کفار کی فطرت ہوتی ہےکہ ان کی طبیعت میں منافرانہ بےچینی اور رُوح میں حاسدانہ بے قراری پائی جاتی ہے۔ جیسے کسی شخص کو خارش کی بیماری ہو اور اسے اسی میں لذت ملے، چاہے اس کا اپنا جسم ہی کیوں نہ خراش زدہ ہوجائے۔

ان کی نفرتوں کے انداز و اَطواراور اَہداف تبدیل ہوتے رہتے ہیں، کبھی قرآن، کبھی صاحب ِ قرآن، کبھی اسلام، کبھی داڑھی، کبھی پردہ، کبھی مسلمان ۔ اور اب کعبۃ اللہ !

اور اب تو دنیا ئے کفر اپنی تباہی کا سیاہ باب کھولنے کو ہے۔ شدیدتر حیرانی کی بات ہے کہ عالم کفر کو ’’اَبرہہ‘‘ کے ہاتھیوں کی تباہی کیوں کر فراموش ہوگئی؟

یا پھر کہا جائے کہ گیڈر کو اس کی موت شہر لے آئی ہے؟ یہودیت ازل سے ہی مدینہ پر قبضے کے خواب دیکھ رہی ہے، مگرحیران ہوجائیں کہ ساڑھے چودہ سو برس گزر جانے کے باوجود اپنے تمام تر مکر و فریب اور دجل کے وہ کامیاب نہ ہوسکے اور نہ ہی قیامت تک ہوسکتے ہیں،ان شاء اللہ۔ لہٰذا اب انہوں نے پینترا بدل کر نشانہ بیت اللہ پر رکھ لیا ہے۔

اللہ رب العزت نے بیت اللہ کو بہت ہی عظمت و رفعت اور اعلیٰ مقام کا حامل بنایا ہے۔ یہ کائنات میں اللہ کا سب سے پہلا گھر ہے جو اللہ نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلاماور ان کے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلامکے ذریعہ ہزارہا برس قبل تعمیر کروایا، مگر صد افسوس کہ لوگ اپنی طبعی بدبختی کی بدولت‘ بجائے اس کے کہ اس کے حقیقی مقام کو سمجھتے‘ اس کو ڈھانےاور اس پر حملے جیسے ناپاک ارادوں کے ساتھ ٹوٹ پڑے۔

اگر ہم تاریخ کا ابتداء سے انتہاء مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بیت اللہ الحرام‘ اللہ احکم الحاکمین کا صرف گھر ہی نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کا سب سے بڑا مذہبی مرکز بھی ہے۔ دین ابراہیمی سے لیکر اسلام تک ‘ جس مذہب کو بھی اس بیت اللہ سے نسبت رہی ہے، وہی دنیا کا سرِ خیل مذہب رہا ہے۔

ہم ان شاء اللہ بالترتیب ان تمام واقعات اور ان کے محرکات کو ‘ جو اس کے وقوع کا سبب بنے تھے‘ تفصیل سے بیان کریں گے۔

سب سے پہلے مکہ پر حملے کی کوشش یمن کے ایک بدبخت ’’حسان بن عبد الکلال بن ذي حدث الحمیری‘‘ نے کی۔ اس کوڑھ مغز نے یمن کے بعض قبائل کو ساتھ ملایا اور ایک بڑا لشکر تیار کیا۔ یہ تاریخ کی سب سے پہلی کوشش تھی‘ جو کعبۃ اللہ اور حجر اَسود کو اُکھاڑکر یمن لے جانے کےلئے کی گئی، تاکہ لوگ یمن میں ہی بیت اللہ کا حج کریں، مگر اس شخص کو لوگوں کی حرم سے شدید محبت کے باوصف حدودِ حرم میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی، جس کی وجہ سے اس نے اپنا غصہ حرم سے باہر مکہ کے لوگوں کو لوٹنے کی صورت میں نکالا۔ آخرکار جب اس کی چیرہ دستیاں حد سے تجاوز کرگئیں تو اللہ کے حبیبﷺ کے دادا ’’فهر بن مالک ‘‘ نے عرب کے لوگوں کا ایک لشکر تیار کرکے اس سے شدید لڑائی کی اور اسے شکست دے کر قید کرلیا۔ تین سال کے بعد جب ’’حسان الحمیری‘‘ فدیہ دے کر مکہ سے اپنے علاقے یمن کی طرف نکلا تو راستے میں ہی اس کی موت آگئی۔ اور یوں اللہ کے گھر کو ڈھانے کی نیت سے آنے والا زندہ اپنے گھر نہ لوٹ سکا۔ (تاریخ الطبری: 2/263)

کعبۃ اللہ پر حملے کا دوسرا واقعہ وہی ہے کہ جو قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی سورۃ الفیل میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ابرہہ کی کعبۃ اللہ پر لشکر کشی کا واقعہ!

’’ابرہہ ‘‘ بھی ایک عیسائی یمنی حکمران تھا، اگرچہ اپنے ساتھی کو قتل کرکے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوا تھا، مگر چوںکہ مقتول بادشاہ کا قریبی تھا، لہٰذا اس نے بادشاہ کو خوش کرنے کیلئے یمن میں کعبۃ اللہ کے مقابلے پر ایک بہت بڑا کلیسا بنانے کا اعلان کیا اور اس کی تعمیر شروع کردی۔ ’’القلیس‘‘ کے نام سے جب وہ کلیسا مکمل تعمیر ہوگیا تو اس نے عرب و عجم میں اعلان کردیا کہ اب بیت اللہ کے طواف اور حج کے بجائے اس کلیسا کا طواف اور حج کیا جائے گا، مگر جب عربوں نے یہ بات نہ مانی اور بیت اللہ سے ہی منسلک رہے تو اسے یہ بات بہت ناگوار گذری۔ لہٰذا اس نے جواز تلاش کرنا شروع کردیا کہ کعبہ کوکیونکر ختم کیا جائے؟ اسی دوران ایک یمنی عرب نے اس کے حکم کو ناپسند کرتے ہوئے اس کے کلیسا میں جاکر غلاظت کردی، جس کے جواب میں اس نے مکہ پر چڑھائی کردی۔

کعبہ کو ڈھانے کیلئے اس نے ایک لشکر جرار تیار کیا، جس میں سینکڑوں ہاتھی تھے۔ اور سواروں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اور یہ اس دور کی پہلی جنگ تھی جس میں ہاتھی کا باقاعدہ استعمال کیا گیا تھا۔

ابرہہ جب مکہ میں داخل ہوا تو اس نے مکہ والوں کے مال و مویشی بھی لوٹ لئے تھے، جن میں رسولِ اکرمعلیہ السلام كے دادا عبدالمطلب كے دو سو اونٹ بھی شامل تھے۔ جب عبدالمطلب کو سردارِ مکہ کی حیثیت سے ابرہہ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو بجائے اس کے کہ وہ اس سے مکہ اور بیت اللہ کی سلامتی کی بات کرتے، انہوں نے صرف اپنے دوسو اونٹوں کو چھوڑنے کی ہی بات کی۔ ابرہہ نے جب تعجب سے پوچھا کہ بیت اللہ کی بات کیوں نہیں کررہے تو کہا کہ میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں، لہٰذا صرف اسی کی بات کروںگا۔ بیت اللہ کا مالک خود اس کی حفاظت کرلے گا۔

پھر عبدالمطلب اور دیگر اہل مکہ نے دیکھا کہ ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ساتھ کعبہ کو منہدم کر نے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ پہاڑوں پر چڑھ کر اللہ سے اپنے گھر کی حفاظت کی دعائیں مانگنے لگے۔ اور یہ اشعار پڑھنے لگے:

لا هم إن العبد يمنع
رحله فامنع رحالك
لا يغلبن صليبهم
ومحالهم غدوا محالك
إن كنت تاركهم و
قبلتنا فأمر ما بدا لك

اسی دوران اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابابیل پرندوں کے جھنڈ نمودار فرمائے۔ جو دیکھتےہی دیکھتے آسمان پر چھاگئے۔ ان کے پیروں میں تین تین چھوٹے چھوٹے کنکر دبے ہوئے تھے جو وہ ہاتھیوں اور ان کے سواروں پر برسا رہے تھے۔ وہ پتھر ان کے جسم سے آرپار ہوجاتے اور جسم کا ایک ایک عضو ٹوٹ کر گرنے لگتا۔ ابرہہ کو بھی جب وہ کنکر لگا تو وہ بھی اپنی لشکر کے ساتھ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا ، اس کاجسم بھی ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگا، حتیٰ کہ جب وہ صنعا پہنچا تو اس کی شکل چوزے جیسی اور سینہ پھٹ چکا تھا۔ اسی حال میں وہ اپنے انجام کو پہنچا۔ (البدایہ والنہایہ: 2/171)

یہاں یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ ان دونوں یمنی حکمرانوں نے کعبۃ اللہ پر حملے کی کوشش کیوں کی؟

اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں: مذہبی اَجارہ داری ۔ وہ دونوں کعبہ سے اس کی مذہبی سربرآوری، عظمت اور شان و شوکت چھین کر یہی مقام اپنے کلیساؤں اور گرجوں کو دلانا چاہتے تھے۔

آج عین یہی کام امریکہ اور اسرائل کی مدد سے ایران کرناچاہتا ہے۔ اس نے حرمین کے مقابلے پر کربلا کو کھڑا کیا ہوا ہے۔اور وہ چاہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کی توجہ ان مقاماتِ مقدسہ سے ہٹا کر کربلا کو ان کا مذہبی شہر بنا دیا جائے، تاکہ ایران کو مسلمانوں میں سعودیہ عربیہ والا مقام حاصل ہوجائے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جہاں یہ مقاماتِ مقدسہ ہوںگے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت و جلالت ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کی مقامی حکومت کا احترام بھی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کو مسلمانوں کے دل میں پیدا ہونے والی سعودیہ عربیہ کی قدرتی محبت پسند نہیں ہےاور وہ اسے اپنے ہاں منتقل کرنا چاہتا ہے۔

دوسری وجہ اقتصادی اور معاشی ہے۔ یہ بھی ایک لازمی قدرتی امر ہے کہ جہاں لوگوں کا ہجوم ہوگا، وہاں کاروبار ضرور ہوگا۔ اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ آمد و رفت اور ہجوم والی جگہیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں، لہٰذا یہ امر یقینی ہے کہ دنیا کے باقی دیگر شہروں کے مقابلے پر ان شہروں کی معیشت سب سے زیادہ مستحکم ہو اور ان شہروں کی وجہ سے اس ملک کی معیشت بھی مستحکم ہو جس میں یہ شہر موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے سعودی بادشاہوں نے حرمین شریفین کی تعمیر و خدمت کا کام شروع کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے تحاشہ نوازنا شروع کردیا ہے اور سعودیہ کی معیشت ہر دم مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ بات بھی واضح رہے کہ سعودیہ دنیا کے ان چند منتخب ممالک میں سے ہے جو ورلڈ بینک اور امریکہ کو قرضہ دیتے ہیں، حالانکہ دنیا کے باقی تمام ممالک ان دونوں سے قرضہ لیتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اسے اسلامی غیرت و حمیت بھی خوب عطا فرمائی ہوئی ہے۔ آلِ سعود اور تمام باشندگانِ سعودیہ نہ صرف مالی اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہیں، بلکہ اپنے منہج کے اعتبار سے بھی بہت پختہ اور راسخ ہیں۔ بہت مرتبہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ جب بھی اسلام یا امریکہ میں کسی ایک کے انتخاب کا وقت آیا تو انہوں نے برملا اور علی الاعلان اسلام کو ہی منتخب کیا ہے اور امریکہ کو رَد کیا ہے، حتیٰ کہ کسی بھی موقع پر انہوں نے اپنے سلفی منہج کو بھی داغدار نہیں کیا اور وہ موقع بہ موقع اس کا کھلے بندوں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اگر حقائق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس وقت پورے عالم اسلام میں ایک سعودیہ عربیہ ہی وہ واحد ملک ہے جو امریکہ کے خلاف کھل کر کوئی بات کہہ سکتا یا کوئی کام کرسکتا ہے۔ ورنہ ہر کوئی اس سے ڈرا ہوا اور دبا ہوا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے آپ کو پاکستان کا ’’بہادر کمانڈر‘‘ کہلانے والا ایک فوجی لیڈر، پرویز مشرف جیسا شخص بھی محض ایک امریکی فون کال پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ سعودیہ اس طرح اپنا اسلامی کردار نبھاتا رہے اور اس کی معیشت اسی طرح مضبوط رہے۔ وہ یہ کردار بھی اپنے تاریخی وفادار، ایران کو دے کر اس کو بہت بڑا معاشی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔

ایران کی اپنی کوئی پاور نہیں ہے۔ نہ ہی اس کی کوئی باقاعدہ معیشت ہے۔ ایران کی تمام تر اچھل کود صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کی مرہونِ منت ہے۔ ایران تو اکیلے صدام حسین کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتا تھا، سعودیہ کا مقابلہ کیسے کرے گا؟ جب تک امریکہ نے صدام حسین کو جھوٹے الزامات میں پھانسی نہ دےدی، ایران کو جرأت ہی نہ تھی کہ عراق پر فوج کشی کرسکے۔ شام میں فسادات کا راستہ بھی اسے امریکہ و اسرائیل نے ہی دیا اور اب یمن بھی انہی کی سازشوں کا مرکز ہے۔ ایران درحقیقت امریکی اور اسرائیلی بل بوتے پر دنیا کے بڑے ممالک پر اپنی سیاسی و مذہبی اور معاشی اجارہ داری چاہتا ہے‘ جو سعودیہ اور پاکستان کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے۔

سعودیہ کی موجودگی میں اس لئے کہ وہ مسلمانوں کو نظریاتی اور معاشی محافظ ہے۔ اور پاکستان کی موجودگی میں اس لئے کہ وہ مسلمانوں کا جغرافیائی اور عسکری محافظ ہے؛ لہٰذا ایران کی جنگ صرف سعودیہ سے ہی نہیں، بلکہ سعودیہ اور پاکستان، دونوں سے ہے۔ اس لئے کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ سعودیہ اور پاکستان کی دوستی یک جان و دو قالب کی مانند ہے۔ جب تک دونوں ساتھ ہیں، مسلمان دنیا میں محفوظ ہیں۔ خدانخواستہ میں ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی کچھ ہوا تو مسلمانوں کا اس سے بڑا تاریخی نقصان کبھی تصور نہ کیا جاسکےگا۔

پوری امریکی، اسرائیلی اور ایرانی لابی اس بات پر سرگرم ہے کہ کسی بھی طرح سعودیہ اور پاکستان میں دشمنی یا کم از کم بداعتمادی اور نفرت کی فضا پیدا کردی جائے، تاکہ تنہا تنہا پھر دونوں کا شکار کرنا آسان ہوجائے اور وہ اپنے مقصد میں پاکستانی پارلیمنٹ کی موجودہ قرارداد کے ذریعہ شاید کامیاب ہوبھی جاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کے مکر کو ان کے منہ پر ہی پھیر دیا اور وہ اپنی سازشوں میں بھرپور ذلیل ہوگئے۔ اور پاک سعودی دوستی تھوڑے سے دباؤ کا شکار ضرور رہی، مگر اس سے اللہ تعالیٰ نے اور زیادہ محبتوں کو پروان چڑھا دیا۔

اس وقت ایران کی حالت اس پاگل کتے جیسی ہے ‘ جو اپنے چند ساتھیوں کو اپنے ساتھ محسوس کر کے ہر آنے جانے والے پر بھونکتا رہتا ہے، مگر جیسے ہی کوئی شخص اسے مارنے کیلئے ہاتھ میں پتھر اٹھاتا ہے تو اپنے تمام دوستوں کے ساتھ دُم دبا کر بھاگ جاتا ہے اور پھر دور جاکر وہیں کھڑا کھڑا بھونکتا ہے۔

کبھی ایران کا کوئی کمانڈر سعودیہ پر حملے کی دھمکی دیتا ہے، کبھی حزب الشیطان کا لیڈر حرمین پر حملے کی دھمکی دیتا ہے، کبھی کوئی ایرانی وزیر کعبہ کو ڈھانے کی بات کرتا ہے اور کبھی یمن یا شام میں موجود کوئی ایرانی فسادی حرمین پر قبضے کی گیڈرپھبتی کستا ہے۔ ان کی ان تمام باتوں کی حیثیت ’’ذالک قولھم بافواھھم‘‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس وقت حوثی زیدی شیعہ ایک مہرہ ہیں، بساط ایران کی ہے اور کھیلنے والے امریکہ اور اسرائیل ہیں۔

بیت اللہ الحرام پر تیسرا حملہ قرامطہ نے کیا‘ جو شیعہ کے اسماعیلی باطنی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا بانی حمدان قرامطی تھا۔ اس کے ایک راہنما ابو سعيد الجنابى یا ابو طاہر الجنابی نے سنہ 317 ھ، بمطابق 930ء کو حج کے موقع پر مسلمانوں پر حملہ کیا اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرکے زم زم کے کنویں کو ان کی لاشوں سے پاٹ دیا اور کعبۃ اللہ سے حجر اَسود کو اکھاڑ کر بحرین لے گیا اور اعلان کرگیا کہ آئندہ حج وہیں ہوا کرے گا۔ انہوں نے کلمہ میں ’’اشھد ان احمد بن محمد بن الحنفیۃ رسول اللہ‘‘ کے کلمات کا اضافہ کیا۔ ان کے نزدیک دن رات میں کل چار رکعات نماز فرض تھی، دو رکعات صبح کی اور دو رکعات سورج غروب ہونے کے بعد کی۔ اس نے قبلہ بیت المقدس کو بنایا۔ اس نے سال میں صرف دو روزے فرض کئے، ایک مہرجان کے دن کا اور دوسرا نوروز کا۔ اس کے نزدیک نبیذ حرام اور شراب حلال تھی۔ غسل جنابت مفقود تھا، صرف نماز کا وضو ہی کافی تھا۔ جو اس سے لڑے اس کو قتل کرنا واجب سمجھتا تھا اور جو بغیر لڑے صرف مخالفت کرے اس سے ٹیکس لیتا تھا۔ آخرش شریف ِمکہ کے لشکر کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ (تاریخ الطبری:10/26/ 11/119/البدایہ النہایہ: 11/182)

ان تین بڑے تاریخی پس منظر رکھنے والے حملوں کے علاوہ حرمین پر باقی چھوٹے حملے بھی ہوئے جن میں کعبۃ اللہ کو جزوقتی نقصان بھی پہنچا۔ ان میں سے ایک حجاج بن یوسف کا عبداللہ ابن ز بیرضی اللہ عنہ پر 72 ؁ھ کا حملہ ہے۔ جب عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے عبدالملک بن مروان کی بیعت کرنےسے انکار دیا اور مکہ میں اپنی حکومت کا اعلان کرکے لوگوں سے اپنی بیعت لینا شروع کردی تو عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو مکہ بھیجا کہ عبداللہ بن زبیر کو گرفتار کرکے لاؤ۔ حجاج بن یوسف نے پندرہ سو سواروں کے ساتھ مکہ پہنچتے ہی طائف کے مقام پر پر پڑاؤ ڈال دیا اور حج کے ختم ہوتے ہی کعبۃ اللہ پر منجیقوں سے پتھر برسانا شروع کردیا، اس دن تیز ہوا چل رہی تھی، کہیں سے آگ کسی خیمے کی اڑتی ہوئی آئی اور غلافِ کعبہ تک پہنچ گئی، جسکے نتیجے میں کعبۃ اللہ کو آگ لگ گئی، جبکہ پتھراؤ کی وجہ سے کئی صحابہ و مسلمان زخمی ہوگئے اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ عبداللہ بن صفوان اور عمارۃ بن عمرو بن حزم اس واقعہ میں شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد حجاج نے ان کے سر کاٹ کر مدینہ روانہ کردیئے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے انہیں ایک شاہراہِ عام پر لٹکا دیا گیا۔ پھر وہ سر عبدالملک بن مروان کی طرف روانہ کردیئے گئے۔

عبداللہ بن زبیر اور ان کے رفقاء کو پیر کے دن 17 جمادی الاولیٰ سنہ 72 ھ کو شہید کیا گیا۔ (المحن: 1/211)

حرم مکہ پر پانچواں حملہ نومبر اور دسمبر 1979ء کوہوا۔ جب باغیوں نے مسجد الحرام سے آلِ سعود کی حکومت ختم کرنے کے لئے مقدس ترین مسجد پر حملہ کیا۔ حج کے دوران دہشت گردوں نے اپنے ایک ساتھی محمد عبداللہ القحطانی کو آخری زمانے کا ’’امام مہدی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ تمام مسلمان اس شخص پیروی کریں۔

اس افسوسناک واقعے نے کروڑوں مسلمانوں کے دل اور جذبات مجروح کر دیئے۔ یہ جنگ دو ہفتوں تک جاری رہی، بالآخر دہشت گردوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کردیا گیا اور پھر جہیمان العتیبی اوراس کے 60 ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔

اس دہشت گرد گروہ کی قیادت’’ جہیمان العتیبی‘‘ کر رہا تھا، جہیمان‘ نجد کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اپنے رشتہ دار کو امام مہدی قرار دیا۔ جہیمان اس سے پہلے سعودی قومی گارڈ کا بھی حصہ رہا تھا، اس کا والد بھی آلِ سعود کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس شخص نے 1400 ہجری، محرم کے مہینے میں حملہ کیا۔ جہیمان ایک وقت میں سعودی مفتی اعظم کا شاگرد بھی رہ چکا تھا۔

حملہ کرنے سے پہلے تمام باغیوں کو بڑی اچھی طرح تیار کیا گیا تھا اور چونکہ باغیوں کا قائد جہیمان پہلے سعودی فوج میں بھی رہا تھا تو اس کو اکثر جگہوں کا پتہ تھا، اسلحہ بھی سعودی افواج کے گوداموں سے چرایا گیا اور مسجد الحرام کے نیچے کمروں میں رکھا گیا ۔ پھر جب فریقین میں جنگ چھڑی تو اسلحہ کو استعمال کیا گیا۔

مسجد الحرام کو باغیوں سے چھڑانے میں پاک فوج کا بھی کردار قابل ذکر ہے۔ اس دو ہفتہ مسلسل جاری جنگ کے بعد بالآخر مسجد الحرام کو باغیوں سے چھڑا لیا گیا۔ جہیمان العتیبی اور ساتھیوں کو چھ جرموں کے ارتکاب پر سعودی قاضیوں نے سزائے موت دی۔وہ جرم یہ ہیں:

z مسجد الحرام کا تقدس پامال کرنا۔

z ناحق مسلمانوں کا قتل۔

z حاکمِ وقت کی نافرمانی۔

z مسجد الحرام میں نماز کے ادائیگی کو روکا۔

z امام مہدی کی پہچان کے متعلق جھوٹ۔

z معصوم مسلمانوں کو غلط کام کے لئے استعمال کرنا۔

اس کے علاوہ کعبۃ اللہ پر چھٹا حملہ سنہ 1987 ء کو بدبخت شیعہ کی طرف سے حاجیوں کی آڑ میں خانۂ کعبہ پر کیا گیا۔ یہاں پر بھی شیعہ نے اپنے اسلاف یعنی قرامطہ کی روشِ بد کو زندہ کیا اور سینکڑوں مسلمانوں کو ناحق قتل کیا کردیا۔ اور کعبۃ اللہ کے اطراف میں آگ لگادی گئی۔ شیعہ قاتلین جو کہ حاجیوں کے روپ میں آئے تھے، اپنے ساتھ بڑے چاقو، چھرے، خنجر اور بڑی تعداد میں آتشگیر مادہ ساتھ لیکر آئے تھے، انہوں نے مکہ معظمہ پہنچ کر خوب اپنے خبث باطن کا ثبوت دیا اور کعبۃ اللہ کے اندر اور باہر بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ان ملاعنہ کے سرغنہ کو جب گرفتار کیا گیا تو اس نے دورانِ تفتیش یہ انکشاف کیا کہ اسے ایران کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی تھی کہ حرم میں فساد برپا کیا جائے اور پھر کعبۃ اللہ کو جلا کر راکھ کر دیا جائے۔ العیاذ باللہ۔

یہ اب تک کہ وہ تمام حملے ہیں جو مختلف بدبختوں اور ان کے رؤسا کی طرف سے کعبۃ اللہ پر کئے گئے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے ہمیشہ اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور یہ گھر قیامت تک باقی رہےگا، البتہ قربِ قیامت جب تمام اہل ایمان فوت ہوجائیں گے اور دنیا میں صرف فاسق اور بدبخت ہی رہ جائیں گے تو کعبۃ اللہ کو منہدم کردیا جائے گا۔

نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:

’’دو چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی کعبہ کو منہدم کردے گا۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب کتاب الحج، باب ھدم الکعبۃ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے