Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

فتنہ قادیانیت کی تردید میں مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی رحمہ اللہ کی خدمات

16 Feb,2014

 

برطانوی سامراج نے برصغیر (پاک و ہند) میں دین اسلام اور مسلمانان ہند کو نقصان عظیم پہنچانے کے لیے ضلع گورداس پور (مشرقی پنجاب) کے قصبہ قادیان کے ایک مخبوط الحواس شخص آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کو استعمال کیا۔ اور اس شخص کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ مسلمانان ہند میں تفرقہ ڈالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اور دین اسلام میں بھی طرح طرح کی موشگافیاں پیدا کرے۔ اور اسلام کے بنیادی احکام اور اصول و احکام کو مٹانے کے لیے پوری طرح سعی و کوشش کرے اور غلام احمد قادیانی کو یہ پٹی پڑھائی کہ ایک ایسے مذہب کی بنیاد رکھے جس کا مقصد فرنگی اور اس کی حکومت کی اطاعت ہو اور اسلامی تہذیب و تمدن اور روایات کا استیصال بھی ہو اور ہر صورت میں برطانوی سامراج کی اطاعت کو اپنا مقصد زندگی کو ملحوظ رکھا جائے۔

چنانچہ آنجہانی مرزا قادیانی سے سب سے پہلے تبلیغ اسلام کا ڈھونگ رچایا اور ایک کتاب براہین احمدیہ لکھ کر شائع کی اور اس کے ذریعہ برصغیر میں اس کی شہرت ہوئی اس کے بعد پہلے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا پھر مسیح موعود بن گیا۔ اور اس کے بعد نبوت کاذبہ کی کرسی پر براجمان ہو گا۔ اور اس نے یہ اعلان کیا کہ:

(۱) حضرت محمد رسول اللہﷺ کی نبوت ختم نہیں ہوئی خاتم النبیین کے معنی نعوذ باللہ سند ہیں اور سلسلہ رسالت قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔

لعنۃ اللہ علی الکاذبین

(۲) مرزا قادیانی نے یہ بھی اعلان کیا کہ محمد میں تمام انبیاء کی صفات پائی جائی ہیں مرزا خود کہتا ہے

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار

(۳) مرزا قادیانی نے یہ بھی کہا کہ میں عیسیٰ بن مریم سے بہتر اور اعلیٰ ہوں۔

بقول مرزا

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے

حقیقت یہ ہے کہ جتنا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو قادیانی فتنہ نے پہچایا ہے اتنا آریہ سماج نے نہیں پہنچایا آریہ سماج نے چند صد مسلمانوں کو مرتد کیا مگر قادیانی مذہب نے لاکھوں مسلمانوں کو مرتد کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے حواریوں کے عزائم یہ تھے کہ دین اسلام کی بیخ کنی کی جائے۔

مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا جائے اور ان کے دینی عقائد کو خراب کیا جائے مولانا محمد داؤد راز دہلوی (۱۴۰۲؁ھ) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ

مرزائی مذہب نے لاکھوں مسلمانوں کا ارتداد کیا اور شدھی و سنگٹن کی تحریکات سے فتنہ قادیانیت بہت زیادہ مہلک مضر اور مفسد ثابت ہوا چونکہ توحید الٰہی میں بھی شرک کو مدغم کرنا اسلام کی سالمیت کو توڑنا ملت بیضاء کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا امت محمدیہ میں نفاق و افتراق ڈالنا، کتاب و سنت کی جگہ تصانیف مرزا کی تعلیم دینا، آیات قرآنی کے ترجمہ و تفسیر میں تاویلات گھڑنا اور ان کے معانی و مطالب توڑ مروڑ کر پیش کرنا نبیﷺ کی ختم المرسلین سے انکار کر کے پیغمبر قادیاں کو آخری نبی ماننا۔ قوم میں تفتت و انتشار پھیلانا اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کر کے ان کی بجائے نئے نئے مسائل و احکام گھڑنا۔ دین حنیف میں رخنے ڈالنا، عقائد باطلہ کو ترویج دینا اور عامۃ الناس کو غلط و گمراہ کن راستوں پر چلانا اس مذہب کا خاصا دستور ہے۔ اس لیے اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے جماعتی و ملی نظام کو درہم برہم کر دیا۔ اور اسلام کے پردے میں وہ کام کر دکھایا جو کسی بدترین دشمن دین سے ہونا نا ممکن تھا۔ (حیات ثنائی ص 390 طبع دہلی ۱۴۲۴؁ھ)

فتنہ قادیانیت اور علمائے اہلحدیث

جب برصغیر (پاک و ہند) میں قادیانی فتنہ نے جنم لیا تو سب سے پہلے علمائے اہلحدیث اس فتنہ کے استیصال کے لیے میدان میں نکلے اور مرزا قادیانی کے خرافات کا تحریری اور تقریری طور پر جواب دیا۔

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی (م۱۹۲۰؁ء) کی ذات محتاج تعارف نہیں اللہ تعالیٰ ان کو ذہانت و فطانت، فہم و ذکاء اور علم و تفقہ سے حظ وافر عطا فرمایا تھا۔ اور ساتھ ہی اس توفیق سے بھی نوازا کہ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو اللہ کے نازل کردہ دین اسلام خالص اور بے آمیز اسلام کی تبلیغ، اس کی نشر واشاعت اور اس کی وکالت و دفاع میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ چنانچہ اپنے وقت کے تمام اہم فتنوں کے استیصال میں وہ سر گرم رہے اور اسلام کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ پوری قوت اور تندہی سے سر انجام دیا۔

جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء

مولانا بٹالوی مرحوم کی زندگی ہی میں قادیانی فتنہ اور اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کاذبہ کا پرچار کرنا شروع کر دیا تھا اس لیے مولانا بٹالوی رحمہ اللہ نے اس طرف توجہ کی۔

حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

قادیانی فتنہ چونکہ ان کے سامنے ہی پیدا ہوا تھا ان کے دیکھتے دیکھتے ہی اس نے بال و پر نکالے تھے اور اپنے عواقب کے لحاظ سے بھی یہ نہایت خطرناک تھا اسلیے قدرتی طور پر مولانا مرحوم نے اس کی تردید میں پورا زور صرف کیا اس کے دلائل کا تاروپود بکھیرا اور ہر محاذ پر اس سے ٹکرلی۔

مولانا بٹالوی مرحوم نے سب سے پہلے یہ قدم اٹھایا کہ مرزا غلام قادیانی کے بارے میں ایک مستقل باحوالہ استفتاء مرتب کیا۔ جس میں اس کی کتابوں سے اس کے عقائد نقل کیے اور سب سے پہلے یہ استفتاء اپنے استاد محترم شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م ۱۳۲۰؁ھ) کی خدمت میں پیش کیا۔ اور حضرت محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کا مفصل جواب لکھا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ :

استفتاء میں درج عقائد کا حامل اور اس کے پیروکار اہل سنت سے خارج ہیں نہ ان کی نماز جنازہ جائز ہے اور نہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں انہیں دفن کیا جائے۔

اس کے بعد حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں

اس فتویٰ تکفیر کی تائید و تصویب مولانا بٹالوی نے متحدہ ہندوستان (پاک و ہند) کے تمام سر برآوردہ اور ممتاز علماء سے کرائی اور تقریباً دو صد علماء کے مواہیر اور دستخطوں کے ساتھ اس فتویٰ کو شائع کیا۔

مرزا غلام احمد قادیانی اور امت مرزائیہ کی تکفیر پر یہ سب سے پہلا متفقہ فتویٰ ہے جو مولانا بٹالوی اور حضرت شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی مشترکہ مساعی کے نتیجے میں ظہور میں آیا۔ (پاک و ہند کے علمائے اسلام کا اولین متفقہ فتویٰ، ص۵،۶)

اسمائے گرامی علمائے اہلحدیث

قادیانی فتنہ کی تردید اور اس فرقہ باطلہ کا قلع قمع کرنے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے برصغیر کے علمائے اہلحدیث نے اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا۔ اور اس سلسلہ میں جو تحریری و تقریری خدمات انجام دیں۔ وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک سنہری باب ہے۔

ذیل میں چند نامور علمائے اہلحدیث کے اسمائے گرامی درج کئے جاتے ہیں جنہوں نے اس فرقہ باطلہ کی تردید میں اپنی زندگی کا اولین مقصد ٹھہرایا۔

1۔ شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاء ثناءاللہ امرتسری (م۱۳۶۷؁ھ )

2۔ مناظراسلام مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م ۱۳۶۹؁ھ)

3۔ حضرت مولانا محمد بشیر سہسوانی (م۱۳۲۶؁ھ)

4۔ امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م ۱۳۷۵؁ھ)

5۔ مولانا عبدالرحیم رحیم بخش بہاری (م۱۳۱۴؁ء)

6۔ مولانا قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری (م۱۹۳۰؁ء)

7۔ مولانا عبداللہ معمار امرتسری (م۱۹۵۰؁ء)

8۔ مولانا صوفی نذیر احمد کاشمیری (م۱۹۸۵؁ء)

9۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی (م۱۹۸۵؁ء)

10۔ مولانا محمد اسمعیل علی گڑھی (م۱۳۱۱؁ء)

11۔ مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی (م۱۳۵۷؁ء)

12۔ مولانا عبدالمجید خادم سوہدری (م۱۹۵۹؁ء)

13۔ مولانا ابوالمحمود ہدایت اللہ سوہدری (م۱۹۶۷؁ء)

14۔ مولانا نور حسین گھر جاکھی (۱۹۵۲؁ء)

15۔ مولانا عبدالستار صدری دہلوی (۱۳۵۶؁ء)

16۔ مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی (م۱۹۸۰؁ء)

17۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی (م۱۹۶۸؁ء)

18۔ مولانا اثرالدین گکھڑوی (م۱۹۷۳؁ء)

19۔ مولانا صفی الرحمان مبارک پوری (م۲۰۰۶؁ء)

20۔ مولانا عبداللہ ثانی امرتسری (۱۹۸۷؁ء)

21۔ مولانا حافظ عنایت اللہ اثری وزیر آبادی (م۱۹۸۰؁ء)

22۔ مولانا عبدالرحمان عتیق وزیر آبادی (م۱۹۹۵؁ء)

23۔ مولانا عبدالکریم فیروزپوری (م۱۹۶۱؁ء)

24۔ مولانا محمد حنیف ندوی (۱۹۸۷؁ء)

25۔ مولانا عبداللہ گورداسپوری (۲۰۱۲؁ء)

26۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید (ش ۱۹۸۷؁ء)

27۔ مولانا محمد علی جانباز (م۲۰۰۹؁ء)

28۔ مولانا حافظ عبداللہ روپڑی (م۱۹۶۴؁ء)

29۔ مولانا محمد یحیٰ گوندلوی (م۲۰۱۰؁ء)

30۔ مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی (م۱۹۹۹؁ء)

دور حاضر کے علماء میں مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا محمد اسحاق بھٹی، پروفیسر حافظ عبدالستارحامد وزیر آبادی، مولانا حافظ محمد صلاح الدین یوسف، مولانا حافظ فاروق الرحمان یزدانی، مولانا لیاقت علی باجوہ، مولانا محمد رمضان یوسف سلفی، مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی، میاں محمد جمیل، مولانا حافظ مقصود احمد حفظہم اللہ جمیعاً اور دوسرے علمائے کرام فتنہ قادیانی کا استیصال کرنے میں ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔

امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ

امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کی ذات تعارف کی محتاج نہیں آپ کا شمار برصغیر (پاک وہند) کی ان نامور اور یگانہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کی دینی و علمی، قومی و ملی اور سیاسی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد ابراہیم کو کوناگوں اوصاف سے متصف فرمایا تھا۔ اور ان میں بے شمار خوبیاں ودیعت فرمائی تھیں۔ آپ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی، مؤرخ بھی تھے اور محقق بھی، متکلم بھی تھے اور معلم بھی، خطیب بھی تھے اور مقرر بھی، ادیب بھی تھے اور دانشور بھی، مبصر بھی تھے اور نقاد بھی، مفکر بھی تھے اور مدبر بھی، صحافی بھی تھے اور مصنف بھی، اور فن مناظرہ میں بھی انہین خاص ملکہ حاصل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں ان کا بڑا اونچا مقام تھا۔

خطابت میں ان کا مرتبہ و مقام اعلیٰ و ارفع تھا۔ ایک دور تھا کہ پورے برصغیر میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م ۱۳۳۶ھ) شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م۱۳۶۷ھ)، مناظر اسلام مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی (م ۱۳۶۹ھ) اور امام العصر مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م ۱۳۷۵ھ) کا طوطی بولتا تھا۔ جماعت اہلحدیث کا جلسہ ہو یا کوئی اور سیاسی جلسہ، وہ کامیاب نہیں ہوتا تھا جس میں یہ چاروں علمائے کرام یا ان میں سے ایک دو شریک نہ ہوں۔ یہ علمائے کرام برصغیر کی فضائے بسیط پر چھائے ہوئے تھے اور پورے ملک میں ان کا ڈنکا بجتا تھا۔

مولانا محمد ابراہیم اپریل ۱۸۷۴؁ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم کا اسم گرامی سیٹھ قادر بخش تھا جن کا شمار سیالکوٹ کے رؤسا میں ہوتا تھا۔ مولانا میر سیالکوٹی کی عصری تعلیم ایف اے تھی علامہ اقبال مرے کالج میں ان کے کلاس فیلو تھے دینی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا اس کے بعد علوم اسلامیہ کی تحصیل مولانا ابو عبداللہ عبیداللہ غلام حسن سیالکوٹی (م۱۹۱۸؁ء) استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی (م۱۳۳۴؁ھ) سے کی۔

وزیر آباد میں تکمیل تعلیم کے بعد مولانا محمد ابراہیم میر عازم دہلی ہوئےاور حضرت شیخ الکل میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م۱۳۲۰؁ھ) سے حدیث و سند و اجازہ سے مفتخر ہوئے حضرت میاں صاحب کے یہ آخری دور کے شاگرد ہیں۔ فراغت تعلیم کے بعد اپنے وطن سیالکوٹ تشریف لائے اور میانہ پورہ کی مسجد (جوان کے والد محترم نے تعمیر کروائی تھی) میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے تاہم ان کے مشہور تلامذہ حسب ذیل ہیں۔

شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی، مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی، مولانا عبدالواحد سیالکوٹی، مولانا عبداللہ ثانی امرتسری، حافظ محمد شریف سیالکوٹی، مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، مولانا محمد ابراہیم ریاستی، مولانا حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی، مولانا معین الدین لکھوی رحمہم اللہ اجمعین۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مولانا سیالکوٹی صحافت کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ آپ نے مختلف ادوار میں وہ ماہوار رسالے ’’الہدی اور الہادی‘‘ جاری کئے یہ دونوں بہت علمی رسائل تھے۔ ان میں زیادہ تر تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ ماہنامہ الہادی کے بارے میں مولوی ابو یحیٰ امام خان نوشہروی (م۱۹۶۶؁ء) لکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں پنجاب میں ترویج عیسائیت کا زور تھا جس کی پشت مسیح جدید (قادیان) نے مضبوط کر دی۔ ان ہر دو کے لیے یہ رسالہ وقف تھا۔ (ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ص 100)

برصغیر (پاک وہند) میں جماعت اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ دسمبر ۱۹۰۲؁ء میں جب آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تشکیل ہوئی تو اس کانفرنس کو متعارف کروانے کے لیے تین علمائے کرام کا وفد ترتیب دیا گیا۔ ان میں ایک مولانا سیالکوٹی تھے دوسرے دو علماء مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ تھے۔

سیاستی اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم کا تعلق مسلم لیگ سے تھا آپ ۱۹۳۰؁ء کے اجلاس مسلم لیگ الہ آباد (جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی)اور اجلاس مسلم لیگ منعقدہ مارچ ۱۹۴۰؁ء (جس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی) میں شرکت کی تھی۔

مولانا محمد ابراہیم میر دو قومی نظریے کے حامی تھے اور متحدہ قومیت کے سخت مخالف تھے جب جمعیۃ علمائے ہند کے دو قومی نظریہ کی بجائے متحدہ قومیت کے سحر کا شکار ہو گئے۔ تو مولانا محمد ابراہیم میر نے مولانا شبیر احمد عثمانی کے تعاون سے جمعیۃ علمائے اسلام کے نام سے علیحدہ جماعت تشکیل دی اور اس جماعت کا پہلا تاسیسی اجلاس اکتوبر ۱۹۴۵؁ء میں کلکتہ میں منعقدہ ہونا قرار پایا۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا سیالکوٹی نے کی مولانا شبیر احمد عثمانی بوجہ ناسازی طبع اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔

نامور ادیب اور دانشور اور مولانا ظفر علی خان کے دیرینہ رفیق پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی (م۱۹۹۴؁ء) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:

یہ علماء کا ایک شاندار اور باوقار اجتماع تھا جس میں برصغیر کے کونے کونے سے علماء شریک ہوتے تھے مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے ’’تمدن و معاشرت اسلامیہ‘‘ کے موضوع پر صدارتی خطبہ دیا جس میں کتاب و سنت کی روشنی میں آزاد و خود مختار مملکت کے قیام کے لیے پاکستان کو اسلامیان ہند کی سیاسی اقتصادی، معاشرتی دینی اور ملی ضرورت قرار دیا۔ مولانا نے اپنے خطبہ میں ہندو ذہنیت کا پوسٹ مارٹم کیا اور کانگرسی وزارتوں کے قیام کے بعد ہندو ازم کے قیام اور مسلمانوں پر مظالم کی تصویر کشی کرتے ہوئے گاندھی کے کردار کو بے بقاب کیا۔ (سوانح حیات مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ص 159)

مولانا سیالکوٹی کے دوست اور جماعت اہلحدیث کے جلیل القدر عالم دین مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی (۱۳۶۹؁ھ) متحدہ قومیت کے حامی تھے انہوں نے ایک مضمون لکھا جو ہندوستان کے کانگرسی اخباروں میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں مولانا بنارسی نے قیام پاکستان کی سخت مخالفت کی تھی۔ اور کئی اعتراضات کئے تھے اور مسلمانان ہند کے لیے قیام پاکستان کو مہلک قرار دیا۔

پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم لکھتے ہیں کہ:

جب مولانا ابوالقاسم بنارسی نے قیام پاکستان کے حوالے سے اعتراضات کے لیے اردو مضمون لکھا تو مولانا ابراہیم میر نے فوراً دلائل وبراہین سے بھر پور ایک مضمون کے ذریعے ان اعتراضات کو غیر حقیقت پسندانہ اور غیر منصفانہ و غیر عادلانہ قرار دیا۔ اور ثابت کیا کہ اہل اسلام کی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے۔ (سوانح مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ص 160)

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا یہ مضمون روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور دسمبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اخلاق و عادات اور علم و فضل کے اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم میر اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں بہت ہی اوصاف جمع کر دیئے تھے۔ علوم اسلامیہ میں جامع الکمالات تھے۔ تفسیر قرآن میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا ادیان باطلہ پر بھی ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ مناظرے میں بھی ان کی بڑی شہرت تھی۔ عیسائیوں، آریوں، قادیانیوں، شیعوں، منکرین حدیث اور مقلدین احناف (دیوبندیوں، بریلویوں) کے ساتھ انہوں نے متعدد مقامات پر مناظرے کئے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ مولانا محمد ابراہیم میر عبادت و ریاضت کے بہت زیادہ پابند تھے اس کے پوتے پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ:

مطالعہ، علمی و تبلیغی مشاغل اور لکھنا پڑھنا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تہجد اور ذکر صبح گاہی کے پابند تھے اور فجر سے بہت پہلے بیدار ہو کر نوافل سے فارغ ہونے کے بعد مطالعہ کے عادی تھے۔ نماز فجر کے بعد اپنے والد محترم کی بنا کردہ مسجد میں درس قرآن کے علمی موتی بکھیرتے۔ اور گھر آکر تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد پھر لکھنے پڑھنے میں مشغول ہو جاتے یہ معمول آخر عمر تک رہا۔

وفات

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے ۱۲ جنوری ۱۹۵۶؁ء مطابق ۲۶ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۵؁ھ بروز جمعرات سیالکوٹ میں انتقال کیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ ۱۳ جنوری ۱۹۵۶؁ء بعد نماز جمعہ حضرت العلام مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے پڑھائی۔ راقم کو مولانا سیالکوٹی کا جنازہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔

اللھم اغفرہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔

تصانیف

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ایک جلیل القدر عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بہت بڑے مصنف تھے۔ انہوں نے تفسیر قرآن، احادیث نبویﷺ، تاریخ و سیرت، سوانح، عقائد، فقہ، اخلاق، تردید عیسائیت، آریہ سماج، قادیانیت، انکار حدیث، شیعت پر چھوٹی بڑی (90) کے قریب کتابیں لکھیں۔ قادیانیت کی تردید میں آپ کی تصانیف کی تعداد (۲۱) ہے۔ جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔

1۔ شہادت القرآن (۲جلد)

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی یہ عظیم الشان کتاب دو جلدوں پر محیط ہے۔ پہلی جلد میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر بحث ہے جس میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر ایسی گواہی ہے۔ کہ معروف آیت ’’وفی متوفیک و رافعک الی‘‘ کی ایسی بے نظیر تفسیر فرمائی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کومردہ بتانے والے بھی کذلک یحی اللہ الموتی ویریکم ایتہ لعلکم تتقون پکارے اٹھے۔

جلد دوم میں مرزا قادیانی کے پیش کردہ ان (۳۰) آیات کا تسلی بخش جواب ہے جنہیں اس نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں وفات عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پیش کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی نے اپنی اس کتاب میں مرزا قادیانی کی قلعی کھول دی ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بجسدہ الصغری آسمان پر اٹھایا جانا ثابت کیا ہے۔

2۔ انجر الصیح عن قبر المسیح

مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ مولانا سیالکوٹی نے قرآن و حدیث اور آثار سلف سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ اور آسمان پر ہیں اور مرزا قادیانی اپنے اقوال میں جھوٹا ہے۔

3۔ ختم نبوت اور مرزائے قادیان

مرزا غلام احمد قادیانی نے سورۃ فاتحہ کی آیت (صراط الذین انعمت علیہم) سے رسول اکرمﷺ کے بعد بھی نبوت جاری رہنے کی دلیل پکڑی ہے مولانا سیالکوٹی کا یہ رسالہ اسی کے تردید میں ہے۔

4۔ رسائل ثلاثہ

یہ کتاب تین مضامین کا مجموعہ ہے۔

۱۔ امام زماں

۲۔ مہدی منتظر

۳۔ مجدد دوران

اس کتاب میں مرزا قادیانی کے مختلف دعوؤں کی تردید کی گئی ہے۔

5۔ نزول الملائکۃ والروح علی الارض

اس رسالہ میں فرشتوں کے بارے میں قادیانی کذاب کا جو عقیدہ ہے اس کی تردید کی گئی ہے۔

6۔ مرزا غلام احمد کی بد کلامیاں

اس رسالہ قادیانی دجال کی بد کلامیوں کا جواب بڑے اچھے انداز میں دیا گیا ہے۔

7۔ فص خاتم النبوۃ بعموم الدعوۃ و جامعیۃ الشریعۃ

اس رسالہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا محمد رسول اللہﷺ تک نبوت کا سلسلہ کیوں جاری رہا۔ اور اب یہ سلسلہ کیوں جاری نہ رہ سکا اس کے علاوہ اس رسالہ میں ختم نبوت پر بڑے عمدہ پیرائے میں روشنی ڈالی ہے اور آخر میں مرزا قادیانی کے دعوؤں (مسیح موعود، مہدی، نبی) کی تردید کی گئی ہے۔

8۔ مسلم الوصل الی اسرار اسراء الرسول

قادیانی کذاب مرزاغلام احمد نے نبیﷺ کے معراج جسمانی کا انکار کیا ہے۔ اس لیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفع الی السماء سے انکار کے لیے معراج جسمانی کے انکار کی ضرورت تھی۔ مولانا سیالکوٹی نے اپنے اس رسالہ میں قادیانی کذاب کے نقطہ نظر کی تردید کی ہے۔

9۔ صدائے حق

اس رسالہ میں مرزا قادیانی کے اس دعویٰ کی تردید کی گئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور اس کے ساتھ اس رسالہ میں یہ بھی بتایا ہے کہ مرزا قادیانی نہ مہدی موعود ہے نہ نبی و رسول بلکہ کذاب دجال اور شیطان ہے۔

10۔ 11۔ کھلی چھٹی نمبر ۱،۲۔

مرزائی مناظر غلام رسول آف راجیکی نے ایک رسالہ بنام ’’چھٹی‘‘ لکھا ہے مولانا سیالکوٹی نےاس رسالہ کے جواب میں دو رسائل بنام ’’کھلی چھٹی نمبر ۱،۲ تحریر فرمائے اور مرزائی مصنف کے دلائل کا دندان شکن جواب دیا۔

12۔ ختم نبوت

اس رسالہ میں قرآن و حدیث، آثار صحابہ و اقوال تابعین و آئمہ کرام مسئلہ ختم نبوت پر بڑے عمدہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

13۔ آئینہ قادیانیت

یہ رسالہ بھی قادیانی عقائد کی تردید میں ہے۔

14۔ مرقع قادیانی

اس رسالہ میں بھی قادیانی خرافات کا جواب دیا گیا ہے۔

15۔ فیصلہ ربانی برمرگ قادیانی

یہ رسالہ پنجابی نظم میں ہے اور اس میں قادیانی عقائد کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

16 رحلت قادیانی بمرگ ناگہانی

اس رسالہ میں مرزا قادیانی کی موت جس عبرت ناک حالات میں ہوئی اس کو تفصیل سے بتایا ہے۔

17۔ تردید مفادات مرزائیہ

اس رسالہ میں جیساکہ نام سے ظاہر ہے اس میں مرزائیوں کے پیدا کردہ بعض مفاسلوں کی تردید کی گئی ہے۔

18۔ قادیانی حلف کی حقیقت

اس رسالہ کا موضوع اس کے نام سے ظاہر ہے۔

19۔ مرزا قادیانی کا آخری فیصلہ

مرزا قادیانی نے 15 اپریل 1907 ؁ء کو شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کے نام ایک اشتہار شائع کیا جس کا عنوان تھا ’’مولوی ثناءاللہ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ اس اشتہار میں قادیانی کذاب نے یہ دعا کی تھی کہ:

جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے۔

اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ قادیانی کذاب 25 مئی 1908   ؁ء کو واصل جہنم ہوا اور شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ نے 15 مارچ 1948 ؁ء کو رحلت فرمائی۔ مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے مرزا قادیانی کی موت پر فرمایا:

کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا

ؕنامرادی میں ہوا اس کا آنا جانا

مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ نے اپنے اس رسالہ میں اس آخری فیصلہ کی تفصیل بیان کی ہے۔

20۔ کشف الحقائق یعنی روداد مناظرات قادیانیہ

یہ کتاب اس مناظرہ کی روداد ہےجو قادیانیوں اور اہلحدیث کے مابین ماہ جون 1933 ؁ء کو سیالکوٹ میں ہوا تھا: اس کتاب میں فریقین کے دلائل جمع کئے گئے ہیں۔

21۔ قادیانی مذہب مع ضمیمہ خلاصہ مسائل قادیانیہ

اس رسالہ میں قادیانی عقائد پر بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ایسا فضول اور مچر مذہب کوئی ذی ہوش انسان اختیار نہیں کر سکتا۔

Read more...

قادیانیت اک ناسور

18 Aug,2019

فتنہ قادیانیت تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ارتدادی فتنہ ہے ۔ قادیانیوں کے کفروارتداد کے بارے میں ابتداء سے آج تک عالم اسلام کے علماء و مفتیان کرام ایک ہی نظریہ رکھتے آئے ہیں ،لیکن اس کے باوجود قادیانی کمال ڈھٹائی سے اپنے عقائد کفریہ کو اسلام ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔اس سلسلہ میں کبھی تو قرآن و حدیث میں تحریف کرتے ہیں ،کبھی اسلامی عقائد پر عقلی شبہات پیدا کرتے ہیں،کبھی قادیانیت سے ناواقفیت رکھنے والے سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اپنے ظاہری اعمال رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم بھی کلمہ اسلام پڑھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ،مساجد تعمیر کرواتے ہیں ،قرآن و حدیث کو مانتے ہیںاور بڑے بڑے رفاہی کام بھی کرواتے ہیں ،پھر ہم کا فر کیوں ہیں ؟بعض مسلمان ان کے ظاہری اعمال کو دیکھتے ہوئےانہیں بھی مسلمانوں کا فرقہ سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ قادیانیوں کا مسلمانوں سے اسلام کے بہت سے بنیادی عقائد سے انحراف ثابت ہے۔ یہ بات قادیانی بھی جانتے ہیںکہ مرزا قادیانی نے مسیلمہ کذاب کی طرح دعویٰ نبوت کیا ہے اور مسیلمہ کذاب اور اس کے تمام پیروکار بھی کلمہ اسلام پڑھتے تھے ،توحید ، رسالت ، وجود ملائکہ ، قبر ، حشر غرض تمام عقائد کو بھی مانتے تھےاور اذان و اقامت اور مساجد بھی مسلمانوں جیسی تھیں ۔قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز بھی پڑھتے تھےیہاں تک کہ رسول اکرم ﷺکو نبی بھی مانتے تھے ،لیکن ان سب کے باوجود نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے متفقہ طور پر مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں کو کافر و مرتد قرار دے کران کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے 27 ہزار مرتدین کو واصل جہنم کیا تھا ۔مرزا قادیانی کا نبوت و رسالت کا دعویٰ انبیاء علیہم السلام پر فضیلت اور اُن کی توہین ،حرمین شریفین کی توہین ،حرمت جہاد کا اعلان محمد رسول اللہ ہونے کا دعوی ،رسول اللہ ﷺ پر فضیلت اور آپ ﷺکی توہین ،قرآن مجید و احادیثِ نبویہ کی توہین صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم کی توہین امت مسلمہ کی تکفیر،اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات اس کی جملہ صفات کے بارے میں ادنیٰ توہین بھی بدترین کفر ہےجبکہ مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کے بارے میں وہ خرافات تراشی ہیں جو اس کے بدباطن کی عکاسی کرتی ہیں ۔جیسا کہ اس کا کہنا ہے کہ قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہےجس کے بے شمار ہاتھ پیراور ہر ایک عضو کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض اور طول رکھتا ہےاور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں ۔(روحانی خزائن ج 3ص 90)اس عبارت میں مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو تیندوے سے تشبیہ دی ہے ۔جبکہ قرآن کا اعلان ہے :لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌٍ(نہیں ہے اس اللہ کی مثل کوئی شئ)کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں ،پھر اس کے بعد یہ سوال ہو گا کیوں نہیں بولتا ؟کیا (اللہ کی) زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گئی ہے ؟(روحانی خزائن ج 21 ص 312)وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہےوہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا ۔(روحانی خزائن ج 20ص 396)اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی وحدانیت کے دلائل ذکر کیے ہیںاور ہر طرح کے رشتہ سےنا صرف برات کا اعلان کیا ہے بلکہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد وغیرہ کا عقیدہ گھڑااُن کی سخت تردید کی ہے ۔سورۃ اخلاص توحید کے مضامین پر ہی مشتمل ہے لیکن مرزا قادیانی کے توحید باری تعالیٰ کے متعلق کیا نظریات ہیں ملاحظہ فرمائیں !مرزاقادیانی خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے :میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور میں نے یقین کرلیا میں وہی ہوں(روحانی خزائن ج 5 ص546)مرزا قادیانی کہتا ہے ،مجھ پر وحی نازل ہوئی اوراللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِی اے مرزا تو میرے نزدیک میری اولاد کی طرح ہے(تذکرہ ص 345 طبع چہارم)اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِی اے مرزا تو مجھ سے میرے بیٹے کی طرح ہے ۔(تذکرہ طبع چہارم ص422)اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ خدا نے مجھے کہا کہ :ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگاگویا آسمان سے خدا اتر ے گا(روحانی خزائن ج22 ص99)جہاداسلام کا ایک بڑا اہم فریضہ ہے جس پر ثبوت قرآن مجید کی بیسوں آیات اور احادیث رسول ﷺدلیل ہیں ۔ احادیث کے مطابق ”اَلْجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ“ (المعجم الأوسط (5/ 96) جہاد قیامت تک جاری رہے گا ۔ لیکن مرزا قادیانی نے انگریزی حکومت کو طول دلوانے کی غرض سے انگریز کی خوشنودی میں نہ صرف جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ دیابلکہ جہاد کرنے والوں کو غلیظ گالیاں بھی دی ہیں ۔حرمت جہاد پر مرزائی کتب کے چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے ۔ہر وہ شخص جومیری بیعت کرتا ہے اور مجھے مسیح موعود مانتا ہےاسی روز سے اس کو عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعاً حرام ہے ۔(مجموعہ اشتہارات ج3 ص21)میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے‘ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے ۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 19 از مرزا غلام احمد قادیانی)ہم مرزا قادیانی کے پیروکاروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ عقیده ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لئے تاریخ اسلامی کی پہلی جنگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی لله عنہ کے عہد خلافت میں مسيلمه کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی اس جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی الله عنہ اور تابعین رحمہم ا لله کی تعداد باره سو ہے جن میں 700 سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے۔

 

سیدنا حبیب بن زید انصاری رضی لله عنہ کوآپ ﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کے پاس بھیجا، مسیلمہ کذاب نے سیدنا حبیب بن زید انصاری رضی لله عنہ کو کہا  کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺالله کے رسول ہیں ؟سیدنا حبیب رضی لله عنہ نے فرمایا کہ ہاں ... مسیلمہ نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ ) بھی الله کا رسول ہوں؟؟سیدنا حبیب بن زید انصاری رضی لله عنہ نے فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا ....مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا ،وه یہی جواب دیتے رہے .. مسیلمہ  آپ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیب بن زید رضی لله عنہ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کو شہید کردیا گیا.. اس سے اندازه ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالی عنہم مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے اور ہم قادیان کے حواریوں کو باور کرواتے ہیں کہ ہم بھی اسی نبی رحمت کے دیوانے ہیں جن کا حبیب بن زید رضی اللہ عنہ تھا۔"سیدناابو مسلم خولانی رحمہ اللہ جن کا نام عبد بن ثوب ہے اور یہ امت محمدیہ کے وه جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئےا لله نے آگ کواس طرح گلزار بنادیاتھاجیسے سيدنا ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو بنایا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں ہی اسلام قبول کر لیا تھالیکن رسول رحمت ﷺ کی خدمت میں حاضری کاموقع نہیں ملا تھا ۔رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کے جھوٹادعویدار اسود عنسی پیدا ہوا جولوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے پر مجبور کیا کرتا تھا اسی دوران اس نے سیدنا ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پرایمان لانے کی دعوت دی .... سیدنا ابو مسلم رضی لله عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کیا تم محمد کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو ؟سیدنا ابو مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا :ہاں،اس پر اسود عنسی نے آگ دھکائی اور ابو مسلم کو اس خوفناک آگ میں ڈال دیا ، لیکن الله تعالی نے ان کے لئےآگ کو بے اثر کر دیا اور وه اس سے صحیح سلامت نکل آئے. یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء کو اس پر ہیبت سی طاری ہو گئی اسود کے ساتھیوں نے اسے مشوره دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو .ورنہ خطره ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروکاروں کے ایمان میں تزلزل آجائے گا. چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کر دیا گیا ، یمن سے نکل کر آپ مدینہ منوره تشریف لے آئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی لله عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا : الله تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے اس نے امت محمدیہ ﷺکے اس شخص کی زیارت کرنامیرا مقدر ٹھہرایا جس کے ساتھ الله تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا۔ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ’’أَنَا خَاتَمُ النَّبَيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘‘ (المعجم الأوسط (3/ 318) میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ہم اس حدیث مبارک کو دل و جان سے جانتے اور مانتے ہیں اور اگر کسی نے عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگانے کی کوشش کی تو ہم اس عقیدہ کی خاطر دل وجان قربان کرنا بھی جانتے ہیں۔

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!

سکھوں کے سیاسی رہنما رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی کے موقع پر 27 جون کو شاہی قلعہ لاہور فقیر خانہ میوزیم نے تیج فاؤنڈیشن برطانیہ کی معاونت ،حکومت پنجاب کی آشیربادو سرپرستی میں ’’رنجیت سنگھ ‘‘ کا مجسمہ نصب کیا ہے۔ سکھ اور اُن کی غلامی پر فخر کرنے والے اپنے گھروں اور گوردواروں میں رنجیت سنگھ کے مجسمے نصب کر کے اُن کی پوجا پاٹ کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن محمد عربی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ 20 کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری اور اُن کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے عوامی مقامات پر مسلمانوں کے دشمن اور سیدین شہیدین و شہداء بالاکوٹ رحمہم اللہ اجمعین کے قاتل کا مجسمہ نصب کرتا پھرے۔ سکھ دھرم کے بانی گرونانک نے تمام عمر طبقاتی تقسیم کے خلاف گزاری، دھرتی کےتمام انسان برابر ہیں اس فلسفے کا پرچار کرتے رہے۔ انہوں نے جس تحریک کا آغاز کیا اس کا اختتام رنجیت سنگھ کی حکومت کی شکل میں ہوا۔ رنجیت سنگھ نے مسلمانوں کے قتل عام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی،وہ ضدی اور ہٹ دھرم تھا ،اسکے دل کو کوئی چیز بھا جاتی تو اسکے حصول کے لئے جنگیں بھی کرگزرتاتھا ۔سر لیپل ہنری گرفن انیسویں صدی میں برٹش حکومت کی جانب سے ہندوستان میں سفیر اور ایڈمنسٹریٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مؤرخ بھی تھا جس نے1892 میں مشہور کتاب’’رنجیت سنگھ‘‘ بڑی تحقیق کے بعد لکھی تھی جس میں رنجیت سنگھ کی لڑائی و عادات کو بیان کیا ۔اس کتاب میں انہوں نے مہاراجہ کی ایک گھوڑی کی خاطر قبائلی پٹھانوں کے ساتھ جنگ کاذکر کیا ہے ،انہوں نے لکھا ’’ رنجیت سنگھ کے عہد میں پشاور کے صوبیدار سردار محمد خان کے پاس ایک خوبصورت گھوڑی ’’لیلیٰ ‘‘موجود تھی جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی ۔جب رنجیت سنگھ تک اس گھوڑی کا چرچا پہنچا تو اس نے یہ گھوڑی حاصل کرنے کا پیغام بھیجا۔ سردار محمد خان کے انکار پر اس نے اپنے جرنیل سردار بدھ سنگھ سندھانوالہ کو گھوڑی چھین کر لانے کے لیے روانہ کیا۔ ایک خونریز معرکہ کے بعد، سردار بدھ سنگھ کو علم ہوا کہ یہ گھوڑی جنگ میں کام آچکی ہے۔ اس نے لاہور پہنچ کر یہ اطلاع رنجیت سنگھ کو پہنچائی تو پتا چلا کہ یہ اطلاع غلط ہے اور لیلیٰ زندہ ہے۔ اب رنجیت سنگھ نے اپنے شہزادے کھڑک سنگھ کی سرکردگی میں ایک اور لشکر پشاور روانہ کیا اور یار محمد خان کو معزول کر دینے کے احکام جاری کئے۔ یار محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو گھوڑی کو لے کر پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور اپنے بھائی سردار سلطان محمد خان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ اسی دوران سید احمد شہید کا سکھوں اور انگریزوں سے جہاد شروع ہوگیا۔ سکھوں کی فوج کے ایک جرنیل دینورا نے سید احمد شہیداور ان کے ساتھیوں کو دھوکہ دے کہ شہید کرنے کے ساتھ ساتھ سلطان محمد اور یار محمد کو بھی شکست دے دی اور ان سے لیلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ گھوڑی لاہور پہنچائی گئی اور رنجیت سنگھ کو پیش کی گئی۔ رنجیت سنگھ نے اس کے ملنے کی بڑی خوشی منائی۔ اس کا بیان تھا کہ اس گھوڑی کے حصول میں اس کو ساٹھ لاکھ روپیہ اور بارہ ہزار جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔یہ ہے موصوف جن کو آج کے نام نہاد مسلمان ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مگر یہ تو نصیب نصیب کی بات ہے؛ کوئی محمد بن قاسم سے محبت کرتا ہے تو کسی کو راجہ داہر سے پیار ہے، کوئی سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کا چاہنے والا ہے تو کسی کو رنجیت سنگھ جیسا قاتل اور لٹیرا شخص ہیرو نظر آتا ہےبلکہ اغیار کو خوش کرنے کے لیے اسے ہیرو بنادیاگیاہے ۔پاکستان میں مسائل کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے اپنے سے زیادہ غیروں کو خوش رکھا جاتاہے جو کہ اللہ رب العزت کی ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے کیونکہ ان تجربات کے نتیجے میں جگہ جگہ رب کائنات کے احکامات کی خلاف ورزی ہورہی ہے جبکہ اہل حل وعقد کو یادرہنا چاہیے کہ جن سے رب راضی ہوتاہےتو وہاں نعمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں اور جن سے ناراض ہوتاہے وہاں مسائل ، مشکلیں، مصیبتیں اور پریشانیاں خودرو گھاس کی طرح اگتی ہیں۔ ایسے حالات پیدا ہوں تو ر ب العالمین کی طرف رجوع کیا جائے اجتماعی توبہ واستغفار کیاجائے۔ ورنہ رب کی پکڑ بہت سخت ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ فرمائے۔

Read more...

کیا آپ قادیانیوں کو پہنچان سکتے ہیں

14 Oct,2018

مسلمانوں کے درمیان دھوکے سے چھپ کر رہنے والے احمدی / لاہوری قادیانیوں کو پہچاننے کا آسان طریقہ ! خیال رہے کہ 1974 کی پاکستانی آئینی ترمیم اور بعد ازاں 1984 کے امتناع قادیانیت قانونی ایکٹ کی شق 298 اے ، 298 بی اور 298 سی کے تحت قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ دھوکہ دے کر خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے اگر ’’شعائر اسلام‘‘کا استعمال کریں گےتو 3 سال قید کی سزا پاکستانی قانون میں موجود ہےیہاں کچھ ایسی نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں جو مسلمانوں کے بھیس میں چھپ کر رہنے والا قادیانی اکثر و بیشتر اختیار کرتا ہے۔

1 مسلمانوں سےگپ شپ لگانے کے بہانے قادیانی اپنی شناخت کروائے بغیر بات مذہبی امور کی طرف لے جاتا ہےاور یہ باور کروانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے متعلق مندرجہ ذیل عقائد رکھنا کفر،نیزاسلام اور قرآن کےخلاف بھی ہےکہ اللہ نے ان کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا ہےاور کافر ان کو صلیب نہی دے سکےاور وہ قرب قیامت میں واپس آئیں گےاور دجال کو قتل کریں گے.اور قادیانی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کو صلیب پر چڑھایا گیا لیکن وہ زخمی حالت میں فلسطین سے کشمیر ہجرت کر گئے وہاں 120 سال کی عمر میں ان کو موت آئی اور صحیح احادیث میں جو مذکور ہے کہ قیامت سے قبل حضرت عیسٰی ابن مریم نے نازل ہوناہے اس سے مراد یہ کے کہ اس امت میں سے ہی کسی مثیل عیسٰی نے پیدا ہو کر مسیح ابن مریم اور امام مہدی ہونے کا دعوٰی کرنا ہے اور قرآن میں جہاں سیدنا عیسٰی ابن مریم کے متعلق’’توٖفی‘‘ کا لفظ موجود ہے اس سے مراد ان کی موت ہےحالانکہ عربی بولنے اور جاننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ توفی کا مطلب کسی چیز کو پورا پورا قبض کرنا یا ’’پورا پورا لے لینا‘‘ ہوتا ہےاور چو نکہ اللہ نے آپ علیہ السلام کی مکمل توفی کرلی یعنی جسم ، شعور اور روح سمیت آسمان پر اٹھا لیا اس لئے قرآن میں ان کی توفی کا بیان ہے اور احادیث میں ان کے قیامت سے قبل نزول کا بیان اس توفی کی تصدیق کرتا ہے۔

2 علمائے دین سے شدید متنفر کرنے کی کوشش کرنا اور ان کو تمام برائیوں کی جڑ بتاتے ہوئے ملاں یا مولوی کے نام سے پکارتا ہے، فرقہ واریت اور کفر کے فتوؤں پر بات کرنے کے بہانے موضوع کو اقلیتوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوں بشمول قادیانی جماعت جس کو یہ جماعت احمدیہ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ان کی طرف لے جاتا ہے اور یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ کیو نکہ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے

ہیں ویسے ہی انہوں نے جماعت احمدیہ کو اپنے آپس کے

اختلاف کے تحت کافر قرار دے دیا ۔ حالانکہ امت مسلمہ کے تمام مسالک بالاجماع ایک دوسرے کو کافر قرار نہیں دیتے اور فقہہ کے چاروں امام جو گزرے ہیں ، امام احمدبن حنبل ، امام شافعی ، امام مالک اور امام ابو حنیفہ ان میں سے کسی نے دوسرے فقہ کے ماننے والے کو کافر یا اسلام سے خارج قرار نہیں دیااورعقیدہ ختم نبوت کے معاملے میں تمام امت مسلمہ کا اجماع موجود ہے ہمیشہ سے کہ آپ ﷺ کے بعد پیدا ہونے والا ہر مدعی نبوت اور اس کے پیروکار کافر اور اسلام سے خارج ہیں حتی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی ہے کہ جس کسی نے آپ ﷺ کے بعد کسی مدعی نبوت سے اس کی صداقت کا ثبوت طلب یا اس کے کافر ہونے میں ترددکیا تو وہ خود بھی اسلام سے خارج ہوجائے گا۔

3 قادیانی چاندی کی خاص قسم کی انگوٹھی پہنتے ہیں اکثر لاعلم مسلمانوں کے سامنے یا وہاں جہاں ان کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی ان کو پہچان نہیں پائے گا جس پر قرآن کی یہ آیت لکھی ہوتی ہے " أَلَيْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَهُ " جس کا ترجمہ ہے:کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟ یہ انگوٹھی مرزا قادیانی کی سنت کے طور پر پہنتے ہیں کیونکہ مرزا قادیانی بھی ایسی انگوٹھی پہنا کرتا تھا۔

4 قادیانیوں میں ان کے خلیفہ کی تو مکمل داڑھی ہوتی ہے یہ دھوکہ دینے کے لئے کہ وہ شعائر اسلام کی مکمل پابندی کرتا ہے ورنہ قادیانی کیوں کہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس ظاھری وضع قطع کے شعار اور نقل سے بچا جائے جسے ہمارے علمائے دین یا متقی مسلمان اپناتے ہیں جیسے مکمل داڑھی ایک مٹھی بھر ، لیکن قادیانی آپ کو 99٪ فرنچ کٹ داڑھی میں ملے گا یا پھر کلین شیواور ان کے ہاں غیر اعلانیہ حکم کے طور پر کوئی قادیانی جماعتی عہدے دار موجودہ خلیفہ سے لمبی اور گھنی داڑھی نہیں رکھ سکتا اس لئے کبھی سالانہ قادیانی جلسے کے موقع پر بھی ہزاروں قادیانیوں کے بیچ کوئی قادیانی اپنے خلیفہ جیسی،اس کے برابر یا اس سے لمبی داڑھی رکھے نظر نہیں آئے گا.اگرآپ گوگل میں رومن اردو میں "جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ" لکھ کر سرچ کریں گےتواس بات کی تصدیق ہوجائے گی۔

5 قادیانی کبھی مسلمانوں کی طرح مخصوص نماز والی گول ٹوپی نہیں پہنے گا وہ یا تو پٹھانوں کی مخصوص ٹوپی پہنے نظر آئیں گے یا سندھی ٹوپی یا جناح کیپ اس حوالے سے ایک ایسی بات جو کوئی قادیانی آپ کو نہیں بتائے گا وہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت میں ان کے مرتبے یا رتبے کے لحاظ سے سر ڈھانپنے کا رواج ہے مردوں میں ان کا خلیفہ شملہ والی پگڑی پہنتا ہے اور اس کے علاوہ کسی قادیانی کو اس کی موجودگی میں پگڑی پہننے کی اجازت نہیں ہوتی.خلیفہ کے بعد جو اس سے نچلے درجے کے عہدے دار ہیں وہ جناح کیپ کا استعمال کرتے ہیں پینٹ کوٹ یا شلوار قمیض و شیروانی کے ساتھ اور پھر ان سے نچلے عام قادیانی پٹھانوں کی مخصوص ٹوپی پہنتے ہیں یا پھر سندھی ٹوپی میں نظر آتے ہیں۔

6 قادیانی عورتوں کو پہچاننا تو اور بھی آسان ہےیہ بھی اپنے قادیانی مردوں کی طرح مسلمان عورتوں کی ضد میں ڈھیلے ڈھالے برقع کے بجائے عمومی طور پر ٹائٹ برقع پہنتی ہیں جس کی کمر پر اکثر بیلٹ بھی لگی ہوتی ہےتاکہ برقع کی فٹنگ اچھی آئے اس کے علاوہ ان کےبرقع میں ایک لمبی چاک بھی ہو تی ہےاور ان کے نقاب کا طریقہ بھی نرالا ہوتا ہے جس میں نقاب ناک کے نیچے رکھا ہوتا ہے ہونٹوں کے اوپر ڈھلکا ہوا جس سے سوائے لب و رخسار کے سب نظر آتا ہے جو کہ " نہ سامنے آتے ہیں اور نہ چھپاتے ہیں " کے مصداق مسلمان مردوں کو لبھانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

7 قادیانیوں کا ٹی وی چینل ایم ٹی اے (مسلم ٹی وی احمدیہ ) کے نام سے سیٹیلائٹ سے 24 گھنٹے نشر ہوتا ہے جس پر یہ اپنے مذموم کفریہ عقیدے کی کھلم کھلا تبلیغ کرتے ہیں اور دجل پر مبی تعلیم کو "اسلام احمدیت" یعنی احمدیت ہی اصل اسلام ہے، کے نعرے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔قادیانیوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آج کے اس دور میں جب کیبل ٹی وی عام ہے اور ڈش اینٹینا کا استعمال پاکستان میں عام گھریلو صارفین کے لئے متروک و معدوم ہوچلا ہے لیکن اس کے باوجود قادیانی ایم ٹی اے چینل دیکھنے کی غرض سے اپنے گھروں پر ڈش اینٹینا لگاتے ہیں اور جن مسلمانوں پر یہ اپنے دجل و فریب کی طبع آزمائی کرتے ہیں ان کو اکثر تبلیغ کی نیت سے اپنا یہ ٹی وی چینل اپنے گھر یا علاقے کے قادیانی مرکز میں بلا کر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔قادیانیوں کا مشہور چینل "مینارةالمسیح"هے جو کہ قادیان انڈیا میں ہےجس مینارہ کو یہ اپنے ٹی وی چینل پر مسلمانوں کے مقابلے میں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی جگہ دکھا کر اس کو مشتہر کرتے ہیں۔

8 سب سے اہم نشانی یہ کہ قادیانی ناموں کے آغاز میں آپ کو محمد لگا نظر نہیں آئے گا اور ناہی کوئی پیدائشی قادیانی آپ کو اس طرح کا خالص اسلامی نام رکھے نظر آئے گا جیسے کہ عبداللہ ، مصطفٰی ، عبدالرشید ، عبدالقیوم ، جب کہ ان کے ناموں کے اختتام میں احمد لگا ہوا پایا جاتا ہے جو مرزا قادیانی کے نام کا بھی حصہ تھا اور قادیانی قرآن میں بیان ہونے والے آقا ﷺ کے مخصوص نام احمد سے مراد مرزا قادیانی کی ذات ہی لیتے ہیں ۔ (معاذ اللہ)

9یاد رہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں پائے جانے والے زیادہ تر قادیانی پنجابی زبان بولنے والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ مرزا قادیانی کا تعلق بھی تقسیم ہندوستان سے قبل قادیان ضلع "گورداسپور" پنجاب سے تھا اس لئے ان کی تبلیغ کا زیادہ اور مرکزی دائرہ اثر بھی تقسیم سے قبل اور بعد میں بھی پنجاب ہی رہا جہاں موجود سادہ لوح دیہاتی ملنسار ماحول میں ان کے فتنے کا شکار ہو سکے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے نسل در نسل.یہ کچھ نشانیاں لکھ دی ہیں قادیانیوں کی امید ہے پڑھنے والے اس کو ضرور یاد رکھیں گے اور آگے بھی اس کی تبلیغ ضرور کریں گے تاکہ مسلمان اس قادیانی فتنے سے محفوظ رہیں اور اپنا ایمان سلامت رکھیں ۔

۔۔۔

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول