the Prophet said "Whoever will be called to account (about his deeds on the Day of Resurrection) will surely be punished. I said Doesn't Allah say: He surely will receive an easy reckoning. The Prophet replied "This means only the presentation of the accounts but whoever will be argued about his account, will certainly be ruined.
وروى بسندآخر حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ قَالَتْ قُلْتُ أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى ( فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا) قَالَ ذَلِكِ الْعَرْضُ
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَتَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمٍ وَأَيُّوبُ وَصَالِحُ بْنُ رُسْتُمٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (وله متابعة رقمه:6536)
شرح الکلمات :
رَاجَعَتْ : مراجع یعنی دوبارہ سوال کرتی
حُوسِبَ : سوال وجواب کے ساتھ حساب لیاگیا
يَسِيرًا : آسان حساب
الْعَرْضُ : صرف حساب کے لیے بلایاگیا بغیر سوال وجواب
نُوقِشَ : سوال وجواب کیے گئے۔
يَهْلِكْ : ہلاک ہوجائے گا۔
تراجم الرواۃ :
1۔نام ونسب :سعید بن الحکم بن محمدبن سالم المعروف ابن ابی مریم الجمحی
کنیت:ابو محمد المصری
محدثین کے ہاں رتبہ :ابن ابی مریم امام نافع بن عمر الجمحی اور امام مالک اور امام اللیث رحمہم اللہ کےشاگرد تھے ۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت اور فقیہ تھے اورامام الذہبی رحمہ اللہ کےہاں الحافظ اورامام ابو حاتم رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
ولادت:امام ابن ابی مریم کی ولادت 144ھ میں ہوئی اور وفات ربیع الثانی 224ھ میں ہوئی۔
2۔ نام ونسب :نافع بن عمر بن عبد اللہ بن جمیل بن حذیم القرشی الجمحی المکی
محدثین کے ہاں رتبہ :نافع بن عمر کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثقہ ثبت ،صحیح الحدیث تھے۔
امام ابن معین اورامام النسائی رحمہم اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتےہیںکہ میں نے اپنے والد محترم سےان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا وہ ثقہ تھے ۔
وفات:169ھ کو مکہ المکرمہ میں وفات پائی۔
3۔نام ونسب :ابن ابی ملیکۃ کا اصل نام عبد اللہ بن عبید اللہ ابن ابی ملیکۃ زھیر بن عبد اللہ بن جدعان بن عمرو القرشی التیمی المکی القاضی
کنیت: ابو بکر بعض کہتے ہیں کہ ابو محمد تھی۔
محدثین کے ہاں رتبہ : ابن ابی ملیکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے مکہ المکرمہ کے قاضی تھے اور حرم مکی کے مؤذن تھے۔
تیس کے قریب صحابہ کرام سے ملاقات ثابت ہے اور ان میں سے بعض سے حدیث بھی روایت کرتے ہیں مثلاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہااور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر ، سیدنا عبد اللہ بن عباس ،سیدنا عبداللہ بن عمر،سیدنا عبداللہ بن عمرو اور ابی محذورہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ اور ابو حاتم رحمہ اللہ نے ثقہ کہاہے اور امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ فقیہ تھے ۔
ولادت : ابن ابی ملکیہ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ولادت ہوئی اور 117ھ کو وفات پائی۔
4۔نام و نسب :
عائشہ بنت ابو بکر صدیق بن ابی قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن بن فہر بن مالک
کنیت:ام عبداللہ۔ لقب:حمیرا ،صدیقہ۔
ولادت: ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے یعنی9 شوال قبل ہجرت۔ہجرت سے 3برس پہلے 6سال کی عمر میں یعنی ربیع الاول 11ھ میں بیوہ ہوئیں۔
مناقب:صحیح بخاری میں سیدناابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مردوں میں سے تو بہت تکمیل کے درجے کو پہنچے مگر عورتوں میں صرف مریم دختر عمران، آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل پر پہنچی اور عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنت صدیق کی دیگر ازواج مطہرات پر فضیلت:
1نبی کریم ﷺ نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔
2میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
3اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
4نبی رحمت ﷺ کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
5میں اور نبی اکرم ﷺایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔
6میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔
7آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی، اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔
8نبی اکرم ﷺکی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی (جب رسول اللہ ﷺکا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔
9نبی کریم ﷺمیری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔
0نبی معظم ﷺمیرے حجرے میں مدفون ہوئے۔
وفات:رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان المبارک 58 ہجری میں وفات پائی۔
تشریح :
اس حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے شوق علم اور سمجھ داری کا ذکر ہے کہ جس مسئلہ میں انھیں الجھن ہوتی، اس کے بارے میں وہ رسول اللہ ﷺسے بے تکلف دوبارہ دریافت کرلیاکرتی تھیں۔ اللہ کے یہاں پیشی تو سب کی ہوگی، مگر حساب فہمی جس کی شروع ہوگئی وہ ضرور گرفت میں آجائے گی۔ حدیث سے ظاہر ہوا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توشاگرد استاد سے دوبارہ سہ بارہ پوچھ لے، مگرکٹ حجتی کے لیے باربار غلط سوالات کرنے سے ممانعت آئی ہےجیسا فرمان نبوی ﷺ ہے :
إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ (صحیح البخاری1477)
’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتابلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی ،لوگوں سے بہت مانگنا۔‘‘
فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے اس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔