اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ،اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق:1-5)
’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیاپڑھو اور آپ کا رب بڑا ہی کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا‘‘
ان آیات کے بارے میں علماءکرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ پہلی وحی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر غار حرامیں نازل ہوئی۔
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:’’یہاں اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ ان پر جو قرآن کریم بذریعہ وحی نازل ہوتاہے اس کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھاکریں۔ نیز انسان کو خبر دی ہے کہ تمام مخلوقات کا خالق وہی تنہا ہے اور اس نے انسان کو لوتھڑے یعنی ایک منجمد خون سے پیدا کیا ہے، جو چالیس دن تک رحم مادر میں نطفہ کی شکل میں رہتاہے پھر جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا بن کر رحم مادر سے چپک جاتاہے ، پھر چالیس دن کے بعد گوشت کا ایک ٹکڑا بن جاتاہے پھر یا تو امر الٰہی کے مطابق اس کی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے یا رحم سے گوشت کے ایک ٹکڑے کی شکل میں باہر نکل جاتاہے (تیسیر الرحمٰن، لبیان القرآن۔ص1754)
ہر قوم کی تہذیب و ثقافت کی بقاء درس و تدریس اورحصول علم پر ہے ۔ قبل از اسلام بھی حصول علم اور درس و تدریس کا وجود نظر آتاہےجبکہ یہودیوں اور عیسائیوں میں حصول علم کا وجود ملتاہے۔
اسلام کے ظہور سے قبل عرب میں حصول تعلیم کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ لوگ حصول علم اور پڑھنے لکھنے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیتے تھے۔ سوائے چند آدمیوںکے جومکہ معظمہ کے باسی تھے ، لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ رسول معظم ﷺ خود بھی امی تھےمکہ معظمہ میں تو اس کی طرف زیادہ توجہ نہ کی گئی، کیونکہ وہ پر آشوب دور تھا۔
۲ ہجری میں جنگ بدرمیں جو قیدی مسلمانوں نے بنائے تھے ان میں سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو لکھنا پڑھنا جانتےتھے، آپ ﷺنے قیدیوں کی رہائی کئے لیے یہ شرط بھی رکھی کہ:
’’جو قیدی لکھناپڑھنا جانتے ہیں وہ ہمارے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں اور رہائی پائیں‘‘
علم کی عظمت و فضیلت:
حصول علم ایک عظیم نعمت ہے، بے شک انسان اشرف المخلوقات ہے ، لیکن تعلیم کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں بے علم آدمی کا معاشرےمیں کوئی مرتبہ و مقام نہیں بے علم آدمی کو معاشرے میں اندھا تصور کیا جاتاہے، سیدنا آدم علیہ السلام کا پہلا شرف علم ہی تھا، جس کی وجہ سے فرشتوں پر بر تری حاصل کی تھی۔
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِفَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ،قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَااِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ
(البقرۃ:31،32)
’’اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ، ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے‘‘
اسلام میں حصول علم کے لئے بہت تاکید کی گئی ہے اور رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ فرمائی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ
’’علم کی تحصیل ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘( ابن ماجه (1/ 81)
اس حدیث مبارکہ کی شرح میں مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مسلم وہ شخص ہے جس نے دین اسلام قبول کیا اور طےکیا کہ میں اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق زندگی گزارونگا اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرے اس لیے ہر مسلم پر فرض ہے کہ وہ بقدر ضرورت اسلام کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرے ، اس ہدایت کا یہی مدعی اور پیغام ہے اورحدیث کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس شخص کو اسلامی زندگی گزارنے کے لیے جتنے علم کی ضرورت ہے اس کا حاصل کرنا ضروری ہے‘‘ (معارف الحدیث7/35)
آپ ﷺ نےان پڑھ قوم میں تحریک پیدافرمائی میاں محمد جمیل حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ: ’’آپﷺ نے اپنی امت کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ فرمائی اور ان پڑھ قوم میں وہ تحریک پیدا فرمائی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک شخص بھی ایسانہ تھا جواپنے بنیادی فرائض سے غافل اور ناواقف ہو، بے شک علوم میں سب سے اعلیٰ اور دنیا و آخرت میں مفید ترین علم قرآن وسنت کا علم ہے لیکن قرآن و حدیث میں ہر اس علم کی حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے اس لیے آپ ﷺ علم میں اضافے کے لیے دعا کیا کرتے تھے‘‘
{رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا } [طه: 114]
’’اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘‘
اور امت کو ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کو قرآن و سنت کا ایک فرمان بھی یاد ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے آگے پہنچائے ، گویا قیامت تک یہ طریقہ جاری رہےہر روز اسی طرح دیے سے دیا جلتا رہنا چاہیے۔ (فہم الحدیث1/72)
اسی طرح علمی حلقوں میں یہ مقولہ مشہور ہے۔
’’اطلبوا العلم ولوکان بالصین‘‘
(علم حاصل کرو خواہ تمہیں اس کے لیے چین جانا پڑے)
نوٹ: ’’مندرجہ بالاالفاظ حدیث کے نہیں ہیں اور نہ ان الفاظ کو حدیث کہا جائے جیساکہ اکثر لوگ اس مقولے کع حدیث سمجھتے ہیں‘‘
مزید تاکید:
اسلام میں دینی علوم کے تحصیل پر بہت زور دیا گیا ہے اور ارشاد الٰہی ہے۔
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ (التوبۃ122)
’’سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں ‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی فرماتے ہیں : ’’جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کے لیے جائیں و جہاد کی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ان کی صحبت سے علمی فائدہ اٹھائیں قرآن وسنت کا علم حاصل کرتے رہیں اور جب اپنی اپنی بستیوںاور شہروں میں واپس پہنچیں تو جو کچھ اس سفر میں رسول اللہ ﷺ سے سیکھا ہے باقی ماندہ لوگوں کو سکھائیں‘‘ (تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن ص:598)
فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ: ’’ایک گروہ پیچھے رہے جو دین کا علم حاصل کرے اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انھیں احکام دین سے آگاہ کرکے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین سیکھنے کی اہمیت کا بیان ، اس کی ترغیب اور طریقے کی وضاحت کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر بڑی جماعت یا قبیلے سے کچھ لوگ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھر چھوڑدیں اور مدارس و مراکز علم میں جاکر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ و نصیحت کریں دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامر ونواہی کا علم حاصل کرنا تاکہ اوامر الٰہی کو بجالاسکے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے‘‘(احسن البیان،ص:556)
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً (مسند أحمد مخرجا (11/ 25)
’’میری طرف سے لوگوں کو پہنچادو چاہے ایک ہی آیت ہو‘‘
لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ (سنن ابن ماجه (1/ 85)
’’جو لوگ اس وقت موجود ہیں وہ ان لوگوں تک ان احکام کو پہنچادیں جوموجود نہیں ہیں‘‘
دین اسلام کی عمومی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازمی ہےاور جو لوگ دین اسلام کا علم رکھتے ہیں ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو دین اسلام کے احکامات سے روشناس کرائیں جو دین سے نا واقف ہیں ۔
رسول اللہ ـﷺ نے علم دین سیکھنے اور سکھانے والوں کو خوشخبری دی ہے آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ۔
’’جو بندہ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلے گااللہ تعالی اس کے عوض اس کو جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلائے گااور (آپﷺ نے فرمایا) اللہ تعالی کے فرشتے طالبان علم کے لیےاظہار (اور اکرام و احترام) کے طور پر اپنے بازو جھکالیتے ہیں اور (فرمایا کہ) علم دین کے حامل کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات اللہ تعالی سے مغفرت کی استدعا کرتی ہیں، یہاں تک کہ دریا کے پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی اور (آپ ﷺ نے فرمایا) عبادت گزاروں کے مقابلے میں حاملین علم کو ایسی بر تری حاصل ہے کہ جیسے کہ چودہویں رات کے چاندکو آسمان کے باقی ستاروں پر اور (یہ بھی فرمایا) علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام نے دیناروں اور درہموں کا ترکہ نہیں چھوڑابلکہ انہوں نے اپنے ترکے اور ورثےمیںصرف علم چھوڑا ہے۔ توجس نے اس کو حاصل کر لیااس نے بہت بڑی کامیابی اور خوش بختی حاصل کرلی۔
(مسند احمد، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی بروایت سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ، معارف الحدیث8/40)
فی الواقع انبیاء علیہم السلام کی میراث ان کا علم ہی ہوتاہے جو وہ بندوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی کی طرف ملا ہوتا ہے ۔ امام طبرانی نے معجم میں نقل کیا ہے کہ ایک دن سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بازار کی طرف گزرے لوگ اپنے کاروبار میں مشغول تھے ، آپ نے ان سے فرمایاکہ: تم لوگوں کو کیاہوگیا ہے ؟ تم یہاں بیٹھے ہواور مسجدمیں رسول اللہ ﷺ کی میراث تقسیم ہورہی ہے‘‘ لوگ مسجد کی طرف دوڑےاور واپس آکر کہا وہاں تو کچھ نہیں بٹ رہا۔ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں کچھ لوگ حلال و حرام کے شرعی احکام و مسائل کی باتیں کر رہے ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ نے فرمایا یہی تو رسول اللہ ﷺ کی میراث اور آپ ﷺ کا ترکہ ہے ‘‘ (مجمع الفوئد1/37، معارف الحدیث8/40)
عہد فاروقی میں مذہب کی تعلیم و تلقین:
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد حکومت میں تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ کی علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیںکہ: ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اگرچہ تعلیم کو بہت زیادہ ترقی دی تھی تمام ممالک مفتوحہ میں ابتدائی مکاتب قائم کیے تھے، قرآن مجید، اخلاقی شعار اور امثال عرب کی تعلیم ہوتی تھی بڑے بڑے علمائے صحابہ کو اضلاع میں حدیث و فقہ کی تعلیم کے لیے مامور کیے تھے مدرسین اور متعلمین کی تنخواہیں بھی مقرر کیںتھیں‘‘ (الفاروق2/109 مطبوعہ اعظم گڑھ)
اس کے آگے علامہ شبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میںپانچ بزرگ تھے جنہوں نے قرآن مجید کو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہی پورا حفظ کرلیا تھا‘‘
1-معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
2-عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
3-ابی بن کعبرضی اللہ عنہ
4-ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
5-ابو الدرداءرضی اللہ عنہ
ان میں خاص کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سید القراء تھے اور خود رسول اللہ ﷺ نے اس باب میں ان کی مدح کی تھی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو بلاکر کہاکہ:
’’شام کے مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ آپ لوگ جاکر قرآن کی تعلیم دیجیے‘‘ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ضعیف اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیمار تھےاس لیے جانہ سکے ۔ باقی تین صحابہ نے خوشی سے منظور کیا۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ہدایت کی کہ پہلے حمص کو جائیں وہاں کچھ دنوں قیام کرکے جب تعلیم پھیل جائےتو ایک شخص کو وہیں چھوڑ کر باقی دو میں سے ایک صاحب دمشق اور ایک صاحب فلسطین جائے، چنانچہ پہلے یہ لوگ حمص گئےوہاں جب اچھی طرح بندوبست ہوگیا تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے وہیں قیام کیا اور ابو الدرداءرضی اللہ عنہ دمشق اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فلسطین کو روانہ ہوئے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ طاعون عمواس میں وفات پائی لیکن ابو الدرداءرضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی آخری خلافت تک زندہ اور دمشق میں مقیم رہے (الفاروق2/118،119مطبوعہ اعظم گڑھ)
مفتوحہ ممالک میں علوم دینیہ کی نشر واشاعت:
جب اسلام کا پرچم دوسرے ممالک پر لہرانے لگا تو ان ممالک کے میں بھی علوم دینیہ کی اشاعت کی طرف حکمرانوں نے توجہ کی اور قرآن و حدیث کی تعلیم کو عام کیا مولانا عزیز الرحمٰن سلفی مدرس جامعہ سلفیہ بنارس لکھتے ہیں کہ: ’’جب مسلمان عرب سے نکلےتو ان کے ایک ہاتھ میں فتح و نصرت کا پر چم اور دوسرے ہاتھ میںعلم و فن کی روشنی جو ملک بھی ان کے زیر نگیں آتا وہاں انہوں نے فضل و کمال کی بزم سجائی۔ وہ عرب کی سر زمیں سے نکلے اور دنیا کے جنوب و شمال اور مشرق ومغرب میں پھیل گئےان کی کوشش ساری دنیا کے لیے مبارک تھی ، جہاں وہ پہنچے وہاں کی زمین و آسمان کو انہوں نے بدل ڈالا، اندلس کی سر زمین میں تہذیب و تمدن کی ایسی روشنی پھیلائی کہ ظلمت کدہ روشن ہوگیامصر طرابلس، الجزائر ، مراکش اور قیروان کے افریقی وحشیوں کو تعلیم دے کر فضل و کمال کی معراج تک پہنچادیا۔ ایران کو مشرقی علوم کا سرچشمہ بنادیا اندلس کا اسلامی تمدن ایران میں شیراز اور بغداد کی اسلامی درسگاہیں آ ج تک ان کی قومی تاریخ کے زریں کا رنامے ہیں اور ابد الآباد رہیں گے‘‘
(جماعت اہلحدیث کی تدریسی خدمات ، ص:4 مطبوعہ بنارس)
بر صغیرمیں علوم اسلامیہ کی اشاعت:
عرب مسلمان جہاں بھی گئے وہاں اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی روشنی پھیلی ، بر صغیر میں بھی جب عرب مسلمان پہنچے تو انہوں نے بت پرست ہندوستان کو توحید پرستی کی طرف مائل کیا اور دینی علوم و فنون کی اشاعت کی۔ محمد بن قاسم جب ہندوستان آئے پھر انہوں نے فتح کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم کے مراکز بھی قائم کئے۔
(فتوح البلدان ،ص242/243)
اس کے بعد اسلامی علو م کی اشاعت میں اضافہ ہونا شروع ہواسلطان محمود غزنوی اور سلطان محمد غوری نے بھی ہندوستان کا رخ کیااور یہاں اسلامی جھنڈا لہرایا تو انہوں نے بھی دین اسلام کی اشاعت کی اور اسلامی و دینی مدارس قائم کیے۔
محمد قاسم تاریخ فرشتہ میں لکھتاہے کہ : ’’سلطان محمد غوری نے اجمیر میں متعددمدرسے قائم کیے شمس الدین التمش نے مدرسہ معزکے نام سے دہلی و بدایوں میں مدرسہ قائم کیا تھا التمش کے بیٹے ناصر الدنیاوالدین نے مدرسہ ناصریہ قائم کیا تھا‘‘یہ تعلیمی سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا رہااور ہندوستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے دینی مدارس اور علمی مراکز کا قیام عمل میں آیا۔
12ویں ہجری کے آغاز میں برصغیر میں قرآن و حدیث کی اشاعت و تدریس کا زور بڑھناشروع ہوامولانا محمد فاخر الٰہ آبادی(1121ھ تا1164ھ)نے کتاب و سنت کی اشاعت میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔
دہلی میں مولانا شاہ عبدالرحیم دہلوی(م 1131ھ) نے قرآن وحدیث کو عام کیا ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزند ارجمند حکیم الدین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م1176ھ) نصف صدی تک اپنے آبائی مدرسہ رحیمیہ میں قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کیں اور تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف کے ذریعے بھی قرآن وحدیث کی خد مت کی ، قرآن مجید کا ترجمہ فارسی زبان میں بنام ’’فتح الرحمٰن‘‘کیا اور حدیث کی پہلی کتاب موطاء امام مالک کی دو شر حیں ’’المسویٰ‘‘ (عربی) اور ’’المصفیٰ‘‘ (فارسی) تالیف کیں۔
حکیم الدین شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادگان عالی مقام
مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی (م1239ھ)
مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی (م1227ھ)
مولانا شاہ عبد القادر دہلوی (م1230ھ)
مولاناشاہ عبدالغنی دہلوی (م1227ھ)
اور پھر مولانا شاہ اسمٰعیل شہید (ش1246ھ)
نے قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادگان میں سب سے آخر میں مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی نے 1229ھ میں رحلت فرمائی ان کی خدمات دینیہ محتاج بیاں نہیں ان کے انتقال لے بعد ان کے نواسے حضرت مولانا محمد اسحاق دہلوی (م1262ھ) خاندان شاہ ولی اللہ دہلوی کے جانشیں ہوئےان کی خدمات کا بھی احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالی نے ان کے درس میں خیر وبرکت عطا فرمائی تھی بڑے بڑے جلیل القدر اور اجلاء علماء اور صاحب درس و تد ریس وتصنیف وتالیف پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن وحدیث کی خد مت میں وہ حصہ لیا جس کا تذکرہ ان شاء اللہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔
حضرت میاں کے کے تلامذہ نے پورے ملک میں پھیل کر قرآن وحدیث کی تعلیم کو عام کیا اور تصنیف و تالیف میں و ہ شاندار خدمات انجام دیں۔
جسے رہتی دنیا تک مسلمان بجا طور پر اپنا قیمتی اثاثہ سمجھیںگے۔
یہ سینکڑوں علماء تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں قرآن وسنت کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کردی تھیں اور شرک و بدعت کی تردید اور ادیان باطلہ کا قلع قمع کرنے میں گزاردیں اگر میاں صاحب رحمہ اللہ کے تمام تلامذہ کا ذکر کیا جائےتو مقالہ کے طویل ہونے کے پیش نظر شائع نہ ہوپائے۔
-----
جی ہاں ہم روزانہ اپنے ملک کے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے سنتے،دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ مدارس فرقہ واریت کے مراکز اور انتہا پسند ی کے مراکز ہیں مدارس میں کوئی تربیت ایسی نہیں دی جاتی کہ جس سے کوئی باکردار طالبعلم پیدا ہوکر اپنے ملک وقوم کی خدمت میں وقت گزارے ، علماء اور خطباء انتشار کے سبب ہیں ان جیسی دیگر خبریں روزانہ ہم اپنے نام نہاد دانشوروں اور بے لاگ مبصرین وتجزیہ نگاروں سے سنتے ہیں اور جب بھی کوئی حادثہ ہو تو فوراً مدارس اور علوم نبوت کے وارثان علماء کرام اور طلباء عظام پر زبان درازی اب ایک فیشن بن چکا ہے لیکن آیئے دنیا کی پہلی دینی درسگاہ اور مدرسہ کے بانی کی سیرت اور کردار اور دنیا کے پہلے مدرسہ کے طلباء کی تاریخ کو بنظر عمیق دیکھتے ہیں کہ کیا دینی مدارس کی بنیاد انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے اور معاشرے میں امن وامان کو تباہ کرنے کی غرض سے قائم کیاگیا یا انسانیت کی تعمیر اور حقوق کے تحفظ کیلئے ؟؟
کیا مدارس اسلامیہ کا مؤسس وبانی نعوذ باللہ کوئی دہشت گرد تھا یا امن عالم کا سفیر؟
کیا مدارس اسلامیہ کی بنیاد انتشار وافتراق پر رکھی گئی یا امن وامان محبت اور بھائی چارگی اور اخوت کو عام کرنے کیلئے؟
اس جیسے دیگر کئی سوالات کا جواب اس وقت ہمیں ملے گا جب ہم حقائق کی روشنی میں آنکھوں سے عصبیت حسد اور پسند وناپسند کی عینک کو اتاریں اور مدارس کی بنیادی جڑوں کو دیکھیں گے۔ دیکھتے ہیں مدارس کی بنیاد کب اور کونسی شخصیت نے رکھی ہے؟
مدارس علوم دینیہ کی ابتداء :
مدارس اسلامیہ کی بنیاد ہمارے پیارے نبی اور پیغمبر اسلام محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہجرت کے بعد رکھی ۔صفہ کے نام سے دنیا کی پہلی عظیم دینی درسگاہ اور تربیتی مرکزہمارے پیارے نبی محمد مجتبیٰ ﷺ نے مسجد نبوی میں قائم کی اور نبی کریم ﷺ نے خود درس وتدریس کے عظیم منصب کو سنبھال کر دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ اس عظیم کام کو اٹھانے والے وہ لوگ ہوں گے جو کہ ورثۃ الانبیاء کے منصب پر فائز ہوں گے۔
دنیاکا پہلا دینی اور تربیتی مرکز اور مدرسہ کے طلباء کرام کونسی عظیم ہستیاں تھیں؟ جی ہاں وہ عظیم طلباء جن کو آج کل ہمارے اصحاب رسول کے نام سے جانتے ہیںیہ وہی پاکیزہ ہستیاں ہیں جن کی چند خوبیاں باری تعالیٰ اپنی کتاب میں ذکر فرماتے ہیں :
أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ (المجادلۃ22)
’’یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا :
رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المجادلۃ22)
’’اللہ ان سے راضی اور یہ اللہ سے راضی ہیں‘‘۔
مزید فرمایا: رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح 29)
’’آپس میں رحمدل ہیں۔‘‘
اور فرمایا:أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (الحجرات 7)
’’یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔‘‘
جن کے دل نورِ ایمان سے منور تھے اور وہ عظیم ہستیاں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ اعلان کرے کہ وہ مجھ سے راضی میں ان سے راضی ہوں اور جو آپس میں رحمدل اور مہربان ہوں ،رشد وہدایت کے عظیم پیروکار وغیرہ القاب سے متصف ہستیاں ۔
تو کیا ان صفات کے مالک یا ان کے وارث اور منزل مسافر دینی مدارس کے طلباء اس طرح کا سوچ سکتے ہیں کہ وہ معصوم بچوں سے زندگیوں کاحق چھین لیں ؟ کیا جو نبی ﷺ کافروں کی امانتوں کی حفاظت کرے اور
خود دشمنانِ اسلام آپ ﷺ کی امانت وصداقت
کے معترف ہوں ان کے راہ پہ چلنے والے اور علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کرنے والے یہ سوچ سکتے ہیں کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے انتہا پسندانہ رویہ اپنائیں؟ ہرگز نہیں ...
اگر کوئی عقل وشعور رکھتا ہو تو یقینا وہ غوروفکر کرے گا تو اصل سبب کیا ہے کہ روشنی اور امن کے ان مراکز اور ان کے پھول نشانے پر کیوں ہیں؟
آیئے تاریخ پر نظر ڈالتےہیں کہ علماء کرام اور دینی مدارس وطلباء کو مختلف ناموں سے پکارنے والوں کا مقصد اور اصل ہدف کیا ہے ؟ اور ان کی تاریخ کتنی پرانی ہے ؟
جی ہاں جس طرح دینی مدارس وجود میں آئے تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت یعنی نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی دشمنانِ اسلام نے سازشیں شروع کیں اور حتی کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کو مختلف القابات اور ناموں سے نوازا نعوذ باللہ آپ علیہ السلام کو ساحر، جادوگر، شاعر اور کئی دیگر ناموں سے پکارا لیکن اسی وقت قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل مقصد کا تذکرہ کرکے ہمیں آگاہ کر دیا کہ قرآن کریم اور دینی علوم اور علماء کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کا اصل ٹارگت کیا ہے آیئے قرآن پاک کی رو سے ان کے مقاصد کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا چاہتے ہیں ؟
فرمان الٰہی ہے :
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (الصف:8)
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشوں سے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی ناکام سازشوں کے ذریعے اللہ کے نور یعنی قرآن پاک یا اسلام یا محمد ﷺ یا دلائل وبراہین کو بجھا دیں اسی لیے وہ طعن وتشنیع کرتے ہیں۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ موجودہ دور میں جتنی بھی سازشیں ہو رہی ہیں ان کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے جو بات یہودونصاریٰ اور دشمنانِ اسلام چودہ سوسال پہلے کیا کرتے تھے آج انہی کے نظریات اور افکار کے وارث وہی بات کرتے ہیں اور کررہے ہیں وہ بھی لوگوں کو مختلف ذرائع سے گمراہ کیا کرتے تھے آج انہی کے نظریاتی اور فکری جانشیں انہی کی باتوں کو دہرا رہے ہیں بات صرف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں دوست نما دشمن اور آستین کے سانپ نہ ہونے کے برابر تھے اور اگر تھے تو بہت کم اور ان کے پاس پروپیکنڈہ کیلئے ذرائع کم تھے آج الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر انہی کاغلبہ ہے اسی لیے وہ اپنے اس جال کو وسیع انداز میں پھیلا رہے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کررہے ہیں سوائے اس کے وہ کچھ نہیں کرسکتے کہ وہ بھولی بھالی عوام کو گمراہ کریں۔
علوم دینیہ اور مدارس دینیہ کے عظیم مراکز ان شاء اللہ تاقیامت قائم رہیں گے اور دشمنانِ اسلام اپنی نامراد سازشوں سے ہاتھ دھوئیں گے۔ ان شاء اللہ
عوام الناس کو چاہیے کہ وہ اسلام کے قلعوں کو مضبوط کریں اور دشمنانِ اسلام کو یہ پیغام دیں کہ دینی مدارس ہمارے علمی تربیتی ،اصلاحی ونظریاتی محافظ ہیں اور علماء کرام ہی ہمارے حقیقی وارث ہیں ۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
ان شاء اللہ
پہلی بات :
قارئین کرام! دین اسلام کے عقائد ونظریات ہوں یا معاملات اخلاقیات ان سب کی بنیاد اور اساس وحی الٰہی کے علم پر ہے دین اسلام کے متبعین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی زندگی اور فکر کا سرچشمہ زمانے کے ساتھ تغیر پذیر ہونے والے انسانی اجتہادات وتجربات اور غیر قطعی نظریات کے بجائے خالص وحی الٰہی ہے۔ آیاتِ قرآنیہ ، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم ، آثار سلف اور علم کی فضیلت میں اہل علم کا کلام شمار سے باہر ہے پہلے اور پچھلے علماء نے علم، اہل علم کی فضیلت اور لوگوں کی اس طرح ضرورت واحتیاج کا اہتمام کیا ہے علماء کی اکثریت نے اس بارے میں تصانیف لکھی ہیں بعض علماء نے اپنی تصنیفات میں علم پر خاص مباحث لکھ کر روشنی ڈالی ہے جنہوں نے علم اور اہل علم کے متعلق لکھا ہے وہ اصحاب سنن ہیں کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں علم کے لیے مستقل کتاب اور ابواب قائم کیے ہیں ۔ علم کے موضوع پر مستقل تصنیف امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کی ہے ، جس کا نام ’’ جامع بیان العلم وفضلہ ‘‘ ہے ، اسی طرح خطیب بغدادی کی ’’الفقیہ والمتفقہ‘‘ اور’’ الجامع لآداب الراوی وأخلاق السامع ‘‘ ہے۔ امام ابن جماعہ کی ’’تذکرۃ السامع والمتکلم‘‘ ہے اور معاصرین میں شیخ بکر ابو زید کی ’’ حلیۃ طالب العلم ‘‘ ہے۔ (صحیح فضائل اعمال ، صفحہ نمبر : 340 مترجم سعید الرحمن ہزاروی)
علم دین سے متعلق احکامات ربانیہ اور ہدایات نبویہ کا بیش بہا خزانہ باری تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے قرآن عظیم اور حدیث شریف میں متعدد مقامات پر اہل اسلام کو اصول علم کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔ قرآن وحدیث میں علم دین کے فضائل وبرکات بکثرت موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ۔
فضیلت علم قرآن کی روشنی میں:
mاسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن کی سب سے پہلی آیت جو اللہ نے اپنے نبی پر نازل فرمائی وہ اسی تعلیم سے متعلق تھی اللہ تعالی فرماتا ہے:
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق: 1 - 5)
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ،تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑ اکرم والاہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
m جب سیدناابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کعبہ بنا یا اور وہاں چند لوگ آباد ہوگئے تو دعا فرمائی تھی
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 129)
اے ہمار ے رب!ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے ،یقینا تو غلبہ والااورحکمت والاہے۔
m نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ۖکی بعثت کا مقصد تعلیم وتربیت ہے ارشاد باری تعالی ہے :
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے ، یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (الجمعة: 2)
m علماء تقوی شعار ہیں ، باری تعالیٰ کا فرمان ہے :
إِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں ۔(فاطر:28)
m اہل علم دیگر لوگوں پر سبقت اور فوقیت رکھتے ہیں فرمان باری تعالیٰ ہے :
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (الزمر:9)
آپ ان سے پوچھئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟
m اہل علم شکر گزار ہوتے ہیں جیسا کہ رب العزت نے سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا :
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا ۚ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ (النمل:15)
نیز ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا وہ دونوں (ازراہ تشکر)کہنے لگے ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔
m اہل علم بلند درجات کے مستحق ہیں ان کی اس خوبی کا تذکرہ رب تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے کہ
یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ ۙ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلۃ:11)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرے گا۔
m کسی بھی شخص کے پاس علم کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ باری تعالیٰ اس پر فضل فرما رہا ہے جیسا کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ۭ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا
اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے، یہ آپ پر اللہ کا بہت ہی بڑا فضل ہے۔(النساء : ۱۱۳)
m اہل علم توحید الٰہی کے شاہد ہیں کیونکہ توحید باری تعالیٰ کی اساس اور بنیاد علم پر ہے باری تعالیٰ کا فرمان ہے
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗیِٕکَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗیِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (آل عمران : ۱۸)
اللہ نے خود بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی راستی اور انصاف کے ساتھ یہی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ وہی زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں غور کرنے سے ہمیں اہل علم کے متعدد فضائل معلوم ہوتے ہیں ۔
۱۔ اہل علم کی شہادت باری تعالیٰ کی شہادت سے متصل ہے ۔
۲۔ اہل علم کی شہادت کو فرشتوں کی شہادت کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
۳۔ اہل علم عدل وانصاف کے علمبردار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ عادل اشخاص کو ہی گواہ بناتاہے ۔ ( مفتاح دار السعادۃ لابن قیم )
m باری تعالیٰ نے خود اپنے پیغمبر کو علم میں اضافہ کی دعا سکھلائی اور فرمایا :
وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا
اے میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔(طٰہ : ۱۱۴)
اہل علم احکامات الٰہیہ اور انعامات ربانیہ کے بارے میں دیگر لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۚ وَلَا یُلَقّٰهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ
مگر جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے: جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو اس کے لئے اللہ کے ہاں جو ثواب ہے وہ (اس سے) بہتر ہے۔ اور وہ ثواب صبر کرنے والوں کو ہی ملے گا۔(القصص : ۸۰)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور فضیلت علم
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد دفعہ علم کی فضیلت سے امت محمدیہ کو آگاہ کیا ان میں سے چند ایک ارشادات نبویہ درج ذیل ہیں :
m علم سے امامت ملتی ہے :
عن ابن شهاب عن عامر بن واثلة أبي الطفيل أن نافع بن عبد الحارث لقي عمر بن الخطاب بعسفان وكان عمر استعمله على مكة فقال عمر من استخلفت على أهل الوادي قال استخلفت عليهم ابن أبزى قال ومن ابن أبزى قال رجل من موالينا قال عمر فاستخلفت عليهم مولى قال إنه قارئ لكتاب الله تعالى عالم بالفرائض قاض قال عمر أما إن نبيكم صلى الله عليه و سلم قال إن الله يرفع بھذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين،
(ابن ماجہ، الصحيحة 2239 : تخريج المختارة 230 )
ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ نافع بن عبد الحارث جو کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکہ کے گورنر تھے ، عمر رضی اللہ عنہ جب مکہ آرہے تھے تو نافع بن عبد الحارث عمر رضی اللہ عنہ کا استقبال کرنے کے لئے مکہ سے مدینہ کے راستے میں مقام عسفان گئے ، عمر رضی اللہ نے پوچھا اپنا خلیفہ کس شخص کو بنا کر آئے ہو ، نافع نے جواب دیا ابن ابزی کو ، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ ابن ابزی کون ہے ؟ نافع نے جواب دیا : وہ ایک غلام آدمی ہے ، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا ایک غلام کوتم نے اپنا خلیفہ بنایا ہے ؟! نافع نے جواب دیا : کہ وہ اللہ کی کتا ب کا عالم اور حافظ اور میراث کا علم جانتا ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ تمہارے نبی کریم ۖ نے فرمایاہے :
إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ (صحيح مسلم (1/ 559)
m انبیاء کے وارث :
علم وحی انبیاء کی میراث ہے اور اس کے حاملین انبیاء کے ورثاء ہیں ۔ رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ(سنن ابن ماجہ : 223)
بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں انبیاء درہم ودینار کی وراثت چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ وہ علم کا وارث بنا کر جاتے ہیں جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ حاصل کرلیا۔
m جنت کا راستہ :
عن أبی هریرة رضی الله عنه أن الرسول قال: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الجَنَّةِ (صحیح مسلم : 2699)
سیدنا ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان فرماتے ہیں ‘‘ جو ایسے راستے پر چلا جس میں وہ علم تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔
m اللہ کے راستے کا راہی :
حصول علم میں مشغول خوش قسمت افراد اللہ کے راستے کے راہی ہیں جیسا رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ العِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى يَرْجِعَ (سنن الترمذي (4/ 325)
جو آدمی علم کی جستجو کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو واپس پلٹنے تک اللہ کے راستےمیں ہوتاہے۔
أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ دَخَلَ مَسْجِدَنَا هَذَا لِيَتَعَلَّمَ خَيْرًا أَوْ يعلِّمه كَانَ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
(رواه أحمد بسند صحيح. (13 ) أخرجه أحمد (2/350، رقم 8587)، وابن حبان (1/287، رقم 87)، والحاكم في المستدرك (1/169، رقم 310)، وحسنه الشيخ الألباني في صحيح ابن حبان (1/287).
سیدنا ابوہریرہ tسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہماری اس مسجد میں خیر سیکھنے سکھانے کے لئے داخل ہو وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے۔
m طالب علم کے لیے عظیم خوشخبری :
حدیث کو یاد رکھنے اور اسے آگے پہنچانے والے خوش نصیب افراد کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّی یُبَلِّغَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَیْسَ بِفَقِیهٍ (سنن ابی داؤد : 3660)
اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھیں جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور اسے یاد کر لیا حتی کہ دوسرے تک پہنچادیا بسا اوقات حامل فقہ اسے سکھاتا ہے جو اس سے بھی زیادہ فقیہ ہوتاہے اور کئی حاملین فقہ خود فقیہ نہیں ہوتے۔
m بے پناہ اجر :
مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَیْئًا ( صحیح مسلم : 2674)
جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی اس کے لیے بھی ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے مثل اجر ہے یہ چیز ان کے اجر وثواب میں کمی واقع نہیں کرے گی اور جس نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا ہی گناہ ہے جتنا کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے لیے ہے یہ چیز ان کے گناہوں میں کمی نہیں کر ےگی۔
مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ لَا يُرِيدُ إِلَّا أَنْ يَتَعَلَّمَ خَيْرًا أَوْ يَعْلَمَهُ، كَانَ لَهُ كَأَجْرِ حَاجٍّ تَامًّا حِجَّتُهُ (12). 12 ) أخرجه الطبراني (8/94، رقم 7473) صححه الشيخ الألباني في صحيح الترغيب والترهيب (1/20)
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لاَ حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الحَقِّ، وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً، فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا (بخاري (2/ 108)، مسلم (1/ 559)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حسد صرف دو چیزوں پر جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔
m صدقۂ جاریہ :
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ "(صحیح مسلم : 1631)
سیدنا ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جب انسان فوت ہوجاتاہے اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہوئے بجز تین چیزوں کے صدقہ جاریہ ، نفع بخش علم اور صالح اولاد کی دعائیں ۔
عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَهُ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَیْتًا لِابْنِ السَّبِیلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِی صِحَّتِهِ وَحَیَاتِهِ، یَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ
سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ان میں سے چند اعمال یہ ہیں علم جو لوگوں کو سکھا کر پھیلایا (اس میں تدریس، وعظ، تصنیف وافتاء وغیرہ سب داخل ہیں) اور جو صالح اولاد چھوڑی اور قرآن کریم (مصحف) جو میراث میں چھوڑا یا کوئی مسجد بنائی یا مسافر خانہ بنایا یا کوئی نہر جاری کی یا جیتے جاگتے صحت وتندرستی میں اپنی کمائی سے کچھ صدقہ کر دیا ان سب کا اجر اسے مرنے کے بعد ملتا رہے گا۔(رواہ ابن ماجہ وحسنہ الالبانی )
علم اسلاف کی نظر میں :
علم دین کی اہمیت سے متعلق اسلاف سے منقول ارشادات کو بیان کرنے کے لیے کئی ایک دفاتر بھی ناکافی ہیں چند ایک اہل علم کے اقوال زریں پیش خدمت ہیں :
m قال عمر بن الخطّاب t: تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ (جامع بیان العلم وفضله (1/ 135)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ علم حاصل کرو اور پھر لوگوں کو اس سے روشناس کرواؤ۔
m سیدنا عبد اللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا :
کن عالماً أو متعلماً ولا تکن الثالثة فتهلک
استاد اور طالب علم بن کر رہو تیسرے نہ بنو ہلاک ہو جاؤگے۔
m سیدنا ابن مسعود کا ہی ارشاد ہے
یا أیّها النّاس تعلّموا، فمن علم فلیعمل کتاب العلم لأبی خیثمة زهیر بن حرب
اے لوگو! علم حاصل کرو پس جو شخص علم حاصل کر لینا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے علم پر عمل بھی کرے ۔
وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ: ثَلاَثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِی وَلِإِخْوَانِی: هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ یَتَعَلَّمُوهَا وَیَسْأَلُوا عَنْهَا، وَالقُرْآنُ أَنْ یَتَفَهَّمُوهُ وَیَسْأَلُوا عَنْهُ، وَیَدَعُوا النَّاسَ إِلَّا مِنْ خَیْرٍ (صحیح البخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ )
سیدنا عبد اللہ بن عون کا فرمان ہے :
کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔
m امام اہل السنۃ والجماعۃ امام احمد بن حنبل علم کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
النّاس إلی العلم أحوج منهم إلی الطّعام والشّراب. لأنّ الرّجل یحتاج إلی الطّعام والشّراب فی الیوم مرّة أو مرّتین، وحاجته إلی العلم بعدد أنفاسه
لوگوں کے لیے علم(علم شریعت) کھانے پینے سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ کھانے پینے کی حاجت تو دن میں ایک یا دو دفعہ ہوتی ہے مگر علم کی ضرورت تو ہرسانس کے ساتھ ہوتی ہے۔ (مدارج السالکین (2/ 470)
هِلَال ا بْنُ خَبَّابٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ قُلْتُ: یَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا عَلَامَةُ هَلَاکِ النَّاسِ؟ قَالَ: إِذَا هَلَکَ عُلَمَاؤُهُمْ
ہلال بن خباب بیان کرتے ہیں میں نے سعید بن جبیر سے دریافت کیا اے ابو عبداللہ لوگوں کے ہلاک ہونے کی نشانی کیا ہے انہوں نے جواب دیا جب ان کے علماء ہلاک ہوجائیں۔ (سنن الدارمی (1/ 309)
دینی مدارس کی اہمیت وخصوصیت :
قارئین کرام درج بالا سطور میں آپ نے علوم اسلامیہ کے فضائل و برکات ملاحظہ کی ہیں اب ہم اپنے موضوع کے دوسرے حصہ پر روشنی ڈالتے ہیں اس حصہ میں ہم مدارس اسلامیہ کے کردار اور ان کی خدمات سے مختصرا بحث کریں گے یاد رہے کہ معاشرے میں اسلامی اقدار اور روایات کو زندہ رکھنے میں ان مدارس کا تابندہ کردار ہے۔
اگر دین اور اس کے شرعی نظام کی ضرورت ہے تو مذہب کے محافظین و حاملین اور شریعت کے ترجمانوں اور شارحین کی ضرورت رہے گی ایسے میں ان مراکز اور اداروں کی بقاء انتہائی ضروری ہے جو کہ ایسے اشخاص پیدا کر سکیں جن کے ذریعے معاشرے میں نظام اسلامی کا نفاذ ہو سکے۔
دشمنان اسلام اسلامی معاشرہ کو خالص اس کی اپنی راہ سے دو رکرنے اور مغربی سوچ کا خوگر بنانے کے لئے دُنیا پرستوں نے مدارس کو مٹاکر اسکول قائم کئے اور اسکولوں کے ذریعہ اپنے غلام بنائے، جو بقول لارڈمیکالے کے:
”خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں، مگر مذاق، رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہوں۔“(نقشِ حیات ج:۱ ص:۱۸۶)
اس لئے مسلم قوم کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔وہ اس طرح ادارے قائم کریں کہ بچے کی دینی تعلیم کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ آج پاکستان میں مسلمانوں کا وجود اور اسلامیات کی بقا انہی دینی اداروںکی مرہون منت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ہندوستان میں حکومت مغلیہ کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو بالغ نظر اور صاحب فراست علماء کرام نے جا بجا شریعت اسلامیہ اور تہذیب اسلام کے قلعے تعمیر کر دیئے انہی قلعوں کا نام عربی مدارس ہے اور آج اسلامی شریعت انہی قلعوں میں پروان چڑھ رہی ہے اسلامی تہذیب و ثقافت کی قوت و استحکام انہی قلعوں پر موقوف ہے۔ اسپین سے دین اس لئے رخصت ہوگیا کہ وہاں مدارس اسلامیہ قائم نہیں ہوسکے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ نظام شرعی کی حفاظت اور اس کے لیے ایثار قربانی صرف وہی طبقہ کر سکتا ہے جس کی ذہنی و عملی تربیت اس کے موافق ہوئی ہو جس کے رگ و پہ میں اس نظام کی محبت و احترام پیوست ہو گیا ہو اور جس کے قلوب و اذہان اس نظام کی حقانیت پہ آمنّا و صدقنا کہتے ہوں۔
اب مدارس اسلامیہ کی سر گرمیوں اور خصوصیات کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہے یاد رہے کہ یہ خصوصیات تحقیقی ماہنامہ محدث سے حق و اضافہ کے ساتھ نقل کی جارہی ہیں۔
شرعی رہنمائی
پاکستان میں روزمرہ پیش آنے والے تمام مسائل میں شریعت کی رہنمائی کے لئے عوام الناس دینی مدارس کے فیض یافتگان کی طرف رخ کرتے ہیں- کسی بڑے سے بڑے دانشور یا اسلامیات کے ماہر کو پاکستان کا معاشرہ یہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں کہ وہ ان کے مسائل میں اُنہیں فتویٰ دے سکے-
چنانچہ طلاق و رضاعت کا کوئی مسئلہ یا وراثت کی کوئی تقسیم، ایسے ہی عبادات ومعاملات میں کوئی سوال پیش آئے تو اس کا حل صرف مدارس کے علما سے ہی کروایا جاتا ہے-
سماجی کردار
ہر معاشرہ میں کچھ ضروریات ہوتی ہیںعوام کی ان ضروریات کی تکمیل بھی صرف علماء دین ہی کرتے ہیں- ان معاشرتی ضروریات میں نکاح، جنازہ، ولادت جیسے کئی امور شامل ہیں-
مساجد میں خدمات
مسجد کسی بھی معاشرتی یونٹ کی ایک اکائی ہے دورِ نبوی میں مسجد عبادات کے علاوہ عدل وانصاف، ضیافت ومہمان نوازی، مرکز ِتعلیم، مرکز حکومت اور مشاورت و کمیونٹی سنٹر کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے اکستان کی مساجد یعنی اسلامی کمیونٹی سنٹرز 100 فیصد مدارس کے فیض یافتہ علما کے پاس ہیں- ان مدارس میں خطباتِ جمعہ کے ذریعے مدارس کے علما کو اپنے خیالات عوام تک پہنچانے کے وسیع مواقع میسر آتے ہیں-ان مساجد میں امامت کے فرائض بھی یہی مدارس کے فاضلین انجام دیتے ہیں- یاد رہے کہ پاکستان میں خطبہ جمعہ 99 فیصد مدارس کے علما ہی دیتے ہیں-
جماعتی خدمات
پاکستان دینی مدارس کے فاضلین سینکڑوں کی تعداد میں دینی جرائد شائع کرتے ہیں- مدارس کے علاوہ دیگر ذرائع سے شائع ہونے والے دینی جرائد کی تعداد 8،10 فیصدسے زیادہ نہیں-
خصوصی مضامین کی تدریس
پاکستان کے ان دینی مدارس میں کئی علوم ایسے ہیں، جو صرف یہاں ہی پڑھائے جاتے ہیں، اور اگر مدارس یہ خدمات ختم کردیں تو ملک میں اِن علوم وفنون کا وجود ہی ناپید ہوجائے- ایسے علوم میں حفظ ِقرآن کے جملہ مدارس کے علاوہ تجوید وقراء ت کا علم شامل ہے-
مدارس کا کردار اسی حد تک ہے کہ اُنہوں نے ہماری روایات کو تحفظ عطا کررکھا ہے، اور ہماری دینی ضروریات میں انہوں نے تعطل نہیں آنے دیا،اس میدان میں ہم مدارس کے احسان مند ہیں- اگر حکومتی، تعلیمی، ابلاغی ، عوامی، انسانی اور مالی سطح پر ان کا جائز مقام اور وسائل اُنہیں دیے جائیں تو یہ مدارس روایات کے تحفظ سے آگے بڑھ کر نئے زمانے کے چیلنج کا سامنا بھی کرسکتے ہیں- نباض ملت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے مدارس پر اعتراض کرنے والوں سے برملا کہا تھا:
ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو، کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا ، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں- اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اَندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا- ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دِلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت او ران کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔ (محدث فروری ، مارچ بتصرف وزیادات)
آخری بات
مراکز اسلامیہ حفاظت دین ردبدعات، اصلاح رسول اور الحاد و زنادقہ کے مقابلہ میں گرانقدر خدمات سر انجام دے رہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ معاندین اسلام نے جب بھی اسلام پر ضرب لگائی مراکز اسلامیہ کے متعلقین نے خم ٹھونک کر ان کا مقابلہ کیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ان مراکز و مدارس کے دست و بازو بنیں تاکہ حفاظت دین ترویج اسلام کا یہ کام ٹھوس بنیادوں پر جاری رہ سکے۔
یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ کسی بھی معاشرے ، یاتہذیب وتمدن کی ترقی صحیح اور اچھی تربیت کے رہینِ منت ہے ۔ جو قومیں تربیت میں پیچھے ہیں وہ تعمیر وترقی میں بھی پیچھے ہیں ۔ اس لئے ماہرین تربیت کہتے ہیں کہ
’’جذور التربیۃ مرّۃ ، ولکن ثمارھا حلوۃ ‘‘ تربیت کی جڑیں کڑوی ہیں لیکن اس کا پھل بہت میٹھا ہے ۔
نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ۔ یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کی جاسکتا۔ اسی طرح معاشرے کی مختلف اکائیاں ہیں جو تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔ ان میں ایک استاد بھی ہے ۔ اور استاد کا کردار اگر معاشرے سے نکال دیا جائے وہ زمین بوس ہوجاتاہے ۔ اس لئے کسی کہنے والے نے یہ کہا تھا کہ ’’ جو شخص تعلیم کی سختی برداشت نہیں کرتا وہ اپنی پوری عمر جہالت کے اندھیروں میں گذار دیتاہے ، اور جو تعلیم کی مشکلات پر صبر کرتا ہے اس کا انجام دنیا وآخرت کی عزت پر منتج ہوتا ہے ۔
کسی شاعر نے بھی اس پہلو کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے :
ومن لم یذق مُرّالتعلّم ساعۃ
تجرّع ذُل الجھل طول حیاتہ
جو تعلیم کی مشقت ایک گھڑی برداشت نہیں کرتا وہ ساری زندگی جہالت کی ذلت کےجام نوش کرتا رہے گا ۔
ایک استاد کا تہذیب کو بنانے اور اسے سلیقہ سکھانے میں کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ ماں باپ کی کوکھ کے بعد بچہ جس تربیتی مکتب کا رخ کرتا ہے وہ تعلیمی ادارے ہیں ۔ جہاں موجود استاد اس کی صحیح نہج پر تربیت کرتے ہیں ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس وقت اگر تعلیمی اداروں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تودنیاوی اداروں میں بالعموم اور دینی اداروں میں بالخصوص تعلیم تو موجود ہے مگر تربیت کا انتہائی فقدان ہے۔ جبکہ اس کے برعکس شر کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے۔ کارٹون سیریز ، ڈرامے اور فلمیں منفی ذہن سازی کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جارہی ہیں ۔ جن میں محض شدت پسندی ، دھوکہ دہی ، خرافات ، فحاشی کا درس دیا جاتاہے۔جو فرد کو مہذب نہیں مجرم نمایاں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد جریسی اپنی کتاب( الفن الواقع والمأمول) میں لکھتے ہیں کہ ’’ تحقیقات اور مختلف سروے یہ بتاتے ہیں کہ ۹۰فیصد بچے جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اس کا سبب تشدد والی فلمیں ہیں‘‘۔ ایسی صورت حال میں بجائے اس کے کہ اہل خیر اور ان کے ادارے اس سیل رواں کے سامنے بند باندھیں وہ معاشرے کی ضروریات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔
اداروں میں محض تعلیم پر زور ہے تربیت کا فقدان ہے ۔ مگر یہ بات واضح رہے کہ منہج چاہے کتنا بھی معیاری اور اعلیٰ قسم کا ہو جب تک ایک بہترین معلّم جو استاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مربی بھی ہو نہیں ہوتا اس وقت تک اس تعلیم میں کوئی روح نہیں ہوتی ۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :’’ لاینفع تکلم بحق لا نفاذ لہ‘‘اس حق کےپرچار کرنےکا کوئی فائدہ نہیں جسے اپنی زندگی میں نافذ نہ کیا جائے ‘‘ ۔
طلباء کو صرف یہ سکھانا کفایت نہیں کرتا کہ جھوٹ ، چغلی ، حسد ، کینہ ، بغض حرام ہے ۔ بلکہ ان رذیل صفات کا ان کی زندگیوں سے خاتمہ کرنا اصل تعلیم ہے۔ اس لئے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں کئی ایک آثار موجود ہیں جنہوں نے محض سورۃ بقرہ آٹھ سال میں ختم کی۔ ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں:
کانوااذاتعلموا عشر آیات لم یخلفوھا حتی یعملوا بمافیھامن العمل فتعلمناالقرآن والعمل جمیعا ‘‘
صحابہ جب دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک ان پر عمل نہ کرلیتے اس طرح ہم نے قرآن اور عمل ایک ساتھ سیکھے ۔
اس لئے ان میں محض سورۃ بقرہ کے پڑھنے والے کو وہ مقام ومنزلت اور عزت وشرف ملا کرتا تھا جو آج کے حافظِ کتب کو بھی نہیں ملتا ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان الرجل منا اذا قرأ البقرۃ جدّ فینا
ہم میں اگر کوئی شخص سورہ بقرہ پڑھ لیتا تو ہماری نظروں میں بڑا عظیم شمار ہونے لگتا ۔
قصہ مختصر یہ کہ ہم نے ضالین کو مغضوب علیہم نہیں بنانا بلکہ انہیں راشدین ، صالحین اور متقین بناناہے ۔ اور یہ کام ایک ماہر مربی استاد کے بغیر ممکن نہیں ۔
اس لئے سلف میں کسی سے کہا گیا ہے مسجد میں کچھ لوگ بیٹھے فقہ کا مذاکرہ کر رہے ہیں اس کے مسائل کا جائزہ لے رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ کیا ان کا کوئی استاد ہے ؟ کہا گیا نہیں : انہوں نے فرمایا تو یہ لوگ کبھی بھی دین کی سمجھ حاصل نہیں کرسکتے ۔
فی زمانہ استاد کا کردار معاشرے میں اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ کوئی استاد بننے کیلئے تیار نہیں ۔
تربیت ایک انتہائی وسیع موضوع ہے جس پر مارکیٹ میں بے شمار کتابیں میسر ہیں لیکن بغرض افادہ عامہ استاد کی تربیتی ذمہ داریوں کے حوالے سے چند ایک اہم پہلؤں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ جو طالب علم کی زندگی کو تعمیری اور مفید بناتے ہیں ۔
تربیت کے چند بنیادی عناصر درج ذیل ہیں :
۱ : استاد کو طلباء کیلئے قابل نمونہ ہونا چاہئے :
کیونکہ طالب علم اپنے استاد کو جس ہیئت اور حلیے میں دیکھتا ہے اسی کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا ایک معلّم کی حرکات وسکنات سے لیکر اس کے معاملات، میل جول، اس کا مظہر طالب علم میں ایک اثر چھوڑتا ہے۔
۲: ایک معلم کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ طلباء کے دلوں میں اعتماد اور اطمینان پیدا کرے ۔
تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ، اور تحصیل علم میں کسی قسم کا خوف ، تردد ، اور اضطراب ان کی تعلیمی زندگی میں نہ آنے پائے۔ جو بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایک طالب علم آٹھ یا دس سال کی تعلیم تو حاصل کرلیتا ہے مگر وہ احساس کمتری میں ہی مبتلا رہتا ہے۔ اس کے پاس سب سے اعلیٰ وارفع علم شرعی کی دولت ہوتی ہے لیکن تعلیمی زندگی کے تمام مراحل میں وہ اسی تذبذب اور شک کا شکار رہتاہے کہ میں جو پڑھ رہا ہوں اس سے میرا مستقبل کیسے سنورے گا۔ میں فارغ التحصیل ہوکر کیا کروں گا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس بے یقینی کیفیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ فرد نہ اِدھر کا رہتا ہے نہ اُدھر کا۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھ کر کڑھتا رہتا ہے کہ کاش میں بھی عصری تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ پوسٹ پر فائز ہوتا ۔ ایسے موقع پرایک استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جو چیز وہ پڑھا رہا ہے طلباء اس سے وہ محض ایک علم ہونے کے نہیں بلکہ ایک قیمتی زیور ہونے اور بیش بہا خزانے ہونے کی نیت سے پڑھیں ۔ اور ان کی دلوں میں یہ بات ڈالنی چاہئے کہ دین کا راستہ سب سے عظیم راستہ ہے ۔تاکہ اس کے دل میں شوق اور لگن پیدا ہو ۔
۳ : مختلف واقعات سے طالب علموں کی ذہن سازی اور تربیت کرنا:
اسلام کی تاریخ سنہرے واقعات سے بھری ہوئی ہے ایک کامیاب استاد ان واقعات کو طلباء کی زندگی کا حصہ بنانے اور انہیں اس سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کی تلقین کرتارہتا ہے ۔
۴: مدنی قوانین جو انسانیت کی اصلاح کیلئے متعین کئے گئے ہیں ان کی پاسداری کرنے پر تربیت کی جائے۔
جیسے ٹریفک قوانین ہیں۔ طلباء کی ایک بہت بڑی تعداد اس کا لحاظ نہیں کرتی ۔
۵ : استاد کیلئے تربیتی لحاظ سے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ طالب علم کی نفسیات اور اس کے حالات سے بخوبی واقف ہواور مشکلات میں اس کی مناسب رہنمائی کرے۔ بسا اوقات کسی طالب علم کو کسی قسم کی مادی یا معنوی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کہیں شفارش کی نوبت آجاتی ہے تو استاد کو چاہئے کہ وہ طالب علموں کے ساتھ ایسے مواقع پر ساتھ دیں۔
۶ : نرم روئی اچھی رائے اور اچھے الفاظ سے تربیت کرنا ۔
تربیت کی کتابوں میں سے ایک کتاب میں میری نظر ایک واقعے پر پڑی جو سبق آموز ہے ۔
ایک بچے والد نے اپنے بیٹے کے حوالے سے بتایا ان کے استاد اپنی کلاس میں مسلسل اپنے شاگردوں کو فجر کی نماز کا اہتمام کرنے کی تلقین کرتے رہتے اور صدق دل سے ان کے جذبات کو ابھارتے اس استاد کی انہی سچی نصائح تیسری کلاس کے ایک بچے کے دل میں گھر گئیں ۔ بچہ گھر گیا تو یہ عزم کرچکا تھا کہ فجر کی نماز اب کبھی نہیں چھوڑوں گا پہلے دن وہ اٹھ نہ پایا دوسرے دن اس نے دیکھا کہ گھر میں تو کوئی فجر میں اٹھتا نہیں مجھے کون اٹھائے گا ؟۔ لہذا اس نے یہ فیصلہ کیا کہ آج رات میں سوؤں گا ہی نہیں تاکہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرسکوں ۔ ابھی اس کی اسی کیفیت پر کچھ دن گذرے تھے کہ مدرسے کے اس استاد کا انتقال ہوگیا ۔ بچہ گھر آیا زارو قطار رو رہاتھا ۔ باپ نے کہا بیٹا کیا ہوا اگر استاد فوت ہوگیا ہے تو کیا ہوا وہ ایک اجنبی شخص تھا تمہیں کیا سروکار بچہ کہنے لگا کہ میرے ابو کاش آپ ان کی جگہ مرجاتے! باپ نے حیرت سے پوچھا بیٹے تم کیسے ہو کہ ایک اجنبی فرد کی جگہ اپنے باپ کے مرنے کی تمنا کررہے ہو بیٹے نے کہا ہاں۔ آپ مرجاتے تو اچھا تھا کیونکہ میرے استاد نے مجھے فجر میں اٹھنا اور باجماعت نماز ادا کرنا سکھایا جبکہ آپ نے مجھے کبھی فجر کیلئے نہیں جگایا۔ یہ سننا تھا کہ باپ ہچکی باندھ کر رونے لگا اور زارو قطار روتا ہی رہا۔ یہ مقام اس کے باپ کی تبدیلی کا بھی نکتہ تھا یہیں سے اس استاد کی کاوش سے اس بچے کے والد کی زندگی بھی سدھر گئی۔ اچھے کلمات یقینا سلیم الفطرت انسان کی زندگی پر اثر چھوڑتے ہیں۔
اس کی چند ایک مثالیں اسلاف کی سیرت سے بھی ملاحظ ہوں۔
۱ : امام بخاری رحمہ اللہ کا صحیح بخاری کی تصنیف کا سبب صرف ایک لفظ اور کلمہ ہی تھا جو انہوں نے اپنے استاد کی زبان سے سنا تھا فرماتے ہیں:
كناعندإسحاق بن راهويه فقال: لوجمعتم كتاباً مختصراًلصحيح سنة النبي صلی اللہ علیہ و سلم ، قال: فوقع ذلك في قلبي فأخذت في جمع الجامع الصحيح.
ہم اسحاق بن راھویہ کی مجلس میں بیٹھے تھے تو آپ فرمانے لگے ’’اگر تم میں سے کوئی صحیح سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک کتاب تصنیف فرمادے تو بہت عمدہ ہوگا ۔ امام بخاری فرماتے ہیں یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی وہیں سے میں نے جامع الصحیح کی تصنیف اور جمع کا آغاز کردیا ۔
۲: امام زھری رحمہ اللہ کا علم حدیث سے منسلک ہونے اور مشغول ہونے کا سبب بھی ایک ہی جملہ تھا۔ فرماتے ہیں امام برزالی نے جب میری رائٹنگ دیکھی تو فرمانے لگے تمہاری یہ لکھائی محدثین کی لکھائی سے ملتی ہے۔
امام زھری فرماتے ہیں یہاں سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میںعلم حدیث کو میرے لئے محبوب بنادیا ۔ صرف ایک ہی جملے نے امام زھری کو ائمہ حدیث میں ایک جلیل القدر امام کا رتبہ ادا کردیا ۔
علامہ اقبال اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے
۷: طلباء کے منہج کی تصحیح ضروری ہے ۔
دینی اداروں کی حیثیت فلٹر کی حیثیت ہے۔ یہاں معاشرے کے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، مختلف قسم کی عادات، اطوار، اخلاق کے حامل ہوتے ہیں کسی کی طبیعت میں تعصب، عناد ہوتا ہے۔ کسی کے منہج میں انحراف ہوتا ہے۔ کوئی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب وہ مدارس میں آگئے تو سمجھیں ایک فلٹر مشین میں داخل ہوگئے۔ مگر یہاں سے جانے کے بعد ان کی بہت بڑی تعداد دوبارہ اسی گندے معاشرے میں رچ بس جاتی ہے۔ انہی عادات کو پھر سے پریکٹس کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی اچھے نہج پر تربیت نہ ہونا، ان کی نفسیات کی مناسب اصلاح نہ ہونا ہوتا ہے۔
ایک اچھے استاد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طالب علم میں منہجی اور اخلاقی برائیوں کا تدارک کرے اور ان کو ختم کرنے کی رفتہ رفتہ کوشش کرے ۔ جبکہ عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ استاد صرف لیکچر دینا اپنا مقصد سمجھتے ہیں اس سے آگے ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی نہ وہ نبھاتے ہیں الا ماشاء اللہ مگر اس رویے کے نتائج خطرناک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی ٹیچر بننے کو تیار نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی کوششیں بار آور نہیں ہوتیں وہ استاد لگ جاتے ہیں۔ اور جن طالب علموں کی ذہنی استعداد کم ہوتی ہے انہیں مدارس کے حوالے کردیا جاتاہے۔ جبکہ شرعی قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ کیلئے دی جانے والی چیز اور اس کےلئے صرف کیا جانے والا فرد اور شخص انتہائی قیمتی اور لائق فائق ہونا چاہئے چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ڛ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ (سورہ آل عمران 92)
جب تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے۔
جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اساتذہ اپنا کام کرتے ہیں ویسے ہی نتائج کے حامل ان کے طالب علم ہوتے ہیں ۔
۸ : بچوں کو خواب دیکھنے اور اچھا سوچنے سے مت روکیں۔ بلکہ انہیں باور کرائیں کہ ان کا مستقبل تابناک ہے ۔ان کی حوصلہ افزائی کریں اور کسی بھی طالب کو اس کی مالی ومعاشی حالت یا کند ذہنی کا طعنہ نہ دیں ۔ کیونکہ مستقبل کے حوالے سے اچھا سوچنے والے طالب علم ہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ کتنے ایسے طالب علم ہیں جو محض استاد کی تحقیر اور طعنہ زنی کا شکار ہوکر مدارس کو چھوڑچکے ہیں۔ اسی حوالے سے روزنامہ ایکسپریس میں درج ایک واقعہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ ’’ایک دس سال کا بچہ جس کاباپ ایک بہت بڑے اصطبل کا رکھوالہ تھا، گھوڑے پالنے کا بڑا شوق رکھتا تھا۔ ایک روز کلاس میں خاتون استاد نے بچوں سے اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں مضمون لکھنے کو کہا۔
اس بچے نے اپنے ایک خواب کو خوبصورت ڈرائنگ کی شکل دے کر کاغذ پر اتارا۔ استاد نے دیکھ کر اسے بہت ڈانٹا کہ کیوں خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو، اتنے غریب ہو کر تمہیں یہ سب سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ کہہ کر استاد نے بچے کو ٹیسٹ میں فیل کردیا اور کہا ایک ہفتے کے اندر اندر نیا مضمون لکھ کر لائو ورنہ اسکول نہ آنا۔ وہ بچہ بڑا پریشان ہوا لیکن اس نے مضمون نہ بدلا اور ایک ہفتے کے بعد وہی مضمون لے کر دوبارہ استاد کے پاس گیا اور کہا میں مضمون نہیں تبدیل کروں گا اور اسکول چھوڑ دیا۔ چند سال بعد وہی ٹیچر کسی دعوت پر اپنی کلاس کے بچوں کو لے کر ایک زرعی فارم لے گئی۔ استقبال کرنے کے لئے ان کاوہی طالب علم کھڑا تھا جس نے کبھی یہ خواب دیکھا تھا اور وہ زرعی فارم ایسا ہی تھا، جیسے اس نے تصویر میں بنایا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ ٹیچر بہت شرمندہ تھی کیوں کہ اس کامیابی میں اُس کا حصہ نہیں تھا‘‘۔
الغرض تربیت ایک اہم ذمہ داری بھی ہے اور مشکل کام بھی لیکن جس نے اس مشکل کام کو کرلیا وہی مستقبل کا معمار ہوگا ۔ وہی تہذیبیں ترقی کریں گی جن کے معلمین ، معلم ہونے کے ساتھ مربی بھی ہوتے ہیں۔ جب تک ہمارے اساتذہ، ہمارے ادارے تعلیم کے ساتھ تربیت پر توجہ نہیں دیں گے، نہ ہمارا معاشرہ بہتر ہوگا، نہ ترقی ملے گی، نہ تعمیر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ حق پر ثابت قدم رکھے ۔ انہ ولی التوفیق