Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

مرحبا! ماہ رمضان

03 Jul,2016

نظام قدرت کا بارہا ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ مٹی میں ملے ہوئے بہت سے بیج اور جڑیں جو عرصہ طویل سے نیم مردہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں، جونہی موسم بہار آتا ہے اور ابرِ رحمت برستا ہے تو ان میں زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے گردو غبار اڑانے والے میدان، سبزہ و شادابی سے لہلہانے لگتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ امت مسلمہ کا حال ہے کہ بہت سے افراد کے دلوں میں ایمان کی حرارت کمزور ہونے لگتی ہے، تو رمضان المبارک کا موسم بہار آنے پر دوبارہ ایمان کی چاشنی اور شادابی تازہ ہو جاتی ہے اور لوگ قرآن، مسجد اور دیگر نیک اعمال کی طرف اس طرح کھینچے چلے آتے ہیں جس طرح برسات کے موسم میں پروانے شمع کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ اس بابرکت مہینہ میں ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کے پیش نظر اس ماہِ رحمت کے ابتداء سے انتہا تک کے چیدہ چیدہ احکام دوست و احباب کی خدمت میں ہدیہ کیے جارہے ہیں۔
n فضائل رمضان
1 رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ہم نے قرآن نازل کیا ہے۔ (البقرۃ: 185:2)
2 رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
(صحیح البخاري: 3277)
3 رمضان اور شب قدر میں ایمان و احتساب کے عقیدہ سے قیام کرنے کی وجہ سے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاري: 1896)
4 وہ بدبخت انسان ہے۔ جو رمضان کا مہینہ پائے اور گناہوں کی معافی نہ کروائے۔ (حاکم: 153/4، صحیح ابن حبان: 1888)
5 صحابہ کرام تربیت کے لیے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے۔ (بخاری قبل: 1960)
6 رمضان المبارک میں عمرہ کرنا، حج کرنے کے برابر ثواب رکھتا ہے۔ (بخاری: 1863)
7 ایک رمضان، دوسرے رمضان تک گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، جب تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ (مسلم: 233)
8 روزہ اور رمضان کی رات کا قیام، قیامت کے دن سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (مسند احمد: 174/2، سنن نسائی)
9 جنت کے ریّان دروازے سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ (بخاری: 1896)
0 روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو کستوری سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ (بخاری: 1894)
n رمضان سے پہلے
رمضان سے پہلے مندرجہ ذیل امور کو مدنظر رکھنا ضروری ہے:
1 رمضان المبارک کا روزہ چاند دیکھ کر رکھنا چاہیے، شک کی صورت میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ اگر مطلع صاف نہ ہو اور چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کرنے چاہئیں۔ (بخاری: 1909)
2 شک کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ (ترمذی: 622)
3 رمضان سے ایک یا دو دن پہلے استقبالیہ روزہ رکھنا منع ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی عادت کے مطابق روزہ رکھتا ہو اور اتفاق سے وہ دن رمضان سے پہلے آجائے تو اس کے لیے جائز ہے۔ (بخاری: 1914)
4 رمضان کے چاند کی گواہی ہونی چاہیے۔ (ابوداؤد: 2342)
5 ایک جگہ چاند کی رویت قریب علاقہ والوں کے لیے
معتبر ہوگی۔ البتہ مطلع مختلف ہو جائے تو رویت کا اعتبار
الگ ہو جائے گا۔ (مسلم: 1819)
6 چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھنی چاہیے:
اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالإِْیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالإِسْلَامِ رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ (المستدرک للحاکم: 7767)
nروزے کے مقاصد
روزے کا سب سے بڑا مقصد تو اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمﷺ کے حکم کی اطاعت ہے، تاہم علمائے کرام نے روزوں کے مندرجہ ذیل مقاصد بیان کیے ہیں:
1 تقویٰ: سال بھر وافر مقدار میں کھانے پینے کی وجہ سے جسم و روح میں سرکشی و درندگی پیدا ہو جاتی ہے اس کو ختم کرنے کے لیے سال بھر میں ایک ماہ کے روزے لازم کیے گئے ہیں۔
2 ضبطِ نفس: تمام حیوانات کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں، وہ کھانا، پینا اور افزائش نسل اور یہی دو مقاصد انسان کو جرائم پر آمادہ کرتے ہیں اس لیے روزہ کے ساتھ ان دونوں پر پابندی لگا کر تربیت کرائی گئی ہے
3 احساس و ہمدردی: جب تک انسان کو خود تکلیف و پریشانی سے واسطہ نہ پڑا ہو تب تک دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، ایک ماہ بھوک و پیاس برداشت کرنے سے غریبوں کے ساتھ احساس و ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
4 صبر و تحمل: زندگی تغیرات کا نام ہے۔ اگر آج خوشحالی ہے تو کل تنگ دستی سے بھی سامنا ہوسکتا ہے تو روزوں کے ذریعے صبر و تحمل کا مادہ پیدا کیا جاتا ہے اور تنگی ترشی برداشت کرنے کا عادی بنایا جاتا ہے۔
5۔بیماریوں کا تدارک: ہمیشہ کثرت سے کھانے، پینے کی وجہ سے جسم میں ایسی رطوبتیں پیدا ہو جاتی ہے جو آہستہ آہستہ زہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ جن سے شوگر، بلڈ پریشر، موٹاپا اور دل و معدہ کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک ماہ روزوں کے ساتھ ان بیماریوں کا تدارک کیا جاتا ہے۔ 1994ء کاسا بلانکا میں بین الاقوامی کانفرنس میں رمضان اور صحت کے موضوع پر 50 نکات و فوائد پر روشنی ڈالی گئی۔ جس میں جسمانی امراض کا بہترین دفاع بیان کیا گیا ہے۔
چنانچہ کئی غیر مسلم مفکرین نے روزے کی افادیت پر بیانات دیے ہیں، مثلاً:
(i) ہفتہ میں ایک مرتبہ روزہ رکھنا صحت اور جسم کے امراض کے لیے مفید ہے جس سے فاسد مادے اپنے زہریے اثرات پیدا نہیں کر سکتے۔ (ڈاکٹر ایڈورڈنکلس)
(ii) روزہ روحانی بیماریوں کا علاج ہے۔ (ڈاکٹر سموئیل الیگزینڈر)
(iii) فاقے کی سب سے اچھی صورت وہ روزہ ہے جو اسلامی طریقے سے رکھا جائے۔ میرا یہ مشورہ ہے کہ جب کسی کو فاقہ کرنے کی ضرورت پڑے تو وہ اسلامی طریقے سے روزہ رکھے ڈاکٹر جس طریقے سے فاقہ کراتے ہیں وہ قطعی غلط ہے۔ (ڈاکٹر جان ہمرٹ)
(iv) روزے سے ظاہری اورباطنی تمام غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں۔ (ڈاکٹر جوزف)
n روزے کے احکام و مسائل
1۔ نیت: فرضی روزہ کی نیت رات کو طلوعِ فجر سے پہلے کرنی ضروری ہے۔ (سنن ابي داود: 2454)
البتہ نفلی روزہ کی نیت دن کے وقت، زوال سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے۔ (مسلم: 1154)
نیت کا تعلق دل کے ارادے سے ہے، زبان سے نیت کرنا اور کیلنڈروں پر مروجہ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔
n سحری و افطاری
1۔سحری کرنا مسنون طریقہ ہے، اہل اسلام اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کا فرق ہے۔ (مسلم: 1096)
2۔سحری میں برکت رکھی گئی ہے۔ (بخاری: 1923)
3۔سحری کے آخری وقت میں کھانا مسنون ہے۔ (بخاری: 1921، مسلم: 1097)
4۔سحری کی اذان سنتے ہی کھانا پینا بند کر دینا چاہیے البتہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز کھا سکتے ہیں۔ (ابوداؤد: 2003)
6۔اگر کسی مجبوری سے سحری نہ کر سکتے تو بغیر سحری کے روزہ رکھنا درست ہے۔ (بخاری ترجمۃ الباب)
7۔جان بوجھ کر سحری چھوڑنا اور وصال کرنا بعنی لگاتار دو یا تین دن کا روزہ رکھنا ہے۔ (بخاری: 1962)
8۔سورج غروب ہونے کے فوراً بعد روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ آپﷺ نے فرمایا:
لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔ (بخاری: 1957، مسلم: 1098)
9۔افطاری کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے:
ذَھَبَ الطَّمَأ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْاَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ (ابو داود: 2359)
کیلنڈروں پر لکھی ہوئی دعا کسی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے:
(اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ)
10۔افطاری کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھجور کے ساتھ روزہ افطار کیا جائے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی کے ساتھ افطار کیا جائے۔ (سنن أبي داؤد: 2356، ترمذی: 696)
11۔افطاری کے وقت کی گئی دعا ردّ نہیں ہوتی (بلکہ قبول ہوتی ہے)۔ (سنن ابن ماجہ: 1753)
اس لیے افطاری کے قریب اکل و شرب کی طرف توجہ کرنے کی بجائے دعاء و استغفار کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔
12۔افطاری کرانے والے کو بھی اتنا ہی اجرو ثواب ملتا ہے جتنا روزہ رکھنے والے کو ملتا ہے۔ (شعب الایمان: 3953، ترمذی: 807)
13۔روزے افطار کرانے والے کے لیے یہ دعا کرنی چاہیے:
اَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّآئِمُونَ، وَاَکَلَ طَعَامَکُمْ الْاَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ (أبو داؤد: 2357)
n روزہ سے مستثنیٰ افراد
1۔مریض کے لیے رخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے (بشرطیہ بیماری شدید ہو)۔ (البقرۃ: 185:2)
2۔مسافر کے لیے رخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ (البقرۃ 185:2، بخاری: 1943)
3۔حیض و نفاس والی عورت کے لیے روزہ کی ممانعت ہے۔ (بخاری، مسلم: 1951)
4۔مانع حیض ادویات استعمال کرنا تاکہ رمضان کے روزے رکھے جاسکیں یہ غیر مناسب ہے البتہ ایسا کر کے روزہ رکھا جائے تو روزہ درست ہوگا۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث: 238/4)
5۔حاملہ یا دود پلانے والی عورت تکلیف محسوس کرے تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتی ہے۔ (ترمذی: 715)
اور بعد میں قضائی دے گی۔ (ابو داؤد: 2308)
نوٹ: بہت بوڑھا، کمزور یا دائمی مریض جس کے شفا یاب ہونے کی امید نہ ہو وہ روزے کا فدیہ دے یعنی ہر روزے کے بدلے ایک غریب، مسکین کو کھانا کھلا دے۔ (البقرۃ: 184)
اور وقتی عارضے والا رمضان کے بعد قضا دے۔ (البقرۃ 185:2)
6۔چھوڑے ہوئے روزوں کی تواتر سے قضا لازمی نہیں، بلکہ وقفے کے ساتھ بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ (بخاری: 1950، دارقطنی: 193/2)
7۔اگر وہ شخص فوت ہو جائے جس کے ذمہ فرضی روزے تھے تو اس کا وارث اس کی طرف سے قضا دے۔ (بخاری: 1952)
n روزہ کی حالت میں ممنوع کام
1۔جان بوجھ کر کھانا پینا، اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا منع ہے۔ (بخاری: 1936، مسلم: 1151)
2۔عمداً قئی کرنا منع ہے۔ (سنن أبي داود: 2380)
3۔حیض و نفاس آنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ (چاہے غروب آفتاب سے چند منٹ پہلے ہی ہو)۔
(بخاری: 1951، مسلم: 335)
4۔اگر کوئی عورت طلوع فجر سے پہلے اتنا پہلے حیض و نفاس سے پاک ہو جائے کہ سحری کر سکتی ہے تو اس کا روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ غسل بعد میں کر لے۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث: 237/4)
5۔بیوی سے محبت کا اندازہ اپنانا جس سے شہوت کے غلبہ کا خدشہ ہو منع ہے۔
6۔خون لگوانا، گلوکوز، یا کوئی طاقت بخش ٹیکہ وغیرہ لگوانا منع ہے۔
7۔مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی چڑھانا منع ہے۔ (ترمذی: 788، ابوداؤد: 142)
8۔روزہ کی حالت میں اتنی مقدار میں خون نکلوانا جس سے روزہ کی تکمیل مشکل ہو جائے، یہ بھی منع ہے۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا: سینگی لگوانے اور لگانے والے نے روزہ چھوڑ دیا۔ (مسند احمد، ابوداؤد)
9۔غذا اور طاقت والا انجکشن جائز نہیں، البتہ جس انجکشن میں غذا و طاقت بالکل نہ ہو، بلکہ صرف درد روکنے کے لیے ہو تو وہ بعض اہل علم کے نزدیک جائز ہے۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث: 231/2)
البتہ زخم، پھوڑا، اور نکسیر سے خون بہے تو روزہ باطل نہ ہوگا۔ (بیھقی: 216/1، سعودی مجلس افتاء)
10۔روزہ کی حالت میں غیبت، جھوٹ، دھوکہ، موسیقی کا سننا وغیرہ تمام کام ممنوع ہیں۔ (بخاری: 1903، صحیح الترغیب: 1082)
11۔یہ سمجھ کر کھانا پینا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی، حالانکہ صبح صادق ہوچکی ہو تو اس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
n روزہ کی حالت میں جائز کام
1۔غسل کرنا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا بشرطیکہ مبالغہ نہ کرے تو یہ سب جائز ہیں۔ (سنن أبي داؤد: 2366)
2۔مسواک کرنا جائز ہے (خواہ خشک ہو یا تر اور یہی حکم ٹوتھ پیسٹ کا ہے بشرطیکہ کہ کوئی چیز حلق سے آگے نہ جائے۔) (بخاری: 887)
3۔حالت جنابت میں سحری کھانا جائز ہے البتہ نماز کے لیے غسل کرنا ضروری ہے۔ (بخاری 1926)
4۔ اگر شہوت کا خدشہ نہ ہو تو بیوی سے بوس و کنار کرنا جائز ہے۔ (بخاری: 1927، مسلم: 1106)
5۔سرمہ لگانا، کان یا آنکھ میں دوائی ڈالنا جائز ہے۔ (ابن ماجہ: 1678، مجلس افتاء)
البتہ ناک میں دوائی ڈالنا جائز نہیں ہے، کیونکہ آپﷺ نے روزے کی حالت میں مبالغہ سے ناک میں پانی چڑھانے سے منع کیا ہے۔ (ترمذی: 488)
6۔بوقت ضرورت ہنڈیا وغیرہ کا ذائقہ چکھنا جائزہے۔ (بخاری: 1209)
7۔گردو غبار، دھواں یا مکھی وغیرہ حلق میں چلے جائیں تو روزہ باطل نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 155/1)
8۔خود بخود قئی آنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ (ابو داؤد: 2393)
9۔احتلام ہو جانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ (ابو داؤد: 4403)
10۔خوشبو لگانے، تیل لگانے یا جسم پر مالش کرنے اور اس طرح مہندی لگانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ (بخاری باب اغتسال الصائم)
11۔روزہ کی حالت میں نہانا، سر پہ پانی ڈالنا یا AC چلا کر سکون حاصل کرنا جائز ہے کیونکہ آپﷺ روزہ کی حالت میں گرمی کی وجہ سے سر پہ پانی ڈال لیتے تھے۔ (ابو داؤد: 3265)
البتہ روزہ رکھ کر دن بھر AC وغیرہ میں سوئے رہنا بھی اچھا کام نہیں بلکہ تلاوت اور ذکر و اذکار کی کوشش کرنی چاہیے۔
12۔بھول کر کھانے، پینے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ (بخاری: 1933، مسلم: 1155)
روزہ کی حالت میں بھول کھانے پینے والے کو یاد کروانا جائز ہے۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث: 231/4)
کیونکہ حدیث میں آتا ہے جو تم میں سے برائی کو دیکھے تو وہ اسے روکے۔
n نماز تراویح
1۔نماز تراویح کی ترغیب اور فضیلت دلائی گئی ہے لیکن یہ فرض نہیں ہیں۔ (مسلم: 759)
2۔باجماعت نماز تراویح ادا کرنا جائز ہے۔ (بخاری: 2012)
3۔نماز تراویح دو دو رکعتیں ادا کرنی چاہئیں۔ کیونکہ آپﷺ نے فرمایا: رات کی نفل نماز دو دو رکعتیں ہیں۔ (بخاری: 1137، مسلم: 449)
4۔نماز تراویح کو خوبصورت انداز میں اور لمبے قیام کے ساتھ ادا کرنا مسنون ہے۔ (بخاری: 1147)
5۔سخت نیند کے حالت میں نماز ادا کرنا منع ہے۔ (بخاری: 212، مسلم: 786)
6۔نماز تراویح عورتیں مسجد میں جا کر ادا کر سکتی ہیں۔ (بخاری: 5238، مسلم: 442)
البتہ عورتوں کو خوشبو لگا کر مسجد میں آنے سے سخت منع کیا ہے۔ (ابن ماجۃ: 4002)
7۔رسول اللہﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ (بخاری: 2013)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ (صحیح ابن خزیمہ: 1070، ابن حبان: 2401)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا تمیم داری اور ابی ابن کعب کو گیارہ رکعت تراویح باجماعت پڑھانے کا حکم دیا۔ (مؤطا امام مالک: 115/1، بیہقی: 496/2)
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (حاشیہ آثار السنن، ص: 250، سنن سعید بن منصور بحوالہ السخاوی للفتاویٰ: 249/1)
8۔قیام رمضان اور صلوۃ تراویح ایک ہی چیز کے نام ہیں اور یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ الگ ادا کی ہو۔ (فیض الباری: 420/2از انور شاہ کاشمیری حنفی، العرف الشذی: 166/1، شرح الترمذي طبع کراچی، شرح مسلم: 259/1 از نووی )
9۔بہت سے حنفی اکابر علماء کے نزدیک بھی مسنون تراویح وتر سمیت گیارہ رکعتیں ہیں، مثلاً:
علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح الہدایۃ: 407/1 باب النوافل میں فرماتے ہیں:
تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان میں مسنون قیام وتر سمیت گیارہ رکعات ہیں۔‘‘
اسی طرح علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ مرقاۃ المصابیح: 382/3، حدیث نمبر: 1303 میں فرماتے ہیں:
’’مولانا انور شاہ کاشمیری حنفی رحمہ اللہ العرف الشذی شرح الترمذی: 166/1 اور مولانا محمد یوسف بنوری صاحب معارف السنن 543/5 پر فرماتے ہیں:
’’یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ آپe نے تراویح آٹھ رکعات ہی ادا کی ہیں۔‘‘
اسی طرح علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ اور دیگر بہت سے حنفی اکابر اس بات کے قائل تھے۔
10۔وتروں کو قیام رمضان یا تراویح کے آخر میں ادا کرنا چاہیے۔ (بخاری: 998، مسلم: 751)
11۔وتر ایک، تین، پانچ اور سات ثابت ہیں البتہ تشہد صرف آخری رکعت میں بیٹھا جائے گا۔ (ابوداؤد: 1422، ابن ماجۃ: 1192)
12۔ وتروں کے اختتام پر تین مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا چاہیے ’’سُبْحَانَ المَلِکِ القُدُّوسِ‘‘ ۔ (ابو داؤد: 430، النسائی: 1734)
n اعتکاف
1۔آپﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکافٹ کیا کرتے تھے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم کر دیتے تھے۔ (بخاری: 2026)
2۔مسنون اعتکاف کا آغاز 20 رمضان المبارک کی شام سے ہوتا ہے۔ اعتکاف کرنے والا اکیسویں رات مسجد میں گزارے گا اور نماز فجر کے بعد اعتکاف گاہ میں داخل ہوگا۔ (سنن أبي داؤد: 2464)
3۔20 دِن کا بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ (بخاری: 2044)
4۔10 دن سے کم بھی اعتکاف ہوسکتا ہے۔ (بخاری: 2032)
5۔اعتکاف گاہ سے باہر انسانی حاجت کے علاوہ جانا درست نہیں۔ (بخاری: 2029)
6۔اعتکاف والا آدمی بیمار کی عیادت راستے میں چلتے ہوئے کر سکتا ہے۔ اہتمام کے ساتھ عیادت یا جنازہ کے لیے جانا درست نہیں۔ (ابو داؤد: 2473)
7۔اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمہ لگانا جائز ہے۔ (بخاری 2033)
8۔اعتکاف کی حالت میں کنگھی وغیرہ کی جاسکتی ہے۔ (بخاری: 2046)
9۔چاند دیکھ کر اعتکاف سے اٹھنا چاہیے۔ (؟؟؟    )
معتکف کے گلے ہار ڈالنا اور دوستوں رشتے داروں کی جلوس و اہتمام پروٹوکول کے ساتھ گھر واپس لانا اور تصاویر وغیرہ بنانا تمام غیر ثابت شدہ چیزیں ہیں۔
10۔اعتکاف والا آدمی غسل کر سکتا ہے۔ (ابن ماجہ: 1774)
11۔عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں لیکن مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہے۔ گھروں میں اعتکاف بیٹھنا ثابت نہیں ہے۔ جیسے سورۃ البقرۃ: 187 اور بخاری: 2026 کی روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ (مسلم: 1172)
12۔اگر کوئی رمضان میں اعتکاف نہ کر سکے تو شوال میں بھی اعتکاف کر سکتا ہے۔ (بخاری: 2041)
n لیلۃ القدر
1۔ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہﷺ رات بھر بیدار رہتے اور گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اور خوب محنت کرتے تھے۔ (بخاری: 2024، مسلم: 1174)
2۔آپ نے فرمایا: رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ (بخاری: 2020)
3۔لیلۃ القدر میں قرآن کریم نازل ہوا، اس رات فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور اس میں عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر ہے آپ ﷺ اس میں خوب محنت کرتے تھے۔ (بخاری: 2024، مسلم: 1174)
4۔لیلۃ القدر معلوم ہو تو یہ دعا پڑھنی چاہیے
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی) (ترمذی: 3513، ابن ماجۃ: 3850)
5۔لیلۃ القدر کی رات پرسکون اور معتدل ہوتی ہے۔ (ابن خزیمہ: 231/2، ابن حبان)
اور صبح کو سورج کی شعاعیں (عام دنوں کی طرح) نہیں ہوتیں (بلکہ صاف سورج ہوتا ہے۔) (مسلم: 762)
6۔لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہوتی ہے، کسی ایک رات کی تعیین نہیں ہے۔ (بخاری: 2017)
7۔ایک رات میں شبینہ کے انداز میں قرآن مکمل کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ آپﷺ نے فرمایا جو تین دن سے کم میں قرآن ختم کرتا ہے وہ اسے سمجھ نہیں سکتا۔ (ابو داؤد: 1390)
صدقۃ الفطر کا بیان
1۔صدقۃ الفطر کو زکاۃ الفطر، زکاۃ رمضان، زکاۃ الصوم، صدقۂ رمضان، صدقہ صوم بھی کہتے ہیں۔ (مرعاۃ)
2۔صدقۃ الفطر ادا کرنا فرض ہے۔ (بخاری: 1503)
3۔صدقۃ الفطر سے روزہ میں ہونے والی کمی کوتاہی ختم ہو جاتی ہے۔ (ابو داؤد: 1609)
4۔صدقۃ الفطر ہر غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے، بڑے تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ (بخاری: 1503، مسلم: 984)
5۔صدقۃ الفطر لوگوں کا عیدگاہ کی طرف جانے سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔ (بخاری: 1509، مسلم: 986)
6۔صدقۃ الفطر عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ (بخاری: 1511)
نوٹ: بعض تنظیمیں اور ادارے عید کی نماز کے بعد بھی صدقۃ الفطر وصول کر لیتے ہیں جو شرعی طور پر درست نہیں کیونکہ عید کی نماز کے بعد صدقۃ الفطر ادا نہ ہوگا بلکہ عام صدقہ ہوگا۔
7۔صحیح احادیث میں صدقۃ الفطر کے لیے مختلف اجناس کا ذکر ہے، مثلاً: گندم، جَو، کھجور، کشمش، پنیر اور عام خوراک وغیرہ۔ (بخاری: 1506، مسلم: 985)
8۔صدقۃ الفطر کی مقدار ایک ’’صاع‘‘ بیان کی گئی ہے، جو ہمارے ہاں تقریباً اڑھائی کلو اور بعض کے نزدیک 2 کلو اور 100 گرام ہے۔ (بخاری: 1503، مسلم: 984)
۔۔۔۔

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول