لیاقت علی : ( بلند آواز سے) عمر بیٹا آو کھانا کھالو!
عمر لیاقت :ابو جی آیا ! (عمر کمرے میں داخل ہوتاہے )
عمر لیاقت : آج کیا پکا ہے ؟
لیاقت علی : کدو۔
عمر لیاقت : مجھے نہیں پسند میں نہیں کھاتا ۔
لیاقت علی :نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے ٗ سب کھانے اچھے ہوتے ہیں اور کدو تو ہمارے پیارے نبی ﷺ کو بھی پسند تھا۔
عمر لیاقت : اچھا وہ کیسے ؟
لیاقت علی : سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غلام نے جو درزی کا کام کرتا تھا، آپ ﷺ کی دعوت کی تو اس نے آپ ﷺ کے سامنے ثرید کا پیالہ رکھا اور خود اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ اس پیالے سے کدو کے قتلے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھانے لگے ٗ میں نے یہ دیکھا تو کدو کے قتلے چن چن کر آپ ﷺ کے آگے کرتا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن مجھے کدو بہت پسند ہے ۔ (بخاری۔ کتاب الاطعمۃ۔باب الثرید )
عمر لیاقت : مجھے پہلے کیوں نہ بتایا آج سے مجھے بھی کدو پسند ہے ۔ جو چیز نبی معظمﷺ کو پسند ہو اور مجھے نہ پسند آئے یہ ہو نہیں سکتا۔
لیاقت علی : شاباش ، یہ ہوئی نہ بات ۔
عمر لیاقت : مجھے پیارے نبی ﷺ کے اور کھانوں کے بارے میں بتائیں ؟
لیاقت علی : زہدم جری سے روایت ہے کہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے تو ان کے ہاتھ میں مرغی یعنی گوشت تھا جس کو وہ کھا رہے تھے ہم نے کہا آپ اس کو کھا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کے دستر خوان پر کھایا ہے۔(صحیح بخاری : ۴۳۸۵ ، مسلم : ۱۶۴۹، ترمذی : ۱۸۲۷)
عمر لیاقت : مرغی تو مجھے بھی بہت پسند ہے ؟
لیاقت علی : سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک طاقتور لڑکا تھا پس میں نے خرگوش کا شکار کیا، اسے بھونا، پھر سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا پچھلا حصہ دیا تاکہ میں اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دے آؤں جب میں یہ گوشت لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدت اقدس میں حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول کرلیا ۔ (بخاری: ۲۵۷۹ ، مسلم :۱۹۵۳)
عمر لیاقت : مگر میں نے تو کبھی خرگوش کھا یا ہی نہیں ۔ وہ کیسا ہوتاہے۔
لیاقت علی : خرگوش بھی ایک حلال جانور ہے اور اس کا گوشت کھایا جاسکتاہے ۔
عمر لیاقت : اچھا نبی کریم ﷺ کے کچھ اور کھانوں کے بارے میں بتلائیے؟
لیاقت علی : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی زیر امارت ایک لشکر کو قریش کا لشکر پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد راہ کیلئے چمڑے کی تھیلی میں کھجوریں دیں ، اس کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔
سیدناابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہمیں روزانہ ایک ایک کھجور دیتے ہم اسے چوستے جیسے بچہ چوستاہے اور چوس کر اپنے ساتھی کو دے دیتے اس کے بعد ہم پانی پی لیتے جو ہمیں رات تک کفایت کرتا۔
نیز ہم لاٹھیوں سے پتے جھاڑتے پھر انہیں پانی میں بھگو کر کھاتے ٗ ہم ساحل سمندر کی طرف گئے تو ہمارے سامنے ریت کے ٹیلے کی طرح کوئی چیز بلندی کی گئی۔ ہم اس کے پاس آئے تو وہ ایک جانور تھا جسے عنبر ( بڑی مچھلی) کہاجاتاہے۔ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ مردار ہے اور ہمارے لیے حلال نہیں ٗ پھر کہا نہیں واللہ اعلم ہم تو اللہ کی راہ میں رسول اللہ ﷺ کے قاصد اور پیامبر ہیں اور اس وقت ہم لاچار اور مجبور ہیں۔
لہذا اس میں سے کھاؤ، ہم ایک ماہ وہاں رہے اور ہم تین سو افراد تھے۔ ہم نے اس قدر اس میں سے کھالیا کہ فربہ ہوگئے، جب رسول اللہ ﷺ کی طرف واپس لوٹے تو آپ ﷺ سے واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا یہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نکالا ، تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ ، پس اس میں سے ہم نے رسول اللہ ﷺ کو بھیجا تو آپ ﷺ نے بھی اسے کھالیا۔ (ابوداؤد: ۳۸۴۰، مسلم: ۱۹۳۵، ابن حباہ : ۵۲۶۰)
عمر لیاقت : اتنی بڑی مچھلی !
لیاقت علی : سیدنا عبد اللہ بن ادنیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چھ یا سات غزوات میں حصہ لیا اور ان میں ٹڈیاں کھاتے رہے ۔ (ابوداؤد: ۳۸۱۲، بخاری : ۵۴۹۵، مسلم: ۱۹۵۲، ابن حبان : ۵۲۵۷، مسند احمد:۴،۳۵۷)
عمر لیاقت : ہمارے گھر میں بھی تو ٹڈیاں ہیں ہم کیوں نہیں کھاتے؟
لیاقت علی : (ہنستے ہوئے) ارے بابا یہ وہ ٹڈی نہیں ، اسے عربی میں جراد اور اردو میں ٹڈی دل کہتے ہیں ۔ یہ ایک اڑنے والا دریائی کیڑا ہے جو زیادہ تر پانی میں رہتا یا پانی والی جگہوں پر ہی بسیرا کرتاہے۔ گویا یہ پانی سے نکل کر فضا میں بھی اڑتا ہے اور اناج کھاتاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ فرمایا کہ سمند ر کا مردار حلال ہے تو اس حکم میں ٹڈی بھی شامل ہے۔
عمر لیاقت : اچھا۔.....
لیاقت علی : سیدہ ام المنذر رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے ، آپ ﷺ کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ہمارے ہاں کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے وہ کھانے کے لیے پیش کیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان میں سے تھوڑے سے کھا چکے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو ، کمزور ہو کم کھائیے۔ اس کے بعد میں نے آپ ﷺ کے لیے جو اور چکندر بنائے۔ آپ ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ کھاؤ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ (ابوداؤد ، کتاب الطب : ۳۸۵۶)
عمر لیاقت: میں امی کو کہوں گا کہ وہ مجھے بھی جو اور چکندر بنا کر کھلائیں ؟
لیاقت علی : ہاں کیوں نہیں ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : زیتون کھاؤ کیونکہ یہ بابرکت ہے اور اس کا سالن بناؤاور اس کا تیل استعمال کرو کیونکہ یہ بابرکت درخت سے نکلتاہے۔ ( سنن دارمی : ۲۰۵۶ ، صحیح ترمذی :۱۵۰۸)
عمر لیاقت : زیتون کا تیل تو میں روز سر پر لگاتاہوں مگر کبھی کھایا نہیں ؟
لیاقت علی : میں کل آپ کو لا دوں گا۔
عمر لیاقت : رسول اللہ ﷺ کے اور کھانے بتائیں ؟
لیاقت علی : سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔ آپ ﷺ کے گھر والوں نے پردہ کررکھاتھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا کھانے کو کچھ ہے ؟ جواب آیا کہ صرف روٹی کے چند ٹکڑے ہیں ، پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ سالن ہے ؟ جواب ملا نہیں ۔ البتہ سرکہ ہے ، آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا: وہی لے آؤ۔ سرکہ تو بہترین سالن ہے۔ (مسلم : ۲۰۵۲، سنن ابی داؤد: ۳۸۲۰)
رسول اللہ ﷺ کو ٹھنڈا اور میٹھا پانی بہت پسند تھا۔ مدینہ منورہ سے باہر دو میل کی مسافت پر ایک سقیا نامی چشمہ تھا جس سے رسول اللہ ﷺ کے پینے کے لیے پانی لایا جاتا تھا۔ ( ابوداؤد ، ابن حبان : ۵۳۳۲ ، مسند احمد : ۳۷۳۵)
ایک روز آپ ﷺ ابو الہیثم بن التیہان انصاری رضی اللہ عنہ کے باغ میں تشریف لے گئے اور باسی پانی طلب کیا، وہ بکری کا دودھ پانی میں ملا کر لائے ، آپﷺ کے ہمراہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ نے مشروب خود بھی پیا اور ان کو بھی پلایا۔
(بخاری : ۵۶۲۱،۵۶۱۳،)
سیدنا نزال بن سبرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی۔ انہوں نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا۔ انہوں نے لیا اور کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، پھر چہرہ دھویا اور دونوں بازو دھوئے ، سرکامسح کیا اور دونوں پاؤں دھوئے پھر جو بچ گیا، کھڑے کھڑے پی لیا پھر فرمایا لوگ کھڑے ہوکر پینا ناپسند کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے۔ (بخاری : ۵۶۱۵، ۵۶۱۶، ابوداؤد : ۳۷۱۸،۱۰۲)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دودھ پیا اور اس کے بعد کلی کی اور فرمایا: اس میں چکنائی ہوتی ہے۔ (بخاری کتاب الوضو: ۲۱۱، کتاب الاشربۃ، باب اللبن : ۵۶۱۱)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو میٹھا اور شہد بہت پسند تھا ۔ (بخاری ، کتاب الطب : ۵۶۸۲، ۵۴۳۱)
عمر لیاقت: آج کے بعد میں کسی کھانے کو برا نہ کہوں گا۔
لیاقت علی : یہ ہوئی نہ اچھے بچوںوالی بات ۔۔ ۔ ۔ شاباش بیٹا۔
قارئین کرام ! ہم نے اپنے سابقہ معروضات میں پانی پلانے کا اجر و ثواب بیان کیا تھا زیر نظر مضمون میں پیش خدمت ہے : کھانا کھلانے کا اجر و ثواب !
آئیں ملاحظہ فرمائیں ! اور نيکی کے اس کام میں سبقت اختیار کریں ۔
1 کھانا کھلانے کا حکم
سيدنا ابو موسي رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
فُكُّوا الْعَانِيَ يَعْنِي الْأَسِيرَ وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ (صحيح البخاري : 3046)
قیدی کو چھڑاؤ ، بھوکے کو کھانا کھلاؤ ، بیمار کی عیادت کرو ۔
2 کھانا کھلانے کی فضیلت
سيدنا صهيب رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
خِيَارُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ .
تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے۔ (صحيح الترغيب والترهيب : 948)
3 الله تعالي کے نزدیک پسندیدہ کھانا
سيدنا جابر رضي الله عنه سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
أَحبُ الطَعَام إلَى الله مَا كَثُرَتْ عَلَيه الأَيدي .
الله تعالي کے نزدیک پسندیدہ کھانا وہ ہے جس میں کھانے والے ہاتھ زیادہ ہوں ۔(سلسلة الصحيحة : 1494)
4 کھانا کھلانا افضل عمل ہے
سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
أفضلُ الأعمالِ أن تُدْخِلَ على أخيكَ المؤمنَ سروراً، أوتقضيَ عنهُ دَيْناً،أو تُطْعِمَه خُبْزاً.
یہ افضل عمل ہے کہ تم اپنے مؤمن بھائی کو خوشی پہنچاؤ یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ ۔(سلسلة الصحيحة : 1494)
5 دل کی سختی کا علاج
سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے مرفوعاً مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول الله ﷺ کی خدمت میں دل کے سختی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا :
إِنْ أَرَدْتَّ تَلْيِيْنَ قَلْبِكَ فَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ .
اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے دل میں نرمی پیدا ہو تو ، تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر ۔(مسند احمد : 7576)
6 کھانا کھلانے پر اللہ تعالی کی خوشنودی
سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : مجھے سخت بھوک لگی ہے، اور ایک روایت میں ہے : میں بھوکا ہوں ۔ آپ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا ، تو انہوں نے کہا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ہمارے پاس صرف پانی ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اس شخص کو کون کھانا کھلائےگا، یا مہمان نوازی کرے گا ؟ اللہ اس پر رحم فرمائے ۔ ایک انصاری جس کا نام ابوطلحہ تھا، نے کہا : میں ! پھر وہ لے کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا : رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارت کرو کوئی چیز چھپا کر نہ رکھو اس نے کہا : ( واللہ ) ہمارے پاس تو صرف بچوں کا کھانا ہے ابو طلحہ نےکہا : کھانا تیار کرو، چراغ درست کرو، اور جب بچے رات کا کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو، اس نے کھانا تیار کیا چراغ درست کیا اور بچوں کوسلادیا، پھر وہ کھڑی ہوئیں گویا کہ چراغ درست کر رہی ہیں اور اسے بجھا دیا، اور دونوں (ابوطلحہ اور ان کی بیوی ) مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں ۔ ( مہمان نے کھانا کھا لیا ) ان دونوں نے بھوکے رات گزاری جب صبح ہوئی ، ابو طلحہ رسول اللہ ﷺکے پاس گئے تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم دونوں کے تمہارے مہمان کے ساتھ عمل کی وجہ سے مسکرایا یا خوش ہوا، اور اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (الحشر:9)
اور یہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ خود سخت ضرورت مند ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچالئے گئے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 3272)
7 کھانا کھلانے پر جنت کی بشارت
سيدنا علي رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا ، فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ .
جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا ( یہ سن کر ) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ کس کے لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے ، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں۔ (سنن ترمذی : 1984)
اسی طرح سیدنا ھانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ :
يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بشَيْءٍ يُوجِبُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: عَلَيْكَ بِحُسْنِ الْكَلامِ، وَبَذْلِ الطَّعَامِ.
اے اللہ کے رسول ! ایسا عمل بتائیں جو جنت واجب کر دے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :اچھی بات کرنا اور کھانا کھلانا ۔(المعجم الڪبير : 470)
8 اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے کا اجر
سيدنا سعد بن ابی الوقاص رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ
بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں (کھانا) ڈالے۔(صحيح البخاري : 56)
ایک روایت کے لفظ ہیں :
إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ
جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے ۔(صحيح بخاري : 55)
9 پڑوسی کو کھانا کھلانے کا حکم
سيدنا ابوذر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ .
ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو۔(صحيح مسلم : 6688)
0 پڑوسیوں کو محروم رکھنا ایمان کے منافی ہے
سيدنا ابن عباس رضي الله عنهما سے روايت ہے رسول الله ﷺ نے فرمایا :
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِه.
وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے ۔(مسند ابي يعلي : 2699)
! غلام کو ساتھ بٹھا کر کھلانے کا حکم
سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ :
إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ فَلْيُنَاوِلْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ أَوْ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَعِلَاجَهُ .
جب تم میں کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلا دے کیونکہ اس نے ( پکاتے وقت ) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔(صحيح بخاري : 5460)
@ مساکین کو کھانا نہ کھلانے کا انجام
وہ لوگ جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن فقراء و مساکین کا خیال نہیں رکھتے ان کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ وہ قیامت کے دن جہنم میں ہوں گے اور اپنے جہنم میں جانے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ :
لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ وَلَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ .
ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے ۔(المدثر: 44)
۔۔۔