گذشتہ چند برسوں سے وطن عزیز میں جس انداز سے مغربی تہواروں کو متعارف کرانے کی کوششیںہورہی ہیں وہ محبّانِ وطن کے لیے کرب ناک ہی نہیں بلکہ اسلامی معاشرتی اقدار کے لیے انتہائی خطر ناک بھی ہیں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وطن عزیز کو تباہی کے غار میں دھکیلا جارہاہے۔
ان تہواروں پر جو طریقۂ کار اپنایا جاتاہے اسے نہ ہی تو اسلام گوارہ کرتاہے اور نہ ہی پاکستانی تہذیب وتمدن میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ معاشرہ کا بے دین اور بے حمیت طبقۂ ثقافت، تفریح،قومی تہوار اور Inter National day کے نام پر لبرل ازم کے فروغ میں کوشاں ہے۔ وہ سیدھے سادھے لوگوں کے دل ودماغ میں یہ فکر پروان چڑھانے کی سر توڑ کوشش میں ہے کہ مذہبی طبقہ یا معاشرہ کے سنجیدہ لوگوں کو قوم کی کوئی خوشی اچھی نہیں لگتی۔ وہ ان دانشوروں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے جن کے دل ودماغ میں قوم کی فلاح کا جذبہ موجزن ہے جبکہ الیکٹرونک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان نام نہاد فلاسفروں کے لیے دست وبازو کاکام دے رہی ہیں۔ اور سرکاری سرپرستی نے ان کے حوصلے مزیدبلند کردیے ہیں اگر ہم سال کے مختلف دنوں میں منائے جانے والے ان مغربی تہواروں کو شمار کریں تو شاید ہی کوئی ہفتہ خالی ہو، کہیں بسنت ہے تو کہیں ویلنٹائن ڈے، کہیں آبادی کا عالمی دن ہے تو کہیں عورتوں کا عالمی دن، تو کہیں اپریل فول ہے۔
بچوں کا عالمی دن، بوڑھوں کا عالمی دن،آبی وسائل کا عالمی دن، ماحولیات کا عالمی دن۔ الغرض ایک طویل فہرست ہے جو اہل مغرب نے ایجاد کرڈالی ہے اور مسلمان بھی ان کی نقالی میں مکھی پہ مکھی مارے جارہے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے ہاں مذہبی وثقافتی تہوار منانے کے اصول وقواعد اور طریقۂ کاریکسر مختلف ہے ۔اسلام ہمیں حدود وقیود کا پابند بناتاہے جن کو توڑنا مسلمان کو کسی طور زیب نہیں دیتا۔ اہل مغرب مذکورہ تہوار سال میں ایک دفعہ منانے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ ان کے ہاں اخلاقی قدروں کو مادیت نے زنگ آلود کر ڈالا۔ بوڑھے والدین کو Old care Center نامی منی جیلوں میں دھکیلا گیا تو سال میں ایک دن ہمدردی جتانے کے لیے ان کو پھولوں کا تحفہ دے کر زندگی بھر کی خدمت سے پہلوتہی اور خلاصی حاصل کرلی گئی یہی مثال دوسرے دنوں کی ہے۔ مغرب کی تقلید میں ہمارے ملک میں سال کے آخر میں Happy New Year بھی منایا جاتاہے۔
انگریزی سال کے اختتام اور نئے سال کے شروع ہونے کی خوشی میں (31) اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب بے حیائی اور فحاشی کی تمام حدود پھلانگ جانے،مذہبی حد بندیوں کو روند ڈالنے اور حیوانیت کا مظاہرہ کرنے کا نام Happy New Year ہے۔
دنیا میں نئے سال کی ابتداء کے کئی نظام (کیلنڈر) زیر استعمال ہیں۔ ہمارے ہاں انگریزی کیلنڈر برائے نام، اسلامی کیلنڈر اور دیہاتوں میں دیسی کیلنڈر رائج ہے۔ آج سے کئی سو سال قبل دنیا میں کئی نظام ماہ وسال کے اندازے کے لیے استعمال کیے جارہے تھے مگر تقریباً اڑھائی سو سال قبل یعنی تقریباً 1752 ء میں معروف انگریزی کیلنڈر کو اختیار کیاگیا جس کا پہلا مہینہ جنوری ہے۔ آج کل یہی کیلنڈر سب سے زیادہ قابل اعتماد اور دنیا کے اکثر وبیشتر ممالک میں رائج ہے اس کیلنڈر کے مطابق سال کا اختتام دسمبر جبکہ آغاز جنوری سے ہوتاہے۔ لہذا نئے سال میں زناکاری، فحاشی اور مادر پدر آزادی کا حیاسوزمظاہرہ شروع ہوجاتاہے جو آہستہ آہستہ اب ہمارے معاشرہ میں بھی سرایت کرتاجارہاہے۔
ہمارے ہاں نیوہیپی ائر منانے کے لیے اب تو سرعام شراب نوشی، بدقماشی، بے حیائی اور فحاشی کا مظاہرہ کیاجاتاہے، کہیں شراب کی محفلیں سجائی جاتی ہیں تو کہیں ڈانس پارٹیوں کا اہتمام کیاجاتاہے۔ کہیں نشہ میںمست ہوکر دعوت برائی دیتی ہیں تو کہیں حواس باختہ نوجوان بے ہودگی کی انتہا کردیتے ہیں کوئی کسی کی بیٹی کی عصمت برباد کررہا ہوتاہے تو دوسرا اس کی بہن کی عزت سے کھیل رہاہوتاہے۔ الغرض گناہ اور بے راہ روی کاوہ کھیل کھیلا جاتاہے کہ الأمان والحفیظ ۔
لاشک ولا ریب ایسی بے ہودگی اور بے حیائی حرام ہے اور اس کا ارتکاب کسی سچے مسلمان سے ممکن نہیں ہے۔ ایسا صرف وہی کرسکتاہے جو شرم وحیا سے عاری اور لچر افکار کا حامل ہوجس کو دین اسلام کی سنہری تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہ ہوا۔
شرعی نقطۂ نظر سے ’’ہیپی نیوائر ‘‘منانا اس لئے حرام ہے کہ اس میں بے حیائی،فحاشی،عریانی اور بداخلاقی کو فروغ ملتاہے۔جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃِ فِی الَّذِیْنَ آمَنُوا لَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ}(النور:۱۹)
’’بے شک وہ لوگ جو یہ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا او ر آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’پہلی نبوتوں کے کلام میں سے جو بات لوگوں تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں شرم وحیا باقی نہ رہے تو پھر جو چاہے کرو۔‘‘ (بخاری، کتاب الأدب، باب إذا لم تستح فاصنع ما شئت، رقم الحدیث :6130)
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا فرمایا۔ انسانوں اور جنوں کو کچھ ذمہ داریاں دے کر دنیا میں بھیجا۔ تمام انسان ایک دن اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینے کے لئے پروردگار عالم کے حضور کھڑے ہوں گئے لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی قیمتی زندگی کا ایک سال کم ہونے اور حساب وکتاب کا دن مزید قریب آنے پر خوشیاں منائے۔ بھنگڑے ڈالے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے؟
نئے سال میں تو ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ جس طرح بارہ ماہ آہستہ آہستہ گزرگئے اور اب نیا سال شروع ہوچکاہے اس طرح انسان کی زندگی بھی گزر رہی ہے اس کو چاہیے کہ وہ اس کو قیمتی بنائے اپنے اوقات بہترین اور صالح اعمال میں خرچ کرے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’دونعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ ناقدری کرکے خسارے میں رہتے ہیں۔ ۱۔صحت ۲۔ فارغ وقت
’’ہیپی نیوائر ‘‘نائٹ منانا اس لئے بھی حرام ہے کہ کفار کی تقلید اور ان سے تشبیہ ہے جس سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا :بلکہ کفار کی تقلید وتشبیہ کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور فرمایا:’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میںسے ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الصحۃ والفراغ، رقم الحدیث :6412)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت پہ وہ وقت برابر آپڑے گا جو بنی اسرائیل پہ آیا تھا۔ دونوں جوتوں کی برابری کی مانند حتی کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی سگی ماں کے ساتھ علانیہ بد فعلی کی تو میری امت میںبھی کچھ(بدبخت) ایسا کریں گے۔ (جامع الترمذی، کتاب الإیمان، رقم الحدیث :2641)
ہم مغرب کی تقلید میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمارے نوجوان نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ چہرے پہ نہیں سجاتے اوراس عظیم شعار کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کیا داڑھی میں اسلام ہے؟ مگر فرنچ کٹ،داڑھی رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مغربی آقاؤں کا شعارہے۔ ہماری نوجوان بچیاں اماں سیدہ خدیجہ، سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہن کی طرح سر پہ دوپٹہ تو نہیں لیتیں مگر مغربی کافرعورتوں کی تقلید میں ٹوپی ضرور رکھ لیتی ہیں۔ وہ سیدہ فاطمہr کی طرح ساتر اور باپردہ لباس نہیں پہنتی مگر پینٹ نما مغربی طرز کا لباس سلوانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہونے میں دیر کیسے لگ سکتی ہے اورہم کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں مگر حقیقت کی طرف پلٹنے کا نام نہیں ہے۔
اس بد اخلاق فعل کی انجام دہی میں نعمت کی بے قدری بھی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا حتی کہ ان کو شمار میں لانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ان میں سے انتہائی قیمتی اور سب سے بڑی نعمت زندگی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو زندہ رکھا ہے اور وہ ایک سال میں مرنے والے اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کی لسٹ میں شامل ہونے سے بچ گیا تو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔نئے سال کی خوشی کا تصوردینِ اسلام میں نہیں۔اقبال نے کہا تھا:
آتی ہے دمِ صبح صدا عرش بریں سے
کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے اور ہمیں اسلام کے سنہری اصولوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اے اصحاب اقتدار پاکستانی عوام اور معصوم بچوں کا کیا جرم ہے جو ایک نوالہ روٹی اور ایک گھونٹ پانی کو ترس رہے ہیں۔ اے حکمرانوں! جب تم اقتدار میں نہیں تھے تو تمہارے پاس بلٹ پروف گاڑیاں عظیم الشان بنگلے کہاں تھے۔ جب تم اقتدار میں آئے تو قوم کاسارا مال ہڑپ کر گئے۔ آج قوم کو تم نے سوائے بھوک و افلاس کے کچھ نہیں دیا وہ یتیم بچے جو بلک بلک کر اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹ جاتے ہیں۔ وہ بے روزگار جو اپنے بچوں کی معیشت کے بارے میں پریشان ہیں وہ افلاس مند جن کے لیے دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔ وہ جن کی عزتوں کا تماشا کیا گیا۔ وہ بے آبرو بے کس جو فٹ پاتھوں پر پڑے اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اور ان کو ایک وقت کا کھانا کھلا دے۔ ان تمام لوگوں کا حساب کون چکائے گا۔ جبکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی میری لاپروائی سے مرجائے تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے متعلق بھی مجھ سے سوال ہوگا تو جو عوام آپ کے پاس اقتدار ہوتے ہوئے بھی آپ کے انصاف سے محروم ہوں ان کے متعلق کیا خیال ہے؟
اے حکمرانوں کی جماعت! اس کرب و درد میں سسکتی ہوئی قوم پر اتنا ظلم کرو جتنا کل اللہ کے دربار میں حساب دے سکو۔ اگر بے کسوں کا مداوانہ کیا گیا تو کل قیامت کو ان کے ہاتھ اور تمہارے گریبان ہونگے پھر تمہیں اللہ کی عدالت سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔
ہاں! اگر اللہ کے دربار میں کامیابی چاہتے ہو تو اللہ کے لیے اس قوم کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم کا ساماں کرو۔ لیکن افسوس کہ اس ملک عظیم پر ہر طرف مردہ خور گدھ ہی منڈلا رہے ہیں۔ نہ بھاگنے والوں کی منزل اور نہ رکنے والوں کو کوئی پناہ، جینا مرنا دونوں ہی مشکل نظر آتےہیں۔
حکمرانوں! اگر آج قوم سے غداری کرو گے تو جان لو کہ رات کے نالے اور دن کے ہاڑے عرش عظیم کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں تم اپنے جھوٹے آقاؤں ہنود و یہود کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی عوام پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہو۔
اے سابق اور موجودہ حکمرانوں! ابھی تو شروعات تھی کہ قوم کا اعتماد کچل کر رکھ دیا گیا پسی ہوئی قوم کا خیال کرتے اگر تم نے اپنا رویہ ایسا ہی رکھا تو تمہارا حال ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے بدتر ہوگا۔ غرور اور تکبر اللہ کو پسند نہیں اگر یہ امانت جو تم نے اپنے سر لے ہی لی ہے تو قوم سے دھوکہ نہ کرو۔ تمہارا مستقل ٹھکانہ امریکہ، لندن، برطانیہ، دبئی اور ایوان بالا نہیں بلکہ قبر کی اندھیر کوٹھڑی ہے جہاں اغیار کی پالیسی کام نہیں آئے گی پھر غیر کی تجویز چھٹکارا نہیں دلائے گی، پشت پناہی کے لیے سپر پاور کی امداد نہیں آئے گی پھر اکیلی جان اندھیرے میں گھبرائے گی اگر وہاں چھٹکارا چاہتے ہو تو عوام کے رستے ہوئے زخموں پر نمک پاشی نہ کرو۔ جن دشمنوں کی پالیسیوں کو اپنا کر تم اپنی زیست کو مزین کرنا چاہتے ہو ان درندوں کے دانتوں سے ابھی تک معصوم بچوں کا خون ٹپک رہا ہے عراق، افغانستان، شام، فلسطین، برما، صومال، کشمیر اور اب وزیرستان میں خون کی ندیاں بہانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اور اب یہ بات سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ نیٹو فوج پاکستان میں جب چاہے جہاں چاہے من مانی کاروائی کر سکتی ہے۔ پاکستان احتجاج ریکارڈ کروا بھی دے تو پاکستان کو اعلان کرنا پڑتا ہے کہ یہ کاروائی ہماری مرضی سے کی گئی یا ہم نے خود کی ہے۔ اور ویسے بھی کمزور اور کم ہمت غلامانہ ذہنیت رکھنے والے اپنوں کے لیے شیر اور اپنے آقاؤں کے لیے راکھ کا ڈھیر ہوتے ہیں ایسی ہی کسی کیفیت کی تعبیر کے لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا:
؎ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اے اصحاب حل و عقد! ہوش کے ناخن لو ان معصوم اور تڑپتی لاشوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
اپنا حال اس طوطے کی طرح نہ بناؤ جس کے گلے میں لال رنگ کا طوق غلامی ہوتا ہے وہ اپنے مالک کی رٹی رٹائی باتیں دہراتا رہتا ہے۔ پنجرے میں رہ رہ کر اس کی قوت پرواز یا خواہش پرواز ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کو آزاد بھی کیا جائے تو اڑ کر زیادہ دور نہیں جا سکتا۔
اے ارباب نشاط! جس ملک کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہے اس کی تاریخ پڑھ کر دیکھو اس کے حصول کے لیے جانوں کو تڑپایا گیا نوجوان لڑکیوں کو ان کے ورثاء کے سامنے بے آبرو کیا گیا نوجوانوں کے سرنیزوں کی انیوں پہ لٹکائے گئے، ماؤں، بہنوں کی عزتوں کا تماشا کیا گیا لیکن افسوس آج اسی ملک پر بے حس مسلط ہیں جو ملک و ملت کو اغیار کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنی ذاتی ساکھ بچانا چاہتے ہیں۔ حکومت کے منصب کو سنبھالنا ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک یا پانی کے بہاؤ پر بہہ جانے والے کیڑوں مکوڑوں اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں ہیں۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلا موں کے لیے نہیں ہوں اور جو صبغۃ اللہ (اللہ کا رنگ) کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ عزیز رکھتے ہوں۔
انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوتا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نام ہے اور مڑجانے کا نام نہیں موڑ دینے کا نام ہے دنیا میں کبھی بزدلوں نے انقلاب برپا نہیں کیا جو لوگ اپنا کوئی اصول، نصب العین، مقصد حیات اور بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ اور مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں اور جو غیر کے سانچے میں ڈھل جاتے اور دباؤ میں آجاتے ہوں ان کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں ملتا تاریخ بنانا صرف بہادروں کا کام ہے بزدلوں کا نہیں۔
اے حکمرانوں! دنیاوی عدالتون سے معافی حاصل کرنا اور بریت حاصل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اخروی عدالت بھی تمہیں بری کر دے گی بلکہ وہاں تو ’’ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ‘‘ کا سامنا ہو گا اور قرآن کا فیصلہ سن لیں:
وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا (الکھف 49)
اور کہیں گے ’’ہائے ہماری بدبختی اس کتاب نے نہ تو کوئی چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی، سب کچھ ہی ریکارڈ کر لیا ہے۔
اے صاحب اختیار! اس دن اقتدار، سرداری، چودھراہٹ، سطوت، شان اور مقام کام نہیں آئے گا۔ اس لیے آج اس فریضہ کو ایمان داری سے سر انجام دو وگرنہ یاد رکھو۔
اے حکمرانوں! اپنی جان کے متعلق اللہ سے ڈرو۔ آپ اکیلے پیدا ہوئے اکیلے مریں گے اکیلے اٹھیں گے اکیلے ہی حساب دیں گے اللہ تعالیٰ کی قسم جن لوگوں کو آج آپ اپنے قریب ترین دیکھ رہے ہو ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہ ہوگا۔ ہم آپ کو وہی وعظ و نصیحت کرتے ہیں جو سلف الصالحین حکام کو کیا کرتے تھے کہ لوگوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اللہ کے معاملے میں لوگوں سے نہ ڈرو، تمہارا قول فعل کے خلاف نہ ہو کیونکہ بہترین قول وہ ہے جس کی فعل تصدیق کرے۔
جو بھی مسلمانوں کے کسی کام کا والی ہو اسے قیامت کے روز اس حال میں اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن پر بندھے ہونگے اسے جہنم کے پل پر کھڑا کیا جائے گا اور وہ پل اس کو اس طرح جھنجھوڑے گا کہ اسے اپنا ہر جوڑ اکھڑتا ہوا معلوم ہوگا پھر اسے واپس لا کر اس کا حساب کیا جائے گا اگر وہ نیک ہوگا تو اپنی نیکی کی وجہ سے نجات پا جائے گا اور اگر برا ہوگا تو وہ پل اس کے لیے ٹوٹ جائے گا اور وہ ستر سال کی راہ تک جہنم میں گرتا جائے گا۔
بیروت کا قصائی
اسرائیل کا سابق وزیر اعظم اور وزیر جنگ و جدال لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ لال کرنے والا ایریل شیرون85 سال کی عمر میں دماغی فالج کی وجہ سے مسلسل 8 سال تک کومہ کی حالت میں رہنے کے بعد 11 جنوری 2014 کو جہنم واصل ہو گیا۔
مسلمانوں کا بدترین دشمن اور فلسطینیوں کا قاتل 8 سال تک زندہ لاش بنا رہا یہ وہی ظالم اور جابر تھا جس نے 1982ء میں لبنان جنگ کے دوران وزیر دفاع ہوتے ہوئے فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں، صابرہ اور شتیلا پر شب خون مارنے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں 460 صابرہ اور شتیلا میں 3500 نہتے فلسطینیوں کو بہت بے دردی اور سفاکی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کا قاتل ایریل شیرون کی انتہائی دردناک موت مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی حکمران خاص طور پر اور ہر ظالم، جابر اور آمروں کو عام طور پر چاہیے کہ اس ظالم کی موت سے سبق حاصل کریں اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد سے باز آ جائے۔ اگر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر قانون الٰہی مکافات عمل سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔ جیساکہ آج کل بہادر کمانڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والا بزدل آمر پرویز مشرف مکافات عمل کا مزہ چکھ رہا ہے۔ دنیا میں ظلم و جبر کرنے والوں کو یاد رہنا چاہیے کہ ایسے ظالم نہ صرف آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قہر و غصب کے مستحق ہیں بلکہ دنیا میں بھی انہیں عبرتناک سزا ملتی ہے۔
پس جان لو!
اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ
آپ کے پروردگار کی گرفت یقینا بڑی سخت ہے۔
جو قومیں اپنے ماضی سے ناطہ توڑ لیتی ہیں ان کا حال ہی نہیں بلکہ مستقبل بھی مخدوش تر ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے میڈیا کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ وہ نئی نسل کو اپنے شاندار ماضی اور اعلیٰ تہذیب سے بیگانہ کر دے تفریح کے نام پہ بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے موسیقی روح کی غذا ہے کسی ستم ظریف نے یہ نکتہ نہ معلوم کس رو میں بہہ کر نکالا ہے کہ جس کی اتباع میں ’’ائیڈول‘‘ (Idol) جیسے پروگرام شروع ہوئے پھر حیا سوز ڈرامے جن سے مادرپدر آزاد میڈیا پرائیویٹ چینلز کے ذریعے مشاہدین کی آزادی طبع کا سامان بناتے ہیں جو لوگ ٹی وی کی ان خرافات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہورڈنگز شہر کے نمایاں مقامات پہ لگا دیئے جاتے ہیں رہی سہی کسر اشتہاری کمپنیوں نے بطور خاص موسم بہارکی آمد کے ساتھ لان کے ڈیزائنوں پہ مشتمل اشتہارات آویزاں کر کے پوری کر دی ہے مال کمانے کے چکر نے کپڑا بنانے والے بعض کارخانہ داروں کو ایسا باؤلا کیا ہے کہ وہ لباس کی تشہیر بے لباسی کے ذریعے کر رہے ہیں اپنے گھروں کی عورتوں کو اڑھا ترجھا اوندھا سیدھا لٹا کر ان کو اپنی بنائی ہوئی لان اوڑھانے کی کوشش کرتے ہے۔ پھر کہیں ثقافت کے نام پہ کثافت یوں پھیلائی گئی ہے کہ سندھ کا تعارف باب الاسلام کے نام سے کرانے والے فن موسیقی میں باہم بوس و کنار کے ذریعے حقیقی رنگ بھرنے والی گلوکاراؤں اور گلوکاروں سے سندھی ثقافت کے میلے کا افتتاح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں دیکھا دیکھی بعض سکول بھی بچوں کے لیے سندھی ثقافت کے دن کا اہتمام کرکے ڈھول اور گانوں سے سندھ کا تعارف کروا رہے ہیں کیا محمد بن قاسم یہیں آیا تھا کیا مولانا عبید اللہ سندھی اور پیر آف جھنڈا بدیع الدین شاہ رحمہم اللہ نے یہیں جنم لیا تھا مگر قوم ہے کہ خاموش تماشائی بنی ہے اس اخلاقی ارتقاء پہ کوئی بات کرے تو کیسے؟ گستاخی معاف اب تو بنی سنوری یہی گریجویٹ بیبیاں کچھ جدید علماء کرام کی ٹی وی چینلز پہ میزبانی کرتے ہوئے فقہی مسائل کی مشکل گھتیاں سلجھاتی ہیں اور موقع غنیمت جان کر ان مہمانوں کی آپس میں چونچیں بھی لڑواتی ہیں کوئی ڈرتا بات نہیں کرتا کہ اس پر طالبان کا لیبل لگا دیا جائے گا سکولوں کی بربادی خود کش حملوں اور مساجد ہسپتالوں اور چرچوں میں دھماکوں کو اسلام کی تصویر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اسلام پہ پھبتی کسنے کے لیے قائد اعظم کو داڑھی لگا کر ایک جریدہ اپنا ٹائیٹل پیج بناتا ہے اور پھر وہی فرضی طالبانائزیشن کا خوف موضوع بنایا جاتا ہے کہ عورتوں کو کوڑے مارے جائیں گے قتل کیا جائے گا گھروں میں بند کر دیا جائے گا ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے مذاکرات نہ کیے جائیں ٹھنڈا مشروب پی کر گرم تاثیر حاصل کرنے والے بہت سے دانشور اور لیڈران فوج کو تھپکی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کے شاباش جاکر لڑو مسئلہ نہیں ہم محفوظ بیٹھے ہیں یاد رہنا چاہیے غصہ اور انتقامی سوچ میں کیا کِیا گیا کوئی فیصلہ کارگر ثابت نہیں ہوتا امریکہ کا حال سامنے ہے کہ گذشتہ بارہ سال سے افغانستان کی پہاڑی دلدل میں دھنسنے کے بعد آخر کاراٹھارہ ہزار فوجی زخمی کروا کر تقریباً تین ہزار کو جنگی جنون کی بھینٹ چڑھا کر ایک ہزار ارب ڈالر پھونک کر ایک لاکھ 20 ہزار افغانوں کا قاتل اب ذہنی اور عسکری شکست کا سامنا کر رہا ہے اور جلد ہی ان شاءاللہ بتمام رسوائی اسکی پسپائی اور انخلاء مکمل ہو جائے گا اس دوران پرائی آگ میں کود کر پاکستان نے اپنابے پناہ نقصان کیا جس ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی قومی سطح پہ مقروض ہے اس نے کم از کم سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان کروایا اور اپنے آٹھ ہزار عسکری لوگوں سمیت 50ہزار سے زیادہ شہری قربان کروائے اور اب بھاگتا ہوا امریکہ اس جلتی ہوئی آگ کا ایندھن ہمیں بنا کر جانا چاہتا ہے اس وقت کچھ لوگ بزدلی کا طعنہ دے کر ایک جذباتی فضا بنانے کے درپے ہیں تاکہ بیرونی ایجنڈے پہ کام ہو اور وہ حق نمک حلال کریں جب صورت حال انتہائی گنجلک ہے اور اس بدامنی میں بیرونی ہاتھ شامل ہیں خاص طور پہ بھارتی ایجنسیاں تو کیوں نہ مذاکرت جاری رکھے جائیں اب جب امریکہ خود طالبان سے مذاکرت کی راہیں تلاش کر رہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھیں بھارت کی پاکستان دشمنی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہندو کی تو پرانی عادت یہی ہے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام۔
وہ مقبوضہ کشمیر میں دریاؤں پہ بند بنا رہا ہے جب چاہے پانی روک کر ہمیں قحط کی تباہی میں مبتلا کر دے اور جب چاہے پانی چھوڑ کر سیلاب برپاکر دے مگر یہاں مشترکہ تہذیب کے نام پہ امن کی آشا کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ تہذیب و ثقافت کا فرق ہی تو پاکستان کے وجود کا سبب بنا مسلمانوں نے ایک ہزار سال ہندوستان پہ حکومت کی مگر انہیں کبھی جبراً مسلمان نہیں بنایا ان کی معاشی اور سماجی آزادی کو کبھی سبوتاژ نہ کیا اس کے برعکس ہندؤں کو جب موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کو زک پہنچائی پیٹھ میں چھرا گھونپا انگریز کے آنے کے بعد مذہبی تحریکیں چلائی گئیں ہندوازم پہ سختی سے کاربند رکھنے کے لیے 1875 میں آریہ سماج تحریک چلی۔ گئیورکھشا تحریک کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف تعصب کی آگ بھڑکائی گئ جبری ہندو بنانے کے لیے 1920 میں شدھی تحریک چلی اس کا بانی سوامی شردھا تند ہندوستان میں ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے انڈین گورنمنٹ نے اس کے نام کے ٹکٹ جاری کئے ہیں انہی وجوہات کی بنا پہ مسلمانوں میں الگ قومیت کی سوچ پختہ ہوئی جو آخر کار 23 مارچ 1940 میں دو قومی نظریہ کے تصور کے ساتھ قرارداد پاکستان پر منتج ہوئی اسی لیے قائداعظم نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اجلاس میں 8 مارچ 1944 کو خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا جس دن پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا ایک موقع پہ جب پاکستان کے دستور کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں پاکستان کی تصویر جوان کے ذہن میں تھی یوں پیش کی کہ ’’ہمارے پاس چودہ سو سال پہلے سے دستور قرآن کی صورت میں موجود ہے۔‘‘ ہندو تب بھی متعصب تھا اور اب بھی وہ بیس سے پچیس کروڑ اپنے ہم وطن مسلمانوں کو دیوار سے لگائے کھڑا ہے۔ مسلمان ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بیس سے پچیس فیصد حصہ ہونے کے باوجود ملازمتوں کے سلسلہ میں کہیں ایک فیصد اور کہیں دو فیصد حصہ پاتے ہیں گذشتہ 67 سالوں میں ہندؤں نے اپنے ساتھ بسنے والے ہم وطنوں کے خلاف ساڑھے چار ہزار سے زائد مسلم کش فسادات کرڈالے ہیں پھر بھی
ہمیں ان سے ہے وفا کی امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
حقیقت تو یہ ہے ہنود و یہود مسلمانوں کے درپہ آزارہیں وہ فلسطین ہو یا کشمیر برما ہو یا وسطی جمہوریہ افریقہ ہر جگہ خون مسلم کی ارزانی ہے اس صورت حال میں پاکستان کی ذمہ داری کچھ اور بڑھ جاتی ہے استعماری قوتیں پاکستان کو اپنے مسائل میں الجھا کر لاغر بنا دینا چاہتی ہیں۔
ماہ فروری میں سعودی عرب سے ولی عہد پرنس سلمان بن عبدالعزیز کی پاکستان آمد اور پھر عسکری معاہدات ایک خوش آئند بات ہے کچھ لوگ اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان کی افواج اگر سعودی عرب میں جاتی ہیں تو وہ ایران کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی فوج ایران کے خلاف لڑنے جارہی ہے نہ سعودی عرب کے کوئی توسیعی عزائم ہیں اور نہ ہی پاکستان کچھ ایسے عزائم رکھتا ہے دونوں امن پسند ہیں ہاں خطرات دونوں کے سر پہ ہیں شام اس وقت ایک لاکھ دس ہزار سنی مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے۔ پاکستانی فوج ہی کیا؟ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ تو تمام مسلمانوں کے دل دھڑکتے ہیں اور اگر کوئی ادھر میلی آنکھ سے بھی دیکھتا ہے تو عام مسلمان بھی اس آنکھ کو نکال دینا چاہے گا فوج اگر جائے گی تو اسی دفاع کے لیے جائے گی جس پر ہمیں اعتراض کی بجائے فخر کرنا چاہیے یہ سعودی عرب کی فراخ دلی بھی ہے ورنہ سابقہ حکومت نے تو قبلہ تہران کو بنا ڈالا تھا مگر سعودی عرب نے تعاون جاری رکھا اب جب موجودہ حکومت باہمی روابط بڑھا رہی ہے تو یہ ایک قابل ستائش عمل ہے ادھر ایران پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے عجیب دوستی اور ستم ظریفی ہے کچھ سیاسی جماعتیں اس معاملے کو بھی پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی قرار دے رہی ہیں اسے ہی کہتے ہیں۔ مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ ’’ ان تصبک حسنۃ تسؤھم‘ ‘ تمہیں اگر کوئی بھلائی ملے تو یہ چیز انہیں بری لگتی رہے پاکستان میں تھر سے کوئلہ نکالنے کا الحمدللہ افتتاح ہو چکا ہے کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو سندھ دبئی بن جائے گا انرجی کے بحران پہ کافی حد تک قابو پایا جا سکے گا مگر اس پہ بھی امریکہ بہادر ناخوش ہے کیونکہ اس سے گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھے گی اور کرہ ارض کا درجہ حرارت بھی بڑھ جائے گا جبکہ خود امریکہ 50 فیصد بھارت 53 فیصد آسڑیلیا 80 فیصد۔ اسی طرح دیگر بیشتر ممالک کوئلہ سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جس سے فضا آلودہ نہیں ہو گی ہاں پاکستان میں اس کا حصہ صرف 1.0 فیصد جو انہیں ہضم نہیں ہوتا یہ ہے دوہرا معیار جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے ان شاء اللہ یہ منصوبہ ضرور پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ اور کامیابیاں ملیں گی۔
اب سے کوئی چار ہزار سال پہلے جد الانبیاءجناب ابراھیم خلیل اللہ ایک پہاڑ کی اوٹ میں کھڑے ہو کر یہ دعا کر رہے تھے۔
رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ (سورۃ ابراہیم 37)
اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بےکھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انھیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں ۔
دلوں کے میلان اور رزق کی دعا کے ساتھ اپنی شریک حیات ھاجرہ علیہا السلام اور بڑھاپے میں (رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ )(اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما) کی تعبیر و قبولیت کے نتیجہ میں ملنے والے سہارے اور دل کے سرور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ وادی مکہ میں چھوڑ کر خود بہت دور جا رہے تھے کچھ کجھوریں اور تھوڑا سا پانی بہم پہنچا سکے تھے جس پر ان دونوں نفوس کا مدار حیات تھا مگر یہ سامان کب تک چلتا آخر ختم ہو گیا اور یہ بات تو ابراہیم علیہ السلام بھی جانتے تھے مگر رب تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لیے اور کمال توکل کا لازمہ ہونے کے ناطے انسان کو دنیاوی اسباب مقدور بھر اختیار کرنے چاہیں یہی پیغام ابراہیم علیہ السلام دے رہے تھے رب تعالیٰ کے فیصلہ پر شکر و رضا سے سر تسلیم خم کرنے والوں کو یقیناً اللہ ضائع نہیں کرتا یہی وہ حسن یقین تھا جس کا اظہار ام اسماعیل نے (اذا لا یضیعنا اللہ ابدا) اگر اللہ کا حکم ہے تو پھر وہ ہرگز ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ کے الفاظ کے ساتھ کرتے ہوئے عجیب اطاعت ووفا شعاری کی مثال قیامت تک آنے والیں حوا کی بیٹیوں کے لیے قائم کی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف زمزم زمزم کے چشمہ کی شکل میں پانی کا انتظام کیا بلکہ قیامت تک صفا و مروہ کے درمیان بیقراری میں اٹھنے والے ام اسماعیل کے پاؤں کے نشان یوں محفوظ فرمائے کہ بیت اللہ کی طرف آنے والے ہر حاجی اور عمرہ کرنے والے کے لیے انہی نشانات کے پیچھے چلنا ضروری قرار دے دیا۔
پھر بیت اللہ کی دیواریں بھی اٹھائی گئیں اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ’’واذن فی الناس بالحج‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حج کا عالمی اعلان فرما دیا ابراہیم علیہ السلام کا آتش نمرود میں بے خطر کود جانا پھر بیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ میں چھوڑ کر چلے جانا پھر اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں اپنا کلیجہ کاٹنے پر ناصرف آمادہ ہونا بلکہ عملی کوشش بھی کر ڈالنا بیت اللہ تعمیر کر کے اعلان حج کرنا یہ سب ایک ہی پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم محبت و اطاعت میں عقل کو لگام اچھا ہے کہ دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی تو اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ ابراہیم علیہ السلام کا یوں ایک ملک سے دوسرے ملک عراق سے شام پھر مصر اور فلسطین پھر حجاز مقدس تشریف لے جانا یہ سب رب کے حکم پہ اقامت توحید کے لیے تھا کہ جس کا انعام رب تعالیٰ نے ’’إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا‘‘ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا کی صورت میں دیا۔ اسماعیل علیہ السلام جب تک زندہ رہے مکہ میں سیادت و سرداری بھی ان کی رہے پھر ان کے بارہ بیٹوں میں سے نابت اور قیدار زیادہ مشہور ہوئے اور پھر 21 صدیوں تک کے لیے زمام اقتدار بنو جرھم کے ہاتھ میں چلی گئی مگر حاجیوں کا مال ظلم کے ذریعے ہتھیا لینا جب انہوں نے وطیرہ بنا لیا تو معاملہ بنو خزاعہ کے ہاتھ آگیا پھر قریش آئے یہاں تک کے رسول کریم تشریف لے آئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے اہل مکہ کو رزق کی فروانی رہی امن جیسی نعمت سے بھی سر فراز رہے رب تعالیٰ نے باور کروایا’’الذی اطعمہم من جوع وامنہم من خوف‘‘ امن و استقرار یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کے بغیر مال و دولت کی فراوانی اور دیگر نعمتوں کا مزہ کر کرہ ہو کر رہ جاتا ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے قبل جزیرۃ العرب میں امن و امان نام کی کوئی چیز نہ تھی جنگل کا قانون تھا اور لوگ حجاز کی چھوٹی سی حکومت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے مگر مایوس رہتے کہ یہ حکومت اپنے نازک کندھوں پہ عدل و انصاف کا بڑا بھاری بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک بعثت سے ظلم و طغیان کا خاتمہ ہوا نہ صرف جریرۃ العرب امن کا گہوارہ بن گیا بلکہ چہار دانگ عالم شمع رسالت کے پروانے امن و ہدایت کی روشنی کے ساتھ پھیل گئے۔ مگر آہستہ آہستہ قرون اولیٰ کے دور ہو جانے اور وقت گزرنے کے ساتھ ظلم و عدوان کی ایسی ہوا چلی کہ پھر حجاج کرام کہ قافلے لٹنے لگے شرک پھیل گیا یہاں تک کہ مصر میں بدوی و رفاعی عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ، سیدناحسین بن علی اور امام ابو حنیفہ، عبدالقادر جیلانی یمن میں ابن علوان سے مرادیں مانگی جانے لگیں نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ مکہ وطائف میں ابن عباس اور دیگر اصحاب رسول سے حاجت روائی کے لیے دعائیں مانگی جانے لگیں اور خود امام الہدیٰ سیدا لمرسلینﷺ کی مسجد کے آس پاس شرکیہ استغاثہ و استعانت کی صدائیں بلند ہونے لگیں خلافت عثمانیہ کا دور دورہ تھا ترکوں کا سکہ چل رہا تھا نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر خانہ جنگی کی عملی تصویر بنا ہوا تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے آنے والی رقوم مزاروں کے مجاوروں پہ تقسیم ہوتی تھی راستے غیر محفوظ ہو گئے تھے یہاں تک کہ ہندوستان میں مخصوص مسلک کے مفتیان کرام حج کی فرضیت ہی ساقط فرما چکے تھے ان حالات میں عیینہ کی وادی میں امام محمد بن عبدالوہاب توحید کی دعوت لیکر اٹھے لوگوں کو صحیح عقیدہ کی طرف بلایا وہاں کے امیر عثمان بن مسلم کو ساتھ ملا کر دعوت کے کام کو آگے بڑھایا مگر حدود اللہ میں سے ایک حد کے نفاذ کی وجہ سے احیا ء و قطیف کا عیاش حاکم آپ کے خلاف ہو گیا جس نے آپ کے قتل کا حکم صادر کر دیا عثمان بن مسلم استقامت نہ دکھا سکھا اور شیخ کو انتہائی کسمپرسی کے عالم میں عیینہ چھوڑنا پڑا اور پیادہ تپتے صحراؤں کا سفر طے کرتے ہوئے درعیہ پہنچے درعیہ کے امیر محمد بن سعود نے خوشدلی سے شیخ کا استقبال کیا یوں آل سعود کا آل شیخ کے ساتھ تعاونوا علی البر والتقوی پر معاہدہ ہو گیا جو بحمد اللہ اب بھی قائم ہے اور آل سعود جدید سعودی عرب کو ترقی کی راہ پہ گامزن کیے ہوئے امن استحکام کا پھریرا لہرا رہا ہے۔ توحید کا لہراتا ہوا علم استعمار کے ساتھ ساتھ صوفی افکار کے دلدادہ تقلید جامد کے رسیا اور خانقاہی مزاج رکھنے والے مسلمانوں کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا یہی وجہ ہے کہ فرنگی سامراج خانقاہی مزاج ترکی و مصری مدتوں شیخ کی شخصیت اور دعوت کو بدنام کرنے میں لگے رہے۔ دجل و فریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہویں صدی ہجری کی اس عظیم تحریک کو اس کے روح و رواں امام محمد سے منسوب کرنے کی بجائے ان کے والد عبدالوہاب کی طرف منسوب کر کے اس کے ڈانڈے دوسری صدی ہجری کی ایک خارجی تحریک رستمی وہابیت سے جاملائے کیونکہ اگر اس تحریک کو امام محمد بن عبدالوہاب سے منسوب کیا جاتا تو یہ تحریک اپنے نام ’’محمدیت‘‘ یا محمدیہ کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت جلد قبول عام حاصل کر لیتی یوں اس تحریک کو غیروں نے پامال کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اس کے لیے برٹش آرمی کے کمانڈر سیڈلیر کا سفر نامہ ہندوستان سے ریاض تک اگر پڑھ لیا جائے کی کافی ہے پھر درعیہ کے کھنڈرات کو ابراہیم پاشا نے کیوں مسمار کیا۔ اس تحریک کو اپنوں نے فراموش کیا اور غیروں نے خوب بد نام کیا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے کبھی انہدام بقیع پہ نوحہ کرتے ہوئے مذمتی بیز لگائے جاتے ہیںکبھی مزاروں اور قبوں کے خاتمہ پر سعودی حکومت مطعون ٹھرتی ہے پھر یہی نہیں نظریاتی اعتبار سے اس محمدی تحریک کے حامیوں پہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ جناب انہیں ریال ملتے ہیں قلم کو تلوار بنا کر اور اس کی نوک پر پگڑیاں اچھال کر صحافت کے بازار میں بھاؤ بڑھایا جاتا ہے بغض صحابہ کا مخصوص عقیدہ رکھنے والوں کی آبیاری کرتے ہوئے انہیں شیر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بغض معاویہ میں سعودی عرب کی ہر نیکی برائی نظر آنے لگتی ہے مصر میں ہونے والے ستم کی کوئی بھی تایید نہیں کر سکتا مگر جذباتی ہونے کے بجائے حقائق کو دیکھیں کہ اخوانیوں کو اقتدار دلانے والی سب سے بڑی حلیف جماعت (النور) کو مصر کے اقتدار میں اخوانیوں نے کتنا حصہ دیا وقت نکل جانے پہ کیا آنکھیں نہ پھیر لی گئیں سعودی عرب نے امداد بھی کی تائید بھی مگر اقتدار ملنے کے ساتھ انہی کے پاؤں تلے سے جمہوریت کے نام سے رداء اقتدار کھینچنے کی باقاعدہ منظم کوشش شروع کی گئی اور خبردار کرنے کے باوجود ان کے دشمنوں سے محبت کی پینگیں بڑھائی گئیں ایران سے قربت اور سعودیہ سے دوری بڑھی مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ ظلم کی داستان ہے یہ خون مسلم کی ارزانی ہے جو ذراسی ناعاقبت اندیشی کا کڑوا ثمر ہے اللہ ان کی مدد فرمائے ہم دوست اور دشمن کو سمجھیں سعودی حکمرانوں کے جرائم میں سے ایک کالم نگاریہ جرم بھی گنواتا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو پناہ دی جبکہ انہی کے ہم مسلک بریلویوں سے نفرت کی جاتی رہی۔ گویا کالم نگار تحت اللفظ یہ خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ نواز شریف کو پناہ نہیں دینی چاہیے تھی بلکہ ایٹم بم کی تخلیق کے باقی کرداروں کی طرح انہیں بھی پھانسی لگنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے تھا نیز پوری دنیا سے لوگ سعودی عرب جاتے ہیں کیا کبھی کسی کو صرف اس لیے ویزہ دینے سے سعودی عرب نے انکار کیا ہے کہ وہ بریلوی ہے یا کوئی اور بلکہ ایرانی بھی حرم جاتے ہیں اور جو کچھ ماضی میں وہ کر چکے ہیں وہ بھی کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے پھر بھی حرم کے دروازے سب پر کھلے ہیں تو نواز شریف کو مہمان بنانے پہ برہمی چہ معنی دارد اور اگر معیار ہی کی بات ہے تو یہی اخبار پیپلز پارٹی کو رگیدتا ہے بے نظیر کی کردار کشی کرتا ہے مگر جب بات پیسے اور مال کی ہوتی ہے تو اپنے اخبار کا آدھا فرنٹ پیج اشتہار کے مخصوص کر دیتا ہے بے نظیر کی تصویر چھاپتا ہے جمہوریت کا چیمپئن بتاتا ہے اور مال بناتا ہے یہ صفحہ قارئین کی امانت بھی ہے اور مخصوص نقطہ نظر کی وجہ سے یہ اخبار خریدنے والوں کے لیے اذیت کا باعث بھی۔ مگر آپکی اپنی بیان کردہ مثال شاید آپکے لیے قابل عمل ٹھری ہے۔ باغیاں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی۔ انہیں یہ بھی تکلیف ہے کہ سلفیوں کو جامعہ اسلامیہ میں داخلہ دیا جاتا ہے یہاں وہ اس بات پہ خوش نہیں کہ پاکستانی بھائی تعلیم کے لیے وہاں جاتے ہیں جہاں نہ صرف تعلیم کا بار سعودی حکومت اٹھاتی ہے بلکہ آمدورفت رہائش و طعام کے اخراجات کے ساتھ اسکالر شپ بھی دی جاتی ہے اور اب تو نیٹ پہ فارم پُر کیا جاتا ہے جس میں مسلکی تفریق کا کوئی خانہ نہیں۔ آپ تنقید کر رہے ہیں ٹھیک مگر حقائق کو مسخ نہ کریں شاہ عبد اللہ کی بیماری اور معذوری کا مذاق اڑاتے ہوئے کالم نگار یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ پاک ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ آج کا جُگت گو کل خود بھی لطیفہ بن سکتا ہے۔مصر سے بہت پہلے آپ کے پڑوس شام میں لگی ہوئی آگ کے بجھانے میں اخوانیوں کا کیا کردار رہا۔ لاکھوں نفوس کے قاتل بشار الاسد کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف آپکے قلم میں اتنی شدت کیوں نہیں پاکستان سے دینی تعلیم حاصل کر کے واپس ایران لوٹنے والے جو اسی پاداش میں تختہ دار پہ کھینچنے گئے کہ وہ کسی سلفی ادارہ سے پڑھ کر گئے تھے اور ان کی مخبری کرنے والے مخصوص سیاسی افکار کے حامل لوگ تھے۔ تل ابیب سے ماسکو تک مدینہ منورہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے استعمار اپنے گماشتوں کے ذریعے سعودی عرب کو گھیرنا چاہتا ہے ہم صرف یہ کہیں گے کہ ’’وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا‘‘ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے ۔ توحید کی دعوت دینے والوں کا سعودی عرب سے تعلق مال سے زیادہ مآل سے ہے یہاں عقیدت کا راستہ عقیدہ کے ساتھ وابستہ ہے ریالوں اور ڈالروں کی ریل پیل تو 1938ء میں سعودیہ میں پیڑول دریافت ہونے کے بعد آہستہ آہستہ شروع ہوئی مگر اہل توحید تو اس سے بہت پہلے کہ ان سے جڑے ہوئےہیں۔ ٹی وی چینلز نے پرانے میراثیوں کی ذمہ داری سنبھال لی ہے امریکہ کا ایک جہاز امدادی سامان لے کر آئے تو ہر چینلز پہ چوبیس گھنٹے اڑتا نظر آتا ہے جبکہ سعودی عرب کا سفیر اپنے دیگر ساتھیوں سمیت ایام عید سیلاب زدگان میں گزار دے سعودی عرب بے پناہ امداد فراہم کرے تو انہیں جائز کوریج بھی نہ دی جائے مگر وہ شکوہ نہ کریں بلکہ امداد دے کر بھی ڈھنڈورا نہ پیٹیں۔ ڈپلومیٹک مشن کا عضو قربان کروائیں لیکن سعودی ٹی وی پہ خبر نہ چلائیں کہ پاکستان کی بدنامی نہ ہو ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے والے سعودی عرب کے خلاف استعماری ایجنٹ تو لکھیں یا بولیں تو سمجھ آتی ہے مگر جوش حق گوئی میں اپنوں کا قلم بہک جائے تو بہت تکلیف کی بات ہے ہر وہ بات جو پاکستان اور سعودی عرب کے مفادات کے مخالف ہو اس سے استعماری طاقتیں خوش ہوتی ہیں اور ہمیں یہ سب چیزیں سامنے رکھنی ہیں سعودی عرب کی حکومت کے کئی جرائم ہیں جن میں سے پوری دنیا میں دین کی نشر و اشاعت اور توحید خالص کے ابلاغ کے لیے مختلف دینی مراکز و مساجد کی تعمیر اپنے شہریوں کے حقوق کی پاسداری تنفیذ شریعت، خدمت حرمین شریفین، حجاج کرام کے لیے محفوظ اور مامون راستے مظلوم مسلمانوں کی ہر جگہ مدد جیسے برمی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینا اور بہت سے دیگر جرائم جنکی تفصیل ہم ان شاءاللہ اس ماہ کے مجلہ میں قارئین کی نذر کر رہے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ان معاملات میں پاکستان کو بھی سعودی عرب کا ہم نوا بنا دے دونوں ملکوں کو اللہ حاسدوں کے حسد اور اشرار کے شر سے محفوظ رکھے ، اور دیگر تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
شکیل آفریدی کے وزن میں کچھ لوگ محترمہ عافیہ صدیقی کو تول ر ہے ہیں اندھیرا اور اجالا برابرکیسے ہو سکتا ہے غدار اور وفادار کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔ طالبان سے مذکرات کے نام پہ استعماری ایجنٹوں کے پیٹ میں بل پڑ رہے ہیں بہرحال حل یہی ہے کہ یہ طاقت پاکستان کے لیے استعمال ہو ۔ زلزلوں کا ایک سلسہ شروع ہوا ہے اللہ پاک اہل بلوچستان کی مدد فرمائے۔ اور وہاں امدادی کاروائیوں میں مصروف عمل سب سے پہلے پہنچنے والی ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ اور دیگر احباب و اداروں کو ہمت بھی دے اور جزائے خیر سے نوازے۔ رکاوٹ بننے والوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ ہم سب کو آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔ چرچ میں بم دھماکے اور دیگر خود کش دھماکے اصل میں مذکرات کو سبوتاژ کرنے کی سوچی سمجھی اسکیم ہے اللہ سمجھنے کی توفیق کے ساتھ سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین