خدمت خلق ضروری کیوں ؟

اسلام ہمیں خدمت خلق کا درس دیتا ہے۔ خدمت میں اعلی درجہ انفاق فی سبیل اللہ ہے ۔اسلام معاشرے میں انفاق کے اصول متعارف کراتا ہے جو بالآخر اسے خود کفالت کی منزل عطا کرتا ہے۔ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے شہری کی زندگی سے معاشی تعطل کو دور کرے اور اسے فعال معاشی کا رکن بنائے اوراسلام نادار لوگوں کو خوش حال شہریوں کے اموال کا حصہ دار بناتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ

اور ان کےمال میں مانگنے اور نہ مانگنے والے محروم کا حق ہے۔(الذاریات19)

قرآن اسے اللہ کا قرض قرار دیتا ہے یعنی کوئی شخص اگر کسی محروم کی مدد کرتا ہے تو وہ اللہ کو قرض دے رہا ہے جس کا نفع یقینی ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا (الحدید18)

انفاق فی سبیل اللہ کی سرگرمیوں کے باوجود اگر کچھ لوگ محروم رہ جائیں تو اسلامی ریاست ان کی کفالت کا انتظام خود کرتی ہے۔

مسلمانوں کابیت المال محروموں کا ذمہ دار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :

اَنَا وَلِی لِمَنْ لَّا وَلِیَّ لَہٗ ۔(مسند احمد)

جس کا کوئی سرپرست نہیں میں اس کا سر پرست ہوں ۔

خدمت خلق قرآن وحدیث اور سیرت کی روشنی میں

۱۔کسی شخص کی مالی مدد خدمت خلق کا بہت عمدہ نمونہ ہے۔

الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى o وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزٰى o إِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلٰى o

جو پاکی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال دیتا ہے۔ کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو ۔بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے۔ (اللیل17تا20)

(۲)ضرورت مندوں کی مالی اعانت قو م کی تعمیر وترقی میں خشت اول کا درجہ رکھتی ہے۔

قرآن کا تمثیلی انداز ملاحظہ ہو:

مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيْلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھا دے۔(البقرہ:261)

(۳)قرآن مجید کا جتنا مطالعہ کیا جائےاتنی ہی خدمت خلق کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اسی وجہ سے علماء نے حقوق العباد کو حقوق اللہ پر مقدم قرار دیا ہے

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا   [الإسراء: 26]

اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو ۔خدمت خلق کا سب سے زیادہ فائدہ خدمت کرنے والے کو ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ غیب سے اس کی مدد کرتا ہے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

وَاللهُ فِيْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِيْ عَوْنِ أَخِيهِ،۔(صحیح مسلم)

اور اللہ اس بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جو اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوتا ہے

خدمت خلق کے بدلہ بہت بڑا اجر

مَنْ قَضٰى لِأَخِيْهِ الْمُسْلِمِ حَاجَةً كَانَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ خَدَمَ اللهَ عُمْرَهُ(مسند الشامین)

ترجمہ:

جس نے اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کی، گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی عمر بھر خدمت کی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی

(۳) اللہ تعالی ٰقیامت کے دن بہتر اجردے گا

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَسَا مُسْلِمًا عَلَى عُرْيٍ كَسَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ سَقَاهُ عَلَى ظَمَأٍ سَقَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ، وَمَنْ أَطْعَمَهُ عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ(کتاب الأمالی، لابن بشران، جزء الثانی)

ترجمہ:

جس نے کسی مسلمان کو لباس مہیا کیا، اللہ اسے جنت کے لباس پہنائے گا،جو شخص کسی پیاسے کو پانی پلائےگا، اللہ اسے رحیق المختوم(جنتی مشروب) میں سے پلائے گا، اور جو کسی بھوکے کو کھانے کھلائےگا، اللہ اسے جنت کے پھلوں میں سے کھلائے گا۔

مدنی دور میں چونکہ باقاعدہ اسلامی ریاست وجود میں آگئی تھی اس لیے باقاعدہ رفاہی منصوبہ بندی کا پہلو نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رفاہی اسٹیٹ کے خا لق ہیں آج کےدور میں بڑے بڑے فلاسفروں نے بہت خوبصورت نظریات پیش کیے ہیں لیکن ان کی ذاتی زندگی میں اس کا خاص اثر نظر نہیں آتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی واحد شخصیت ہیں کہ جو کہا اس پر سب سے پہلے خود عمل کیا ۔

غریب سے غریب شخص بیمار ہوتا تو عیادت کو تشریف لے جاتے ۔مفلسوں اور فقیروں کے ساتھ بیٹھتے

خدمات خلفائے راشدین

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلا م قبول کیا تو چالیس ہزار درہم تقویت اسلام کے لیے دئیے۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایسے سات لوگوں کو آزاد کیا جن کو اللہ کی وجہ سے عذاب دیا جارہا تھا

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ انسانیت کی فلاح وبہبودکے لیے کام کا عظیم جذبہ رکھنے والے انسان تھے

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رعایا کی خوش حالی وفارغ البالی کے پروگرام کو وسیع کیا اور ہر ایک کی معاشی کفالت کا اعلان کیا :

ہر مقروض کا قرض ادا کیا جائے،کمزورکی مدد کی جائے، مظلوم کی دستگیری کی جائے، ظالم کو ظلم سے رو کا جائے، ہر ننگے کو کپڑ ا پہنایا جائے۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی دولت کے ذریعے مسلمانوں کی بے پناہ خدمت کی۔

بیرمعونہ جو ایک غیر مسلم کے پاس تھا ،منہ مانگی قیمت پر خرید کرمسلمانوں کے لیے وقف کیا۔

غزوہ تبوک کے موقع پر پورے لشکر کو سامان جہاد سے لیس کردیا۔

جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مالی تعاون کی ترغیب دی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہمیشہ آگے آگے رہے۔

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بیت المال میں داخل ہوئے اور مال کو بے وقعت سی چیز سمجھتے ہوئے کہا:میں شام ہونے سے پہلے تیرے اند ر ایک درہم بھی باقی نہیں چھوڑوں گا ”۔چنانچہ سارا مال تقسیم کروادیا ۔

آپ نے ایک سال میں تین بار عطیے دئیے پھر اسی سال ان کے پاس اصفہان سے بھی مال آگیا تو انہوں نے کہا لوگو!صبح چوتھے عطیے کے لیے بھی آجاؤ۔چنانچہ انہوں نے رسیاں تک بانٹ دیں۔

خدمات امہات المو منین

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تمام جائیداد اسلام پر خرچ کردی۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہانے زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو خرید کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدمت کے لیے دے دیا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاغریبوں کی خوب مدد کرتی تھیں۔ عروہ رضی اللہ عنہ چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا نے ایک دن میں ستر ہزار مالیت کی رقم اور سامان غریبوں میں تقسیم کیا جبکہ اپنا حال یہ تھا کہ خود اپنے کرتہ میں پیوند لگا رہی تھیں ۔

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہنے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک تھیلی رقم کی بھیجی تو سیدہ سودہ رضی اللہ عنہانے ساری کی ساری تھیلی تقسیم کردی۔

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کچھ لوگ مانگنے آئے تو آپ رضی اللہ عنہانے کہا سب کو کچھ نہ کچھ دے دو خواہ ایک ایک کجھور ہی کیوں نہ ہو ۔

سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا

مسکینوں پرکثرت سے خرچ کرنے کی وجہ سے ان کا نام ’’ام المساکین‘‘ پڑ گیا ۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار سالانہ وظیفہ مقرر کیا جب آپ کو ملا آپ نے سب ضرورت مندوں میں تقسیم کروادیا ۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھتے ہوئے مزید ایک ہزار کی رقم بھیجی لیکن انہوں نے اسےبھی خرچ کردیا۔

خدمات مسلم حکام وعلماء

بےشمار مسلمان حکمران اور عہدےدران عوام کی خدمت میں پیش پیش رہے ۔اس حوالہ سے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کانام سر فہرست ہے ۔آپ نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی، عجز وانکساری اور دیانت داری کی شان دار مثال قائم فرمائی۔انہوں نے اپنی ساری دولت بیت المال میں جمع کرادی اور ضرورت کے بقدر روپیہ لیا ۔

ایک موقعہ پر ان کی بیوی فاطمہ رحمہا اللہ نے انہیں نمازکے بعد روتے ہوئے پایا، پوچھنے پر انہوں نے جواب دیا:

اے فاطمہ ! مجھے مسلمانوں اور غیرمسلموں کی ایک بڑی تعداد پر حکمران بنایا گیا ہے ۔میں اپنی سلطنت میں مفلسوں ،بھوکوں ،ننگوں ،بیماروں ،مصیبت زدہ لوگوں ، تباہ حالوں ، مظلومو ں ،محروموں ،اسیر وں، قابل احترام بزرگوں ،تھوڑی آمدنی اور بڑا کنبہ رکھنے والوں اور ایسے ہی لوگوں کا خیا ل کرتا رہا ہوں (میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اپنے لوگوں کی بھلائی کے لیےجو کا م کیے ہیں روز محشراللہ مجھ سے ان کا حساب مانگے گا۔ میں ڈرتا ہوں کہ اللہ کو ٹھیک ٹھیک حساب دینے میں ناکام نہ ہوجاؤں)

علماء وبزرگان دین نے اپنی زندگیاں عوامی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔

علما ء کرام مساجدو مدارس کے ذریعے عوام کی دینی خدمت سرانجام دیتے ہیں ۔

بہت سےعلماء نے عوامی خدمت کے جذبہ کے تحت مختلف رفاہی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔

خدمات کے تین انداز

(۱)اپنا مال ضرورت مندوں کے لیے وقف کیا جائے

(۲)اپنا وقت اور زندگی وقف کی جائے

(۳)نہ مال نہ وقت بلکہ اپنے تعلقات اوراثرورسوخ کے ذریعے لوگوں کے کا م کروائے جائیں

اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی بڑی قدر ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے۔

معاشرتی تعاون

اسلام کا باہم معاشرتی تعاون کا اصول قرآن وسنت کی مختلف نصوص سےثابت ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

انَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ (الآداب للبيهقي 36)

بیشک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسے ہے جیسےکوئی عمارت، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کر دیں۔

اخلاقی تعاون

اسلام معاشرے کو عام اخلاقی قدروں کا محافظ سمجھتا ہے اس کی وجہ سے معاشرے کے لیے لازم ہے کہ وہ اخلاقی قدروں کو پامال کرنے والوں کو برا جانے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ۔
(مسند أحمد ط الرسالة (18/ 42)

جو کوئی برائی کو دیکھےپس اس کو اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ کمزور ایمان ہے۔

علمی تعاون

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم پر لازم کیا ہے کہ وہ جاہل کو پڑھائے اور جاہل پر فرض ہے کہ وہ عالم سے سیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَلْعَالِمُ وَالْمُتَعَلِّمُ شَرِيكَانِ فِي الْأَجْرِ، وَلَا خَيْرَ فِي سَائِرِ النَّاسِ (سنن ابن ماجه (1/ 83)

عالم اور متعلم دونوں اجر میں برابر کے شریک ہیں جبکہ باقی لوگوں میں کوئی خیر نہیں ۔

معاشی تعاون

اصحاب صفہ غریب تھے۔

ان کے پاس بعض اوقات کھانے کوکچھ بھی نہ ہوتا تھا۔ ان کے بارے میں روایات میں آتا ہے:

أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا نَاسًا فُقَرَاءَ وَإِنَّ رَسُولَ اللّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ مَرَّةً مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلاَثَةٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ .

جس کے پاس دو افراد کا کھا نا ہو اسے چاہیے کہ وہ اس میں تیسرے کو بھی شامل کرلے اور اگر چار کا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس میں پانچویں کو بھی شامل کرلے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَبِيتُ شَبْعَانَ وَجَارُهُ إِلَى جَنْبِهِ جَائِعٌ (شرح معاني الآثار (1/ 28)

وہ مومن نہیں جس نے خود تو پیٹ بھر کر رات بسر کی اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہا۔

ریاست کی ذمہ داری

اسلامی ریاست کے تمام باشندوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کا اہتمام کرناریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان کی بنیادی ضروریات میں خوراک، لباس، رہائش، تعلیم، علاج اور انصاف خاص طور پر شامل ہیں۔

ان چیزوں کی فراہمی کی ذمہ داری اسلامی ریاست کا انتظام و انصرام چلانے والوں کو سونپی گئی ہے اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے سخت وعید آئی ہے ۔چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ۔

جس شخص کو اللہ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا اورا س نے ان کے ساتھ پوری خیر خواہی نہ برتی تو وہ جنت کی خوشبو نہ پاسکے گا۔(صحيح البخاري (9/ 64)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

لو مات جمل ضیاعا علی شط الفرات لخشیت أن یسأ لنی اللہ عنہ۔

اگر ساحل فرات پر کوئی بے سہارا اونٹ مرجائے تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے بارے میں پوچھیں گے۔

این جی اوز کے قیام کے مقاصد

عوام کی فلاح وبہبود کے لیے جو بھی فنڈز دیئے جاتے ہیں ان کی مثال برف کے اس ٹکڑے کی مانند ہوتی ہے جو مختلف ہاتھو ں سے ہوتا ہوا جب منزل تک پہنچتا ہے تو بہت معمولی رہ جاتا ہے۔

اس کرپشن کو روکنے کے لیے فیصلہ کیا گیا تھا کہ مختلف غیر سرکا ری تنظیموں کی مدد سے ضرورت مندوں کی براہ راست مدد کی جائے بظاہر تو یہ ایک اچھی تجویز تھی۔

این جی اوز کے ظاہری مقاصد میں چند چیزیں یہ تھیں۔

غریب اور پسما ندہ علاقوں کے لوگوں کی مدد

تعلیمی معیارکی بہتر ی

cپینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی

cعوام کی فلاح وبہبود کے لیے سماجی ادارے کاقیام

cبوڑھوں، بچوں اور خواتین کی بھلائی کے منصوبے بنانا

cمگرچونکہ معاملہ پیسے کا تھا ،دل بے ایمان ہوگئے!

cجب پاکستان میں این جی اوز کی چھان بین شروع کی گئی تو محسوس ہوا جیسے گیلی اور گندی جگہ سے بڑی اینٹ اٹھا دی گئی ہو ،بے شمار کیڑے ، مکوڑے اور زہریلے سانپ باہر نکل آئے اور اینٹ اٹھانے پر بھنکارنے لگے!!!

cبیرونی امداد سے چلنے والی ان این جی اوز کے کارکن اور نمائندے عام طور پر ٹیرھے منہ سے انگریزی بول کر لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کو اگر ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہو گا

cفایئو سٹار ہوٹلوں اور بڑے بڑے ہالوں میں منعقد ہونے والے اجلاسوں کے دوران ان کی تقاریر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارے جہاں کا درد ان کے سینے میں سمایا ہوا ہے لیکن عالیشان ایئر کنڈیشنڈ بنگلوں میں بیٹھے حقوق انسانی کے ان علمبردار وں کو کیا خبر کی ایک غریب اور مفلس انسان کے لیے زندگی کیوں عذاب بن جاتی ہے؟ جنہوں نے زندگی میں کبھی ایک رات بھی کسی جھونپڑی میں بسر نہیں کی، انہیں کیا خبر کہ ایک غریب خاتون کو اپنے کچے آنگن میں کن مسائل اور مصائب کی پر خطر وادیوں سے واسطہ پڑتا ہے ؟

cاگر یہ عورتوں کی فلاح وبہبود کی دعوے میں مخلص ہیں تو موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں ایک ہفتہ کسی ایسے دیہات میں گذاریں جہاں بجلی نہیں، انہیں کیا خبر کہ گرمیوں کے جھلستے موسم اور تپتی دوپہروں میں جب سورج سر پر ہو اور اس کی کرنیں شعلے برسارہی ہوں تو ایسے میں ایک باپردہ دیہاتی عورت اپنے سر پر گھاس یا لکڑیوں کی بھاری گٹھری رکھے برہنہ پاؤں دہکتی زمیں پر چلتی ہے تو اس پر کیا بیت رہی ہوتی ہے؟

cکیا این جی اوز اس جیسی خاتون کے مسائل کا ادارک کرسکتی ہیں؟؟؟

cغیرمسلم ممالک سے ا مداد حاصل کرنے والی یہ این جی اوز شعوری یا غیر شعوری طور پر پاکستان میں اسلامی قدروں کی پامالی، خاندانی نظام کی تباہی اور ہماری ثقافت بگاڑنے کے لیے کام کررہی ہیں۔

این جی اوز عام طور پر ان دل فریب عنوانات کے تحت کام کرتی ہیں

cبچوں کی بہبودcنوجوانوں کی بہبود cخواتین کی فلاح وبہبودcتعلیمcبوڑھے افراد کی بھلائی cمریضوں کی فلاح وبہبودcجسمانی اور ذہنی معذوروں کی بھلائیcقید کی سزا بھگت کر جیلوں سے آنے والے افراد کی بھلائی اور بحالیcسماجی طور پر پسماندہ افراد کی بھلائی

این جی اوز کا ایجنڈا

بظاہر تو ان کا ایجنڈاسماجی فلاح وبہبود ہے ،لیکن ان کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کا حقیقی ایجنڈا

۱)شریعت اور قرآن مجید کو ناقابل عمل قرار دلوانا

۲)جہاد کو دہشت گردی قرار دینا

۳)قانون توہین رسالت کو ختم کرنا

۴) قوانین ِحدود میں ترمیم کروانا

۵)آزادیٴ اظہار رائے کی آڑ میں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسےگستاخانِ رسول کی حمایت کرنا

۶)دینی مدارس پر پابندی لگوانا

۷)اسلامی تعلیمات کا خاتمہ

۸)مخلوط نظام تعلیم کا فروغ

۹)اسلامی کلچر کی بجائے مغربی ثقافت کو پروان چڑھانا

۱۰)وطنِ عزیزکے ایٹمی پروگرام کی مخالفت

۱۱)ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مجرم ثابت کرنا

۱۲)دفاعی بجٹ پر اعتراض اور فوج کا سائز کم کرنے پر زور

۱۳)مسئلہ کشمیر پر قومی مؤقف کو سبوتاژ کرنا

۱۴)ہم جنس پرستی کو فروغ دینا

۱۵)خاتون خانہ کو گھر سے نکال کر شمع محفل بنانا

۱۶)طوائفوں کو جنسی ورکر قرار دے کر اس مذموم پیشے کو پشت پناہی فراہم کرنا

۱۷)گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو جائے پناہ دے کر خاندانی نظام سے متنفر کرنا

۱۸)خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے حمل سے بچاؤکی ادویات، اسقاط حمل اور کنڈوم کلچر کو فروغ دے کر معاشرہ میں بے راہ روی اور فحاشی پھیلانا

این جی اوز کی فنڈنگ کی رپورٹ کے مطابق این جی اوز کے 2003ء کے اعداد و شمار کے مطابق (ظاہری فنڈ12ارب 40کروڑ سے متجاوز ہیں) جبکہ وہ خفیہ فنڈ جو ابھی تک کسی حکومتی ادارے کی تحویل میں نہیں آئے ان کی مالیت کئی گناہ زیادہ ہے۔

رجسٹریشن کروانے والی تنظیمیں اگر چاہیں تو حکومتی رفاہی فنڈز مثلاً پی ایس ایس بی، زکوۃ اور بیت المال وغیرہ سے حصہ لے سکتی ہیں۔

یہ تنظیمیں بیرونی ممالک سے بھاری فنڈز وصول کرتی ہیں

چنانچہ یہ تنظیمیں بیرونی ملکوں کی امداد کے علاوہ حکومت پاکستان سے بھی اربوں روپے کی امداد وصول کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان کے زکوۃ فنڈ سے بھی کئی آرگنائیزیشنز کروڑوں روپے وصول کر رہی ہیں۔

این جی اوز کے سالانہ اخراجات 13 ارب روپے ہیں ، باقاعدہ ملازمین کی تعداد 3لاکھ اور رضاکار 2لاکھ ہیں۔

تعلیم کے نام پر این جی اوز کے ہاتھ کی صفائی

خاتون ممبر پنجاب اسمبلی عارفہ خالد نے سوال اٹھایا بلکہ آواز بلند کی کہ این جی اوز کو سرکاری اسکول تھوک کے حساب سے دینے کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور اس معاملے میں سنجیدگی سے کارروائی کی جائے۔

صوبائی وزیر تعلیم مجتبیٰ شجاع الرحمن نے ایوان کو بتایا کہ 1164 سرکاری سکول این جی اوز کو دئیے گئے جن میں 300 سے زائد صرف لاہور میں ہیں۔

این جی اوز کو تعلیمی ادارے دینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ این جی اوز فارن فنڈڈ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عالمی ایجنڈے پر چلنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے اورعالمی ایجنڈا اسلام اور پاکستان مخالف ہوتا ہے۔ لہٰذا ان اسکولوں میں پڑھنے پڑھانے والے افراد کی اسلام اورپاکستان کے خلاف غیر شعوری طور پر ذہن سازی ہوتی رہتی ہے۔دوسری بات یہ کہ جتنے سکول این جی اوز نے لئے ہیں ان میں سے ایک سکول بھی ایسا نہیں جس نے کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھائی ہو۔

مآخذ ومراجع

القرآن/الاحادیث/ خدمت خلق ورفاہ عامہ ڈاکٹر صلاح الدین ثانی/ اسلام اور کفالت عامہ ڈاکٹر طاہر القادری

دینی اور رفاہی ادارے سعدالرشید منصور

حقوق انسانی کی آڑ میں محمد متین خالد

انسانی تحریک کی خطرناک تحریک ابو عدنان محمد منیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے