ان الحمد للہ وحدہ و الصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ وعلی الہ وصحبہ وازواجہ و ذریاتہ واہل بیتہ و علی خلفاء ہ الراشدین المھدیین منھم ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم اجمعین
بے اعتبار شخص تھا سو وار کر گیا،لیکن میرے شعور کو بیدار کر گیا،کچھ وہ شکایتیں سر بازار کر گیا،پہلے وہ میری ذات کی تعمیر میں رہا ،پھر مجھ کو اپنے ہاتھ سے مسمار کر گیا،وہ آ ملا تو فاصلے کٹتے چلے گیے،بچھڑا تو راستے میرے دشوار کر گیا،بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ،اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا.
زندگی اس دنیا میں آنے کا نام ہے اور موت اس دنیا سے رخصت ہونے کا نام ہے قانون الہٰی ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے اس دنیا سے واپس ضرور جانا ہے اور وہ وقت کب آجا ئے کوئی نہیں جانتا ۔ رب العالمین نے اس موت و حیات کے قانون کا مقصد سورۃ الملک میں بیان فرمایا۔
اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الملك: 2)
کامیاب وہ ہی شخص ہوگا جو اپنی زندگی کو مقصد الہٰی کے مطابق اس کے تابع ہو کر گزارے اور موت کے وقت اس کو یہ عندیہ مل جائے
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِيْ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ (الفجر: 27 - 30)
اور اس موت کا کیا کہنا کہ جس موت سے حیاتِ ابدی مل جائے اور رب العالمین اعلان فرما دیں
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران: 169)
تاریخ میں ایسے ولی کامل بہت کم گزرے ہیں جنہوں نے رب سے اپنی موت مانگی اور رب نے انکا خاتمہ انکی مرضی و منشاء کے مطابق فرما دیا۔ ایسی ہی ایک ہستی سرخیل مسلک اہل حدیث کی ممتاز علمی شخصیت عظیم سیاسی لیڈر اسلام کے بے باک سپاہی شہید ملت اسلام علامہ احسان الہٰی ظہیر ر حمہ اللہ کی ذات ہے۔ جنہوں نے اپنی تقاریر میں متعدد بار رب سے شہادت کی دعا مانگی اور بلاخر 23 مارچ 1987کو مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ سے خطاب کر تے ہوئے دھماکے میں زخمی ہوگئے۔
اس وقت آپ کے ساتھ اسٹیج کی زینت مولانا حبیب الرحمن یزدانی اورمولانا عبد الخالق قدوسی محمد خان نجیب مولانا محمد شفیق پسرور ی جیسے علماء کے علاوہ شیخ احسان الحق نعیم بادشاہ رانا زبیر فاروق جیسے مخلص کارکن موجود تھے۔
(ذیل میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کے حوالے سے کچھ معلومات لکھی جاتی ہیں۔)
ولادت :
آپ رحمہ اللہ 31 مئی 1945 بمطابق 18 جمادی الاول بروز جمعرات سیالکوٹ کے محلہ احمد پورہ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حاجی ظہور الہٰی امام العصر حضرت مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔ آپ تمام بہن بھائیوں میں بڑے تھے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے گائوں کے ایم بی پرائمری اسکول میں حاصل کی اس دوران ابھی آپ کی عمر ساڑھے سات برس ہی تھی کہ آپ کو اونچی مسجد میں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔خداداد ذہانت و فطانت اور اپنے ذوق و شوق کی بنا پر9 برس کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا اور اسی سال نماز تراویح میں آپ نے قرآن سنا بھی دیا ۔ ابتدائی دینی تعلیم دارالسلام سے حاصل کی اس کے بعد محدث العصر فضیلۃ الشیخ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے مدرسہ جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ چلے آئے۔ اور کتب حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لیا جہاں علوم وفنون عقلیہ کے ماہر فضیلۃ الشیخ مولانا شریف سواتی رحمہ اللہ سے آپ نے معقولات کا درس لیا۔
1960 میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں بی اے اونرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحان پاس کیا 1960 میں ایم اے فارسی اور1961 میںاردو کا امتحان پاس کیا اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے ملت اسلامیہ کی عظیم درسگاہ جامعہ اسلامہ (مدینہ یونیورسٹی ) میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ اس وقت مدینہ یونیورسٹی میں دوسرے پاکستانی طالبعلم تھے ۔ ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں 98 ممالک کے طلباء زیر تعلیم تھے۔
اساتذہ کرام :
آپ نے تاریخ کے نامور اور وقت کے ممتاز علماء سے کسب علم کیا ان میں سرفہرست
(1) فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
(2) فضیلۃ الشیخ محمد امین الشنقیطی رحمہ اللہ
(3) فضیلۃ الشیخ عطیہ محمد سالم رحمہ اللہ قاضی مدینہ منورہ
(4) فضیلۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ رئیس ادارۃ البحوث الااسلامیہ و الدعوۃ والاشاد ریاض سابق رئیس جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
(5) فضیلۃ الشیخ علامہ عبد المحسن العباد وغیرہ شامل ہیں۔
علمی اعزاز :
آپ نے زمانہ طالب علمی کے دور میں جامعہ اسلامیہ میں’’ القادیانیہ دراسات و تحلیل ‘‘کے نام سے عربی میں ایک کتاب لکھی یہ کتاب آپ کے ان لیکچرز پر مشتمل ہے۔ جو ا ٓپ نے اپنی کلاس کے طلباء کو اپنے اساتذہ کی جگہ دئے تھے۔ کیونکہ فتنہ احمدیہ کے بارے میں اساتذہ کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھی۔ کتب طبع ہونے لگی تو علامہ سے پبلشر نے کہا کہ مؤلف کے طور پر آپ کے نام کے ساتھ متعلم جامعہ اسلامیہ کے بجائے متخرج جامعہ اسلامیہ لکھ دیا جائے تو اس کتاب کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہوجائے گی۔ ان دنوں یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ ابن باز ہوا کرتے تھے علامہ صاحب نے پبلشر کی خواہش کا اظہار آپ کے سامنے کیا انہوں نے یہ معاملہ یونیورسٹی کی گورننگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جس نے اس کتاب کی اہمیت اور آپ کے علمی مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ احسان الٰہی ظہیر کو اپنی کتاب پر نام کے ساتھ متخرج جامعہ اسلامیہ لکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس طرح آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ فارغ التحصیل ہونے سے قبل ہی آپ کو جامعہ اسلامیہ جیسی عظیم درسگاہ سے سرٹیفکیٹ دے دیا گیا۔ جب آپ کو سرٹیفکیٹ مل گیا تو علامہ نے شیخ بن باز وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی سے عرض کرتے ہوئے کہا: شیخ اگر میں امتحان میں فیل ہو گیا تو اس سرٹیفکیٹ کا کیا بنے گا۔ شیخ ابن باز کو اپنے اس شاگرد رشید کی صلاحیتوں پر اس قدر ناز تھا کہ انہوں نے فوراً کہا کہ اگر احسان الہٰی امتحان میں فیل ہو گیا تو ہم یونیورسٹی بند کر دیں گے۔ علمی و تعلیمی دنیا میں یہ اعزاز منفرد و لاثانی ہے۔
1970 میں آپ مدینہ یونیورسٹی سے اس اعزاز کے ساتھ فارغ ہوئے کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم 98 ممالک کے طلباء میں اول پوزیشن پر رہے اور آپ نے (2.1/93) فیصد نمبر حاصل کئے آج تک کوئی عربی بھی اتنے نمبر حاصل نہ کر سکا ہو جو ایک عجمی کا ریکارڈ توڑسکے۔ (ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء)
مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو یونیورسٹی میں منصب تحقیق و تدریس پیش کیا گیا مگر آپ نے اپنے وطن میں خدمت دین کو ترجیح دی۔ وطن واپسی پر آپ نے تحریر کا سلسلہ جاری رکھا اور چٹان لیل ونہار اور اس جیسے دیگر رسائل میں لکھتے رہے۔ اسلام اور مرزائیت کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی اسلامیات، فلسفہ، تاریخ اور سیاست میں پے در پے ایم اے کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جمعیت اہل حدیث کے جریدے ہفت روزہ الاعتصام اور ہفت روزہ اہلحدیث کے مدیر بھی رہے۔ اس دوران ہی آپ کو حافظ گوندلوی سے شرف دامادی حاصل ہوا آپ جامع مسجد چینیاں والی لاہور میں خطبہ ارشاد فرمانے لگے۔ اور لاہور و اطراف سے لوگ آپ کے جمعہ میں دور دور سے آنے لگے۔ اس عرصہ میں آپ نے لاہور کے علاقے شادمان ٹاون میں اپنے گھر کی تعمیر کرائی اور مستقل یہاں سکونت پزیر ہو گئے۔ اور ترجمان اہلحدیث کے نام سے ایک رسالہ جاری کیاجو کہ جمعیت اہل حدیث کے زیر امارت آج تک مسلک اہل حدیث کی ترجمانی کر رہا ہے۔
سیاسی سرگرمیاں : (1968 تا 1987)
آپ نے خطبہ عید میں ایوب خان کے خلاف اپنی پہلی سیاسی تقریر کی اس کے بعد بھٹو دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں آپ پر کئی مقدمات بھی بنائے گئے۔ بنگلہ دیش مردہ باد تحریک میں آپ نے پھرپور حصہ لیا اور باقاعدہ اپنے خطبہ جمعہ میں بھی بنگلہ دیش کے مسئلہ پر اپنی حب الوطنی کو دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے درد کو بیان کیا۔ 1972 میں آپ نے تحریک استقلال میں ایک پارٹی ورکر کی حیثیت سے شمولیت اختیارکی بعد میں آپ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
1977 کی تحریک استقلال کے قائم مقام سربراہ بھی رہے۔ 1978میں بعض اختلافات کی بنا پر تحریک استقلال سے مستعفی ہو گئے ۔ پھر آپ نے جمعیت اہل حدیث کو از سر نو منظم کرنے کا پروگرام بنایا ۔ صدر ضیاء الحق نے آپ کو علماء ایڈوائزر کونسل کا رکن بھی نامزد کیا تھا لیکن آپ نے استعفٰی دے دیا ۔1984 میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کی طرف سے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں ایک کنونشن بلایا گیا جس میں فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عبد اللہ کو امیر اور مولانا محمد حسین شیخوپوری کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ اہل حدیث میں دو دھڑوں کی بنا پر کافی انتشار رہا مولانا محمد حسین نظامت سے مستعفی ہو گئے ۔ تو علامہ شہید رحمہ اللہ ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے انہوں نے بڑی محنت سے جمعیت کو ایک منظم اور متحرک جماعت بنا دیا اور جلسے جلوس اجتماعات میں ایک نئی روح پھونک دی کہ مسلک اہل حدیث کا بچہ بچہ ہر نوجوان آپ کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑتا تھا۔ جس دور میں اہل حدیث کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہ تھا علامہ علیہ الرحمہ نے اپنے سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ علامہ نے منتشر اہل حدیث کی ضرورت کو بالکل صحیح انداز میں محسوس کیا اور اسے باحسن پورا کیا۔ اہل حدیث افراد اپنے پلیٹ فارم کی طرف کھچے چلے آنے لگے۔ اس سلسلہ میں 18 اپریل 1986کو موچی دروازہ لاہور2 مئی 1986 کو سیالکوٹ اور 9مئی 1986 گوجرانوالہ میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سیاسی جلسہ عام میں آپ نے جمعیت کے سیاسی موقف کو جس طرح پیش کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ آج بھی تاریخ اس کی معترف ہے آپ کی تقریر و بیانات کو اہم مسلکی اخبارات نے شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ علامہ کے عظیم ارادے پختہ ہوا کرتے تھے اس سلسلہ میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے مرکزی دفتر کے لیے ایک خطیر رقم صرف کرکے ۵۳ لارنس روڈ لاہور میں ایک وسیع و عریض جگہ حاصل کی جہاں آپ نے جملہ احبابِ جماعت اور مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کیا ۔ جملہ احبابِ جماعت اور مجلس شوریٰ نے اس عظیم کارکردگی کو خوب سراہا اور آپ کو داد تحسین پیش کی آپ اس مرکز میں مسجد ،ہسپتال ،مدرسہ ،آڈیٹوریم اور جمعیت کے دفاتر قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اس مرکز میں آپ نے نماز تراویح اور درس قرآن کا سلسہ بھی شروع کیا تھا اور بغیر کسی اطلاع کے لوگوں کا جم غفیر آپ کے دروس میں حاضر ہوتا تھا اور ۲۹ مارچ کو آپ نے اس ادارے کی مسجد میں خطبہ جمعہ کا پروگرام بھی بنایا ہوا تھا کہ اس ادارے میں باقاعدہ جمعہ کی نمازبھی شروع کی جائے مگر رب کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آپ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ آپ نے مختلف ممالک میں تبلیغی سفر کیے سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے علاوہ بیلجیم، ہالینڈ، سوئیڈن، ڈنمارک، اسپین، اٹلی، فرانس، جرمنی، انگلینڈ ،یوگو سلاوایا، ویانا، کھایا، نائجیریا، کینیا، جنوبی کوریا، جاپان، فلپائن، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، امریکہ، چین، بنگلہ دیش،ایران،افغانستان اور ہندوستان میں مختلف علمی کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ عرب ممالک تو آپ کا آنا جانا ایک معمول اور روز مرہ کا کام تھا اور آئے دن معلوم ہوتا تھا کہ علامہ صاحب فلاں عرب ملک گئے ہوئے ہیں اسی طرح یورپ امریکہ اور افریقہ کے اسفار کا حال تھا۔ اتنے تقریری و تبلیغی اور ادارتی مصروفیات کے باوجود آپ نے عربی ادب میں شاندار اضافہ کیا ہے اوربھاری بھرکم کتب تالیف کرنا علامہ صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور آپ کی وسعت مطالعہ کی بہت بڑی دلیل ہے۔
آپ رحمہ اللہ کا تحریری سرمایہ
(1) الشیعہ و اھل البیت (عربی)
اس کتاب میں شیعہ کی مذعومہ حب اہل بیت کی حقیقت آشکار کی گئی ہے اور نہایت شرح و بسط سے واضح کیا گیا ہے کہ وہ طائفہ جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان طعن دراز کرنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے در حقیقت یہ حب اہل بیت میں بھی مخلص و صادق نہیں ہے کیونکہ اہل بیت اور دیگر صحابہ کرام باہم شیر و شکر تھے ان جلیل القدر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا حب اہل بیت کے دعوی کے متناقض ہے۔ کتاب کے آغاز میں گیارہ صفحات کا پر مغز مقدمہ ہے۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب ایک بہت بڑا علمی ذخیرہ ہے جس میں42 شیعہ کتب اور 88 اہل سنت کی کتب سے استفادہ کیا گیاہے ۔
(2) الشیعہ والسنہ (عربی):
یہ کتاب علامہ صاحب کی شیعہ موضوع پر اولین کاوش ہے ۔ سولہ صفحات کے بعد تین ابواب ہیں ۔ پروفیسر رانا ایم این احسان الٰہی کے انگریزی ترجمہ کے ساتھ بھی شائع ہو چکی ہے۔اس کتاب کے دنیا کی کئی زبانوں فارسی ،تامل، انڈونیشی، تھائی، ملائشین اور افریقی زبان ہوسا میں تراجم ہو چکے ہیں۔
(3) الشیعہ والقرآن (عربی )
شیعہ ازم پر علامہ صاحب کی یہ تیسری معرکتہ الارء تالیف ہے26 صفحات کا مقدمہ ہے جس میں علامہ صاحب نے اس کتاب کی وجہ تالیف بیان کی ہے ۔ اس کتاب کے چار ابواب ہیں اور اس دور کے شیعہ اکابرکی زبان سے تحریف قرآن کا دعویٰ ثابت کیا ہے ۔ 78شیعہ اور6 اہل سنت کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
(4)الشیعہ والتشیع (فرق و تاریخ،عربی)
کتاب کا مقدمہ11صفحات پر محیط ہے اس کتاب کا موضوع شیعہ ازم کی مکمل مفصل تاریخی پس منظر اور مختلف فرقے ہیں۔ اس کتاب میں 7 ابواب ہیں۔ یہ کتاب 259 مراجع و مصادر سے مزین ایک انسائیکلوپیڈیاہے۔
(5) البریلویہ( عقائد و تاریخ ‘عربی)
کتاب کے شروع میں 6 صفحات پر عطیہ محمد سالم قاضی مدینہ منورہ و مدرس مسجد نبوی کی خوبصورت تقریظ شائع کی گئی ہے صفحات 7 سے 12 تک مئولف کی طرف سے مقدمہ ہے کتاب 5 ابواب پر مشتمل ہے ۔ عرب ممالک میں یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی ہے اور عرب دنیا میں اس کتاب نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے یہی وجہ ہے کہ بریلوی حضرات اس کتاب سے اس قدر متوحش اور خائف ہوئے کہ انہیں درحکومت پر اس کتاب کی پابندی کے لیے دستک دینا پڑی۔ اس کتاب پر پابندی لگا کر اسے ضبط کر لیا گیا ۔جس سے ملک کے طول و عرض کے علمی حلقوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی لیکن اس مجاہد ملت نے پابندی کے باوجود علی الاعلان 6 ایڈیشن اس کتا ب کے شائع کئے ۔
اس کے علاوہ علامہ کی تحریر میں
cالقادیانیہ (عربی)،
cالبھائیہ (نقد و تحلیل‘ عربی)
cالبابیہ (عرض و نقد‘ عربی)، التصوف المنشا و المصادر
cالاسماعلیہ بین الشیعہ و اھل السنہ
cدراسۃ فی التصوف
شامل ہیں ۔ آپ نے جس موضوع یا جس فرق باطلہ پر قلم اٹھایا اللہ کے فضل و کرم سے اس موضوع کا حق ادا کر کے دکھایا اور آج تک آپ کی کسی کتاب کا بھی علمی جواب کوئی نہیں دے سکا۔ علامہ صاحب کی شخصیت ملکی و بین الاقوامی طور پر آج بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کی ان کتابوں کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شایع ہو چکے ہیں۔ عرب ممالک میں آپ کے قارئین، مداحین، عقیدت مندوں اور علم دوست حضرات کا ایک وسیع حلقہ ہے ۔ سیاسی حلقوں میں آپ کی بصیرت اور مجاہدانہ للکار آج بھی گونجتی اور دلوں میں اترتی معلوم ہوتی ہے اور باطل کی روح کانپ جاتی ہے ۔
23 مارچ 1987 کو لاہور میں جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی کی تقریر کے بعد علامہ شہید کا خطاب شروع ہوا آپ کا باطل شکن خطاب اپنے نقطہ عروج کو پہنچ رہا تھا ابھی آپ 20 منٹ کی تقریر ہی کرپائے تھے کہ11بج کر 20 منٹ پر بم کا انتہائی خوفناک لرزہ خیز دھماکہ ہوا تمام جلسہ گاہ میں قیامت صغریٰ کا عالم تھا ماحول مہیبت تاریخی میں ڈوب گیا دلدوز آہوں سے ایک کہرام سا مچ گیا۔ درندہ صفت بزدل کمینہ دشمن اپنے مزموم مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا اس دھماکے میں علامہ صاحب زخمی ہوگئے اور شدید زخمی حالت میں 5 دن تک میؤ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے ۔ 29 مارچ کو پونے پانچ بجے سعودی ائیر لائن کی پرواز کے ذریعہ شاہ فہد رحمہ اللہ کی دعوت پر سعودیہ عرب علاج کے لئے روانہ ہوئے آپ کو فیصل ملٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا ڈاکٹروں نے آپریشن کے لئے بے ہوش کیا لیکن ناکام آپریشن کے بعد آپ کا وقت موعود آچکا تھا۔علامہ صاحب 22 گھنٹے ریاض میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد قافلہ شہداء میں شامل ہوئے (انا للہ و انا الیہ راجعون)
تدفین:
جماعت اہل حدیث میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جو شاید تاریخ میں کبھی پورا نہ ہو سکے ۔ عالم اسلام کی متاع عظیم چھن گئی اور علم و فضل کا آفتا ب وادی بطحاء میں غروب ہو گیا۔ مفتی اعظم سعودیہ عرب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز نے دیرہ ریاض کی مرکزی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی ۔ نماز جنازہ کے بعد آپ رحمہ اللہ کے جسد خاکی کو لے جایا گیا مدینہ منورہ میں تدفین کا اہتمام فضیلۃ الشیخ عبد اللہ صالح العبید چانسلر مدینہ یونیورسٹی نے کیا یونیورسٹی کے شیوخ و اساتذہ اور طلباء کے علاوہ سعودی عرب کے اطراف سے ہزاروں اہل علم اشکبار آنکھوں سے جنازے میں شامل تھے ۔ اقصائے عالم سے آنے والے وفود و شیوخ اساتذہ علماء اور طلباء کی وجہ سے مسجد نبوی میں انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا اور تاحد نگاہ سر ہی سردیکھائی دیتے تھے ۔
اژدہام کا یہ عالم تھا کہ آپ کا آخری دیدار کرنا محال تھا۔ مولانا شمس الدین افغانی (جامعہ اثریہ پشاور کے سابق مدیر،مفسر، مصنف، محقق)نے نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر یہاں سے علامہ شہید رحمہ اللہ کی میت کو جنت البقیع کے قبرستان لایا گیا ہزاروں سوگواروں کے ٹھاٹھےمارتے ہوئے سمندر کے جلوس میں آپ کے والد محترم جناب حاجی ظہور الٰہی نے قبر میں اتر کر اپنے فرزند ارجمند کا آخری دیدار کیا ۔ آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ رحمہ اللہ کی قبر امام مالک کی قبر کے پہلو میں ہے جس کی دائیں طرف ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی قبر یں ہیں اور اس سے تھوڑے فاصلے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ، وادخلہ الجنہ
آمین
حکمت و دانائی
وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (حٰم السجدۃ: 34)
’’اے نبی! نیکی اور بُرائی برابر نہیںہو سکتے آپ بُرائی کا دفاع اچھائی کے ساتھ کریں ۔ دیکھیں جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ آپ کا دلی دوست بن جائے گا۔‘‘
ایک داعی کو اپنی دعوت کے دوران اس بات کو ہمیشہ مدِّ نظررکھنا چاہیے کہ اچھائی اوربرائی ،نیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے۔ برائی پر چلنے اوراس کا پرچارکرنیوالے لوگ ہمیشہ جلد بازاور جذباتی ہوتے ہیں بالخصوص مشرک کی فطرت ہے کہ وہ شرک اورغیر اللہ کی محبت میں غالی اور جذباتی ہوتا ہے۔
جونہی اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدت کی بات کی جائے تو وہ سیخ پا ہوجاتاہے اورتوحید بیان کرنے والے کو بزرگوں کا گستاخ اور بے ادب کہتا ہے۔ موحّد کے لیے بے دین یا اس کے ہم معنٰی لفظ استعمال کرتاہے ۔اس لیے مکے کے کافر صحابہ کو صابی کہتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مشرک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں داعی کے لیے بات کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں داعی کی دانش اورحکمت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اشتعال انگیز ماحول بنانے سے اجتناب کرے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ اوربڑے حوصلے کی ضرورت ہے، یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے داعی کے ذہن میںہمیشہ یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اچھائی اوربرائی برا بر نہیں ہوتے۔ اچھائی کی اشاعت کے لیے تین باتیں ضروری ہوتی ہیں:
1 الدّاعی کااخلاق اورکردار اچھا ہونا چاہیے۔
2 الدّاعی کو اپنا حوصلہ بڑا رکھنا چاہیے۔
3 الدّاعی کو اچھے ماحول میں بہتر سے بہتر سلیقہ کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ اختیار کرنا چاہیے۔
اس کے باوجود کوئی اچھائی کا جواب برائی سے دیتا ہے تو پھر بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ بُرائی کا جواب بُرائی کے ساتھ دینے سے ماحول میںتلخی بڑھتی ہے۔ جس قدر ماحول میں تلخی بڑھے گی اسی قدر ہی داعی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ جس سے داعی کی بجائے دوسرے کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ اس لیے داعی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالنے کی کوشش کرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادتی کرنے والے کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ بُرا آدمی اور اس کے ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو شخص کسی تعصّب اور مفاد کے بغیر ہماری خیر خواہی کر رہا ہے اور ہماری زیادتی کا جواب حسنِ سلوک سے دیتا ہے یقیناً وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ داعی جن لوگوں کو مخاطب کررہاہے اگر وہ نرم نہیںہوں گے تو ان میںسے کچھ لوگ اس کی دعوت پر ضرور متوجہ ہوںگے جو بالآخر اس کے ہمسفر بن جائیں گے۔
ہر دور میں اس کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، دور نہ جائیں آج سے تقریباً ساٹھ ستر سال پہلے اکثر مساجد میں جب توحیدوسنت کی بات کی جاتی توبات کرنے
والے کو مسجد سے اٹھا کرباہر پھینک دیا جاتا تھا، لوگوں
میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسجد کو دھویا جاتا تھا۔ لیکن آج لوگ قرآن و سنت کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔برائی کا جواب اچھائی سے دینا ، زیادتی کے مقابلے میں خیر خواہی کرنا ہر کسی کا کام نہیں یہ کام وہی مبلّغ اورکارکن کرسکتا ہے جسے مِشن عزیزاوراپنے رب کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ورنہ عام مبلّغ مخالف کی بات کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اوراپنے دھڑے کے لیے اُسے ذلّت سمجھتاہےحالانکہ تبلیغ کے میدان میں پیغمبر ِاسلامe اورکسی صحابی نے گالی کا جواب گالی سے نہیںدیا یہاں تک کہ نبی کریمeنے ذاتی معاملہ میں بھی کسی صحابی کی طرف سے گالی کا جواب گالی سے دینا پسند نہیںفرمایا،
اگرچہ اس کی ایک حد تک گنجائش بھی پائی جاتی ہے ۔
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (النحل: 34)
’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو اور ایسے لوگوں سے بہت اچھے طریقے کے ساتھ بحث کر و۔ یقیناً آپ کا رب زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی جانتا ہے ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی ﷺ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا لیکن اس کے باوجود حکم ہوا کہ آپ لوگوں کو حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ دین حنیف کی طرف دعوت دیں۔ اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں ۔ آخر میں فرمایا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے ۔ حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ موقعہ محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے ۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں ۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ خطیب کے لب و لہجہ اور انداز میں سنجیدگی ،خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ کَرَاھَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا (رواہ البخاری: باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ )
’’سیدناعبداللہ بن مسعود tبیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ ہم اُکتا نہ جائیں ۔ ‘‘
عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً (رواہ مسلم: باب النَّھْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)
’’عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعودt فرماتے ہیں کہ تم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو اور وہ لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے ۔ ‘‘
قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ أَتُحِبُّوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہٗ (رواہ البخاری: کتاب العلمِ، باب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ )
’’سیدنا علی t فرماتے ہیں کہ لوگوں کو وہ بات کہو جسے وہ سمجھتے ہوں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے‘‘
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
’’فر ما دیں یہی میرا راستہ ہے کہ میںپوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتاہوں، میں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے ، اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔‘‘ (یوسف:108)
اے نبیﷺ! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ نہایت دانائی اور خدا دادبصیرت کے ساتھ یہی میرے متبعین کا راستہ اور دعوت ہے۔ ان کو بتائیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہر قسم کے شرک سے مبرّا ہے اور ہم کسی طرح بھی مشرکین سے نہیں ہیں۔ اس فرمان میں نبی اکرمe کی زبانِ اطہر سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ خود یہ اعلان فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت یہ ہے کہ میںلوگوں کو نہایت دانائی کے ساتھ ’’اللہ‘‘ کی طرف بلائوں۔
یاد رہے کہ قرآن مجید میں عقیدہ توحید اور اہم باتوں کے اظہار کے لیے پہلے ’’قُلْ‘‘ کا لفظ لایا جاتا ہے۔ حالانکہ سارا قرآن اور شریعت نبی اکرم eنے ہی بیان کی ہے ۔ آپ کی بیان کردہ ہر بات اہم اور واجب الاتّباع ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اورمرکزی باتوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی! آپ اعلان فرمائیں کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں میں خدا داد بصیرت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ جو میرا سچا فرمانبردار ہے اس کا بھی یہی راستہ ہے اور ہونا چاہیے، ہمارا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔ مشرک کے ساتھ رشتہ نہ رکھنے کا صرف یہ مطلب نہیں ایک سچے امتی کا مشرکوں جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے مشرکوں سے نکاح حرام قرار دیا اور ان سے قلبی محبّت سے بھی منع کیا ہے۔ (البقرۃ:۲۲۱)
داعی کی چیدہ چیدہ صفات:
۱۔ داعی کو وحی الٰہی کی پیروی کرنا چاہیے ۔ (یونس: ۱۵)
۲۔داعی کو سب سے پہلے خود مسلمان یعنی ’’اللہ‘‘ کا تابع دار ہونا چاہیے۔ (الانعام: ۱۶۳)
۳۔ داعی کا لباس پاک صاف ہونا چاہیے ۔ (المدثر:۴)
۴۔ داعی کو لالچ سے گریز کرنا چاہیے ۔ (المدثر : ۶)
۵۔ داعی کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے ۔ (المدثر :۲)
۶۔ داعی کو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (النحل: ۱۲۵ )
۷۔داعی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے ۔ (حم السجدۃ: ۳۴ )
۸۔ داعی کو حوصلہ مند ہونا چاہیے ۔ ( المدثر: ۷)
۹۔ داعی کو عملی نمونہ بننا چاہیے ۔ (یونس: ۱۶)
حصولِ علم کے لئے دعا
ایک مبلغ کو ہمیشہ اپنے علم میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ مطالعہ سے علم میں رسوخ، ذہن میں کشادگی اور فہم و استدلال میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایسی ضرورت ہے کہ اس سے انبیاء کرام بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ اس لیے قرآن مجید نے سیدناموسیٰ ؈ اور نبی کریمﷺ کے بارے میں فرمایا:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَ يَسِّرْ لِيْ اَمْرِيْ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ يَفْقَهُوْا قَوْلِيْ(طٰہٰ:25تا 28)
’’موسیٰ نے دعا کی کہ اے میرےرب! میرا سینہ کھول دے، میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ ‘‘
فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰی اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا
’’ اللہ ہی حقیقی بادشاہ اور بلند وبالا ہے، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کریں جب تک کہ اس کی وحی مکمل نہ ہوجائے اور دعا کریں کہ اے میرے رب! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔‘‘ (طٰہٰ: 114)
یہاں نبی ﷺ کو ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے ساتھ قرآن مجید کو وقفہ وقفہ کے ساتھ نازل کر رہا ہے تاکہ آپ کو اس کے ابلاغ اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے میں دِقت پیش نہ آئے۔ لہٰذا آپ عجلت سے کام لینے کی بجائے اپنے رب کے حضور مسلسل دعا کرتے رہیں کہ اے میرے پروردگار ! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔ یہاں علم سے مراد وحی کا علم ہے، مفسرین نے آپ کا جلدی کرنے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نزولِ قرآن کے ابتدائی دور میں آپ eاس غرض کے ساتھ جلد ی جلدی تلاوت کرتے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘کی دعا سکھلانے کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ ضبطِ قرآن کی فکر میں اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی ضرورت نہیں، بس آپ غور سے سنتے جائیں، قرآن مجید ضبط کروانا اور آپ کی زبان اطہر سے اس کا ابلاغ کروانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ (القیامۃ:۱۷)سورہ اعلیٰ میں فرمایا ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے اور آپ بھول نہیں پائیں گے ۔ (اعلیٰ:۶)
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ
’’اے نبی! کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور آپ سے بھاری بوجھ اُتار دیا۔ (الانشراح:1۔2)
’’سیدنا سہل بن سعد ساعدیt بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم e نے فرمایا: بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ (رواہ الترمذی: باب ماجاء فی التانی)
سیدناعبداللہ بن عباس w بیان کرتے ہیںکہ نبی مکرم e نے قبیلہ عبدالقیس کے رئیس ’’اشج‘‘ سے کہا‘ تجھ میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتاہے۔ ایک بردباری اور دوسرا معاملات کے بارے میں غور و فکر ہے۔
(مسلم: باب الامر بالایمان باللہ و رسولہ)
’’سیدنامعاویہt رسولِ اکرمeسے بیان کرتے ہیںکہ رسول مکرمe نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ ‘‘(رواہ البخاری: کتاب العلم)
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (الزمر:22)
’کیا وہ شخص جس کا سینہ ’’اللہ‘‘ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی روشنی میں چل رہا ہے، اس کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جن کے دل اللہ کی نصیحت کے بارے میں سخت ہو گئے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اسلام کی پہلی دعوت ’’اللہ‘‘کی ذات اور اس کی صفات پر اس طرح ایمان لانا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ جو شخص توحید اور دین کو سمجھنےکی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے جس بنا پر اس کے سینے میں ہدایت کا نور پیدا ہوتاہے۔ ایسا شخص بڑی سے بڑی مصیبت میں اپنے رب پر راضی رہتاہے ، اسے غیر معمولی کامیابی اور خوشی نصیب ہوتی تو آپے سے باہر نہیںہوتا۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا دل کفر وشرک اور گناہوں کی وجہ سے سخت ہو، اسے نصیحت کی جائے تو اس سے چڑتاہے اوراللہ کی توحید کےتذکرےسے بدکتا ہے۔اس قسم کے لوگ راہِ راست سے اس قدر بھٹک جاتے ہیں کہ ان کی گمراہی میںرتی بھربھی شک نہیں رہتاکیونکہ ان کے دل اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔
مستقل مزاجی
يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ
’’اے رسول !جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ کی طرف نازل کیاگیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیںپہنچایا، اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘(المائدۃ: 67)
الرّسول سے مراد سرور دوعالم eکی ذات اقدس ہے یہاں لفظ الرّسول استعمال فرما کر آپ کو باور کروایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول یعنی اس کی طرف سے پیغام رساں ہیں ،لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں، دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، آپ کو ہرحال میں من وعن لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچانا ہے اگرآپ نے اس میں ذرہ برابر کوتاہی کی تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ آپ نے رسالت کا حق ادانہیں کیا۔
یہ آیت مبارکہ اعلان نبوت کے پندرہ سال بعد غزوۂ احد کے معرکہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے آپ قدم بقدم رسالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ مدینہ کے حالات کے پیش نظر آپ اپنے ساتھ مسلح پہرے دار رکھتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان نہیں فرمایا اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب آپ کی حفاظت کا فرمان نازل ہوا تو آپ نے اپنا پہرہ ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا کھلے الفاظ میں اعلان فرما دیا ہے۔
وَ لَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
’’اور جنہوں نے ظلم کیاان کی طر ف نہ جھکنا ورنہ تمہیں آگ آلے گی اور اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ نہیں ہو گا۔ پھر تمہاری مد د نہ کی جائے گی ۔ ‘‘ (ھود:113)
کفار، مشرکین اور یہود و نصاریٰ اس حد تک آپ کی مخالفت پر اتر آئے تھے کہ آپ کو صادق و امین ماننے کے باوجود آپ کو کذّاب اور جادو گر کہتےتھے۔ جس کا بحیثیت انسان آپ کو بہت رنج ہوتا تھا۔ اس موقعہ پر آپ کی ڈھارس بندھانے ،آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مستقل مزاجی کا سبق دینے کے لیے درج ذیل ہدایات دی گئی ہیں۔
۱۔جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ا س پر قائم رہیں ۔
۲۔کسی حال میں بھی اللہ کی نازل کردہ وحی سے سرتابی نہ کریں۔
۳۔ ہر دم یہ خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
۴۔ظالموں کی طرف کسی صورت نہیںجھکنا۔
۵۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خیر خواہ اور مدد کرنے والا نہیں۔
استقامت کا معنی ہے اِدھراُدھر جھکنے کی بجائے سیدھا کھڑے رہنا۔ جس کا تقاضا ہے کہ ایک داعی نہ کسی قسم کے دبائو کی پرواہ کرے اور نہ ہی کسی مفاد اورلالچ میں آئے۔ ایسا شخص ہی صحیح معنوںمیں حق کا ترجمان اور اس کا پاسبان ہوسکتاہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ’’وَلَا تَرْکَنُوْا‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جس کا معنی ہے کہ دنیا کا کوئی خوف آپ اور آپ کے متبعین کو باطل کے سامنے جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ اگر تم لوگ جھک گئے تو پھر تمہیں جہنم کی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی تمہارا خیر خواہ اور مدد گار نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔