خواب ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی کوئی قوم،نسل اور انسان ایسا نہیں ہے جس نے اپنے خوابوں میں اپنے شاندار مستقبل کی تعمیر نہ کی ہو۔ انبیاء ورسل علیہم السلام نے خواب میں فرامین الٰہی اور احکامات شریعت سے آگاہی پائی تو بادشاہوں نے اس کے آئینہ میں اپنی حکومتو ں کا عروج وزوال دیکھا۔ علماء کرام اور فلاسفہ نے خواب کے ذریعہ اپنی گھتیاں سلجھائیں ، مومن خواب میں خوشخبریوں اور بشارتوں سے محظوظ ہوئے تو کفار ومشرکین اور برائیوں کے دلدل میں پھنسے لوگ اس کے ذریعہ سے متنبہ ہوتے رہے۔ اطباء اور ڈاکٹروں کے لیے خواب بیماریوں کی تشخیص کا سبب بنا تو مریضوں اور بیماروں کے لیے شفایابی کی خوشخبری یا موت کی آگاہی کا وسیلہ بنا الغرض خواب ایسی حقیقت ہے کہ اس سے مفر نہ تو کسی حاکم کو ہے اور نا محکوم کو اس سے گریز ہے ، نہ ظالم اس سے محفوظ ہے اور نہ مظلوم اس سے محروم خواب ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے ۔
خواب زندگی ہے اور زندگی خواب ہے ہم شب وروز اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان جہاں بہت سارے اچھے خوابوں کو دیکھ کر خوش ہوتاہے وہیں کچھ ناپسندیدہ خوابوں کو دیکھ کر حیران وپریشان بھی ہوتاہے یہی نہیں بلکہ خوابوں کے تعلق سے جب ہم اپنے سماج ومعاشرہ میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس تعلق سے لوگوں کے عجیب وغریب قسم کے عقائد وافکار کا پتا چلتا ہے۔ بعض لوگ جہاں خوابوں کی حقیقت کا ہی انکار کرتے ہیں تو کچھ لوگ خوابوں کو اس عقیدت سے دیکھتے ہیںگویا کہ وہ کوئی شرعی حکم ہو، جس پر عمل کرنا ضروری ہو۔یہی وجہ ہے کہ بعض ایسے لوگ جو کہ خوابوں کے تعلق سے وارد کتاب وسنت کے احکامات سے ناواقف ہوتے ہیں ، جب کوئی خوفزدہ خواب دیکھتے ہیں تو عام زندگی میں اس کے اثرات سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں اسی طرح سے جب بہتر خواب دیکھتے ہیں تو اس پر خودساختہ عقائد واعمال کی عمارت بنانے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ ہمہ گیر،آفاقی اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس میں زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح خوابوں کے بھی آداب کو تفصیلی طور پر بیان کیاگیاہے۔ اس وجہ سے کہ ہر انسان کی زندگی میں خواب جزء لا ینفک کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ زیر نظر مضمون میں خواب کے تعلق سے کتاب وسنت کے شہ پاروں سے ایسے ہی بعض آداب واحکام کو قلمبند کرنے کی سعی کی گئی ہے کہ جن کے تعلق سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں اس امید سے کہ یہ چند سطور ہمارے لیے خوابوں کے تعلق سے صحیح اسلامی معلومات سے آگاہی اور غلط افکار وخیالات کے ازالے کا سبب بنیں گے۔إن شاء اللہ۔

قرآن پاک میں خوابوں کا تذکرہ :

اسلام میں سچے خوابوں کوایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ قرآن کریم میں انہیں بشریٰ اور حدیث میں مبشرات کہا گیاہے قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ چھ خوابوں کا ذکر آیا ہے ان میں سے تین خواب تین عظیم پیغمبروں یعنی سیدنا ابراہیم،سیدنا یوسف اور سیدنا محمد علیہم السلام کے ہیں دو خواب سیدنا یوسف علیہ السلام کے دو رفقائے کارزنداں
اور ایک خواب عزیز مصرنے دیکھا تھا ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب :
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتاہے :

قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يـٰٓاِبْرٰهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا (الصافات : 102۔105)

’’(ابراہیم علیہ السلام) نے کہا کہ میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے بیٹے نے جواب دیا کہ اباجان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ۔‘‘
اس خواب کی تفصیل یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ نے اولاد کی دعا مانگی جو قبول ہوئی آپ ایک صالح بیٹے کے باپ بنے جب بچہ بڑا ہوکر دوڑنے کی عمر کو پہنچا تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ آپ بیٹے کو ذبح کررہے ہیں ۔ انبیاء کرام کے خواب وحی ہوتے ہیں اس لیے آپ سمجھ گئے کہ یہ خواب اللہ کی طرف سےدکھایا گیا ہے ۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کا خواب :
اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا ہے :

اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ

’’جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔‘‘ (یوسف : 4)
سیدنا یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج وچاند آپ کو سجدہ کررہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر برسوں بعد اس وقت سامنے آئی جب برسہا برس کی گمشدگی کے بعد سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام سے ملے اور والدین اور گیارہ بھائیوں نے آپ کو تعظیماً سجدہ کیا۔

نبی آخر الزماں محمد ﷺ کا خواب :

مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ سے پہلے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ صحابہ کرام کے ہمراہ حلق اور قصر( سرمونڈھوا کر اور بال کترا کر) مکہ میں داخل ہورہے ہیں۔ جب آپ نے اس کا تذکرہ صحابہ کرام سے کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور سمجھ بیٹھے کہ اسی سال ہم مکہ میں داخل ہوں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا خواب برحق ہوتاہے جب اس سال مسلمان مکہ میں داخل نہ ہوسکے تو عبد اللہ بن ابی،عبد اللہ بن کفیل اور رفاعہ بن حرث جیسے منافقین نے کہا کہ ہم نے تو نہ سر مونڈھائے اور نہ بال کترائے۔ ادھر کچھ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ  سے گویا ہوئے کہ اے اللہ کے رسول! آپ کے خواب کا کیا ہوا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کرکے خواب کے برحق ہونے کا اعلان کردیا۔

لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا کہ انشاء اللہ تم یقیناً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے سر منڈواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر ، وہ ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی۔‘‘ (الفتح :27)
سیدنا یوسفu کے دونوںجیل کے ساتھیوں کا خواب
سیدنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ جیل میں موجود دو لوگوں نے خواب دیکھے ایک نے دیکھا کہ وہ انگور سے شراب نچوڑ رہا ہے اور دوسرے نے دیکھا کہ وہ روٹی کا طباق سر پر اٹھائے تھا اور پرندے اس میں سے روٹیاں کھا رہے تھے ۔ پہلا شخص بادشاہ کے دربار میں ساقی تھا اور اب معزول ہوکر قید کیاگیا تھا اور دوسرا شخص نانبائی تھا جسے اب قید میں ڈالا گیا تھا ان دونوں نے ایک ہی رات میں خواب دیکھے اور اس کی تعبیر سیدنا یوسف علیہ السلام سے دریافت فرمائی۔ انہوں نے بتایا کہ تم میں سے ایک شخص اپنے مالک کو شراب پلائے گا یعنی اس کا انتہائی قریبی بنے گا جبکہ دوسرے کو سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور اس کے سر کو پرندے نوچ نوچ کر کھائیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں واقعات کو یوں بیان کیا ہے :

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ قَالَ اَحَدُهُمَآ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِيْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ(یوسف : 36)

’’اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتائیے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَّاْسِهٖ قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْهِ تَسْتَفْتِيٰنِ (یوسف:41)

’’اے میرے قید خانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا ہے ۔‘‘

عزیز مصر کا خواب :

عزیز مصر نے ایک موقع پرخواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات لاغر گائیں کھا گئیں نیز سات ہری اور سات خشک بالیاں ہیں ۔ بادشاہ نے درباریوں سے اس کی تعبیر پوچھی لیکن سبھوں نے اسے خواب پریشاں بتاکرتعبیر بتانے سے منع کردیا ۔سیدنا یوسف علیہ السلان کے جیل کے ساتھیوں میں سے ساقی عزیز مصر کے یہاں نوکری پر بحال ہوگیا تھا اس کے ذہن سے یوسف نکل گئے تھے لیکن اس خواب کے موقع پر یاد آئے تو اس نے بادشاہ سے اجازت لی اور سیدنا یوسف علیہ السلام کےپاس جاپہنچا اور خواب کا تذکرہ کیا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اس کی تعبیر بتائی کہ آئندہ سات سال تم لوگ کھیتی کروگے اور اس کے بعد سات سال قحط سالی کے ہوں گے لہٰذا ایسا کرو کہ جو بھی غلہ بونا اور اسے جب کاٹنا تو اسے بالی ہی میں رہنے دینا تاکہ اس میں گھن نا لگے تاکہ قحط سالی کے ایام میں اسے کھا سکو ۔ اللہ تعالیٰ نے اس خواب اور اس کی تعبیر کا نقشہ قرآن کریم میں کچھ یوں کھینچا ہے

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ اَفْتِنَا فِيْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ لَّعَلِّيْٓ اَرْجِعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُوْنَ قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْبُلِهٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيْهِ يَعْصِرُوْنَ (یوسف : 46۔49)

’’اے یوسف! اے بہت بڑے سچے یوسف! آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلایئے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات ہی دوسرے بھی بالکل خشک ہیں، تاکہ میں واپس جا کر ان لوگوں سے کہوں کہ وہ سب جان لیں ۔یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا، اور فصل کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے۔اس کے بعد سات سال نہایت سخت قحط کے آئیں گے وہ اس غلے کو کھا جائیں گے، جو تم نے ان کے لئے ذخیرہ رکھ چھوڑا تھا سوائے اس تھوڑے سے کے جو تم روک رکھتے ہو ۔اس کے بعد جو سال آئے گا اس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس میں (شیرہ انگور بھی) خوب نچوڑیں گے ۔‘‘

حدیث کی روشنی میں خوابوں کی قسمیں :

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ: فَبُشْرَى مِنَ اللهِ وَحَدِيثُ النَّفْسِ وَتَخْوِيفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِنْ رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا تُعْجِبُهُ فَلْيَقُصَّهَا، إِنْ شَاءَ وَإِنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلَا يَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ وَلْيَقُمْ يُصَلِّي

’’خواب تین قسم کے ہوتے ہیں ایک اللہ کی طرف سے خوشخبری، دوسرے دل کے خیالات اور تیسرے شیطان کی طرف سے خوفزدہ کرنے کے لیے برے اور ڈراؤنے خواب لہذا تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے اچھا معلوم ہو تو چاہیے بیان کر دے اور اگر ناپسندیدہ چیز دیکھے تو کسی کو نہ بتائے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھے۔ (صحیح بخاری : 7017۔ سنن ابن ماجہ : 3906)
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

  إِنَّ الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ: مِنْهَا أَهَاوِيلُ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ بِهَا ابْنَ آدَمَ، وَمِنْهَا مَا يَهُمُّ بِهِ الرَّجُلُ فِي يَقَظَتِهِ، فَيَرَاهُ فِي مَنَامِهِ، وَمِنْهَا جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

’’خواب تین قسم کے ہوتے ہیں ، بعض خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں وہ شیطان کی طرف سے انسان کو پریشان کرنے کے لیے ہوتے ہیں ، بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان بیداری کی حالت میں جو کچھ سوچتا رہتاہے وہی کچھ خواب میں اسے نظر آجاتاہے اور بعض خواب وہ ہیں جو نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔ ( سنن ابن ماجہ : 3907)
سابقہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خوابوں کی تین قسمیں ہیں :
1 اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن کے لیے خوشخبری پر مشتمل خواب
2 مومن کو پریشان کرنے کے لیے شیطانی وسوسے اور ڈراؤنے خواب
3 دن بھر کی مصروفیات ، منصوبوں اور خیالات کا نیند میں نظر آنا
خواب دیکھنے والوں کی قسمیں :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خواب دیکھنے والوں کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے ۔
1 انبیائے کرام علیہم السلام : ان کے خواب سچے اور مبنی برحقیقت ہوتے ہیں اگرچہ ان کے چند خواب تعبیر کے محتاج ہوتے ہیں ۔
2 نیک لوگوں کے خواب : ان کے اکثر وبیشتر خواب سچے ہوتے ہیں جبکہ کبھی کبھار اس کے برعکس صورت حال بھی ہوسکتی ہے۔
3 عام لوگ : ان کے خواب سچے اور جھوٹے دونوں قسم کے ہوتے ہیں اس لحاظ سے ان کی مزید تین قسمیں ہوں گی ۔
۱۔وہ لوگ جو نیکی کا کام کرتے ہیں اور ان سے غلطیاں بھی صادر ہوتی ہیں تو ایسے لوگوں کے خواب اکثر غیر واضح ہوتے ہیں ۔
۲۔وہ لوگ جو دھڑلے سے چھوٹے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے خواب عموما پریشان کن اور عجیب وغریب ہوتے ہیں ۔
۳۔کفار اور بددین لوگوں کے خواب : ان کے اکثر خواب جھوٹے اور شیطانی وسوسے ہوتے ہیں البتہ کبھی کبھار ان کے خواب بھی سچ ہوسکتے ہیںجیسے سیدنا یوسف علیہ السلام کے دو قیدی ساتھیوں کے خواب یا فرعون کا خواب وغیرہ۔ (فتح الباری 15/449)
خواب کے تعلق سے بعض حقائق :
1 سچے اور بہترین خواب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے :سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللهِ وَالحُلُمُ مِنَ الشَّيْطَانِ

’’ اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے ۔‘‘ (صحیح بخاری : 3292)
اس روایت کی مزید وضاحت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يُحِبُّهَا فَإِنَّهَا مِنَ اللہِ فَلْيَحْمَدِ اللهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِّثْ بِهَا وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ شَرِّهَا وَلاَ يَذْكُرْهَا لِأَحَدٍ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ (صحیح بخاری: 7045)

’’ جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور اسے چاہے تو بیان کرے اور اگر ناپسندیدہ خواب دیکھے تو جان لے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے چنانچہ اس تعلق سے اللہ کی پناہ کا طالب ہو اور اسے کسی سے بیان نہ کرے کیونکہ وہ خواب اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتاہے۔ ‘‘
درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی اچھے اور برے ہر طرح کے خوابوں کا خالق ہے لیکن کمال ادب کا تقاضایہ ہے کہ شرکی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کرکے شیطان کی طرف کی جائے کیونکہ وہ چیز شیطانی فطرت اور اس کی طبیعت سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔
2 خواب مالک کائنات کی طرف سے بشارت ہے :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا المُبَشِّرَاتُ قَالُوا: وَمَا المُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ

’’ نبوت میں صرف بشارتیں ہی رہ گئی ہیں صحابہ کرام نے پوچھا : بشارتوں سے کیا مقصود ہے؟ آپ نے فرمایا ’’ سچے خواب‘‘۔(صحیح بخاری:6990۔صحیح مسلم:2263)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يَرَاهَا الْمُسْلِمُ، أَوْ تُرَى لَهُ

’’ اے لوگو! خوشخبری دینے والی نبوت میں سے صرف بہترین خواب ہی باقی رہ گیا ہے جو کوئی مسلم دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتاہے۔ (صحیح مسلم:479)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ: فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ، قَالَ: قَالَ: وَلَكِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: رُؤْيَا الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ، وَهِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ (مسند احمد : 13824 ،سنن ترمذی:2272۔ مستدرک حاکم)

’’ رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا چنانچہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگوں پر رسول اللہ ﷺ کی یہ بات ناگوار گزری تو آپ نے فرمایا ’’سوائے مبشرات اور خوشخبریوں کے‘‘ صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا ’’ مسلمان کا خواب ، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔‘‘
3 سچا خواب نبوت کا جزء ہے : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

الرُّؤْيَا الحَسَنَةُ، مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ، جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ (صحیح بخاری : 6983)

’’ نیک آدمی کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں وارد ہے :
’’ اچھے خواب نبوت کا پچیسواں حصہ ہے۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سچے خواب نبوت کا سترہواں حصہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ مختلف روایتیں ہیں جن میں ایک بات مشترک ہے کہ خواب نبوت کا حصہ ہے لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ نبوت کا کونسا حصہ ہے؟ اس تعلق سے ہم نے دیکھا کہ روایتوں میں تین طرح کی باتیں وارد ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ خواب نبوت کا چھیالیسواں جزء ہے ، دوسری روایت میں ہے کہ یہ نبوت کا پچیسواں حصہ ہے جبکہ تیسری روایت میں ہے کہ سترہواں حصہ ہے تو اس تعلق سے علمائے کرام نے لکھا ہے کہ یہ اختلاف خواب دیکھنے والے انسان کی حالت کے اعتبار سے ہے۔ انسان جس قدر نیک ہوگا اس کا خواب اسی کے بقدر نبوت سے قریب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
4قرب قیامت مومن کے خواب ہوبہو سچے ثابت ہوں گے : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ تَكْذِبُ

’’ جب قیامت قریب ہوگی تو مسلم کے خواب بہت کم ہی جھوٹے ہوں گے۔‘‘ (صحیح بخاری:7017۔ صحیح مسلم : 2263)
اس روایت میں تقارب زمان سے کیا مقصود ہے ؟ اس تعلق سے دو اقوال ہیں :
پہلا قول یہ ہے کہ جب رات دن برابر ہوں، اس وقت مومن کے خواب زیادہ سچ ثابت ہوتے ہیں اسی قول کو اکثر علماء تعبیر نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا قول ہے کہ اس سے مراد قرب قیامت کا وقت ہے اس کی تقویت دوسری حدیثوں سے بھی ہوتی ہے۔ (شرح مسلم للنووی15/20)
5 سچے اور نیک انسان کے خواب سچ ہوتے ہیں : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے ارشاد فرمایا :

وَأَصْدَقُكُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُكُمْ حَدِيثًا (صحیح مسلم:2263)

’’ تم میں بات چیت میں جو انسان سب سے سچا ہوگا اس کے خواب اسی قدر سچے ہوں گے۔‘‘
بعض روایتوں میں وراد ہے کہ وقت سحر کے خواب سچے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک روایت میں ہے
أَصْدَقُ الرُّؤْيَا بِالْأَسْحَارِ (ملاحظہ ہو : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للشیخ الألبانی : 1732)
’’ سحر کے وقت کے خواب سب سے سچے ہوتے ہیں ‘‘۔ یہ اور اس معنی کی دوسری روایتیں ثابت نہیں ہیں ۔
6 جھوٹ موٹ کا خواب بیان کرنا سخت گناہ ہے :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ تَحَلَّمَ حُلُمًا كَاذِبًا، كُلِّفَ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ، وَيُعَذَّبُ عَلَى ذَلِكَ

’’ جس نے جھوٹا خواب بیان کیا اسے جو کے دو دانوں کو ایک دوسرے سے گرہ لگانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ ایسا نہیں کرسکے گا چنانچہ اسے اس وجہ سے عذاب دیاجائے گا۔ ‘‘ (صحیح بخاری : 6635۔ سنن ابن ماجہ : 3916)
اچھے خواب دیکھنے والے کیا کریں ؟
اگر کوئی شخص اچھا خواب دیکھتا ہے تو اسے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ،کبریائی اور بزرگی بیان کرنی چاہیے اسی طرح ایسا انسان اپنا خواب دوسروں سے بھی بیان کر سکتاہے البتہ اسے لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ کسی حاسد یا غلط انسان سے نہ بیان کرے کہ وہ اس کے خلاف سازش کرنے لگے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا :

إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يُحِبُّهَا، فَإِنَّهَا مِنَ اللهِ فَلْيَحْمَدِ اللهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِّثْ بِهَا (صحیح بخاری : 7045)

|’’ جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور اسے چاہے تو بیان کرے۔‘‘
اگر کوئی شخص برا خواب دیکھے تو کیاکرے ؟
اگر کوئی شخص برا یا ڈراؤنا خواب دیکھے تو اسے مندرجہ ذیل امور کی انجام دہی کرنی چاہیے ۔
1 اس خواب کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہ کرے ۔ اس موقف کی تائید سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ شَرِّهَا وَلاَ يَذْكُرْهَا لِأَحَدٍ، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ

’’ اور اگر ناپسندیدہ خواب دیکھے تو جان لے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے چنانچہ اس تعلق سے اللہ کی پناہ کا طالب ہو اور اسے کسی سے بیان نہ کرے کیونکہ وہ خواب اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتاہے ۔(صحیح بخاری : 7045)
2 شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور تین بار بائیں طرف تھوکے ۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللهِ وَالحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ فَمَنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَنْفِثْ عَنْ شِمَالِهِ ثَلاَثًا وَلْيَتَعَوَّذْ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهَا لاَ تَضُرُّهُ (صحیح البخاری ومسلم)

’’ سچے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو برے خیالات شیطان کی طرف سے لہٰذا جب تم میں سے کوئی خواب میں ایسی چیز دیکھے جسے وہ ناپسند کرتاہے تو اپنے بائیں جانب تین بار تھوکے ، پھر اس کے شر سے پناہ طلب کرے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔
3 اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

فَمَنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلاَ يَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ وَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ (صحیح البخاری7017)

’’اگر کوئی شخص کچھ ناپسندیدہ چیز دیکھے تو کسی سے نہ بتائے اور کھڑا ہوکر نماز پڑھے۔‘‘
4 برے خیالات اور پریشان کن خواب کے بعد انسان کو چاہیے کہ کروٹ اور پہلو تبدیل کر دے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يَكْرَهُهَا، فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا وَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ثَلَاثًا، وَلْيَتَحَوَّلْ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ (صحیح مسلم2262)

|||’’ جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اپنی بائیں طرف تین بار تھوکے ، تین مرتبہ شیطان سے پناہ مانگے اور جس پہلو پر ہو اس کو بدل دے۔‘‘
5 برے خیالات اور گندے خوابوں کی تفسیر وتعبیر کرنے سے باز رہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے

إذا رأى أحدكم الرؤيا تعجبه فليذكرها وليفسرها وإذا رأى أحدكم الرؤيا تسوءه فلا يذكرها ولا يفسرها (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 3/328)

’’ جب تم میں سے کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو اسے دوسروں سے بیان بھی کرے اور اس کی تفسیر وتعبیر بھی کرے اور اگر کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے پریشان کردے تو اسے کسی سے نہ تو بیان کرے اور نہ ہی اس کی تفسیر وتعبیر کرے۔‘‘
اگر ہم برے خیالات ، شیطان وسوسوں اور پریشان کن خوابوں سے بچنا چاہتے ہیں تو شریعت اسلامیہ نے سونے سے پہلے جو اذکار ،اعمال ووظائف بتائے ہیں ان کا اہتمام کرنا چاہیے نیز ہمیں اپنے اعمال وکردار کا محاسبہ کرنا چاہیے اگر ہمارے احوال درست ہوجائیں گے تو ایسی صورت میں ہم پریشان کن خوابوں سے نجات پاجائیں گے اور پریشان کن خیالات اور شیطانی وسوسے ہمیں حیران وپریشان نہیں کریں گے۔

خواب اور تعبیر کے چند راہنما اصول :

خواب کی تعبیر میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے عموماًلوگ خواب کے تعلق سے ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ اس کی تعبیر میں جلد بازی کرتے ہیں اور تعبیر نہ بھی جانتے ہوں تو اپنی طرف سے منمانی باتیں کہنا شروع کردیتے ہیں یا پھر اٹکل پچھوہانکنے لگتے ہیں یہ بیماری خواتین کے اندر کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی خواب دیکھ لے تو جب تک اسے دس لوگوں کو بتا نہ دے یا پھر اس کی من گھڑت تعبیر نہ کردے انہیں چین نصیب نہیں ہوتا جبکہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے اس وجہ سے کہ خواب تعبیر ہونے سے پہلے پہلے چڑیا کے پاؤں پر ہوتا ہے جیسا کہ مشہور حدیث میں ہے سیدنا ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعَبَّرْ فَإِذَا عُبِّرَتْ وَقَعَتْ قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَلَا تَقُصَّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ، أَوْ ذِي رَأْيٍ (سنن ابو داود : 5020

اسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیاہے)
’’ خواب پرندے کے پیر پر ہوتاہے جب تک اس کی تعبیر نہ بیان کر دی جائے اور جب اس کی تعبیر بیان کر دی جاتی ہے تو وہ واقع ہوجاتاہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ اور اسے اپنے دوست یا کسی صاحب عقل کے سوا کسی اور سے بیان نہ کرے۔ ‘‘
یہی نہیں ، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

اعْتَبِرُوهَا بِأَسْمَائِهَا وَكَنُّوهَا بِكُنَاهَا وَالرُّؤْيَا لِأَوَّلِ عَابِرٍ

’’ خوابوں کو ان کے ناموں سے سمجھو اور چیزوں کی کنیتوں سے ان کے کنایات سمجھو اور خواب پہلے تعبیر کرنے والے کے لیے ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ 3915 اس میں یزید بن ابان نامی ایک راوی ضعیف ہے لیکن شیخ البانی نے شواہد کی بنیاد پر اسے صحیح قرار دیا ہے)
خواب دیکھنے والے کو چاہیے کہ اپنا خواب کسی حاسد یا دشمن سے نہ بیان کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایسا انسان ایسے خواب کی بھی خراب تعبیر بتائے یا پھر اس کے دل میں حسد اور کینہ کی آگ زیادہ بھڑکے اور خواب بیان کرنے والے کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کرے۔ مشہور واقعہ کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے والد گرامی سیدنا یعقوب علیہ السلام سے اپنا خواب بیان کیا تو انہوں نصیحت فرمائی :

لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا (یوسف:5)

’’ اے میرے بیٹے! اپنا خواب بھائیوں سے مت بیان کرنا کہ وہ تمہارے خلاف سازش کرنے لگیں۔‘‘
ظاہر سی بات ہے کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے انہیں اپنا خواب بیان کرنے سے صرف اورصرف اسی وجہ سے منع کیا کہ خواب سن کر سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے دلوں میں حسد پیدا ہوگا اور پھر وہ لوگ انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
سیدنا ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَلَا تَقُصَّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ، أَوْ ذِي رَأْيٍ

’’ اپنا خواب اپنے کسی چہیتے یا صاحب رائے سے ہی بیان کرو۔‘‘ (سنن ابو داؤد:5017۔ سنن ابن ماجہ : 3914۔ مسند احمد 16182 شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو : سلسلہ صحیحہ : 120)
خواب دیکھنے والا کسی جاہل سے اپنا خواب بیان نہ کرے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا تُقَصُّ الرُّؤْيَا إِلَّا عَلَى عَالِمٍ أَوْ نَاصِحٍ

||’’ اپنا خواب عالم یا خیر خواہی کرنے والے سے بیان کیا کرو۔‘‘(سنن ترمذی 2/45۔سنن دارمی 2/126 شیخ البانی نے اسے صحیحہ 119 میں صحیح قرار دیاہے)
سنن ترمذی 2278 کی ایک روایت میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَلَا يُحَدِّثُ بِهَا إِلَّا لَبِيبًا أَوْ حَبِيبًا

’’ اپنا خواب دوست یا عقلمند کے علاوہ کسی سے بیان نہ کرے۔‘‘
خواب دیکھنے والے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر دن کے شروع میں پوچھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فجر کی نماز کے بعد ہی خواب کی تعبیر دریافت کیا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری : 6624)
نیز علم تعبیر کے ماہرین کا بھی کہنا کہ خواب کی تعبیر طلوع فجر سے طلوع آفتاب میں پوچھنی چاہیے۔ (منتخب الکلام بھامش تعطیر الأنام 1/3 ۔ تعطیر الأنام 2/312)
تعبیر دریافت کرنے کاموزوں ترین وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب کا وقت ہے۔ اس وجہ سے کہ اس وقت خواب دیکھے کم وقت گزرا ہوتاہے خواب کی یادتازہ ہوتی ہے اور تعبیر بتانے والا انسان بھی تروتازہ ہوتاہے۔ (تعطیر الأنام 2/312)

رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھنا :

ہرمسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دیدار کرے اور یہ خواہش اس کے سچے محب رسول ہونے کی دلیل بھی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے ’’میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے لوگ وہ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لیے اپنے اہل وعیال سب کچھ صرف کر دیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس امت میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو رسول اللہ ﷺ کے دیدار کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب رکھیں گے۔ اس دنیائے فانی سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہوجانے کے بعد حالت بیداری میں تو آپ ﷺ کا دیدار ممکن نہیں ہے البتہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے رسول اللہ ﷺ کا خواب میں دیدار کرادیتاہے۔ اسی وجہ سے رب تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ شیطان آپ ﷺ کی شکل اختیار نہیں کرسکتاہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے مختلف حدیثوں میں بیان فرمایا ہے ۔ ان میں ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ بِي (صحیح بخاری : 110۔ صحیح مسلم : 2266)

’’ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے حقیقت میں دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔‘‘
(بشکریہ : پندرہ روزہ ترجمان دہلی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے