یہ مضمون بنیادی طور پر جناب وحیدالدین خان صاحب کی کتاب ’’ دین وشریعت ‘‘ میں ان کے مقالہ ’’ اسلامی تعلیم‘‘ کا خلاصہ ہے

( عمرفاروق السعیدی)

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ١ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ۰۰۳۶رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ

ہرمسلمان کی بحیثیت ایک فرد اور ملت کے اشدترین ضرورت ہے کہ اس کے رسول مکرم ﷺکا پیغام اور دعوت ایک ایک انسان تک پہنچے اور اہل ایمان بھی اس  کے محض قائل ہی نہیںبلکہ اس پر کے فاعل بنیں ۔اور اس کام کے لیے آپ ﷺنے صرف پہاڑی کے وعظ پراکتفا نہیں فرمایا  بلکہ دار ارقم میں دار التعلیم کا آغاز فرمایا ۔ جس کے اثرات بڑی تیزی کے ساتھ نمایاں ہونے شروع ہو گئے تھے ۔ یہ حضرات اپنے ایمان و عمل میں اس قدر پختہ ثابت ہوئے کہ کفر وکفار کی کوئی دہشت انھیں اپنے قول وقرار سے نہ پھیر سکی ۔ یہ تو رسو ل اللہ ﷺکی خاص تعلیم اور ہدایت تھی کہ مقابلے میں کوئی ہاتھ نہیں اٹھانا ورنہ یہ لوگ اپنے بالمقابل سے بھِڑجانے کے لیے بھی تیار تھے۔آخر یہ لوگ نہتے کرکے مکہ سے نکال دیئے گئے انھیں پہلے حبشہ اور پھر یثرب میں اپنامرکز میسر آگیا۔ ابھی آپ ﷺ مدینہ تشریف نہ لائے  تھے کہ جناب مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے درس و تعلیم سے وہاں کی فضا اس قدر ساز گارہو چکی تھی اور میدان اس قدر ہموار ہوگیا تھا کہ رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے بعدیثرب کے لوگ بڑی تیزی  کے ساتھ اسلام  کے حلقہ بگوش ہوتے  چلے گئے۔ پھرمسجد نبو ی کی تعمیر ہوئی تو ساتھ ہی  ’الصُفّہ ‘کا مکتب بھی بن گیا ۔ تاکہ فقراء اسلام اور نوخیز قرآن وسنت کی با قاعدہ تعلیم پا سکیں ۔ اس طرح امت کا ہر چھوٹا بڑا ‘مرد عورتیں طلبِ علم کے در پے ہو گئے۔ آپ ﷺ  دُور سے آنے  والے اپنے صحابہ کرام سے فرماتے تھے :

اِرجِعُوا إِلَى أَهْلِيْكُمْ وَكُوْنُوا مَعَهُمْ وَعَلِّمُوهُمْ

اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ‘ وہیں رہو اور اپنے گھر والوں کو تعلیم دو ۔ چنانچہ صحابہ کرام اور خیرالقرون  نے اس میدان میںبڑی نادر  روز گار مثالیں چھوڑی ہیں ۔

آج جو دنیا میں علم و معرفت کا غلغلہ ہے تویہ سب وحیِ الہی ‘ اسلام اور مسلمانوں کی دین ہے ۔ اور یورپ جو اندھیروں  سے نکلا ہے تو یہ بھی ان پر اندلس کے مسلمانوں کا احسان ہے ۔

اہل اسلام اور ان کے مدارس اسلامیہ کا ذوق ومزاج اور ان کا اولین مقصد تعمیرِ فر د اور اصلاحِ امت رہا ہے ۔ کہ یہ لوگ خلافت الٰہیہ کے کماحقہ وارث بن سکیں ۔

تعلیم وتعلّم کی دولت ان کے مکاتب میں مفت بٹتی ہے -وافر ملتی ہے،ہر ایک کو ملتی ہے -اپنے پرائے کے فرق کے بغیر ملتی ہے – ان کے ہاں کالے گورے یا چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ بلکہ جو زیادہ ذوق وشوق کا مظاہرہ کرے  وہ اتنا ہی  زیادہ سر بلند و محبوب بنتا ہے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آؤ اور لے لو ۔ کھانا بھی دیں گے ‘ رہائش بھی دیں گے ‘ حسب ِاحوالِ لباس بھی ملے گا اور علاج معالجہ سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ آو تو سہی ‘ پڑھ لو  !- امام اور مقتدا بن جائو گے- یہ منبرو محراب اور مسند تمہارے ہی لیے ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہے کہ :

وَلْيَؤُمَّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ (السنن الكبرى للبيهقي:1998) ۔

یہ دین اپنی اولین وحی سے ہی  إقرأ کا پیغام لے کے آیا ہے ‘ یعنی پڑھ ۔ عرض کیا ‘ پڑھنا نہیں آتا ۔ فرمایا  إقرأ ۔ عرض کیا‘ نہیں آتا۔ فرمایا پڑھ :

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَۚ۰۰۱

پھر پڑھنا پڑھانا ہی اس امت کا شعار ٹھہرا ۔ مسلمان جہاں بھی گئے … مدرّس اور مدرسہ بن کر گئے ۔ جو جہاں بیٹھ گیا مجلسِ علم وعرفاں قائم ہوگئی۔علم بٹنے لگا ۔ نہ کسی امیر کی سر پرستی نہ کسی حاکم کا پرمٹ ۔ اور پھر چار دانگ عالم میں توحید وسنت کا ڈنکا بج گیا ۔ یہ تو دور عباسیہ میں حکام کوشوق آیا کہ باقاعدہ مدارس بنائے جائیں۔کیونکہ وہ خود عالم اور علم کے قدر دان تھے۔ اور عظیم الشان مدارس تعمیر ہوئے۔ ہمار ے ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہوا ۔ حتی کہ پنڈت لال نہرو نے بھی اعتراف کیا ہے کہ’’ عر ب مسلمان انڈیا میں ایک شاندار کلچرلے کر آے۔ ‘‘ (ڈسکور ی آف انڈیا)

مسلمانوں سے پہلے تعلیم اولاً َتو تھی ہی نہیں ۔اور جو تھی وہ بھی خاص خاص خاندانوں اور افراد کے لیے تھی۔ حتی کہ ہندئووں میں نیچ قوم کے لیے مقدس کتاب کا سننا تک جرم عظیم تھا۔

مسلمانوں نے علم کو اعلی طبقے اور مخصوص و محدود لوگوں سے نکال کر عوام الناس تک پھیلایا۔ اس طرح طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہوگیا۔ مسلمان عالم کا گھر مدرسہ ہوتا تھا ۔ان کی مسجد یں اور مکتب لازم وملزوم ہوگئے تھے۔ جب مساجد کو اس مطلب کے لیے تنگ محسوس کیا گیا تو پھر باہر بڑے جامعات بنائے گئے۔ ان مدارس سے فارغ ہونے والوں کے متعلق بجا طور پریہ توقع رکھی جاتی تھی اور اب تک ان سے یہ مطالبہ ہے کہ فارغ التحصیل حضرات عالم ہوں اور داعی اور مبلغ بھی۔

یہ مکاتب ومدارس اور ان کے علما‘ مدرسین ‘ دُعا ۃ اور وُعاظ ہی کا فیض اور ان کی برکت اور ان کا احسان عظیم ہے کہ مسلمان اپنے اس ملک ہی میں نہیں ‘ بلکہ پورے برصغیر بلکہ پوری دنیا کے اندرمجموعی لحاظ سے اپنی علمی ‘ عملی‘ اور ثقافتی شناخت کے ساتھ موجود ہیں ۔ اور مشاہدہ ہے کہ حج جیسے عالمی اجتماع میں پاکستان ‘ہندوستان‘ بنگلہ دیش‘ برما اور افغانستان کے مسلمان اپنی دینی شناخت کے لحاظ سے سب سے نمایاں نظر آتے ہیں ۔ انگریز نے جب ان کے ادارے ختم کر دئیے‘ اوقاف چھین لیے توان حضرات نے اپنی ذات ‘ اپنی شخصیت اور اپنی اَنا مٹا کر اپنی قوم وملت اور اپنے دین کو زندہ کیا اور زندہ رکھا ۔

ان علمانے … جو اپنی قوم قبیلے میں یقینا محترم اور معزز تھے… اللہ کی خاطر عوام کے سامنے اللہ کے دین کے لیے جھولی پھیلانے جیسی خفت کو برداشت کیا  ‘ صرف اس لئے کہ ان کا دین ‘ان کا حال اور ان کا مستقبل بلکہ ان کی جنت ان  کے لیے محفوظ ہو جائے۔

مدارس میں نظام تعلیم ( فری ایجو کیشن ) مفت تعلیم کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اور یہ دنیا کا انوکھا ترین تجربہ تھا ‘ جو معجزانہ طور پر کامیاب رہا ۔ جبکہ انگریزوں نے اور مغرب نے دنیا کی ہر چیزکو قابلِ فروخت بناکے رکھ دیا ہے ۔حتی کہ علم جیسی نعمت بھی اس قدر مہنگی ہے کہ غریب آدمی کے لیے اس کا حصول انتہائی مشکل ہے۔

اور یہ مدارس شہروں کے علاوہ گاؤں گائوں  بنائے جاتے ہیں اور انھیں مساجد کے ساتھ ملحق کیا جاتا ہے اس لیے کہ حصولِ علم عبادت ہے ‘اور اس لیے بھی کہ  نوعمربچوں کو گھر سے باھر دور جانا ممکن نہیں ہوتا۔

ان مدارس میں صرف حروف خوانی نہیں بلکہ آداب واخلاق کی کڑی مشق کرائی جاتی ہے ۔ اور ایک مرتب مضبوط نظم کے تحت محنت کی جاتی ہے کہ ان کی کایا کلپ ہو جائے۔ اور  پھرفی الواقع یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ

قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں

اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں

اور بحمداللہ مدارس کا یہ نظام صدیوں سے مسلسل اور غیر منقطع انداز میں جاری وساری ہے ‘ اور ان کی جہدمسلسل کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں زندہ و موجود ہیں اور ان کی ایک ہیبت بھی ہے ‘ وہی ہیبت جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :

نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ( صحيح البخاري:335)

اور یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر ان سے خوف کھایا جاتاہے جو یقناً بلاوجہ ہےاور مختلف حیلوں بہانوں سے ان  پردباؤ ڈالا جاتا ہے اور انھیں اپنے خاص ڈھب پر لانے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں ۔ وإلی اللّہ المشتکی ۔

 بعض مؤرخین کا تجزیہ ہے کہ اندلس میں جب مسلمانوں کو وہاں سے نکلنا پڑا تھا تو اگرچہ ہزاروں کو قتل بھی کیا گیالیکن پھر بھی مسلمانوںکی ایک بڑی تعداد وہاں  موجود رہی ہے ۔مگر وہ اپنی شناخت کھوبیٹھے اور بالکل ہی تحلیل ہو گئے‘ وجہ اس کی یہ ہوئی کہ ان کا کوئی نظام تعلیم باقی نہ رہا تھا ۔ ان کے تعلیمی ادارے جو تھے وہ سارے کے سارے حکومتی نظم کے تحت تھے۔ حکومت گئی تو ادارے بھی گئے اور امّت تحلیل ہو کے رہ گئی ۔ جب کہ بفضل اللہ ہندوستان میں ایسے نہیں ہوا ۔ اس لیے کہ اللہ کی توفیق سے علما نے بروقت یہ فیصلہ کرلیا کہ کچھ بھی ہو ہم اپنی امت کو دینی لحاظ سے حالات کے حوالے نہیں کریں گے ۔ انھوں نے تنگ دستی اور فاقے برداشت کر لیے مگر اپنی ملّت کو دین پڑھانے میں کوئی غفلت نہیں برتی ۔

اہل علم جانتے ہیں کہ علم کا ننانوے فیصد حصہ وہ ہے جو تحریری صورت میں کتابوں میں محفوظ ہے۔ اور اَن پڑھ لوگوںکی اس تک رسائی نہیں ہوتی۔ مدارس اسلامیہ کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے لاکھوں افراد کو اس محفوظ علم تک رسائی دی ہے۔ پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سے انسان ساری دنیاکے اعلی دماغ اور فوت شدگان کے علم وتحقیق سے واقف ہوجاتا ہے ۔ جس کے پاس کتاب ہو وہ اکیلانہیں ہوتا ۔ مطالعہ کی برکت سے آدمی دن رات عالی دماغ حضرات کی صحبت میںگزار سکتا ہے ۔ مدارس نے ہمیں یہ تحفہ دیا ہے کہ جن بزرگوں اور ائمہ کو ہم دیکھنے سننے سے محروم رہے ہیں ‘ کتابوں کے ذریعے سے ہم ان کے ہم نشین بن جاتے ہیں   ؎

سرورِ علم ہے کیف ِشراب سے بہتر

ساتھی کوئی نہیں کتاب سے بہتر

مدارس نے اپنے نظام تعلیم کی برکت سے اپنی امت کو ان کے ماضی سے کٹنے نہیں دیا‘ بلکہ بڑی مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔ورنہ اتا ترک نے ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کر کے ساری قوم کو ان کے ماضی سے کاٹ کے رکھ دیا تھا۔

مدارس اور دینی مکاتب پورے ملک بلکہ دنیا میں ائمہ‘ خطیب ‘ عالم ‘ مفتی اور واعظ مہیا کر رہے ہیں ۔ اور اس میں کبھی کوئی انقطاع نہیں آیا ۔یہ اپنے عوام کوان کے دینی مسائل کی رہنمائی کرتے اور حسب ضرورت فتاوی دینے کیلیے ہر وقت باآسانی میسر ہوتے ہیں۔ نکاح و طلاق اور وراثت کے مسائل کا شرعی حل ان ہی علما کے ہاں سے ملتا ہے۔  اور ان میں سے اصحاب وجاہت حضرات اپنی قوم برادری کے قاضی اور سرپنچ بھی ہوتے ہیں ۔ لوگ اپنے مناقشات میں ان کا فیصلہ بخوشی قبول کرتے اور اس پرراضی ہوتے ہیں ۔

اور ان میں سے باصلاحیت حضرات قلم وقرطاس کے ذریعے اپنے علم کودوسروں تک منتقل کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ‘ اس طرح تفسیر حدیث ‘فقہ اور سماج کے متنوع مسائل کتابوں کی صورت میں قوم کے سامنے آتے رہتے ہیں اور علمی کتب کا ایک عظیم ذخیرہ ان کی خدمات کا مرہون منت ہے ۔

ہر مدرسہ اور جامعہ کے ساتھ لائبریری کا ہونا لازمی ہے۔ جس سے یہ طلبہ ہمیشہ مستفید ہوتے ہیں اور پھر مطالعہ ان کی عادت ثانیہ بن جاتا ہے۔ ان لائبریریوں سے دیگراہل ذوق کو بھی استفادے کا موقعہ ملتا ہے۔

اور ضروریا ت زندگی میں قناعت ان حضرات کا سرمایہ اور ان کا امتیاز ہوتا ہے۔ اپنی جماعت سے ان کا مطالبہ صر ف  تن -خواہ کاہوتا ہے ‘ کہ جسم وجاں کا رشتہ قائم رہے۔ اپنے سٹیٹس کو بلند کرنے کا  یہ لوگ بالعموم کوئی مطالبہ نہیں کرتے۔ان کے بارے میں اپنے الاونسز کے لیے کہیں کوئی ہڑتال نہیں سنی گئی۔ انھوں نے کبھی کہیںجاب لیس JOB LESS ہونے کا شکوہ نہیں کیا۔ نہ اپنے مطالبات کے لیے کوئی جلوس ہی نکالاہے۔

قوم و ملت کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے ہمیشہ فکری طور پر بیدار رکھا جائے اوریہ کہ کسی عملی اقدام کے لیے وہ تیار رہے۔دینی مدارس نے اپنی قوم ملت کو ان کے دینی دنیاوی مسائل میں ہمیشہ بیدار رکھاہے‘ اور بدلے میں کسی صلے کی تمنا نہیں رکھی۔

مدارس نے ہر جگہ تعمیرِ انسانیت کو اپنا ہدف رکھا ہے اور مردم گری اور انسان سازی کا وہ کا م کیا ہے اور کر رہے ہیں  جو انبیاء ورسل کا خاصہ ہے ۔ اور یہی ترجمہ ہے  رسول اللہ  ﷺ کے اس فرمان کا:

العُلَمَاءُ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ (سنن ابي داود:3641)

جبکہ دنیاوی علوم ومعارف کی یونیورسٹیوں نے انسانوں کو بالعموم  حیوان ِکاسِب یعنی کمائو پوت  (earning animal) ہی بنایا ہے۔ اور ان کانظام تعلیم اور ان کے اہداف سوائے پیسہ کمانے کے اور کم ہی نظر آتے ہیں إلّا ما شاء اللہ۔

دینی مدارس اور ان کی تعلیم کا درس یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کی ضرورت تو ہے مگر مقصد ہر گز نہیں ہے ۔

 الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ

٭دینی مدارس کے فضلا کو بحمداللہ ہمیشہ دائمی مسرت سے سر شار دیکھا جاتا ہے ۔ جبکہ دنیاوی کالج ویونیورسٹیوں کے فاضلین کیا پروفیسر حضرات تک کو دیکھ لیجیے حقیقی مسرت کے متلاشی ہی رہتے ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ مدارس میں انھیں قناعت کا درس ملتا ہے اور ان کے اساتذہ اس کی زندہ مثال ہوتے ہیں۔

دینی تعلیم اور ان مدارس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آدمی دنیاوی امور سے بے خبر اور بے بہرہ رہے ۔نہیں … بلکہ آدمی کیلیے یہ مواقع بجا طور پر موجود رہتے ہیں کہ علوم اسلامیہ کے بعد آدمی اپنا من پسند میدان اختیار کرلے۔اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ادارہ‘  مدرسہ یا یونیورسٹی انسان کو مکمل علم ہرگز نہیں دیتا …‘اور نہ دے سکتا ہے ۔

مدارس اپنے فاضلین کو یہ فکر دیتے ہیں کہ اپنی محنت کے بل بوتے پرتم مزید اور مزید آگے جا سکتے  ہو۔ اور اس کی عمدہ ترین مثالیں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔

مدارس طلبہ کو نظم ِحیات ‘ نظمِ اوقات ‘ نظمِ عمل‘ جہدمسلسل اورآداب عالیہ سے مزین کرتے ہیں۔

ورنہ ہماری  دنیاوی یونیورسٹیاں جو مال ملک و ملت کو سپلائی کر رہی ہیں وہ ہمیں اپنی اسمبلیوں میں‘ عدالتوں میں‘ مارکیٹوں اور کارخانوں وغیرہ میں بخوبی نظر آرہا ہے ۔ إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبِّیْ

حکومت کو تو اسلامی تعلیم سے چِڑ سی ہے۔ اور یہ عالمی منصوبہ بھی ہے۔ بہر حال علماء دین بجا طور پراس کے حق دار ہیں کہ ملک کے درد دل رکھنے والے ان کی سرپرستی کریں تاکہ یہ حضرات سکون کے ساتھ ملک وملت کی خدمت کرتے رہیں۔

اللھم انصر الاسلام والمسلمین واجعلنا منھم ۔ اللہم انصر من نصر دین محمد  ﷺ واجعلنا منھم واخذُل من خَذَل دین محمد ﷺ ولا تجعلنا منھم۔ آمین یا رب العالمین

مکتوب مفتوح

از  مولانا حافظ عبدالحمید السلفی صاحب

 خطیب جامع خالدبن ولید اہلحدیث ‘ آفیسرز کالونی  میانوالی۔

 استاذ محترم !  السلام علیکم ورحمۃ اللہ …

ہمارے ایک بزرگ کا بیٹا چار سال مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کر کے بھگوڑا ہو گیا ہے ‘  ڈاڑھی کٹوانے لگ گیا ہے۔ والد انتہائی نیک سیرت ‘ باشرع ‘ صوم وصلاۃ کا پابند ہے اور بڑا پریشان ہے۔ دینی غیرت بہت زیادہ ہے بالآخر اس نے لڑکے کو گھر سے نکال دیا ہے  ۔ والدہ اپنی جگہ بیقرار ہے ۔ گھر کا ماحول انتہائی کشیدہ ہو گیا ہے۔ ان حالات میں شریعت محمدیہ کیا تعلیم دیتی ہے؟ ۔  بیّنوا توجروا عند اللہ العظیم۔

 الجواب ! …………………………

 الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ …

برادر گرامی ! آپ نے جس حسن نیت اور اعتماد کے ساتھ راقم کی طرف رجوع فرمایا ہے ۔  اللہ کرے میں آپ کے اعتماد پرپورا اتر سکوں۔ اور اللہ پاک مجھے فی الواقع ایسا ہی بنا دے جیسا آپ گمان کرتے ہیں۔ ورنہ اس مقصد کے لیے اور دیگر علما بلکہ علماء نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔

وَ فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ۰۰۷۶

اور اس میں بھی شبہ نہیں یہ مشکل بہت سے والدین کو پیش آتی ہے ‘ اور چاہیے کہ یہ مسائل حل ہوں ۔ اور عوام کو بتائے بھی جائیں۔ بہر حال میں اپنے فہم کے مطابق کچھ عرض کرتاہوں …

ہم سب والدین اور اساتذہ کو اپنے اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہیے اور کرتے رہنا چاہیے کہ

 مَا شَاءَ اللهُ كَانَ، وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ (السنن الكبرى للنسائي:9756)

 یعنی ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالی چاہے ‘ اور جو نہ چاہے نہیں ہوسکتا۔ محنت اور کوشش بندے پر فرض واجب ہے۔

بچہ جو بھگوڑا ہو گیا ہے تو یقین کرنا چاہیے کہ

إِنَّ القُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَاءُ (سنن الترمذي:2140)

 دل اللہ پاک کی انگلیوں کے درمیان ہیں ‘ جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔

اللہ تعالی کی توفیق خاص شامل حال ہوتو ہی بندہ مستقیم رہ سکتا ہےورنہ شیاطین الانس والجن تو بندے کے تعاقب میں ہیں اور بندے کا بہک جانا اور بگڑجانا کوئی بعید نہیں ہوتا ۔ بہرحال ہمیں توبہ و استغفار اور ہر حال میں رجوع الی اللہ سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔

بچے کو غیرت دینی کے تقاضے سے گھر سے نکال دینا میرے خیا ل میں آخری آخری علاج تھا ‘ جو مر ض کے آغاز ہی میں کردیا گیا۔ جس طرح جسمانی امراض میں رسول اللہﷺ نے لوہے سے داغنے  (  کَیّ  ) کو آخر ی علاج فرمایا ہے ۔ اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریوں کوبھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔مگر آپ نے داغنے سے علاج کرنا منع بھی فرمایا ہے ۔ اسی طرح اولاد کو جائیداد سے عاق کردینا بھی جائز نہیں۔ اور گھر سے نکال دینا کوئی معمولی سزا نہیں ہے۔

اور معلوم کرنا چاہیے کہ کیا اس سے اس کی اصلاح ہوئی یا نفرت میں اضافہ ہوا ؟غور فرمایا جائے کہ جس فاسد ترین ماحول میںہم جی رہے ہیں ‘ عین ممکن ہے کہ بچے کو غلط اور برے ساتھی ملے ہوں ‘ جنھوں نے اس کو بہکایا ہو۔ اس کے اساتذہ کے ساتھ بھی رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ یا مدرسہ تبدیل کروا دیا جاتا۔بلکہ گھر سے نکال دیے جانے پراس کی اصلاح کون کر ے گا اور کیا ہوگی؟

اس عمل سے بچے کی والدہ کا پریشان ہونا عین فطر ی اور طبعی امر ہے ۔تو کیا اس صورت حال میںوہ اپنے شوہر کی کما حقہ خدمت کر سکے گی ؟ دوسرے بچے بھی اس صورت حال میں یقینا ذہنی طور پرتقسیم ہوئے ہوں گے ۔ کچھ اپنے بھائی کی حمایت کریں گے اور کچھ باپ کی یا ماں کی۔ اس سے گھر کا ماحول سنورا یا بگڑا ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے والد نے اپنی مشکلات میں اور اضافہ کرلیاہے۔ سیدناہارون علیہ السلام نے اپنی قوم میں تفرقہ سے بچتے ہوئے ان کے شرک تک کو وقتی طور پربرداشت کر لیاتھا !  یا سیدنا یعقوب علیہ السلام کا اسوہ کیا تھا؟

بار بار سوچنا چاہیے کہ یہ صورت حال کیوں سامنے آئی  … رب ذوالجلال تو فرماتا ہے کہ

وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ (الشوری:30)

میرے بھائی ! ان حالات میںتو اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے ‘ معلوم نہیں کہ کونسی خطا ہوئی کہ اس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ اللہ کا فرمان تو برحق اورسچا ہے ۔خطا ہم ہی میںہے ‘ معلوم نہیں کیا ہوئی ‘ کب ہوئی اور کہاں ہوئی۔ اس لیے والد اور والدہ کو بالخصوص کثرت سے استغفار وتوبہ کرنی چاہیے ۔ بچے کے لیے بالخصوص دعا کرنی چاہییے کہ اللہ پاک اس کی جان سلامت رکھے اور ایمان اس سے زیادہ ۔ (دعائیہ کلمات آگے لکھے جا رہے ہیں )اس طرح کے ایک معاملے میں ہمارے ایک شیخ صاحب نے بڑی عظیم بات فرمائی تھی کہ

إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا (صحيح مسلم: 1015)

 اللہ تعالی پاک ہے اور وہ پاک ہی قبول فرماتا ہے!

 ہر مسلمان کو اپنے رزق پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ اور اس واقعہ میں باپ سے بھی یہی گزارش ہے۔

حسب صلاحیت صدقہ بھی کریں ۔ صدقہ کا دافع آفات وبلیّات ہونا معروف ہے۔

روزہ رکھیں اور روزہ رکھ کے دعا کریں ۔

دعا کے شرعی آداب پیش نظر رکھیں ۔ خاص طور پرقبولیت کے اوقات میں دعا کریں ۔ تہجد میں ‘  سجدے میں۔ اذان او ر اقامت کے دوران۔ فرض نمازوں کے بعد۔ اور اس مقصد کے لیے نفل بھی پڑھے جا سکتے ہیں ۔

کسی صالح بزرگ سے بھی دعا کروئی جا سکتی ہے۔

بچے کا ڈاڑھی منڈوانا ‘ کٹوانا یقینا ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ایک باغیرت باپ اسے کسی صورت گوارا نہیں کر سکتا۔مگر کیا کیا جائے ۔ بچہ صرف ماں باپ یا استاذ اور اپنے مدرسہ سے ہی تعلیم نہیں پاتا ۔ بلکہ وہ اپنے ماحول معاشرے اور سنگی ساتھیوں سے وہ کچھ سیکھتا ہے جو ہم نہیں چاہتے ۔ یہ سوسائٹی بجا طور پر ایک سلطان  جائر ( جابر بادشاہ ) ہے جس کی مخالفت کرنا اور اس  کا دباؤ سہہ لیناہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہزاروں لاکھوں داڑھی کو سنت سمجھتے ہیںلیکن نہیںرکھتے۔ کیوں؟ اسی سلطان جائرکے دبائو سے !

معلوم نہیں کہ باپ اپنے بیٹے کو کیا بنانا چاہتا ہے …ممکن ہے بچے کو وہ ہدف اور منزل مرغوب اور پسندنہ ہو۔ اور باپ کی شدت کی وجہ سے بچے نے بغاوت کی ہو؟اس معاملے میں باپ کو وسیع الذہن ‘ وسیع القلب اوروسیع الظرف ہونا چاہیے ۔ ہر بچہ ایک کامل انسان ہوتا ہے۔ اس کے اپنے کچھ اہداف ہوسکتے ہیں ‘ جو باپ کی راہ سے پورے نہ ہوتے ہوں؟

بچے کے ساتھ مفاہمت کرلینے میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔اگر وہ باپ کی یہ بات نہیںمان رہا تو اس کی منزل اور اس کی زندگی کا ہدف معلوم کرنا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ دوستانہ ماحول میںہی یہ با ت ہو سکتی ہے۔ یا کسی اور خیرخواہ کو واسطہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگر بچے کے اہداف حلال اورپاکیزه ہيں تو انھیں مان لینے اور قبول کرلینے میں قطعا کوئی قباحت نہیں۔ نہ شرعی نہ اخلاقی۔

اسے اس قدر ضرور کہا جائے کہ جو مرضی ہو کرو مگر ہم مسلمان ہیں‘ ہمیں مسلمان رہنا ہے‘  تقوی و طہارت ہمارا دینی ودنیاوی امتیاز ہے ۔ نماز کی پابندی کرو ۔ قرآن مجید کی تلاوت اپنا معمول رکھو۔ اور اچھے ساتھیوںکی صحبت اپنائو۔ حلال کماؤ اور حلال کھاؤ اور بس۔ زندگی کے معمولات میں اس کی معاونت کی جائے۔ بچہ آپ کا ہے ۔ آپ کی عزت ہے ۔ اس کی سرپرستی کرنا باپ کا فرض ہے ۔کوئی ضروری نہیں کہ ہر بچہ ’’مولوی‘‘ ہی بنے۔

باپ کی یہ تمنا پوری نہیں ہور ہی توکیا زندگی کی اور سب تمنائیں پور ی ہو گئی ہیں ؟ آپ کو اپنی محنت کا اجر و ثواب اللہ کے ہاں سے مل کر رہے گا ۔ معاملات اللہ تعالی کے سپرد کریں۔ دوسرے بچوں پر محنت شروع کردیں اورکرتے رہیں۔

پندو نصیحت سے کبھی بخل نہ ہونا چاہیے ۔ مگر بچے کی کمزوریوں پر ملامت اتنی نہ کریں کہ اس کا شیطان اسے بالکل ہی باغی بنا دے۔یا اللہ معاف فرمائے نیکی سے نفرت اس کے دل میں بیٹھ جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے( کہ کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو)

لاَ تُعِينُوا عَلَيْهِ الشَّيْطَانَ(صحيح البخاري:6777)

اس کے برخلاف اس کے شیطان کی مدد نہ کرو۔ بہرحال معاشرے کے عمومی فساد کے پیش نظرمجھے والد کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں ہے۔  واللہ أعلم

بیٹے کے لیے چند کلمات

صاحبزادے ! تم زمین سے اُگے نہیں نہ آسمان سے ٹپکے ہو ۔ تم نے ان ماں باپ ہی کی گود میںپرورش پائی ہے۔ اگر تمہاری قوت شامّہ ختم نہیں ہوگئی تو اگر کوشش کرو تو تمھیں اپنے باپ کی چھاتی سے اپنے پیشاب کی بُوآ سکتی ہے جو ابھی تک گئی نہیں ہے !تم کن خیالات اور کس دنیا میں چلے گئے ہویا جانا چاہتے ہو ؟۔ رسول اللہ ﷺ تو تمہارے باپ کو تمہاری جنت کا افضل ترین دروازہ بتاتے  ہیں ۔ بلکہ فرمایا کہ ’’ اب تمہاری مرضی ہے خواہ اسے محفوظ رکھو یا ضائع کردو۔ ‘‘یہ بھی فرمایاکہ’’ رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے ۔‘‘ ( مشکاۃ المصابیح ‘ حدیث: ۲۸-۴۹۲۷)

ارے میاںتم کس کی رضا چاہتے ہو؟تم پر فرض ہے کہ اپنے باپ سے معافی مانگو اور عہد کروکہ آیندہ ایسی غلطی نہ کرو گے۔ ورنہ اے عزیز! ’’ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے‘‘۔ جو کرو گے سو بھروگے۔ آج نہیں توکل تمہیں اس کا بدلہ دینا ہوگا۔ اللہ پاک تمہاری حفاظت فرمائے اور شیطان اور نفس کے دھوکے سے محفوظ رکھے ۔ذرا سوچو تو سہی ‘ کل کلاں تم کوئی عظمت پا بھی لو اور باپ تم سے راضی نہ ہو تو وہ تمہاری کامیابی اور عزت و عظمت کس کام کی ؟۔   واللہ ہو الموفق

 دعائیں:

سیدنا آدم علیہ السلام کی دعا:

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

بچے کی نیت سے اس کے صیغے بدل لیے جائیں ۔ مثلا:

اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْهُ إِلَى نَفْسِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ، أَصْلِحْ لَهُ شَأْنَهُ كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ
اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُ رُشْدَهُ وَأَعِذْهُ مِنْ شَرِّ نَفْسِهِ
يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ……کثرت سے پڑھیں ۔

اسی طرح اور بھی دعائیں ہوسکتی ہیں۔

 والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
أسأل اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین التوفیق والسداد

(عمرفاروق السعیدی)

اظہارتعزیت، دعائے مغفرت

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ

محترم ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا کی وفات حسرت آیات پر اساتذہ ،طلبہ احباب جماعت کی طرف سے

مرحوم کے عزیز واقارب ، اراکین واساتذہ جامعہ ابی بکر کراچی اور تمام جماعتی مسلکی احباب سے دلی تعزیت پیش ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے ، حسنات قبول فرمائے، انسانی لغزشوں اور خطاؤوں سے درگزر فرمائے ان کے صدقات جاریہ کو جاری وساری رکھے اور جامعہ ودیگر اداروں کو نعم البدل عطافرمائے۔ آمین

شریک غم ، دعاگو

 عبد المجید فردوسی

دار العلوم تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ ، ماموں کانجن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے